جواب: آج کا نوجوان بہت سے اسباب کی وجہ سے دین سے دور ہے، جن میں سے اہم سبب دو طرح کے والدین ہیں۔ ایک وہ جو خود دنیا داری اور مادیت پرستی میں گم ہیں، تو ان کے بچے بھی ان کی طرح دین سے دور ہیں۔ دوسرے وہ جو خود تو نیک و پارسا اور باعمل ہیں لیکن وہ اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ان کے روشن مستقبل کے لیے سرگرمِ عمل ہیں اور اس زعم میں ہیں کہ جس طرح ہم متقی اور پرہیزگار ہیں، اسی طرح ہمارے بچے بھی ہمارے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دین پر قائم رہیں گے۔ ان کی یہ سوچ درست نہیں ہے کیوں کہ ظاہری اعمال کی اصلاح کے ساتھ باطنی اعمال کی اصلاح بھی بچوں کی تربیت کے دائرہ کار میں شامل ہے۔ اگر محض ظاہری اعمال کی اصلاح کر دی جائے لیکن اَفکار و نظریات اور خواہشات کا دائرۂ کار متعین نہ کیا جائے تو اسے اسلامی نقطہ نظر سے تربیت نہیں کہہ سکتے۔
ایسے والدین اگر اپنے ماضی پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ وہ سیدھی راہ پر از خود نہیں چلے بلکہ ان کی دینی تربیت کے لیے ان کے والدین خود رول ماڈل (role model) بنے۔ انہیں پاکیزہ ماحول فراہم کرنے کے لیے اپنی محنتِ شاقہ سے رزقِ حلال کما کر کھلایا اور اعلیٰ آداب و اخلاق سکھانے کے لیے دینی و دنیوی تعلیم سے آراستہ کیا۔ جب کہ عصرِ حاضر کا المیہ ہے کہ آج کے والدین اپنی گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے نہ صرف بچوں کی دینی تعلیم و تربیت سے غافل ہیں بلکہ ان کے ایمان کی حفاظت سے بھی قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان دین سے دور ہے۔
جواب: اولاد کے نافرمان ہونے کی وجوہات میں ایک اہم وجہ والدین کی غفلت ہے۔ جہاں اولاد کی اطاعت و فرمانبرداری دخولِ جنت کا اہم ذریعہ اور اَرفع درجات کا عظیم سبب ہے، وہیں ان کی نافرمانی و معصیت باعثِ فتنہ و آزمائش ہے۔ نادان والدین بچوں کے سمجھنے کی عمر میں اپنے فرائض منصبی اور تعلیماتِ اسلام سکھانے میں بے توجہی برتتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابھی تو یہ بچہ ہے۔ نتیجتاً وہ قبیح حرکات کا خوگر ہونے کے ساتھ والدین کی گستاخی اور نافرمانی کا مرتکب ہونے لگتا ہے۔
اولاد کی تعلیم و تربیت میں والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ آج کی ماں دنیاوی نمود و نمائش میں نہ صرف گم ہے بلکہ اپنے فرائضِ منصبی سے بھی غافل ہے۔ یہی صورتِ حال باپ کی بھی ہے کہ وہ اپنے بچے کو بُرے عمل سے تو روکتا ہے مگر وہی عمل خود کرتا ہوا نظر آتا ہے؛ مثلاً سگریٹ نوشی کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو سگریٹ نوشی کے نقصانات کا درس دیتا ہے اور وہ یہ بھول جاتا ہے کہ بے عمل شخص کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بیٹا کچھ عرصہ تو چھپ کر سگریٹ پیتا ہے لیکن بلوغت میں قدم رکھتے ہی دیدہ دلیری سے باپ کے سامنے سگریٹ سلگاتا ہے۔ اس وقت باپ بیٹے کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ ان حالات میں والدین کا اپنی نافرمان اولاد سے اطاعت شعاری کی آس باندھنا ایسے ہے جیسے صحراؤں میں گلستان دیکھنے کی تمنا رکھنا۔
جواب: درج ذیل چند اہم اسباب کی وجہ سے نسل نو بے راہ روی کا شکار ہے:
نسلِ نو کی بے راہ روی کا اہم ترین سبب قرآنی تعلیمات سے دوری ہے۔ یہ طبقہ عموماً اجر و ثواب اور زیادہ سے زیادہ تلاوت کی حد تک قرآن حکیم کو ایک مذہبی کتاب سمجھتا ہے۔ انہیں شعور ہی نہیں کہ قرآن حکیم کتابِ انقلاب ہے۔ یہ عصر حاضر کے چیلنجوں کا نہ صرف مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ قیامت تک آنے والے تمام مسائل کاحل بھی فراہم کرتی ہے۔ دنیا و آخرت میں نجات اور اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کے لیے نسل نو کا قرآن کے ساتھ تعلق قائم کرنا ناگزیر ہے۔
دورِ حاضر میں نسلِ نو اولاً اسلام کے بارے میں بطریق احسن آگاہی نہیں رکھتی اور اگر رکھے تو وہ بھی ناقص اور کم علمی پر مبنی ہوتا ہے۔ اغیار نے اسی ہتھیار کو استعمال کرکے نوجوان طبقہ کو فکری طور پر اسلام کے بارے میں بہت سی بدگمانیوں کا شکار کر دیا ہے۔ دین کے بارے میں کئی طرح کے خدشات اور اعتراضات ہیں جو نوجوان نسل کے قلوب و اذہان پر طاری ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ دین سے دور اور شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ نتیجتاً وہ بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں۔
نسلِ نو کی بے راہ روی کا ایک سبب اسلامی تاریخ اور علمی ورثہ سے بے خبری ہے۔ جو قوم اپنے علمی ورثہ سے غفلت برتتی ہے، وہ صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے یا مٹا دی جاتی ہے۔ آج کی نسل نو کی حالت یہ ہے کہ انہیں نہ تو حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ، خلفاے راشدین کے کارناموں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ان تھک جد و جہد اور اسلامی فتوحات سے آگاہی ہے اور نہ ہی اپنے دور کی نامور شخصیات جیسے علامہ اقبال، قائدِ اعظم اور ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی خدمات سے شناسائی ہے۔
صحبت ان عوامل میں سے مؤثر ترین عامل ہے جس سے نوجوان مثبت یا منفی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ نسلِ نو کی بے راہ روی کا ایک اہم سبب صحبت صلحاء سے دوری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان جس طرح کی صحبت اختیار کرتا ہے؛ اس کی عکاسی، اس کا مزاج، طبیعت اور رجحان کرتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
اچھے اور برے مصاحب کی مثال مشک والے اور بھٹی دھونکنے والے جیسی ہے کیونکہ مشک والا یا تو تحفتاً تمہیں تھوڑی بہت دے گا یا تم اس سے خرید لوگے ورنہ عمدہ خوشبو تو تمہیں پہنچ ہی جائے گی۔ رہی بھٹی والے (لوہار) کی بات تو یا تمہارے کپڑے جلادے گا ورنہ تمہیں (بھٹی کی) بدبو تو پہنچ ہی جائے گی۔
بخاری، الصحیح، کتاب الذبائح والصید، باب المسک، 5: 2104، رقم: 5214
نسلِ نو کی بے راہ روی میں اس فاصلے اور بُعد کا بھی بڑا حصہ کار فرما ہے۔ جو ہمارے معاشرے میں بڑی عمر کے لوگ چھوٹی عمر والوں کے درمیان حائل رکھتے ہیں۔ آج کے بزرگ بچوں کے ساتھ دوستانہ روابط رکھنے کی بجائے انہیں بے جا تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں اپنی سوچ اور اپنے زمانے کے حوالے سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ انہیں اپنی بات کہنے اور منوانے کا موقع نہیں دیتے جس سے نوجوان نسل تذبذب کا شکار ہو جاتی ہے۔ پھر حالات خواہ کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں وہ اپنے معاملات میں بڑوں کو شامل نہیں کرتے اور اپنے تئیں ان کا سامنا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے اکثر بچے حالات کی رو میں بہہ کر بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
نسلِ نو کی بے راہ روی کا اہم ترین سبب فراغت ہے۔ انہیں جب صحت مند سرگرمیاں، بہتر روزگار اور تفریح کے مناسب مواقع میسر نہیں آتے اور مستزاد تعلیمی اور معاشی ناکامیوں سے مایوس و نااُمید ہو کر وہ نفسانی خواہشات اور شیطانی وساوس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تو وہ مثبت اور تعمیری کاموں کی بجائے منفی اور تخریبی اُمور سر انجام دیتے ہیں جو ان کی بے راہ روی کا سبب بنتا ہے۔
جواب: جی ہاں! بچوں کی روحانی تربیت کے لیے ان کی روح کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی وجود کو دو اجزاء جسم اور روح کا مرکب بنایا ہے۔ جسم کے ظاہری اوصاف کو اس نے کمال حسن و خوبی سے نوازتے ہوئے ہر شخص کو بہترین صورت میں پیدا فرمایا ہے۔ وجودِ انسان کے اندر روح کو اپنا امر بنا کر بھیجا ہے اور پھر انسان کو نیکی، تقویٰ اور بندگی کے ذریعے اس روح کی ترقی اور طہارت کا شعور بھی عطا کیا ہے۔ روح کی اس طہارت کے اوصاف کو باطنی اخلاق کہا جاتا ہے۔ اگر انسان کے اخلاق سنور جائیں تو اس کے ظاہر و باطن کے اعمال بھی پسندیدہ ہو جاتے ہیں اور اگر اخلاق باطنی بگاڑ کا شکار ہو جائیں تو ریاضت رائیگاں جاتی ہے۔ یوں پاک روح ہی اخلاقی، روحانی اور مادی ترقی کی ضامن ہوتی ہے، یہ اُسی وقت ممکن ہے جب نفس کو جملہ برائیوں، نجاستوں اور کبیرہ گناہوں سے پاک رکھا جائے اور اچھائیوں اور خوبیوں کو اپنایا جائے۔
جواب: جی ہاں! ماحول جسم اور روح دونوں پر اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے کہ جس طرح چیزیں جسم پر اثرات مرتب کرتی ہیں اسی طرح اشیاء اور ماحول کے اثرات قلب و روح پر بھی رونما ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عالمِ مادیات میں انسان کو پانچ حواس عطا کیے ہیں۔ ان حواسِ خمسہ سے وہ دیکھتا، چھوتا، سونگھتا، چکھتا اور سنتا ہے۔ انہی پانچ حواس کے ذریعے انسانی جسم پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص جسمانی طور پرتھکاوٹ اور طبیعت میں تلخی ( Depression) محسوس کرے تو ڈاکٹر اُسے سبزہ اور صاف کھلی فضا میں وقت گزارنے اور سیر کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ خوش گوار فضا میں سانس لینے؛ ہریالی، باغ، پھول، درخت، پانی، جھیل اور قدرتی مناظر دیکھنے سے اس کی طبیعت کو تازگی (freshness) میسر آتی ہے اور اعصابی تنائو کم ہوتا ہے۔ والدین کو اپنی پیاری اولاد دیکھنے سے ایک فرحت حاصل ہوتی ہے۔ اولاد کو اپنے والدین دیکھنے سے ذہنی و قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اپنے محبوب دوست کو دیکھنے سے طبیعت میں فرحت و تازگی آتی ہے اور انسان کا باطن اس خوش گوار تبدیلی کو اس قدر محسوس کرتا ہے کہ اس کیفیت کا اظہار لکھنے، پڑھنے اور بیان کرنے سے قاصر ہے۔
کئی لوگوں کو موسیقی سے فرحت ملتی ہے۔ بعض لوگ تلاوت اور نعت سنتے ہیں تو روح کی تازگی پاتے ہیں اور انہیں اس سے طبیعت میں راحت ملتی ہے۔ کچھ لوگ قوالی سنتے ہیں تو سماع سے ان پر ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ گویا ظاہری طور پر خود کوئی عمل نہیں کیا، محض ماحول سے خوشبو کا جھونکا آیا توطبیعت تر و تازہ ہوگئی۔
اسی طرح ایک عالمِ قلب و روح بھی ہے۔ حواسِ خمسہ ظاہری کی طرح باطنی حواس یعنی روح کے احساسات بھی ہیں جن پر کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ جب کوئی خوش اِلحان قاری قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کرتا ہے تو اس سے نہ صرف جسم پر اثرات وارد ہوتے ہیں بلکہ روح بھی معطر، منور اور سرشار ہو جاتی ہے اور نورِ ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے کسی مقرب اور صالح بندے کو دیکھنے اور اس کی مجلس میں بیٹھنے سے اسی طرح کے خوش گوار اثرات روح پر بھی مرتب ہوتے ہیں جنہیں محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح اگر کوئی شخص بری مجلس میں خاموش بیٹھا رہے۔ وہ چاہے منہ سے کچھ نہ کہے محض سنتا رہے تب بھی برائی کے اثرات اس کے ظاہر و باطن پر ضرور مرتب ہوں گے۔ کیونکہ قوتِ سماعت و بصارت کے ذریعے وہ شریک نہ ہونے کے باوجود اپنے باطن کو گدلا کر رہا ہے۔ ماحول کی برائی کے بُرے اثرات آنکھوں اور کانوں کے ذریعے اس کے اندر داخل ہو رہے ہیں۔ ہمیں ماحول میں جوکچھ سنائی اور دکھائی دے رہا ہوتا ہے، یا جو کچھ ہم سونگھتے اور محسوس کرتے ہیں، یہ ساری کیفیات (feelings) ایک تصور بناتی ہیں، پھر انسان کے اندر نفسیات بنتی ہیں، جو ایک دماغی ماحول بنانا شروع کر دیتی ہیں۔ یوں برائی کا یہ ماحول انسان کی طبیعت پر برے اثرات مرتب کرتا ہے۔
مندرجہ بالا اَمثال سے جب یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ماحول کے انسانی جسم اور روح دونوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں تو اس بات کو سمجھنا مشکل نہیں رہا کہ ماحول کے اثرات انسان کے ظاہر اور باطن دونوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ اچھے اور بُرے ماحول کے ذریعے انسان اپنے ظاہری و باطنی درجات میں بلندی کا حق دار بھی قرار پا سکتا ہے اور زوال کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔
جواب: درج ذیل عوامل بچوں میں منفی سوچ کا داعیہ پیدا کرتے ہیں:
جواب: مثبت سوچ بچوں کی شخصیت میں درج ذیل تبدیلیاں رونما کرتی ہے:
جواب: بعض اوقات منفی سوچ بچوں کو اس طرح جکڑ لیتی ہے کہ اسے ختم کرنا ان کے لیے انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں والدین کو درج ذیل ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس پر عمل پیرا ہو کر بچے منفی سوچ پر قابو پا سکتے ہیں:
منفی سوچ ختم کرنے کے لیے بچوں کی ذہنی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ وہ مختلف چیزوں کے منفی پہلوؤں کی بجائے مثبت پہلوؤں پر غور و فکر کریں تاکہ وہ اپنا ذہن کھلا رکھتے ہوئے تنگ نظری سے گریز کریں۔
بعض تنہائی پسند بچے صرف اپنے کاموں میں مگن رہتے ہیں اور اپنے اردگرد کے لوگوں سے میل جول نہ بڑھانے کی بنا پر اکثر افسردہ اور بے حس ہو جاتے ہیں۔ ان کے اس منفی طرزِ عمل کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں مثبت سماجی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ تجربات سے گزر کر دوسروں میں دلچسپی لینے اور تعلقات بڑھانے والے بن جائیں۔
زیادہ تر فارغ رہنے والے بچے منفی خیالات کی زد میں رہتے ہیں۔ منفی سوچ پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ اُنہیں بامقصد اور تعمیری کاموں میں مصروف رکھا جائے۔ یوں وہ منفی سوچ پر قابو پا کر ذہنی اور قلبی طور پر خوشی اور سکون محسوس کریں گے۔
جب بچے کسی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں تو ان میں منفی خیالات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس تکلیف دہ کیفیت میں وہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اُن کی یہ پریشانی حقیقی ہے یا خیالی۔ دراصل یہ ڈپریشن کی ایک ایسی قسم ہے جس سے مستقل بنیادوں پر بچوں کو نبرد آزما ہونا سکھایا جانا چاہیے اور انہیں یہ شعور دینا چاہیے کہ پریشان ہونے سے مسئلے کا حل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے جُہدِ مسلسل کرنا ضروری ہے، تب کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ ایسی نصیحت بچوں کو منفی سوچ پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
منفی سوچ پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں کی زندگی کے تمام ظاہری اور پوشیدہ گوشوں کا دقیق جائزہ لیتے ہوئے ان کے کاموں کی انفرادی اور اجتماعی ترجیحات بنائیں اور مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے بھرپور حکمت عملی اپنائیں۔ اس سے منزل کا تعین ہوتا ہے کہ وہ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں تعلیم و تربیت اور فنِ تحقیق کو اولیت دیں، اُنہیں شعور دیں کہ منزل تک پہنچنے کے لیے ہر چیز ہر وقت میسر نہیں ہو سکتی۔ ذہن کو مثبت سوچ کا پابند بنا کر وہ خوش اور مطمئن زندگی گزار سکتے ہیں۔
جواب: محاسبہ یہ ہے کہ ہر شخص کام کرنے سے پہلے اس پر اس حد تک غور و فکر کرے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے، اگر وہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے تو اس کی ادائیگی میں جلدی کرے اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے تو اس کو کرنے سے رک جائے۔
جواب: نوجوان نسل کی تربیتِ نفس کے لیے محاسبہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جس طرح وہ زندگی کے مختلف مادی اور ظاہری حالات کے بارے میں حساب کیا کرتے ہیں۔ اسی طرح معنوی اور روحانی اُمور میں بھی انہیں اپنے نفس سے حساب لینا چاہیے۔ جیسا کہ الله تعالیٰ اپنے بندوں سے محاسبہ نفس کا مطالبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
یٰـٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج وَاتَّقُوا اللهَ ط اِنَّ اللهَ خَبِیْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَo
الحشر، 59: 18
اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اس نے کل (قیامت) کے لیے آگے کیا بھیجا ہے، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔
حدیث مبارک میں بھی محاسبہ نفس کی ترغیب ملتی ہے۔ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
اَلْمُجَاهِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَهُ لِلّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ.
مجاہد وہ ہے جو الله کے واسطے اپنے نفس سے جہاد کرے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس اُسلوب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حَاسِبُوْا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا، وَزِنُوْا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُوْزَنُوْا، وَتَزَیَّنُوْا لِلْعَرْضِ الْأَکْبَرِ، یَوْمَ تُعْرَضُوْنَ لَا یَخْفَی مِنْکُمْ خَافِیَةٌ.
ابن أبي شیبة، المصنف، 7: 96، رقم: 34459
اپنے نفس کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔ اپنے آپ کو میزان میں رکھو اس سے پہلے کہ تمہیں میزان میں رکھا جائے۔ قیامت کے عظیم دن کے لیے اپنے آپ کو (اعمال صالحہ سے) مزین کرو، اس دن تمہارے اعمال پیش کیے جائیں گے اور کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہے گا۔
جواب: بچے اپنا محاسبہ درج ذیل تین طریقوں سے کر سکتے ہیں:
1۔ عمل سے پہلے محاسبہ
2۔ دورانِ عمل محاسبہ
3۔ عمل کے بعد محاسبہ
بچوں کو چاہیے کہ جب وہ کسی کام کا ارادہ کریں تو اسے عملی جامہ پہنانے میں جلدی نہ کریں، یہاں تک کہ اس کام کو کرنے یا نہ کرنے پر ذہنی اور قلبی طور پر وہ مطمئن ہو جائیں۔ کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے اُس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا بغور جائزہ لیں، اس کے ساتھ ساتھ اپنی استعدادِ کار کا بھی اندازہ لگائیں کہ آیا آپ اس کام کی تکمیل کے قابل ہیں یا نہیں۔ ان تمام اُمور کا جائزہ لینے کے بعد کوئی کام شروع کریں۔
دورانِ عمل اپنا محاسبہ کریں کہ آیا جو کام وہ کرنے جا رہے ہیں وہ تعلیمات اسلام کے عین مطابق ہے یا نہیں۔ اگر موافق نہیں ہے تو اسے ترک کر دیں۔
بچوں کو چاہیے کہ وہ عمل کے بعد بھی اپنا محاسبہ کریں۔ اس کی درج ذیل دو صورتیں ہیں:
(1) اگر ان کا عمل دینی تعلیمات کے عین مطابق ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔
(2) اگر ان کا عمل شیطانی وساوس کی وجہ سے دینی تعلیمات کے عین موافق نہیں تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہوئے توبہ و استغفار کریں اور آئندہ برا عمل کرنے سے اجتناب کرنے کا عہد کریں۔
جواب: انسانی جسم میں زبان کی حیثیت ایک حاکم کی سی ہے۔ اس کا اندازہ درج ذیل حدیثِ مبارک سے ہوتا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ کُلَّهَا تُکَفِّرُ اللِّسَانَ، فَتَقُوْلُ: اتَّقِ اللهَ فِیْنَا، فَإِنَّمَا نَحْنُ بِکَ. فَإِنِ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا.
جب انسان صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء جھک کر زبان سے کہتے ہیں: ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر کیونکہ ہم تجھ سے متعلق ہیں۔ اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔
یعنی زبان اگر صحیح بات کہے تو تمام اعضاء عافیت میں رہیں گے، لیکن اگر یہ ٹیڑھا پن اختیار کرے تو دوسرے اعضاء اس کی وجہ سے سزا پائیں گے۔ لہٰذا اعمالِ صالحہ کی حفاظت کے لیے زبان کی حفاظت کا خیال رکھنا اور لا یعنی گفتگو سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ.
جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔
زبان کے افعال کا اگر گہرائی سے مشاہدہ کیا جائے تویہ بات عیاں ہوتی ہے کہ نیکی اور بدی کے بہت سے اُمور ایسے ہیں جن کا ظہور زبان سے ہوتا ہے۔ جیسے نیک کاموں میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کی حمدو ثنا بیان کرنا، تلاوتِ قرآن کرنا، سچ بولنا، دوسروں کے بارے میں اچھے کلمات ادا کرنا، دوسروں کو نیکی کی نصیحت اور برائی سے منع کرنا وغیرہ۔ اِسی طرح گناہ اور برائی کے کئی اُمور ایسے ہیں جن کا مصدر بھی زبان ہی ہے، جیسے کفریہ کلمات کہنا، جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا، گالیاں دینا، لعنت کرنا، غیبت کرنا، چغلی کھانا، کسی کی بے عزتی کرنا، خوشامد کرنا، فحش اور بے حیائی کی باتیں کرنا، طعنہ زنی و عیب جوئی کرنا جیسے کتنے ہی برے اخلاق اور بے حیائی کے کام ہیں جن کا بڑا حصہ زبان ادا کرتی ہے۔
جواب: دو افراد میں سے ایک فرد کے بولنے کو کلام اور دوسرے کے سننے کو سماعت کہتے ہیں۔ کلام اور سماعت کے عمل میں ایک فرد کلام کرتا ہے تودوسرا سنتا ہے اور کبھی دوسرا کلام کرتا ہے تو پہلا سنتا ہے۔ اُن کے مابین رابطے کے اس عمل کو گفتگو کہتے ہیں۔
جواب: بچے گفتگو کرتے ہوئے درج ذیل آداب کا خیال رکھیں:
(1) گفتگو کرتے وقت آواز نہ بہت زیادہ اونچی ہو اور نہ ہی بہت زیادہ پست جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ ط اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِo
لقمان، 31: 19
اور اپنی آواز کو کچھ پست رکھا کر، بے شک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔
(2) گفتگو نرمی اور خوش خلقی کے ساتھ کریں، جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا.
البقرة، 2: 84
اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا۔
(3) ہمیشہ گفتگو با مقصد اور جامع کریں جیسا کہ سیدنا حسن بن علی علیہما السلام نے اپنے ماموں جان سے اپنے نانا جان ﷺ کے اندازِ گفتگو کے بارے میں دریافت کیا تو اُنہوں نے فرمایا:
کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لَا یَتَکَلَّمُ فِي غَیْرِ حَاجَةٍ، طَوِیْلَ السَّکْتِ، یَفْتَتِحُ الْـکَـلَامَ وَیَخْتِمُهٗ بِأَشْدَاقِهٖ، وَیَتَکَلَّمُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ، کَـلَامُهٗ فَصْلٌ لَا فُضُوْلٌ وَلَا تَقْصِیْرٌ، لَیْسَ بِالْجَافِي وَلَا الْمُھِیْنِ.
رسول الله ﷺ بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے، آپ ﷺ طویل سکوت فرمانے والے (یعنی خاموش طبع) تھے۔ آپ ﷺ کا آغازِ کلام اور اُس کا اختتام واضح ہوتا۔ حضور ﷺ کا کلامِ اقدس مختصر مگر جامع الفاظ پر مشتمل ہوتا۔ نیز کلمات میں باہم مناسب فاصلہ ہوتا (تاکہ سامعین اچھی طرح سُن اور سمجھ سکیں اور یاد رکھ سکیں)، الفاظ نہ ضرورت سے زیادہ ہوتے اور نہ اتنے مختصر کہ بات ہی واضح نہ ہو؛ آپ ﷺ کا کلام نہ درشت ہوتا اور نہ حقارت آمیز۔
(4) گفتگو دل نشین آواز میں ٹھہر ٹھہر کر کریں تاکہ ہر موضوع دوسرے سے ممتاز ہو اور سننے والا آسانی سے ہر بات سمجھ سکے۔ یہ ہمارے نبی مکرم ﷺ کی سنت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لَا یَسْرُدُ سَرْدَکُمْ هٰذَا، یَتَکَلَّمُ بِکَـلَامٍ بَیْنَهٗ فَصْلٌ، یَحْفَظُهٗ مَنْ سَمِعَهٗ.
رسول الله ﷺ تمہاری مانند تیزی سے مسلسل کلام نہیں فرماتے تھے بلکہ آپ ﷺ اِس طرح کلام فرماتے کہ کلام کے درمیان وقفہ ہوتا تھا اور پاس بیٹھنے والا شخص اُسے (صرف سن کر) یاد کر لیتا تھا۔
اسی طرح ایک اور مقام پر اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ یُحَدِّثُ حَدِیْثًا لَوْ عَدَّهُ الْعَادُّ لَأَحْصَاهُ.
حضور نبی اکرم ﷺ اِس انداز سے کلام فرماتے کہ اگر کوئی شخص (الفاظ) گننا چاہتا تو (بآسانی) شمار کر سکتا تھا۔
(5) گفتگو میں کسی بات پر ہنسی آئے تو شگفتہ مزاجی کے لیے تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے مسکرانے پر اکتفا کریں۔ یہ سنت مبارکہ ہے۔ منہ کھول کر اُونچی آواز میں قہقہہ لگانے سے پرہیز کریں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
مَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِکًا حَتّٰی أَریٰ مِنْهُ لَهَوَاتِهٖ، إِنَّمَا کَانَ یَتَبَسَّمُ.
میں نے رسول الله ﷺ کو کبھی اس طرح کھل کر (یعنی قہقہہ لگا کر) ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ کا حلق مبارک نظر آئے، آپ ﷺ صرف مسکرایا کرتے تھے۔
(6) بڑے افراد کو چاہیے کہ وہ چھوٹے بچوں سے گفتگو اُن کی سمجھ بوجھ اور نفسیات کو مد نظر رکھ کر کریں، یعنی ایسی بات نہ کریں کہ جو ان کو سمجھ نہ آئے۔ اگر ناگزیر ہو تو ایسے آسان پیرائے میں گفتگو کریں کہ جو اُنہیں بھی سمجھ آجائے۔ کسی بھی فرد کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرنا حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
أُمِرْتُ أَنْ نُکَّلِّمَ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ.
مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم (انبیاء کرام علیہم السلام ) لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کیا کریں۔
جواب: اگر کوئی شخص بامقصد گفتگو کرنے کی بجائے بلا ضرورت، طویل اور بے مقصد کلام شروع کر دے تو ایسی گفتگو کو بے مقصد گفتگو کہتے ہیں۔ قرآن حکیم میں بے مقصد گفتگو سے بچنے کو مومنین کی صفات قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَo
المومنون، 23: 3
اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں۔
حدیث مبارک میں بھی بے مقصد گفتگو سے بچنے کی ترغیب ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُهٗ مَا لَا یَعْنِیْهِ.
ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب کف اللسان في الفتنة، 2: 1315، رقم: 3976
کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ جو بات کام کی نہ ہو اسے چھوڑ دے۔
جواب: باہم گفتگو میں غلط فہمی ایسا پریشان کن پہلو ہے جو گفتگو کرنے اور سننے والے دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ غلط فہمی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب بات کرنے والے کی گفتگو میں سے اس کے بیان اور مدعا کے خلاف مفہوم لے لیا جائے۔ جو بات اس نے نہیں کہی وہ اس کی طرف منسوب کر دی جائے یا سننے والا اپنی کم فہمی یا بدنیتی کی وجہ سے اس کا غلط مفہوم نکال لے۔
جواب: باہم گفتگو میں غلط فہمی کے درج ذیل نقصانات ہو سکتے ہیں:
جواب: باہم گفتگو میں پیدا ہونے والی غلط فہمی کو درج ذیل تین کردار رفع کر سکتے ہیں۔
غلط فہمی کو رفع کرنے میں سب سے اہم کردار متکلم کا ہے۔ اُس کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بات واضح اور صاف صاف کہے۔ اہم بات ہو تو اسے دہرا دے تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی پیدا ہو، نہ ہی مخاطب کو اس کے پیدا کرنے کا موقع ملے۔ گفتگو میں صاف گوئی سے کام لینے کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاo
الأحزاب، 33: 70
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کروo
گفتگو کو غلط فہمی سے بچانے میں دوسرا کردار مخاطب کا ہے۔ الله تعالیٰ نے قرآن حکیم میں مخاطبین کو فہم و شعور، علم اور عقل و تفکر اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔ یعنی متکلم سے جو بات سنے اس پر غور و فکر کرکے اسے سمجھے۔ اگر سمجھنے میں دقت ہو اور اُس میں اُلجھاؤ محسوس کرے تو فوراً متکلم سے رجوع کر کے وضاحت طلب کرے تاکہ غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ نیز مخاطب کو چاہیے کہ وہ متکلم کی بات سے اچھا مفہوم نکالے اور اچھی تاویل و تعبیر کرے۔ اگر کسی بات سے غلط مفہوم نکلتا بھی ہو تو اُسے اپنی کم علمی سمجھے اور دوسرے کے بارے میں ہمیشہ اچھا گمان رکھے۔
حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے:
وَلَا تَظُنَّنَّ بِکَلِمَةٍ خَرَجَتْ مِنِ امْرِءٍ مُسْلِمٍ شَرًّا، وَأَنْتَ تَجِدُ لَهٗ فِي الْخَیْرِ مَحْمَلًا.
بیهقی، شعب الایمان، 6: 323، رقم: 8345
جب تمہیں کسی مسلم بھائی سے کوئی بات پہنچے تو اس میں حتی المقدور خیر و بھلائی کا گمان کرو جب کہ تمہارے لیے اس میں خیر کا پہلو نکالنے کی گنجائش بھی ہو۔
گفتگو کو غلط فہمی سے بچانے میں تیسرا اہم کردار عام سامع اور مجلس میں بیٹھے ہوئے افراد کا بھی ہے۔ کوئی شخص کسی کو بات کہہ رہا ہے اور مخاطب اسے سمجھ نہیں پا رہا یا غلط مفہوم لے رہا ہے تو تیسرا شخص اُس کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ اُسے چاہیے کہ اپنے ساتھی کو متکلم کا مطلب و مدعا وضاحت سے بیان کر دے۔
جواب: جھوٹ اور سچ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جھوٹ ایک پیچیدہ اور پراگندہ ذہنی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے ہزارہا جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔ جب کہ سچ کا معاملہ بالکل واضح اور صاف ہے، جسے مخصوص معنوں میں کسی جواز یا سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
جواب: خوش طبعی اور خوش دلی کے لیے شریعت کی بتائی ہوئی حدود و قیود اور آداب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہنسی مزاح کرنا جائز ہے۔ یہ دلوں کی پُثرمردگی کو دور کر کے سرور و انبساط کی کیفیت سے ہمکنار کرتی ہے۔ اس سے دلوں میں محبت بڑھتی اور اچھے تعلقات استوار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ الفت و محبت کی بجائے سبب عداوت بن جاتا ہے اور خوش طبعی کے زمرہ سے نکل کر استہزاء اور مسخرا پن میں شامل ہو جاتا ہے جو کہ ناجائز ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ موقع محل کی مناسبت سے ہنسی مزاح کیا کرتے تھے۔ ذیل میں چند احادیث دی جا رہی ہیں جو آپ ﷺ کی خوش طبعی اور ہنسی مزاح پر دلالت کرتی ہیں۔
ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے تو گھر کے ایک حصے میں میری سہیلیاں اور میں گڑیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا:
مَا هٰذَا، یَا عَائِشَهُ؟
اے عائشہ! یہ کیا ہے؟
میں نے عرض کیا:
بَنَاتِيْ.
(یا رسول اللہ!) یہ میری گڑیائیں ہیں۔
یعنی انہوں نے اپنی گڑیاؤں کے لیے پیار سے ’بنات‘ کا لفظ استعمال کیا۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے ان گڑیاؤں کے درمیان دو پروں والا گھوڑا دیکھا تو دریافت فرمایا:
فَرَسٌ لَهٗ جَنَاحَانِ؟
عائشہ! یہ کیسا گھوڑا ہے کہ اس کے دو پر بھی ہیں؟
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں عرض کیا:
أَمَا سَمِعْتَ أَنَّ لِسُلَیْمَانَ خَیْلًا لَهَا أَجْنِحَةٌ.
(یا رسول اللہ!) کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان علیہ السلام کا گھوڑا پروں والا تھا۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے جب یہ سنا تو امّ المومنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ بہت مسکرائے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف اس جواب سے لطف اٹھایا بلکہ اسے رد بھی نہیں کیا کہ یہ بات تو غلط ہے۔
اسی طرح حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
أَتَتْ عَجُوزٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، ادْعُ اللهَ أَنْ یُدْخِلَنِي الْجَنَّةَ، فَقَالَ: یَا أُمَّ فُلانٍ، إِنَّ الْجَنَّةَ لا تَدْخُلُهَا عَجُوزٌ. قَالَ: فَوَلَّتْ تَبْکِي. فَقَالَ: أَخْبِرُوهَا أَنَّهَا لَا تَدْخُلُهَا وَهِيَ عَجُوزٌ إِنَّ اللهَ تَعَالَی یَقُولُ: {اِنَّـآ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًo فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْکَارًاo عُرُبًا اَتْرَابًاo}
ترمذی، الشمائل المحمدیه، 1: 401-403، رقم: 240
ایک بڑھیا حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے جنت میں داخل فرما دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ام فلاں! بے شک جنت میں بوڑھیاں داخل نہیں ہوں گی۔ وہ (یہ سن کر) روتے ہوئے چلی گئی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اسے بتا دو کہ وہ جنت میں اس حال میں داخل نہیں ہو گی کہ بوڑھی ہو (بلکہ وہاں سب خواتین عالم شباب میں ہوں گی)۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’بے شک ہم نے اِن (حوروں) کو (حسن و لطافت کی آئینہ دار) خاص خِلقت پر پیدا فرمایا ہے۔ پھر ہم نے اِن کو کنواریاں بنایا ہے۔ جو خوب محبت کرنے والی ہم عمر (ازواج) ہیں۔‘۔
جواب: جی نہیں! مذاق میں جھوٹ بولنا کسی صورت جائز نہیں ہے۔ ازراهِ مزاح جھوٹ بولنے، جھوٹی باتیں کرنے اور جھوٹے واقعات بیان کرنے کی احادیث مبارکہ میں سخت ممانعت آئی ہے۔
ابن حکیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
وَیْلٌ لِلَّذِي یُحَدِّثُ بِالْحَدِیثِ لِیُضْحِکَ بِهِ الْقَوْمَ فَیَکْذِبُ، وَیْلٌ لَهٗ، وَیْلٌ لَهٗ.
اس شخص کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹی بات کرتا ہے۔ اس کے لیے خرابی ہے، اس کے لیے خرابی ہے۔
عموماً والدین بچوں سے کام کروانے کی غرض سے انہیں کسی انعام کا لالچ دیتے ہیں۔ دراصل ان کا مقصد انعام دینا نہیں بلکہ ان سے کام لینا ہوتا ہے۔ ایسا عمل جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سے حضور نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَالَ لِصَبِيٍّ: تَعَالَ ھَاکَ؛ ثُمَّ لَمْ یُعْطِهٖ فَهِيَ کِذْبَةٌ.
جس شخص نے بچے سے کہا: ’آجاؤ، میں تمہیں یہ چیز دوں گا اور پھر اسے کچھ نہ دیا تو یہ بھی جھوٹ ہے۔
حضرت عبد الله بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أَتَانَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي بَیْتِنَا، وَأَنَا صَبِيٌّ. قَالَ: فَذَهَبْتُ أَخْرُجُ لِأَلْعَبَ. فَقَالَتْ أُمِّي: یَا عَبْدَ اللهِ، تَعَالَ أُعْطِکَ. فَقَالَ لَهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَمَا أَرَدْتِ أَنْ تُعْطِیَهٗ؟ قَالَتْ: أُعْطِیْهِ تَمْرًا. قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَمَا إِنَّکِ لَوْ لَمْ تَفْعَلِي کُتِبَتْ عَلَیْکِ کَذْبَةٌ.
میرے بچپن میں ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے۔ حضرت عبد الله بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں کھیلنے کے لیے گھر سے باہر جانے لگا تو میری والدہ نے مجھے بلاتے ہوئے کہا: ادھر آؤ، میں تمہیں کچھ دیتی ہوں۔ یہ سن کر حضور نبی اکرم ﷺ نے میری والدہ سے فرمایا: تم اسے کیا دینا چاہتی ہو؟ اُنہوں نے عرض کیا: میں اِسے کھجور دوں گی۔ حضرت عبد الله بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اُسے کچھ نہ دیتیں تو تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔
جواب: جھوٹ کو اسلام نے نہ صرف نفاق کی خصلتوں میں شمار کیا ہے بلکہ ہر برائی کی جڑ قرار دیتے ہوئے اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ والدین کم از کم گھر کا ماحول جھوٹ سے پاک رکھیں اور کوشش کریں کہ کسی واقعہ یا بات کو دلچسپ بنانے کے لیے اس میں جھوٹ کا شائبہ نہ ہو۔ بچہ اگر جھوٹ بولتا ہے تو اس کے جھوٹ بولنے کے اسباب کی کھوج لگا کر نفسیاتی تجزیہ کیا جائے اور اسباب کی تشخیص کے بعد حسب حال تدبیر کی جائے۔ بچے کو یہ شعور دیا جائے کہ وہ اگر سچ بولے گا تو اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ یہ یقین پیدا کرنے کے لیے والدین کو اپنے مزاج میں تحمل اور ضبط پیدا کرنا ہو گا کہ اگر بچہ غلطی کا اعتراف کر لے تو اسے سزا دینے کی بجائے حکمت کے ساتھ سمجھایا جائے۔ اصلاً اعترافِ جرم ہی اصلاح کا آغاز ہے۔ والدین کے اس عمل سے بچہ آئندہ جھوٹ بولنے سے گریز کرے گا۔
بچوں کو قرآنِ حکیم کی آیات اور حضور نبی اکرم ﷺ کی ایسی احادیثِ مبارکہ سنائی جائیں جن سے انہیںسچ کی ترغیب ملے اور جھوٹ سے نفرت پیدا ہو۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ اللهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌo
المؤمن، 40: 28
بے شک الله اسے ہدایت نہیں دیتا جو حدسے گزرنے والا سراسر جھوٹا ہو۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
وَیْلٌ لِّکُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍo
الجاثیة، 45: 7
ہر بہتان تراشنے والے کذّاب (اور) بڑے سیاہ کار کے لیے ہلاکت ہے۔
حضرت عبد الله بن عمر علیہما السلام روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
إِنَّ الصِّدْقَ یَهْدِي إِلَی الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ یَهْدِي إِلَی الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَصْدُقُ حَتّٰی یَکُوْنَ صِدِّیْقًا. وَإِنَّ الْکَذِبَ یَهْدِي إِلَی الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُوْرَ یَهْدِي إِلَی النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَکْذِبُ، حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللهِ کَذَّابًا.
بے شک سچائی، بھلائی کی طرف لے جاتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ صدیق ہو جاتا ہے۔ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جاتے ہیں۔ آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
مَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ، وَهُوَ بَاطِلٌ، بُنِيَ لَهٗ فِي رَبَضِ الْجَنَّة.
جو شخص جھوٹ کو باطل سمجھ کر ترک کرے گا اُس کے لیے جنت کے اطراف میں محل تیار کیا جائے گا۔
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا کَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْهُ الْمَلَکُ مِیْلًا، مِنْ نَتْنِ مَا جَائَ بِهٖ.
جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتے اس کی بُو کی وجہ سے اس آدمی سے ایک میل دور چلے جاتے ہیں۔
جواب: اخلاقی لحاظ سے عاجزی بہت اچھی صفت ہے۔ یہ نیک طبیعت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس وصف کے ذریعے بچوں میں اُلفت و محبت اور عدل و مساوات کے اوصاف پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا اُنہیں سمجھایا جائے کہ ہمیشہ عاجزی اختیار کریں کیوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی عاجزی و انکساری سے متصف ہے جو ہمارے لیے اسوہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
حضرت عیاض بن حماد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ أَوْحٰی إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوا حَتّٰی لَا یَفْخَرَ أَحَدٌ عَلٰی أَحَدٍ، وَلَا یَبْغِي أَحَدٌ عَلٰی أَحَدٍ.
الله تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہے کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ تواضع (عاجزی) کے ساتھ پیش آیا کرو۔ یہاں تک کہ کوئی دوسرے پر زیادتی نہ کرے اور کوئی دوسرے پر اپنی برتری نہ جتائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
مَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ.
جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس کے درجات بلند فرماتا ہے۔
عاجزی کے مقابل تکبر ایسی بدترین خصلت اور فعل ہے جس کا اصل تعلق دل سے ہوتا ہے۔ ایسی عادت کا شکار بچے اپنے آپ کو دوسرے بچوں سے ہر حال میں افضل اور برتر سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو یہ باور کروائیں کہ اس فعل کا ارتکاب کرنے والے کو الله تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔ الله تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّهٗ لَایُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَo
النحل، 16: 23
بے شک وہ سرکشوں متکبّروں کو پسند نہیں کرتا۔
احادیث مبارکہ میں بھی تکبر سے بچنے کی تاکید ملتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهٖ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْرٍ. قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُوْنَ ثَوْبُهٗ حَسَنًا وَنَعْلُهٗ حَسَنَةً. قَالَ: إِنَّ اللهَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ، الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ.
جس کے دل میں رتی برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا: آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کا جوتا عمدہ ہو۔ (کیا یہ بھی تکبر میں شامل ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور حسن و جمال سے محبت کرتا ہے۔ تکبر (اپنی انانیت کی وجہ سے) حق بات کو جھٹلانا اور دوسرے کو حقیر سمجھنا ہے۔
جواب: بچوں کو چغل خوری سے بچانے کے لیے ان پر واضح کیا جائے کہ دو افراد کے مابین دوستانہ روابط کو خراب کرنے کی نیت سے کسی ایک کی باتیں دوسرے افراد تک پہنچانا جو انہیں آپس میں بدگمان اور ناراض کر دے، اسے چغل خوری کہتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس سنگین عادت کو گناهِ عظیم قرار دیا گیا ہے اور اس سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَیْلٌ لِّکُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَۃِo
الهمزة، 104: 1
ہر اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو (روبرو) طعنہ زنی کرنے والا ہے (اور پسِ پشت) عیب جوئی کرنے والا ہے۔
حضرت اسماء بنتِ یزید علیہما السلام روایت کرتی ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے:
إِنَّ شِرَارَکُمُ الْمَشَّاؤُوْنَ بِالنَّمِیْمَةِ، الْمُفْسِدُوْنَ بَیْنَ الْأَحِبَّۃِ، الْبَاغُوْنَ لِلْبُرَآئِ الْعَنَتَ.
تم میں سے بدترین لوگ وہ ہیں جو چغل خوری کرتے ہیں، دوستوں کے درمیان فساد پیدا کرنے والے (اور) بے قصور(افراد) کے لیے مشقت چاہنے والے ہیں۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ.
چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
بچوںکو غیبت سے بچانے کے لیے آگہی دی جائے کہ کسی شخص کے برے وصف کو اس کی عدم موجودگی میں اس طرح بیان کرنا کہ اگر وہ سن لے تو برا مانے، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اس بارے میں قرآن و حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔ یہ عمل خواہ بذریعہ اعضاء ہو یا بذریعہ قلم یا کسی اور طریقے سے عیب جوئی کرنا، غیبت کہلائے گا۔ اگر وہ عیب اس میں موجود نہیں تو یہ بہتان ہے۔ اس کی بھی قرآن و حدیث میں بہت ممانعت آئی ہے۔ غیبت کرنے کو مردار بھائی کا گوشت کھانے سے تشبہیہ دے کر اس فعل کو سنگین قرار دیا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَکَرِهْتُمُوْهُ ط وَاتَّقُوا اللهَ ط اِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌo
الحجرات، 49: 12
اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) الله سے ڈرو بیشک الله توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
ذِکْرُکَ أَخَاکَ بِمَا یَکْرَهُ.
غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کے اس عیب کا ذکر کرو جس کا ذکر اس کو ناپسند ہو۔
عرض کیا گیا: یہ بتائیے کہ اگر میرے بھائی میں وہ عیب ہو جس کا میں ذکر کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنْ کَانَ فِیهِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِیْهِ فَقَدْ بَهَتَّهٗ.
اگر تم نے وہ عیب بیان کیا جو اس میں ہے تب ہی تو تم نے اس کی غیبت کی۔ لیکن اگر وہ عیب بیان کیا جو اس میں نہیں ہے (اس صورت میں) تو تم نے اُس پر بہتان لگا دیا۔
جواب: اگر بچوں میں عبادت کا ذوق نہ ہو، عبادت میں رغبت نہ ہو، یکسوئی اور خشوع و خضوع کی کمی ہو تو بچوں میں عبادت کا ذوق پیدا کرنے کے لیے والدین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی وظائف و اذکار پر مشتمل تصنیف اَلْفُیُوضَاتُ الْمُحَمَّدِیَّۃ سے درج ذیل وظیفہ خود کریں یا ان سے کروائیں:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo {قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَo لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَo وَ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُo وَ لَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْo وَ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُo لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَ لِیَ دِیْنِo}
سورۃ الْکٰفِرُوْنَ کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ چوتھائی قرآن کے برابر ہے۔ اس کی تلاوت سے شرک سے نجات نصیب ہوتی ہے اور توحید میں پختگی آتی ہے۔
اس سورت کو 40 مرتبہ یا حسبِ ضرورت 100 مرتبہ پڑھیں۔
اوّل و آخر 11، 11 مرتبہ درود شریف اور 11، 11 مرتبہ اِستغفار پڑھیں۔ اس وظیفہ کو کم از کم 40 دن یا حسب ضرورت جاری رکھیں۔
اس کے علاوہ درج ذیل آیات کا وظیفہ بھی مفید و مؤثر ہے:
اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo
1۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo (الفاتحہ،
1:5)
2۔ یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ
قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنo (البقرة، 2: 21)
3۔ اَمْ کُنْتُمْ شُهَدَآئَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْهِ
مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْم بَعْدِی ط قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَکَ وَ اِلٰهَ
اٰبَآئِکَ اِبْرَهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا وَّ نَحْنُ لَهٗ
مُسْلِمُوْنَo (البقرة، 2: 133)
4۔ اَلَّا تَعْبُدُوْآ اِلَّا اللهَ ط اِنَّنِیْ لَکُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ
وَّ بَشِیْرٌo (ھود، 11: 2)
5۔ قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللهَ وَلَآ اُشْرِکَ بِهٖ ط
اِلَیْهِ اَدعُوْا وَ اِلَیْهِ مَاٰبo (الرعد، 13: 36)
6۔ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُo (الحجر، 15: 99)
7۔ یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ
وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنo (الحج، 22: 77)
8۔ اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللهَ مُخْلِصًا
لَّهُ الدِّیْنَo (الزمر، 39: 2)
9۔ قُلِ اللهَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهٗ دِیْنِیْo (الزمر،39: 14)
10۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo (الذاریات، 51: 56)
ان آیات کی روزانہ نمازِ فجر کے بعد کم از کم تین بار تلاوت کریں۔ اگر فرصت ہو تو نمازِ مغرب یا عشاء کے بعد جس وقت زیادہ یکسوئی اور تنہائی مل سکے، اس وظیفہ کو اپنا معمول بنا لیں۔
7 بار یا 11 بار پڑھنے میں بہت برکات ہیں۔
ہاتھ پر پھونک کر سینے پر مل لیں اور پانی دم کر کے پئیں۔
اس وظیفہ کو حسب ضرورت 11 دن یا 40 دن یا اس سے بھی زیادہ عرصہ کے لیے جاری رکھ سکتے ہیں۔
جواب: ظاہری اور باطنی نجاست سے شرعی اُصولوں کے مطابق پاکیزگی حاصل کرنا طہارت کہلاتا ہے۔ بچوں کو قرآن حکیم کے ذریعے طہارت کی تربیت دیتے ہوئے بتایا جائے کہ الله تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو صفائی، طہارت اور پاکیزگی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِرِیْنَo
البقرة، 2: 222
بے شک الله بہت توبہ کرنیوالوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
وَثِیَابَکَ فَطَهِّرْo
المدثر، 74: 4
اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں۔
اِسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیثِ مبارکہ سنائی جائیں جن میں آپ ﷺ نے طہارت اور پاکیزگی کی خصوصی تاکید فرمائی ہے۔ امام مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِیمَانِ.
پاکیزگی نصف ایمان ہے۔
طہارت و پاکیزگی سے متعلق انتہائی واضح اور تفصیلی ہدایات فرماتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ نے چھوٹے چھوٹے اور بظاہر معمولی سمجھے جانے والے اعمال پر توجہ دلائی اور انہیں اسلامی فطرت میں شمار فرمایا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلْفِطْرَۃُ خَمْسٌ: الْخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَنَتْفُ الإِبْطِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِیمُ الْأَظْفَارِ.
فطری کام پانچ ہیں؛ یعنی ختنہ کروانا، زیر ناف بال صاف کرنا، بغل کے بال اکھاڑنا، مونچھیں پست کروانا اور ناخن کٹوانا۔
بچوں کو طہارت کے احکامات بتانے کے ساتھ ساتھ نجاست اور اس کی اقسام کے بارے میں بھی بتایا جائے کہ نجاست دو طرح کی ہیں جن سے پاکی حاصل کرنا ضروری ہے:
نجاستِ حقیقی سے مراد یہ ہے کہ اگر جسم یا لباس پر کوئی ظاہری یعنی نظر آنے والی ناپاک چیز ہو تو اس کو پانی سے دھو کر پاک کیا جائے۔ نجاستِ حقیقی اس گندگی کو کہتے ہیں جو ظاہراً نظر آئے۔ اسے شرع نے اصل نجس قرار دیا ہے۔ انسان اپنے بدن، کپڑوں اور کھانے پینے کی چیزوں کو اس سے بچاتا ہے مثلاً پیشاب، شراب، خون، فضلہ وغیرہ۔ اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور اگر کسی چیز پہ لگ جائے تو اسے دور کرکے اس چیز کو پاک کرنے کا حکم ہے۔
وہ نجاست جو ظاہر میں نظر نہ آئے لیکن شریعت نے اس سے پاک ہونے کا حکم دیا ہو اُسے نجاستِ حکمی کہتے ہیں۔ جیسے: حدثِ اصغر (جن امور سے وضو لازم ہوتا ہے) اور حدثِ اکبر (جن امور سے غسل فرض ہوتا ہے) کو نجاستِ حکمی کہتے ہیں۔ یہ شریعت کی رو سے ایک عارضی کیفیت ہے جو تمام بدن پر یا اس کے اعضاء پر وارد ہوتی ہے۔ حدثِ اَصغر وضو سے اور حدثِ اکبر غسل سے دور ہو جاتی ہے۔
نوٹ: وضو اور غسل کا طریقہ ’’بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کا کردار (2 سے 10 سال کی عمر تک)‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔
جواب: بچوں کو تیمم کا طریقہ سکھانے کے لیے والدین دیے گئے طریقے کے مطابق عملاً تیمم کر کے دکھائیں، مثلاً: دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کشادہ کر کے زمین پر یا کسی ایسی چیز پر ماریں جو زمین کی قسم سے ہو۔ پھر اس سے ہاتھ ہٹا لیں اور زیادہ گرد لگ جائے تو جھاڑ لیں۔ اس سے سارے چہرے کا مسح کریں۔ پھر اسی طرح دوسری دفعہ بھی ہاتھ زمین پر یا زمین کی قسم پر مار کر دونوں ہاتھوں کا ناخنوں سے کہنیوں تک مسح کریں۔ مزید انہیں بتائیں کہ تیمم کرنے کا حکم شرع میں اُس وقت ہے جب نماز اور دیگر اُمور کی بجاآوری کے لیے پانی دستیاب نہ ہو۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْعَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِّنْهُ.
المائدة، 5: 6
اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت سے (فارغ ہوکر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔
جواب: بچوں کو نماز کے ظاہری اور باطنی آداب سکھانے سے پہلے نماز کی اہمیت بتائی جائے کہ نماز ایمان کے بعد اسلام کا اہم ترین رُکن اور دین کا ستون ہے۔ جس کی ادائیگی ہر مسلمان پر دن میں پانچ بار فرض ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت و تاثیر رکھی ہے کہ اگر نماز کو ظاہری اور باطنی آداب کے ساتھ پڑھا جائے تو وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روکتی ہے۔
شریعت میں نماز کے ظاہری آداب کی بجا آوری کو نماز ادا کرنے کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ان کی پابندی کے بغیر شرعی اعتبار سے نماز نہیں ہوتی اور روحانی لذت اور معراج کے ثمرات و برکات تک رسائی بھی ناممکن ہوتی ہے۔ اس لیے ظاہری آداب پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔
نماز کے ظاہری آداب درج ذیل ہیں:
نماز کے ظاہری آداب کی تکمیل کے بعد باطنی آداب کا بجا لانا بھی لازمی ہے۔ باطنی آداب کی کماحقهٗ بجا آوری سے ہی نماز روحانی اعتبار سے تقویت پاتی ہے۔ وہ نماز جو باطنی احوال میں کسی قسم کا تغیر پیدا نہ کر سکے، بے روح رہتی ہے۔ لہٰذا نماز کے باطنی آداب کو سمجھ کر اُن کے مطابق نمازوں کی ادائیگی زندگی کے جملہ اُمور کی سمت درست کر سکتی ہے۔ نماز کی نیت کرتے وقت یہ خیال بچوںکے دل و نگاہ کے سامنے ہو کہ وہ کعبہ کے سامنے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے دل کو ملاحظہ فرما رہا ہے، فرشتہ اجل ان کا پیچھا کر رہا ہے اور یہی تصور ہو کہ یہ نماز ان کی آخری نماز ہے۔
نماز کے باطنی آداب درج ذیل ہیں:
تکبیرِ تحریمہ کہتے وقت ان کے دل کے گوشے میں یادِ الٰہی کے سوا کچھ باقی نہ رہے۔
دورانِ قیام اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کے سوا اور کسی تصور کی گنجائش باقی نہ رہے۔
قراء ت کرتے وقت گہرائیوں میں ڈوب کر اپنے اوپر ایسی کیفیت وارد کریںکہ جیسے وہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو رہے ہیں۔
رکوع کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی عظمت کے مقابلے میں خود کو نہایت عاجز، بے کس اور ادنیٰ تصور کریں۔
حالتِ سجدہ میں خشوع و خضوع کی کیفیت میں براهِ راست اللہ تعالیٰ سے اس طرح تعلق جوڑیں کہ معرفتِ نفس نصیب ہو جائے۔
قعدہ میں یہ تصور کریں کہ بارگاهِ الٰہی سے جو نصیب ہو رہا ہے وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے تصدق سے ہے تاکہ آپ ﷺ کی محبت میں روحانی قوت نصیب ہو۔
بندگی کا کمال حاصل کرنے کے لیے خروج عن الصلوۃ کے وقت اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اظہارِ تشکر کریں اور لوگوں کے لیے پیکرِ رحمت بننے کا عہد کریں۔
جواب: بچوں کو نماز میں قرآن حکیم کی درج ذیل آخری دس سورتیں ترتیب سے پڑھنا سکھائی جائیں۔
سُوْرَۃُ الْفِیْل: اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِo اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍo وَّ اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَo تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّیْلٍo فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍo
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟۔ کیا اس نے ان کے مکر و فریب کو باطل و ناکام نہیں کر دیا؟۔ اور اس نے ان پر (ہر سمت سے) پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔ جو ان پر کنکریلے پتھر مارتے تھے۔ پھر (الله نے) ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح (پامال) کر دیا۔
سُوْرَۃُ قُرَیْش: لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍo اٖلٰـفِھِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِo فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیْتِo الَّذِیْٓ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّ اٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍo
قریش کو رغبت دلانے کے سبب سے۔ انہیں سردیوں اور گرمیوں کے (تجارتی) سفر سے مانوس کر دیا۔ پس انہیں چاہیے کہ اس گھر (خانہ کعبہ) کے رب کی عبادت کریں (تاکہ اس کی شکر گزاری ہو)۔ جس نے انہیں بھوک (یعنی فقر و فاقہ کے حالات) میں کھانا دیا (یعنی رِزق فراہم کیا) اور (دشمنوں کے) خوف سے امن بخشا (یعنی محفوظ و مامون زندگی سے نوازا)۔
سُوْرَۃُ المَاعُوْن: اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِo فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَo وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَo الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَo الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآئُ وْنَo وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَo
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟۔ تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو رد کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)۔ اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)۔ پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لیے۔ جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق الله یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)۔ وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں (کیوں کہ وہ خالق کی رسمی بندگی بجا لاتے ہیں اور پسی ہوئی مخلوق سے بے پرواہی برت رہے ہیں)۔ اور وہ برتنے کی معمولی سی چیز بھی مانگے نہیں دیتے۔
سُوْرَۃُ الْکَوْثَر: اِنَّآ اَعْطَیْنٰـکَ الْکَوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُo
بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔ پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریںاور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکرّہے)۔ بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا۔
سُوْرَۃُ الْکَافِرُوْن: قُلْ یٰٓـاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَo لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَo وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُo وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْo وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُo لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِo
آپ فرما دیجیے: اے کافرو!۔ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جنہیں تم پوجتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور نہ (ہی) میں (آئندہ کبھی) ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم پرستش کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ (سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے۔
سُوْرَۃُ النَّصْر: اِذَآ جَآءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُo وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللهِ اَفْوَاجًاo فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ ط اِنَّهٗ کَانَ تَوَّابًاo
جب الله کی مدد اور فتح آپہنچے۔ اور آپ لوگوں کو دیکھ لیں (کہ) وہ الله کے دین میں جوق در جوق داخل ہو رہے ہیں۔ تو آپ (تشکراً) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح فرمائیں اور (تواضعاً) اس سے استغفار کریں، بے شک وہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا (اور مزید رحمت کے ساتھ رجوع فرمانے والا) ہے۔
سُوْرَۃُ الْمَسَد / اللَّهَب: تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّo مَآ اَغْنٰی عَنْهُ مَا لُهٗ وَمَا کَسَبَo سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَھَبٍo وَّامْرَاَتُهٗ ط حَمَّالَةَ الْحَطَبِo فِیْ جِیْدِھَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍo
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے)۔ اسے اس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اس کی کمائی نے۔ عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گا۔ اور اس کی (خبیث) عورت (بھی) جو (کانٹے دار) لکڑیوں کا بوجھ (سر پر) اٹھائے پھرتی ہے، (اور ہمارے حبیب کے تلووں کو زخمی کرنے کے لیے رات کو ان کی راہوں میں بچھا دیتی ہے)۔ اس کی گردن میں کھجور کی چھال کا (وہی) رسہّ ہوگا (جس سے کانٹوں کا گٹھا باندھتی ہے)۔
سُوْرَۃُ الإِخْلَاص: قُلْ ھُوَ اللهُ اَحَدٌo اللهُ الصَّمَدُo لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْo وَلَمْ یَکُنْ لَّهٗ کُفُوًا اَحَدٌo
(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجیے: وہ الله ہے جو یکتا ہے۔ الله سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔
سُوْرَۃُ الفَلَق: قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِo مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَoوَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَo وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِo وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَo
آپ عرض کیجیے کہ میں (ایک) دھماکے سے انتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وجود میں لانے والے رب کی پناہ مانگتا ہوں۔ ہر اُس چیز کے شر (اور نقصان) سے جو اس نے پیدا فرمائی ہے۔ اور (بالخصوص) اندھیری رات کے شر سے جب (اس کی) ظلمت چھا جائے۔ اور گرہوں میں پھونک مارنے والی جادوگرنیوں (اور جادوگروں) کے شر سے۔ اور ہر حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔
سُورَۃُ النَّاس: قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo مَلِکِ النَّاسِo اِلٰهِ النَّاسِo مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِo الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِo مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِo
آپ عرض کیجیے کہ میں (سب) انسانوں کے رب کی پنا ہ مانگتا ہوں۔ جو (سب) لوگوں کا بادشاہ ہے۔ جو (ساری) نسل انسانی کا معبود ہے۔ وسوسہ انداز (شیطان) کے شر سے جو (الله کے ذکر کے اثر سے) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
جواب: نماز وہ بدنی عبادت ہے جو ہر حال میں تمام مسلمانوں پر فرض ہے اور کسی صورت میں معاف نہیں ہے۔ اگر کوئی بچہ کسی مجبوری کے باعث وقت پر نماز نہ پڑھ سکے تو لازمی طور پر قضا پڑھے اور اگر کوئی بچہ معذور ہو اور وہ اپنی معذوری کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز نہ ادا کر سکتا ہو تو وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے۔ بیٹھے بیٹھے رکوع کرے یعنی آگے کی طرف خوب جھک کر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کہہ کر سیدھا ہو جائے اور پھر جیسے سجدہ کیا جاتا ہے ویسے سجدہ کرے۔ اگر بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو چت لیٹ کر پڑھے۔ اس طرح لیٹے کہ پاؤں قبلہ رخ ہوں اور گھٹنے کھڑے رہیں اور سر کے نیچے تکیہ وغیرہ رکھ لے تاکہ سر اونچا ہو کر منہ قبلہ کے سامنے ہو جائے۔ رکوع اور سجدہ اشارے سے کرے یعنی سر کو جتنا جھکا سکتا ہو اتنا تو سجدہ کے لیے جھکائے اور اس سے کچھ کم رکوع کے لیے جھکائے۔ اسی طرح دائیں یا بائیں کروٹ پر یعنی قبلہ رخ منہ کر کے پڑھ سکتا ہے۔
معذور افراد کی نماز کا مذکورہ بالا طریقہ درج ذیل حدیث مبارک سے ثابت ہے:
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک بیماری میں حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ وہ نماز کیسے پڑھیں؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلٰی جَنْبٍ.
کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو تو اپنی کروٹ پر (یعنی لیٹ کر) پڑھ لینا۔
جواب: بچوں کو نمازِ قصر کے بارے میں بتایا جائے کہ سفرمیں چار رکعات فرض والی نمازوں (ظہر، عصر، عشاء) کو نصف کرکے پڑھنا قصر کہلاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًاo
النساء، 4: 101
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو) اگر تمہیں اندیشہ ہے کہ کافر تمہیں تکلیف میں مبتلا کر دیں گے۔ بے شک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں۔
مسافر اگر ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں قصر نہ کرے اور پوری رکعات پڑھے تو وہ گنہگار ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی ظہر کی چھ رکعات فرض پڑھے تو بجائے ثواب کے اسے گناہ ہوگا۔ لیکن اگر مسافر لاعلمی میں قصر کرنا بھول گیا اور اُس نے دو کی بجائے چار رکعات پڑھ لیں اور نماز ختم ہونے سے پہلے یاد آیا اور دوسری رکعت کے آخری قعدہ میں التحیات پڑھنے کی مقدار بیٹھ گیا اور سجدہ سہو کر لیا تو اس کی دو رکعات فرض ہو جائیں گی اور دو نفل۔ لیکن اگر دوسری رکعت میں نہ بیٹھا تو چاروں رکعات نفل ہوگی، لہٰذا فرض نماز دوبارہ پڑھے گا۔
نمازِ قصر کا طریقہ درج ذیل حدیث مبارک سے ثابت ہے۔ حضرت عبد الله بن عمر علیہما السلام سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں:
صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ: فَصَلَّیْتُ مَعَهٗ فِي الْحَضَرِ الظُّهْرَ أَرْبَعًا وَبَعْدَهَا رَکْعَتَیْنِ، وَصَلَّیْتُ مَعَهٗ فِي السَّفَرِ الظُّهْرَ رَکْعَتَیْنِ وَبَعْدَهَا رَکْعَتَیْنِ، وَالْعَصْرَ رَکْعَتَیْنِ وَلَمْ یُصَلِّ بَعْدَهَا شَیْئًا، وَالْمَغْرِبَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ سَوَاءً، ثَـلَاثَ رَکَعَاتٍ، لَا یَنْقُصُ فِي الْحَضَرِ وَلَا فِي السَّفَرِ وَهِيَ وِتْرُ النَّهَارِ، وَبَعْدَهَا رَکْعَتَیْنِ.
میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حضر اور سفر میں نمازیں پڑھی ہیں۔ میںنے آپ ﷺ کے ساتھ حضر میں ظہر چار رکعت پڑھی، اس کے بعد دو رکعت سنت۔ سفر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ظہر دو رکعت پڑھی اور اس کے بعد دو رکعت سنت ادا کی۔ (سفر میں) عصر کی نماز دو رکعت ادا کی، اس کے بعد آپ ﷺ نے کچھ نہ پڑھا۔ مغرب کی نماز سفر اور حضر میں تین رکعتیں ادا کیں۔ آپ ﷺ سفر و حضر میں مغرب کے فرائض تین سے کم ادا نہیں فرماتے تھے اور یہ دن کے وتر ہیں اور اس کے بعد دو رکعت ادا فرماتے۔
کسی مسافر کی دورانِ سفر اگر نمازیں قضا ہو جائیں تو گھر پہنچ کر تب بھی چار رکعات فرض والی نمازوں کی دو دو رکعات قصر کے ساتھ قضا پڑھے اور اگر سفر سے پہلے ان میں سے کوئی نماز قضا ہوئی توسفر کی حالت میں چار رکعات قضاء پڑھے۔
جواب: والدین دورانِ سفر بچوں کو مختلف سواریوں یعنی چلتی ٹرین، کشتی، جہاز، بحری جہاز اور جانور کی سواری وغیرہ پر نماز پڑھنے کے بارے میں بتائیں کہ اگر سفر کے دوران گاڑی سے اترنے میں جان جانے، بیمار ہونے، بیماری بڑھنے یا کسی درندہ کا خطرہ ہو یا اتنی کمزوری ہو کہ کسی کی امداد کے بغیر اتر نہیں سکتا یا سوار نہیں ہو سکتا یا اسے سامان کے چوری ہو جانے یا گاڑی کے چلے جانے کا خطرہ ہو تو ان صورتوں میں چلتی گاڑی، کشتی، ہوائی جہاز، بحری جہاز اور جانور کی سواری پر نماز پڑھنا جائز ہے۔
نیز والدین بچوں کو بتائیں کہ دورانِ سفر نماز شروع کرتے ہوئے قبلہ کی سمت کا تعین کریں۔ بعد میں اگر گاڑی کا رخ تبدیل ہو جائے تو اپنا چہرہ قبلہ رخ پھیر لیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو جس طرف بھی ان کا چہرہ ہے اسی طرح اپنی نماز کو مکمل کریں۔
جواب: بچوں کو سُترہ کے بارے میں بتایا جائے کہ ایسی شے جو نمازی اپنے آگے رکھ کر نماز ادا کرے تاکہ دورانِ نماز اس کے آگے سے گزرنے والا گناہگار نہ ہو اسے سُترہ کہتے ہیں۔ سُترہ زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ اونچا کسی بھی چیز کا ہو اور کم از کم ایک ہاتھ اونچا ایک انگلی کے برابر موٹا ہونا چاہیے۔ اگر بہت زیادہ اونچا ہو تب بھی حرج نہیں۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
إِذَا وَضَعَ أَحَدُکُمْ بَیْنَ یَدَیْهِ مِثْلَ مُؤْخِرَۃِ الرَّحْلِ فَلْیُصَلِّ. وَلَا یُبَالِ مَنْ مَرَّ وَرَائَ ذٰلِکَ.
تم میں سے کوئی شخص جب نماز پڑھے تو اپنے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز رکھ لے، پھر اپنے آگے سے گزرنے والے کی پروا نہ کرے۔
حضرت عبد الله بن عمر علیہما السلام سے مروی ہے:
إِنَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ کَانَ إِذَا خَرَجَ یَوْمَ الْعِیدِ، أَمَرَ بِالْحَرْبَۃِ فَتُوضَعُ بَیْنَ یَدَیْهِ، فَیُصَلِّي إِلَیْهَا وَالنَّاسُ وَرَائَهُ، وَکَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِي السَّفَرِ، فَمِنْ ثَمَّ اتَّخَذَهَا الْأُمَرَاءُ.
حضور نبی اکرم ﷺ جب عید کی نماز ادا کرنے کے لیے تشریف لے جاتے تو (اپنے سامنے بطور سُترہ) نیزہ گاڑھنے کا حکم دیتے۔ آپ ﷺ کے سامنے نیزہ گاڑھ دیا جاتا، پھر لوگوں کو جماعت کراتے۔ آپ ﷺ سفر میں بھی اسی کا اہتمام فرماتے تھے، اس بنا پر حکام بھی نیزہ رکھتے ہیں۔
جواب: والدین بچوں کو بتائیں کہ نماز میں سجدہ سہو اس وقت کیا جاتا ہے جب نماز کے واجبات میں سے کوئی واجب بھولے سے چھوٹ جائے یا فرض میں تاخیر ہو جائے۔ اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سجدہ سہو کرنا واجب ہے اور اگر ایک نماز میں چند واجب ترک ہوجائیں تو ایک ہی دفعہ سجدہ سہو نماز کی ادائیگی کے لیے کافی ہوگا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَحَدَکُمْ إِذَا قَامَ یُصَلِّی جَائَهُ الشَّیْطَانُ فَلَبَسَ عَلَیْهِ. حَتّٰی لَا یَدْرِي کَمْ صَلّٰی۔ فَإِذَا وَجَدَ ذٰلِکَ أَحَدُکُمْ، فَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ وَهُوَ جَالِسٌ.
تم میں سے جب کوئی شخص نماز پڑھتا ہے تو شیطان آکر (ارکانِ نماز) اس پر خلط ملط اور مشتبہ کر دیتا ہے حتی کہ اسے یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔ لہٰذا تم میں سے کسی شخص کو یہ امر پیش آئے تو وہ جب تشہد میں بیٹھے تو دو سجدہ سہو کرے۔
سجدہ سہو کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازی آخری رکعت میں تشہد کے بعد دائیں طرف ایک سلام پھیرے اور پھر دو سجدے کرے۔ پھر بیٹھ کر تشہد، درود پاک اور دعا پڑھے۔ اس کے بعد دونوں طرف سلام پھیر دے۔
جواب: بچوں کو سجدہ تلاوت کے بارے میں بتایا جائے کہ قرآن حکیم میں چودہ آیات ایسی ہیں جن کی تلاوت کرنے یا کسی سے سننے کے فوراً بعد سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔ اِسے سجدۂ تلاوت کہتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر علیہما السلام سے روایت ہے:
کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَقْرَأُ عَلَیْنَا السُّوْرَةَ فِیْھَا السَّجْدَۃُ، فَیَسْجُدُ وَنَسْجُدُ، حَتّٰی مَا یَجِدُ أَحَدُنَا مَوضِعَ جَبْھَتِهٖ.
جب حضور نبی اکرم ﷺ ہمارے سامنے ایسی سورت پڑھتے جس میں سجدہ ہوتا تو سجدہ کرتے اور ہم بھی سجدہ کرتے؛ یہاں تک کہ ہم میں سے بعض کو تو پیشانی رکھنے کے لیے جگہ بھی نہ ملتی۔
نماز سے باہر سجدہ تلاوت کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ کھڑے ہو کر سجدہ تلاوت کی دل سے نیت کرے۔ بعد ازاں ہاتھ اُٹھائے بغیر اللهُ اَکْبَر کہہ کر سجدہ میں چلا جائے اور کم از کم تین بار سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہے، پھر اللهُ اَکْبَر کہتا ہوا کھڑا ہو جائے۔ اگر بیٹھنے کی حالت میں سجدۂ تلاوت کیا تب بھی ادا ہوجائے گا۔ سجدۂ تلاوت سننے یا تلاوت کرنے کے بعد فوری ادا کرنا بہتر ہے لیکن تاخیر ہونے کی صورت میں بعد ازاں بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔
جواب: بچوں کو سجدۂ تلاوت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی درج ذیل دعا پڑھنا سکھائی جائے:
اَللّٰهُمَّ! لَکَ سَجَدْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ. سَجَدَ وَجْھِی لِلَّذِیْ خَلَقَهٗ وَصَوَّرَهٗ، وَشَقَّ سَمْعَهٗ وَبَصَرَهُ. تَبَارَکَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ.
اے اللہ! میں نے تیرے لیے سجدہ کیا، میں تجھ پر ایمان لایا، میں نے تیرے لیے فرمانبرداری کی۔ تو میرا رب ہے، میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اس کو سماعت اور بصارت کا حسن بخشا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑی برکت والا سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہے۔
جواب: جی ہاں! بچوں کو فرض نماز کے علاوہ نفل نماز کی بھی ترغیب دینی چاہیے۔ انہیں بتایا جائے کہ نفلی نماز سے مراد وہ نماز ہے جس کا پڑھنا کسی شخص پر لازم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ فعل ہے؛ مثلاً: نمازِ تہجد، نمازِ اشراق، نمازِ چاشت، نمازِ اوّابین، نماز استخارہ اور نمازِ تسبیح وغیرہ۔
جواب: بچوں کو سب سے پہلے نماز تہجد کے بارے میں بتایا جائے کہ اس کی کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعات ہیں۔ بعد نمازِ عشاء بسترِ خواب پر سونے کے بعد رات کے کسی بھی وقت اُٹھ کر نمازِ تہجد ادا کی جا سکتی ہے۔ بہتر وقت نصف شب اور آخر شب ہے۔ بچوں میں نمازِ تہجد پڑھنے کی رغبت پیدا کرنے کے لیے اُنہیں اس کی فضیلت کے بارے میں بتایا جائے۔
اُمّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ کَانَ یُصَلِّي بِاللَّیْلِ إِحْدیٰ عَشْرَةَ رَکْعَةً. یُوْتِرُ مِنْهَا بِوَاحِدَةٍ. فَإِذَا فَرَغَ مِنْهَا اضْطَجَعَ عَلٰی شِقِّهِ الْأَیْمَنِ. حَتّٰی یَأْتِیَهُ الْمُؤَذِّنُ فَیُصَلِّي رَکْعَتَیْنِ خَفِیفَتَیْنِ.
حضور نبی اکرم ﷺ ہمیشہ رات کو گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ ایک رکعت کے ساتھ تمام رکعات کو طاق بنا لیتے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد دائیں کروٹ لیٹ جاتے حتی کہ آپ کے پاس مؤذن آتا، پھر آپ دو رکعت (سنت فجر) مختصرًا پڑھتے تھے۔
جواب: بچوں کو نماز اشراق کے بارے میں بتایا جائے کہ اس کا وقت طلوعِ آفتاب سے 20 منٹ بعد شروع ہوتا ہے۔ اسے نمازِ فجر اور صبح کے وظائف پڑھ کر اٹھنے سے پہلے اسی مقام پر ادا کیا جاتا ہے۔ نماز اشراق کی رکعات کم از کم 2 اور زیادہ سے زیادہ 6 ہیں۔
نمازِ اشراق پڑھنے کی فضیلت درج ذیل حدیث مبارک سے ثابت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ صَلَّی الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ قَعَدَ یَذْکُرُ اللهَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ: کَانَتْ لَهٗ کَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ. قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ.
ترمذی، السنن، أبواب العیدین، باب ذکر من یستحب من الجلوس فی المسجد بعد صلاة الصبح حتی تطلع الشمس، 2: 481، رقم: 586
جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھ کر طلوع آفتاب تک بیٹھا اللہ کا ذکر کرتا رہا اور پھر دو رکعت نماز (اشراق) ادا کی، اُس کے لیے کامل (و مقبول) حج و عمرہ کا ثواب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے لفظ تَامَّةٍ ’کامل‘ تین مرتبہ فرمایا۔
جواب: بچوں کو نماز چاشت کے بارے میں بتایا جائے کہ اس کا وقت آفتاب کے خوب طلوع ہو جانے پر شروع ہوتا ہے۔ جب طلوعِ آفتاب اور آغازِ ظہرکے درمیان کل وقت کا آدھا حصہ گزر جائے تو یہ چاشت کے لیے افضل وقت ہے۔ نماز چاشت کی کم از کم 4 اور زیادہ سے زیادہ 12 رکعات ہیں۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
کَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ یُصَلِّي الضُّحٰی أَرْبَعًا. وَیَزِیْدُ مَا شَاءَاللهُ.
حضور نبی اکرم ﷺ چاشت کی چار رکعت پڑھتے تھے اور الله تعالیٰ جس قدر چاہتا اتنی زیادہ پڑھ لیتے تھے۔
جواب: بچوں کو نماز اوابین کے بارے میں بتایا جائے کہ یہ نماز مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہے۔ یہ نماز کم از کم دو 2 طویل رکعات یا 6 مختصر رکعات اور زیادہ سے زیادہ 20 رکعات پر مشتمل ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ صَلّٰی بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَکَعَاتٍ لَمْ یَتَکَلَّمْ بَیْنَهُنَّ بِسُوءٍ، عُدِلْنَ لَهٗ بِعِبَادَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً.
جو شخص مغرب کے بعد 6 رکعات نفل اس طرح (مسلسل) پڑھے کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے تو اس کے لیے یہ نوافل بارہ سال کی عبادت کے برابر شمار ہوں گے۔
جواب: بچوں کو نماز جمعہ کے بارے میں بتایا جائے کہ اس کی فرض، سنن اور نوافل سمیت چودہ رکعات ہوتی ہیں۔ اس کے ادا کرنے کا طریقہ درج ذیل ہے:
خطبہ سے پہلے چار رکعت سنت پڑھیں، پھر خطبہ کے بعد دو فرض جماعت کے ساتھ، پھر چار سنت، پھر دو سنت اور پھر دو نفل ادا کریں۔
جواب: بچوں کو نماز عیدین کے بارے میں بتایا جائے کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازیں ہر اس شخص پر واجب ہیں جس پر جمعہ فرض ہے۔ عیدین دوگانہ یعنی دو رکعتوں والی نماز ہے۔ نمازِ عیدین کا طریقہ وہی ہے جو دیگر نمازوں کا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نماز عیدین میں کچھ تکبیریں زائد کہی جاتی ہیں۔ امام تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے، پھر ہاتھ اُٹھا کر تین تکبیریں کہے، تیسری تکبیر کے بعد ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لیں۔ پھر امام تعوذ تسمیہ کے بعد جہراً قرأت کرے۔ قرأت کے بعد حسبِ معمول رکوع و سجود کیے جائیں۔ اس کے بعد دوسری رکعت شروع ہوگی۔ امام قراء ت کرے، قراء ت کے بعد امام تین مرتبہ ہاتھ اُٹھا کر تکبیریں کہے گا۔ مقتدی بھی اس کے ساتھ ایسا ہی کریں اور چوتھی مرتبہ امام ہاتھ اُٹھائے بغیر تکبیر رکوع کہے گا تو مقتدی بھی ایسا کریں۔ اسی طرح دو رکعت نماز مکمل کی جائے گی۔ نماز عیدین کا وقت آفتاب کے بلند ہو جانے کے بعد زوال سے پہلے تک ہے۔
جواب: جی ہاں! بالغ بچوں کو نمازِ جنازہ پڑھنے کا طریقہ سکھانے کے لیے بتایا جائے کہ یہ فرض کفایہ ہے۔ اگر بعض لوگوں نے پڑھ لی تو سب سے فرض ساقط ہو جائے گا لیکن اگر کسی نے بھی نہ پڑھی تو سب گنہگار ہوں گے۔ اس کے ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر مرد کا جنازہ ہو تو امام سر کے بالمقابل کھڑا ہو اور اگر عورت کا جنازہ ہو تو جنازے کے وسط میں کھڑا ہو۔ اگر میت بالغ ہو تو اس کی دعاے مغفرت کا ارادہ کرے اور اگر میت نابالغ ہو تو اسے اپنے لیے فرط، اَجر و ثواب کا باعث، شفاعت کرنے والا اور مقبولِ شفاعت بنانے کا ارادہ کرے۔ اس کے بعد نماز جنازہ کا فریضہ ادا کرنے کی نیت اِس طرح کرے: چار تکبیر نماز جنازہ فرضِ کفایہ، ثنا واسطے الله تعالیٰ کے، درود شریف واسطے حضور نبی اکرم ﷺ کے، دعا واسطے حاضر اس میت کے، منہ طرف کعبہ شریف کے (اور مقتدی یہ بھی کہے:) پیچھے اِس امام کے۔ پھر رفع یدین کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہہ کر زیرِ ناف ہاتھ باندھ لے اور یہ ثنا پڑھے:
سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَجَلَّ ثَنَائُکَ وَلَا اِلٰهَ غَیْرُکَ.
دوسری تکبیر ہاتھ اٹھائے بغیر کہے اور یہ درود پاک پڑھے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ وَسَلَّمْتَ وَبَارَکْتَ وَرَحِمْتَ وَتَرَحَّمْتَ عَلَی إِبْرَاهِیْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِیْمَ، إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.
پھر ہاتھ اٹھائے بغیر تیسری تکبیر کہے اور میت اور تمام مسلمانوں کے لیے دعاے مغفرت کرے۔ بالغ مرد و عورت دونوں کی نمازِ جنازہ کے لیے یہ دعا پڑھے:
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا۔ اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَهٗ مِنَّا فَاَحْیِهٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَهٗ مِنَّا فَتَوَفَّهٗ عَلَی الإِیْمَانِ.
فتاویٰ عالمگیری، 1: 164
یا اللہ! تو ہمارے زندوں کو بخش اور ہمارے مردوں کو، اور ہمارے حاضر شخصوں کو اور ہمارے غائب لوگوں کو اور ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو اور ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو۔ یا اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے تو اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو ہم میں سے موت دے تو اس کو ایمان پر موت دے۔
اگر نابالغ لڑکے کا جنازہ ہو تو یہ دعا پڑھے:
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْهُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَاجْعَلْهُ لَنَا شَافِعًا وَّمُشَفَّعًا.
فتاویٰ عالمگیری، 1: 164
اے اللہ! اس بچہ کو ہمارے لیے منزل پر آگے پہنچانے والا بنا، اسے ہمارے لیے باعثِ اجر اور آخرت کا ذخیرہ بنا، اور اسے ہمارے حق میں شفاعت کرنے والا اور مقبولِ شفاعت بنا۔
نابالغ لڑکی کا جنازہ ہو تو یہ دعا پڑھے:
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهَا لَنَا فَرَطاً وَّ اجْعَلْهَا لَنَا اَجْرًا وَّ ذُخْرًا وَّاجْعَلْهَا لَنَا شَافِعَةً وَّمُشَفَّعَةً.
اے اللہ! اس بچی کو ہمارے لیے منزل پر آگے پہنچانے والا بنا، اسے ہمارے لیے باعثِ اجر اور آخرت کا ذخیرہ بنا اور اسے ہمارے حق میں شفاعت کرنے والا اور مقبولِ شفاعت بنا۔
اگر کسی کو ان دعاؤں میں سے کوئی دعا یاد نہ ہو تو یہ دعا پڑھ لینی چاہیے:
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَلِوَالِدَیْنَا وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ.
اے اللہ! تو ہمیں ہمارے والدین اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔
اگر یہ دعا بھی یاد نہ ہو تو جو دعا یاد ہو وہی پڑھ سکتا ہے۔
پھر چوتھی تکبیر بغیر ہاتھ اٹھائے کہے اور بعد ازاں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللهِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللهِ کہتے ہوئے دائیں بائیں سلام پھیر دے۔
جواب: بچوں کو نماز استخارہ کے بارے میں بتایا جائے کہ کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ تائیدِ غیبی سے حاصل کرنے کے لیے ادا کی جانے والی دو رکعت نماز کو نمازِ اِستخارہ کہتے ہیں۔ نمازِ اِستخارہ کی پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھیں۔ سلام پھیرنے کے بعد استخارہ کی درج ذیل مسنون دعا پڑھیں:
اَللَّهُمَّ إِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ، وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ. اَللَّھُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ… (یہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) …خَیْرٌ لِيْ، فِيْ دِیْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِيْ. فَاقْدُرْهُ لِيْ وَیَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِیْهِ. وَإنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ… (یہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) …شَرٌّ لِيْ، فِيْ دِیْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِيْ، فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِهٖ. قَالَ: وُیُسمِّي حَاجَتَهٗ.
اے اللہ! بے شک میں (اس کام میں) تجھ سے تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں اور (حصولِ خیر کے لیے) تجھ سے تیری قدرت کے ذریعے قدرت مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیرا فضل عظیم مانگتا ہوں۔ بے شک تو (ہر چیز پر) قادر ہے اور میں (کسی چیز پر) قادر نہیں، تو (ہر کام کے انجام کو) جانتا ہے اور میں (کچھ) نہیں جانتا اور تو تمام غیبوں کا جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کا میں ارادہ رکھتا ہوں) میرے لیے، میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کر اور آسان کر پھر اس میں میرے لیے برکت پیدا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس (کام) کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی عطا کر جہاں (کہیں بھی) ہو پھر مجھے اس کے ساتھ راضی کر دے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا پھر اپنی حاجت بیان کرو۔
جواب: بچوں کو درج ذیل حدیثِ مبارک میں بیان کیے گئے طریقے کے مطابق صلوٰۃ التسبیح پڑھنا سکھائی جائے۔ حضرت ابو وہب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مبارک سے تسبیحات والی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:
یُکَبِّرُ ثُمَّ یَقُولُ: سُبْحَانَکَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا إِلٰهَ غَیْرُکَ. ثُمَّ یَقُولُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً: سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَکْبَرُ. ثُمَّ یَتَعَوَّذُ وَیَقْرَأُ: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، وَفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُورَةً. ثُمَّ یَقُولُ عَشْرَ مَرَّاتٍ: سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَکْبَرُ. ثُمَّ یَرْکَعُ فَیَقُولُهَا عَشْرًا. ثُمَّ یَرْفَعُ رَأْسَهٗ مِنَ الرُّکُوعِ، فَیَقُولُهَا عَشْرًا. ثُمَّ یَسْجُدُ. فَیَقُولُهَا عَشْرًا. ثُمَّ یَرْفَعُ رَأْسَهٗ فَیَقُولُهَا عَشْرًا. ثُمَّ یَسْجُدُ الثَّانِیَةَ فَیَقُولُهَا عَشْرًا. یُصَلِّي أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ عَلٰی ہٰذَا، فَذٰلِکَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ تَسْبِیحَةً فِي کُلِّ رَکْعَةٍ. یَبْدَأُ فِي کُلِّ رَکْعَةٍ بِخَمْسَ عَشْرَةَ تَسْبِیحَةً، ثُمَّ یَقْرَأُ ثُمَّ یُسَبِّحُ عَشْرًا. فَإِنْ صَلّٰی لَیْلًا فَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ یُسَلِّمَ فِي الرَّکْعَتَیْنِ، وَإِنْ صَلَّی نَهَارًا فَإِنْ شَائَ سَلَّمَ وَإِنْ شَائَ لَمْ یُسَلِّمْ. قَالَ أَبُو وَهْبٍ: وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِیزِ ابْنُ أَبِي رِزْمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ أَنَّهٗ قَالَ: یَبْدَأُ فِي الرُّکُوعِ بِسُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیمِ، وَفِي السُّجُودِ بِسُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰی: ثَـلَاثًا، ثُمَّ یُسَبِّحُ التَّسْبِیحَاتِ. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ: وَحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِیزِ، وَهُوَ ابْنُ أَبِي رِزْمَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَکِ: إِنْ سَهَا فِیهَا یُسَبِّحُ فِي سَجْدَتَيِ السَّهْوِ عَشْرًا عَشْرًا؟ قَالَ: لَا، إِنَّمَا هِيَ ثَـلَاثُ مِائَۃِ تَسْبِیحَةٍ.
ترمذی، السنن، أبواب الوتر، باب ما جاء في صلاة التسبیح، 2: 348، 349، رقم: 481
تکبیر کہہ کر ثناء پڑھے، پھر پندرہ مرتبہ سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَکْبَرُ کہے، پھر تعوذ اور تسمیہ پڑھے، سورۃ الفاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھے اور پھر دس مرتبہ (مذکورہ بالا) تسبیحات کہے۔ رکوع میں دس مرتبہ، رکوع سے اٹھ کر دس مرتبہ، سجدہ میں دس مرتبہ، سجدہ سے اٹھ کر دس مرتبہ اور پھر دوسرے سجدہ میں دس مرتبہ یہی تسبیحات کہے، یوں چار رکعتیں پڑھے۔ اس طرح ہر رکعت میں پچھتر (75) تسبیحات ہوں گی، ہر رکعت کے شروع میں پندرہ مرتبہ اور پھر قراء ت کے بعد دس دس مرتبہ پڑھے، اگر رات کو پڑھے تو ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرنا مجھے پسند ہے، اگر دن کو پڑھے تو چاہے سلام پھیرے چاہے نہ پھیرے۔ ابووہب فرماتے ہیں: مجھے ابو رزمہ عبدالعزیز نے بتایا کہ عبداللہ بن مبارک نے فرمایا: رکوع میں پہلے سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیمِ کہے اور سجدے میں پہلے سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰی کہے، پھر تسبیحات پڑھے۔ ابورزمہ عبد العزیز فرماتے ہیں میں نے عبد اللہ بن مبارک سے پوچھا، اگر سہو ہو جائے تو کیا سجدہ سہو میں بھی دس دس مرتبہ تسبیحات کہے۔ انہوں نے فرمایا: نہیں، یہ صرف تین سو تسبیحات ہیں۔
جواب: بچوں کو نمازِ حاجت حضور نبی اکرم ﷺ کے درج ذیل فرمان کے مطابق سکھائی جائے۔ حضرت عبد الله ابی اوفی الاسلمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ سے یا مخلوق میں سے کسی سے کوئی حاجت درپیش آئے تو وہ وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے اور پھر یہ دعا پڑھے:
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ. أَسْأَلُکَ أَلَا تَدَعَ لِیْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهٗ وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهٗ وَلَا حَاجَةً هِیَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَیْتَهَا لِی، ثُمَّ یَسْأَلُ اللهَ مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ مَاشَاءَ فَإِنَّهُ یُقَدَّرُ.
ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیھا، باب ما جاء في صلاةِ الحاجة، 1: 441، رقم: 1384
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ برد بار بزرگ ہے۔ بڑے عرش کا مالک ہے۔ اے اللہ! میں تیری پاکیزگی بیان کرتا ہوں، تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ (اے اللہ!) میں تجھ سے تیری رحمت کے ذریعے بخشش کے اسباب، نیکی کی آسانی اور ہر گناہ سے سلامتی چاہتا ہوں۔ میرے تمام گناہ بخش دے۔ میرے جملہ غم ختم کر دے اور میری ہر وہ حاجت جو تیری رضا مندی کے مطابق ہو پوری فرما۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی جس بات کی طلب ہو وہ سوال کرے۔ وہ اس کے لیے مقدر کر دی جاتی ہے۔
2۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک نابینا صحابی کو اس کی حاجت برآری کے لیے دو رکعت نماز کے بعد درج ذیل الفاظ کے ساتھ دُعا کی تلقین فرمائی، جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں اپنی حاجت برآری کے لیے اسی طریقے سے دو رکعت نماز کے بعد دعا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَۃِ، یَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّھْتُ بِکَ إِلٰی رَبِّي فِي حَاجَتِي ھٰـذِهٖ لِتُقْضٰی، اَللّٰھُمَّ، فَشَفِّعْهُ فِيَّ.
ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ماجاء فی صلاة الحاجة، 1: 441، رقم: 1385
اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں حضور نبی اکرم ﷺ کے وسیلہ سے۔ اے محمد! میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں کہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں حضور نبی اکرم ﷺ کی شفاعت قبول فرما۔
جواب: جی ہاں! بچوں کو بتایا جائے کہ مرد اور عورت کی نماز میں فرق ان کی جسمانی ساخت کی وجہ سے ہے۔ شریعت کی رُو سے شرعی اَحکام و مسائل میں بھی ان کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے۔ طہارت کے مسائل ہوں یا حج کے، روزہ کے مسائل ہوں یا زکوٰۃ کے، عورت کے عورت ہونے کا کسی نہ کسی حکم سے اِظہار ہو جاتا ہے۔ جس طرح نمازِ جمعہ و عیدین مردوں پر فرض ہے، عورتوں پر نہیں؛ اِسی طرح نماز جیسی افضل عبادت میں بھی بعض مخصوص مواقع پر عورت کا طریقہ نماز مرد سے مختلف رکھا گیا ہے تاکہ عورت کے پردہ کا لحاظ رکھا جائے۔ اس کے اعضائے نسوانی کا اعلان و اظہار نہ ہو۔ مثلاً عورت نماز میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کندھے تک اٹھاتی ہے جب کہ مرد کانوں کی لو تک۔ مردوں کو سجدہ میں پیٹ رانوں سے اور بازو بغل سے جدا رکھنے کا حکم ہے جبکہ عورت کو سمٹ کر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو اپنی دونوں رانوں سے چپکائے۔ مرد اور عورت کی نماز میں یہ بنیادی فرق پردہ کے اعتبار سے ہے۔
جواب: لڑکیوں کو ایام مخصوصہ میں عبادت کے احکام اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سکھائے جائیں۔ انہیں بتایا جائے کہ حالتِ حیض (perio علیہما السلام s) میں اسلام نے عورت کو نماز میں رخصت دی ہے، وہ ان کی قضا کی ادائیگی سے بھی مبرا ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے:
لَا تَقْضِي الْحَائِضُ الصَّلَاةَ۔ وَقَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ وَأَبُو سَعِیدٍ علیہما السلام عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: تَدَعُ الصَّلَاةَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الحیض، باب لا تضی الحائض الصلاة...، 1: 122، (ترجمة الباب)
حائضہ عورت نماز کی قضا نہ کرے۔ حضرت جابر بن عبدالله اور حضرت ابو سعید علیہما السلام نے حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ حائضہ عورت نماز چھوڑ دے (اور روزہ کی قضاء کرے)۔
اسی طرح اگر لڑکیاں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کر رہی ہوں تو بحالت حیض وہ قرآن حکیم کے کلموں کے درمیان وقفہ کرکے اسے پڑھ سکتی ہیں اور سیکھ سکتی ہیں۔ نیز قرآن کے ہجے کرانا بھی جائز ہے۔
بحالتِ حیض لڑکیاں عیدگاہ میں بھی جاسکتی ہیں بشرطیکہ وہ مسجد کا حصہ نہ ہو اور الگ سے خواتین کے لیے جگہ ہو۔ جیسا کہ حضرت اُم عطیہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر جوان، پردہ دار اور حائضہ عورتوں کو لے جایا کریں اور حائضہ عورتیں عید گاہ سے دور رہیں لیکن وہ کارِ خیر اور مسلمانوں کے ساتھ دعا میں شامل رہیں۔
مسلم، الصحیح، کتاب صلاة العیدین، باب ذکر اباحة خروج النساء فی العیدین إلی المصلی وشهود الخطبة، 2: 605-606، رقم: 890
جواب: لڑکوں کو جنب یعنی ایسی ناپاکی جس کے بعد غسل فرض ہو جاتا ہے، کی صورت میں شرعی احکام کے بارے میں بتایا جائے کہ:
1۔ کوئی ایسا شرعی کام جو بغیر وضو کے نہیں کیا جاسکتا، حالتِ جنابت میں اس کا کرنا حرام ہے جیسا کہ ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنا حرام ہے، خواہ نفل نماز ہو یا فرض۔
2۔ جس گھر میں جنبی ہو اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ لہٰذا جلد اَز جلد پاکیزگی حاصل کرنی چاہیے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا تَدْخُلُ الْمَلآئِکَةُ بَیْتًا فِیْهِ صُوْرَةٌ وَلَا کَلْبٌ وَلَا جُنُبٌ.
أبو داود، السنن، کتاب اللباس، باب في الصور: 4: 72، رقم: 4152
فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس گھر میں تصویر یا کتا یا جنبی ہو۔
3۔ جنبی کے لیے قرآن حکیم کو پڑھنا اور چھونا حرام ہے۔ حضرت عبد الله بن عمر علیہما السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا تَقْرَإ الْحَائِضُ، وَلَا الْجُنُبُ شَیْئًا مِّنَ الْقُرْآنِ.
ترمذی، السنن، کتاب الطهارة، باب ماجاء فی الجنب والحائض أنهما لا یقران القران، 1: 236، رقم: 131
جنبی اور حائضہ قرآن مجید سے کچھ نہ پڑھے (نہ تھوڑا نہ بہت)۔
4۔ جنبی کے لیے ایسی انگوٹھی اور لاکٹ (ہار) کو جس پر قرآنی آیت یا حروفِ مقطعات لکھے ہوں پہننا حرام ہے۔
5۔ جنبی کا مسجد میں داخل ہونا حرام ہے۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
وَجِّهُوْا هٰذِهِ الْبُیُوْتَ عَنِ الْمَسْجِدِ فَإِنِّي لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُبٍ.
أبو داود، السنن، کتاب الطهارة، باب فی الجنب یدخل المسجد، 1:60، رقم: 232
تم مسجد کی طرف سے گھروں کے دروازے بند کر دو کیونکہ میں حائض اور جنبی کے مسجد میں داخل ہونے کو حلال نہیں کروں گا۔
6۔ جنبی کا دینی کتابوں کو طہارت کے بغیر ہاتھ لگانا اور پکڑنا حرام ہے۔
7۔ جنبی نماز نہیں پڑھ سکتا، البتہ روزہ رکھ سکتا ہے۔
نوٹ: حالتِ جنابت سے پاک ہونے کے لیے غسل کرنے کا شرعی طریقہ ’’طہارت اور نماز‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔
جواب: اذان شعائرِ دین میں سے ہے۔ اذان کا احترام، اذان سے محبت ہر مومن کا ایمانی تقاضا ہے۔ اذان دینے کی فضیلت درج ذیل حدیثِ مبارک سے ثابت ہے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
الْمُؤَذِّنُوْنَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
قیامت کے دن جب مؤذن اٹھیں گے تو ان کی گردنیں سب سے بلند ہوں گی۔
لڑکوں کو اذان اور اس کے کلمات کی ادائیگی کا طریقہ یوں سکھایا جائے کہ مسجد میں اونچی جگہ قبلہ رخ کھڑے ہو کر کانوں میں انگلیاں ڈال کر یا کانوں پر ہاتھ رکھ کر اللهُ اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَر کہیں، پھر ذرا ٹھہر کر اللهُ اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَر کہیں۔ پھر دو دفعہ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ الله کہیں۔ پھر دو دفعہ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ الله کہیں۔ پھر دائیں طرف منہ پھیر کر دو بار حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کہیں۔ پھر بائیں طرف منہ کر کے دو بار حَیَّ عَلَی الْفَـلَاح کہیں۔ پھر قبلہ رُخ منہ کرلیں اور اللهُ اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَر کہیں۔ آخر میں ایک بار لَا اِلٰهَ الاَّ اللهُ کہیں۔
جواب: تعلیماتِ اسلام میں باجماعت نماز کا بڑا اہتمام کیا گیا ہے۔ جماعت نماز کی تکمیل میں ایک اعلیٰ درجے کی شرط ہے۔ باجماعت نماز کی ادائیگی قرب و موانست اور محبت کے رشتے کو مضبوط و مستحکم بنانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے ایک دوسرے کی خوشی غمی اور دکھ سکھ میں شریک ہو کر ایک صحت مند، خوش حال اور فعال معاشرے کی تعمیر ممکن ہے۔ نماز باجماعت کی پابندی سے انسان کے دل میں یہ احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ بغیر کسی شرعی عذر کے گھر کے اندر رہ کر انفرادی سطح پر نماز جیسے فریضے کی بجا آوری ممکن نہیں تو افرادِ معاشرہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ کیسے رہ سکتے ہیں؟
لڑکوں کو باجماعت نماز ادا کرنے کی فضیلت کے بارے میں بتایا جائے کہ ایک باجماعت نماز کا ثواب 27 نمازوں کے برابر ہے۔ نماز کو باجماعت ادا کرنے کی فضیلت اور ترغیب دی گئی ہے، حتی کہ اگر دو آدمی ہوـں تو بھی جماعت قائم کی جائے۔ ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِثْنَانِ فَمَا فَوْقَھُمَا جَمَاعَةٌ.
دو یا دو سے اوپر جماعت ہے۔
باجماعت نماز کی فضیلت حضور نبی اکرم ﷺ کی درج ذیل حدیث مبارک سے بھی ثابت ہے:
صَـلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَـلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ دَرَجَةً.
باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر 27 درجے فضیلت رکھتا ہے۔
بغیر عذر شرعی باجماعت نماز نہ پڑھنے کو منافقت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید آئی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهٖ، لَقَدْ ھَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّـلَاةِ فَیُؤَذَّنَ لَھَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلاً فَیَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، لَو یَعْلَمُ أَحَدُھُمْ: أَنَّهُ یَجِدُ عَرْقًا سَمِیْنًا، أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ، لَشَھِدَ الْعِشَاءَ.
قسم اس ذات کی جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے! میرے دل میں خیال آیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لئے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے، پھر میں ایسے لوگوں کی طرف نکل جائوں (جو بغیر کسی عذرِ شرعی کے نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے ہڈی والا گوشت یا دو عمدہ پائے ملیں گے تو وہ ضرور نمازِ عشاء میں شامل ہوتا۔
لڑکوں کو باجماعت نماز کے لیے صف کی ترتیب کے بارے میں بتایا جائے کہ امام پہلی صف کے آگے درمیان میں کھڑا ہو۔ اس کے بعد پہلی صف مکمل کی جائے، پھر دوسری اور تیسری۔ علی ہذا القیاس پچھلی صفیں بنائی جائیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَتِمُّوا الصَّفَّ المُقَدَّمَ ثُمَّ الَّذِي یَلِیْهِ فَمَا کَانَ مِنْ نَقْصٍ فَلْیَکُنْ فِی الصَّفِّ الْمُؤَخَّرِ.
پہلی صف مکمل کرو پھر اس کے بعد والی صف۔ پس اگر صفوں میں کوئی صف نامکمل رہ جائے تو وہ آخر والی صف میں ہو۔
جواب: لڑکیوں کو درج ذیل اوصاف پر مشتمل ستر ڈھانپنے والا لباس پہننا چاہیے مثلاً:
1۔ لباس اتنا باریک نہ ہو کہ جسم کا رنگ یا جھلک نظر آئے۔
2۔ اتنا تنگ نہ ہو کہ جسم کے نشیب و فراز نمایاں ہوں۔
3۔ اتنا چھوٹا نہ ہو کہ پنڈلیاں، بازو، گردن اور سینہ وغیرہ ڈھانپنے سے قاصر ہو۔
لڑکیوں کے ستر کے مطابق لباس اس طرح تیار کیا جائے کہ ان کی کلائی تک ہاتھ، پائوں اور چہرے کے علاوہ باقی پورا بدن لباس سے ڈھک جائے۔ نیز لباس کی کٹائی، سلائی اور کپڑے کے انتخاب میں یہ امر ملحوظ رہے کہ اعضائے ستر کسی طرح بھی ظاہر نہ ہوں۔ جیسا کہ درج ذیل احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
إِنَّ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ دَخَلَتْ عَلٰی رَسُولِ اللهِ ﷺ وَعَلَیْهَا ثِیَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَ قَالَ: یَا أَسْمَاءُ إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِیْضَ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ یُریٰ مِنْهَا إِلَّا هٰذَا وَ هٰذَا، وَأَشَارَ إِلٰی وَجْهِهٖ وَکَفَّیْهِ.
حضرت اسماء بنت ابوبکر علیہما السلام رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان کے اوپر باریک کپڑا (دوپٹہ) تھا۔ جس پر رسول اللہ ﷺ نے ان کی جانب سے رُخ پھیر لیا اور فرمایا: اے اسماء! عورت جب بالغہ ہوجائے تو اسے جسم کا کوئی حصہ دکھانا درست نہیں۔ سوائے اس کے اور اس کے۔ آپ ﷺ اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی جانب اشارہ فرمایا۔
حضرت علقمہ بن ابی علقمہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں:
دَخَلَتْ حَفْصَۃُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَلٰی عَائِشَةَ رضی الله عنها، زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ، وَعَلٰی حَفْصَةَ خِمَارٌ رَقِیْقٌ، فَشَقَّتْهُ عَائِشَۃُ رضی الله عنها، وَکَسَتْهَا خِمَارًا کَثِیْفًا.
حفصہ بنت عبد الرحمن حضرت عائشہ علیہما السلام کے پاس باریک دوپٹہ اوڑھ کر آئیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کا دوپٹہ پھاڑ دیا اور موٹا دوپٹہ اوڑھا دیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
لَعَنَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الرَّجُلَ یَلْبَسُ لِبْسَةَ الْمَرْأَۃِ وَالْمَرْأَةَ تَلْبَسُ لِبْسَةَ الرَّجُلِ.
رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کا لباس پہننے والے مرد اور مردوں کا لباس پہننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔
جواب: لڑکوں کو حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ایسا لباس پہننا چاہیے جس کا شریعت نے انہیں حکم دیا ہے۔ یعنی ان کا ستر مکمل طور پر ڈھانپا ہوا ہو۔ وہ کوئی بھی لباس پہنیں خواہ قمیض شلوار ہو یاپینٹ کوٹ، ان کے لباس میں فخر و نمائش اور تصنع نہ ہو۔ البتہ لڑکوں کو خالص ریشم کا لباس پہننا حرام ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد الله بن عباس علیہما السلام سے روایت ہے:
إِنَّمَا نَهٰی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنِ الثَّوْبِ الْمُصْمَتِ مِنَ الْحَرِیْرِ.
رسول الله ﷺ نے خالص ریشمی کپڑے سے منع فرمایا ہے۔
جواب: بچے نیا لباس پہنتے ہوئے درج ذیل دعا پڑھیں:
اللّٰهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ کَسَوْتَنِیْهِ؛ أَسْأَلُکَ خَیْرَهٗ وَخَیْرَ مَا صُنِعَ لَهٗ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّهٖ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَهٗ.
اے اللہ! تمام حمد و ثناء تیرے ہی لیے ہے، تو نے مجھے یہ کپڑا پہنایا، میں تجھ سے اس کی بھلائی اور جس مقصد کے لیے یہ بنایا گیا اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں۔ نیز اس کے شر اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
جواب: بچوں کو جوتا پہننے کے آداب درج ذیل حدیث مبارک کی روشنی میں سکھائے جائیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا انْتَعَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَبْدَأْ بِالْیَمِیْنِ، وَإِذَا نَزَعَ فَلْیَبْدَأْ بِالشِّمَالِ، لِتَکُنِ الْیُمْنٰی أَوَّلَهُمَا تُنْعَلُ وَآخِرَهُمَا تُنْزَعُ.
جب تم میں سے کوئی جوتے پہنے تو اُسے دائیں جانب سے ابتداء کرنی چاہیے اور جب اُتارے تو بائیں جانب سے ابتداء کرنی چاہیے، تاکہ دایاں پیر پہننے میں اوّل اور اُتارنے میں آخری رہے۔
جواب: جی ہاں! قرآن و حدیث کی رُو سے ہر شخص پر لازم ہے کہ کسی کے گھر داخل ہونے سے پہلے اجازت لی جائے۔ پھر اجازت ملنے کے بعد گھر میں داخل ہوا جائے۔
جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْھَآ اَحَدًا فَـلَا تَدْخُلُوْھَا حَتّٰی یُؤْذَنَ لَکُمْ ج وَاِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَا اَزْکٰی لَکُمْ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌo
النور، 24: 27-28
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لیے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو۔ پھر اگر تم ان (گھروں)میں کسی شخص کو موجود نہ پائو تو تم ان کے اندر مت جایا کرو یہاں تک کہ تمہیں (اس بات کی) اجازت دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جائو تو تم واپس پلٹ جایا کرو، یہ تمہارے حق میں بڑی پاکیزہ بات ہے، اور اللہ ان کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے۔
والدین بچوں کو حدیثِ مبارک کی روشنی میں بتائیں کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت عین گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور اندر جھانکتے ہوئے نہیں مانگنی چاہیے۔ بلکہ دروازے کی ایک طرف کھڑے ہو کر bell یا دستک دیں، تین بار bell یا دستک دینے پر اگر دروازہ کھل جائے تو ٹھیک ورنہ واپس لوٹ جائیں اور اس بات کا برا بھی مت منائیں۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا أَتٰی بَابَ قَوْمٍ لَمْ یَسْتَقْبِلِ الْبَابَ مِنْ تِلْقَائِ وَجْهِهٖ، وَلٰـکِنْ مِنْ رُکْنِهِ الْأَیْمَنِ أَوِ الْأَیْسَرِ.
رسول الله ﷺ جب کسی کے گھر تشریف لے جاتے تو دروازے کے سامنے منہ کر کے کھڑے نہ ہوتے، بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُکُمْ ثَـلَاثًا، فَلَمْ یُؤْذَنْ لَهٗ فَلْیَرْجِعْ.
تم میں سے کوئی شخص تین بار اجازت طلب کرے اور اس کو کوئی جواب نہ دیا جائے تو اُسے واپس لوٹ جانا چاہیے۔
جواب: بچوں کو مریض کی عیادت کے آداب بتائے جائیں کہ عیادت کرنا ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا حق ہے۔ اگر کوئی شخص بیمار ہو جائے تو اس کی مزاج پرسی کرنا، اس کے پاس بیٹھنا، اس کو تسلی دینا اور اس کی دلجوئی کرنا ضروری ہے۔ کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا انسان کی اخلاقی تربیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے نیکیوں میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے۔ مریض کی حوصلہ افزائی کے لیے جانے والے شخص کے لیے دین اسلام نے بے پناہ اجر مقرر کیا ہے۔ جب مریض کی عیادت کی جاتی ہے تو وہ عیادت کرنے والے کا احسان مند ہو جاتا ہے کہ اس نے وقت نکال کر اس کی خیریت دریافت کی۔ اس سے دلوں میں محبت بڑھتی ہے۔
بچوں کو مریض کی عیادت کے احکام اور اس کی فضیلت کے بارے میں درج ذیل احادیث مبارکہ بھی سنائی جائیں۔
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ خَمْسٌ: رَدُّ السَّـلَامِ، وَعِیَادَةُ الْمَرِیْضِ، وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ، وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وَتَشْمِیْتُ الْعَاطِسِ.
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: (1) سلام کاجواب دینا، (2) بیمار کی عیادت کرنا، (3) اُس کے جنازہ کے ساتھ جانا، (4) اُس کی دعوت قبول کرنا اور (5) چھینک کا جواب دینا۔
2۔ حضرت عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا جَاءَ الرَّجُلُ یَعُوْدُ مَرِیْضًا فَلْیَقُلِ: اللّٰھُمَّ اشْفِ عَبْدَکَ.
جب آدمی کسی بیمار کی عیادت کے لیے جائے تو اُسے یوں دعا دے: اے اللہ! اپنے اس بندے کو شفاء عطا فرما دے ۔
3۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ لَمْ یَزَلْ فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتّٰی یَرْجِعَ.
بے شک ایک مسلمان جب اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہاں سے لوٹنے تک مسلسل جنت کے باغ میں رہتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
مَنْ أَتٰی أَخَاهُ الْمُسْلِمَ عَائِدًا، مَشٰی فِي خِرَافَۃِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَجْلِسَ، فَإِذَا جَلَسَ غَمَرَتْهُ الرَّحْمَۃُ. فَإِنْ کَانَ غُدْوَةً صَلّٰی عَلَیْهِ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتّٰی یُمْسِيَ، وَإِنْ کَانَ مَسَائً صَلّٰی عَلَیْهِ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتّٰی یُصْبِحَ.
ابن ماجه، السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في ثواب من عاد مریضًا، 1: 463، رقم: 1442
جب کوئی شخص کسی کی عیادت کے لیے جاتا ہے تو (یہ ایسا مبارک اور مقبول عمل ہے گویا) وہ جنت کے باغ میں چلتا ہے، جب وہ بیٹھتا ہے تو رحمت اُسے ڈھانپ لیتی ہے۔ اگر یہ صبح کا وقت ہو تو ستر ہزار فرشتے شام تک اُس کے لیے بخشش و رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور اگر شام کا وقت ہو تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اُس کے لیے بخشش و رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔
جواب: بچوں کو تعزیت کے آداب یوں بتائے جائیں کہ اگر کوئی شخص وفات پا جائے تو اس کے گھر جا کر میت کے لیے دعا کرنی چاہیے اور اس کے اعزاء و اقارب سے اظہارِ افسوس کرنا چاہیے۔ میت کے لواحقین کو تسلی دے کر صبر کی تلقین کرنی چاہیے اور موقع کی مناسبت سے ایسے کلمات کہنے چاہییں جس سے ان کا غم کم ہو۔ تعزیت کرنا مومن سے ہمدردی کا اظہار ہے اور مومن سے ہمدردی جزوِ ایمان ہے۔
تعزیت کے اجر کے بارے میں بچوں کو درج ذیل احادیث مبارکہ بھی سنائی جائیں:
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
مَنْ عَزّٰی ثَکْلٰی، کُسِيَ بُرْدًا فِي الْجَنَّۃِ.
ترمذی، السنن، کتاب الجنائز، باب آخر في فضل التعزیة، 3: 387، رقم: 1076
جس نے ایسی عورت سے تعزیت کی جس کا لڑکا مر گیا ہو، اسے جنت میں ایک چادر پہنائی جائے گی۔
2۔ حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
مَنْ عَزّٰی مُصَابًا فَلَهٗ مِثْلُ أَجْرِهٖ.
جس نے کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کی تو اسے بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔
3۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے نواسے کی وفات کے موقع پر اپنی بیٹی سے فرمایا:
إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ وَلَهٗ مَا أَعْطٰی وَکُلٌّ عِنْدَهٗ بِأَجَلٍ مُسَمًّی، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ.
بے شک اللہ تعالیٰ کا ہی ہے جو اس نے لے لیا ہے اور اُسی کا ہے جو اُس نے عطا کیا ہے۔ ہر چیز کی اس کے پاس مدت مقرر ہے۔ لہٰذا تم صبر کرو اور ثواب کی اُمید رکھو۔
جواب: جی ہاں! حکایات و قصص کے ذریعے بچوں کی اخلاقی تربیت کی جا سکتی ہے۔ صغر سنی سے بچوں کو ایمانی، اخلاقی اور معاشرتی حکایات سنائی جائیں۔ اس عمر میں ان کی قوت تخیل انتہائی تیز ہوتی ہے۔ جو ان کی عادات و اخلاق اور قلوب و اذہان پر ایسے اَنمٹ نقوش ثبت کرتی ہے جسے وہ زندگی کے کسی حصے میں بھی نہیں بھول سکتے۔ قرآنِ حکیم میں قصص بیان کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo
الأعراف، 7: 176
سو آپ یہ واقعات (لوگوں سے) بیان کریں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں گزشتہ اقوام اور ان کی جانب بھیجے گئے انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات و قصص کو نفسِ انسانی کی مؤثر تربیت کے لیے استعمال کیا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ قرآن مجید کے ترجمہ ’عرفان القرآن‘ کے ذریعے بچوں کو قصص القرآن جیسے حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس مردود کا واقعہ، ہابیل اور قابیل کا واقعہ، حضرت نوح علیہ السلام اور قومِ نوح کے واقعات، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا واقعہ، حضرت لوط علیہ السلام اور قومِ لوط کے واقعات، حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ، قصہء موسی علیہ السلام و فرعون، حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کا واقعہ، اصحابِ کہف کا واقعہ اور دیگر واقعات پڑھ کر سنائیں تاکہ وہ ان کے ذریعے عبرت و نصیحت حاصل کر سکیں۔ نیز حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی زندگیوں سے واقعات منتخب کر کے بچوں کو سنائے جائیں۔
قرآن مجید میں بیان کردہ واقعات سے ہم بچوں کی کس طرح رہنمائی کر سکتے ہیں، اس کی مثال درج ذیل دو واقعات سے بیان کی جا رہی ہے:
اِسی طرح درج ذیل احادیث مبارکہ میں بیان کیے گئے واقعات بچوں کی اخلاقی تربیت میں ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
’صحیح بخاری‘ میں قرض واپس کرنے اور ایفاے عہد کی اہمیت پر ایک حدیث مبارک بیان کی گئی ہے، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے کسی سے ایک ہزار دینار قرض مانگا، موقع پر ضامن اور گواہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے قرض مانگنے والے نے اللہ کو اپنا گواہ اور ضامن بنا لیا۔ قرض دینے والے نے بھی الله تعالیٰ کے نام پر اُسے قرض دے دیا۔ قرض واپس کرنے کی مدت طے کر کے قرض دار دریائی سفر پہ نکل گیا، وہ اپنے کاموں میں مصروف رہا یہاں تک کہ اُس کا کام بھی مکمل ہو گیا اور قرض واپس کرنے کی مقررہ مدت ختم ہونے کا وقت بھی قریب آگیا۔ اُس نے سفر سے واپسی کے لیے کشتی یا کوئی سواری تلاش کرنا شروع کی تاکہ متعین وقت پہ قرض لوٹا سکے مگر سواری کا انتظام نہ سکا۔ اس نے ایک لکڑی میں سوراخ کیا، اُس میں ایک ہزار دینار اور قرض خواہ کے نام ایک خط لکھ کر ڈال دیا اور اُس لکڑی کو دریا کے حوالے کر دیا۔ پھر الله تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں دعا کی: اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیا تھا۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اللہ تعالیٰ ہے اور وہ بھی تجھ پر راضی ہو گیا تھا۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو میں نے پھر کہا کہ اللہ تعالیٰ میرا گواہ ہے، وہ بھی تیرے گواہ ہونے پر راضی ہو گیا تھا۔ تیرے علم میں ہے کہ میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعے میں قرض مدتِ مقررہ میں اُس شخص تک پہنچا سکوں، لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں کہ تو اسے میرے قرض خواہ تک پہنچا دے۔ اُدھر وہاں سے سیکڑوں میل دور قرض دینے والا دریا کنارے یہ دیکھنے کے لیے آیا کہ شاید کوئی کشتی یا بحری جہاز آیا ہو جس میں قرض لینے والا واپس آجائے اور مجھے میرا پیسہ لوٹا دے۔ اُسے کوئی جہاز تو نہ ملا لیکن وہی لکڑی مل گئی، اُس نے اس نیت سے وہ لکڑی اُٹھا لی کہ گھر والوں کے لیے بطور ایندھن استعمال ہوگی، گھر جا کر جب اُسے کھولا تو اُس میں وہ ہزار دینار اور خط تھا۔ ادھر قرض دار برابر اس کوشش میں تھا مجھے کسی طرح شہر جانے کا موقع ملے کہ قرض لوٹا سکوں، بہت دنوں بعد اسے شہر لوٹنے کا موقع ملا۔ وہ جلدی سے ہزار دینار ساتھ لے کر اُس قرض دینے والے شخص سے ملاقات کے لیے پہنچا اور اُس سے معذرت کرنے لگا کہ مجھے بروقت سواری نہ مل سکی جس کی بنا پر میں وقت مقررہ پر قرض ادا نہ کر سکا۔ قرض خواہ نے اُس سے پوچھا: کیا تم نے کوئی چیز کبھی میرے نام بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا: مجھے اِس جہاز سے پہلے کوئی سواری نہیں مل سکی تھی۔ اس پر قرض خواہ نے اُسے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا وہ قرض ادا کر دیا ہے جسے تم نے لکڑی میں ڈال کر بھیجا تھا۔ چنانچہ وہ دونوں اپنا ہزار ہزار دینار لے کر خوش خوش واپس لوٹ گئے۔
اس واقعہ سے بچوں کو وعدہ ایفا کرنے کی ترغیب دی جائے۔ وعدے پر قائم رہنے کا کتنا اثر ہے کہ الله تعالیٰ نے اس کا وہ مال جو سمندر کے حوالے کیا تھا، اس کے قرض خواہ تک پہنچا دیا۔ اگر سچائی، دیانت داری اور وعدہ کا پاس رکھا جائے تو الله تعالیٰ اپنی قدرت سے تمام پریشانیاں دور فرما دیتا ہے۔
والدین کی خدمت اور تابع فرمانی کی ترغیب حدیث مبارک میں بیان کردہ اس واقعہ سے ملتی ہے۔ حضرت عبد الله بن عمر علیہما السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تین آدمی جا رہے تھے کہ اُنہیں بارش نے آ لیا۔ چنانچہ وہ ایک پہاڑ کی غار میں چھپ گئے، اسی اثنا میں غار کے منہ پر ایک بہت بڑا پتھر آ گرا اور وہ اس غار میں محصور ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: کوئی ایسے نیک عمل یاد کرو جو تم نے محض رضائے الٰہی کے لیے کیے ہوں اور ان کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، شاید وہ یہ چٹان ہٹا دے۔ اُن میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے بوڑھے والدین تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ میں ان کے لیے بکریاں چرایا کرتا تھا۔ جب میں شام کو واپس لوٹتا تو بکریاں دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے والدین کو دودھ پلایا کرتا تھا۔ ایک روز جنگل میں دور جا نکلا اور شام کو دیر سے واپس لوٹا۔ میں نے اُنہیں آ کر دیکھا تو وہ سو چکے تھے۔ میں نے حسبِ معمول دودھ دوہا اور دودھ لے کر اُن دونوں کے سرہانے کھڑا ہوگیا۔ میں نے اُنہیں نیند سے بیدار کرنا ناپسند کیا اور بچوں کو اُن سے پہلے پلا دینا بھی مجھے اچھا نہ لگا، حالانکہ بچے میرے قدموں کے پاس رو رہے تھے، یہاں تک کہ صبح ہونے تک میری اور ان کی یہی حالت رہی۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضا کیلئے کیا تھا تو اس (چٹان) کو ہٹا دے تاکہ ہم آسمان کو دیکھیں، اللہ تعالیٰ نے اسے تھوڑا سا ہٹا دیا تو اُنہیں اُس میں سے آسمان نظر آنے لگا۔
یوں اُن تینوں نے اپنی اپنی نیکیوں کے وسیلہ سے الله تعالیٰ سے دعا کی تو الله تعالیٰ نے اُن سے یہ مصیبت ٹال دی اور غار کا منہ کھل گیا، پھر وہ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔
بچوں کو بتایا جائے کہ اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر وقت اپنے والدین اور دیگر لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی، بلکہ الله تعالیٰ اُس کے عوض ہماری بہت ساری تکالیف کو ختم فرما دیتا ہے۔
اسی طرح بچوں کو شکر گزاری کی ترغیب درج ذیل حدیث مبارک سے دی جا سکتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ایک سائل آیا۔ آپ ﷺ نے ایک کھجور عنایت فرمائی۔ اس نے نہ لی یا پھینک دی۔ پھر دوسرا سائل آیا اس کو بھی ایک کھجور دی۔ وہ بولا: سبحان الله! رسول الله ﷺ کا تبرک ہے۔ آپ ﷺ نے خادمہ کو حکم دیا کہ اُم سلمیٰ رضی اللہ عنہا کے پاس جو چالیس درہم رکھے ہیں وہ اس (شکرگزار) سائل کو دلوا دے۔
بچوں کو بتایا جائے اللہ تعالیٰ جس حال میں رکھے اور جتنا عطا کرے، اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔ مزید برآں درج ذیل حقائق پر مبنی واقعات کے ذریعے نہ صرف والدین بلکہ بچوں کو بھی اچھائی کا راستہ متعین کرنے اور بُرائی سے دور رہنے کی ترغیب ملتی ہے:
مذکورہ بالا واقعات میں والدین کے لیے بھی نصیحت ہے کہ اگر وہ اپنے بچوں کی تربیت صحیح خطوط پر کریں گے تو وہ زندگی کے ہر موڑ پر کامیابی سے ہمکنار ہوں گے اور اگر غفلت برتیں گے تو ان کے بچے بڑے ہو کر مجرم بن جائیں گے۔ اسی طرح بچوں کو بتائیں کہ سانچ کو آنچ نہیں۔ سچ بولنے والا ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔ وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔
جواب: مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مل جل کر کام کرنا team spirit کہلاتا ہے۔ یہ اس وقت زیادہ کامیاب کردار ادا کرتی ہے جب مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے تمام افراد آپس میں باہمی تعاون اور اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کریں کیونکہ انسان کوئی کام تنہا نہیں کر سکتا۔ کسی کام کو سر انجام دینے کا حوصلہ تو شاید کسی فرد میں ہو لیکن اس کے لیے درکار تمام صلاحیتیں بہت کم ہی کسی ایک شخص میں اکٹھی ہوتی ہیں۔ مختلف صلاحیتیوں کے حامل لیکن مشترک سوچ اور مزاج رکھنے والے افراد مل کر ٹیم کی صورت میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دے سکتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال حضور نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی سے ملتی ہے۔ معاش اور روزگار کے مسائل ہوں یا مہاجرین کی آباد کاری کا مسئلہ، جنگوں کا سامنا ہو یا کفار کا ظلم و ستم، ہر مرحلے پر ٹیم اسپرٹ کی ایسی اعلیٰ مثالیں ملتی ہے جو شاید تاریخ میں کہیں نہ ملیں۔ اعلیٰ کردار کے حامل افراد ہر بوجھ باہم مل کر اٹھاتے اور اپنے کسی ساتھی کو پیچھے نہ چھوڑتے۔ ہر خوشی کو ایک دوسرے سے share کرتے حتیٰ کہ کھانے پینے کی چیزوں کے معاملے میں بھی دوسروں کو خود پر ترجیح دیتے۔ مواخاتِ مدینہ ٹیم اسپرٹ کی بہترین مثال ہے جس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنا دیا۔ اس موقع پر انصار نے جس ایثار کا مظاہرہ کیا وہ اسلامی تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔
جواب: والدین اپنے بچوں کو دین کا داعی بنانے کے لیے ان کی تعلیم و تربیت درج ذیل نکات کے مطابق کریں:
والدین کو چاہیے کہ بچپن سے بچوں کا ارکانِ اسلام، ارکانِ ایمان اور احسان سے ربط پیدا کریں کیوں کہ:
والدین کو چاہیے کہ بچوں کو بطورِ داعی قرآن و حدیث کی تعلیمات اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ سے دلوائیں تاکہ انہیں ان علوم کا صحیح فہم و شعور حاصل ہو۔ کیونکہ جب تک بچے خود قرآن و حدیث کے صحیح فہم سے بہرہ ور نہ ہوں گے دوسروں کو کیونکر اس سے آشنا کر سکیں گے۔
پہلی چیز جو کسی کو متاثر کرتی ہے وہ داعی کی ظاہری شخصیت ہے۔ لوگ پہلی نظر میں اندازہ لگالیتے ہیں کہ وہ کیسی شخصیت کا مالک ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بطورِ داعی بچوں میں علم و دانش اور عمل و کردار کی پختگی کے ساتھ ان کی شخصی وجاہت پر خصوصی توجہ دیں ۔
والدین کو چاہیے کہ بچپن سے ہی بچوں کو اسلامی معاشرتی آداب اور ایسے عظیم اُصولوں کا پابند بنائیں جن کا سرچشمہ دینِ اسلام ہے۔ معاشرتی تربیت میں نفسیاتی اُصولوں کو جاگزیں کرنا، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا، عمومی معاشرتی آداب کو ملحوظ رکھنا اور معاشرتی دیکھ بھال شامل ہیں۔ ان کے ذریعے بچوں کی شخصیت سازی اور اخلاق کی درستگی ہوتی ہے اور اس میں معاشرتی ذمہ داریاں پورا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے تاکہ وہ معاشرے کی تعمیر اور مثالی قوم کی تخلیق میں بہترین بنیاد کا کام دے سکیں۔
والدین کو چاہیے کہ دین کی دعوت دینے والوں سے بچوں کا رابطہ قائم کروائیں تاکہ ان میں دعوت دین اور دین کی سربلندی کا جذبہ پیدا ہو۔ وہ صبر و رضا اور جرأت وبہادری کا پیکر بنیں۔ ان کی تعمیرِ شخصیت اس نہج پر ہو کہ وہ دعوت و تبلیغ کے مردِ مجاہد بنیں اور دین کے سلسلہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کریں۔
والدین کو چاہیے کہ عالم اسلام کو درپیش بنیادی نوعیت کے چیلنجز سے بچوں کو آگاہ کریں، جیسے بنیادی اُصولوں اور افکار کی باہمی جنگ، سیاسی و معاشرتی اختلافات، عالمِ اسلام اور عالمِ مغرب کے درمیان تناؤ اور جنگ وغیرہ تاکہ وہ دعوت کے عملی کام اور تبلیغی جہاد کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے پوری طاقت اور اعتماد کے ساتھ دعوت کے میدان میں آگے بڑھیں اور اسلام کا دو ٹوک موقف قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کر سکیں۔
جواب: مقرر بننے کے لیے بچوں کی آواز کو درج ذیل حکمتِ عملی کے ذریعے بہتر کیا جاسکتا ہے:
1۔ کسی بھی عبارت کا صحیح اور درست تلفظ کے ساتھ پہلے مطالعہ کروایا جائے۔
2۔ عمدہ لب و لہجہ سے زیرِ لب پڑھایا جائے۔
3۔ ہلکے پھلکے جملوں پر اُتار اور دھیما پن جبکہ زوردار جملوں پر چڑھاؤ یا گونج و گرج کا اہتمام کروایا جائے۔ یہ تجربہ مقررین کی تقاریر سننے سے حاصل ہوتا ہے کہ الفاظ کا زیر و بم کیا ہے؟ کہاں آواز اٹھائی جاتی ہے اور کہاں اسے دھیما کیا جاتا ہے؟
4۔ آخری مرحلے میںبچے سے مشق کروائی جائے کہ ایک ہی جملے کو والدین یا دوستوں کے سامنے مختلف کیفیات جیسے خوشی، افسردگی، طمانیت، جوش اور حیرانگی کے مطابق دہرا ئے تاکہ وہ پرکھ سکیں کہ اس نے مذکورہ بالا کیفیات کی ادائیگی میں کس حد تک انصاف کیا ہے۔
جواب: تقریر کرتے وقت درج ذیل باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved