جواب: اِنفاق کا معنی ’خرچ کرنا‘ اور فی سبیل اللہ کا معنی ’اللہ کی راہ میں‘ ہے۔ شرع کی رُو سے انفاق فی سبیل اللہ کا معنی ’اللہ کی راہ میں خرچ کرنا‘ ہے۔
جواب: اِنفاق فی المال کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے سرمایہ و دولت کو ضرورت مندوں پر اس طرح خرچ کیا جائے کہ ان کا معاشی تعطل ختم ہو اور ان کی تخلیقی جد و جہد بحال ہو جانے کی صورت میں وہ معاشرہ میں مطلوبہ کردار بحسن و خوبی سر انجام دے سکیں۔ اس اِنفاق کی عملی مثال مواخاتِ مدینہ ہے اور حصولِ نصب العین کے لیے فعلِ اِحسان کی عملی صورت مال کا اِنفاق ہے۔
جواب: قرآن حکیم ہمیں انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں صراحت کے ساتھ یہ حکم دیتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ چند ارشادات ملاحظہ ہوں:
1. یٰـٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ.
البقرة، 2: 254
اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو۔
2. یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ.
البقرة، 2: 267
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا کرو۔
3. وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَةِ ج وَاَحْسِنُوْا ج اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo
البقرة، 2: 195
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بے شک اللہ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔
4. لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فَاِنَّ اللهَ بِهٖ عَلِیْمٌo
آل عمران، 3: 92
تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
5. وَاٰتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ ج وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَی الزَّکٰوةَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا.
البقرة، 2: 177
اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں۔
مندرجہ بالا تمام آیات قرآنی اس بات کی ترغیب دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی راہ میں خرچ کیا جائے تاکہ اللہ کی رضا کے حصول کے ساتھ ساتھ رِزق میں برکت اور خوش حالی نصیب ہوسکے۔
جواب: اَحادیثِ مبارکہ میں بھی بیشتر مقامات پر اِنفاق فی سبیل اللہ کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے بلکہ سیرتِ طیبہ میں اِس کے عملی نظائر بے پناہ موجود ہیں۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: قَالَ اللهُ تعالیٰ: أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْکَ. وَقَالَ: یَدُ اللهِ مَلْـأٰی لَا تَغِیضُهَا نَفَقَةٌ، سَحَّاءُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ. وَقَالَ: أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ فَإِنَّهٗ لَمْ یَغِضْ مَا فِي یَدِهٖ.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تو میری راہ میں مال خرچ کر میں تجھے مال دوں گا۔ اور فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں، رات دن خرچ کرنے سے بھی خالی نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھتے جب سے آسمان اور زمین کی پیدائش ہوئی اُس وقت سے کتنا اُس نے لوگوں کو دیا لیکن اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَیْنِ فِي سَبِیلِ اللهِ، نُودِيَ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ: یَا عَبْدَ اللهِ! هٰذَا خَیْرٌ.
بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب الریان للصائمین، 2: 671، رقم: 1798
جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک چیز کا جوڑا خرچ کرے تو اسے (اس کے عمل کے مطابق) جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا، (اُسے کہا جائے گا: ) اے اللہ کے بندے! (اس دروازے سے داخل ہونا تمہارے لیے) بہتر ہے۔
3۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: لَا حَسَدَ إِلاَّ عَلَی اثْنَتَیْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ الْکِتَابَ وَقَامَ بِهٖ آنَاءَ اللَّیْلِ، وَرَجُلٌ أَعْطَاهُ اللهُ مَالًا فَھُوَ یَتَصَدَّقُ بِهٖ آنَاءَ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ.
میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: حسد (یعنی رشک) صرف دو آدمیوں پر کرنا چاہئے: ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک عطا کیا اور وہ رات کو نماز میں اس کی تلاوت کرے، دوسرا وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا تو وہ اسے رات کی گھڑیوں اور دن کے مختلف حصوں میں (راهِ خدا میں) خرچ کرتا رہا۔
4۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک اور روایت میں ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کَفٰی بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ یَحْبِسَ عَمَّنْ یَمْلِکُ قُوتَهُ.
مسلم، الصحیح، کتاب الزکاة، باب فضل النفقة علی العیال والمملوک واثم من ضیعهم أو حبس نفقتهم عنهم، 2: 692، رقم: 996
کسی آدمی کے گناہ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جس کے خرچ کا وہ ذمہ دار ہے اس کا خرچ روک لے۔
5۔ حضرت ابو موسیٰ اَشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ. قَالُوا: فَإِنْ لَمْ یَجِدْ؟ قَالَ: فَیَعْمَلُ بِیَدَیْهِ فَیَنْفَعُ نَفْسَهٗ وَیَتَصَدَّقُ. قَالُوا: فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَوْ لَمْ یَفْعَلْ؟ قَالَ: فَیُعِینُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ. قَالُوْا: فَإِنْ لَمْ یَفْعَلْ؟ قَالَ: فَلْیَأْمُرْ بِالْخَیْرِ. أَوْ قَالَ: بِالْمَعْرُوفِ. قَالَ: فَإِنْ لَمْ یَفْعَلْ؟ قَالَ: فَیُمْسِکُ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّهٗ لَهٗ صَدَقَةٌ.
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان کے لیے صدقہ ضروری ہے۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ اگر کوئی شخص اِس کی اِستطاعت نہ رکھے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے ہاتھوں سے کام کرے، جس سے اپنی ذات کو فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ لوگوں نے عرض کیا: اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو یا ایسا نہ کر سکے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ضرورت مند اور محتاج کی مدد کرے۔ لوگ عرض گزار ہوئے: اگر ایسا نہ کر سکے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے چاہیے کہ خیر کا حکم کرے یا فرمایا کہ نیکی کا حکم دے۔ لوگوں نے پھر عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کر سکے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ برائی سے رکا رہے کیونکہ یہی اس کے لیے صدقہ ہے۔
6۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
یَا عَائِشَةُ! لَا تَرُدِّي الْمِسْکِینَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ. یَا عَائِشَةُ! أَحِبِّي الْمَسَاکِینَ وَقَرِّبِیهِمْ، فَإِنَّ اللهَ یُقَرِّبُکِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ.
ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الزھد، باب ما جاء أن فقراء المھاجرین یدخلون الجنة قبل، 4: 577، رقم: 2352
اے عائشہ! کسی بھی محتاج اور ضرورت مند کو مایوس نہ کر خواہ کھجور کا ٹکڑا ہی کیوں نہ دے سکو۔ اے عائشہ! غریب اور محتاج لوگوں سے محبت کیا کرو اور ان سے قربت حاصل کرو، بے شک (اس کے صلہ میں) اللہ تعالیٰ روزِ قیامت تمہیں اپنے قرب سے نوازے گا۔
7۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَیُّمَا مُؤْمِنٍ أَطْعَمَ مُؤْمِنًا عَلٰی جُوْعٍ أَطْعَمَهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، وَأَیُّمَا مُؤْمِنٍ سَقٰی مُؤْمِنًا عَلٰی ظَمَإٍ سَقَاهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مِنَ الرَّحِیْقِ الْمَخْتُوْمِ، وَأَیُّمَا مُؤْمِنٍ کَسَا مُؤْمِنًا عَلٰی عُرْيٍ، کَسَاهُ اللهُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ.
جو مومن کسی دوسرے مومن کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن جنت کے پھل کھانے کے لیے دے گا۔ جو مومن کسی دوسرے مومن کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے مہر لگائی ہوئی شرابِ طہور پلائے گا، اور جو مومن کسی برہنہ مومن کو لباس پہنائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کا سبز لباس پہنائے گا۔
جواب: اِنفاق واجبہ سے مراد ایسے صدقات ہیں جنہیں ادا کرنا ہر صاحبِ نصاب پر لازم ہے؛ مثلاً زکوٰۃ، صدقہ فطر و عُشر اور نذر یعنی منت کا پورا کرنا وغیرہ۔
1۔ زکوٰۃ کی فرضیت و اَہمیت کے حوالے سے قرآن حکیم میں کئی مقامات پر بڑا واضح حکم دیا گیا ہے۔ مثلاً سورۃ المزمل میں فرمایا:
وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ.
المزمل، 73: 20
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔
2۔ اِسی طرح صدقہ فطر بھی ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَرَضَ زَکَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَی کُلِّ نَفْسٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ: حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، أَوْ رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ، صَغِیْرٍ أَوْ کَبِیْرٍ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، اَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ.
مسلم، الصحیح، کتاب الزکوٰة، باب زکوٰة الفطر علی المسلمین من التمر والشعیرِ، 2: 678، رقم: 984
رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کو ہر مسلمان غلام اور آزاد، مرد و عورت، بچے اور بوڑھے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو واجب ٹھہرایا۔
زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے سال بھر نصاب کا باقی رہنا شرط ہے جبکہ صدقہ فطر میں نصاب پر سال کا گزرنا شرط نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس عید الفطر کے دن نصابِ زکوٰۃ کے برابر مال اس کی حاجاتِ اَصلیہ سے زائد موجود ہوا تو اس پر صدقہ فطر کی ادائیگی واجب ہے۔
3۔ اِسی طرح زمین سے جو بھی پیداوار ہو؛ گیہوں، جَو، چنا، باجرا، دھان، گنا، ترکاریاں وغیرہ یعنی ہر قسم کے اناج، پھول، پھل میوے سب پر عُشر واجب ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
فِیمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُیُونُ أَوْ کَانَ عَثَرِیًّا الْعُشْرُ؛ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ.
بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب العشر فیما یسقی من ماء السماء وبالماء الجاری، 2: 540، رقم: 1412
وہ زمین جسے آسمان یا چشمہ سیراب کرتا ہو یا وہ خود بخود نمی کی وجہ سے سیراب ہو جائے تو اس کی پیداوار میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہے اس کی پیداوار میں بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔
جواب: اِنفاقِ نافلہ سے مراد کسی شخص کا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی ضرورت سے زائد مال غریبوں، مسکینوں، محتاجوں اور فقیروں پر خرچ کرنا ہے اور اس کا یہ خرچ کرنا صدقاتِ واجبہ کے علاوہ ہو۔ پس جو جتنا زیادہ خرچ کرے گا آخرت میں اس کے درجات بھی اتنے ہی بلند ہوں گے۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ط وَاللهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ط وَ اللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo
البقرة، 2: 261
جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اُگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
اِتَّقُوْا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ.
بخاری، الصحیح، کتاب الزکوٰة، باب اتقو النار و لو بشق تمرة والقلیل من الصدقة، 2: 514، رقم: 1351
جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر۔
قرآن حکیم اور احادیث میں صدقاتِ واجبہ کے علاوہ بھی بار بار صدقہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
جواب: جی نہیں! نفلی صدقات اُصولِ نصاب اور حد کے تعینات کے ذیل میں نہیں آتے۔ نفلی صدقات کی کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ کوئی حد مقرر نہیں بلکہ خرچ کرنے والے کی حیثیت اور ضرورت مند کی ضرورت دونوں کو پیش نظر رکھ کر خرچ کیا جائے گا۔ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا:
وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلِ الْعَفْوَ.
البقرة، 2: 219
اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں: جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)۔
مندرجہ بالا آیتِ مبارکہ سے عوام الناس کو یہ ’اُصولِ اِنفاق‘ مہیا کر دیا گیا کہ انفاق کے لیے کوئی حد مقرر نہیں، لیکن کم اَز کم اِس اَمر کا خیال رہنا چاہئے کہ اتنا کچھ ضرور بچا کر رکھ لیا جائے جس سے صاحبِ اِنفاق کی ذاتی اور عائلی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔
جواب: اِنفاقِ نافلہ کے لیے نصاب کا ہونا ضروری نہیں جبکہ اِنفاقِ واجبہ کے لیے نصاب اور ’حدِ اِنفاق‘ کا ہونا ضروری ہے، مثلاً زکوٰۃ اِنفاقِ واجبہ میں سے ہے مگر یہ مقررہ نصاب سے کم مال رکھنے والے پر فرض نہیں ہوتی اور حدِ اِنفاق بھی صدقاتِ واجبہ کے لیے ہی مقرر ہے مثلاً زکوٰۃ میں اڑھائی فیصد اور عُشر میں دس یا بیس فیصد وغیرہ۔
جواب: اسلام میں اِنفاق کو نیکی کی تصدیق اور ترکِ اِنفاق کو نیکی کی تکذیب قرار دیا گیا ہے۔ اس کی شہادت دو قرآنی آیات سے پیش کرتے ہیں جن میں ’نیکی‘ کی تصدیق اور تکذیب دونوں صورتوں کا موازنہ کیا گیا ہے، بلکہ اس موازنے سے قبل بڑے حکیمانہ انداز سے ہر جنس میں تضاد کا ذکر کیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰیo وَ النَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰیo وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰٓیo
الیل، 92: 1-3
رات کی قَسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے)۔ اور دن کی قَسم جب وہ چمک اٹھے۔ اور اس ذات کی (قَسم) جس نے (ہر چیز میں) نر اور مادہ کو پیدا فرمایا۔
پہلی دو آیات میں رات اور دن کا تضاد مذکور ہے۔ جبکہ تیسری آیت مبارکہ میں ’انسان‘ کی جنس کی بھی دو مختلف انواع میں تقسیم بیان کی گئی ہے۔
اس تضاد کو حلفیہ بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا گیا:
اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰیo
الیل، 92: 4
بے شک تمہاری کوشش مختلف (اور جداگانہ) ہے۔
یعنی کچھ لوگ اپنے عمل اور جد و جہد سے نیکی اور دین کی تصدیق کریں گے جبکہ کچھ لوگوں کی تگ و دو نیکی اور دین کی تکذیب سے عبارت ہوگی۔ لیکن اس امر کا فیصلہ قرآن حکیم نے دو ٹوک انداز میں فرما دیا کہ کون نیکی کی تصدیق کر رہا ہے اور کون تکذیب؟ ارشاد ہوتا ہے:
فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْیُسْرٰیo وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰیo وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْعُسْرٰیo
الیل، 5-10
پس جس نے (اپنا مال اللہ کی راہ میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی۔ اور اس نے (اِنفاق و تقویٰ کے ذریعے) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کی تصدیق کی۔ تو ہم عنقریب اسے آسانی (یعنی رضائے الٰہی) کے لیے سہولت فراہم کر دیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور (راهِ حق میں مال خرچ کرنے سے) بے پروا رہا۔ اور اس نے (یوں) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کو جھٹلایا۔ تو ہم عنقریب اسے سختی (یعنی عذاب کی طرف بڑھنے) کے لیے سہولت فراہم کر دیں گے (تاکہ وہ تیزی سے مستحقِ عذاب ٹھہرے)۔
گویا قرآن حکیم نے واضح الفاظ میں انفاق کو نیکی کی تصدیق اور بخل کو نیکی کی تکذیب قرار دے دیا ہے، بلکہ یہ بھی واضح کر دیا کہ جو شخص بھی ’فعلِ اِنفاق‘ اپنائے گا اس کے لیے اس کی منزل اور نصب العین کا حصول نہایت آسان کر دیا جائے گا اور اس کے برعکس جو شخص ترکِ انفاق یعنی بخل اور ارتکازِ دولت کے راستے پر گام زن ہوگا اس کے لیے منزلِ حق کا حصول دشوار کر دیا جائے گا۔ تو وہ جان لے کہ اس کا یہ عمل نیکی اور دین کی تصدیق نہیں بلکہ تکذیب ہے اور جس نے تکذیب کی روش کو اختیار کیا تو وہ عذاب الٰہی کا مستحق ٹھہرا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا یُغْنِیْ عَنْهُ مَالُهٗٓ اِذَا تَرَدّٰیo
الیل، 92: 11
اور اس کا مال اس کے کسی کام نہیں آئے گاجب وہ ہلاکت (کے گڑھے) میں گرے گا۔
جواب: تزکیہ ’پاک صاف کرنے‘ اور ’نشو و نما دینے‘ کو کہتے ہیں۔
تزکیہ نفس کی تعریف کرتے ہوئے امام راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں:
خیرات و برکات کا نفسِ انسانی میں نشو و نما پانا تزکیہ نفس کہلاتا ہے۔
راغب اصفهانی، المفردات: 214
یہ لفظ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر ان معانی میں استعمال ہوا ہے۔ اِرشاداتِ باری تعالیٰ ہیں:
1. اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ط وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِهٖ ط وَاِلَی اللهِ الْمَصِیْرُo
فاطر، 35: 18
(اے حبیب!) آپ ان ہی لوگوں کو ڈر سناتے ہیں جو اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کوئی پاکیزگی حاصل کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لیے پاک ہوتا ہے، اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
2. ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَاَطْهَرُ ط وَاللهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَo
البقرة، 2: 232
اس شخص کو اس امر کی نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ پراور یومِ قیامت پر ایمان رکھتا ہو، یہ تمہارے لیے بہت ستھری اور نہایت پاکیزہ بات ہے، اور اللہ جانتا ہے اور تم (بہت سی باتوں کو) نہیں جانتے۔
مذکورہ بالا آیات کے بیان سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوگئی کہ تزکیہ اپنی جانوں کو رذائل و مذمت سے پاک و صاف کرنے کا نام ہے۔ پاک صاف کرنے کی ضرورت تبھی پیدا ہوتی ہے جب نفوسِ انسانی میں میل کچیل موجود ہو، رذائل اور میل کچیل کا نفسِ انسانی میں موجود ہونا اس وجہ سے ثابت ہے کہ فطرتِ انسانی نیکی اور بدی دونوں طرح کے رجحانات اور صلاحیتیں اپنے اندر رکھتی ہے۔
تزکیہ کے عمل کو اس طرح بھی آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جیسے کوئی کیاری ہو، آپ محنت کرکے اس میں صاف ستھرا پودینہ اگانا چاہیں اور ساتھ ہی اس میں کچھ خود رَو پودے بھی اُگ آئیں۔ تو اب آپ چاہیں گے کہ ان خود رَو پودوں کو چن چن کر اکھاڑ پھینکیں کیونکہ اگر انہیں بدستور اگُنے دیا جائے تو دو قسم کی خرابیاں پیدا ہوں گی: ایک تو یہ کہ کیاری کی صفائی اور نظافت و لطافت باقی نہ رہے گی۔ دوسری یہ کہ پودینے کے پودوں کی صحت اور نشو و نما پر اثر پڑے گا۔ کیونکہ زمین کی تخلیقی قوت خالصتاً پودینے کی نشو و نما پر صرف ہونے کی بجائے خود رَو، غیر ضروری اور ناپسندیدہ جڑی بوٹیوں کی صحت و نشو و نما پر بھی خرچ ہونے لگے گی۔ اس سے پودینے کی نشو و نما رک جائے گی یا صحیح طور پر نہ ہو سکے گی۔ زمین کی تخلیقی قوت کو غلط مصرف سے بچانے اور پودینے کی صحیح نشو و نما کی ضمانت مہیا کرنے کی خاطر جب آپ خود رَو پودوں کو اکھاڑ پھینکتے ہیں تو یہی عمل کیاری کے لیے تزکیہ کہلاتا ہے۔
جواب: جی ہاں! اِنفاق تزکیہ مال اور تزکیہ نفس کا باعث بنتا ہے کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ رضائے الٰہی کے نصب العین کا محرک ’تزکیہ‘ ہے اور تزکیہ دو طرح کا ہوتا ہے: تزکیہ مال اور تزکیہ نفس۔ قرآن حکیم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تزکیہ کی دونوں صورتیں ’انفاق‘ پر منحصر ہیں اور دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ کیونکہ عمل انفاق سے حاصل ہونے والا تزکیۂ مال بلاشک و شبہ ’تزکیہ نفس‘ کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عملِ اِنفاق تزکیہ نفس کی یقینی صورت ہے یعنی تزکیہ نفس کے لیے اِنفاق فی سبیل اللہ ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَسَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَیo الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَکّٰیo وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰٓیo اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰیo وَلَسَوْفَ یَرْضٰیo
الیل، 92: 17-21
اور اس (آگ) سے اس بڑے پرہیز گار شخص کو بچا لیا جائے گا۔ جو اپنا مال (اللہ کی راہ میں) دیتا ہے کہ (اپنے جان و مال کی) پاکیزگی حاصل کرے۔ اور کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو۔ مگر (وہ) صرف اپنے ربِ عظیم کی رضا جوئی کے لیے (مال خرچ کر رہا ہے)۔ اور عنقریب وہ (اللہ کی عطا سے اور اللہ اس کی وفا سے) راضی ہو جائے گا۔
مذکورہ بالا آیات سے درج ذیل اصول اخذ ہوتے ہیں:
1۔ ’اِنفاق فی المال‘ تقویٰ کی سب سے بڑی صورت ہے۔
2۔ ’اِنفاق فی المال‘ دوزخ کے عذاب سے بچاؤ کی ضمانت ہے۔
3۔ ’اِنفاق فی المال‘ سے حقیقی تزکیہ نفس نصیب ہوتا ہے۔
4۔ عملِ اِنفاق صرف رضاے اِلٰہی کے حصول کی خاطر ہونا چاہیے۔
5۔ رضاے اِلٰہی کے حصول کی غرض سے اپنایا ہوا عملِ اِنفاق اِنسان کو یقینا مرتضاے الٰہی بنا دیتا ہے۔
گویا عملِ اِنفاق نہ صرف تزکیہ مال بلکہ تزکیہ نفس کا بھی باعث بنتا ہے، کیونکہ رضاے اِلٰہی کی اَصل اور عملی اَساس ہی ’اِنفاق فی المال‘ ہے۔
جواب: جی ہاں! عملِ اِنفاق اِجابتِ دعا کا بھی ذریعہ بنتا ہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ دعائیں قبول فرماتا ہے؛ یعنی صدقہ و خیرات اور دعاؤں کی قبولیت کا باہمی تعلق بہت گہرا ہے۔
قرآن حکیم میں اِرشاد ہوتا ہے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَةً تُطَھِّرُهُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ ط اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ ط وَاللهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo
التوبة، 9: 103
آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرمادیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بے شک آپ کی دعا ان کے لیے (باعثِ) تسکین ہے، اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
آیتِ متذکرہ میں ترتیبِ الفاظ پر غور کرنے سے درج ذیل تین اُمور سامنے آتے ہیں:
1۔ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے۔
2۔ تُطَهِرُهُمْ وَتُزَکِّیْهِمْ بِهَا آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرمادیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں۔
3۔ وَصَلِّ عَلَیْهِمْ ط اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ ط وَاللهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بے شک آپ کی دعا ان کے لیے (باعثِ) تسکین ہے، اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
سب سے پہلے صدقہ و اِنفاق کا عمل جاری کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس ’اِنفاق‘ کے ذریعے تمہاری ظاہری و باطنی میل کچیل دور ہوجائے گی۔ تمہارا قلب و باطن اور نفس آلودگیوں سے پاک و صاف ہوجائے گا۔ تزکیہ کا یہ عمل جو محض اِنفاق فی المال کا نتیجہ و ثمرہ ہے، تمہیں ظلماتِ نفسانی سے نجات دلادے گا۔ گویا خلقِ خدا کی منفعت اور فیض رسانی کو اپنا شعار بنا کر جب تم اپنے لیے بارگاهِ ایزدی کی طرف متوجہ ہوگے تو تمہاری دعائیں قبولیت کے ساتھ نوازی جائیں گی اور قبولیتِ دعا کا یہ احساس تمہیں قلبی سکون عطا کرے گا۔ بے شک اللہ تمہاری ان دعاؤں کو بھی سنتا ہے جو تم اپنی منفعت کے لیے مانگتے ہو اور تمہارے اس عمل کو بھی جانتا ہے جو تم دوسروں کی منفعت کی خاطر کرتے ہو یا نہیں کرتے۔
خلقِ خدا کے حق میں صدقہ و انفاق جتنا کثیر ہوگا اسی قدر اِجابتِ دعا نصیب ہوگی اور اگر انسان دوسروں کی منفعت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یا دوسروں کے حقوق پامال کرتے ہوئے، دوسروں کے حق میں نفع بخشی، فیض رسانی اور درد مندی کا عمل نظر انداز کرتے ہوئے خود کو اپنے ذاتی مفادات اور حقوق و منافع کے تنگ حصار میں محصور کرلے تو دعائیں شانِ اِجابت سے بہرہ ور نہیں ہوا کرتیں۔ اگرچہ یہ دعائیں رائیگاں نہیں جاتیں کیونکہ دعا خود عبادت ہے، تاہم اس لیے ان کا اجر کسی نہ کسی طور مل ہی جاتا ہے لیکن دعا کا مطلوبہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔
جواب: نیکی اور تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول اِنفاق فی سبیل اللہ کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فَاِنَّ اللهَ بِهٖ عَلِیْمٌo
آل عمران، 3: 92
تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
یہاں ’بِرّ‘ یعنی نیکی اور دین داری کا حصول ’اِنفاق فی المال‘ کے بغیر ناممکن قرار دے دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم کا اس سے زیادہ صریح اعلان اور کیا ہوسکتا ہے کہ نیکی و پرہیزگاری صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے راستے میں انفاقِ مال پر منحصر ہے۔ گویا عام لفظوں میں ’اِنفاق‘ ہی کو بِر یعنی نیکی قرار دے دیا گیا۔ پس انفرادی طور پر جو اُصول اس آیت سے وضع ہوئے وہ یہ کہ ’اصل نیکی‘ اِنفاق سے ہی ممکن ہے، اس کے بغیر کوئی بھی عمل نیکی قرار نہیں پاسکتا۔ حقیقی نیکی خدا کے نزدیک اِنفاق فی المال کے عمل سے میسر آتی ہے۔
سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 177 کے الفاظ بھی اِسی حقیقت کی تائید کررہے ہیں کہ اصل نیکی ’اِنفاق فی المال‘ ہے۔ ارشاد فرمایا گیا:
وَلٰـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَةِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَاٰتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ.
بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے۔
اِس آیت میں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ یہاں قرآن حکیم شرطِ اِیمان پوری کرنے کے بعد نیکی کے حصول کا سب سے اَوّلین تقاضا ’اِنفاق فی المال‘ کو ہی قرار دے رہا ہے۔ آیت کے آخر میں اِرشاد فرمایا گیا:
اُولٰٓـئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَo
یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں۔
گویا بِرّ، صدق اور تقویٰ جیسے تمام تصورات کا تقاضاے اَوّلین ’اِنفاق فی المال‘ ہے۔
جواب: قرآن حکیم کی سورہ مبارکہ ’الماعون‘ میں دین کو جھٹلانے والے لوگوں کی درج ذیل علامات بیان کی گئی ہیں:
اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِo فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَo وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَo الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَo الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآئُ وْنَo وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَo
الماعون، 107: 1-7
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو رد کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)۔ اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)۔ پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لیے۔ جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اللہ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)۔ وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں (کیوں کہ وہ خالق کی رسمی بندگی بجا لاتے ہیں اور پسی ہوئی مخلوق سے بے پرواہی برت رہے ہیں)۔ اور وہ برتنے کی معمولی سی چیز بھی مانگے نہیں دیتے۔
سورۃ مذکورہ کی دوسری آیت میں یتیم کا لفظ بطورِ علامت استعمال ہوا ہے، دراصل یہاں مراد تمام خستہ حال لوگ ہیں۔ آیت میں ان لوگوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو معاشرے کے بے سہارا یتیموں سے نفرت کرتے ہیں اور ان کی بھلائی اور ہم دردی و خیر خواہی کی کوئی تڑپ ان کے دلوں میں موجود نہیں ہوتی۔ یَدُعُّ یعنی دھکے دینے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنے نام نہاد دنیاوی مقام و مرتبہ اور خود ساختہ معاشرتی حیثیت کے برابر نہ سمجھتے ہوئے خود سے دور رکھتے ہیں۔ ان سے لا تعلقی، بیگانگی اور کبر و نخوت کا سلوک کرتے ہیں بلکہ انہیں معاشرے پر بوجھ تصور کرتے ہیں۔ اس آیت کے ذریعے قرآن نے دین کو جھٹلانے والوں کی ایک مخصوص ذہنیت کی نشان دہی کی ہے جو نام نہاد ’بڑے لوگوں‘ میں فراوانی کے ساتھ پائی جاتی ہے۔
سورۃ کی تیسری آیت میں ان کی ایک اور خصوصیت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ حاجت مندوں اور مسکینوں کی معاشی کفالت کرنے کے لیے نہ خود تیار ہوتے ہیں اور نہ اس کے لیے دوسروں کو تیار کرتے ہیں۔ یعنی ان ضرورت مندوں کو معاشی تعطل سے نجات دلانے کو غیر ضروری تصور کرتے ہوئے ’اِنفاق فی المال‘ نہیں کرتے۔ وَلَا یَحُضُّ میں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ ان کی جد و جہد کا رُخ کبھی بھی یہ نہیں ہوتا کہ معاشرے کے اہلِ ثروت افراد کا رویہ غریب اور بے سہارا لوگوں کی نسبت بدلا جائے۔ ’ترغیب دلانے‘ سے مراد یہ ہے کہ اپنے قول و فعل اور سعی و کاوش سے دوسرے لوگوں کو اس امر کا قائل کیا جائے کہ ہمارے مال و دولت میں صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ معاشرے کے دیگر مستحق افراد کا بھی حق ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں مذکور ہے:
وَ فِیْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِo
الذاریات، 51: 19
اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا۔
گویا جو لوگ محتاجوں کو ایسی مجبوری کی حالت میں مبتلاء دیکھ کر بے نیازی سے اپنا وقت گزار رہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو دین کو جھٹلانے والے ہیں، خواہ وہ کتنے ہی دین دار بنتے پھریں۔
سورۃ الماعون کی اگلی آیات (4-6) میں قرآن حکیم نے المصلّین کی اصطلاح استعمال کر کے ایک اور عقدہ حل کر دیا ہے۔ تکذیبِ دین (یعنی دین کو جھٹلانے) کا فعل ظاہری عبادات کے التزام کے باوجود بھی ہوسکتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ کچھ لوگ نماز وغیرہ کا اہتمام بھی کرتے ہوں لیکن اس کے باوجود ان کا طرزِ عمل دین حق کو جھٹلانے کے مترادف ہو۔ قرآن حکیم اس امر کی وضاحت بڑے زور دار الفاظ میں کر رہا ہے کہ تباہی اور ہلاکت یا عذابِ آخرت کے حق دار ہیں وہ لوگ جو نماز تو پڑھتے ہیں لیکن نماز کی روح ان کے عمل میں نہیں ہوتی۔ اس روحِ نماز کو فراموش کرنے کا ذکر قرآن حکیم اسی سورت میں پہلے ہی واضح کر چکا ہے۔ یعنی اگر لوگ نماز پڑھ کر یہ سمجھیں کہ ہم نے اپنا فرضِ بندگی اور تقاضائے دین پورا کر دیا جبکہ وہ اپنے معاشرے کے ضرورت مندوں اور بے سہارا لوگوں کی معاشی پریشانیوں کی کوئی پروا نہ کریں اور نہ ہی انہیں ابتلاء کی اذیتوں سے نجات دلانے کی کوشش کریں تو قرآن حکیم ان لوگوں کو للکار کر کہہ رہا ہے کہ اس طرح فریضہ بندگی اور تقاضائے دین پورا نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ایسا طرزِ عمل خدا کے نزدیک دین کی تکذیب ہے، ایسی نمازیں دکھلاوا اور ریاکاری کے سوا کچھ نہیں اور یہ ریاکارانہ عبادات جنت نہیں بلکہ دوزخ میں داخلے کا باعث ہوں گی۔
سورۃ الماعون میں دین کو جھٹلانے والوں کی آخری علامت آیت نمبر 7 میں بیان کی گئی ہے کہ وہ گھر کے برتنے کی معمولی چیزیں بھی اپنی ذات تک روک رکھتے ہیں۔ ان کے استفادہ و استعمال میں دوسروں کو شریک نہیں ہونے دیتے۔ جبکہ اسلام ’تصورِ انفاق‘ کی صورت میں دین کا جو ’وجوبی ضابطہ‘ عطا کرتا ہے اس میں اشیائے صرف یعنی گھر کے استعمال کی چیزوں میں بھی دوسروں کو نفع حاصل کرنے کا حق دیتا ہے۔ کوئی مالک ان اشیاء کی ملکیت بھی اس طرح غیر محدود اور غیر مشروط نہیں رکھ سکتا کہ دوسروں کی ضرورت کے باوجود انہیں ان سے محروم رکھا جاسکے بلکہ ایسا طرزِ عمل قرآن حکیم کے واضح اعلان کے مطابق تکذیبِ دین ہے جسے سادہ لفظوں میں اسلام کے ساتھ کفر کہا جاسکتا ہے۔
جواب: عدل یہ ہے کہ انسان اس حد تک بے لوث اور بے غرض ہو، اور دیگر اَفرادِ معاشرہ کے حق میں اس حد تک درد مند، بہی خواہ، نفع بخش اور فیض رساں ہو جائے کہ جو کچھ وہ اپنی ذات کے لیے پسند کرے یا روا رکھے کم از کم وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرے اور ہو سکے تو انہیں مہیا بھی کرے۔ اگر خادم رکھتا ہو تو اسے اُسی معیار کا لباس پہنائے جیسا خود پہنتا ہے، اُسی معیار کا کھانا کھلائے جیسا خود کھاتا ہے۔
جواب: لفظِ احسان، حَسَنَ/ حَسُنَ یَحْسُنُ حُسْناً سے ہے۔ اس کا معنی حسن و خوبصورتی، خیر و خوبی، نیکی، اچھائی اور بھلائی ہے۔ حُسْن کی ضد القُبْحُ وَالسُّوْء یعنی قباحت، شر، گناہ، بد صورتی، بدی اور برائی ہے۔ جبکہ إحسان کی ضد إسَائَۃ ہے۔ اِس کے معنی بھی قباحت اور برائی کے ہیں۔ امام ابومنصور الازہری نے تہذیب اللغۃ میں حَسَنَ اور إحسَان کے بنیادی معنی کے لیے اللیث کا یہ قول روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا.
() البقرہ، 2: 83
اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کا معنی ہے: قَوْلاً حَسَناً یعنی لوگوں کے ساتھ اچھی، خوبصورت اور بھلائی کی بات کیا کرو۔
اِسی طرح والدین کے ساتھ احسان کے طرزِ عمل کا حکم بھی اسی لفظ کے ساتھ دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا.
العنکبوت، 29: 8
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم فرمایا۔
گویا والدین کے ساتھ کلام میں، عمل میں، برتاؤ میں الغرض ہر معاملے میںحسن، خوبصورتی، شفقت، بھلائی اور رحمت ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے۔ اس پورے طرزِ عمل کو حُسْناً سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن حکیم نے اس حکم کی مزید تصریح یوں فرمائی ہے:
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ.
حم السجدة، 41: 34
اور وہ نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی۔
معلوم ہوا ہے کہ حَسَنَۃ اور سَیِّئَۃ یعنی اچھائی اور برائی کبھی برابر نہیں ہو سکتیں، اور دوسری بنیادی تعلیم یہ دی گئی ہے کہ: مسلمانو! برائی کا جواب برائی سے نہ دو، بلکہ برائی کا جواب بھی اچھائی سے دو، بری بات کے مقابلے میں بھی اچھی اور خوبصورت بات کہو۔ اس لیے کہ احسن قول اور احسن عمل، دونوں برائی کو رد کرکے اُلفت اور تعاون کا ماحول پیدا کرتے ہیں، برائی اِفتراق کی طرف لے جاتی ہے جبکہ اچھائی اتفاق کی طرف، برائی اور زیادتی نفرت پیدا کرتی ہے جب کہ اچھائی اور بھلائی، محبت و یگانگت۔ یہی حقیقتِ احسان ہے۔ اِسی لیے باری تعالیٰ نے مسلمانوں کو دُنیا اور آخرت کے لیے حسنۃ طلب کرنے کا حکم فرمایا ہے:
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo
البقرة، 2: 201
اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
یہ امر واضح رہے کہ اس آیت میں حسنۃ سے مراد محض اَعمالِ صالحہ اور عبادات نہیں ہیں، کیونکہ آخرت میں تو فقط جزا ہوگی، اعمال نہیں ہوں گے۔ سو آخرت میں کون سے اعمالِ صالحہ اور عبادات کی دعا کی جا رہی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ دونوں جگہ پر حسنۃ سے مراد ’احسان‘ ہے یعنی دُنیا میں ہر اچھائی، بھلائی اور احسان کے طرزِ عمل کی توفیق مانگی جا رہی ہے اور ایسی زندگی طلب کی جا رہی ہے جس میں سراسر خیر ہو اور وہ ہر فتنہ و شر اور ظلم و عدوان سے محفوظ و مامون ہو؛ اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے احسان کی خیرات مانگی جا رہی ہے جو عدل سے بھی بلند تر درجہ ہے۔ الغرض دنیا کی حسنۃ سے مراد ہر خیر اور بھلائی کا میسر آنا اور ہر شر اور تکلیف سے امن و حفاظت ہے۔ اسی طرح آخرت کی حسنۃ سے مراد بھی عذاب آخرت سے امن و حفاظت، روزِ محشر کی مشکلات میں آسانی، حساب و کتاب میں سہولت اور جہنم سے نجات ہے۔
قرآن مجید میں طرزِ عمل کے دو درجات بیان کیے گئے ہیں: عدل اور احسان۔ ارشادِ ربانی ہے:
اِنَّ اللهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ.
النحل، 16: 90
بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے۔
امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ عدل یہ ہے کہ انسان پر جس قدر دینا واجب ہو اس قدر دے، اور جس قدر لینا اس کا حق ہو اس قدر لے۔ مگر احسان یہ ہے کہ جس قدر دینا واجب ہو اس سے زیادہ دے، اور جس قدر لینے کا حق ہو اس سے کم لے۔ گویا دینے میں بھی دوسروں پر بھلائی اور سخاوت سے کام لے اور دوسروں سے لینے میں بھی بھلائی اور سخاوت کا مظاہرہ کرے۔ اس لیے احسان کا درجہ عدل سے بلند رکھا گیا ہے۔ سو عدل کی جزا عدل ہے جبکہ احسان کی جزا احسان ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُo
الرحمٰن، 55: 60
نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اِس لیے حکم فرمایا گیا ہے کہ جس طرح انسان دُنیا میں ’احسان‘ کی صورت میں دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیتا ہے، اسی طرح باری تعالیٰ بھی آخرت میں احسان شعار لوگوں کو ان کے حق سے زیادہ عطا فرمائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَةٌ.
یونس، 10: 26
ایسے لوگوں کے لیے جو اِحسان شعار ہیں نیک جزا ہے بلکہ (اس پر) اضافہ بھی ہے۔
جو لوگ محسنین یعنی احسان شعار ہوں گے ان کے لیے جنت کی جزا ہوگی اور پھر ان کے اس حق سے انہیں بہت ’زیادہ‘ عطا کیا جائے گا۔ مفسرین نے تصریحاً بیان کیا ہے کہ زیادۃ سے مراد النظر إلی اللہ u یعنی دیدارِ الٰہی ہے۔ کیا عجب بات ہے کہ جس طرح اسلام کے ذریعے ’سلامتی‘ کے معنی کو بلند رتبہ عطا فرمانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود اپنا ایک نام السّلام بیان فرمایا ہے اور ایمان کے ذریعے ’امن و امان‘ کے معنی کو بلند رتبہ دینے کے لیے باری تعالیٰ نے خود اپنا ایک نام المؤمن بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح احسان کے ذریعے حسن، خوبصورتی، خیر اور بھلائی کے معنی کو بلند رتبہ دینے کے لیے باری تعالیٰ نے اپنے تمام ناموں کو ہی حسن کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی.
الأعراف، 7: 180
اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں۔
یعنی اللہ تعالیٰ کے سارے نام ہی نہایت حسن والے ہیں۔
(1) یاد رہے کہ اَلْحُسْنٰی، أَحْسَن کی تانیث ہے اور یہ اسماء کے جمع ہونے کی وجہ سے آئی ہے۔ اگر یہ ایک اسم ہوتا تو اسے أَحْسَن فرمایا جاتا، جس طرح باری تعالیٰ نے سورۃ طٰہٰ کی آیت نمبر 23 میں اپنی ’آیات‘ کے لیے الکبریٰ فرمایا ہے:
لِنُرِیَکَ مِنْ اٰیٰـتِنَا الْکُبْرٰیo
(طٰہ، 20: 23)
یہ اس لیے (کر رہے ہیں) کہ ہم تمہیں اپنی (قدرت کی) بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔
یہاں پر الکبریٰ، اکبر کی تانیث ہے۔
قرآن مجید نے دوسروں کے ہر حق کی ادائیگی میں بھی حکمِ احسان دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍ.
البقرة، 2: 178
اور اسے احسان کے طریق پر ادا کریں۔
اس لیے باری تعالیٰ نے کبھی اِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ (1) (بے شک اللہ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے) فرما کر احسان شعار لوگوں کو اپنی خصوصی سنگت و معیت کا مژدۂ جانفزا سنایا ہے، کبھی اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن (2) (بے شک اللہ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے) فرما کر احسان شعاروں کو اپنی محبت کے انعامِ لازوال کی خوش خبری سنائی ہے اور کبھی مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ (3) (صاحبانِ اِحسان پر اِلزام کی کوئی راہ نہیں) فرما کر اِحسان شعاروں کو خصوصی حفاظت اور اُلوہی امان کی ضمانت سے نوازا ہے۔ اور یہ بھی ارشاد فرمایا ہے:
وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ ِللهِ وَھُوَ مُحْسِنٌ.
النساء، 4: 125
اور دین اِختیار کرنے کے اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا۔
قرآن مجید نے ہلاکت و تباہی سے بچنے کا طریق بھی ’احسان‘ تجویز فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَةِ ج وَاَحْسِنُوْا ج اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo
البقرة، 2: 195
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بے شک اللہ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر شخص پر ہر عمل میں احسان کو واجب قرار دیا گیا ہے، حتیٰ کہ کسی انسان کو قتل کرنے اور جانور کو اذیت دے کر ذبح کرنے سے بھی منع کردیا گیا۔
1۔ صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں حضرت شداد بن اَوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ کَتَبَ الإِحْسَانَ عَلَی کُلِّ شَيئٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْیُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَهُ، فَلْیُرِحْ ذَبِیْحَتَهُ.
مسلم، الصحیح، کتاب الصید والذبائح وما یؤکل من الحیوان، باب الأمر بإحسان الذبح والقتل وتحدید الشفرة، 3: 1548، رقم: 1955
اللہ تعالیٰ نے ہر کام میں اِحسان فرض کیا ہے۔ جب تم قتل کرو تو احسن طریقے سے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح سے ذبح کرو اور ذبح کرنے والے کو چاہیے کہ چھری کو اچھی طرح تیز کرے اور اپنے ذبح ہونے والے جانور کو آرام دے۔
2۔ حضرت ابو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُحْسِنْ إِلَی جَارِهِ.
مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب الحث علی إکرام الجار، 1: 69، رقم: 48
جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اِحسان سے پیش آئے۔
3۔ اسی طرح حضرت ابوذرّ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اتَّقِ اللهَ حَیْثُمَا کُنْتَ، وَأَتْبَعِ السَّیِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بخُلُقٍ حَسَنٍ.
ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في معاشرة الناس، 4: 355، رقم: 1987
تم جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، گناہ کے بعد نیکی کیا کرو، وہ اسے مٹا دے گی اور لوگوں سے اَخلاقِ حسنہ کے ساتھ پیش آیا کرو۔
جواب: احسان عام طور پر کسی پر بھلائی اور انعام کرنے کو کہتے ہیں۔ اس کا مفہوم صحیح طور پر اس آیت سے واضح ہوتا ہے:
اِنَّ اللهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo
النحل، 16: 90
بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔
آیتِ مذکورہ میں دو چیزوں کا بیان ہے:
دونوں کا فرق امام راغب اصفہانی یوں بیان کرتے ہیں:
عدل یہ ہے کہ جس قدر دینا فرض ہو اسی قدر دیا جائے اور جس قدر لینا فرض ہو اسی قدر لیا جائے۔ جبکہ احسان یہ ہے کہ جس قدر دینا فرض ہو اس سے زیادہ دیا جائے اور جس قدر لینا حق ہو اس سے کم لیا جائے۔
راغب اصفهانی، المفردات: 325
اس سلسلے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی کتاب ’اِسلامی فلسفہ زندگی‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’عدل و احسان‘ کا مذکورہ معیار کم سے کم حد پر مبنی ہے کیونکہ اس کا تو حکم دیا جا رہا ہے اور حکم اس واجب التعمیل امر کا نام ہوتا ہے جس کا ترک گناہ ہو، اگر یہ کم سے کم عدل اور احسان بھی نہ ہو تو انسان گنہگار ہوجائے گا۔ لہٰذا احسان کا یہ مفہوم اہل ایمان کے لیے درجہ فرض میں ہے، اسے ’مطلق احسان‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور ’کمالِ احسان‘ یہ ہے کہ انسان اپنا سارا کا سارا حق دوسروں کے لیے قربان کر دے۔
اِحسان یہ ہے کہ اپنا لطف قربان کرکے دوسروں کو بہم پہنچائے۔
اِحسان یہ ہے کہ صرف دوسروں کے واسطے زندہ رہے۔
اِحسان یہ ہے کہ اپنے سکھ بھی دوسروں میں بانٹ دے۔
عدل و اِحسان کے تقابلی جائزے کے لیے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ نَتَصَدَّقَ، فَوَافَقَ ذَالِکَ عِنْدِي مَالًا، فَقُلْتُ: الْیَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَکْرٍ إِنْ سَبَقْتُهٗ یَوْمًا. قَالَ: فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا أَبْقَیْتَ لِأَهْلِکَ؟ قُلْتُ: مِثْلَهٗ، وَأَتٰی أَبُوْ بَکْرٍ بِکُلِّ مَا عِنْدَهٗ، فَقَالَ ﷺ: یَا أَبَا بَکْرٍ، مَا أَبْقَیْتَ لِأَھْلِکَ؟ قَالَ: أَبْقَیْتُ لَهُمُ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ. قُلْتُ: لَا أَسْبِقُهٗ إِلٰی شَيئٍ أَبَدًا.
ہمیں رسول اللہ ﷺ نے صدقہ دینے کا حکم فرمایا۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے میرے پاس مال تھا۔ میں نے (اپنے آپ سے) کہا: اگر میں ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کبھی سبقت لے جا سکا تو آج سبقت لے جاؤں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: اتنا ہی مال اُن کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔ (اتنے میں) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ - جوکچھ اُن کے پاس تھا - وہ سب کچھ لے کر حاضرِ خدمت ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو بکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: میں ان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسول ﷺ چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمر ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے (دل میں) کہا: میں اِن سے کسی شے میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اِس حدیث سے بخوبی واضح ہوگیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل عدل کا غماز تھا جب کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا عمل اِحسان کا آئینہ دار تھا۔
جواب: عملِ اِنفاق کی دو صورتیں ہیں: اِنفرادی اور اِجتماعی۔
اِنفرادی سطح پر اِنفاق سے مراد ہے کہ افراد اپنے طور پر اپنے حلقہ اثر میں اس شخص کو، جو معاشی مشکلات کا شکار اور ضروریاتِ زندگی سے محروم ہو کر معاشرے کا ناکارہ عضو بن کر رہ گیا ہو، اس کی اور اس جیسے دوسرے ضرورت مند افراد کی مالی مدد اس انداز سے کریں کہ ان کی عزتِ نفس بھی برقرار رہے اور ان کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں۔ حتی کہ وہ کسی اور کے محتاج نہ رہیںبلکہ ان کی زندگی سے معاشی تعطل اس طرح ختم ہو جائے کہ وہ معاشرے میں باعزت شہریوں کی طرح تعمیری کردار ادا کر سکیں اور اس حیثیت میں آجائیں کہ انہیں ان کا صحیح مقام مل جائے۔ اس سلسلے میں قریبی رشتہ دار وں اور پڑوسیوں کے علاوہ وہ لوگ سب سے زیادہ مستحق ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو دین اِسلام کی خدمت کے لیے ہمہ وقت اس طرح وقف کر دیا ہو کہ ان کے پاس روزی کمانے کی فرصت ہی باقی نہ رہی ہو۔ وہ لوگ خدمتِ اِسلام میں اِس طرح کھوئے ہوئے ہوں کہ انہیں اپنے رزق، کاروبار اور معاملات کی پروا ہی نہ ہو۔ اگر یہ لوگ معاشی تعطل کا شکار ہو گئے تو دینِ حق کی خدمت اور اِحیاء ملّت کی خاطر ہونے والی جد و جہد معطل ہو کر رہ جائے گی۔ قرآن حکیم میں اس کے بارے میں یوں ارشاد ہوا ہے:
لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ج تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰهُمْ ج لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللهَ بِهٖ عَلِیْمٌo اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ج وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَo
البقرة، 2: 273-274
(خیرات) ان فقراء کا حق ہے جو اللہ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیے گئے ہیں وہ (امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث) زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے ان کے (زُھداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان (جو ان کے حال سے بے خبر ہے) انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے، تم انہیں ان کی صورت سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے بالکل سوال ہی نہیں کرتے کہ کہیں (مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو تو بے شک اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ جو لوگ (اللہ کی راہ میں) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
اِجتماعی سطح پر اِنفاق سے مراد یہ ہے کہ عملِ انفاق ایک ایسے نظام کے طور پر رائج کیا جائے کہ معاشرے کا کوئی فرد حاجت مندی اور معاشی تعطل میں مبتلا نہ رہے۔ اس طرح جو معاشرہ جنم لے گا وہ معاشی استحکام سے ہم کنار ہو کر قومی نصب العین حاصل کرنے کے لیے اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کر سکے گا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ قومی نصب العین کے حصول کے لیے لائحہ عمل تین بنیادی شعبوں یعنی سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی کے باہمی ربط و تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ یہ نصب العین اِحیاء دین کے لیے عالم گیر سطح پر ایک صالح معاشرے کا قیام ہے جو ہر سطح پر ظلم و جبر، معاشی نااِنصافی اور معاشرتی نافرمانیوں کے خاتمے سے عبارت ہے۔ لہٰذا اجتماعی اِنفاق کا عمل اُسی وقت پروان چڑھ سکتا ہے جب ہمہ گیر سیاسی، معاشی اور سماجی انقلاب کے ذریعے ایک ایسا صالح اور مثالی معاشرہ وجود میں لایا جائے جو ہر قسم کے جبر و استحصال کو جڑ سے اکھاڑ دے۔
معاشرے کے حاجت مند افراد کی حاجت روائی کے لیے اسلامی معاشی نظام میں بہترین حل موجود ہے اور وہ یہ کہ انہیں صاحبِ ثروت لوگوں سے ان کا وہ حق دلایا جائے جو شریعت نے ان کے لیے مختص کیا ہوا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌo لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِo
المعارج، 70: 24-25
اور وہ (ایثار کیش) لوگ جن کے اَموال میں حصہ مقرر ہے۔ مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا۔
وَ فِیْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِo
الذاریات، 51: 19
اور اُن کے اَموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا۔
اجتماعی سطح پر انفاق کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکمرانِ وقت اُمراء سے یا بیت المال سے مال لے کر فقراء میں تقسیم کرا دے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غرباء و مساکین کے حصے مقرر کیے ہوئے تھے جو وہ بیت المال سے ادا کرتے تھے۔ ابو عبید القاسم بن سلام لکھتے ہیں:
فَکَانَ عُمَرُ رضی اللہ عنہ یُعْطِی کُلَّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ کُلّ سَنَة ثَلاثَة آلاَف.
أبو عبید، کتاب الأموال: 310، رقم: 609
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر سال (غرباء میں سے) ہر ایک کو تین ہزار (کی مقرر کردہ) رقم دیتے تھے۔
یہ اجتماعی سطح پر اِنفاق کی بہترین مثال ہے۔ لہٰذا کسی بھی ملک کو معاشی لحاظ سے اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر انفاق کا عمل تسلسل سے جاری رکھنا ہوگا۔
جواب: اِنفاق فی المال جہاں قربِ الٰہی، جذبہ ایثار، حصولِ تقویٰ، طہارت و پاکیزگی، خیر و برکت، عمر میں اضافہ اور مصائب سے نجات دلاتا ہے وہاں اس کے معاشی اثرات بھی بے حساب ہیں۔ اِنفاق فی المال کے چند معاشی ثمرات درج ذیل ہیں:
1۔ امیر اور غریب کے درمیان خلیج کم ہو جاتی ہے۔
2۔ امیر اور غریب کے درمیان کشمکش، نفرت، عناد اور فساد دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔
3۔ اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے حصول کی خاطر غرباء اور مساکین وغیرہ پر خرچ کرنے والا فضول خرچ نہیں کہلاتا۔
4۔ انفاق فی المال کے ذریعے تقسیمِ دولت میں توازن اور نظم پیدا ہوتا ہے۔
5۔ اِحتکار (روز مرہ استعمال کی اشیاء کو جمع کر کے روکے رکھنا تاکہ نرخ بڑھنے کا انتظار کیا جائے) اور اِکتناز (وہ مال جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی جائے) کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
6۔ بے روزگاری دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔
7۔ حاجت مندوں کی کفالت کا بندوبست ہو جاتا ہے۔
8۔ پیشہ ور گداگری، دوسروں پر بوجھ بننا اور معاشی جد و جہد سے اجتناب کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
9۔ معیشت میں دولت کی گردش سے اشیاء اور خدمات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور تجارت کے فروغ کی وجہ سے معاشی ترقی کا حصول آسان اور یقینی ہو جاتا ہے۔
10۔ جب نادار، ضرورت مند اور معاشی استحصال کے شکار افراد کو روزگار ملتا ہے تو نہ صرف مثبت معاشی نتائج سامنے آتے ہیں بلکہ معاشرہ میں بہت سی معاشرتی برائیاں یعنی چوری، ڈاکہ زنی، رہزنی، نفرت، حسد، قتل و غارت گری وغیرہ بھی ختم ہو جاتی ہیں اور ملک معاشی ترقی کی راہ پر گام زن ہوجاتا ہے۔
جواب: نمونۂ کمال ایسے طرزِ عمل کو کہتے ہیں جو انسانی صورت میں جانچا گیا ہو؛ جسے دیکھا، سنا اور سمجھا جاسکے؛ جس میں مطلوبہ معیارِ عمل اپنے کمال کو پہنچا ہوا دکھائی دے اور پیکر محسوس ہونے کی بناء پر اس میں حصولِ کمال کے عمل کا مشاہدہ بھی کیا جاسکے تاکہ پیروی کرنے والا حصولِ نصب العین کی جد و جہد میں آغاز سے انجام تک اسے دیکھ کر اس کے نمونۂ حیات کو اپنا سکے۔
جواب: قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ کے مقبول و محبوب بندے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے اُسوۂ و عمل کو نمونۂ کمال کا مصدر قرار دیا گیا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ لا عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَo
الفاتحة، 1: 5-7
ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔ ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا۔
انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ دیگر انعام یافتہ بندوں کی راہ کو بھی صراطِ مستقیم قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی زندگیاں حیاتِ نبوی کے خصائص و فضائل کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان کی پیروی بھی ہدایت کے نمونۂ کمال کی پیروی قرار پا گئی۔ ورنہ اصل نمونۂ کمال تو انبیاء کرام علیہم السلام ہی کی سیرت و کردار ہے جو انسانیت کے لیے اَصلاً نمونۂ کمال کا درجہ رکھتی ہے اور اُسوۂ محمدی نمونۂ کمال کا ایساپیکر اتم ہے جو ابد الآباد تک ہر زمان و مکاں میں بلا کم و کاست واجب الاتباع رہے گا۔
جواب: اُسوۂ محمدی کی روشنی میں انفاق فی سبیل اللہ کا نمونۂ کمال یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا جائے کیونکہ احادیثِ مبارکہ اور کتبِ سیر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اِنفاق فی سبیل اللہ کو اپنی زندگی میں ایسا مقام دیا کہ اپنا سب کچھ مستحقین اور غرباء و سائلین میں تقسیم فرما دیتے یہاں تک کہ دوسرے کا فقر و فاقہ مٹانے کی خاطر اپنی ساری زندگی فقر و فاقہ میں گزار دی۔ اگر اپنے پاس ایک بھی لقمہ ہوا اور کسی کو کبھی حاجت مند پایا تو وہی لقمہ اسے دے دیا۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ضرورت مند افراد کی مدد فرما کر اِنفاق فی سبیل اللہ کی جو عظیم مثال پیش کی اس کی نظیر پوری دنیائے انسانیت میں ابد الآباد تک نہیں مل سکتی۔
1۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
مَا سُئِلَ رسُوْلُ اللهِ ﷺ شَیئًا قَطُّ، فَقَالَ: لَا.
مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب ما سئل رسول الله ﷺ شیئًا قطّ فقال: لا، وَکثرة عطائه، 4: 1805، رقم: 2311
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی چیز کا سوال کیا گیا ہو اور آپ ﷺ نے جواب میں ’نہیں‘ فرمایا ہو۔
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ غَنَمًا بَیْنَ جَبَلَیْنِ، فَأَعْطَاهُ إِیَّاهُ. فَأَتٰی قَوْمَهٗ، فَقَالَ: أَیْ قَوْمِ! أَسْلِمُوا، فَوَاللهِ! إِنَّ مُحَمَّدًا لَیُعْطِي عَطَاءً مَا یَخَافُ الْفَقْرَ.
ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ سے دو پہاڑوں کے درمیان کی بکریاں مانگیں تو آپ ﷺ نے اسے وہ بکریاں عطا فرما دیں۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور کہنے لگا: اے میری قوم! اسلام لے آؤ، کیونکہ خدا کی قسم! بے شک محمد ﷺ خوب عطا فرماتے ہیں اور فقر سے نہیں ڈرتے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی صرف دنیا کی وجہ سے مسلمان ہوتا تھا، پھر اسلام لانے کے بعد اس کو اسلام دنیا اور ما فیہا سے زیادہ محبوب ہوجاتا ہے۔
3۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے۔ رمضان میں جب حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کی آپ ﷺ سے ملاقات ہوتی تو آپ ﷺ بہت زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے، حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کی ملاقات کے وقت آپ ﷺ کی سخاوت تیز ہوا کے جھونکے سے بھی بڑھ جاتی۔
بخاری الصحیح، کتاب الصوم، باب أجود ما کان النبی یکون فی رمضان، 2: 672، رقم: 1803
4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَوْ کَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا، لَسَرَّنِي أَنْ لَا تَمُرَّ عَلَيَّ ثَلَاثُ لَیَالٍ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْئٌ، إِلَّا شَیْئًا أَرْصُدُهٗ لِدَیْنٍ.
اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتا تو مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ تین راتیں مجھ پر اس حال میں نہ گزریں کہ اس مال میں سے کچھ بھی میرے پاس موجود ہو (یعنی سب کچھ بانٹ دوں) مگر صرف اتنا باقی رکھ لوں جس سے (اپنے ذمہ واجب الادا) قرض ادا کر سکوں۔
5۔ حضور نبی اکرم ﷺ اِس قدر فیاض تھے اور اتنی سخاوت کیا کرتے تھے کہ اپنے اور اَہل خانہ کے لیے بھی کچھ نہ بچاتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أَنَّهٗ مَشٰی إِلَی النَّبِیِّ ﷺ بِخُبْزِ شَعِیرٍ وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ وَلَقَدْ رَهَنَ النَّبِیُّ ﷺ دِرْعًا لَهٗ بِالْمَدِینَةِ عِنْدَ یَهُودِیٍّ وَأَخَذَ مِنْهُ شَعِیرًا لِأَهْلِهٖ، وَلَقَدْ سَمِعْتُهٗ یَقُولُ: مَا أَمْسٰی عِنْدَ آلِ مُحَمَّدٍ ﷺ صَاعُ بُرٍّ، وَلَا صَاعُ حَبٍّ - وَإِنَّ عِنْدَهٗ لَتِسْعَ نِسْوَةٍ.
بخاری، الصحیح، کتاب البیوع، باب شراء النبی ﷺ بالنسیٔة، 2: 729، رقم: 1963
وہ جَو کی روٹی اور پرانی چیزیں لے کر حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں ایک یہودی کے پاس زرہ رہن رکھی ہوئی تھی اور اس سے اپنے اہل خانہ کے لیے جَو لیے تھے۔ میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: کوئی شام ایسی نہیں آئی جبکہ محمد ﷺ کی آل کے پاس ایک صاع گندم یا کوئی اناج ہو - حالانکہ اُس وقت آپ ﷺ کی نَو اَزواجِ مطہرات تھیں۔
6۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ ﷺ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِینَةَ مِنْ طَعَامِ الْبُرِّ ثَلَاثَ لَیَالٍ تِبَاعًا، حَتَّی قُبِضَ.
محمد مصطفی ﷺ کی آل نے آپ ﷺ کے مدینہ منورہ میں تشریف لانے کے بعد متواتر تین دن بھی گندم (کی روٹی) سیر ہو کر نہیں کھائی یہاں تک کہ دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔
جواب: اَہلِ بیتِ اَطہار اُسوۂ نبوی کی اتباع میں اپنی ساری دولت اور کمائی ہمیشہ دوسروں پر خرچ کرتے اور اپنے گھر کو فقر و فاقہ کی زینت سے نوازے رکھتے۔ اَہلِ بیتِ اَطہار کا گھرانہ انفاق فی سبیل اللہ، احسان اور فقر اختیاری میں حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی نظیر نہیں رکھتا۔
1۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں:
إِنْ کُنَّا آلَ مُحَمَّدٍ ﷺ لَنَمْکُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ، إِنْ هُوَ إِلَّا التَّمْرُ وَالْمَاءُ.
ہمارا محمد ﷺ کی آل کا یہ حال تھا کہ ہم ایک ماہ تک ٹھہرے رہتے تھے اور آگ نہیں جلاتے تھے (یعنی ایک ایک مہینہ گزر جاتا کہ گھر میں آگ تک نہ جلتی)، ہم صرف کھجور اور پانی پر گزارہ کرتے تھے۔
2۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے رزق میں سے جو بھی چیز آتی وہ اسے اپنے پاس نہ روکے رکھتیں بلکہ اُسی وقت (کھڑے کھڑے) صدقہ فرما دیتیں۔
حضرت عروہ رضی اللہ عنہ مزید بیان کرتے ہیں کہ ایک بار سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دس غلام بھیجے گئے تو انہوں نے اُسی وقت اُنہیں آزاد کر دیا، حتی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چالیس غلام آئے تو اُنہوں نے اُن سب کو آزاد کر دیا۔
بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، باب مناقب قریش، 3: 1291، رقم: 3314
3۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ اور حضرت اَسماء رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر سخاوت کرنے والی کوئی خاتون نہیں دیکھی۔ دونوں کی سخاوت میں فرق یہ تھا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اشیاء جمع فرماتی رہتیں اور اکٹھی کرکے تقسیم فرماتی تھیں جب کہ ان کی بہن سیدہ اَسماء رضی اللہ عنہا اپنے پاس کچھ نہ رکھتیں بلکہ فوری طور پر تقسیم فرما دیتی تھیں۔
بخاری، الأدب المفرد: 106، رقم: 280
4۔ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: أَسْرَعُکُنَّ لَحَاقًا بِي أَطْوَلُکُنَّ یَدًا. قَالَتْ: فَکُنَّ یَتَطَاوَلْنَ أَیَّتُهُنَّ أَطْوَلُ یَدًا. قَالَتْ: فَکَانَتْ أَطْوَلَنَا یَدًا زَیْنَبُ، لِأَنَّهَا کَانَتْ تَعْمَلُ بِیَدِهَا وَتَصَدَّقُ.
مسلم، الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل زینب أم المؤمنین، 4: 1907، رقم: 2452
تم میں سب سے پہلے مجھ سے وہ (زوجہ) لاحق ہوگی جس کے ہاتھ تم سب میں سے زیادہ لمبے ہوں گے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر ہم سب اپنے اپنے ہاتھ ناپنے لگیں کہ کس کے ہاتھ سب سے زیادہ لمبے ہیں، لیکن سب سے زیادہ لمبے ہاتھ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے تھے، کیونکہ وہ اپنے ہاتھوں سے کام کاج کرتی تھیں اور صدقہ و خیرات کیا کرتی تھیں۔
یہی روایت ’صحیح بخاری‘ میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
إِنَّ بَعْضَ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ ﷺ قُلْنَ لِلنَّبِیِّ ﷺ: أَیُّنَا أَسْرَعُ بِکَ لُحُوقًا؟ قَالَ ﷺ: أَطْوَلُکُنَّ یَدًا. فَأَخَذُوا قَصَبَةً یَذْرَعُونَهَا، فَکَانَتْ سَوْدَةُ أَطْوَلَهُنَّ یَدًا، فَعَلِمْنَا بَعْدُ أَنَّمَا کَانَتْ طُولَ یَدِهَا الصَّدَقَةُ وَکَانَتْ أَسْرَعَنَا لُحُوقًا بِهٖ، وَکَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَةَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب فضل صدقة الشحیح الصحیح، 2: 515، رقم: 1354
بعض اَزواجِ مطہرات نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ سے ملے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہے۔ پس انہوں نے چھڑی کے ذریعے ہاتھ ماپنا شروع کر دیے تو سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ سب سے لمبا تھا۔ لیکن بعد میں ہم نے جان لیا کہ لمبے ہاتھ سے مراد زیادہ صدقہ کرنا تھا اور وہی زوجہ محترمہ سب سے پہلے آپ ﷺ سے جاملیں جو زیادہ صدقہ کرنا پسند کرتی تھیں۔
5۔ ایک مرتبہ حسنین کریمین d بیمار ہوگئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کی کنیز فضہ رضی اللہ عنہا نے ان کی صحت کے لیے تین روزوں کی نذر مانی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شفاء عطا فرمائی۔ اب ان کی وفا کا وقت آیا تو تینوں نے روزے رکھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ تین صاع جَو لے آئے اور سیدہ عالم حضرت فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا نے ایک ایک صاع جَو تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کا وقت آیا اور کھانا سامنے رکھا گیا تو پہلے روز مسکین، دوسرے روز یتیم اور تیسرے روز ایک قیدی آگیا۔ سب نے تینوں دن کھانا سائلین کو دے دیا اور ہر روز پانی سے افطار کرکے اگلے دن روزہ رکھ لیا۔ روزے کی حالت میں تین دن کا فاقہ ایسا مثالی نمونۂ اِیثار و اِنفاق اور اِحسان تھا کہ قدرت نے اسے معیاری عمل کے طور پر قرآن حکیم میں قلم بند کر دیا اور ارشاد فرمایا:
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًاo وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًاo اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًاo
الدھر، 79: 100
(یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی خوب پھیل جانے والی ہے۔ اور (اپنا) کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں۔ (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیں۔ ہمیں تو اپنے ربّ سے اُس دن کا خوف رہتا ہے جو (چہروں کو) نہایت سیاہ (اور) بدنما کر دینے والا ہے۔
6۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایثار و اِنفاق کا یہ عالم تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ تمام عمر میں ایک مرتبہ بھی صاحبِ نصاب نہ ہوسکے کہ زکوٰۃ ادا کرنے کی نوبت آتی۔
7۔ صدقہ و خیرات اور فیاضی امام حسن رضی اللہ عنہ کا خاندانی وصف تھا لیکن جس فیاضی سے آپ خدا کی راہ میں اپنی دولت اور مال و متاع لٹاتے تھے اس کی مثالیں کم ملیں گی۔ آپ نہ صرف فیاض تھے بلکہ دوسروں کی فیاضی دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ کے کسی کھجور کے باغ کی طرف سے گزرے تو دیکھا کہ ایک حبشی غلام ایک روٹی لیے ایک لقمہ خود کھاتا ہے اور دوسرا کتے کو دیتا ہے۔ اسی طریق سے آدھی روٹی کتے کو کھلا دی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے غلام سے پوچھا کہ کتے کو دھتکار کیوں نہ دیا! اس نے کہا: میری آنکھوں کو اس کی آنکھوں سے حجاب معلوم ہوتا تھا۔ پھر پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: آبان بن عثمان کا غلام ہوں۔ پوچھا: باغ کس کا ہے؟ معلوم ہوا کہ ان ہی کا ہے۔ فرمایا: جب تک میں لوٹ نہ آؤں تم کہیں نہ جانا۔ یہ کہہ کر اسی وقت آبان کے پاس گئے اور باغ اور غلام دونوں خرید کر واپس آئے۔ غلام سے کہا: میں نے تم کو خرید لیا۔ وہ تعظیماً کھڑا ہوگیا اور عرض کی: مولائی! میں خدا، رسول ﷺ اور آقا کی خدمت گزاری کے لیے حاضر ہوں، جو حکم ملے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے باغ بھی خرید لیا، تم خدا کی راہ میں آزاد ہو اور باغ تم کو ہبہ کرتا ہوں۔ غلام پر اس کا یہ اثر پڑا کہ اس نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے جس کی راہ میں آزاد فرمایا ہے، میں اسی کی راہ میں یہ باغ دیتا ہوں۔
ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر، 13: 246
8۔ ایک مرتبہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ایک بڑی رقم فقراء و مساکین کے لیے جمع کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی تقسیم کا اعلان کر دیا۔ لوگ سمجھے کہ صلائے عام ہے اس لیے جوق در جوق جمع ہونے لگے۔ آدمیوں کی یہ بھیڑ دیکھ کر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ رقم صرف فقراء و مساکین کے لیے ہے۔ اس اعلان پر تقریبا آدھے آدمی چھٹ گئے اور سب سے پہلے اشعث بن قیس نے حصہ پایا۔
ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر، 13: 246
9۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ کا عالم یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مالی اعتبار سے جیسی فارغ البالی عطا فرمائی تھی، اسی فیاضی سے آپ رضی اللہ عنہ اس کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔ ابن عساکر لکھتے ہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اللہ کی راہ میں کثرت سے صدقہ و خیرات کرتے تھے، کوئی سائل کبھی آپ رضی اللہ عنہ کے دروازے سے ناکام واپس نہ ہوتا تھا، ایک مرتبہ ایک سائل مدینہ کی گلیوں میں گھومتا ہوا درِ دولت پر پہنچا، اس وقت آپ رضی اللہ عنہ نماز میں مشغول تھے، سائل کی صدا سن کر جلدی جلدی نماز ختم کرکے باہر نکلے، سائل پر فقر و فاقہ کے آثار نظر آئے، اسی وقت خادم کو آواز دی۔ خادم حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ہمارے اخراجات میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے؟ خادم نے جواب دیا۔ آپ نے دو سو درہم اہل بیت میں تقسیم کرنے کے لیے دیے تھے، وہ ابھی تقسیم نہیں کیے گئے۔ فرمایا: وہ لے آؤ، اہل بیت سے زیادہ مستحق شخص آگیا ہے۔ چنانچہ اسی وقت دوسو کی تھیلی منگوا کر سائل کے حوالے کر دی اور معذرت کی کہ اس وقت ہمارا ہاتھ خالی ہے اس لیے اس سے زیادہ خدمت نہیں کرسکتے۔
ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر، 14: 185
اَہل بیتِ اَطہار کے اس عمل میں مزید لطف کا پہلو یہ تھا کہ وہ اس ایثار پر کسی قسم کی شکر گزاری کے خواہش مند بھی نہ تھے بلکہ اسے اپنی آخرت سنوارنے کے لیے ضروری تقاضا قرار دیتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو انفاق و احسان اس جذبے سے کیا جائے وہی ’معیاری‘ بھی ہے اور ’مقبول‘ بھی۔
جواب: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ عظیم شخصیات ہیں جو براهِ راست فیضانِ نبوت سے مستفید ہوئیں اور اپنی زندگیاں حضور نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی اتباع و تقلید میں بسر کیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بھی اُمتِ مسلمہ کے لیے ’نمونۂ کمال‘ اور بہترین نمونۂ عمل کا درجہ رکھتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے جاں نثار صحابہ کی زندگیوں کو نمونۂ کمال قرار دیتے ہوئے اسوۂ صحابہ کے نمایاں پہلو کی نشان دہی قرآن حکیم میں اس انداز میں کی گئی:
وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُالدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
الحشر، 59: 9
(یہ مال اُن انصار کے لیے بھی ہے) جنہوں نے اُن (مہاجرین) سے پہلے ہی شہرِ (مدینہ) اور ایمان کو گھر بنالیا تھا۔ یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں۔ اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچالیا گیا پس وہی لوگ ہی با مراد و کامیاب ہیں۔
سیرتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روشنی میں اِنفاق فی سبیل اللہ کا نمونۂ کمال یہ ہے کہ اَصحابِ رسول ﷺ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو اپنی ذاتی ضروریات پر ترجیح دیتے اور جس قدر ہوسکتا ایثار و انفاق کا طرز عمل اختیار کرتے۔ احادیث مبارکہ اور کتب تاریخ و سیر اس حقیقت کی تائید کرتی ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد جس قدر ایثار و انفاق کا عملی نمونہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پیش کیا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔
ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
جس روز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے اس وقت ان کے پاس چالیس ہزار دینار تھے، پس انہوں نے اپنی ساری دولت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دی۔
ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر، 30: 67
گویا اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں حضور نبی اکرم ﷺ کے مشن اور اس کی تکمیلی جد و جہد سے اتنی والہانہ محبت اور لگن پیدا ہوگئی کہ انہوں نے اسی راہ اور مشن کو اپنی ساری دولت کا واحد مصرف سمجھا۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شخصیت بھی اسی طرح پیکر ایثار و احسان تھی۔ حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعض حالات پوچھے تو میں نے انہیں بتایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسا نیک اور سخی انسان نہیں دیکھا، گویا یہ خوبیاں تو ان کی ذات پر ختم ہوگئی تھیں۔
بخاری، الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3: 1348، رقم: 3484
آپ کے ایثار و احسان کا یہ جذبہ تخت خلافت پر متکمن ہونے پر بھی اسی طرح قائم و دائم رہا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد اس حقیقت کی منہ بولتی تصویر ہے:
لو ماتت شاة (وفی روایة: عناقا) علی شاطیٔ الفرات ضائعة، لظنت أن الله سائلی عنها یوم القیامة.
ابن جوزی، مناقب عمر بن خطاب رضی الله عنه: 161
اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی بکری (دوسری روایت کے مطابق بکری کا بچہ) بھی بے سہارا ہونے کی وجہ سے مر جائے تو میرا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھ سے اس کے بارے میں جواب طلبی فرمائے گا۔
آپ رضی اللہ عنہ کے رگ و ریشے میں دراصل وہی جذبہ ایثار و انفاق موجزن تھا جو تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم ﷺ کے نمونۂ کمال نے تمام صحابہ و اہل بیت کو عطا کیا تھا۔ زندگی کا یہ رنگ صرف آپ رضی اللہ عنہ کی ذات تک ہی محصور نہ رہا تھا بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ بھی عمل احسان و انفاق کے آئینہ دار بن گئے تھے۔ اس کا اندازہ آپ کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے معمول سے ہوتا ہے۔ نافع روایت کرتے ہیں:
کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضی الله عنهما لَا یَأْکُلُ حَتّٰی یُؤْتٰی بِمِسْکِینٍ یَأْکُلُ مَعَهٗ.
بخاری، الصحیح، کتاب الأطعمة، باب المؤمن یأکل فی معی واحد، 5: 2061، رقم: 5078
حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما اُس وقت تک کھانا نہیں کھایا کرتے تھے جب تک کسی غریب کو لا کر اپنے ساتھ کھانا نہ کھلاتے۔
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا شیوہ زندگی بھی کسی سے مخفی نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ہجرتِ مدینہ کے بعد مسلمانوں کے لیے میٹھے پانی کے کنویں خرید کر وقف کیے، مسجد کے لیے قطعہ زمین خریدا، اسلامی فوج کو اس کی ضروریات اور ساز و سامان مہیا کیا، بے شمار غلاموں کو آزادی کی نعمت دلائی۔ آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے اپنی بے پناہ دولت صرف کی۔ قحط اور تنگی کے ایّام میں باہر سے گندم خرید کر اہلِ مدینہ میں مفت تقسیم فرمائی اور ہر موقع پر حکم رسول ﷺ کی تعمیل میں احسان و انفاق کی وہ مثالیں پیش کیں جو ہمیشہ دنیائے انسانیت کے لیے نمونۂ عمل رہیں گی۔
حضرت عبد الرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اُس وقت آپ ﷺ جیش عسرہ کے متعلق لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں سو اونٹ مع ساز و سامان اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے پھر ترغیب دلائی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پھر اٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ذمہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دو سو اونٹ مع ساز و سامان اور غلہ کے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے پھر ترغیب دلائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تیسری بار کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ذمہ تین سو اونٹ مع ساز و سامان کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر سے اترے اور فرمایا: اس عمل کے بعد عثمان جو کچھ بھی آئندہ کرے گا اس سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔
ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب فی مناقب عثمان بن عفان رضی الله عنه، 5: 625، رقم: 3700
حضور نبی اکرم ﷺ کی صحبت کے فیضان سے جو کوئی جس قدر مستفید ہوا تھا وہ اسی قدر ایثار اور انفاق و احسان کا پیکر بن گیا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں کا یہ شعار حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات اور آپ ﷺ کے عملی نمونۂ کمال کی تاثیر کی شہادت تھا۔ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل اور اُسوۂ حیات تھا جس کے باعث ان کا نمونۂ زندگی عالم انسانیت کے لیے معیارِ عمل قرار پاگیا۔ ان کے اس ایثار نے نہ صرف ان کو رضائے الٰہی کے حصول میں کامیاب و کامران کیابلکہ قیامت تک ان کے اس طرز عمل کی پیروی کرنے والے بھی اپنے نصب العین میں کامیاب ہوں گے۔
جواب: اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اُس کی راہ میں بے دریغ مال خرچ کرنے والے کو سخی کہتے ہیں۔ حضرت قیس بن سلع اَنصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ إِخْوَتَهٗ شَکَوْهُ إِلٰی رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالُوا: إِنَّهٗ یُبَذِّرُ مَالَهٗ وَیَنْبَسِطُ فِیْهِ، فَقَالَ لَهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یَا قَیْسُ، مَا شَأْنُ إِخْوَتِکَ یَشْکُونَکَ؟ یَزْعَمُوْنَ أَنَّکَ تُبَذِّرُ مَالَکَ وَتَنْبَسِطُ فِیْهِ؟ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إنِّي آخُذُ نَصِیْبِي مِنَ التَّمْرَةِ فَأُنْفِقُهٗ فِي سَبِیْلِ اللهِ وَعَلٰی مَنْ صَحِبَنِي، قَالَ: فَضَرَبَ رَسُولُ اللهِ ﷺ صَدْرَهٗ، فَقَالَ: أَنْفِقْ یُنْفِقِ اللهُ عَلَیْکَ. ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ۔ فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ خَرَجْتُ فِي سَبِیلِ اللهِ وَمَعِيَ رَاحِلَةٌ، وَقَالَ: أَنَا أَکْثَرُ أَهْلِ بَیْتِي الْیَومَ وَأَیْسَرُهٗ.
طبرانی، المعجم الأوسط، 8: 246-247، رقم: 8536
اس کے بھائیوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس کی شکایت کی، انہوں نے کہا: یہ اپنا مال فضول خرچ کر دیتا ہے اور اس میں خوش رہتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے استفسار کیا: قیس! کیا بات ہے؟ تیرے بھائی تیرے بارے میں شکایت کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ تو فضول خرچی کرتا ہے اور اس میں خوشی محسوس کرتا ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں پیداوار میں سے اپنا حصہ لے لیتا ہوں اور اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اور اپنے دوستوں پر خرچ کر دیتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا: تو خرچ کرتا رہ، اللہ تعالیٰ تجھ پر خرچ کرتا رہے گا۔ یہ بات آپ ﷺ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ اس کے بعد جب میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں نکلا تو حالت یہ تھی کہ میرے پاس ایک سواری تھی اور آج میں اپنے خاندان میں سب سے زیادہ مال و دولت والا اور خوش حال ہوں۔
جواب: سخی کے لیے بے پناہ رزق اور جنت کی خوش خبری ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
السخاء جنت میں ایک درخت ہے۔ پس جو شخص سخی ہوگا وہ اس کی ایک ٹہنی پکڑے گا جس کے ذریعے وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔
بیهقی، شعب الایمان، 7: 435، رقم: 10877
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
قَالَ اللهُ تعالیٰ: أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْکَ. وَقَالَ: یَدُ اللهِ مَلْـأٰی لَا تَغِیضُهَا نَفَقَةٌ، سَحَّاءُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ. وَقَالَ: أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ فَإِنَّهٗ لَمْ یَغِضْ مَا فِي یَدِهٖ.
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تو میری راہ میں مال خرچ کر میں تجھے مال دوں گا۔ اور فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں، رات دن خرچ کرنے سے بھی خالی نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھتے جب سے آسمان اور زمین کی پیدائش ہوئی اُس وقت سے کتنا اُس نے لوگوں کو دیا لیکن اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔
جواب: قناعت کی فضیلت کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ ھُدِیَ إِلَی الإِسْلَامِ، وَرُزِقَ الْکَفَافَ وَقَنَعَ بِهٖ.
ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب القناعة، 4: 483، رقم: 4138
وہ شخص کامیاب ہوگیا جسے اسلام کی ہدایت نصیب ہوئی ہو، تھوڑی روزی ملی ہو اور وہ اس پر قناعت کرتا ہو۔
ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے اللہ! تیرے بندوں میں سب سے زیادہ تونگر کون ہے؟ ارشاد فرمایا:
أقنعهم بما أعطیته.
ابن السنی، کتاب القناعة، باب أقنع الناس هم أغنی الناس.
وہ شخص جسے میں نے عطا کیا اور اس نے ان سب سے بڑھ کر اس پر قناعت اِختیار کی۔
حضرت ذو النون مصری فرماتے ہیں:
جو قناعت اختیار کرتا ہے وہ اپنے زمانے والوں سے آرام پاتا ہے اور اپنے ہاتھوں پر غالب رہتا ہے۔
قشیری، الرسالة: 161
یاد رکھیے! قناعت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مسابقت اور جد و جہد اور آگے بڑھنے کی لگن ترک کر دی جائے بلکہ اسلام اور اس کے احکام کی اشاعت و تبلیغ، مسلمانوں کی اجتماعی فلاح اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں تیز سے تیز تر گامزن رہنے اور اقوام عالم میں سب سے آگے بڑھنے کی دھن عینِ اسلام ہے۔ البتہ ذاتی عیش و عشرت کی دوڑ دھوپ میں لگے رہنا غیر مستحسن اور مزاجِ اسلام کے خلاف ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین نے جس طرح زندگیاں بسر کی ہیں ان سے ہمیں یہی فکر ملتی ہے کہ ان کے شب و روز سادگی اور فقر و فاقہ میں بسر ہوتے لیکن وہ ہمیشہ متحرک رہتے اور دعوت و تبلیغِ دین کی جد و جہد میں مصروف نظر آتے۔
جواب: مال جمع کرکے روکے رکھنے اور اللہ کی راہ میں اپنے سرمایہ و دولت کو خرچ نہ کرنے والے کو بخیل کہتے ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُؤْمِنٍ: اَلْبُخْلُ، وَسُوئُ الْخُلُقِ.
کسی مومن میں یہ دو عادتیں جمع نہیں ہو سکتیں: بخل اور بد اَخلاقی۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے انہیں فرمایا:
أَنْفِقِي، وَلَا تُحْصِي فَیُحْصِيَ اللهُ عَلَیْکِ، وَلَا تُوعِي فَیُوْعِيَ اللهُ عَلَیْکِ.
خرچ کرو اور گن کر نہ دو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن کر دے گا، اور ہاتھ نہ روکو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے اپنا ہاتھ روک لے گا۔
حضرت حسن بن ابی الحسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یَا ابْنَ آدَمَ، أَوْدِعْ مِنْ کَنْزِکَ عِنْدِي، وَلَا حَرَقَ وَلَا غَرَقَ وَلَا سَرَقَ أَوْتِیْکَهٗ أَحْوَجَ مَا تَکُونُ إِلَیْهِ.
اے ابن آدم! اپنے خزانے میں سے کچھ نکال کر میرے پاس ودیعت کر۔ وہ نہ جلے گا، نہ ڈوبے گا اور نہ چوری ہوگا، جب تجھے اس کی سخت ضرورت ہو گی تو میں تجھے یہ واپس لوٹا دوں گا۔
سوال 142: بخیل کے لیے کیا وعید ہے؟
جواب: قرآن و حدیث کی رُو سے بخیل کے لیے اس کے مال ہلاک ہونے کی وعید آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ اَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰیo وَ کَذَّبَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْعُسْرٰیo وَمَا یُغْنِیْ عَنْهُ مَالُهٗٓ اِذَا تَرَدّٰیo
الیل، 92: 8-11
اور جس نے بخل کیا اور (راهِ حق میں مال خرچ کرنے سے) بے پروا رہا۔ اور اس نے (یوں) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کو جھٹلایا۔ تو ہم عنقریب اسے سختی (یعنی عذاب کی طرف بڑھنے) کے لیے سہولت فراہم کر دیں گے (تاکہ وہ تیزی سے مستحقِ عذاب ٹھہرے)۔ اور اس کا مال اس کے کسی کام نہیں آئے گاجب وہ ہلاکت (کے گڑھے) میں گرے گا۔
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ یَوْمٍ یُصْبِحُ الْعِبَادُ فِیهِ، إِلَّا مَلَکَانِ یَنْزِلَانِ، فَیَقُولُ أَحَدُهُمَا: اَللّٰھُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَیَقُولُ الْآخَرُ: اَللّٰھُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا.
کوئی دن ایسا نہیں جس میں لوگ صبح کریں مگر دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے: اے اللہ! (اپنی راہ میں) مال خرچ کرنے والے کو (اس مال کا) نعم البدل عطا فرما۔ دوسرا کہتا ہے: اے اللہ! مال کو روک کر رکھنے والے (بخیل) کو (مال کی) بربادی عطا فرما۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
مَثَلُ الْبَخِیلِ وَالْمُنْفِقِ کَمَثَلِ رَجُلَیْنِ، عَلَیْهِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِیدٍ، مِنْ ثُدِیِّهِمَا إِلَی تَرَاقِیهِمَا: فَأَمَّا الْمُنْفِقُ، فَـلَا یُنْفِقُ إِلَّا سَبَغَتْ، أَوْ وَفَرَتْ عَلَی جِلْدِهِ، حَتَّی تُخْفِيَ بَنَانَهُ، وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ. وَأَمَّا الْبَخِیلُ: فَلَا یُرِیدُ أَنْ یُنْفِقَ شَیْئًا إِلَّا لَزِقَتْ کُلُّ حَلْقَةٍ مَکَانَهَا فَهُوَ یُوَسِّعُهَا وَلَا تَتَّسِعُ.
بخیل اور مال خرچ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں جیسی ہے جن (کے جسموں) پر چھاتی سے حلق تک لوہے کے جبے (زرہیں) ہوں، خرچ کرنے والا جب مال خرچ کرتا ہے تو جبہ وسیع ہو کر اس کے جسم پر پھیل جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی انگلیوں اور نشانیوں کو بھی چھپا لیتا ہے اور بخیل جب کچھ خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ہر حلقہ اپنی جگہ سے چمٹ جاتا ہے۔ وہ اسے کھولنا چاہتا ہے لیکن کھول نہیں سکتا۔
3۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ خِبٌّ، وَلَا مَنَّانٌ، وَلَا بَخِیلٌ.
مکار، اِحسان جتانے والا اور بخیل جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔
4۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلْجَالِبُ مَرْزُوْقٌ وَالْمُحْتَکِرُ مَلْعُوْنٌ.
ابن ماجه، السنن، کتاب التجارت، باب الحُکرة والجلب، 3: 11-12، رقم: 2153
باہر سے (تجارت کی غرض سے) مال لانے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور مال کو مہنگا بیچنے کی غرض سے روک لینے والا ملعون ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved