جواب: حضانت یعنی ’پرورش کا حق‘ سے مراد بچے کی پرورش کرنا، گود میں لینا، سینے سے لگانا وغیرہ ہے، جبکہ حضانت کے لغوی معنی تربیت کے ہیں۔ شرعی اِصطلاح میں ماں یا کسی شرعی مستحق کے چھوٹے بچے کی پرورش کرنے کو حضانت کہتے ہیں یعنی بچے کی تربیت اور اس کے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے اس کی نگرانی حضانت کہلاتی ہے۔
جواب: تمام رشتوںمیں سب سے زیادہ حقِ حضانت ماں کو حاصل ہے خواہ وہ عورت زوجیت میں ہو یا طلاق یافتہ ہو کیونکہ زوجین میں علیحدگی ہوجانے کی صورت میں بھی بچے کی پرورش کا حق ماں ہی کو ہے۔ ماں کو بچہ کی پرورش کا حق حاصل ہونے کے بارے میں قرآن حکیم میں کوئی آیت ظاہر نص کے طور پر تو موجود نہیں مگر اِقتضاء النص کے طور پر فقہاء کرام کے نزدیک یہ آیتِ رضاعت ہے:
وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ.
البقرۃ، 2: 233
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہیے۔
اس سے ثابت کیا ہے کہ صغر سنی میں بچہ کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے۔ فقہاء کرام نے مذکورہ آیت مبارکہ کے ساتھ ساتھ درج ذیل احادیث سے بھی استدلال کیا ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے بچے کی حضانت کا حق اس کی ماں کو عطا کیا ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے طریق سے روایت کرتے ہیں:
إِنَّ امْرَأَۃً قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ ابْنِي هٰذَا کَانَ بَطْنِي لَهٗ وِعَاءً، وَثَدْیِي لَهٗ سِقَاءً، وَحِجْرِي لَهٗ حِوَاءً، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ یَنْتَزِعَهٗ مِنِّي. فَقَالَ لَهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنْتِ أَحَقُّ بِہٖ مَا لَمْ تَنْکِحِي.
1۔ احمد بن حنبل، المسند، 2: 246، رقم: 6716
2۔ ابو داؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب من أحق بالولد، 2: 263، رقم: 2276
3۔ حاکم، المستدرک، 2: 225، رقم: 2830
4۔ عبد الرزاق، المصنف، 7: 153، رقم: 12596
ایک عورت عرض گزار ہوئی: یا رسول اللہ! یہ میرا بیٹا ہے۔ میرا پیٹ اِس کا برتن تھا، میری چھاتی اس کا مشکیزہ تھی اور میری گود اس کی رہائش گاہ تھی۔ اِس کے والد نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اَب وہ اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس خاتون سے فرمایا: تم اس بچے کی زیادہ حق دار ہو جب تک تم (کسی اور سے) نکاح نہ کر لو۔
امام مرغینانی ؒکہتے ہیں:
لِأَنَّ الْأُمَّ أَشْفَقُ وَأَقْدَرُ عَلَی الْحَضَانَةِ فَکَانَ الدَّفْعُ إِلَیْھَا أَنْظَرَ، وَإِلَیْہِ أَشَارَ الصِّدِّیْقُ رضی الله عنه بِقَوْلِہٖ: رِیْقُھَا خَیْرٌ لَهٗ مِنْ شَھْدٍ وَعَسَلٍ عِنْدَکَ یَا عُمَرُ.
مرغینانی، الہدایۃ، 2: 37
اس لیے کہ ماں بچے کے حق میں سب سے زیادہ شفیق ہوتی ہے اور نگرانی اور حفاظت پر مرد کی نسبت زیادہ قدرت رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے بچے کو ماں کے سپرد کرنا زیادہ مفید ہے۔ اسی شفقت کی طرف حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے کہ اے عمر! بچے کی ماں کا لعابِ دہن بچے کے حق میں تمہارے شہد سے بھی زیادہ شیریں ہوگا۔
امام شافعی فرماتے ہیں:
فَلَمَّا کَانَ لَا یَعْقِلُ کَانَتِ الْأُمُّ أَوْلٰی بِہٖ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ حَقٌّ لِلْوَلَدِ لَا لِأَبَوَیْنِ، لِأَنَّ الْأُمَّ أَحْنٰی عَلَیْہِ وَأَرَقُّ مِنَ الْأَبِّ.
شافعی، الأم، 8: 235
پس جب بچہ نا سمجھ ہو تو ماں اس کی پرورش کی زیادہ حق دار ہے اس لیے کہ یہ بچے کا حق ہے، والدین کا نہیں۔ کیونکہ والدہ بچے کے حق میں باپ کی نسبت زیادہ نرم دل اور رقیق ہوتی ہے (لہٰذا ماں بچے کی پرورش کی زیادہ حق دار ہے)۔
امام ابن قدامہ فرماتے ہیں:
الْأُمُّ أَحَقُّ بِکَفَالَةِ الطِّفْلِ وَالْمَعْتُوہِ إِذَا طَلُقَتْ … وَلِأَنَّھَا أَقْرَبُ إِلَیْہِ وَأَشْفَقُ عَلَیْہِ وَلَا یُشَارِکُھَا فِي الْقُرْبِ إِلَّا أَبُوْهُ، وَلَیْسَ لَهٗ مِثْلُ شَفَقَتِھَا، وَلَا یَتَوَلَّی الْحَضَانَةَ بِنَفْسِہٖ، وَإِنَّمَا یَدْفَعُهٗ إِلَی امْرَأَتِہٖ وَأُمُّهٗ أَوْلٰی بِہٖ مِنِ امْرَأَةِ أَبِیْہِ.
ابن قدامۃ، المغني، 7: 613-614
بچے اور عدیم العقل کی پرورش کی ماں زیادہ حق دار ہوتی ہے جبکہ اُسے طلاق دے دی گئی ہو … کیونکہ بچے سے زیادہ قریب اور زیادہ شفقت رکھنے والی ماں ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ اس قرب و شفقت میں باپ کے علاوہ اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں ہو سکتا مگر اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ باپ بھی ماں جیسی شفقت نہیں دے سکتا کیونکہ بذاتِ خود بچے کی حضانت (یعنی حفاظت و نگہداشت) نہیں کیا کرتا، وہ یہ کام اپنی بیوی کے سپرد کر دیتا ہے۔ اسی طرح نانی، دادی کی نسبت شفقت دینے میں بہتر ثابت ہوتی ہے۔
امام ابن قدامہ مزید لکھتے ہیں:
وَالْحَضَانَۃُ إِنَّمَا تَثْبُتُ لِحَظِّ الْوَلَدِ، فَـلَا تُشْرَعُ عَلٰی وَجْہٍ یَکُوْنُ فِیْہِ ھَلَاکُهٗ وَھَلَاکُ دِیْنِہٖ.
ابن قدامۃ، المغني، 8: 190
اور حضانت بچے کی فلاح و بہبود کے پیش نظر مقرر کی گئی ہے۔ لہٰذا یہ کسی ایسے طریقے پر درست نہ ہوگی جس سے بچے کی ذات اور دین کے ضائع ہونے (یا اُنہیں نقصان پہنچنے) کا اندیشہ ہو۔
ابن ہمام بیان کرتے ہیں:
ولا تجبر علیه أی علی أخذ الولد اذا أبت أولم تطلب الا أن لا یکون لاولد ذو رحم محرم سوی الام علی خضانته کیلا یغوث حق الولد أصلا.
ابن ہمام، فتح القدیر، 4: 184
اگر ماں بچہ لینے سے انکار کر دے یا مطالبہ نہ کرے تو اس پر جبر نہیں ہوگا۔ ہاں اگر بچے کا ماں کے سوا کوئی ذی رحم محرم نہیں، تو اس وقت ماں کو بچے کی پرورش پر مجبور کیا جائے گا تاکہ بچے کا حق بالکل ختم نہ ہو جائے۔
جواب: بچوں کی پرورش کا حق ماں کے لیے ہے اور وہ اس وقت تک اسے اپنے پاس رکھ سکتی ہے جب تک کہ بچے کو کھانے، پینے اور رفع حاجت کے لیے ماں کی ضرورت پڑے اور اس کی مدت لڑکے کے لیے سات برس اور بچی کے لیے نو برس ہے یا حیض آنے تک۔ اگر خدانخواستہ ماں مرتد ہوجائے یا بدکردار ہو، جس سے بچہ کی حفاظت ممکن نہ رہے تو اس صورت میں والدہ کا حقِ پرورش باطل ہوجاتا ہے۔
جواب: بچوں کی پرورش کا خرچ باپ کے ذمہ ہے۔ باپ کی وفات کی صورت میں اگر بچوں کا مال موجود ہے تو اس میں سے خرچ کیا جائے گا اور اگر مال موجود نہیں یعنی باپ نے وراثت میں کچھ نہیں چھوڑا تو ذمہ داری ماں پر ہوگی۔ قاعدہ یہ ہے کہ جس کے ذمہ نفقہ ہے اس کے ذمہ پرورش کا خرچ بھی ہے اور لڑکے کے لیے سات سال اور لڑکی کے لیے بلوغت تک خرچ دیا جائے گا۔
جواب: اولاد میں خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں باپ پر ان کے نفقہ کی ذمہ داری درج ذیل صورتوں میں عائد ہوتی ہے:
1۔ بیٹا محتاج ہو جس کا کوئی مال نہ ہو۔
2۔ عمرِ بلوغ کو نہ پہنچا ہو۔
3۔ اگر بالغ ہے اور کسی ایسی مصیبت میں مبتلا نہیں ہے جو اُسے روزی کمانے سے مانع ہو تو اُسے لازم ہے کہ کمائے اور اپنے اوپر خرچ کرے۔ بصورتِ دیگر اس کا نفقہ باپ کے ذمہ رہے گا۔
4۔ علاوہ ازیں اگر بیٹا تعلیم حاصل کر رہا ہے تو اس صورت میں اس کا نفقہ باپ پر واجب ہوگا اگرچہ لڑکا بالغ ہوگیا ہو۔
5۔ بیٹی خواہ نابالغ ہے یا بالغ اس کا نفقہ باپ پر واجب ہے۔
6۔ بیٹی اگر محتاج ہے تو نفقہ باپ پر واجب ہوگا، لیکن اگر مال کی مالک ہے تو اس کے مال سے اس پر خرچ کرنا واجب ہے۔
جواب: مطلقہ عورت کے بچوں کی پرورش ماں کے ذمہ ہے جب کہ نفقہ کی ذمہ داری باپ کی ہے۔
ابن ہمام، فتح القدیر، 4: 184-185
جواب: باپ فوت ہو جانے کی صورت میں نابالغ اولاد کا نفقہ ماں کے ذمہ ہے۔ ماں کو دوسرے اقرباء سے زیادہ حق دار قرار دیا گیا ہے۔ نیز اولاد کی کفالت اس وقت تک ہے جب تک وہ خود محنت کرکے کما نہ سکیں۔
جواب: طلاق کے بعد بچہ یا بچی ماں کے پاس اُس وقت تک رہ سکتے ہیں جب تک وہ بچوں کے کسی نامحرم سے نکاح نہ کرے۔
جواب: پرورش کا حق بچوں کی ماں کو ہے لیکن اگر باپ یہ سمجھے کہ ماں بچوں کی پرورش ٹھیک طریقے سے نہیں کر رہی اور بچے اخلاقی لحاظ سے بگاڑ کا شکار ہو رہے ہیں تو اس صورت میں باپ بچوں کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔
جواب: اگر بچوں کی ماں ان کے باپ کی بیوی ہے یا طلاق کی وجہ سے عدت میں ہے تو اس صورت میں اولاد کی پرورش کا معاوضہ نہیں لے گی کیونکہ پرورش کا خرچ شوہر کے ذمہ ہے۔ لیکن اگر طلاق یافتہ ہے اور عدت گزار چکی ہے تو اس صورت میں پرورشِ اولاد کا معاوضہ وہ بچوں کے باپ سے لے گی اور یہ معاوضہ لینا جائز ہے۔
جواب: بیوہ اپنا مکان فروخت کر کے یا کرایہ پر دے کر اپنا گزر اوقات کر سکتی ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ اگر مکان ایک ہی ہے تو پھر فروخت کرے نہ کرایہ پر دے۔
جواب: ماں کے بعد بچوں کی پرورش کاحق نانی کو ہے۔ حضرت مسروق سے مروی ہے:
إِنَّ عُمَرَ رضی الله عنه طَلَّقَ أُمَّ عَاصِمٍ فَکَانَ فِي حِجْرِ جَدَّتِہٖ، فَخَاصَمَتْهُ إِلٰی أَبِي بَکْرٍ رضی الله عنه فَقَضٰی أَنْ یَکُوْنَ الْوَلَدُ مَعَ جَدَّتِہٖ، وَالنَّفَقَۃُ عَلٰی عُمَرَ رضی الله عنه، وَقَالَ: ھِيَ أَحَقُّ بِہٖ.
1۔ عبد الرزاق، المصنف، 7: 155، رقم: 12602
2۔ بیہقی، السنن الکبری، 8: 5، رقم: 15544
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک انصاری عورت اُمِ عاصم کو طلاق دی جبکہ عاصم اپنی نانی کے زیرِپرورش تھا۔ اُس کی نانی نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مقدمہ پیش کیا تو انہوں نے فیصلہ دیا کہ لڑکا اپنی نانی کے پاس رہے گا اور عمر کو اس کے لیے نفقہ دینا ہو گا۔ اور کہا: یہ نانی اس بچہ کی (پرورش کرنے کی) زیادہ حق دار ہے۔
اگر نانی نہیں ہے تو نانی کی ماں کو اور اگر نانی کی ماں بھی نہیں تو پھر دادی کو بچوں کی پرورش کا حق حاصل ہے۔
جواب: نانی اور دادی کے بعد پرورش کا حق ماں کی سگی بہن، پھر اخیافی (ماں شریکی) بہن، پھر سوتیلی بہن اور پھر حقیقی بہن کی بیٹی کو ہے۔
جب حضور نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے بعد نکلے تو حضرت حمزہ کی بیٹی نے آپ ﷺ کا تعاقب کیا اور آواز دی: اے چچا! اے چچا! پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بچی کا ہاتھ پکڑ لیا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اپنے چچا کی بیٹی کو لو۔ چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اُسے اُٹھا لیا۔ اس بارے میں حضرت زید، علی اور جعفر رضی اللہ عنہم کے مابین تنازعہ ہوگیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اسے لے لیا ہے کیونکہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے جبکہ حضرت زید نے کہا کہ وہ میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کی خالہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا:
اَلْخَالَةُ بِمْنْزِلَةِ الْأُمِّ.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الصلح، باب کیف یکتب ہذا ما صالح فلان
بن فلاں و ان لم یتسبہ الی قبیلۃ اول نسبہ، 2: 960، رقم: 2552
2۔ بخاری، الصحیح، کتاب المغازی باب عمرۃ القضائ، 4: 1551، رقم: 4005
3۔ ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق ، باب من أحق بالولد، 2: 284، رقم: 2280
4۔ نسائی، السنن الکبریٰ، 5: 127، 168، رقم: 8456، 8578
5۔ بیہقی، السنن الکبری، 8: 5،6
6۔ مقدسی، الأحادیث المختارہ، 2: 392،393، رقم: 779
خالہ ماں کے درجہ میں ہے۔
جواب: خالہ کو پرورش کا حق حاصل ہے جبکہ نکاح کے لیے بطور ولی اس کا چچا ہوگا۔
جواب: باپ اپنی اولاد سے جب چاہے مل سکتا ہے، اسے نہ ملنے دینا ظلم ہے۔ اگر یہ خدشہ لاحق ہو کہ باپ اولاد کو چھین لے گا یا لے جائے گا تو اس کا قانونی حل تلاش کیا جائے۔ لیکن جہاں تک ملنے کا تعلق ہے تو اسے ملنے کا حق حاصل ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved