جواب: مہر اس مالی منفعت کا نام ہے جس کے عوض شرعاً مرد کو عورت پر حقِ زوجیت حاصل ہو جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ.
النساء، 4: 24
اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لیے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے۔
عربی زبان میں مہر کے لیے النحلۃ، الصداق، العقر، الأجرۃ، الصدقۃ، العطیۃ، العلائق، الحباء کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ نکاح کے موقع پر مہر کا تقرر ضروری ہے۔
1۔ ابن منظور، لسان العرب،5: 184
2۔ ابن نجیم، البحر الرائق، 3: 152
جواب: مہر کے صحیح ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں:
1۔ مہر مالِ متقوم ہو یعنی جس کی قیمت لگائی جا سکے۔ ایسی معمولی شے جس کی کوئی قیمت نہ ہو جیسے گندم کا ایک دانہ وغیرہ مہر نہیں ہو سکتا۔
2۔ مہر پاک شے (حلال) ہو جسے استعمال میں لانا درست ہو۔ لہٰذا مہر میں شراب، سور، خون یا مردار دینا جائز نہیں کیونکہ شریعت اسلامیہ کی نگاہ میں ان اشیاء کی کوئی مالیت نہیں۔
3۔ مغصوب نہ ہو یعنی غصب کردہ مال نہ ہو۔ اگر غصب شدہ مال کو مہر قرار دیا تو یہ درست نہ ہوگا، تاہم عقد نکاح درست ہوگا اور حقیقی مالک کی اجازت سے عورت اس کی حق دار ٹھہرے گی ورنہ متعین مال کی قیمت کے برابر مال مہر کی حق دار ہوگی۔
4۔ صحتِ مہر کے لیے ضروری ہے کہ وہ مہر واضح ہو کہ کتنا مہر مقرر ہوا ہے۔
جواب: شرعاً مہر کی درج ذیل اقسام ہیں:
1۔ مہر مسمّی
2۔ مہر معجل
3۔ مہر مؤجل
4۔ مہر مطلق
5۔ مہر منجم
6۔ مہر مثل
جواب: مہر مسمی اس مہر کو کہتے ہیں جس کی مقدار زوجین کے درمیان متعین و مقرر ہو۔ اس کی حسب ذیل دو اقسام ہیں:
1۔ مہر معجل
2۔ مہر مؤجل
جواب: معجل کا لفظ ’عجل‘ سے ہے، جس کا معنی ’جلدی کرنا‘ اور ’سبقت کرنا‘ کے ہیں۔ اِصطلاحی طور پر معجل سے مراد ایسامہر ہے جو بوقتِ نکاح فوری ادا کر دیا جائے یا بیوی کے مطالبہ پر ادا کرنا لازم ہو۔
ابن منظور، لسان العرب، 11: 11
جواب: مؤجل کا مادہ ’اجل‘ ہے اوراَجّلَ الشیٔ سے مراد کسی چیز کی مدت مقرر کرنا یامہلت دینا ہے۔ اس طرح مہرِ مؤجل سے مراد ایسا مہر ہے جس کی ادائیگی کے لیے فریقین کے مابین میعاد مقرر کی گئی ہو، مثلاً سال یا دو سال وغیرہ اور اگر کوئی مدت معین نہ کی جائے تو پھر یہ طلاق یا زوجین میں سے کسی ایک کی وفات پر قابلِ ادائیگی ہوتا ہے۔
ابن منظور، لسان العرب، 11: 11
جواب: مہر مطلق وہ ہے جو نہ معجل ہو نہ موجل یعنی زوجین کی باہمی رضامندی سے اس کی ادائیگی شوہر جب چاہے کر سکتا ہے۔ اس قسم کے مہر کی وصولی کے لیے بیوی شرعی طور پر مُجاز نہیں کہ وہ اپنے نفس کو شوہر سے روکے رکھے۔
جواب: منجم کا مادہ نَجَمَ ہے جس کا معنی قرض کو قسطوں میں ادا کرنا ہے۔ مہر مُنْجِم سے مراد ایسا مہر جس کے متعلق زوجین میں یہ طے پایا جائے کہ اس کی ادائیگی یک مشت نہیں بلکہ قسط وار ہوگی۔
جواب: مہر مثل سے مراد وہ مہر ہے جو عورت کے باپ کی رشتہ دار عورتوں مثلاً پھوپھیوں، سگی بہنوں اور چچا زاد بہنوں کو دیا گیا ہو۔ مہر مثل کے تعین کے لیے جہاں عورتوں کی عمر، حسن و جمال، علم و عقل، دین داری اور کردار کا لحاظ کیا جائے گا، وہیں ان عورتوں کے شوہروں کے حسب اور مال کو بھی دیکھا جائے گا۔ علاوہ ازیں مندرجہ بالا چیزوں کے اختلاف سے مہر میں بھی اختلاف ہوگا۔
جواب: مہر مثل اس وقت واجب ہوتا ہے جب نکاح میں مہر کا قطعاً ذکر نہ کیا گیا ہو یا ذکر ہو لیکن وہ مبہم (نامعلوم) ہو یا مہر میں ایسی چیز رکھی گئی ہو جو شرعاً حلال نہ ہو۔ علاوہ ازیں نکاح فاسد میں اگر مباشرت ہو جائے تو مہر مثل کا حکم ہے، خواہ مہر مقرر کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ اگر مہر مقرر ہو تو چاہیے کہ مہر مثل کی مقدار اس طے شدہ مہر سے زیادہ نہ ہو، ورنہ مہر طے شدہ ہی واجب الادا ہوگا۔ جیساکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
ان سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے کسی عورت سے شادی کی لیکن نہ تو مہر مقرر کیا اور نہ ہی مباشرت کی اور پھر وہ فوت ہوگیا (تو اس کا کیا حکم ہے؟) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے خاندان کی دوسری عورتوں کے برابر اس کا مہر ہوگا (یعنی مہر مثل)، نہ کم ہوگا اور نہ زیادہ۔ اس پر عدت بھی ہے اور اس کے لیے ترکہ بھی ہے۔ معقل بن سنان اشجعی نے اٹھ کر کہا ہمارے خاندان کی ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں حضورنبی اکرم ﷺ نے ایسا ہی فیصلہ فرمایا تھا۔
(1) ترمذی، السنن، کتاب النکاح، باب ماجاء فی الرجل یتزوج المرأۃ فیموت عنھا قبل ان یفرض لھا، 2: 450، رقم: 1145
جواب: احادیث مبارکہ کی روشنی میں کم اَز کم مہر یعنی ابتدائی مہر دس درہم ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا مَهْرَ دُوْنَ عَشَرَةِ دَرَاھِمَ.
1۔ بیہقی، السنن الکبری، 7: 215، رقم: 13760
2۔ دارقطنی، السنن، 3: 244، 245، رقم: 11
دس درہم سے کم مہر نہیں ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا صَدَاقَ دُوْنَ عَشَرَةِ دَرَاھِمَ.
1۔ بیہقی، السنن الکبری، 7: 392، رقم: 14384
دارقطنی، السنن، 3: 245، رقم: 12
دس درہم سے کم کچھ مہر نہیں ہے۔
عورت کا حق مہر کم از کم دس درہم رکھا جائے۔
نوٹ: دس درہم سے مُراد موجودہ کاغذی کرنسی نہیں بلکہ وہ جنس یا مالیت (Value) ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے زمانے میں فرمائی تھی۔
جواب: زیادتی کی جانب شریعت اسلامی میں کوئی مقدار معین نہیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق دس ہزار، بیس ہزار، پچاس ہزار اور اس سے بھی زیادہ مہر مقرر کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں اس کے لیے مہر کی انتہائی حد مقرر کرنی چاہی لیکن ایک عورت نے انہیں مخاطب کر کے کہا کہ درج ذیل آیت کی رو سے آپ کو ایسا کرنے کاحق حاصل نہیں:
وَ اِنْ اَرَدْ تُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰهُنَّ قِنْطَارًا فَـلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْئًا ط اَتَاْخُذُوْانَہٗ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًاo
النساء، 4: 20
اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو۔ کیا تم ظلم و دہشت کے ذریعے اور کھلا گناہ کرکے وہ مال (واپس) لوگےo
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی تجویز واپس لیتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ امْرَأَةً خَاصَمَتَ عُمَرَ، فَخَصَمَتْهُ.
1۔ عبد الرزاق، المصنف، 6: 180، رقم: 10420
2۔ أبو اسحاق فیروز آبادی، التبصرۃ: 393
3۔ آمدی، الإحکام، 1: 315
4۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 467
5۔ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 9: 204
ایک عورت نے عمر سے بحث کی اور وہ اُس پر غالب آگئی۔
یہ روایت ابو عبد الرحمان السلمی سے مروی ہے، جب کہ عبد اللہ بن مصعب سے مروی روایت کے مطابق حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إِمْرَأَةٌ أَصَابَتْ، وَرَجُلٌ أَخْطَأَ.
1۔ ابن عبد البر، جامع بیان العلم وفضلہ، 1: 131
2۔ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1: 286-287
3۔ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 5: 99
4۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 467
5۔ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 9: 204
عورت نے صحیح بات کی اور مرد نے خطا کی۔
لہٰذا زیادہ سے زیادہ مہر کی کوئی مقدار متعین نہیں ہے۔
جواب: حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج کا حق مہر کتنا رکھتے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
کَانَ صَدَاقُةُ ِلأَزْوَاجِهِ اثْنَتِیْ عَشْرَةَ أُوْقِیَّةً وَنَشًّا. قَالَتْ. أَتَدْرِی مَا النَّشُّ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا. قَالَتْ: نِصْفُ أُوْقِیَّةٍ. فَتِلْکَ خَمْسُمِائَةِ دِرْھَمٍ. فَھٰذَا صَدَاقُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ِلأَزْوَاجِہٖ.
مسلم، الصحیح، کتاب النکاح، باب الصداق، 2: 1042، رقم: 1426
رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج کا حق مہر بارہ اوقیہ اور ایک نَش رکھتے تھے۔ پھر فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ نَش کتنی مقدار کو کہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: نہیں! فرمایا: نصف اوقیہ اور یہ (کل مقدار) پانچ سو درہم ہیں اور یہی رسول اللہ ﷺ کی اَزواج کا مہر ہے۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا حق مہر ان کا آزاد کرنا مقرر کیا گیا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کے آزاد کرنے ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب النکاح، باب فضیلۃ إعتاقهِ أمۃ ثم یتزوجہا،
2: 1045، رقم: 1365
2۔ ابو داؤد، السنن، کتاب النکاح، باب فی الرجل یعتق أمتہ ثم یتزوجھا، 2: 181، رقم:
2054
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں:
وہ حضرت عبید اللہ بن جحش کے نکاح میں تھیں تو ان کا سرزمین حبشہ میں انتقال ہوگیا۔ تو نجاشی بادشاہ نے ان کا نکاح حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کر دیا اور انہیں چار ہزار درہم مہر ادا کیے اور حضرت شرجیل بن حسنہ کے ساتھ انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا۔ امام ابو داؤد نے فرمایا کہ ان کی والدہ کا نام حسنہ ہے۔
(1) ابو داؤد، السنن، کتاب النکاح، باب الصداق، 2: 200، رقم: 2107
گویا اسلام نے دیگر معاملات کی طرح مہر کے مسئلے میں بھی کسی کو کمی بیشی پر مجبور نہیں کیا بلکہ مختلف مثالیں پیش کر دی ہیں تاکہ ہر شخص اپنی استطاعت اور صواب دید کے مطابق مہر کا انتخاب کرسکے اور عورتوں کو اس میں اپنی حق تلفی بھی محسوس نہ ہو۔
جواب: سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا حق مہر چار سو درہم تھا جو بارہ اوقیہ سے کسی قدر کم تھا۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی، اشعۃ اللمعات، 3: 137
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ـ
لَا تُغَالُوا صَدَاقَ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لَوْ کَانَتْ مَکْرُمَةً فِي الدُّنْیَا أَوْ تَقْوًی عِنْدَ اللهِ کَانَ أَوْلَاکُمْ وَأَحَقَّکُمْ بِهَا مُحَمَّدٌ مَا أَصْدَقَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِہٖ وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِہٖ أَکْثَرَ مِنِ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ أُوقِیَّةً.
ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب صداق النساء، 2: 438، رقم: 1887
مہر زیادہ نہ باندھا کرو کیونکہ اگر یہ دنیا میں عزت اور خدا کے ہاں تقویٰ کی بات ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے سب سے زیادہ حقدار محمد ﷺ تھے۔ لیکن آپ نے اپنی کسی زوجہ یا دختر کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہ باندھا۔
جواب: حق مہر نکاح کے وقت ہی ادا کرنا چاہیے۔ اگر نقد روپیہ نہ ہو تو زیورات کی صورت میں لڑکی کو حق مہر دے دیا جائے اور اسے مالک بنا دیا جائے۔ مہر کی رقم دراصل بیوی کا حق ہے جس کی ادائیگی شوہر کے ذمہ لازمی ہے۔ جو لوگ اسے ساری عمر ادا نہیں کرتے، وہ مقروض مرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جس سے سبک دوش ہونے کے لیے مرد کے پاس سوائے اس کے کوئی صورت نہیں کہ عورت اسے مہلت دے دے یا اس پر احسان کر کے برضا و رغبت اپنے حق سے دست بردار ہو جائے اور اس کی ناداری کا لحاظ کرتے ہوئے بخوشی معاف کر دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَةً ط فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَکُلُوْهُ ھَنِیْئًا مَّرِیْئًاo
النساء، 4: 4
اور عورتوں کو ان کے مَہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس (مَہر) میں سے کچھ تمہارے لیے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لیے) سازگار اور خوش گوار سمجھ کر کھائوo
جواب: جنسِ مہر کا تعین نکاح کے وقت سے ہوگا، وصولیِ مہر کے وقت نہیں۔ مثلاً اگر ایک شخص ایسی چیز کو حق مہر قرار دیتا ہے جو ماپنے یا تولنے والی یا گنتی میں آنے والی ہے اور عقد کے وقت اس کی مالیت دس درہم یا اس سے زائد تھی لیکن ابھی ادائیگی مہر نہ ہوئی تھی کہ اس کی مالیت دس درہم سے کم ہوگئی تو اب عورت کو یہ حق نہیں کہ پورے دس درہم کی مالیت کا مطالبہ کرے کیونکہ اس صورت میں عقد کے وقت جو مالیت تھی اُسی کا اعتبار ہوگا۔ اس کے برعکس اگر مہر ایسی چیز کا ہو جس کی مالیت عقد کے وقت آٹھ درہم تھی تو مہر وصول کرنے کے وقت تک دو درہم کا اضافہ ہوگیا تو اب یہ مزید دو درہم کا مطالبہ کر سکتی ہے اگرچہ اس چیز کی قیمت اب دس درہم ہی ہوگئی ہو۔
جواب: مہر میں ایسی اشیاء دینا جائز ہیں جن سے مستفید ہونا شرعاً درست ہو اور جو اپنے اندر مالیت رکھتی ہو۔ چنانچہ نقدی، مالِ تجارت، جائیداد، کمپنی کے حصص (shares) یا منافع (dividend)، بیمہ پالیسی وغیرہ مہر میں دینا جائز ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس شے پرقبضہ اور تصرف ہو۔ جبکہ خنزیر کا گوشت یا شراب کسی عورت کا مہر نہیں ہوسکتی۔
جواب: جی ہاں! مہر میں جنس کی تعداد یا قسم بتانا ضروری ہے کیونکہ جنس وہ لفظ ہے جس کے مفہوم میں متعدد اشیاء آتی ہیں جن کے متعلق اَحکامِ شرعیہ بھی مختلف ہوں۔ مثلاً کپڑا کہ وہ سوتی، ریشمی اور دیگر کئی قسموں کا ہوتا ہے اور ان سب کے شرعی احکام مختلف ہیں۔ اسی طرح لفظ انسان مرد اور عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے اور ان دونوں کے احکامِ شرعیہ مختلف ہیں۔ لہٰذا اگر مہر میں کپڑا کہا گیا اور اس کی قسم نہ بتائی گئی کہ وہ سوتی ہوگا یا ریشمی ہوگا تو یہ مہر درست نہیں ہوگا کیونکہ اس میں جنس بتائی گئی ہے، قسم نہیں بتائی گئی۔
اس لیے اصول یہ ہے کہ جس شے کا مہر مقرر کرنا درست نہیں ہے اگر اس کا نام لیا جائے تو وہ مہر مثل قرار پاتا ہے۔ چنانچہ اگر مہر میں کوئی جانور بتایا گیا اور یہ نہ کہا کہ وہ گھوڑا ہوگا یا اونٹ یا گدھا تو یہ لغو بات ہوگی اور عورت کا مہر، مہر مثل قرار پائے گا۔ یہی حکم اس صورت میں ہے جس میں مہر کی جنس بتائی جائے اور اس کی نوع (قسم) نہ بیان کی جائے لیکن اگر قسم تو بتا دی لیکن اس کی خصوصیات نہ بتائی گئیں تو جو چیز مہر مقرر کی گئی وہ اوسط درجہ کی شمار ہوگی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved