تعلیم اور تعلم کی فضیلت و تکریم

علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں

اَلْعُلْمَاءُ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ وَالْأَنْبِيَاءُ قَدْ تَعَلَّمُوا مِنَ اللہِ

اَلْقُرْآن

  1. لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰـتِهِ وَيُزَکِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ ج وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰـلٍ مُّبِيْنٍo

(آل عمران، 3/ 164)

بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

  1. وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْکَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّتْ طَّآءِفَةٌ مِّنْهُمْ اَنْ يُضِلُّوْکَط وَمَا يُضِلُّونَ اِلَّا اَنْفُسَهُمْ وَمَا يَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَيْئٍط وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُط وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَيْکَ عَظِيْمًاo

(النساء، 4/ 113)

اور (اے حبیب!) اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ان (دغابازوں) میں سے ایک گروہ یہ ارادہ کر چکا تھا کہ آپ کو بہکا دیں، جبکہ وہ محض اپنے آپ کو ہی گمراہ کر رہے ہیں اور آپ کا تو کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتے، اوراللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔

  1. وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهُٓ اٰتَيْنٰهُ حُکْمًا وَّعِلْمًا ط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِيْنَo

(يوسف، 12/ 22)

اور جب وہ اپنے کمالِ شباب کو پہنچ گیا (تو) ہم نے اسے حکمِ (نبوت) اور علم (تعبیر)عطا فرمایا، اور اسی طرح ہم نیکو کاروں کو صلہ بخشا کرتے ہیں۔

  1. وَلَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَيْثُ اَمَرَهُمْ اَبُوْهُمْط مَا کَانَ يُغْنِيْ عَنْهُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ شَيْئٍ اِلَّا حَاجَةً فِيْ نَفْسِ يَعْقُوْبَ قَضٰهَا ط وَاِنَّهُ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰهُ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَo

(يوسف، 12/ 68)

اور جب وہ (مصر میں) داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا، وہ (حکم) انہیں اللہ (کی تقدیر) سے کچھ نہیں بچا سکتا تھا مگر یہ یعقوب( علیہ السلام ) کے دل کی ایک خواہش تھی جسے اس نے پورا کیا، اور (اس خواہش و تدبیر کو لغو بھی نہ سمجھنا تمہیں کیا خبر) بیشک یعقوب( علیہ السلام ) صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علمِ (خاص) سے نوازا تھا مگر اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے۔

  1. فَبَدَاَ بِاَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِيْهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِّعَآءِ اَخِيْهِ ط کَذٰلِکَ کِدْنَا لِيُوْسُفَ ط مَا کَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ يَشَآءَ اللہُ ط نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّنْ نَّشَآءُ ط وَفَوْقَ کُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌo

(يوسف، 12/ 76)

پس یوسف( علیہ السلام ) نے اپنے بھائی کی بوری سے پہلے ان کی بوریوں کی تلاشی شروع کی پھر (بالآخر) اس (پیالے) کو اپنے (سگے) بھائی (بنیامین) کی بوری سے نکال لیا۔ یوں ہم نے یوسف( علیہ السلام ) کو تدبیر بتائی۔ وہ اپنے بھائی کو بادشاہ (مصر) کے قانون کی رو سے (اسیر بنا کر) نہیں رکھ سکتے تھے مگر یہ کہ (جیسے) اللہ چاہے۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں، اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے۔

  1. فَتَعٰلَی اللہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ ج وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُقْضٰٓی اِلَيْکَ وَحْيُهُ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًاo

(طٰه، 20/ 114)

پس اللہ بلند شان والا ہے وہی بادشاہِ حقیقی ہے، اور آپ قرآن (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کریں قبل اس کے کہ اس کی وحی آپ پر پوری اتر جائے، اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میںاور بڑھا دے۔

  1. وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاؤدَ وَسُلَيْمٰنَ عِلْمًا ج وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ فَضَّلَنَا عَلَی کَثِيْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤمِنِيْنَo

(النمل، 27/ 15)

اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو (غیر معمولی) علم عطا کیا، اور دونوں نے کہا کہ ساری تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے۔

  1. وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهُ کَذٰلِکَ ط اِنَّمَا يَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا ط اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌo

(الفاطر، 35/ 28)

اور انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی اسی طرح مختلف رنگ ہیں، بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں، یقینا اللہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔

  1. اَلرَّحْمٰنُo عَلَّمَ الْقُرْاٰنَo خَلَقَ الْاِنْسَانَo عَلَّمَهُ الْبَيَانَo

(الرحمٰن، 55/ 1-4)

(وہ) رحمن ہی ہے۔ جس نے (خود رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) قرآن سکھایا۔ اُسی نے (اِس کامل) انسان کو پیدا فرمایاo اسی نے اِسے (یعنی نبیِّ برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماکان و ما یکون کا) بیان سکھایا۔

اَلْحَدِيْثُ

  1. عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَثَلُ مَا بَعَثَنِيَ اللہُ بِهِ مِنَ الْهُدٰی وَالْعِلْمِ کَمَثَلِ الْغَيْثِ الْکَثِيْرِ أَصَابَ أَرْضًا۔ فَکَانَ مِنْهَا نَقِيَةٌ قَبِلَتِ الْمَاءَ فَأَنْبَتَتِ الْکَلَأَ وَالْعُشْبَ الْکَثِيْرَ. وَکَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَکَتِ الْمَاءَ. فَنَفَعَ اللہُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوْا وَسَقَوْا وَزَرَعُوْا. وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَاءِفَةً أُخْرٰی. إِنَّمَا هِيَ قِيْعَانٌ لَا تُمْسِکُ مَائً وَلَا تُنْبِتُ کَلَأً. فَذٰلِکَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِيْنِ اللہِ وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِيَ اللہُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذٰلِکَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَی اللہِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب فضل من علم وعلّم، ا/ 42، الرقم/ 79، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب بيان مثل ما بعث النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الهدی والعلم، الرقم/ 2282، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 399، الرقم/ 19588، والبزار في المسند، 8/ 149، الرقم/ 3169، والنسائي في السنن الکبری، 3/ 427، الرقم/ 5843، وأبو يعلی في المسند، 13/ 295، 296، الرقم/ 7311، وابن حبان في الصحيح، 1/ 177، الرقم/ 4.

حضرت ابو موسيٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعاليٰ نے مجھے جس ہدایت اور علم کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اس کی مثال اُس کثیر بارش کی طرح ہے جو کسی زمین پر برسی۔ جو عمدہ زمین تھی۔ اس نے پانی کو جذب کر کے گھاس اور خوب سبزہ اگایا، اور زمین کے جو حصے سخت تھے انہوں نے پانی کو (جذب ہونے سے) روک لیا۔ پس اللہ تعاليٰ نے اس سے لوگوں کو نفع سے نوازا کہ وہ اس سے پیتے (اور اپنے جانوروں کو) پلاتے ہیں اور کاشت کاری کرتے ہیں۔ یہی (بارش کا پانی جب) کسی چٹیل میدان پر پڑتا ہے تو نہ وہ اسے روکتا ہے کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں اور نہ ہی اپنے اندر جذب کرکے گھاس اور سبزہ اُگانے کا سبب بنتا ہے۔ یہ (پہلی) مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ تعاليٰ کے دین میںعلم وفہم حاصل کیا اور اس (ہدایت) سے نفع حاصل کیا جس کے ساتھ اللہ تعاليٰ نے مجھے مبعوث کیا۔ یعنی اس نے (اسے) سیکھا اور سکھلایا۔ اور (دوسری) مثال اس (محرومِ ہدایت) شخص کی ہے جس نے (اس ہدایت کے نزول پر اپنا) سر اٹھا کر دیکھا اور نہ اللہ تعاليٰ کی اس ہدایت کو قبول کیا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا (نہ خود فائدہ اٹھایا اور نہ کسی کو اس سے فائدہ پہنچایا)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

  1. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ سَلَکَ طَرِيْقًا يَبْتَغِي فِيْهِ عِلْمًا سَلَکَ اللہُ لَهُ طَرِيْقًا إِلَی الْجَنَّةِ. وَإِنَّ الْمَـلَاءِکَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضَاءً لِطَالِبِ الْعِلْمِ. وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ حَتَّی الْحِيْتَانُ فِي الْمَاءِ. وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقََمَرِ عَلَی سَاءِرِ الْکَوَاکِبِ. إِنَّ الْعُلْمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ. إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوْا دِيْنَارًا، وَلَا دِرْهَمًا. إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ. فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ.

رَوَاهُ أَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه وَأَبُوْحَنِيْفَةَ.

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، 3/ 317، الرقم/ 3641، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في فضل الفقه علی العبادة، 5/ 48، الرقم/ 2682، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1/ 81، الرقم/ 223، وأبوحنيفة في المسند، 1/ 57، والدارمي في السنن، 1/ 110، الرقم/ 342، والطبراني في مسند الشاميين، 2/ 224، الرقم/ 1231، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/ 262، الرقم/ 1696-1697، والديلمي في مسند الفردوس 3/ 74.

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو آدمی طلبِ علم میں کسی راستہ پر چلتا ہے تو اللہتعاليٰ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالبِ علم کی رضا کے لئے اس کے پؤں تلے اپنے پر بچھاتے ہیں۔ عالم کیلئے زمین و آسمان کی ہر چیز یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی مغفرت طلب کرتی ہیں۔ عابد پر عالم کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے۔ بے شک علماء، انبیاء کرام f کے وارث ہیں۔ انبیاء کرام fنے وارثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ انہوں نے اپنی میراثِ علم چھوڑی۔ پس جس نے اس (میراثِ علم) کو حاصل کیا اس نے (پیغمبرانہ میراث کا) بہت بڑا حصہ پالیا۔

اس حدیث کو امام ابوداود،ـ ترمذی، ابن ماجہ اور ابوحنیفہ نے روایت کیا ہے۔ اور یہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضی الله عنه قَالَ: ذُکِرَ لِرَسُوْلِ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم رَجُلَانِ: أَحَدُهُمَا عَابِدٌ وَالْآخَرُ عَالِمٌ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِي عَلَی أَدْنَاکُم. ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ اللہَ وَمَلَاءِکَتَهُ وَأَهْلَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِيْنَ حَتَّی النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّی الْحُوْتَ لَيُصَلُّوْنَ عَلٰی مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في فضل الفقه علی العبادة، 5/ 50، الرقم/ 2685، والدارمي في السنن، 1/ 100، الرقم/ 289، والطبراني في المعجم الکبير، 8/ 233، الرقم/ 7911، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 56، الرقم/ 130، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 184، الرقم/ 39، والحسيني في البيان والتعريف، 2/ 120، الرقم/ 1243.

حضرت ابو اُمامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عابد پر عالم کی فضیلت اسی طرح ہے جس طرح میری فضیلت تم میں سے ایک ادنيٰ پر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعاليٰ، اس کے فرشتے، (تمام) زمین و آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلیاںبھی اس شخص کے لئے جو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے رحمت طلب کرتی ہیں۔

اسے امام ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ مَثَلَ الْعُلَمَاءِ فِي الْأَرْضِ کَمَثَلِ النُّجُوْمِ فِي السَّمَاءِ يُهْتَدَی بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ. فَإِذَا انْطَمَسَتِ النُّجُوْمُ أَوْشَکَ أَنْ تَضِلَّ الْهُدَاةُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 157، الرقم/ 12621، والديلمي في مسند الفردوس، 4/ 134، الرقم/ 6418، وذکره ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 343، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 56، الرقم/ 128، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 121، 122.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علمائے حق زمین میں ان ستاروں کی طرح ہیں جن کے ذریعے بحر و بر کے اندھیروں میں راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ جب ستارے غروب ہو جائیں گے تو یقیناً ان (ستاروں) سے راہنمائی حاصل کرنے والے بھٹک جائیں گے۔ (یعنی علماء حق نہیں ہوں گے تو عوام گمراہ ہو جائیں گے)۔

اس حدیث کو امام احمد اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما، قَالَ: أَقْرَبُ النَّاسِ مِنْ دَرَجَةِ النُّبُوَّةِ، أَهْلُ الْعِلْمِ والْجِهَادِ.

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ وَذَکَرَهُ الْغَزَالِيُّ وَالْهِنْدِيُّ وَالسَّخَاوِيُّ.

أخرجه الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 1/ 148، والغزالي في إحياء علوم الدين، 1/ 6، والهندي في کنز العمال، 4/ 133، الرقم/ 10647، والسخاوي في المقاصد الحسنة، 1/ 459.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: درجہ نبوت سے قریب تر لوگ، اہلِ علم اور اہلِ جہاد ہیں۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے اور امام غزالی، ہندی اور سخاوی نے بیان کیا ہے۔

قَالَ سَهْلٌ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللہِ التُّسْتَرِيَّ: مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلٰی مَجَالِسِ الْأَنْبِيَاءِ، فَلْيَنْظُرْ إِلٰی مَجَالِسِ الْعُلَمَاءِ.

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ.

أخرجه الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 1/ 194، والشهرزوي في أدب المفتي والمستفتي/ 74.

حضرت سہل بن عبد اللہ تستری بیان کرتے ہیں: جو شخص مجالسِ اَنبیاء کو دیکھنا چاہتا ہے، وہ مجالسِ علماء کو دیکھ لیا کرے۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved