تعلیم اور تعلم کی فضیلت و تکریم

اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی گہری سمجھ عطا کر دیتا ہے

مَنْ يُرِدِ اللہُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ

اَلْقُرْآن

  1. هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْکَ الْکِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ط فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِيْـلِهِ ج وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهُٓ اِلاَّ اللہُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهِ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ج وَمَا يَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِo

(آل عمران، 3/ 7)

وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیراثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے۔

  1. وَمَا کَانَ الْمُؤمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا کَآفَّةً ط فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآءِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَo

(التوبة، 9/ 122)

اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔

  1. فَمَنْ يُرِدِ اللہُ اَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْاِسْلَامِ ج وَمَنْ يُرِدْ اَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ ط کَذٰلِکَ يَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِيْنَ لَا يُؤمِنُوْنَo

(الأنعام، 6/ 125)

پس اللہ جس کسی کو (فضلاً) ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کسی کو (عدلاً اس کی اپنی خرید کردہ) گمراہی پر ہی رکھنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ (ایسی) شدید گھٹن کے ساتھ تنگ کر دیتا ہے گویا وہ بمشکل آسمان (یعنی بلندی) پر چڑھ رہا ہو اسی طرح اللہ ان لوگوں پر عذابِ (ذّلت) واقع فرماتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔

  1. أََفَمَنْ شَرَحَ اللہُ صَدْرَهُ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهِ ط فَوَيْلٌ لِّلْقٰسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللہِ ط اُولٰٓئِکَ فِيْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍo

(الزمر، 39/ 22)

بھلا، اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہوجاتا ہے، (اس کے برعکس) پس اُن لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہوکر) سخت ہوگئے، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔

اَلْحَدِيْثُ

  1. عَنْ مُعَاوِيَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَن يُرِدِ اللہُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ. وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ يُعْطِي.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب من يرد اللہِ به خيرا يفقّهه في الدين، 1/ 39، الرقم/ 71، وفي کتاب فرض الخمس، باب قول اللہِ تعالی فأن ﷲ خمسه وللرسول، 3/ 1134، الرقم/ 2948، وفي کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب قول النبی صلی الله عليه وآله وسلم لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علی الحق وهم أهل العلم، 6/ 2667، الرقم/ 6882، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب النهي عن المسألة، 2/ 718، الرقم/ 1037، وبعضه في کتاب الإمارة، باب قوله لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علی الحق لا يضرهم من خالفهم، 3/ 1524، الرقم/ 1037.

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعاليٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی گہری سمجھ عطا فرما دیتا ہے، اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ عطا اللہ تعاليٰ کرتا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عَبْدِ اللہِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِذَا أَرَادَ اللہُ بِعَبْدٍ خَيْرًا، فَقَّهَهُ فِي الدِّيْنِ وَأَلْهَمَهُ رُشْدَهُ.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ.

أخرجه البزار في المسند، 5/ 117، الرقم/ 1700، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 242، الرقم/ 934، وذکره المنذري في الترغيب والترھيب، 1/ 50، الرقم/ 101، وقال: رواه البزار والطبراني بإسناد لا بأس به، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 121، وقال: رواه البزار والطبراني في الکبير ورجاله موثّقون.

ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعاليٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتا ہے اور اسے اپنی ہدایت الہام فرما دیتا ہے۔

اسے امام بزار نے روایت کیا۔

  1. عَنْ مُعَاوِيَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ. مَنْ يُرِدِ اللہُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَمَالِکٌ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 92، الرقم/ 16885، مالک في الموطأ، 2/ 900، الرقم/ 1599، والطبراني في المعجم الکبير، 19/ 339، الرقم/ 784، والربيع في المسند، 1/ 31، الرقم/ 26.

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! جوکچھ تو عطا کرنا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو کچھ تو روکنا چاہے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور کسی دولت مند کی دولت و امارت اس کو تیری بارگاہ میں نفع نہیں پہنچا سکتی (بلکہ تیرا فضل و رحمت اور عملِ صالح ہی موجبِ نجات ہے)۔ اللہ تعاليٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین میں تفقہ (سمجھ بوجھ) عطا فرما دیتا ہے۔

اسے امام احمد اور مالک نے روایت کیا۔

  1. عَنْ مُعَاوِيَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: يَاأَيُهَا النَّاسُ، إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ وَالْفِقْهُ بِالتَّفَقُّهِ. وَمَنْ يُرِدِ اللہُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ. وَإِنَّمَا يَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 19/ 395، الرقم/ 929، وفي مسند الشاميين، 1/ 431، الرقم/ 758، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 50، الرقم/ 100، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 128.

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! علم سیکھنے سے ہی آتا ہے اور دین کا فہم غور و فکر کے ذریعے۔ اللہ تعاليٰ جس بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی گہری سمجھ عطا فرمادیتا ہے اور اللہ تعاليٰ سے اس کے بندوں میں سے جو ڈرتے ہیں وہ علماء ہی ہیں۔

اسے امام طبرانی نے روایت کیا۔

وَفِي رِوَايَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَا اکْتَسَبَ مُکْتَسِبٌ مِثْلَ فَضْلِ عِلْمٍ يَهْدِي صَاحِبَهُ إِلٰی هُدًی أَوْ يَرُدُّهُ عَنْ رَدًی. وَلَا اسْتَقَامَ دِيْنُهُ حَتّٰی يَسْتَقِيْمَ عِلْمُهُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5/ 79، الرقم/ 4726، وأيضا في المعجم الصغير، 2/ 5، الرقم/ 676، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 53، الرقم/ 114، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 121.

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی کمانے والے نے اس علم کی فضیلت کے برابر کوئی کمائی نہیں کی جو صاحبِ علم کو ہدایت کی طرف رہنمائی کرے یا اسے ہلاکت کے کاموں سے روکے۔ جب تک انسان کا عمل درست نہ ہو اس کا دین درست نہیں ہوتا (اور عمل بغیر علم کے درست نہیں ہوتا)۔

اسے امام طبرانی نے روایت کیا۔

  1. عَنْ عبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنهما عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: قَلِيْلُ الْفِقْهِ خَيْرٌ مِنْ کَثِيْرِ الْعِبَادَةِ. وَکَفَی بِالْمَرْءِ فِقْهًا إِذَا عَبَدَ اللہَ، وَکَفَی بِالْمَرْءِ جَهْلًا إِذَا أُعْجِبَ بِرَأْيِهِ. إِنَّمَا النَّاسُ رَجُـلَانِ مُؤمِنٌ وَجَاهِلٌ. فَـلَا تُوْذِ الْمُؤمِنَ وَلَا تُجَاوِرِ الْجَاهِلَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 8/ 302، الرقم/ 8698، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 265، الرقم/ 1705، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 5/ 174، وأبو الحسين في معجم الشيوخ، 1/ 368، الرقم/ 358، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 120.

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دین کی تھوڑی سمجھ بوجھ رکھنے والا کثرت سے عبادت کرنے والے (مگر دین کی سمجھ بوجھ نہ رکھنے والے) سے بہتر ہے۔ آدمی کو اتنی فقہ بھی کافی ہے کہ وہ اللہ تعاليٰ کی عبادت (شرعی تقاضوں کے مطابق) کرتا ہو۔ اور آدمی کی جہالت (کے ثبوت) کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ اپنی رائے پر غرور کرتا ہو۔ لوگوں کی دو قسمیں ہیں: مومن اور جاہل۔ مومن کو اذیت نہ دو اور جاہل کی قربت اختیار نہ کرو۔

اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: يَسِيْرُ الْفِقْهِ خَيْرٌ مِنْ کَثِیرِ الْعِبَادَةِ، وَخَيْرُ أَعْمَالِکُمْ أَيْسَرُهَا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَالْخَطِيْبُ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1/ 135، الرقم/ 286، والديلمي في مسند الفردوس، 5/ 488، الرقم/ 8847، والخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 1/ 98، والدمياطي في إعانة الطالبين/ 15، وابن القيم في مفتاح دار السعادة/ 118، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 120.

حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تھوڑی سی فقہ (یعنی دین کی قلیل سمجھ بوجھ کا حصول) کثیر عبادت سے بہتر ہے، اور تمہارے اعمال میں سے بہترین وہ ہے جو ان میں سے زیادہ آسان ہو۔

اسے امام طبرانی، دیلمی اور خطیب نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: لَا خَيْرَ فِي قِرَائَةٍ إِلَّا بِتَدَبُّرٍ، وَلَا عِبَادَةَ إِلَّا بِفِقْهٍ، وَمَجْلِسُ فِقْهٍ خَيْرٌ مِنْ عِبَادَةِ سِتِّيْنَ سَنَةً.

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ.

أخرجه الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 1/ 97، والدمياطي في إعانة الطالبين/ 15، وابن القيم في مفتاح دار السعادة، 1/ 118.

حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تدبر (اور غور و فکر) کے بغیر تلاوت میں کوئی بھلائی نہیں ہے، نہ ہی دین میں سمجھ بوجھ کے بغیر کوئی عبادت ہے اور فقہ کی ایک مجلس ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

اِسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الأَئِمَّةِ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِيْنَ

قَالَ سَعِيْدُ بْنُ الْمُسَيَبِ: لَيْسَتْ عِبَادَةُ اللہِ بِالصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ وَلٰـکِنْ بِالْفِقْهِ فِي دِيْنِهِ.

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ وَذَکَرَهُ ابْنُ الْقَيَمِ.

أخرجه الخطيب البغدادي، الفقيه والمتفقه، 1/ 118، وابن القيم، مفتاح دار السعادة، 1/ 118.

حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں: اللہ تعاليٰ کی عبادت (محض) نماز اور روزے سے نہیں ہوتی، بلکہ اصل عبادت دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنا ہے۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے اور ابن القیم نے بھی بیان کیا ہے۔

عَنْ مَلِيْحِ بْنِ وَکِيْعٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا يَسْأَلُ أَبَا حَنِيْفَةَ: بِمَ يُسْتَعَانُ عَلَی الْفِقْهِ حَتّٰی يُحْفَظَ؟ قَالَ: بِجَمْعِ الْهَمِّ. قَالَ: قُلْتُ: وَبِمَ يُسْتَعَانُ عَلٰی حَذْفِ الْعَلَاءِقِ؟ قَالَ: بِأَخْذِ الشَّيْءِ عِنْدَ الْحَاجَةِ وَلَا تَزِدْ.

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ.

أخرجه الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 2/ 184.

حضرت ملیح بن وکیع بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ سے ایک بندے کو سوال کرتے ہوئے سنا: فقہ کے لیے کس چیز سے مدد حاصل کی جائے کہ وہ یاد ہو جائے؟ آپ نے فرمایا: پختہ ارادہ کے ساتھ۔ آپ بیان کرتے ہیں: میں نے پوچھا: علائقِ نفسانی کو کیسے ختم کیا جائے؟ اُنہوں نے فرمایا: ضرورت کے مطابق چیز کو لو اور اضافے کے طلب گار نہ بنو۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

قَالَ مَکْحُوْلٌ: مَا عَبِدَ اللہُ بِأَفْضَلَ مِنَ الْفِقْهِ.

ذَکَرَهُ ابْنُ الْقَيَمِ.

ابن القيم، مفتاح دار السعادة، 1/ 118.

حضرت مکحول فرماتے ہیں: فقہ (دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے) سے بڑھ کر اللہ تعاليٰ کی کوئی عبادت نہیں ہے۔

اسے علامہ ابن القیم نے بیان کیا ہے۔

عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: مَا عُبِدَ اللہُ بِمِثْلِ الْفِقْهِ.

رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ حَيَانَ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.

أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 11/ 256، الرقم/ 20479، وابن حيان في الثقات، 7/ 141، الرقم/ 9372، وابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1/ 24.

امام زہری فرماتے ہیں: اللہ تعاليٰ کی عبادت جس طرح فقہ (دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے) سے ہوتی ہے کسی اور کام سے نہیں ہوتی۔

اِسے امام عبد الرزاق، ابن حیان اور ابن عبد البر نے بیان کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved