جواب : اِسلام سے قبل عورت کا معاشرتی مقام نہایت ابتر اور ناگفتہ بہ تھا۔ تاریخِ انسانی میں عورت اور تکریم دو مختلف حقیقتیں رہی ہیں۔ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی۔ اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابلِ نفرت تصور کیا جاتا تھا۔ اس کا مقام و مرتبہ ناپسندیدہ تھا۔ نکاح، طلاق، وراثت اور دیگر تمدنی و معاشرتی امور میں اسے کسی قسم کا کوئی حق نہ تھا۔ وہ نکاح کے ذریعے اپنی زندگی کا بہتر فیصلہ کرنے میں بھی مجبور و بے بس تھی۔ رشتے کے قبول و ردّ میں اس کی رائے کا کوئی دخل نہ تھا۔ عورت کی یہ حیثیت غیر مہذب اور ناشائستہ اقوام تک ہی محدود نہ تھی بلکہ یونانی، رومی، ایرانی اقوام اور زمانہ جاہلیت کی وہ تہذیبیں اور ثقافتیں جو بزعم خویش ترقی میں اوجِ ثریا تک پہنچ چکی تھیں وہ بھی خواتین کے ساتھ اسی قسم کا سلوک روا رکھے ہوئے تھیں۔ اَہلِ عرب کے عورت سے اس بدترین رویے کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے:
وَیَجْعَلُوْنَ ِللهِ الْبَنَاتِ سُبْحٰنَہٗ وَلَھُمْ مَّا یَشْتَھُوْنَo
النحل، 16 : 57
اور یہ (کفار و مشرکین) اللہ کے لیے بیٹیاں مقرر کرتے ہیں وہ (اس سے) پاک ہے اور اپنے لیے وہ کچھ (یعنی بیٹے) جن کی وہ خواہش کرتے ہیںo
یعنی کفارِ مکہ فرشتوں سے متعلق اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے جب کہ خود اُنہیں بیٹیاں پسند نہ تھیں بلکہ بیٹے پسند تھے۔
1۔ ابن ابی حاتم رازی، تفسیر القرآن العظیم، 10 : 3231، رقم
: 18302
2۔ ابو سعود، ارشاد العقل السلیم الی مزایا القرآن الکریم، 5 : 121
3۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 2 : 573
4۔ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 14 : 122-123، 126
5۔ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 27 : 61
6۔ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 10 : 116
قرآن حکیم سے واضح ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عورت کا کوئی مرتبہ نہ تھا، وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی جب کہ ہر قسم کی بڑائی اور فضیلت مردوں کے لیے تھی، حتیٰ کہ عام معاملاتِ زندگی میں بھی مرد اچھی چیزیں خود رکھ لیتے اور بے کار چیزیں عورتوں کو دیتے۔ اہلِ عرب کے اس طرزِ عمل کو قرآن حکیم یوں بیان کرتا ہے :
وَ قَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ ھٰذِہِ الْاَنْعَامِ خَالِصَۃٌ لِّذُکُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓی اَزْوَاجِنَا ج وَاِنْ يَّکُنْ مَّیْتَۃً فَھُمْ فِیْہِ شُرَکَآءُ۔
الأنعام، 6 : 139
اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ جو (بچہ) ان چوپایوں کے پیٹ میں ہے وہ ہمارے مردوں کے لیے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام کر دیا گیا ہے اور اگر وہ (بچہ) مرا ہوا (پیدا) ہو تو وہ (مرد اور عورتیں) سب اس میں شریک ہوتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
فَہُوَ اللَّبَنُ، کَانُوا یُحَرِّمُونَہٗ عَلٰی إِنَاثِہِمْ، وَیَشْرَبُہٗ ذُکْرَانُہُمْ۔ وَکَانَتِ الشَّاۃُ إِذَا وَلَدَتْ ذَکَرًا ذَبَحُوہُ، وَکَانَ لِلرِّجَالِ دُونَ النِّسَاءِ۔ وَإِنْ کَانَتْ أُنْثٰی تُرِکَتْ فَلَمْ تُذْبَحْ، وَإِنْ کَانَتْ مَیْتَۃً فَہُمْ فِیہِ شُرَکَاءُ۔ فَنَہَی اللهُ عَنْ ذٰلِکَ۔
1۔ ابن ابی حاتم رازی، تفسیر القرآن العظیم، 5 : 1395، رقم
: 7933
2۔ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 8 : 48
3۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 2 : 180
4۔ سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، 3 : 366
عرب مردوں کے لیے خاص چیز ’دودھ‘ ہے جو وہ اپنی عورتوں کے لیے حرام قرار دیتے تھے اور اُن کے مرد ہی اسے پیا کرتے تھے۔ اسی طرح جب کوئی بکری نربچہ جنتی تو وہ ان کے مردوں کا ہوتا اور اگر مادہ بچہ جنتی تو وہ اسے ذبح نہ کرتے، یونہی چھوڑ دیتے تھے اور اگر مردہ جانور ہوتا تو سب شریک ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔
ابو جعفر طبری نے اس آیت کی تفسیر میں سدی سے نقل کیا ہے :
فَہٰذِہِ الْأَنْعَامُ مَا وُلِدَ مِنْہَا مِنْ حَیٍّ فَہُوَ خَالِصٌ لِلرِّجَالِ دُونَ النساء، وَأَمَّا مَا وُلِدَ مِنْ مَيِّتٍ فَیَأْکُلُہُ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ۔
1۔ ابن ابی حاتم رازی، تفسیر القرآن العظیم، 5 : 1395، رقم
: 7933
2۔ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 8 : 48
3۔ رازی، التفسیر الکبیر، 13 : 171
4۔ ابو حیان، البحر المحیط، 4 : 233
5۔ ابن جزی کلبی، التسہیل لعلوم التنزیل، 2 : 23
ان جانوروں سے زندہ پیدا ہونے والا بچہ خالص ان کے مردوں کے کھانے کے لیے ہوتا اور عورتوں کے لیے حرام ہوتا اور مردہ پیدا ہونے والے بچے کو مرد و عورت سب کھاتے، (اس طرح وہ مَردوں کو ترجیح دیا کرتے تھے)۔
اسلام سے قبل عورت کی حیثیت کچھ نہ تھی۔ ایک مرد بہت ساری عورتوں سے نہ صرف ازدواجی تعلقات قائم کرتا بلکہ عورتوں کے باہمی تبادلے کرنے پر فخر محسوس کیا جاتا تھا، یہاں تک کہ اسے میراث سے محروم رکھ کر وراثت میں سامان کی طرح بانٹ دیا جاتا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے
جب عورت کا شوہر مر جاتا تو شوہر کے ورثاء اس کے حق دار ہوتے، اگر وہ چاہتے تو ان میں سے کوئی اس سے شادی کر لیتا تھا یا جس سے چاہتے اسی سے اس کی شادی کرا دیتے اور چاہتے تو نہ کراتے۔ اس طرح اس عورت کے سسرالی اس کے میکے والوں سے زیادہ اس پر حق رکھتے تھے۔
بخاری، الصحیح، کتاب الإکراہ، باب من الإکراہ، 6 : 2548، رقم : 6549
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے
جب کوئی شخص مر جاتا اور اس کی باندی ہوتی تو اس کا کوئی دوست اس پر کپڑا ڈال دیتا، اب کوئی دوسرا شخص اس باندی پر دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔ اگر وہ باندی خوبصورت ہوتی تو یہ شخص اس سے شادی کر لیتا اور اگر بد ہیئت ہوتی تو اسے اپنے پاس تاحیات روکے رکھتا۔
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1 : 425
(1) اسلام سے قبل عورت کا معاشرتی مقام گھر کے مال و اسباب کا سا تھا،
(2) وہ عورت سے لونڈیوں سے بھی بدتر سلوک کرتے تھے،
(3) شوہر آقا کی حیثیت رکھتا تھا،
(4) اپنی منکوحہ بیوی سے مرد کہتا کہ تو پاکی حاصل کرنے کے بعد فلاں مرد کے پاس چلی
جا اور اس سے فائدہ حاصل کر، اتنی مدت شوہر اپنی عورت سے علیحدہ رہتا، جب تک اس عورت
کو غیر مرد کا حمل ظاہر نہ ہو جاتا۔ ایسا جاہلیت میں اس لیے کرتے کہ لڑکا خوبصورت پیدا
ہو،
(5) کثرت ازدواج کے باعث بیویوں کی تعداد مقرر نہ تھی،
(6) نکاح کی کوئی تعداد متعین نہ تھی،
(7) مرد جب چاہتا اور جتنی مرتبہ چاہتا طلاق دیتا اور عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر
لیتا،
(8) اعلانیہ بدکاری عام تھی،
(9) قمار بازی میں عورتوں تک کی بازی لگا دیتے تھے،
(10) دو حقیقی بہنوں سے نکاح کرتے تھے،
(11) جب کسی مرد کا انتقال ہو جاتا تو اس کی بیویاں اس کی اولاد میں وراثتاً تقسیم
ہو جاتیں۔
الغرض اسلام سے قبل عورت المناک صورتِ حال سے دوچار تھی جس سے اسلام نے اسے آزادی دے کر معاشرہ میں اعلیٰ و اَرفع مقام عطا فرمایا۔
جواب : اسلام نے عورت کو معاشرے میں بلند مقام دیا۔ اسے مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان مرد کے برابر درجہ دیا اور معاشی و معاشرتی، قانون و سیاست اور تعلیم و تربیت کے ہر میدان میں عظیم مرتبہ و مقام عطا کیا۔ آج سے چودہ سو سال قبل ان کی حیثیت، حقوق اور آزادی کو متعین کر دیا حتیٰ کہ اسلام کی وسعت اور فراخ دلی کی عملی مثال یہ ہے کہ مذہب کی قید لگائے بغیر ہر عورت کو ماں، بہن اور بیٹی جیسے عظیم رشتہ کی حیثیت سے دیکھنے کا حکم دیا۔ عورت خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم اپنے حقوق بلا امتیاز حاصل کر سکتی ہے۔ اسلام نے معاشرے میں یہ شعور بھی اجاگر کیا کہ عورت اگر بیٹی ہے تو باعثِ رحمت ہے، اگر بہن ہے تو باعثِ عزت و احترام، اگر ماں ہے تو اس کے پاؤں تلے جنت ہے اور اگر بیوی ہے تو سراپا مودّت و رحمت ہے۔ گویا اسلام نے ہر روپ میں عورت کا احترام لازمی قرار دے دیا۔ عورت کی عفت و عصمت کی حفاظت کے لیے ایسے پاکیزہ ازدواجی تعلق کی بنیاد فراہم کی جو عورت کے حقِ مہر، اس کی ذاتی پسند و ناپسند اور ایجاب و قبول کو مدّنظر رکھتے ہوئے قائم کیا جائے۔ علاوہ ازیں عورتوں کے حقوق نمایاں کرتے ہوئے بعض رشتوں سے نکاح حرام قرار دیا اور اس کی مکمل فہرست گنوا دی۔ ارشادِ ربانی ہے :
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّہٰتُکُمْ وَ بَنٰتُکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ وَ عَمّٰتُکُمْ وَ خٰلٰتُکُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُکُمُ الّٰتِیْ اَرْضَعْنَکُمْ وَ اَخْوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِکُمْ وَرَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ ز فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ ز وَحَلَآئِلُ اَبْنَائِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ لا وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ۔
النساء، 4 : 23
تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں سب حرام کردی گئی ہیں۔ اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو(بھی حرام ہیں) پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر ان کی (لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں اور یہ (بھی حرام ہے کہ) تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے جو دور جہالت میں گزر چکا۔
اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے خواتین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی اس قدر ترغیب دی کہ اسے ایمان جیسی اعلیٰ ترین شے کا لازمی جزو قرار دے دیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِینَ إِیمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِکُمْ۔
1۔ احمد بن حنبل، المسند، 2 : 621، رقم : 8 : 1011
2۔ ترمذی، السنن، کتاب الرضاع، باب ماجاء فی حق المرأۃ علی زوجھا، 3 : 466، رقم : 1162
3۔ دارمی، السنن، 2 : 415، رقم : 2792
4۔ حاکم، المستدرک، 1 : 43، رقم : 2
اہلِ ایمان میں سے کامل مومن وہ ہے جو اُن میں سے بہترین اخلاق کا مالک ہے اور تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے (اخلاق و برتاؤ) میں بہترین ہیں۔
ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ مِنْ أَکْمَلِ الْمُؤْمِنِینَ إِیمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا وَأَلْطَفُهُمْ بِأَہْلِہٖ۔
1۔ أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 47، رقم : 24250
2۔ ترمذي، السنن، کتاب الإیمان، باب ما جاء في استکمال الإیمان وزیادتہ ونقصانہ، 5
: 9، رقم : 2612
3۔ نسائي، السنن الکبری، 5 : 364، رقم : 9154
4۔ حاکم، المستدرک، 1 : 119، رقم : 173
مومنوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان والے لوگ وہ ہیں جن کے اَخلاق سب سے اچھے ہیں اور وہ اپنے گھر والوں سے سب سے زیادہ نرمی و شفقت سے پیش آتے ہیں۔
جواب : منگنی دراصل پیغامِ نکاح اور نکاح کا وعدہ ہے جو نکاح سے قبل فریقین کی باہم رضا مندی سے طے پاتا ہے۔ اگر یہ نہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں تاہم آج کل نکاح کے لیے لڑکی لڑکے کے انتخاب کے بعد منگنی ایک باقاعدہ رسم کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اسے شادی کا ایک لازمی جزو سمجھا جانے لگا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس رسم کی ادائیگی میں بھی کم و بیش اتنے ہی اخراجات ہونے لگے ہیں جتنے نکاح یا ولیمہ کے موقع پر کیے جاتے ہیں۔
لہٰذا نکاح کی غرض سے انتخاب زوجین کے بعد وعدۂ نکاح تک منگنی کا عمل درست اور احسن ہے کیونکہ اس دوران فریقین کو ایک دوسرے کا مزاج سمجھنے کا موقع بھی مل جاتا ہے لیکن اسے نہایت سادگی سے ادا کیا جانا چاہیے اور اس رسم کی آڑ میں بے جا فضول خرچی کسی صورت بھی جائز نہیں۔ یہ محض نمود و نمائش اور وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔
جواب : جی نہیں! بلا اجازت کسی کی منگنی پر منگنی کرنا جائز نہیں ہے۔ حدیث مبارکہ میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
لَا یَبِعِ الرَّجُلُ عَلٰی بَیْعِ أَخِیْہِ، وَلَا یَخْطُبْ عَلٰی خِطْبَۃِ أَخِیْہِ، إِلَّا أَنْ یَأْذَنَ لَہٗ۔
مسلم، الصحیح، کتاب النکاح، باب تحریم الخطبۃ علی خطبۃ أخیہ حتی یأذن أو یترک، 2 : 1032، رقم : 1412
کوئی شخص اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرے۔ نہ کوئی شخص اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی کرے۔
جواب : جی ہاں! اگر کسی شخص نے منگنی پر منگنی کے ذریعے نکاح کر لیا تو اس کا نکاح صحیح ہوگا تاہم ایسا کرنے والا گنہگار ہوگا کیونکہ ائمہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ جب منگنی کرنے والے کا پیغام صراحتاً منظور کر لیا جائے اور وہ اس رشتہ کو ترک نہ کرے تو اب کسی اور شخص کے لیے پیغام نکاح دینا جائز نہیں ہے۔
جواب : پیدائش کے وقت یا بچپن میں کی گئی منگنی کو اولاد بالغ ہونے کے بعد توڑ سکتی ہے کیونکہ منگنی عہدِ نکاح ہوتا ہے، عقدِ نکاح نہیں۔ لہٰذا اولاد کو اگر رشتہ پسند نہیں تو وہ اسے ختم کرنے کی حق دار ہے۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ والدین بچپن میں بچوں کی منگنی کرنے سے گریز کریں کیونکہ جو والدین پیدائش کے وقت بچوں کی منگنی کر دیتے ہیں ان کے نتائج بسا اوقات الاماشاء اللہ ناچاکی کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
والدین رشتہ ضرور طے کریں مگر بچوں کی رضامندی سے۔ اگر بچوں کی رائے غلط ہے تو دلیل اور محبت سے ان کو اپنے حسنِ انتخاب کا قائل کریں اور ان پر زبردستی کا فیصلہ مسلط نہ کریں۔ والدین اپنے بچوں کو اُس حق سے کیوں محروم کرتے ہیں جو اسلام نے انہیں عطا کیا ہے؟ اگر اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور اس پر ہر ممکن عمل کیا جائے تو ناکام شادیوں کا بڑی حد تک ازالہ کیا جاسکتا ہے۔
جواب : شادی خاندانی زندگی کے قیام و تسلسل کا ادارہ ہے، لیکن اہل عرب کے ہاں اصول و ضوابط سے آزاد تھا اور اس میں عورت کی عزت و عظمت اور عفت و تکریم کا کوئی تصور کار فرما نہ تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں اہل عرب کے ہاں شادی کے درج ذیل طریقے رائج تھے :
1۔ زواج البعولۃ
اسلام سے پہلے عربوں میں کثیر الزوجیت باعثِ شرف معاملہ سمجھا جاتا تھا، وہ عورتوں کی تعداد پر فخر کرتے تھے اور اسی وجہ سے یہ نکاح عرب میں بہت عام تھا۔ مرد ایک سے زائد عورتوں کا مالک ہوتا۔ بعولت (خاوند ہونا) سے مراد مرد کا ’عورتیں جمع کرنا‘ ہوتا تھا۔ اس میں عورت کی حیثیت عام مال و متاع جیسی گردانی جاتی تھی۔
2۔ زواج البدل
زواج البدل یعنی بدلے کی شادی سے مراد دو بیویوں کا آپس میں تبادلہ تھا۔ یعنی دو مرد اپنی اپنی بیویوں کو ایک دوسرے سے بدل لیتے اور اس کا نہ عورت کو علم ہوتا اور نہ اس کے قبول کرنے، مہر یا ایجاب کی ضرورت ہوتی۔ بس دوسرے کی بیوی پسند آنے پر ایک مختصر سی مجلس میں یہ سب کچھ طے پاجاتا۔
3۔ نکاح متعہ
یہ نکاح بغیر خطبہ، تقریب اور گواہوں کے ہوتا تھا۔ عورت اور مرد آپس میں کسی ایک مدتِ مقررہ تک ایک خاص مہر پر متفق ہو جاتے اور مدتِ مقررہ پوری ہوتے ہی نکاح خود بخود ختم ہو جاتا تھا، طلاق کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔ زوجین ایک دوسرے سے اپنی ضرورت کے مطابق خوشی اور تفریح حاصل کرتے اور اس نکاح میں اولاد مقصد نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر اولاد ہو جاتی تو ماں کی طرف منسوب ہوتی، اسے باپ کا نام نہیں دیا جاتا تھا۔ اسلام نے حرمتِ متعہ کے اَحکامات نافذ کیے اور ایسے عارضی تعلق کو صراحتاً حرام قرار دیا۔
4۔ نکاح الخدن
اسے دوستی کی شادی بھی کہتے ہیں۔ اس میں مرد کسی عورت کو اپنے گھر بغیر نکاح، خطبہ اور مہر کے رکھ لیتا اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر لیتا اور بعد ازاں یہ تعلق باہمی رضا مندی سے ختم ہو جاتا، کسی قسم کی طلاق کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر اولاد پیدا ہو جاتی تو وہ ماں کی طرف منسوب ہوتی۔یہ طریقہ آج کل مغربی معاشرے میں بھی رائج ہے۔
5۔ نکاح الضغینہ
اس نکاح میں کسی خطبہ، مہر یا ایجاب و قبول کی ضرورت نہ تھی کیونکہ جاہلیت میں جنگ کے بعد فاتح کے لیے مفتوح کی عورتیں، مال و متاع وغیرہ سب مباح تھا۔ یہ عورتیں فاتح کی ملکیت ہو جاتیں اور وہ چاہتا تو انہیں بیچ دیتا، چاہتا تو یونہی چھوڑ دیتا اور چاہتا تو ان سے مباشرت کرتا یا کسی دوسرے شخص کو تحفتاً دے دیتا۔ یوں ایک آزاد عورت غلام بن کر بک جاتی۔
6۔ نکاح شغار
اس نکاح میں ایک شخص اپنی زیرسرپرستی لڑکی کا نکاح کسی شخص سے اس شرط پر کر دیتا کہ وہ اپنی کسی بیٹی، بہن وغیرہ کا نکاح اس سے کرائے گا۔ اس میں مہر مقرر کرنا بھی ضروری نہ تھا۔ اسلام نے اس طرح کے نکاح کو بھی ناجائز قرار دیا ہے۔
7۔ نکاح الاستبضاع
فائدہ اٹھانے کے لیے عورت مہیا کرنے کا نکاح یعنی ایک شخص اپنی بیوی کو کسی دوسرے خوبصورت مرد کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے بھیج دیتا تھا اور خود اس سے الگ رہتا تاکہ اس کی نسل خوبصورت پیدا ہو اور آئندہ نسل کو صحت اور دوام حاصل ہو سکے اور جب اس کو حمل ظاہر ہو جاتا تو وہ عورت پھر اپنے اصل شوہر کے پاس واپس آجاتی۔
8۔ نکاح الرہط
اجتماعی نکاح۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً دس آدمی ایک ہی عورت کے لیے جمع ہوتے اور ہر ایک اس سے مباشرت کرتا اور جب اس کے ہاں اولاد ہوتی تو وہ ان سب کو بلواتی اور وہ بغیر کسی پس و پیش کے آجاتے۔ پھر وہ جسے چاہتی (پسند کرتی یا اچھا سمجھتی) اسے کہتی کہ یہ بچہ تیرا ہے اور اُس شخص کو اِس بات سے انکار کرنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔
9۔ نکاح البغایا
فاحشہ عورتوں سے تعلق۔ یہ بھی نکاحِ رہط سے ملتا جلتا ہے مگر اس میں دو فرق تھے : ایک تویہ کہ اس میں دس سے زیادہ افراد بھی ہو سکتے تھے جبکہ نکاحِ رہط میں دس سے زیادہ نہ ہوتے تھے۔ دوسرا یہ کہ ان مردوں میں سے کسی سے بچہ منسوب کرنا عورت کا نہیں بلکہ مرد کا کام ہوتا تھا۔
نکاح کی یہ اقسامِ حافظ ابن حجر عسقلانی نے بالتفصیل ’’فتح الباری شرح صحیح البخاری (کتاب النکاح، 9 : 182-185)‘‘ میں بیان کی ہیں۔ دیگر حوالہ جات درج ذیل ہیں :
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب لا نکاح الا بولی، 5 :
1970، رقم : 4834
2۔ ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب فی وجوہ النکاح، 2 : 281، رقم : 2272
3۔ دارقطنی، السنن الکبریٰ، لتی کان یتنا کح بھا أھل الجاھیلۃ، 7 : 110
4۔ بیہقی، السنن، الکبریٰ، 7 : 110
5۔ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 3 : 120
مذکورہ طریقہ ہائے زواج سے ثابت اور واضح ہوتا ہے کہ عورت کی زمانہ جاہلیت میں حیثیت مال و متاع کی طرح تھی اور اسے خریدا اور بیچا جاتا تھا۔
جواب : شادی کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ عاقل و بالغ لڑکے اور لڑکی کی رضامندی اور گواہان کی موجودگی میں نکاح سر انجام دیا جائے کیونکہ اسلام نے عورت کو نکاح کا حق دیا اور اس ازدواجی بندھن میں جہاں مرد کی ذاتی رائے اور پسند و ناپسند شامل ہوتی ہے وہیں عورت کو بھی یہ حق دیا کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی شادی نہ کی جائے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
لَا تُنْکَحُ الْأَيِّمُ حَتّٰی تُسْتَأْمَرَ، وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتّٰی تُسْتَأْذَنَ۔ قَالُوا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَکَیْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ : أَنْ تَسْکُتَ۔
1۔ بخاري، الصحیح، کتاب النکاح، باب لا ینکح الأب وغیرہ البکر
والثیب إلا برضاہا، 5 : 1974، رقم : 4843
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب النکاح، باب استئذان الثیب في النکاح بالنطق والبکر بالسکوت،
2 : 1036، رقم : 1419
بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی (بالغہ) کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! کنواری کی اجازت کیسے معلو م ہوتی ہے؟ فرمایا : اس کا خاموش رہنا اجازت ہے۔
جو یتیم ہو، باندی ہو یا مطلقہ، شریعت کے مقرر کردہ اُصول و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے اُنہیں بھی نکاح کے حق سے محروم نہ کیا جائے، جیسا کہ قرآن حکیم میں اِرشاداتِ باری تعالیٰ ہیں :
(1) وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ يَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۔
البقرۃ، 2 : 232
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہوجائیں تو انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔
(2) وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا ج فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ط وَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo
البقرۃ، 2 : 234
اور تم میں سے جو فوت ہوجائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میںکوئی مواخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔
(3) وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآئِکُمْ ط اِنْ يَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِہِمُ اللهُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo
(1) النور، 24 : 32
اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کانکاح کردیا کرو جو بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا (نکاح کردیا کرو) اگر وہ محتاج ہوں گے (تو) اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے۔
جواب : لڑکا ہو یا لڑکی، والدین کو اپنی اولاد کی شادی بالغ ہو جانے کے بعد اگر کوئی خاص رکاوٹ نہ ہو تو جلد کر دینی چاہیے۔ جیسا کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
مَنْ وُلِدَ لَہٗ وَلدٌ فَلْیُحْسِنِ إِسْمُہٗ وأَدِّبْہُ، فَإِذَا بَلَغَ فَلْیُزَوِّجْہُ، فَإِنْ بَلَغَ وَلَمْ یُزَوِّجْہُ فَأَصَابَ إثْمًا فَإِنّمَا إِثْمُہٗ عَلٰی أَبِیْہِ۔
1۔ بیہقی، شعب الایمان، 6 : 401، رقم : 8666
2۔ خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح، 2 : 939، رقم : 3138
3۔ دمیاطی، إعانۃ الطالبین، 3 : 254
جس کے ہاں کوئی اولاد ہو تو اُسے چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اسے آداب سکھائے۔ پھر جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح کردے۔ اگر اولاد بالغ ہوئی اور اُس نے اس کا نکاح نہ کیا جس کی وجہ سے اس نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ ہی پر اس کا گناہ ہوگا۔
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اولاد کا اچھا نام رکھنا، انہیں آداب سکھانا اور بروقت شادی کردینا اولاد کے حقوق میں سے ہے۔
جواب : بہترین اِنتخابِ زوج کے لیے معیار یہ ہونا چاہیے کہ مرد دین دار، بااخلاق اور وسیع النظرہو اور اہلِ خانہ کو نیکی کی رغبت دلانے والا، حلال رزق کمانے والا اور اپنے خاندان (بیوی اور بچوں) کی کفالت کا اہل ہو۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
یَا مَعْشَر الشَّبَابِ! مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَاءَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ۔ فَإِنَّہٗ اَغَضُّ لِلبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ۔ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ۔ فَإِنَّہٗ لَہٗ وِجَاءٌ۔
مسلم، الصحیح، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح لمن تافت نفسہ إلیہ، 2 : 1019، رقم : 1400
اے جوانو! تم میں سے جو شخص گھر بسانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے کیونکہ نکاح سے نظر نہیں بہکتی اور شرم گاہ محفوظ رہتی ہے اور جو شخص نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ روزے اس کی شہوت کو کم کر دیتے ہیں۔
علاوہ ازیں مرد کو حلیم طبع، بہادر، خوش خلق، عورت سے بھلائی کرنے والا، اچھے کاموں سے محبت کرنے والا خصوصاً بیوی کے اچھے کاموں پر دل کھول کر داد دینے والا، احسان کرنے والا، ظلم و تشدد سے پرہیز کرنے والا اور معاملاتِ زندگی میں بہترین منظم اور معاشی لحاظ سے خود کفیل ہونا چاہیے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
اتَّقُوا اللهَ فِي النساء، فَإِنَّکُمْ أَخَذْتُمُوْہُنَّ بِأَمَانِ اللهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللهِ۔ … وَلَہُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب حجۃ النبي ﷺ، 2 : 890، رقم
: 1218
2۔ أبو داود، السنن، کتاب المناسک، باب صفۃ حج النبي ﷺ، 2 : 185، رقم : 1905
3۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب المناسک، باب حجۃ رسول اللہ ﷺ، 2 : 1025، رقم : 3074
4۔ ابن حبان، الصحیح، 9 : 257، رقم : 3944
لوگو! تم عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم نے ان کو اللہ تعالیٰ کی اَمان میں لیا ہے، سَو تم نے اللہ تعالیٰ کے کلمہ (نکاح) سے ان کی شرم گاہوں کو اپنے اوپر حلال کیا ہے۔ … تم پر اُن کا یہ حق ہے کہ تم اپنی حیثیت کے مطابق اُن کو اچھی خوراک اور اچھا لباس فراہم کیا کرو۔
جواب : شوہر کی طرح زوجہ کے انتخاب کے لیے بھی ضروری ہے کہ عورت دین دار، بااخلاق، باشعور اور نیک سیرت ہو کیونکہ نیک عورت کو دنیا کی بہترین متاع کہا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
اَلدُّنْیَا مَتَاعٌ وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا : الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ۔
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الرضاع، باب خیر متاع الدنیا المرأۃ
الصالحۃ، 2 : 1090، رقم : 1467
2۔ أحمد، المسند، 2 : 168، رقم : 6567
3۔ نسائي، السنن، کتاب النکاح، باب المرأۃ الصالحۃ، 6 : 69، رقم : 3232
4۔ أبو عوانۃ، المسند، 3 : 143، رقم : 4504
دنیا متاع ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے۔
شادی کی ایک اہم وجہ نسلِ انسانی کی بقا ہے اور بچے کی ابتدائی درس گاہ ماں ہے۔ ماں کی گود ہی بچے کی بہترین تربیت کرکے اسے معاشرے کا اچھا شہری بنا سکتی ہے۔ لہٰذا زوجہ کے انتخاب کے لیے بھی ضروری ہے کہ عورت نیک، بااخلاق، صالح اور دینی شعور و آگہی رکھنے والی ہو تاکہ دینی اقدار کا تحفظ آئندہ نسلوں میں منتقل کرنے سے ممکن ہو سکے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ الْمَرْأَۃَ تُنْکَحُ عَلٰی دِیْنِہَا وَمَالِہَا وَجَمَالِہَا، فَعَلَیْکَ بِذَاتِ الدِّیْنِ۔
ترمذی، السنن، کتاب النکاح، باب ماجاء أن المرأۃ تنکح علی ثلاث خصال، 2 : 396، رقم : 1086
عورت سے اس کے دین، مال اور جمال کی بناء پر نکاح کیا جاتا ہے۔ لہٰذا تم دین دار عورت سے نکاح کرنے کو ترجیح دینا۔
اس حکم میں تاکید کی گئی ہے کہ دین دار عورت سے نکاح ہی دنیا و آخرت کی فلاح حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ علاوہ ازیں عورت شوہر سے محبت کرنے والی، مشکلات میں صبر و شکر کرنے والی، دور اندیش، لڑائی جھگڑے سے اجتناب کرنے والی، سلیقہ شعار ہوکیونکہ ان صفات کی حامل خاتون ہی شوہر کے لیے بہترین زوجہ ثابت ہو سکتی ہے۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ، فَإِنِّی مُکَاثِرُ بِکُمُ الْأُمَمَ۔
ابو داؤد، السنن، کتاب النکاح، باب النھی عن تزویج من لم یلد من النساء، 2 : 180، رقم : 2050
محبت کرنے والی اور بچے جننے والی عورت سے شادی کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے امتوں کے سامنے برکت حاصل کروں گا۔
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِہَا وَلِحَسَبِہَا وَجَمَالِہَا وَلِدِینِہَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّینِ۔
بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب الأکفاء في الدین، 5 : 1958، رقم : 4802
کوئی مومن کسی عورت سے چار باتوں کے سبب نکاح کرے : (1) اس کے مال، (2) اس کے نسب، (3) اس کے حسن اور (4) اس کے دین۔ اور تجھے چاہیے کہ ان صفات میں سے دین دار عورت کو حاصل کرے۔
دین دار سے مراد دین پر قائم رہنے والی اور دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والی ہو جو ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ دینِ اسلام کی سب سے بڑی خوبی حسنِ اخلاق ہے۔ چنانچہ عورت کے حسن سے مراد صرف ظاہری حسن و خوب صورتی نہیں بلکہ حسنِ اخلاق، حسنِ کردار اورحسنِ گفتار بھی ہے۔
جواب : اِنتخابِ زوجین میں والد کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ گھر کا سربراہ ہوتا ہے جس نے اپنے خاندان کی نہ صرف معاشی کفالت کرنا ہوتی ہے بلکہ ان کی بہترین تربیت بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ نیز وہ اپنے اہل وعیال کی تربیت و پرورش کے بارے میں روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہ ہوگا۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
اَلرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِہٖ، وهُوَ مَسْئُووْلٌ عَنْ رَعِيَّتِہٖ۔
بخاری، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ في القری والمدن، 1 : 304، رقم : 853
آدمی اپنے اہل و عیال کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت (یعنی گھر والوں) سے متعلق سوال کیا جائے گا۔
لہٰذا والد کو چاہیے کہ وہ اپنی فہم و فراست، عمر بھر کے ذاتی تجربہ اور اپنی اولاد کی اہمیت و قابلیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے بیٹے یا بیٹی کے رشتے کے انتخاب میں دل چسپی لے۔ عام طور پر مرد اس قسم کے معاملات کو کلیتاً خواتین کے سپرد کر دیتے ہیں اور شادی کے لیے صرف مالی انتظام و انصرام کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں جبکہ دینِ اسلام اولاد کے لیے بہترین رشتے کے انتخاب میں ماں اور باپ دونوں پر یکساں ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ اس لیے والد کو بھی چاہیے کہ اولاد کے رشتے کے انتخاب کے لیے باہمی مشاورت سے ایسے رشتے کو منتخب کرے جو نیک سیرت، مہذب، بااخلاق اور شریعت اسلامی کا پابند ہو۔ داماد کے لیے ایسے فرد کا چناؤ کرے جو عورت کا احترام کرنے والا، احسان کرنے والا، اسلامی شعار کو اپنانے والا اور معاشی لحاظ سے خود کفیل ہو اور بہو کے لیے ایسی لڑکی کا انتخاب کرے جو شرم و حیا کی پیکر، اسلامی تعلیمات کی روح کو سمجھنے والی، نیک سیرت اور اچھے نسب کی مالک ہو۔
جواب : اِنتخابِ زوجین میں والدہ کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ بدیہی اَمر ہے کہ اولاد کا باپ کے مقابلہ میں ماں سے تعلق عام طور پر زیادہ گہرا اور شدید ہوتا ہے۔ اسی تعلق کی بناء پر مرد کے مقابلے میں زیادہ تر ماں یا بہن ہی اِنتخابِ ِزوجین میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ آج کل کی مائیں داماد میں دین داری، حسنِ خلق اور کردار دیکھنے کی بجائے مال و دولت اور دنیا کی بڑائی دیکھتی ہیں۔ یہ نہیں سوچتیں کہ اگر لڑکے میں دین داری نہیں ہے تو وہ لڑکی کو بھی دین پر چلنے نہیں دے گا، بے پردگی کو اہمیت دی جائے گی کیونکہ بیٹی جس گھر میں جارہی ہے وہاں تو فرائض ترک ہوں گے، نماز روزہ چھوٹے گا۔ اس طرح دین کو پس پشت ڈال کر مال و دولت، کوٹھی، بنگلہ کو ترجیح دینے سے دنیا تو شاید آرام سے گزر جائے مگر آخرت برباد ہو جائے گی۔ اسی طرح مائیں بہو کے انتخاب میں بھی حد درجہ خوب صورتی اور مال و دولت کو دیکھتی ہیں اور دین کی پرواہ نہیں کرتیں جس کے نتیجہ میں بہو آتے ہی گھر کا سکون تباہ ہوجاتا ہے۔ شوہر اگر والدہ کو کوئی پیسہ دے دے تو بیوی ناراض ہوجاتی ہے۔ والد کی خدمت کرے تو غصہ، بہنوں کو کچھ دے دے تو خفگی اور شوہر کی پوری آمدنی پر قبضہ کرنے کی خواہش بیوی کے ذہن میں ہوتی ہے۔ پس ماں ہی وہ عظیم ہستی ہے جو اپنے بچوں کی نفسیات، پسند و ناپسند، قابلیت و اہلیت اور طبعی میلانات کا زیادہ علم رکھتی ہے۔ لہٰذا ہر ماں کو اپنے لیے داماد یا بہو کے انتخاب میں اولاد کی خواہش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہر اس پہلو کا خیال رکھنا چاہیے جو ایک اچھے اور مثالی خاندان کو جنم دے سکے۔
جواب : ہمارے معاشرے میں رسومات کی بھرمار نے غریب آدمی کے لیے اپنی اولاد بالخصوص بیٹی کی شادی کرنا بہت مشکل بنا دیا ہے۔ کوئی شخص کسی غریب کے ہاں اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی کرنے کو تیار نہیں۔ امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ کی شادیوں نے غریبوں پر بے حد ظلم کیا ہے۔ ایسے حالات میں بہت سے لوگ اپنی بچیوں کو لے کر گھروں میں بیٹھے ہیں۔ ان کے گھر کوئی رشتہ دار بھی رشتہ نہیں لے کر آتا کیونکہ ایسے والدین کے پاس لاکھوں کا جہیز دینے کی طاقت نہیں ہوتی۔ نتیجتاً وہ غریب بچیاں ساری عمر کنواری رہ جاتی ہیں۔ جب معاشرہ اس قدر بانجھ ہو جائے تو مجبوراً اخبارات میں اشتہارات دینا اور میرج بیورو میں اولاد کے اچھے رشتوں کے لیے نام لکھوانا جائز ہے، اگرچہ یہ رویہ عورت کی عصمت، تقدس اور عظمت کے منافی ہے۔
جواب : زوجین کے غلط انتخاب سے گھریلو سطح پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی میں انتخابِ زوجین جس قدر اہمیت کا حامل ہے اس قدر شاید ہی کوئی اور پہلو اہم ہو کیونکہ یہ سب سے زیادہ انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ انتخاب اچھا ہو تو اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بے شمار فوائد و ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔ جبکہ اگر انتخاب غلط ہو تو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور گھروں میں فساد اور لڑائی جھگڑے جنم لیتے ہیں۔ نتیجتاً ازدواجی زندگی بہت پیچیدہ مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں ہمیں اپنے معاشرے میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ آئے روز مختلف النوع خبریں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ جن کی بنیادی وجہ غلط انتخابِ زوجین ہوتا ہے اور اولاد کی ازدواجی زندگی میں مسائل اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں گھریلو سطح پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں :
الغرض ان گنت ایسی قباحتیں ہیںجو غلط انتخابِ زوجین کی وجہ سے پیش آتی ہیں اور گھریلو زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اس سے نہ صرف خاندان تباہ و برباد ہوتا ہے بلکہ معاشرہ بھی ترقی کی راہ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
جواب : نکاح کا مقصد انسان کے لیے سکون و راحت کا ایک مستقل ذریعہ فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ اس کے نتیجے میں ایک ایسے خاندان کی بنیاد رکھی جائے جس میں باہمی مودت، قلبی محبت، جذباتی ہم آہنگی اور یک جہتی ہو جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہے :
ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا۔
الأعراف، 7 : 189
اور وہی (اللہ) ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی میں سے اس کا جوڑ بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔
قرآنی منشاء کے مطابق نکاح کا عمل صرف اسی صورت میں راحت و سکون کا باعث بن سکتا ہے جب انتخابِ زوجین کا عمل درست اور اسلامی طرزِ پر کیا جائے، غلط انتخاب زوجین کے نفسیاتی و معاشرتی سطح پر بے شمار نقصانات ہیں جن کا شکار معاشرے میں پیدا ہونے والی وہ نئی نسل ہوتی ہے جو اس غلط انتخابِ زوجین کے نتیجے میں جنم لیتی ہے۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے والے بچے احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کی قوتِ فیصلہ ختم ہوجاتی ہے اوروہ خود اعتمادی کی دولت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ حتّٰی کہ والدین سے بھی اپنی ضروریات کا تذکرہ نہیں کر پاتے۔ ان کی طبیعتوں میں اس قدر چڑچڑا پن آجاتا ہے کہ وہ بات بات پر بگڑ جاتے ہیں، کسی مثبت کام میں بھی کسی کی مدد لینا اور نصیحت قبول کرنا گوارا نہیں کرتے۔ ایسے بچے زندگی کے میدان میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں، ان کے اندر ہر وقت جذباتی کشمکش رہتی ہے۔ ان کی ذہنی سطح اس قدر مفلوج ہو جاتی ہے کہ ذہن نشو و نما نہیں پاسکتا اور وہ تعلیم، کھیل الغرض زندگی کے ہر میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے بچے اپنے دین سے دور ہو جاتے ہیں اور نفسیاتی مسائل کا شکار بھی۔ یہی بچے بڑے ہو کر معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ تعمیری کاموں کی بجائے تخریبی کاروائیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ سگریٹ نوشی، نشہ بازی، جھوٹ، فریب، ڈاکہ زنی، حتیٰ کہ قتل و غارت گری کی عادات میں بھی گرفتار ہو جاتے ہیں۔ الغرض اس قسم کے افراد معاشرے میں بے شمار اخلاقی برائیوں کا سبب بنتے ہیں اور معاشرتی ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انتخابِ زوجین کے وقت اسلامی تعلیمات کو مدِ نظر رکھا جائے۔
جواب : ابن منظور افریقی لکھتے ہیں :
اَلْکُفْوُ : النظیر والمساوي۔
ابن منظور، لسان العرب، 1 : 139
کفو کا مطلب نظیر اور برابری ہے۔
کفاء ت کے لفظی معنی ’ہم سری‘ کے ہیں۔ بالعموم ان دو اشخاص کو ایک دوسرے کا کفو کہا جاتا ہے جو مسلمان ہوں، ایک نسب ہو اور آزاد ہوں؛ نیز پیشہ، دیانت داری اور مال داری میں مساوی حیثیت کے مالک ہوں۔ لہٰذا نکاح کے لیے لڑکے لڑکی میں ہر ممکن حد تک مناسبت کا لحاظ رکھا جائے تاکہ دونوں میں ہم آہنگی، مطابقت و موافقت اور الفت پیدا ہو۔
جواب : کفاءت میں چھ چیزوں کا اعتبار ہے جن میں مرد کا عورت کے ہمسر ہونا ضروری ہے:
1۔ اسلام (یعنی زوجین کا مسلمان ہونا)
2۔ نسب
3۔ کردار یعنی تقوی اور دین داری
4۔ حریت یعنی آزاد ہو، غلام نہ ہو
5۔ تمول یعنی مال و دولت
6۔ پیشہ صنعت و حرفت
جواب : رشتوں کی تلاش میں نسب اور خاندان کو دیکھنا ضروری ہے کیونکہ کسی بھی صحت مند معاشرے کی بنیاد مرد و عورت کے باہمی تعلق اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج پر ہوتی ہے اور مرد و عورت کا باہمی رشتہ ہی خاندان اور معاشرے کو ترتیب دیتا ہے۔ لہٰذا زوجیت کے انتخاب کے وقت زوجین کا ایک دوسرے کے لیے معیاری ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں نسب اور خاندان کو بہت اہمیت حاصل ہے، رشتوں کی تلاش میں پہلے مرد و عورت کے خاندان، ان کے حسب نسب، معاشرتی مقام، گھریلو عادات و روایات اور نجی زندگی میں دین داری کے متعلق جاننا ضروری ہے تاکہ زوجین کے باہمی تعلق سے ایک اچھے خاندان اور صحت مند معاشرے کی تشکیل وجود میں آئے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
تَجِدُونَ النَّاسَ مَعَادِنَ، فَخِیَارُہُمْ فِي الْجَاہِلِيَّۃِ خِیَارُہُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِہُوا۔
مسلم، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب خیار الناس، 4 : 1958، رقم : 2526
تم لوگوں کو معدنیات کی طرح پاؤگے، جو لوگ زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے وہ زمانہ اسلام میں بھی بہتر ہوں گے، بشرطیکہ وہ دین میں سمجھ بوجھ رکھتے ہوں۔
اِمام نووی لکھتے ہیں :
اسلام میں فضیلت تقویٰ سے ہوتی ہے اور جب تقویٰ کے ساتھ نسبی یعنی خاندانی فضیلت بھی ہوگی تو اس کی زیادہ قدر و منزلت ہوگی۔
نووی، شرح صحیح مسلم، 6 : 1201
اس لحاظ سے دین اسلام میں رشتوں کی تلاش کے وقت خاندانی شرافت، حسب و نسب اور دین داری کو لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
إِيَّاکُمْ وَخَضْرَاءَ الدِّمَنِ۔ فَقِیلَ : یَا رَسُولَ اللهِ، وَمَا خَضْرَاءُ الدِّمَنِ؟ قَالَ : الْمَرْأَۃُ الْحَسْنَاءُ فِی الْمَنْبَتِ السُّوءِ۔
1۔ قضاعی، مسند الشہاب، 2 : 96، رقم : 957
2۔ غزالی، إحیاء علوم الدین، 2 : 41
3۔ غزالی، إحیاء علوم الدین، 4 : 105
4۔ ہندی، کنز العمال، 16 : 207، رقم : 45620
تم گندگی کے سبزہ سے بچا کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یارسول اللہ! گندگی کے سبزے سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ حسین و جمیل عورت جو گندے خاندان میں پیدا ہوئی ہو۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ رشتوں کی تلاش میں خاندانی محاسن اور حسب نسب بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ عورت کی اپنی تربیت سے ہی آئندہ نسل کا معیار قائم ہوتا ہے۔ چنانچہ اچھی نسل حاصل کرنے کے لیے اچھے، نیک اور غیرت مند خاندان سے رشتہ تلاش کرنے کو اہمیت دی جانی چاہیے۔
جواب : زوجین کا ہم دین ہونا ضروری ہے کیونکہ شریعتِ اسلامی میں نکاح ایک مستقل اور تادمِ زیست معاہدہ ہے جسے ناگزیر حالات میں ہی توڑا جاسکتا ہے۔ لہٰذا جہاں شریعت ایک عاقل و بالغ مرد اور عورت کو اس بات کا پورا پورا حق دیتی ہے کہ وہ اپنی پسند اور رضا مندی سے شادی کرے، وہیں اس بات کاتقاضا بھی کرتی ہے کہ زوجین ہم دین ہوں تاکہ معاشرے میں اسلامی اقدار و روایات کو فروغ ملے اور نکاح زوجین کے لیے سکون کا باعث بنے کیونکہ حمیتِ دینیہ کے ہوتے ہوئے کسی مشرک مرد یا عورت کے ساتھ نکاح سے سکون و مودّت حاصل نہیں ہو سکتا جو نکاح کا اصل مقصد ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں حکم فرمایا :
وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ط وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ ج وَلاَ تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا ط وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ ط اُولٰٓـئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ ج وَاللهُ یَدْعُوْٓا اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ ج وَیُبَيِّنُ اٰیٰـتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَo
البقرۃ، 2 : 221
اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور بے شک مسلمان لونڈی (آزاد) مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے اور (مسلمان عورتوں کا) مشرک مردوں سے بھی نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور یقینًا مشرک مرد سے مومن غلام بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلا ہی لگے، وہ (کافر اور مشرک) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور اپنی آیتیں لوگوں کے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریںo
زوجین کاہم دین ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ دینی نظریات کے اختلافات رشتہ اِزدواج کی کامیابی میں نفسیاتی اور معاشرتی طور پر رکاوٹ بنتے ہیں۔ اَیسا تعلق جلد ہی اپنے فطری انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
جواب : کفاءت میں حسن و جمال کا اعتبار رکھنا بھی کسی حد تک ضروری ہے تاکہ ایک فریق دوسرے کو دیکھ کر احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔ لیکن دین دار ہونا اس سے زیادہ اجر رکھتا ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ الْمَرْأَۃَ تُنْکَحُ عَلٰی دِیْنِہَا وَمَالِہَا وَجَمَالِہَا، فَعَلَیْکَ بِذَاتِ الدِّیْنِ۔
ترمذی، السنن، کتاب النکاح، باب ماجاء أَن المرأۃ تنکح علی ثلاث خصال، 2 : 396، رقم : 1086
عورت سے اس کے دین، مال اور جمال کی بناء پر نکاح کیا جاتا ہے۔ لہٰذا تم دین دار عورت سے نکاح کرنے کو ترجیح دینا۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب چاندی اور سونے کے متعلق (سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر 34 میں) حکم نازل ہوا تو صحابہ نے کہا کہ پھر ہم (ناگزیر ضروریات کے لیے) کون سا مال جمع کریں؟ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے کہ میں تم لوگوں کی خاطر ابھی (اس کے متعلق) جانتا ہوں، لہٰذا وہ اپنے اونٹ پر سوار ہو کر حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے جبکہ میں اُن کے پیچھے تھا، تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم کون سا مال اختیار کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا :
لِیَتَّخِذْ أَحَدُکُمْ قَلْبًا شَاکِرًا، وَلِسَانًا ذَاکِرًا، وَزَوْجَۃً مُؤْمِنَۃً تُعِیْنُ أَحَدَکُمْ عَلٰی أَمْرِ الْآخِرَۃِ۔
1۔ أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 282، رقم : 22490
2۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب أفضل النساء، 2 : 421، 422، رقم : 1856
3۔ رویاني، المسند، 1 : 406، رقم : 620
4۔ طبراني، المعجم الأوسط، 2 : 376، رقم : 2274
تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ (اللہ تعالیٰ سے) شکر گزار دل طلب کرے، (ہمہ وقت اللہ کا) ذکر کرنے والی زبان طلب کرے اور مومن (یعنی صالح اور دِین دار) بیوی طلب کرے جو (دنیاوی امور کے ساتھ ساتھ) اُخروی امور میں بھی تمہاری معاونت کرے (یہی حقیقی مال و دولت ہیں)۔
یعنی بیوی نہ صرف دنیوی امور میں بلکہ دینی اور اخروی معاملات میں بھی اپنے شوہر کی مدد و معاونت کرے۔ لہٰذا دین دار عورت سے نکاح میں دنیا و آخرت کی بھلائی پوشیدہ ہے۔
جواب : عورت کا بناؤ سنگھار خالصتاً اُس کے شوہر کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ غیر محرم مردوں کے لیے۔ خواتین کا اپنے چہرے، ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ پورے جسم کے کسی حصے کو بھی ننگا کرنا حرام ہے۔ المیہ یہ ہے کہ خواتین تنگ اور چست لباس پہنتی ہیں کہ جسم کے اعضاء واضح طور پر نمایاں آتے ہیں۔ ان کے لباس میں آدھے بازو، گہرا گلا، ننگا سینہ، ننگی کلائیاں اور کھلے چاک برہنگی کی علامت ہوتے ہیں۔ وہ بناؤ سنگھار کر کے یہ سمجھتی ہیں کہ اس میں کوئی برائی نہیں، یہ تو فیشن کے طور پر کیا جارہا ہے۔ یہ تو ایک جملہ ہے۔ فیشن کیا ہے؟ یہ ایک بولی ہے جو نفس، شیطان اور دنیا نے سکھا دی ہے۔ یہی دنیا اور شیطان کا مکر ہے کہ خواتین کا دھیان اس طرف نہ جائے کہ وہ برائی کر رہی ہیں حالانکہ بناؤ سنگھار تو صرف شوہر کے لیے تھا جس کو زَوج کہتے ہیں۔
جواب : شادی سے پہلے استخارہ کرنا بہتر ہے کیونکہ کسی جائز کام کے کرنے یا چھوڑنے کا فیصلہ تائیدِ غیبی سے حاصل کرنے کے لیے نمازِ استخارہ ادا کی جاتی ہے۔ شادی ایک مسنون عمل ہے، لہٰذا بہتر ہے کہ اس سے پہلے بھی استخارہ کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُعَلِّمُنَا الْاِسْتِخَارَۃَ فِی الأُمُوْرِ کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّوْرَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ۔
بخاری، الصحیح، ابواب التطوع، باب ماجاء فی التطوع مثنی مثنی، 1 : 391، رقم : 1109
حضور نبی اکرم ﷺ ہمیں تمام معاملات میں استخارہ کی اس طرح تعلیم فرماتے تھے جیسے قرآن حکیم کی سورت کی تعلیم فرماتے تھے۔
اگر ایک دن استخارہ کرنے سے کچھ نظر نہ آئے تو یہ عمل سات دن تک جاری رکھا جائے۔ اِن شاء اللہ! خواب میں نظر آنے والی علامات سے مثبت یا منفی اشارہ ضرور مل جائے گا۔ لیکن یاد رہے صرف استخارہ کی بنیاد پر آنکھیں بند کر کے شادی نہ کی جائے بلکہ پسند و ناپسند اور دیگر معاملات کا ظاہری آنکھوں سے بھی اچھی طرح دیکھ بھال کر فیصلہ کرنا چاہیے۔
جواب : نمازِ استخارہ کی دو رکعات ہیں : اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھے۔ پھر درج ذیل دعا پڑھے :
اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ، وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔ اَللَّھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھَذَا الْأَمْرَ … (یہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) … خَیْرٌ لِیْ فِيْ دِیْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِيْ، فَاقْدُرْہُ لِيْ وَیَسِّرْہُ لِيْ، ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِیْہِ، وَإنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ … (یہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) … شَرٌّ لِّيْ، فِيْ دِیْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِيْ، فَاصْرِفْہُ عَنِّي وَاصْرِفْنِيْ عَنْہُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِہٖ۔
بخاری، الصحیح، کتاب التطوع، باب ما جاء فی التطوع مثنی مثنی، 1 : 391، رقم : 1109
اے اللہ! بے شک میں (اس کام میں) تجھ سے تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں اور (حصولِ خیر کے لیے) تجھ سے تیری قدرت کے ذریعے قدرت مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیرا فضل عظیم مانگتا ہوں، بے شک تو (ہر چیز پر) قادر ہے اور میں (کسی چیز پر) قادر نہیں، تو (ہر کام کے انجام کو) جانتا ہے اور میں (کچھ) نہیں جانتا اور تو تمام غیبوں کا جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کا میں ارادہ رکھتا ہوں) میرے لیے، میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کر اور آسان کر پھر اس میں میرے لیے برکت پیدا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس (کام) کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی عطا کر جہاں (کہیں بھی) ہو پھر مجھے اس کے ساتھ راضی کر دے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا پھر اپنی حاجت بیان کرو۔
جواب : جب لڑکا غریب ہو اور لڑکی کے والدین اس کا گھر بسانے کی خاطر اسے ضرورت کی کچھ اشیاء دینا چاہیں تو بطور گفٹ دے سکتے ہیں جیسا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو جہیز عطا فرمایا تھا۔ لہٰذا جہیز کو کلیتاً حرام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ آج کل جہیز کی رسم جس حد کو پہنچ چکی ہے اس میں اکثر گھرانے بیٹیوں کو اپنی حیثیت سے زیادہ جہیز دینے کی طاقت نہیں رکھتے اور لاکھوں روپے کا قرض اٹھا کر جہیز کے لوازمات پورے کرتے ہیں اور سود کی لعنت میں گرفتار ہو جاتے ہیں یا ہزاروں گھرانوں کی بیٹیاں شادی کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی بغیر شادی کے اپنے والدین کے گھروں میں محض اس لیے بیٹھی رہتی ہیں کہ ان کے والدین کے پاس جہیز دینے کے لیے سرمایہ نہیں ہوتا۔ بیشتر گھرانے غریب گھر کی بیٹی کا رشتہ محض اس وجہ سے لینے کو تیار نہیں ہوتے کہ وہ اُن کے حسبِ منشاء جہیز نہیں دے سکتے۔ چنانچہ جہیز کی یہ نہج انتہائی ظالمانہ معاشرتی برائی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ان حالات میں اس مسئلہ کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقدامات اور مؤثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔
جواب : مال میں کفاء ت کے معانی یہ ہیں کہ مرد کے پاس اتنا مال ہو کہ مہر معجل اور نفقہ دینے پر قادر ہو۔ اگر کاروبار نہ کرتا ہو تو ایک مہینے کا نفقہ دینے پر قادر ہو ورنہ روز کی مزدوری اتنی ہو کہ عورت کو روزانہ کا ضروری خرچ دے سکے۔ اس کی ضرورت نہیں کہ مال میں یہ اس کے برابر ہو۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved