جواب: جی ہاں! حق مہر کے بغیر بھی نکاح ہوسکتا ہے۔ لیکن شرعاً مہر لازم تصور کیا جائے گا اور مرد پر مہر مثل واجب ہوگا۔ اگر نکاح اس شرط کے ساتھ کیا جائے کہ نکاح میں کوئی مہر نہ ہوگا تو شرط ساقط ہو جائے گی اور مہر مثل واجب ہوگا۔ جیساکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
ان سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے کسی عورت سے شادی کی لیکن نہ تو مہر مقرر کیا اور نہ ہی مباشرت کی اور پھر وہ فوت ہوگیا (تو اس کا کیا حکم ہے؟) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے خاندان کی دوسری عورتوں کے برابر اس کا مہر ہوگا (یعنی مہر مثل)، نہ کم ہوگا اور نہ زیادہ۔ اس پر عدت بھی ہے اور اس کے لیے ترکہ بھی ہے۔ معقل بن سنان اشجعی نے اٹھ کر کہا ہمارے خاندان کی ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں حضورنبی اکرم ﷺ نے ایسا ہی فیصلہ فرمایا تھا۔
ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب النکاح باب ماجاء فی الرجل یتزوج المرأۃ فیموت منھا قبل ان یفرض لھا، 2: 432-433، رقم: 1145
جواب: شرعاً سوا بتیس روپے مہر کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، مہر کی کم از کم مقدار میں اصل اعتبار وزن کا ہے اور وہ دس درہم ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے عہد میں مہر کی کم سے کم حد دس درہم مقرر فرمائی۔ بعد ازاں کسی زمانے میں یہ دس درہم سوا بتیس روپے بنتے ہوں گے۔ درحقیقت دس درہم کی چاندی ہمارے مروّجہ وزن کے مطابق دو تولے ساڑھے سات ماشے بنتی ہے۔ اتنی مقدار میں چاندی یا اس کے برابر کوئی بھی مالیت مہر شرعی کی کم از کم مقدار ہے۔ اس سے کم کرنا درست نہیں۔
شرعی مہر یہ ہے کہ مرد کے پاس جتنے وسائل اور مالی استعداد ہو، وہ اس کے مطابق مہر مقرر کرے۔ کسی کے لیے ہزار روپے مہر ہو سکتا ہے اور کسی کے لیے دو ہزار روپے مہر ہو سکتا ہے تو کسی کے لیے دس ہزار روپے مہر بھی ہو سکتا ہے اور شادی کے بعد کسی وقت اگر عورت اپنا مہر طلب کرے اور کہے کہ یکمشت مہر دو تو مرد یکمشت مہر ادا کر سکے۔
دس درہم آج بھی پاکستان کے حساب کے چار سو روپے سے کم نہیں ہو گا تو کم سے کم حق مہر پانچ سو ہونا چاہیے۔ زیادہ جتنی اللہ پاک طاقت دے۔ مہر والدین کا حق نہیں ہے، بیوی کا حق ہے۔ اتنا مہر مقرر کیا جائے جتنا ادا کیا جا سکے۔ مہر کا ادا کرنا لازم ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب طلاق ہی نہیں دینی تو اس کا ادا کیا کرنا۔
مہر کا تعلق طلاق سے نہیں بلکہ نکاح سے ہے۔ اس کا ادا کرنا لازم ہے۔ تاوقتیکہ عورت خود معاف کر دے۔ بعض لوگ اپنی بیٹیوں کے لیے لاکھوں روپے کا مہر اس نیت سے مقرر کروا لیتے ہیں کہ لڑکا لڑکی کو طلاق نہ دے۔ ایسا کرنا ناجائز ہے۔
جواب: عقد صحیح کی صورت میں مکمل مہر دینا واجب ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر مہر مقرر کیا گیا ہو اور خلوتِ صحیحہ بھی ہو چکی ہو تو مقرر شدہ مہر پورے کا پورا دینا ہوگا۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:
وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَةً ط فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَکُلُوْهُ ھَنِیْئًا مَّرِیْئًاo
النساء، 4: 4
اور عورتوں کو ان کے مَہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس (مَہر) میں سے کچھ تمہارے لیے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لیے) سازگار اور خوش گوار سمجھ کر کھائوo
جواب: اگر بلوغت سے قبل نکاح ہوا تو اس صورت میں مہر کی ذمہ داری ولی پر ہوگی، لیکن شوہر کے بالغ ہو جانے کے بعد نکاح کو قائم رکھنے کی صورت میں مہر کی ذمہ داری شوہر پر ہوگی اور ولی بری الذمہ ہوجائے گا کیونکہ مہر کی ادائیگی کی ذمہ داری براهِ راست شوہر پر عائد ہوتی ہے۔
جواب: عورت سے ایسا فعل سرزد ہو جس سے دونوں میں علیحدگی واجب ہو جائے۔ مثلاً وہ عورت کسی ایسے کام کا ارادہ کرے یا اس کی مرتکب ہو جس سے حرمتِ مصاہرت (ازدواجی رشتہ والی حرمت) عائد ہو جائے تو مہر بالکل ساقط ہو جائے گا۔ اگر نکاح کرتے وقت مہر مقرر کیا گیا ہو مگر خلوتِ صحیحہ کی نوبت نہ آئے تو ایسی صورت میں عورت کو نصف حق مہر ملے گا۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:
وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِیْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلآَّ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ بِیَدِهٖ عُقْدَةُ النِّکَاحِ ط وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ط وَلاَ تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ ط اِنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo
البقرۃ، 2: 237
اور اگر تم نے انہیں چھونے سے پہلے طلاق دے دی درآنحالیکہ تم ان کا مَہر مقرر کر چکے تھے تو اس مَہر کا جو تم نے مقرر کیا تھا نصف دینا ضروری ہے سوائے اس کے کہ وہ (اپنا حق) خود معاف کر دیں یا وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے معاف کردے (یعنی بجائے نصف کے زیادہ یا پورا ادا کر دے)، اور (اے مردو!) اگر تم معاف کر دو تو یہ تقویٰ کے قریب تر ہے، اور (کشیدگی کے ان لمحات میں بھی) آپس میں احسان کرنا نہ بھولا کرو، بے شک اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہےo
جواب: مہر نہ دینے کی نیت سے زیادہ مہر بتانا اور اسی نیت پر نکاح کرلینا ناپسندیدہ عمل ہے۔ ہمارے ملک میں آج کل یہ رواج عام ہو گیا ہے کہ نکاح کے وقت لاکھوں روپے کی دستاویز بطور مہر یہ سمجھ کر لکھ دی جاتی ہیں کہ کون لیتا اور کون دیتا ہے۔ گویا ابتداء ہی سے ادا کرنے کی نیت نہیں ہوتی۔ اس بابت حضور نبی اکرم ﷺ نے سخت وعید فرمائی ہے:
مَنْ تَزَوَّجَ إِمْرَاةً بِصَدَاقٍ وَهُوَ یَنْوِي أَنْ لاَّ یُؤَدِّیْهِ إِلَیْهَا فَھُوَ زَانٍ.
دولابی، الکنی والأسمائ، 1: 307، رقم: 540
جس نے مہر کے عوض کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ وہ اس مہر کو اُسے ادا نہ کرے گا، وہ دراصل بدکار ہے۔
اس قسم کے مہر باندھنے کاحقیقی مقصد یہ ہوتا ہے کہ شوہر پر ہمیشہ دباؤ رہے اور وہ طلاق نہ دے سکے۔ لیکن جیسا کہ تجربہ شاہد ہے اس کانتیجہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ اگر میاں بیوی میں عدم موافقت ہو جائے اور وہ دونوں مل کر نہ رہ سکیں تو یہی زیادتیِ مہر عورت کے لیے وبالِ جان بن جاتی ہے۔ شوہر محض مہر کی ادائیگی کے خوف سے اس کو طلاق نہیں دیتا اور سالہاسال بلکہ بعض اوقات ساری عمر کے لیے وہ بیچاری معلق پڑی رہتی ہے۔ حق مہرکے تقرر کا معاملہ مرد اور عورت کے معاشی و معاشرتی مقام سے منسلک ہے۔ لہٰذا مہر کی رقم کا تعین کرتے وقت انتہائی احتیاط سے کام لینا ضروری ہے۔ ہر شخص کو اپنی مالی حیثیت کے مطابق یہ رقم مقرر کرنی چاہیے کیونکہ نکاح کے وقت عورت اور مرد کے درمیان مہر جب ایک دفعہ مقرر ہو جائے تو اس کا پورا کرنامرد پر لازم ہو جاتا ہے۔
لیکن ہمارے معاشرے میں عموماً یہ رواج بن چکا ہے کہ بیوی حق مہر معاف کردیتی ہے یااس سے معاف کروا لیا جاتا ہے اور خواتین کا مہر لینا بالعموم معیوب سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ بعض لوگ حق مہر کا تعین محض ظاہری دکھلاوے کے لیے کرتے ہوئے بڑھا چڑھا کر لکھواتے ہیں کہ ہمیں کون سا دینا پڑے گا۔ اس قسم کی صورتِ حال میں شریعت کا یہ اصول ذہن نشین رہنا چاہیے کہ مہر کی رقم دراصل بیوی کا قرضہ ہے جس کی ادائیگی شوہر کے ذمہ ضروری ہے۔ جو لوگ اسے ساری عمر ادا نہیں کرتے وہ مقروض مرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جس سے سبک دوش نہیں ہوا جاسکتا سوائے اس کے کہ عورت یا تو اسے مہلت دے دے یا اس پر احسان کر کے برضا و رغبت اپنے حق سے دست بردار ہو جائے اور یا اس کی ناداری کا لحاظ کرتے ہوئے بخوشی معاف کردے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْتُمْ بِهٖ مِنْم بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ.
النساء، 4: 24
اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ۔
بصورتِ دیگر مرد پر مہر کی بروقت ادائیگی لازم ہے۔ لہٰذا حق مہر کے تعین کے وقت مرد و عورت کی مالی حیثیت کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے تاکہ مرد اپنی ذمہ داری ادا کر سکے اور عورت کو اس کا حق مل سکے۔
جواب: شادی کے موقع پر اصل مہر چھپا کر بڑھا چڑھا کر بیان کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ اتنا مہر ہی بتایا جائے جتنا کرنا ہے کیونکہ اس طرح معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ لیکن اگر کسی وجہ سے اصل مہر کو چھپا کر مہر بڑھا کر بیان کرنا پڑ جائے تو اس صورت میں فقہاء کے نزدیک اصل مہر کو مخفی رکھنے اور اس کا اعلان کرنے کی دو صورتیں ہیں:
پہلی صورت یہ ہے کہ فریقین مخفی مہر کی مقدار کے بارے میں عقدِ نکاح کیے بغیر متفق ہو جائیں اور پھر عقدِ نکاح کے وقت اس سے زیادہ مہر کا اعلان کیا جائے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ مخفی طور پر کسی مہر پر عقدِ نکاح ہو جائے پھر ایک اور مہر پر اعلانیہ عقد کیا جائے۔ مثلاً مخفی طور پر تو دو ہزار پر عقد ہوا، پھر اعلانیہ دس ہزار پر عقد کیا جائے۔ یا اعلانیہ عقد نہیں ہوا لیکن بتایا یہ گیا کہ عقد دس ہزار پر ہوا ہے۔ ایسی حالت میں اگر دونوں فریق متفق ہیں یا جتنے پر نکاح ہوا ہے اس کے گواہ موجود ہیں تو وہی مہر قا بلِ اعتبار ہو گا جو مخفی طور پر طے پایا گیا ہے۔
جواب: اگر خاوند بروقت مہر ادا کرنے اور ہر طرح کا خرچ پورا کرنے سے عاجز ہے تو اس صورت میں بیوی کو تنسیخ نکاح حق حاصل ہے۔ البتہ میاں بیوی کو چاہیے کہ باہمی مودت و محبت سے رہیں اور ایک دوسرے کے حقوق پورے کریں تاکہ معاشرے کی اکائی مجتمع رہے اور اس کا شیرازہ نہ بکھرے۔
جواب: بیوی کا مہر شوہر کے ذمہ قرض ہوتا ہے۔ جس طرح دوسرے قرض واجب الادا ہوتے ہیں، اُسی طرح مہر کی ادائیگی بھی لازم ہے۔ عورت کو حق مہر معاف کرنے کے لیے مجبور کرنا کسی صورت بھی جائز نہیں اور اگر عورت نے ڈر اور خوف سے معاف کر بھی دیا تو معاف نہ ہوگا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَزَوَّجَ إِمْرَاةً بِصَدَاقٍ وَهُوَ یَنْوِي أَنْ لاَّ یُؤَدِّیْهِ إِلَیْهَا فَھُوَ زَانٍ.
دولابی، الکنی والأسمائ، 1: 307، رقم: 540
جس نے مہر کے عوض کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ وہ اس مہر کو اُسے ادا نہ کرے گا، وہ دراصل بدکار ہے۔
جواب: نکاح کرتے وقت اگر مہر مقرر کیا گیا ہے یا وقتِ نکاح مہر بیوی کو دے دیا اور خلوتِ صحیحہ کی نوبت نہ آئی کہ طلاق واقع ہوگئی تو اس صورت میں عورت کو نصف حق مہر ملے گا۔ البتہ عورت اپنی رضامندی سے نصف حق مہر سے دست بردار ہوسکتی ہے یا خاوند اگر نصف کی بجائے پورا حق مہر ادا کرتا ہے تو ایسا کرنا بھی درست ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِیْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلآَّ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ بِیَدِهٖ عُقْدَةُ النِّکَاحِ ط وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ط وَلاَ تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ ط اِنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo
البقرۃ، 2: 237
اور اگر تم نے انہیں چھونے سے پہلے طلاق دے دی درآنحالیکہ تم ان کا مَہر مقرر کر چکے تھے تو اس مَہر کا جو تم نے مقرر کیا تھا نصف دینا ضروری ہے سوائے اس کے کہ وہ (اپنا حق) خود معاف کر دیں یا وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے معاف کردے (یعنی بجائے نصف کے زیادہ یا پورا ادا کر دے)، اور (اے مردو!) اگر تم معاف کر دو تو یہ تقویٰ کے قریب تر ہے، اور (کشیدگی کے ان لمحات میں بھی) آپس میں احسان کرنا نہ بھولا کرو، بے شک اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔
جواب: خلوتِ صحیحہ سے قبل خلع کی ذمہ دار عورت ہے۔ مثلاً عورت سے کوئی ایسا فعل صادر ہوا جس سے حرمتِ مصاہرت واقع ہو جائے یا یہ کہ وہ مرتد ہو جائے یا خلع کی صورت میں علیحدگی اختیار کی ہو تو ان صورتوں میں عورت مالِ مہر کی حق دار نہ ہوگی۔ بلکہ خاوند نے مہر میں بیوی کو جتنا مال دیا ہے وہ اسے واپس لوٹائے گی۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ.
البقرۃ، 2: 229
پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے۔
دیئے گئے مہر سے زیادہ مال بیوی سے لینا ناجائز ہے۔
جواب: اگر بیوی نے اپنا مالِ مہر جو مالِ تجارت وغیرہ کی شکل میں ہے خاوند کے ہاتھ فروخت کر دیا اور پھر مباشرت سے قبل اسے طلاق ہوگئی تو خاوند اُس شے کی نصف مالیت کا جو قبضہ والے دن تھی، بیوی سے مطالبہ کرے گا۔ اُس دام کے نصف کا مطالبہ نہیں کر سکتا جو اس نے ادا کیا ہے۔
جواب: اگر بیوی نے اپنا مالِ مہر خاوند کو ہبہ کر دیا ہے تو دیکھنا ہوگا کہ پورا مالِ مہر ہبہ کیا ہے یا کچھ حصہ۔ وہ مالِ مہر یا تو نقدی ہوگا یا جنسی اور یہ کہ ہبہ قبضہ لینے سے پہلے یا کرنے کے بعد کیا۔ اگر وہ مال نقدی ہے اور کل مال قبضہ لینے کے بعد ہبہ کیا ہے تو وہ ہبہ لاگو ہو جائے گا اور اب اسے کسی طرح خاوند سے واپسی کے مطالبہ کا حق نہ ہو گا۔ کیونکہ بیوی خاوند کو جو کچھ بھی ہبہ کرے وہ اسی طرح لاگو ہوتا ہے جس طرح خاوند کا بیوی کو کچھ ہبہ کرنا۔ لہٰذا اس کی واپسی ناممکن ہے۔
اس لیے خلوتِ صحیحہ سے قبل اگر طلاق ہو گئی اور وہ اپنا تمام مالِ مہر خاوند کو ہبہ کر چکی ہے تو اب اس ہبہ کی واپسی درست نہیں ہے اور مالِ مہر اس ہبہ کی وجہ سے خاوند کا حق ہو جائے گا۔ اب خلوتِ صحیحہ سے قبل طلاق کی صورت میں بیوی نصف مالِ مہر خاوند کو واپس کرے گی۔ جو اس ہبہ کیے گئے مال کے علاوہ ہوگا۔
لیکن اگر بیوی نے مالِ مہر وصول کرنے سے پہلے خاوند کو ہبہ کر دیا اور خلوتِ صحیحہ سے قبل طلاق ہو گئی تو دونوں میں سے کسی کا کوئی مطالبہ دوسرے پر نہیں ہو گا۔ کیونکہ مہر جو خاوند کے ذمہ مقرر ہوا اسے بیوی نے ہبہ کر دیا تواب اس کے بعد کوئی مہر باقی نہ رہا۔
جواب: جی ہاں! عورت اپنا مالِ مہر خاوند کے علاوہ کسی اور کو ہبہ کر سکتی ہے۔ اس پر اس کے ولی یا کسی اور کو اعتراض کا حق نہیں۔ لیکن اگر ہبہ کرنے کے بعد وہ شخص اس مال پر قابض ہوگیا اور عورت کو خلوتِ صحیحہ سے قبل طلاق ہوگئی تو خاوند نصف مہر کا مطالبہ بیوی سے کرے گا۔ اس صورت میں عورت کو حق ہوگا کہ وہ اس اجنبی شخص سے ہبہ شدہ شے کی واپسی کا مطالبہ کرے۔
جواب: زوجین کے درمیان مہر کے تعین کے بارے میں اختلاف پیدا ہونے کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت یہ ہے کہ اختلاف دونوں کی زوجیت بحال رہنے کے دوران پیدا ہوا ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اختلاف خلوتِ صحیحہ اور طلاق کے بعد ہوا ہو۔ ان دونوں صورتوں کا حکم ایک ہے۔ اگر رقم مہر کی مقدار میں اختلاف ہے مثلاً خاوند کہے کہ میں نے ایک ہزار مہر پر نکاح کیا تھا اور بیوی کہے کہ مہر کی مقدار دو ہزار تھی تو اب اس کی تین شکلیں ہیں:
1۔ بیوی جس قدر مہر بتاتی ہے وہ مہر مثل کے مطابق ہو۔
2۔ مہر مثل خاوند کے قول کے مطابق ہو۔
3۔ ان میں سے کسی کے قول کے مطابق نہ ہو مثلا مہر مثل ڈیڑھ ہزار روپے ہو۔
اب جبکہ بیوی دو ہزار مہر بتاتی ہے اور خاوند ایک ہزار کہتا ہے تو پہلی شکل کا حکم یعنی جبکہ اس عورت کے دعوے کے مطابق ہو تو اس کی بات کو قسم کھا کر تسلیم کر لیا جائے گا۔ اگر عورت قسم کھائے کہ ایک ہزار مہر پر شادی نہیں ہوئی جیسا کہ خاوند کہتا ہے تو وہ دو ہزار کی مستحق ہوگی۔ لیکن اگر وہ قسم کھانے سے انکار کر دے تو وہ ایک ہزار کی مستحق ہوگی جس کا خاوند نے دعوی کیا تھا۔ تاہم عورت اگر اپنے دعوی کے ثبوت میں شہادت پیش کر دے تو اسے تسلیم کیا جائے گا اور اس کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ اگر خاوند اپنے دعوے کا ثبوت پیش کر دے تو اس کی بات بھی قابلِ تسلیم ہوگی کیونکہ بیوی کا مطالبہ تو ظاہر کے مطابق ہی ہے یعنی اس کا مہر مثل دعوے کے مطابق ہے لیکن خاوند یہ چاہتا ہے کہ ظاہر کے خلاف ثبوت پیش کرے۔ وہ بیوی ایک ہزار پر راضی ہے جو اس کے مہر مثل سے کم ہو ہے۔ لہٰذا اس کی گواہی کو مقدم رکھا جائے گا۔
حصکفی، الدرالمختار، 1: 202
جواب: جی ہاں! بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ حق مہر نہ ملنے کی صورت میں خاوند کو اپنے سے باز رکھے کیونکہ خاوند پر واجب ہوگا کہ جس قدر مہر معجل طے ہوا ہے وہ پورا ادا کرے۔ اگر اس نے ادا نہ کیا تو عقد نکاح سے جو حقوق اسے حاصل ہوئے وہ سب جاتے رہیں گے۔
جواب: جی نہیں! اگر ایک شخص نے مہر میں غصب کردہ مال دیا مثلاً یوں کہا کہ یہ پراپرٹی یا زیورات مہر ہوں گے حالانکہ وہ شخص اس کا مالک نہیں ہے تو عقد صحیح ہوگا اور اس مال کو مہر قرار دینا بھی درست ہوگا، خواہ اس بات کو وہ دونوں جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں۔ اب اگر عقد کے بعد مال کے حقیقی مالک نے اس میں تصرف کی اجازت دے دی تو عورت اس شے کی حق دار ہو جائے گی جس کا نام لیا گیا اور اگر مالک نے اجازت نہ دی تو وہ اس متعین مال کی قیمت کی حق دار ہوگی جو اس نے غصب کردہ مال بطورِ مہر دیا۔ مہر مثل کی حق دار نہیں ہوگی۔
جواب: جی ہاں! خلوتِ صحیحہ سے قبل شوہر کے فوت ہو جانے کی صورت میں بیوی شوہر کے ترکہ میں سے مکمل حق مہر کی حق دار ہوگی، اس صورت میں کہ اگر مہر کا تعین کیاگیاتھا لیکن اگر مہر مقرر نہیں تھا تو پھر عورت شوہر کے ترکہ میں سے مہر مثل کی حق دار ہوگی۔
جواب: عورت کا مہر شوہر کے ذمہ قرض ہوتا ہے۔ پس اگر وہ کوئی ترکہ (گھر، سامان، کپڑے، نقدی وغیرہ) چھوڑ کر فوت ہوا تو اس سے یہ مہر ادا کیا جائے گا اور اگر وہ چھوڑ کر نہیں فوت ہوا تو اس کے ورثا کے ذمہ اس کا مہر ادا کرنا لازم نہیں۔
جواب: مہر در حقیقت ایک قرض کی نوعیت رکھتا ہے۔ عدمِ ادائیگی کی صورت میں شوہر کی وفات سے ساقط نہیں ہوتا۔ لہٰذا بیوہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا مہر متوفی کی جائیداد یا ترکہ سے وصول کرے۔ ادائیگی مہر کو تمام حقوقِ وصیت اور وراثت پر فوقیت حاصل ہے۔
جواب: ایسی بیوی جو شوہر کی اجازت کے بغیر کسی ایسے عمل کو باربار کرتی ہے جو شوہر کو ناپسند ہے اور شوہر کی نافرمانی بھی کرتی ہے تووہ خطا کار ہے مگر ان حرکات کے سبب مہر ساقط نہیں ہوگا بلکہ شوہر حق مہر دینے کا پابند ہوگا۔ اس لیے کہ مہر کی رقم دراصل بیوی کا قرض ہے جس کی ادائیگی شوہر کے ذمہ واجب ہے۔ بیوی کو عقد میں رکھنے یا نہ رکھنے کا مرد کو اختیار ہے۔ لیکن اگر نہ رکھنا چاہے تو طلاق دے دے۔ مگریہ جائز نہیں کہ گھر سے نکال دے اور طلاق بھی نہ دے اور خبر گیری بھی نہ کرے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved