تعلیم اور تعلم کی فضیلت و تکریم

علم اور علماء کی فضیلت

فَضِيْلَةُ الْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ

اَلْقُرْآن

  1. وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَةِ فَقَالَ اَنْبِؤُنِيْ بِاَسْمَآءِ هٰٓؤُلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo قَـالُوْا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَکِيْمُo قَالَ يٰـاٰدَمُ اَنْبِئْهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ ج فَـلَمَّا اَنْبَاَهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّـکُمْ اِنِّيْٓ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لا وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَo

(البقرة، 2/ 31-33)

اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اَشیاء کے) نام سکھا دیئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو۔ فرشتوں نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، بیشک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے۔ اللہ نے فرمایا: اے آدم! (اب تم) انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرو، پس جب آدم( علیہ السلام ) نے انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا تو (اللہ نے) فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔

  1. وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ اِنَّ اللہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا ط قَالُوْآ اَنّٰی يَکُوْنُ لَهُ الْمُلْکُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ط قَالَ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰهُ عَلَيْکُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ط وَاللہُ يُؤ تِيْ مُلْکَهُ مَنْ يَشَآءُ ط وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌo

(البقرة، 2/ 247)

اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا: بیشک اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرّر فرمایا ہے، تو کہنے لگے کہ اسے ہم پر حکمرانی کیسے مل گئی حالانکہ ہم اس سے حکومت (کرنے) کے زیادہ حق دار ہیں اسے تو دولت کی فراوانی بھی نہیں دی گئی، (نبی نے) فرمایا: بیشک اللہ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے، اور اللہ اپنی سلطنت (کی امانت) جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔

  1. شَهِدَ اللہُ اَنَّهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَالْمَلٰٓئِکَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًام بِالْقِسْطِ ط لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُo

(آل عمران، 3/ 18)

اللہ نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے، اس کے سوا کوئی لائقِ پرستش نہیں وہی غالب حکمت والا ہے۔

  1. وَلَقَدْ جِئْنٰهُم بِکِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰی عِلْمٍ هُدًی وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤمِنُوْنَo

(الأعراف، 7/ 52)

اور بیشک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل(یعنی واضح) کیا وہ ایمان والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔

  1. قُلْ اٰمِنُواْ بِهِ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا ط اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ اِذَا يُتْلٰی عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِـلْاَذْقَانِ سُجَّدًاo

(بني اسرائيل، 17/ 107)

فرما دیجئے: تم اس پر ایمان لاؤ یا ایمان نہ لاؤ، بیشک جن لوگوں کو اس سے قبل علمِ (کتاب) عطا کیا گیا تھا جب یہ (قرآن) انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔

  1. قَالَ الَّذِيْ عِنْدَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِيْکَ بِهِ قَبْلَ اَنْ يَرْتَدَّ اِلَيْکَ طَرْفُکَ ط فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ قف لِيَبْلُوَنِيْ ءَاَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ ط وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا يَشْکُرُ لِنَفْسِهِ ج وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّيْ غَنِیٌّ کَرِيْمٌo

(النمل، 27/ 40)

(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کاکچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکر گزاری کرتا ہوں یا نا شکری، اور جس نے (اللہ کا) شکر ادا کیا سو وہ محض اپنی ہی ذات کے فائدہ کے لئے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بیشک میرا رب بے نیاز، کرم فرمانے والا ہے۔

  1. وَقَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوْا الْعِلْمَ وَيْلَکُمْ ثَوَابُ اللہِ خَيْرٌ لِّمَنْ اٰمََنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ج وَلَا يُلَقّٰهَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَo

(القصص، 28/ 80)

اور (دوسری طرف) وہ لوگ جنہیں علمِ (حق) دیاگیا تھا بول اٹھے تم پر افسوس ہے اللہ کا ثواب اس شخص کے لئے (اس دولت و زینت سے کہیں زیادہ) بہتر ہے جو ایمان لایا ہو اور نیک عمل کرتا ہو مگر یہ (اجر و ثواب) صبر کرنے والوں کے سوا کسی کو عطا نہیں کیا جائے گا۔

  1. اِنَّمَا يَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا ط اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌo

(الفاطر، 35/ 28)

بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں، یقینا اللہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔

  1. قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ط اِنَّمَا يَتَذَکَّرُ اُولُو الْاَلْبَابِo

(الزمر، 39/ 9)

فرما دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔ بس نصیحت تو عقلمند لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔

  1. يٰاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِيْ الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللہُ لَکُمْ ج وَاِذَا قِيْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا يَرْفَعِ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ لا وَالَّذِيْنَ اُوْتُو الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ط وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌo

(المجادله، 58/ 11)

اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ (اپنی) مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادہ ہوجایا کرو اللہ تمہیں کشادگی عطا فرمائے گا اور جب کہا جائے کھڑے ہوجاؤ تو تم کھڑے ہوجایاکرو، اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرمادے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے۔

  1. اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍo اِقْرَاْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُo الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْo

(العلق، 96/ 1-5)

(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

اَلْحَدِيْثُ

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: وَمَنْ سَلَکَ طَرِيْقًا يَلْتَمِسُ فِيْهِ عِلْمًا سَهَلَ اللہُ لَهُ طَرِيْقًا إِلَی الْجَنَّةِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الذکر والدعاء والتوبة والإستغفار، باب فضل الإجتماع علی تلاوة القرآن وعلی الذکر، 4/ 2074، الرقم/ 2699، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 325، الرقم/ 8299، وأبو داود في السنن، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، 3/ 317، الرقم/ 3643، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم، 5/ 28، الرقم/ 2646.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص تلاشِ علم کی راہ پر چلا اللہ تعاليٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔

اسے امام مسلم ، احمد بن حنبل اور ترمذی نے روایت کیا۔

وَفِي رِوَايَةِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ، کَانَ فِي سَبِيْلِ اللہِ حَتّٰی يَرْجِعَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم، 5/ 29، الرقم/ 2647، والطبراني في المعجم الصغير، 1/ 234، الرقم/ 380، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 6/ 124، الرقم/ 2119.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حصولِ علم کے لئے نکلا وہ اس وقت تک اللہ کی راہ میں ہے جب تک کہ واپس نہیں لوٹ آتا۔

اسے امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حسن غریب ہے۔

وَرَوَی الْبُخَارِيُ فِي تَرْجَمَةِ الْبَابِ فِي کِتَابِ الْعِلْمِ: إِنَّ الْعُلَمَاء َ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ. وَرَّثُوا الْعِلْمَ. مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ، وَمَنْ سَلَکَ طَرِيقًا يَطْلُبُ بِهِ عِلْمًا، سَهَلَ اللہُ لَهُ طَرِيقًا إِلَي الْجَنَّةِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب العلم، قبل القبول، 1/ 37.

امام بخاری نے کتاب العلم میں ترجمۃ الباب کے تحت بیان کیا ہے: بے شک علماء، انبیاء کرام f کے وارث ہیں۔ انہوں نے میراثِ علم چھوڑی ہے۔ پس جس نے اس (میراثِ علم) کو حاصل کیا، اس نے بہت بڑا حصہ پا لیا۔ جو آدمی علم کی تلاش میں کسی راہ پر چلتا ہے، اللہ تعاليٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔

  1. عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ: أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ رضی الله عنه فَقَالَ: مَا جَاءَ بِکَ؟ قُلْتُ: أُنْبِطُ الْعِلْمَ. قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَا مِنْ خَارِجٍ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ إِلَّا وَضَعَتْ لَهُ الْمَلَاءِکَةُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا بِمَا يَصْنَعُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 239، الرقم/ 18118، والترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب في فضل التوبة والاستغفار وما ذکر من رحمة اللہ، 5/ 545-546، الرقم/ 3535-الرقم/ 3536، والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب الوضوء من الغائط والبول، 1/ 98، الرقم/ 158، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1/ 82، الرقم/ 226.

حضرت زِر بن حُبَیش بیان کرتے ہیں: میں حضرت صفوان بن عسال المرادی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں حاضر ہوا۔ انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا: کیسے آنا ہوا؟ میں نے عرض کیا: علم کی تلاش میں آیا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو کوئی اپنے گھر سے طلبِ علم کی نیت سے نکلتا ہے، فرشتے اس کے اس عمل سے خوش ہو کر اس کیلئے اپنے پر بچھاتے ہیں۔

اسے امام احمد ، ترمذی اور نسائی نے جب کہ ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔

رَوَی الْبُخَارِيُّ فِي تَرْجَمَةِ الْبَابِ فِی کِتَابِ الْعِلْمِ: رَحَلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ مَسِيْرَةَ شَهْرٍ إِلٰی عَبْدِ اللہِ بْنِ أُنَيْسٍ فِي حَدِيْثٍ وَاحِدٍ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب الخروج في طلب العلم،1/ 41.

امام بخاری نے کتاب العلم کے ترجمۃ الباب (باب الخروج في طلب العلم) میں بیان کیا ہے: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی طرف ایک حدیث کی خاطر ایک مہینے کا سفر طے کیا۔

  1. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: يُوْزَنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِدَادُ الْعُلَمَاءِ وَدَمُ الشُّهَدَاءِ فَيَرْجَحُ مِدَادُ الْعُلَمَاءِ عَلَی دَمِ الشُّهَدَاءِ.

رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 5/ 486، الرقم/ 488، والجرجاني في تاريخ جرجان، 1/ 91، الرقم/ 52، والسمعاني في أدب الإملاء والاستملاء، 1/ 192.

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روز قیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی۔

یہ حدیث دیلمی سے مروی ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الأَءِمَّةِ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِيْنَ

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما: ذَلَلْتُ طَالِبًا فَعَزَزْتُ مَطْلُوْبًا.

رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.

أخرجه ابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1/ 117، والنووي في التبيان في آداب حملة القرآن/ 27، والغزالي في إحياء علوم الدين، 1/ 9، وابن القيم في مفتاح دار السعادة/ 168.

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نے طلبِ علم کے وقت عاجزی اور فروتنی اختیار کی اور جب مجھ سے علم طلب کیا جانے لگا تو میں معزز بن گیا۔

اِسے امام ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنهما يَقُوْلُ لِبَنِيْهِ وَبَنِي أَخِيْهِ: تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِيْعُوا حِفْظَهُ فَاکْتُبُوْهُ وَضَعُوْهُ فِي بُيُوْتِکُمْ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني في الطبقات الکبری/ 42.

امام حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما اپنے صاحبزادوں اور بھتیجوں کو فرمایا کرتے کہ تم علم سیکھو۔ اگر اسے یاد نہ رکھ سکو تو اسے لکھ کر اپنے گھروں میں رکھ لو۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

کَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ رضی الله عنهما يَقُوْلُ: لَا يَکُوْنُ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ حَتّٰی لَا يَحْسُدَ مَنْ فَوْقَهُ وَلَا يَحْقِرَ مَنْ تَحْتَهُ وَلَا يَبْتَغِيَ بِالْعِلْمِ ثَمَناً.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 39.

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے: آدمی اس وقت تک اہل علم میں شمار نہیں ہوتا جب تک وہ (علم میں) اپنے سے فوقیت رکھنے والوں پر حسد کرنا، اپنے سے کم درجہ افراد کو حقیر جاننا اور علم کے ذریعے کسی مال کا طلب کرنا ترک نہیں کرتا۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

عَنْ مَالِکٍ، قَالَ: لَا يَبْلُغُ أَحَدٌ مَا يُرِيْدُ مِنْ هٰذَا الْعِلْمِ حَتّٰی يَضُرَّ بِهِ الْفَقْرُ، وَيُؤْثِرَهُ عَلٰی کُلِّ حَاجَةٍ.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ.

أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 6/ 331، والخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 2/ 186.

امام مالک سے مروی ہے: کوئی شخص اُس علم میں سے جو کچھ چاہتا ہے اسے حاصل نہیں کر سکتا، جب تک کہ فقر اُسے متاثر نہ کرے اور جب تک وہ اپنی ہر ضرورت پر اس علم کو ترجیح نہ دے۔

اسے ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

قَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا يَصْلُحُ طَلَبُ الْعِلْمِ إِلَّا لِمُفْلِسٍ. قِيْلَ: وَلَا لِغَنِيٍّ مَکْفِيٍّ؟ قَالَ: لَا.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ.

أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 9/ 119، والخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 2/ 187.

امام شافعی بیان کرتے ہیں: طلبِ علم مفلس شخص کو ہی زیب دیتا ہے۔ عرض کیا گیا: اور کیا مال دار شخص کو یہ زیب نہیں دیتا؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔

اِسے امام ابو نعیم نے بیان کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ الشَّافِعِيُّ يَقُوْلُ: لَا شَيْئَ أَزْيَنَ بِالْعُلَمَاءِ مِنَ الْفَقْرِ وَالْقَنَاعَةِ وَالرِّضَا بِهِمَا.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 77.

امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ علماء کو فقر و قناعت اختیار کرنے اور ان دونوں پر خوش رہنے سے زیادہ کوئی چیز زیب نہیں دیتی۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيْسَ الشَّافِعِيُّ يَقُوْلُ: لَا يُدْرَکُ الْعِلْمُ إِلَّا بِالصَّبْرِ عَلَی الضُّرِّ.

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ.

أخرجه الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 2/ 186.

امام محمد بن ادریس الشافعی فرمایا کرتے تھے: علم نقصان و تکلیف پر صبر سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

اِسے خطیب بغدادی نے بیان کیا ہے۔

قَالَ الشَّافِعِيُّ: فَحَقٌّ عَلٰی طَلَبَةِ الْعِلْمِ بُلُوْغُ غَايَةِ جُهْدِهِمْ فِي الاسْتِکْثَارِ مِنْ عِلْمِهِ، وَالصَّبْرُ عَلٰی کُلِّ عَارِضٍ دُوْنَ طَلَبِهِ، وَإِخْلَاصُ النِّيَةِ ِﷲِ فِي اسْتِدْرَاکِ عِلْمِهِ نَصًّا وَاسْتِنْبَاطًا، وَالرَّغْبَةُ إِلَی اللہِ فِي الْعَوْنِ عَلَيْهِ.

الشافعي في أحکام القرآن، 1/ 21، وأيضًا في الرسالة/ 19، وذکره الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 2/ 204.

امام شافعی بیان کرتے ہیں: طالبانِ علم پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے علم میں اضافہ کرنے کے لیے غایت درجہ محنت کریں، اور اس کی طلب میں آنے والی ہر رکاوٹ پر صبر کریں، اور اپنے علم کو نصاً اور استنباطاً حاصل کرنے میں نیت کو اللہ تعاليٰ کے لیے خالص رکھیں۔ اور اس کام میں مدد حاصل کرنے کے لیے اللہ تعاليٰ کی طرف رغبت رکھیں۔

کَانَ الإِمَامُ الشَّافِعِيُّ يَقُوْلُ: مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ بِعِزِّ النَّفْسِ لَمْ يُفْلِحْ وَمَنْ طَلَبَهُ بِذُلِّ النَّفْسِ وَخِدْمَةِ الْعُلَمَاءِ أَفْلَحَ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 77.

امام شافعی فرمایا کرتے تھے: جس نے عزتِ نفس (انا)کے ساتھ علم حاصل کرنا چاہا، کامیاب نہ ہوا اور جس نے اسے نفس کی ذلت اور علماء کی خدمت کے ذریعے حاصل کرنا چاہا وہ مقصد پا گیا۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

عَنْ إِبْرَاهِيْمَ الآجُرِّيِّ، يَقُوْلُ: مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ بِالْفَاقَةِ وَرِثَ الْفَهْمَ.

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ.

أخرجه الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 2/ 186.

امام ابراہیم آجری بیان کرتے ہیں: جس نے فقر و فاقہ کے ساتھ علم طلب کیا وہ فہم کا وارث بنا۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيْرٍ، قَالَ: لَا يُسْتَطَاعُ الْعِلْمُ بِرَاحَةِ الْجِسْمِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب المساجد، باب أوقات الصلاة الخمس، 1/ 428، الرقم/ 612.

حضرت یحیيٰ بن ابی کثیر بیان کرتے ہیں: علم آرام طلبی سے حاصل نہیں ہوتا۔

اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ عَامِرُ بْنُ شَرَاحِيْلَ الشَّعْبِيُّ يَقُوْلُ: أَدْرَکْنَا النَّاسَ وَهُمْ لَا يُعَلِّمُوْنَ الْعِلْمَ إِلَّا لِعَاقِلٍ نَاسِکٍ وَصَارُوْا الْيَوْمَ يُعَلِّمُوْنَهُ لِمَنْ لَا عَقْلَ لَهُ وَلَا نُسُکَ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 66.

امام عامر بن شراحیل شعبی فرمایا کرتے تھے: ہم نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو صرف عقلمند عبادت گزار کو ہی تعلیم دیتے تھے جبکہ آج لوگ اس طرح ہوگئے ہیں کہ بے عقل اور غیر عبادت گزار کو علم دینے لگ گئے ہیں۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يَقُوْلُ: اَلْعُلَمَائُ ثَـلَاثَةٌ عَالِمٌ بِاللہِ وَبِأَمْرِ اللہِ، فَعَلَامَتُهُ أَنْ يَخْشَی اللہَ وَيَقِفُ عِنْدَ حُدُوْدِ اللہِ، وَعَالِمٌ بِاللہِ دُوْنَ أَوَامِرِ اللہِ، فَعَلَامَتُهُ أَنْ يَخْشَی اللہَ وَلَا يَقِفُ عِنْدَ حُدُوْدِهِ، وَعَالِمٌ بِأَوَامِرِ اللہِ دُوْنَ اللہِ فَعَلَامَتُهُ أَنْ لَا يَقِفُ عِنْدَ حُدُوْدِ اللہِ وَلَا يَخْشَی اللہَ وَهُوَ مِمَّنْ تُسَعَّرُ بِهِمُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 76.

امام سفیان ثوری فرمایا کرتے تھے: علماء تین (طرح کے) ہیں:

(پہلی قسم میں وہ عالم شامل ہے) جو اللہ تعاليٰ اور اس کے امر (احکام الٰہیہ) کو جاننے والا ہے۔ ایسے عالم کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ تعاليٰ سے ڈرتا ہے اور اس کی حدود کا احترام بھی کرتا ہے، (دوسری قسم میں وہ عالم شامل ہے) جو معرفت الٰہیہ تو رکھتا ہے لیکن اس کے اوامر کا اسے (کما حقہ) علم نہیں۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ تعاليٰ سے ڈرتا ہے لیکن اس کی حدود کی پروا نہیں کرتا، (تیسری قسم میں وہ عالم شامل ہے) جو اللہ تعاليٰ کے اوامر کا علم تو رکھتا ہے لیکن اللہ تعاليٰ سے بے خبر ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ نہ تو وہ حدود الٰہیہ کا احترام کرتا ہے اور نہ ہی اللہ تعاليٰ سے ڈرتا ہے اور یہ ان لوگوں میں سے ہے جن پر روزِ قیامت جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

کَانَ الْإِمَامُ شَقِيْقٌ الْبَلْخِيُّ يَقُوْلُ: إِذَا کَانَ الْعَالِمُ طَامِعاً، وَلِلْمَالِ جَامِعاً فَبِمَنْ يَقْتَدِي الْجَاهِلُ؟

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 115.

امام شقیق بلخی فرمایا کرتے تھے: جب عالم دین طمع کرنے والا اور مال جمع کرنے والا ہو تو جاہل کس کی پیروی کرے؟

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

قَالَ الشَّيْخُ أَبُو الْعَبَّاسِ الْمُرْسِيُّ: اَلْعِلْمُ هُوَ الَّذِي يَنْطَبِعُ فِي الْقَلْبِ کَالْبَيَاضِ فِي الْأَبْيَضِ، وَالسَّوَادِ فِي الْأَسْوَدِ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 318.

شیخ ابو العباس مُرسی نے فرمایا: علم تو وہ ہے جو کہ دل میں یوں سرایت کر جائے جیسے سفید چیز میں سفیدی اور سیاہ چیز میں سیاہی۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

کَانَ الإِماَمُ أَبُو الْحَسَنِ الشَّاذِلِيُّ يَقُوْلُ: أَرْبَعٌ لَا يَنْفَعُ مَعَهُمْ عِلْمٌ: حُبُّ الدُّنْيَا، وَنِسْيَانُ الْآخِرَةِ، وَخَوْفُ الْفَقْرِ وَخَوْفُ النَّاسِ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 309.

امام ابو الحسن شاذلی فرمایا کرتے تھے: چار چیزوں کے ہوتے ہوئے علم نفع نہیں دیتا: دنیا کی محبت، آخرت کی فراموشی،تنگ دستی کا خوف اور (ملامت کرنے والے) لوگوں کا ڈر۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved