جواب: طلاق کا مادہ ’طلق‘ ہے جس سے لفظ طلاق ماخوذ ہے۔ جس کا معنی ’رہائی‘ ہے۔ الفاظِ مخصوصہ کے ساتھ میاں بیوی کے درمیان نکاح کی بندش کھول دینا اور نکاح کی قید کو اٹھا دینا طلاق کہلاتا ہے۔ مخصوص الفاظ سے مراد وہ الفاظ ہیں جو مادہ طلاق پر صراحتاً یا کنایتاً مشتمل ہوں۔ اس میں خلع بھی شامل ہے۔ نامردی اور لعان وغیرہ سے قاضی کی تفریق بھی شامل ہے۔
طلاق کالغوی معنی ہے:
نکاح کی گرہ کو کھول دینا، ترک کردینا، چھوڑ دینا، مفارقت۔
امام سرخسی نے طلاق کے لغوی معنی ’اِزالۃ القید‘ کے لکھے ہیں:
اَلطَّلَاقُ فِي اللُّغَةِ عِبَارَةٌ عَنْ إِزَالَةِ الْقَیْدِ.
سرخسی، المبسوط، 6: 2
لغوی طور پر طلاق کا معنی قید سے رہائی اور چھٹکارا پانا ہے۔
جواب: اسلام نے طلاق کا قانون علیحدگی کے لیے نہیں بلکہ زوجین کے درمیان پیدا ہونے والی نفرت کو عدت کے دوران رجوع کے لیے کوشاں ہونے اور زوجیت میں نفرت کی بجائے محبت کے جذبات پیدا کرنے کے لیے سوچ بچار کا وقت مہیا کرنے کے لیے دیا ہے۔ اسلام میں طلاق ایک رجعت اور ضرورت کے تحت مکروہ فعل کے طور پر جائز قرار دی گئی ہے مگر شریعت اسے پسند نہیں کرتی ہے۔ حضرت محارب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا أَحَلَّ اللهُ شَیْئاً أَبْغَضَ إِلَیْهِ مِنَ الطَّلاَقِ.
ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب فی کراھیۃ الطلاق، 2: 225، رقم: 2177
اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو حلال کیا ہے ان میں اُس کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ طلاق ہے۔
طلاق پر عمل درآمد کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ انسان ان تمام عوامل پر غور کرے جو اس کا نتیجہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس میں زوجین کو ذاتی زندگی کے علاوہ ان کے بچوں کے معاملات، آئندہ کی زوجیت کے معاملات، معاشرت اور معاش کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ نیز یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ان کی آئندہ زندگی کا شریکِ حیات سابقہ زوجیت کے معیار پر پورا اتر سکے گا یا نہیں! لہٰذا ان نتائج تک پہنچنے سے پہلے اپنی اصلاح کرے تو یقینا طلاق تک جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
اسلام میں طلاق کے اصلاحی احکامات بھی درحقیقت تاریخی روایتوں سے جڑی برائیوں کے خاتمے کے لیے نافذ ہوئے ہیں۔ ان تاریخی واقعات کے پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے جو بھی اصلاحات کیں، وہ درحقیقت عورتوں پر کیے جانے والے بے جا مظالم، تشدد، نفرت اور منفی رواجوں کے تدارک کے لیے تھیں۔ ان میں نفرت کے باوجود عورت کو نکاح میں جبراً باندھے رکھنے، طلاق کے حق سے محروم رکھنے یا خاوندوں کی طرف سے علیحدہ قسمیں کھالینے اور پھر قسموں کی آڑ میں عورتوں کو زوجیت کے حقوق سے محروم رکھنا ان لوگوں کی زندگی کا معمول تھا۔ اس طرح آزاد عورت منکوحہ ہونے کے باوجود ذہنی اور جسمانی طور پر غلامی کے ایسے بندھنوں میں بندھی ہوئی تھی جن سے اسلام نے انہیں عملاً آزاد کرا دیا اور خاوند کے ہاتھ میں اس کو شرعی جوازسے باندھ دیا۔
قرآنی تعلیمات تو یہ ہیں کہ اگر شوہر کو بیوی ناپسند ہو تب بھی وہ اس سے نباہ کرنے کی کوشش کرے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ج فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓـی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللهُ فِیْهِ خَیْرًا کَثِیْرًاo
النساء، 4: 19
اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتائو کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے۔
یہ آیت مبارکہ بتلاتی ہے کہ اختلاف اور نزاع کی صورت میں حتی الامکان طلاق سے گریز کیا جانا چاہیے اور اگر طلاق ناگزیر ہو تو صرف ایک طلاق رجعی دی جائے کیونکہ اس کے بعد عدت پوری ہونے تک اس معاملہ پر نظر ثانی کا موقع رہے گا اور عدت کے دوران زوجین میں رجوع کا حق موجود رہتا ہے ورنہ عدت کے بعد عورت علیحدہ ہو جائے گی۔
جواب: طلاق دینے کا شرعی طریقہ کچھ یوں ہے:
إذا أراد الرجل أن یطلق امرأته للسنَّةِ ترکھا حتی تحیضَ و تطھرَ من حیضتھا. ثم یطلقُھا تطلیقۃً من غیر جماعٍ، ثم یترکھا حتی تنقضیی عدتُھا، وإن شاءَ طلقھا ثلاثاً عند کلِّ طهرٍ تطلیقةٌ حتی یطلقھا ثلاثاً.
شیبانی، کتاب الآثار، 1: 426، رقم: 459
جب کوئی شخص اپنی بیوی کو سنت کے مطابق طلاق دینے کا ارادہ کرے تو اسے حیض آنے تک چھوڑ دے جب حیض سے پاک ہو تو (اس طہر میں) جماع کیے بغیر اسے ایک طلاق دے پھر اسے (اسی حالت میں) چھوڑے حتی کہ اس کی عدت پوری ہو جائے اور اگر تین طلاقیں دینا چاہے تو ہر طہر میںایک طلاق دے حتی کہ تین طلاقیں دے دے۔
اسلام میں طلاق انتہائی ناگزیر وجوہات کی بنا پر جائز قرار دی گئی ہے۔ اگر زوجین میں کسی صورت نباہ ممکن نہ رہے اور دونوں میں علیحدگی ضروری ہوجائے تو اندریں حالات طلاق دینے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی زوجہ کو جس سے خلوتِ صحیحہ کی ہو ایسے طہر (حیض سے پاک ہوجانے کے بعد کا زمانہ) میں صرف ایک طلاق رجعی دے جس طہر میں اس سے صحبت نہ کی ہو اور پھر اس کو چھوڑ دے اور مزید کوئی طلاق نہ دے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دورانِ عدت مرد کو رجوع کا حق رہتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد عورت بائنہ ہو جاتی ہے اور فریقین کی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ.
الطلاق، 65: 1
جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو۔
معلوم ہوا کہ اگر میاں بیوی کا اکٹھے رہنا ناگزیر ہوجائے تو طُہر (پاکیزگی) کی حالت میں ایک طلاق دینے سے بھی علیحدگی ہوجاتی ہے۔ تین طلاقیں دینا ضروری نہیں ہے۔
جواب: اسلام کا منشاء یہ ہے کہ جو لوگ رشتہ نکاح میں منسلک ہو جائیں ان کے نکاح کو قائم اور برقرار رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔ اگر کبھی ان کے درمیان اختلاف یا کسی قسم کا جھگڑا پیدا ہو تو رشتہ دار اور مسلم سوسائٹی کے وہ افراد جو اس کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں وہ اس اختلاف کو ختم کرکے ان میں صلح کرائیں۔ اگر ان کی پوری کوشش کے باوجود زوجین میں صلح نہ ہو سکے اور یہ خطرہ ہو کہ اگر یہ بدستور رشتہ نکاح میں بندھے رہے تو یہ حدود اللہ کو قائم نہ رکھ سکیں گے اور نکاح کے مقاصد فوت ہو جائیں گے تو اس صورت میں اسلامی تعلیمات اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان کی عدم موافقت اور باہمی نفرت کے باوجود ان کو نکاح میں رہنے پر مجبور نہ کیا جائے بلکہ ان حالات میں زوجین کی، ان کے رشتہ داروں اور معاشرہ کے دیگر افراد کی بہتری اور مصلحت اسی میں ہے کہ عقد نکاح کو توڑنے کے لیے شوہر بیوی کو طلاق دے دے اور ایسی صورت حال میں اسے طلاق دینے سے روکا نہ جائے۔
جواب: اسلام میں طلاق کو ناپسندیدہ فعل قرار دینے کے باوجود ناگزیر ضرورت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ طلاق دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ طلاق کی نوبت آنے میں عورت اور مرد دونوں کا انفرادی اور اجتماعی کردار اہمیت رکھتا ہے۔ درج ذیل چند وجوہات ایسی ہے جن کی وجہ سے طلاق کی نوبت آتی ہے:
1۔ طلاق کی عمومی وجہ مرد اور عورت کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث پیدا ہونے والی طبعی یا عارضی نفرت ہوتی ہے جس کے بعد عورت اور مرد میں درگزر اور ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے زندگی بسر کرنے میں مشکلات پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس میں عورت یا مرد کے انفرادی کردار کے علاوہ ان کے رشتہ داروں کی نازیبا مداخلت سمیت بے شمار معاشرتی، نفسیاتی اور نفسانی معاملات کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
2۔ میاں بیوی کے مزاج میں مناسبت کا نہ ہونا اور ان کے دل سے ایک دوسرے کو قبول نہ کرنا۔
3۔ ان کے درمیان معاشی و معاشرتی حیثیت کا فرق پایا جانا۔
4۔ دونوں کی ذہنی و علمی استطاعت میں تضاد پایا جانا، جس کی وجہ سے قربت کے ہوتے ہوئے بھی دوری کا احساس رہے۔
5۔ زوجین کے درمیان جنسی و اخلاقی کمزوریوں کا حائل ہو جانا۔
مذکورہ بالا وجوہات طلاق کا باعث بنتی ہیں اور ایسے حالات کے پیش نظر عقلی تقاضا یہی ہے کہ دونوں میں علیحدگی ہو جائے کیونکہ اگر مذکورہ متضاد رویوں اور حالات کے باوجود میاں بیوی کو ساتھ رہنے پر مجبور کیا جائے گا تو مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے بوجھ بن جائیں گے۔ طلاق نہ دینے کی صورت میں دونوں کا گھریلو سکون غارت ہو جائے گا جس سے بچے اور خاندان بری طرح متاثر ہوں گے۔ طلاق دینے کی صورت میں عورت سے مہر، تمام زیورات، ملبوسات یا تحائف وغیرہ کوئی شے بھی واپس لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بصورتِ خلع بھی عورت کا مرد سے بلاوجہ و بلا جواز طلاق کامطالبہ کرنے کو اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے۔
جواب: بلحاظِ کیفیت طلاق کی تین قسمیں ہیں:
1۔ طلاقِ اَحسن
2۔ طلاقِ حسن
3۔ طلاقِ بدعی
جواب: طلاقِ اَحسن وہ طلاق ہے جس کے مطابق شوہر اپنی زوجہ مدخولہ کو ایسے طہر میں ایک رجعی طلاق دے جس میں اس سے مباشرت نہ کی ہو۔ پھر اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے۔ اس میں دورانِ عدت مرد کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد عورت بائنہ ہو جاتی ہے اور فریقین کی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح بھی ہو سکتا ہے۔
جواب: طلاقِ حسن وہ طلاق ہے جس کے ذریعے شوہر اپنی زوجہ مدخولہ کو ایسے طہر میں ایک رجعی طلاق دے جس میں اس سے صحبت نہ کی ہو۔ اس حساب سے تین طہر میں تین طلاقیں مکمل ہوں گی اور اب شرعی حلالہ کے بغیر دوبارہ عقد نہیں ہو سکتا۔
طلاقِ حسن کو طلاق سنت بھی کہتے ہیں۔ طلاقِ حسن کے طلاقِ سنت ہونے میں اختلاف ہے مگر احناف اپنے قول کی بنیاد قرآن حکیم کی آیت {فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ}(1) ’تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو‘ پر رکھتے ہیں۔ اس آیت مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ طلاق عدت کے واسطے ہے یعنی تین طہروں میں تین طلاقیں دی جائیں۔
(1) الطلاق، 65: 1
اَحناف اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا واقعہ بطورِ استدلال پیش کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی۔ اس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا جس پر آپ ﷺ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ عبد اللہ نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
إنَّ مِنَ السُّنَّةِ أَنْ تَسْتَقْبِلَ الطُّهْرَ اسْتِقْبَالًا فَتُطَلِّقَهَا لِکُلِّ طُهْرٍ تَطْلِیقَةً.
کاسانی، بدائع الصنائع، 3: 89
بے شک مسنون طلاق اس طرح ہوتی ہے کہ تم ہر طہر میں ایک طلاق دو۔
جواب: طلاقِ بدعی کو غیر مسنون طلاق کہتے ہیں جو کہ موجبِ گناہ ہے۔ طلاقِ بدعی یا غیر مسنون طلاق یہ ہے کہ شوہر عورت کو تین طلاقیں بیک لفظ یا ایک ہی ایسے طہر میں دے جس میں مباشرت کرچکا ہو، یا حیض کی حالت میں طلاق دے یا حالت حمل میں طلاق دے۔ طلاق دینے کا یہ طریقہ ناجائز ہے۔ طلاق بدعی کسی بھی صورت میں دی ہو واقع ہو جاتی ہے لیکن اس کا دینے والا گنہگار ہوتا ہے۔
جواب: طلاق بدعی کی دو اقسام ہیں:
1۔ باعتبارِ وقت
2۔ باعتبارِ تعداد
اگر ایسے وقت میں رجعی طلاق دی جائے جس وقت کہ عورت کو حیض آرہا ہو تو یہ طلاقِ بدعی کہلائے گی۔ ایسی صورت میں مرد کو چاہیے کہ وہ رجوع کرے۔ حالتِ حیض میں طلاق دینے کی صورت میں رجوع کا وجوب اس روایت سے ثابت ہے:
جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی اور اس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا تو آپ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اپنے بیٹے کو حکم دو کہ وہ رجوع کرے۔
(1) بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب: اذا طلقت الحائض یعتد بذلک الطلاق، 5: 2011، رقم: 4953
امام مرغینانی حنفی نے ’الھدایۃ‘ میں لکھا ہے کہ جو طلاق حیض کی حالت میں دی جائے اس میں رجوع واجب ہے تاکہ امر حقیقی معنی یعنی وجوب پر عمل ہو جائے اور حتی الامکان گناہ سے بچا جا سکے اور عورت کو بھی طویل عدت سے ضرر نہ پہنچے۔
حیض کی حالت میں طلاق دینا اس مصلحت کی بناء پر غیر مسنون ہے کہ اس وقت مرد کو عورت کی جانب طبعاً رغبت نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں ایسا کرنے سے عدت کا زمانہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ جس حیض میں طلاق دی جاتی ہے وہ حیض عدت میں شمار نہیں ہوتا اور عورت کو بے جا زحمت اٹھانا پڑتی ہے۔
اس طرح وقت کے اعتبار سے وہ طلاق بھی غیر مسنون کہلائے گی کہ مرد اپنی بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں وہ اپنی بیوی سے صحبت کر چکا ہو۔ ایسی طلاق اس بناء پر خلافِ سنت ہے کہ ممکن ہے کہ عورت حاملہ ہو جس کے سبب عورت کو زیادہ عرصہ (وضع حمل تک) عدت میں بیٹھنا پڑے۔ اگرچہ یہ طلاق خلافِ سنت ہے مگر واقع ہو جاتی ہے۔
ایک طہر میں ایک طلاق دینے کی بجائے بیک وقت دو یا تین طلاقیں دینا بدعی طلاق کی تعریف میں داخل ہے خواہ طلاق ایک ہی حکم سے ہو یا متفرق کلمات سے مثلاً شوہر کا اپنی بیوی کو یہ کہہ کر طلاق دینا کہ ’تجھے تین طلاق‘ یا یہ کہے کہ ’تجھے طلاق، طلاق، طلاق‘۔
جمہور فقہاء کے نزدیک بلفظ واحد یا بوقتِ واحد تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں واقع ہوں گی۔ البتہ اس طرح طلاق دینے والا گہنگار ہوگا۔ یک بارگی طلاق دینے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ اس طرح طلاق دینے سے منشاء قرآن {اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌم بِاِحْسَانٍ} ’طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے‘ کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
البقرۃ، 2: 229
جواب: بلحاظِ تاثیر طلاق کی تین اقسام ہیں۔ اس سے مراد وہ اقسام ہیں جو طلاق کے وقوع کے بعد طلاق کے اثرات اور اس کے نتائج کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کی اقسام درج ذیل ہیں:
1۔ طلاقِ رجعی
2۔ طلاقِ بائن
3۔ طلاقِ مغلّظہ
جواب: رجعی کا لفظ ’رجعت‘ سے ہے اور رجعت کے معانی آگے بڑھانا، رجوع کرنا، پہل کرنا، تیزی کرنا وغیرہ کے ہیں۔ شرعی اعتبار سے طلاقِ رجعی وہ طلاق ہے جس کے بعد دورانِ عدت مرد کا اپنی زوجہ کو دی گئی طلاق کو واپس لوٹا کر دوبارہ بیوی بنا لینے اور تجدید نکاح کے بغیر رجوع کرنے کاحق باقی رہتا ہے۔ چنانچہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک یا دو صریح طلاقیں دے مگر طلاق کے ساتھ بائن کا لفظ استعمال نہ کرے مثلاً یوں کہے کہ ’میں نے تجھے طلاق دی‘ یا طلاق کے ساتھ ایک یا دو کا لفظ بھی استعمال کرے تو یہ طلاقِ رجعی ہوگی اور مرد عدت کے اندر اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے؛ خواہ بیوی راضی ہو یا نہ ہو۔
جواب: طلاقِ بائن سے مراد ایسی طلاق ہے جس میں اگر مرد نے عورت کو ایک یا دو طلاقِ رجعی دے کر اس سے رجوع نہیں کیا تو عدت گزرنے کے بعد وہ عورت ’بائن‘ ہوجاتی ہے یعنی مرد اور عورت کے مابین رشتہ زوجیت منقطع ہو جاتا ہے۔ عدت کے بعد اگر فریقین باہم رضا مند ہوں تو ازسر نو نئے حق مہر کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں۔ چنانچہ کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے اور اس کے ساتھ بائن کا لفظ استعمال کرے مثلاً یوں کہے کہ ’میں تجھے ایک طلاق بائن یا دو طلاق بائن دیتا ہوں‘ تو اس عورت پر طلاق بائن واقع ہو جائے گی یا طلاق کی نیت سے ایسے کنایہ الفاظ بولے جن سے میاں بیوی کا تعلق ختم ہونا ثابت ہو پھر بھی نکاح ختم ہو جائے گا اور مرد عدت کے زمانہ میں بھی اپنی بیوی سے بغیر تجدید نکاح رجوع نہیں کر سکتا۔ البتہ عدت میں یا عدت گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔
جواب: طلاق مغلّظہ کو طلاقِ بائن کبریٰ بھی کہتے ہیں۔ اس سے مراد ایسی طلاق ہے جس میں تین طلاقیں تین طہروں میں متواتر دی جائیں یا ایک ہی طہر میں تین یا ایک ہی لفظ میں تین طلاقیں دے دی جائیں۔ اس کے بعد مرد اُس عورت سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتا یہاں تک کہ اس کی مطلقہ بیوی کسی دوسرے شخص سے نکاح کر کے اس سے مباشرت کے بعد طلاق حاصل نہ کرے یا وہ مرد فوت نہ ہو جائے۔
جواب: جی ہاں! طلاقِ رجعی کے دوران زوجین اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْم بُیُوْتِهِنَّ.
الطلاق، 65: 1
انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو۔
یعنی طلاق دینے کے بعد عورت کو گھر سے نہیں نکالنا چاہیے تاکہ وہ عدت اپنے شوہر کے گھر اس نیت سے گزارے کہ صلح کی کوئی صورت سامنے آجائے اور رجوع کے لیے زوجین ایک دوسرے کے مدد گار ہونے کی کوشش کرتے رہیں تاکہ رشتہ زوجیت دوبارہ قائم ہو کر خاندان اور معاشرہ محفوظ رہے۔
{اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ} ’طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے‘ کے نظریہ طلاق میں بھی اصلاح کا راز پوشیدہ ہے کیونکہ اس سے زوجین کو اپنے رویہ پر نظرِ ثانی کر کے اپنی اصلاح کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ اسلام کا وہ نظام ہے جس میں زوجین کو عدت کے دوران ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اصلاح کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس آیت میں ایسے سماجی ماحول کا بھی تقاضا کیا جا رہا ہے جس کے تحت ناراض زوجین عدت کے دوران ایک چھت یا گھر میں رہیں اور اگر ناراضگی کا خاتمہ کر کے رجوع کرنا چاہیں تو انہیں ایسا ماحول بھی میسر رہے۔
جواب: طلاق رجعی کی صورت میں شوہر زبانی، تحریری یا عملی طور پر عدت کے اندر جس طریقہ سے بھی رجوع کر لے تونکاح برقرار رہے گا اور بطور میاں بیوی رہنا درست ہوگا۔
جواب: طلاق ثلاثہ کو فقہی زبان میں طلاقِ فاسد، باطل اور بدعت قرار دیا گیا ہے۔ اسلام میں اس کے باطل یا فاسد قرار پانے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ قدیم روایات کی پیروی میں دی جاتی ہے اور اسلام نے شرعی طلاق کا جو طریقہ بیان کیا ہے اس کے برعکس ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شرعی طلاق کے مقاصد کے خلاف ہے اور ایسی طلاق میں خرابی کی بنیاد یہ ہے کہ طلاقِ ثلاثہ فوری مؤثر قرار پاتی ہے۔ اس طرح عدت کے دوران زوجین کو اصلاح کرنے کے مواقع میسر نہیں آتے جو عدت کے دوران زوجین کے رجوع کے حقوق کے منافی ہے۔ بیک وقت تین طلاقیں دینا نصوصِ صریحہ کی بناء پر گناہ ہے۔ طلاقِ ثلاثہ کو حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی ناپسند فرمایا ہے۔ حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أُخْبِرَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ عَن رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہٗ ثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ جَمِیْعًا، فَقَامَ غَضْبَاناً ثُمَّ قَالَ: أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اللهِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْھُرِکُمْ.
نسائی، السنن، کتاب الطلاق، باب الثلاث المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ، 6: 104-105، رقم: 3401
رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دی ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ کھڑے ہوگئے اور غصہ کی حالت میں ارشاد فرمانے لگے: کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب مقدس کی صریح تعلیمات کا مذاق اڑایا جاتا ہے حالانکہ میں تم میں موجود ہوں۔
مذکورہ حدیث کی رو سے حضور نبی اکرم ﷺ کا طلاقِ ثلاثہ دینے پر ناراضگی کا اظہار فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا انتہائی مکروہ عمل ہے اور اللہ تعالیٰ کی حدود کی خلاف ورزی ہے۔
جواب: طلاقِ ثلاثہ کی اسلام میں کوئی بھی صورت قابل پذیرائی نہیں ہے اور ایسی طلاق کو رواج دینا اسلام میں ناپسندیدہ عمل ہے۔ طلاق ثلاثہ کی ہر صورت حرام ہے۔ تاہم طلاقِ ثلاثہ کی عمومی طور پر درج ذیل چار صورتیں ہیں:
یہ ہے کہ طلاقِ ثلاثہ ایک ہی لفظ سے یا ایک وقت میں دی جائے مثلاً کہا جائے کہ ’میں نے تمہیں تین طلاقیں دیں‘ یا کہا جائے کہ ’میں نے تمہیں طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی‘ یا ہاتھ کے اشارے سے (تین انگلیاں) دکھا کر طلاق دی یا تحریری طور پر تین طلاق لکھے یا طلاق بتا کر دے وغیرہ۔
یہ ہے کہ عدت کے دوران ہر طہر میں بلامباشرت ایک طلاق دی جائے اور تیسرے ماہ میں تیسری طلاق دی جائے۔ اس طرح مرد کا رجوع کا حق دو ماہ یا طہر کے دوران میں قائم رہنے کے باوجود تیسرے ماہ میں تیسری طلاق دینے کے فوراً بعد ختم ہو جائے گا اور اس طرح عورت تیسرے ماہ میں طلاق رجعی کے حکم سے طلاق مغلظہ کے حکم میں داخل ہو جائے گی۔
حالتِ حیض میں طلاق دینا ہے جس سے حضور نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے کیونکہ حیض کے دوران طلاق سے عدت کی میعاد میں رد و بدل کا امکان رہتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا واقعہ واضح دلیل ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دے دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
مُرْہُ فَلْیُرَاجِعْھَا، ثُمَّ لِیُمْسِکْھَا حَتّٰی تَطْھُرَ، ثُمَّ تَحِیْضَ ثُمَّ تَطْھُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَکَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ یَمَسَّ۔ فَتِلْکَ الْعِدَّۃُ الَّتِی أَمرَ اللهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَھَا النِّسَاءُ.
بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب: قول اللہ تعالیٰ: یا ایھا النبی إذا طلقتم النساء، 5: 2011، رقم: 4953
اپنے بیٹے کو حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے، پھر اس کو اپنے پاس رکھے حتیٰ کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے۔ پھر اسے دوبارہ حیض آئے اور پھر وہ اس حیض سے پاک ہو جائے۔ پھر اگر وہ چاہے تواس کے بعد اسے اپنے پاس رکھے اور اگر چاہے تو اس کے ساتھ جماع کرنے سے پہلے اس کو طلاق دے دے۔ سو یہ وہ وقت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ اِس وقت میں اپنی بیویوں کو طلاق دو۔
لہٰذا حالتِ حیض میں طلاق دینا اگرچہ قابلِ مذمت ہے، تاہم طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
یہ ہے کہ طلاق دینے والا اپنے کسی قول یا فعل سے ایسا اظہار کرے جس سے کسی معنی میں صراحتاً یا اشارتاً تین طلاقیں دی گئی ہوں۔
جواب: واضح اور صاف الفاظ میں طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس میں طلاق دینے والے کی نیت کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا اور ایسی طلاق کو طلاقِ صریح بھی کہتے ہیں۔ مثلاً شوہر اپنی بیوی سے یوں کہے: ’تجھے طلاق ہے‘، ’میں نے تجھے طلاق دی‘، ’تو مطلقہ ہے‘ وغیرہ۔ اگر کوئی شخص لفظ ’طلاق‘ کے علاوہ کسی ایسے لفظ سے طلاق دے جو اس زبان میں طلاق کے لیے مخصوص ہو تو اس کا حکم صریح طلاق ہوگا۔ اس قسم کے تین الفاظ ہیں، مثلاً ’اعتدی (توعدت شمار کر)‘، ’استبری رحمک (اپنے رحم کو پاک کر لے)‘ اور ’أَنتِ واحدۃ (تو یکتا ہے)‘۔
ان سب صورتوں میں طلاق رجعی واقع ہوگی کیونکہ یہ الفاظ طلاق ہی کے لیے مخصوص ہیں اور کسی دوسرے مفہوم پر دلالت نہیں کرتے۔ لہٰذا ان الفاظ میں نیت کی ضرورت نہیں۔
جواب: ’کنایہ‘ سے مراد غیر واضح لفظ ہے۔ یہاں پر اس سے مراد ایسے الفاظ استعمال کرنا ہے جو ایک سے زیادہ معنی پر دلالت کرنے والے ہوں۔ مثلاً کسی نے اپنی منکوحہ سے یوں کہا: ’تو جدا ہو چکی ہے‘، یا ’تو حرام ہے‘، یا ’تو اپنے میکے چلی جا‘، وغیرہ تو اس سے طلاق مراد بھی ہوسکتی ہے اور نہیں بھی ہو سکتی۔ لہٰذا اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے کے سلسلے میں قاعدہ یہ ہے کہ محض ان الفاظ کے استعمال سے طلاق نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے نیت یا دلالتِ حال کا پایا جانا ضروری ہے۔
چند الفاظ کنایہ درج ذیل ہیں:
1۔ تو بائن ہے۔
2۔ تیری رسی تیرے کاندھے پر ہے یعنی تو مختار ہے۔
3۔ تو حرام ہے۔
4۔ تو اپنے میکے چلی جا۔
5۔ تو نکاح سے خالی ہے۔
6۔ تو نکاح سے بری ہے۔
7۔ میں نے تجھے چھوڑ دیا۔
8۔ میں تجھ سے جدا ہو گیا۔
9۔ میں نے تجھے تیرے گھر والوں کو ہبہ کردیا۔
10۔ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔
11۔ تو آزاد ہے۔
12۔ تو نکل جا، یا تو چلی جا۔
13۔ تو اٹھ جا۔
14۔ تو شوہروں کو ڈھونڈھ لے۔
جواب: درج ذیل اشخاص کی دی ہوئی طلاق واقع نہ ہوگی:
1۔ نابالغ
2۔ پاگل یعنی (مجنون)
3۔ مغلوب العقل (یعنی معتوہ)
4۔ مغشی (یعنی جس شخص پر غشی طاری ہو)
5۔ مدہوش یعنی وہ شخص جس کی عقل جاتی رہے۔
6۔ خوابیدہ یعنی سوئے ہوئے شخص
7۔ سرسام زدہ
8۔ مغمیٰ علیہ(بے ہوش)
طلاق دینے والے کا بالغ ہونا ضروری ہے۔ نابالغ کی طلاق بالاتفاق واقع نہیں ہوتی اگرچہ وہ قریب البلوغ ہو۔
پاگل یا مجنون اس شخص کو کہتے ہیں جس کی عقل زائل ہو چکی ہو۔ فقہاء کے نزدیک مجنون اس شخص کو کہتے ہیں جس کی قوت غیر جنون کے سبب مختل ہو جائے اچھے اور بر ے میں فرق نہ کر سکے اور اپنے افعال کے انجام کو سمجھنے کی قوت نہ رہے، خواہ پیدائشی طور پر یا کسی آفت یا عارضہ کی بناء پر ہو۔ ایسے شخص کی طلاق واقع نہ ہوگی۔
معتوہ (مغلوب العقل) کا لفظ عتہ سے مشتق ہے۔ اس کے لغوی معنی اِختلالِ عقل کے ہیں۔ اِصطلاحاً معتوہ اس شخص کو کہتے ہیں جو بے عقل ہو، بے ربط باتیں کرتا ہو اور جو منہ میں آئے بول جائے۔ سو ایسے شخص کی طلاق واقع نہ ہوگی۔
مغشی کا لفظ غشيٌ سے مشتق ہے جو محرک اور حسی قوتوں کے تعطل کا نام ہے۔ غشی ایک بے اختیار نیند کے مانند ہے جو بالعموم ضعفِ قلب کے سبب طاری ہوتی ہے۔ چونکہ ایسی حالت میں انسان کا دل و دماغ اپنے قابو میں نہیں ہوتا اس لیے اس شخص کو اَحکامِ شرع کا مکلف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے مغشی کی طلاق بالاتفاق واقع نہیں ہوتی۔
مدہوش کا لفظ دھش سے مشتق ہے اور اس کے معنی ذہب العقل کے ہیں یعنی وہ شخص جس کی عقل جاتی رہے۔ فقہی اصطلاح میں مدہوش وہ شخص کہلاتا ہے جو کسی صدمہ، مصیبت یا اچانک حادثہ کے سبب عقل کھو بیٹھے۔
مدہوش کا ذہن ماؤف ہو جاتا ہے اور قوتِ فکر زائل ہو جاتی ہے۔ اس لیے وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے وقتی طو پر محروم ہونے کے سبب اپنے قول و فعل پر اختیار نہیں رکھتا۔ مدہوش شخص کی طلاق بالاتفاق واقع نہیں ہوتی۔
نائم یعنی سوئے ہوئے شخص کی طلاق بالاتفاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ اس کا کلام معتبر نہیں ہوتا۔
بعض اوقات کسی مرض کے سبب دیوانوں جیسی حالت ہو جاتی ہے مثلاً سرسام۔ لہٰذا سرسام زدہ شخص کی طلاق بالاتفاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ اسے صحیح العقل قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس وقت اس کی مثال ایک مجنون یا معتوہ غیر مسلسل کی سی ہے۔
جس شخص کو غشی کے دورے پڑتے ہوں تو ایسے شخص کو فقہی اصطلاح میں مغمیٰ علیہ کہا جاتا ہے اور اس کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved