جواب: نفقہ کے لغوی معنی ’خرچ‘ کے ہیں۔(1) اِس سے مراد وہ شے ہے جو انسان اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے یعنی اخراجاتِ اولاد یا بیوی کا خرچ وغیرہ۔ اِصطلاحاً نفقہ سے مراد عورت کے روزمرہ کے اخراجات ہیں جن میں خوراک، لباس اور سکونت شامل ہیں جو مرد کی استطاعتِ معاش کے مطابق اس کے ذمہ ہوتے ہیں۔ لسان العرب میں ہے:
(1) لوئیس معلوف، المنجد: 828
ما أنفقت، واستنفقت علی العیال وعلٰی نفسک.
ابن منظور، لسان العرب، 10: 358
نفقہ سے مراد وہ خرچ ہے جو انسان اپنے اوپر اور اپنے اہل و عیال پر کرے۔
جواب: نفقہ زوجیت کی تین اقسام ہیں جن میں بالعموم خوارک، لباس اور مسکن یعنی رہائش شامل ہیں، جو مرد کی استطاعتِ معاش کے مطابق اس کے ذمہ ہوتی ہیں۔
جواب: شوہر پر بیوی کا نفقہ واجب ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں:
1۔ نکاح صحیح ہو کیونکہ شوہر پر بیوی کے نفقہ کے واجب ہونے کی ایک شرط نکاح ’صحیح‘ ہے۔ نکاح فاسد ہونے کی صورت میں بیوی نفقہ کی مستحق نہ ہوگی۔
2۔ بیوی قابلِ مباشرت ہو یعنی بیوی کے نفقہ کے لیے اصلاً اس کی عمر کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ وہ مباشرت کی مشقت کو برداشت کرسکتی ہے یا نہیں۔ اگر برداشت کرسکتی ہے تو نفقہ واجب ہوگا خواہ شوہر نابالغ ہو اور اس سے صحبت پر قادر نہ ہو۔
3۔ بیوی خود سپردگی پر آمادہ ہو یعنی خود کو خاوند کے اختیار میں دے دے۔ لیکن اگر شوہر اپنی بیوی کو خود اپنے ساتھ نہ رکھے اور بیوی کی طرف سے ساتھ رہنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو اور وہ والدین کے ہاں رہے، تو اس صورت میں بھی شوہر پر بیوی کا نفقہ واجب ہے۔
4۔ اگر مہرِ معجل ادا نہ کیا گیا ہو یا مہرِ مؤجل ہو یعنی جس کی ادائیگی کی معیاد مقرر ہو اور وہ معیاد پوری ہونے کے باوجود مہر ادا نہ کیا گیا ہو اور اس کے سبب عورت شوہر کے ساتھ رہنے سے انکار کرے تو اس کا یہ انکار جائز ہوگا۔ اس سے اس کے حقِ نفقہ پر کوئی اثر نہ پڑے گا کیونکہ اس کا ذمہ دار مرد خود ہے۔ خواہ اس نے عورت سے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو، شوہر کو بیوی کا نفقہ دینا ہوگا۔
5۔ اِسی طرح اگر عورت شوہر کی بے رحمی یا زیادتی کی وجہ سے اس کے گھر آنے یا اس کے ساتھ رہنے سے انکار کرے تو اس کے حقِ نفقہ پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔
جواب: نان و نفقہ اردو زبان میںمستعمل مرکب لفظ ہے جس کے معنی خرچہ، رہائش اور کھانے پینے کے ہیں۔ اسلام مسلمانوں میں بھائی چارے کے حقوق، ایک دوسرے کے مال پر حقوق کے معاملات، مال دار اور غریب کے درمیان، والدین اور اولاد کے درمیان، شوہر اور بیوی کے درمیان، معاشرتی، سماجی اور معاشی حقوق کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اسلام نے معاشرتی لحاظ سے نفقہ کی ادائیگی کے جو اُصول مقرر کیے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
1۔ معاشرہ کا ہر فرد کمائے اورمعاشرتی عضوِ معطل نہ بنے چنانچہ پہلے اپنی ذات پر خرچ کرے۔
2۔ صاحب استطاعت اولاد اپنے والدین پر خرچ کرے خصوصاً ان والدین پر جو بڑھاپے میںکمانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
3۔ والدین اپنی کم سن اولاد پر خرچ کریں جب تک کہ وہ جوان نہ ہو جائیں۔
4۔ رشتہ داروں پر یتیم، مسکین اور غریب قرابت داروں کے حقوق ہیں جبکہ وہ بے آسرا اور بے سہارا ہوں ایسے رشتہ داروں میں یتیم بیوہ اورمطلقہ عورتیں بھی شامل ہیں۔
5۔ بیوی یا ملکیت کی عورتوں کا نفقہ یا اُجرت اُن کے متعلقین پر واجب ہے اور متعلقین سے مراد ہے کہ خاوند بیوی کے نفقہ کا ذمہ دار ہے۔ اسی طرح زوجین ایک دوسرے کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں جب کہ امیر عورت اپنے خاوند کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔
6۔ ہر شخص کی کمائی پر ان کے زیر دست (عورت یا مرد) یا ساتھی کا نفقہ واجب ہے۔ اسلام نے معاشرتی لحاظ سے تمام صاحبِ استطاعت لوگوں پر ان کے غریب زیردست لوگوں کے نفقہ کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ خاوند، بیوی اور دیگر مجبور و بے کس عورتوں یا مردوں کے نفقہ کی ذمہ داری ڈال کر ایک بڑا معاشرتی کنبہ تشکیل دیا ہے تاکہ معاشرے میںکوئی غریب نہ رہے اور کوئی شخص بے روزگار ہوتے ہوئے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ ہو۔
7۔ معاشرتی اور معاشی تعلقات کے ان حقوق و فرائض کی موجودگی میں اگر پھر بھی کوئی مجبور اور نادار رہ جائے تو ایسے نادار افراد کے لیے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مجبور افراد کو معاشرہ کا صحت مند فرد بنانے کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔
جواب: اِسلامی معاشرتی احکامات کی رو سے نفقہ کی ادائیگی کے حق دار والدین، رشتہ دار، مساکین اور مسافر ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ.
البقرۃ، 2: 215
آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللهِ ز وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
الروم، 30: 38
پس آپ قرابت دار کو اس کا حق ادا کرتے رہیں اور محتاج اور مسافر کو (ان کا حق)، یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی رضامندی کے طالب ہیں، اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیںo
قرآن حکیم میں قرابت داروں کے معاشی حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَا ج نِالْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ج حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَo
البقرۃ، 2: 180
تم پر فرض کیا جاتاہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آپہنچے اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہو تو (اپنے) والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں بھلے طریقے سے وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں پر لازم ہےo
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اجْعَلْهَا لِفُقَرَاءِ أَقَارِبِکَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الوصایا، باب اذ وقف أو أوصی لأقاربہ، ومن الأقارب، 3: 1011
یہ (باغ) اپنے غریب رشتہ داروں کو دے دو۔
ایک روایت میں حضرت انس ﷺ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں فرمایا:
یہ باغ اپنے غریب قرابت داروں کو دے دو تو انہوں نے وہ باغ حضرت حسان اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کو دے دیا جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کی نسبت ان کے زیادہ قریبی تھے۔
بخاری، الصحیح، کتاب الوصایا، باب اذ وقف أو أوصی لأقاربہ، ومن الأقارب، 3: 1011
جواب: خواتین کو معاشرتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انہیں مردوں کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے مثلاً نابالغ لڑکی کی پرورش اس کے والدین کے ذمہ، نکاح کے بعد عورت اپنے خاوند کی ذمہ داری ہے۔ اس لحاظ سے عورتوں کا نفقہ واجب ہونے کے اسباب درج ذیل ہیں:
پہلا سبب زوجیت ہے۔ زوجیت کے معاملہ میں نفقہ کی ذمہ داری کو عورت کو ساتھ رکھنے یا خاوند کے ساتھ رہنے سے مشروط کیا گیا ہے اور اس صورت میں شوہر بیوی کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوگا، لیکن اگر عورت اپنے خاوند کے ساتھ نہ رہے تو زوجیت بے معنی ہو جاتی ہے۔
دوسرا سبب قرابت داری اور رشتہ داری کے معاملات ہیں جن میں والدین پر بچوں کی ذمہ داری بطور اولاد اور تحفظ نسب کے لیے واجب ہے، جب کہ جوان اولاد پر ان کے والدین کی بطور فرض خدمت واجب ہے اور صاحبِ استطاعت لوگوں پر دیگر مفلس اور نادار افراد اور رشتہ داروں کی مدد بطور اِحسان اور صدقہ معاشرتی تعلقات کے لیے واجب ہوتی ہے۔
تیسرا سبب ملکیت ہے۔ اور یہ سبب آج کے جدید دور میں ناپید ہے۔
مندرجہ بالا تین اسباب سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کے نان و نفقہ کی ذمہ داری زوجیت میں اس کے شوہر پر، کم سنی سے جوانی تک اس کے والدین پر، بے سہارا عورتوں کی ذمہ داری ان کے والدین، رشتہ داروں، برادری اور حکومت پر ہے۔
جواب: مقدارِ نفقہ کے تعین میں شوہر اور زوجہ دونوں کے مرتبے اور حیثیت کو مدِنظر رکھا جائے گا۔ اگر زوجین دونوں غنی ہیں یا دونوں محتاج ہیں تو ان کے تقررِ نفقہ کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں یعنی اگر غنی ہیں تو امیرانہ نفقہ مقرر کیا جائے گا اور اگر محتاج ہیں تو اس حیثیت کے مطابق ہوگا۔ لیکن اگر اُن میں سے ایک خوش حال اور دوسرا فریق تنگ دست ہے تو اس صورت میں بیوی کا نفقہ دونوں کی حیثیت کے پیش نظر مقرر کیا جائے گا یعنی اوسط درجے کا نفقہ متعین ہوگا۔ اگر خاوند خوش حال ہے اور بیوی غریب ہے تو بیوی کا نفقہ اس کی حیثیت سے زیادہ اور خاوند کی حیثیت سے کم ہوگا۔ اس میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ اگر بیوی مال دار ہے اور خاوند تنگ دست ہونے کی بنا پر اپنی حیثیت سے زیادہ نفقہ دینے سے عاجز ہے تو اس صورت میں خاوند کو اوسط درجہ کا نفقہ دینا واجب ہوگا۔
جواب: نفقہ جنس یا نقدی دونوں صورتوں میں دینا جائز ہے۔ اس کا تعین ضرورت اور حالات کے مطابق ہوگا۔ اگر عورت چاہے کہ اناج، لباس اور برتن وغیرہ کی شکل میں نفقہ مقرر کیا جائے تو اسی پر عمل کیا جائے گا۔ اگر بیوی کی بھلائی رقم دینے کی صورت میں ہو تو اس شہر میں اشیاء کے نرخ یعنی قیمتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے رقم کی صورت میں نفقہ مقرر کیا جائے گا۔ پھر یہ بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ زوجین کی عادت اور عام رواج کیا ہے اور کس قسم کی اشیاء بیوی کو مطلوب ہیں۔ ایک مخصوص رقم نفقہ کے لیے مقرر کر دینا کہ اس میں اضافہ کی گنجائش نہ ہو، قطعاً درست نہیں ہے کیونکہ ہر زمانے کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں؛ پھر یہ کہ نفقہ روزانہ، ماہانہ، سالانہ جس طرح بھی استعمال کرنا ہو ضرورت کے مطابق ادا کیا جائے گا۔ اگر شوہر تنخواہ دار ہے جسے ماہانہ اعزازیہ ملتا ہے تو وہ بیوی کو بھی ماہانہ خرچ دے گا۔ اگر خاوند کو ہفتہ وار اجرت ملتی ہے تو نفقہ بھی ہفتہ وار دے گا۔ اگر خاوند زراعت پیشہ ہے جسے سالانہ پیداوار حاصل ہوتی ہے تو بیوی کو بھی سالانہ نفقہ ملے گا۔
جواب: درج ذیل صورتوں میں نفقہ ساقط ہو جاتا ہے:
1۔ مرتدہ یعنی دین اسلام سے پھر گئی ہو۔
2۔ خاوند کے بیٹے یا اس کے باپ سے جنسی میلان رکھنے والی یا نفسانی خواہشات کی بناء پر ایسی حرکت کی مرتکب ہوئی ہو جس سے حرمتِ مصاہرت عائد ہوجائے۔
3۔ شوہر کے وفات پانے کی صورت میں عدت گزارنے والی بیوہ۔
4۔ وہ عورت جس کے ساتھ عقد فاسد یا شبہ میں مباشرت ہوگئی ہو۔
5۔ نابالغ لڑکی جو مباشرت کے قابل نہ ہو۔
6۔ مریضہ عورت جو خلوتِ صحیحہ سے پہلے بیمار ہوگئی ہو۔ چنانچہ اگر ایک شخص نے کسی عورت سے شادی کی اور ابھی اس کے ساتھ مباشرت نہ ہوئی تھی کہ وہ بیمار ہوگئی اور اسے خاوند کے گھر نہیں لایا جاسکا اور اس حالت میں وہ اپنے آپ کو خاوند کے حوالے نہیں کرسکتی تھی تو اس صورت میں نفقہ ساقط ہوگا؛ لیکن اگر خاوند کے گھر میں آکر شدید مرض میں مبتلا ہوگئی تو خاوند پر اس کا نفقہ واجب ہوگا۔
7۔ حاجیہ قصدِ حج کرنے والی یعنی وہ عورت جو فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے کسی محرم کے ساتھ خاوند کی اجازت کے بغیر حج کو روانہ ہوئی ہو۔ اس کا نفقہ خاوند پر واجب نہیں ہے۔
جواب: عورت کے نان و نفقہ کا تعلق رخصتی سے ہے، نکاح سے نہیں کیونکہ نان و نفقہ کی ادائیگی مرد کے ساتھ قیام کرنے اور اچھے سلوک کے ساتھ منسلک ہے۔ اس لیے عورت کے نان و نفقہ کا تعلق رخصتی اور شوہر کے ساتھ رہنے سے ہے۔
جواب: جی ہاں! طلاق خواہ رجعی ہو یا بائن دوران عدت اس عورت کا نفقہ مرد پر واجب ہوگا جب تک کہ عدت ختم نہ ہوجائے کیونکہ عورت طلاقِ رجعی کی صورت میں مرد کے نکاح میں رہتی ہے، مرد جب چاہے اس سے رجوع کرسکتا ہے۔ وہ اس کے نکاح سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہوئی، اس لیے مرد پر نفقہ واجب ہوتا ہے۔ نیز طلاقِ ثلاثہ کی صورت میں اگرچہ زوجہ اس مرد کے نکاح سے خارج ہو جاتی ہے لیکن دورانِ عدت کسی دوسرے مرد سے نکاح نہیں کرسکتی، اس بناء پر نفقہ کا وجوب باقی رہتا ہے۔
جواب: جی نہیں! شوہر کی وفات کی عدت میں عورت نفقہ کی حق دار نہیں ہے لیکن اگر بیوہ حاملہ ہے تو وضعِ حمل تک نفقہ واجب ہوگا۔
جواب: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے بیوہ کی کفالت کے سلسلہ میں فرمایا:
اَلسَّاعِي عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِیْلِ اللهِ.
وَأَحْسِبُهٗ قَالَ: وَکَالْقَائِمِ لَا یَفْتُرُ، وَکَالصَّائِمِ لَا یُفْطِرُ.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ علی الأھل،
5: 2047، رقم: 5038
2۔ بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب الساعي علی الأرملۃ، 5: 2237، رقم: 5660
3۔ مسلم، الصحیح، کتاب الزہد والرقائق، باب الإحسان إلی الأرملۃ والمسکین والیتیم،
4: 2286، رقم: 2982
4۔ أحمد بن حنبل، المسند، 2: 361، رقم: 8717
5۔ ترمذی، السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في السعي علی الأرملۃ والیتیم، 4: 346،
رقم: 1969
6۔ نسائي، السنن، کتاب الزکاۃ، باب فضل الساعي علی الأرملۃ، 5: 86، رقم: 2577
7۔ ابن ماجہ، السنن،کتاب التجارۃ، باب الحث علی المکاسب، 2: 724
بیوہ عورت اور مسکین کے (کاموں) کے لیے کوشش کرنے والا راهِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
(راوی کہتے ہیں، میرا خیال ہے کہ) حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: وہ اُس قیام کرنے والے کی طرح ہے جو تھکتا نہیں اور اُس روزہ دار کی طرح ہے جو مسلسل روزے رکھتا ہے۔
جواب: جی ہاں: اگر شوہر موجود نہ ہو تو بیوی شوہر کے نام پر قرض لے کر اپنا نفقہ مہیا کر سکتی ہے اور قرض خواہ اس کے شوہر سے وصول کرے گا بشرطیکہ نفقہ عدالت کی طرف سے مقرر کردہ ہو۔
جواب: بیوی کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم ہے۔ اس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ نفقہ شوہر کی استطاعت کے مطابق ہونا چاہیے ورنہ جیسا مرد کھائے ویسا ہی اپنی بیوی اوربچوں کو کھلائے۔ حضرت حکیم بن معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ عورت کا خاوند پر کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
أَنْ یُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمَ، وَأَنْ یَکْسُوَهَا إِذَا اکْتَسٰی، وَلَا یَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا یُقَبِّحْ، وَلَا یَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَیْتِ.
1۔ أبوداود، السنن، کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا،
2: 212، رقم: 2142
2۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب حق المرأۃ علی الزوج، 2: 417، رقم: 1850
جب خود کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے۔ اس کے منہ پر نہ مارے، اسے برا نہ کہے اور گھر کے علاوہ تنہا کہیں نہ چھوڑے۔
حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی ہند بنت عتبہ کی طرف سے اپنے خاوند کی کنجوسی کی شکایت کرنے پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
خُذِيْ مَا یَکْفِیْکِ وَوَلَدَکِ بِالْمَعْرُوْفِ.
بخاری، الصحیح، کتاب النفقات، باب اذا لم ینفق الرجل، فللمرأۃ أن تأخذ بغیر علمہ ما یکفیھا وولدھا بالمعروف، 5: 2052، رقم: 5049
تو (ابو سفیان کے مال سے) اِتنا لے سکتی ہے جو تجھے اور تیرے بچوں کے لیے با عزت طور پر کافی ہو۔
معلوم ہوا کہ بیوی پر خرچ کرنے میں تنگی و کنجوسی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اِستطاعت کے مطابق بہتر اَسباب پیدا کرنے چاہییں۔
جواب: شوہر اگر بیوی کو نفقہ دینے سے انکار کرے تو اسے خاندانی اثر و رسوخ کے ذریعے اس فرض کی ادائیگی پر مجبور کیا جائے گا۔ پھر بھی نہ مانے تو عدالت کے ذریعے اس کا نفقہ مقرر کر کے دلوایا جائے گا۔
جواب: جی ہاں! بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر شوہر بیوی سے ایک ماہ یا اس سے زیادہ عرصہ کے لیے دور رہے تو وہ خاوند کی غیر موجودگی کی پوری مدت کے لیے کسی کو ضامن بنانے کا مطالبہ کرے۔ اگر زوجین ضامن بنانے پر راضی ہوجائیں۔ معینہ عرصہ تک وہ ضامن نفقہ کا ذمہ دار ہوگا بشرطیکہ مقدارِ نفقہ جس کا وہ شخص ضامن ہوگا کا تعین کردیا جائے۔
جواب: اسلام میں بیوی کے نان و نفقہ کی ذمہ داری چونکہ مرد پر عائد ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ جہاد، تبلیغ یا کسی بھی دینی یا دنیوی امور کی انجام دہی کی خاطر گھر سے دور جانے سے قبل بیوی کے نان و نفقہ کا مکمل انتظام و انصرام کر کے جائے۔
شوہر پرلازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو خرچ دے خواہ اس کے ساتھ رہے یا سفر پر چلا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لشکروں کے امیروں کے نام یہ حکم نافذ کیا:
فلاں اور فلاں شخص کو بلاؤ، یعنی بعض ایسے لوگوں کے نام لکھے جو مدینہ منورہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ پھر انہیں حکم دیا کہ یا تو اپنی بیویوں کے پاس واپس آجائیں یا ان کا نفقہ بھیج دیں اور یا انہیں طلاق دے دیں اور گزشتہ مدت کا نفقہ بھی ساتھ بھیج دیں۔
ابنِ حزم، المحلی، 10: 93-94
جواب: سود کی رقم کا وبال یقیناً شوہر پر ہوگا، عورت پر نہیں۔ عورت کو چاہیے کہ وہ رقم لینے سے انکار کردے اور کہے کہ وہ محنت کر کے کھالے گی مگر حرام نہیں کھائے گی۔
جواب: جی نہیں! شوہر کی کوئی بھی چیز جو اس کی ذاتی ملکیت میں ہے، بیوی اُس کی اجازت کے بغیر بیچ نہیں سکتی کیونکہ وہ شوہر کی ملکیت ہے۔ لہٰذا اسے فروخت کیا جانا درست نہیں ہے۔
جواب: بیوی نافرمان ہونے کے سبب نفقہ کے حق سے محروم ہو جاتی ہے یعنی وہ شوہر کی اجازت کے بغیر یا کسی جائز وجہ کے بغیر شوہر کے گھر سے نکل جائے یا گھر میں رہنے سے انکار کرے تو وہ نفقہ کی حق دار نہ رہے گی۔
جواب: اگر بیوی کو جان کا خوف ہے اور وہ اپنے شوہر سے علیحدہ دوسرے گھر میں رہتی ہے تو وہ نافرمان نہیں ہے، اس صورت میں شوہر پر اس کا نان و نفقہ واجب ہوگا۔
جواب: بیوی کی غیر اخلاقی حرکت کی بناء پر اگر شوہر نے طلاق دیے بغیر اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہو تو پھر بھی شوہر کے ذمہ مہر اور نفقہ دینا لازم ہوگا کیونکہ خلوتِ صحیحہ کے بعد مہر ادا کرنا لازم ہوجاتا ہے۔
جواب: خاوند کی تنخواہ اس کی ملکیت ہے۔ خاوند کے ذمہ بیوی کا نان و نفقہ ہر حال میں واجب ہے خواہ بیوی مال دار ہو یا غریب۔ لہٰذا خاوند کو چاہیے کہ بیوی کو جس شے کی ضرورت ہو لا کر دے یا منگوا کر دے۔ اگر خاوند بیوی کی ضروریات پوری نہیں کرتا تو بیوی خاوند کی تنخواہ یا اس کے مال سے لے کر خرچ کرسکتی ہے۔
جواب: جی نہیں! بیوی اگر اپنی رقم سے کاروبار کرے تو اس کا شوہر، اس کی دوسری بیوی اور اس کی اولاد اس میں حق دار نہیں ہیں بلکہ یہ اس بیوی کا حق ہے جو اپنی محنت سے کماتی ہے۔
جواب: نان و نفقہ کی تقرری کے لیے پاکستان کے مسلم فیملی لاء آرڈینینس مجریہ 1961ء کی کی دفعہ 9 ہمراہ ثالثی کورٹس آرڈینینس 1961ء میں قرار دیا گیا ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو ذمہ داری سے نان و نفقہ کی ادائیگی نہ کرسکے یا ایک سے زائد بیویوں کے درمیان انصاف سے نان و نفقہ کی ادائیگی کرنے میں ناکام رہے، تو اس کی بیوی یا بیویاں (جیسی بھی صورت ہو) قانونی امداد کے لیے علاقے کی یونین کونسل کے چیئرمین کو درخواست دیں گی، جس پر ثالثی کونسل قائم کی جائے گی جو خاوند کے خلاف نان و نفقہ کی رقم کا تعین کرتے ہوئے سر ٹیفکیٹ جاری کرے گی۔ اس کی ادائیگی خاوند کے ذمہ ہوگی۔ البتہ ثالثی کونسل کے فیصلے کے خلاف خاوند یا بیوی کی طرف سے قانونی میعاد کے اندر کلکٹر علاقہ کے پاس نگرانی دائر کی جاسکتی ہے جس کا فیصلہ حتمی ہوگا اور کسی عدالت میں نظر ثانی نہ ہوسکے گا۔ فیصلہ کے تحت مقررہ رقم کی ادائیگی بذریعہ لینڈ ریونیو حاصل کی جاسکے گی۔
جواب: بچوں کی پیدائش کا خرچ بیوی کے والدین پر نہیں بلکہ شوہر کے ذمہ ہے۔
جواب: والدین اگر مال کے مالک ہیں تو اپنے مال سے اپنے اوپر خرچ کریں گے خواہ وہ جوان ہوںیا بوڑھے۔ اس میں سب داخل ہیں سوائے بیوی کے کیونکہ بیوی کا خرچ خاوند پر لازم ہے اگرچہ وہ مال دار ہو۔ اگر والدین غریب ہوں یا ان میں ایک غریب ہو تو ان کا خرچ اولاد کے ذمے ہے، بیٹے کے ساتھ اس خرچ میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوگا۔ جس طرح والدین کا خرچہ لازم ہے اسی طرح غریب دادا اور دادی کا خرچہ بھی لازم ہے۔
جواب: ہر ذی رحم کا خرچہ ان کی میراث کے مطابق واجب ہے جبکہ نابالغ ہوں اور غریب ہوں یا عورت اگرچہ بالغہ ہو لیکن غریب ہو، مرد اگر بالغ ہو لیکن مریض ہو یا نابینا ہو یا فقیر ہو۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved