تارِیخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کی تباہ شدہ حالت کو بدلنے اور اُسے بامِ عروج پر لے جانے کے لئے اَللہ ربّ العزت نے کسی کو بھیجا، اُس معاشرے کے نام نہاد لیڈروں اور مالی لحاظ سے ممتاز حیثیت والے لوگوں نے ہمیشہ اُس کی مخالفت کی، کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ قوم اُن کی گرفت سے آزاد ہو سکے۔ ماضی میں اَیسا سب کچھ اَنبیاءِ کرام علیہم السلام کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے۔ حضور نبی اَکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی قوم نے معاذاللہ دِیوانہ، مجنون اور جادُوگر تک کہا اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر قسم کے مخالفانہ پروپیگنڈا کے سامنے ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے اور تارِیخ نے کامیابی کا وہ دِن دیکھا جب اُسی قوم نے نہ صرف اِسلام قبول کر لیا بلکہ وہ فاتحِ عالم بنی۔ ختمِ نبوت کے بعد سے مصلحین اور مجدّدِین کے ساتھ بھی معاشروں کے سرکردہ لوگوں کی وُہی روِش جاری ہے۔ اپنی زِندگی میں مصلحین اور مجددین کو اِس قدر شدید مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا کہ زِندگی اَجیرن ہو گئی، مگر بعد اَز وفات اُنہیں اِمام کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔
سیدنا اَبوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروِی حدیثِ مبارکہ میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّ اﷲَ يَبْعَثُ لِهٰذِهِ الأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.
(سنن ابو داؤد، رقم : 4291)
’’بیشک اَللہ تعالیٰ ہر صدی کے سرے پر کسی کو اِس اُمت کے لئے دِین کی تجدِید کا فریضہ دے کر بھیجے گا۔‘‘
چنانچہ جس صدی میں جس سطح کا زوال تھا، اَللہ ربّ العزت نے اُس زوال کے خاتمے کے لئے اُس دَور کے مجدّد کو اُسی سطح کی تجدِیدی ذِمہ داری کے ساتھ بھیجا۔
تارِیخ گواہ ہے کہ جب پانچویں صدی ہجری میں عالمِ اِسلام بالعموم اور اَہلِ بغداد بالخصوص اَخلاقی و رُوحانی زوال کا شکار ہوئے، علماء مذہبی مُوشگافیوں، مناظروں اور مجادلوں میں کھو چکے تھے تو اَللہ تعالیٰ نے سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو اُس صدی کے لئے محی الدین اور مجدّد بنا کر بھیجا۔ آپ کی وِلادتِ باسعادت 471 ہجری میں ہوئی۔
حضرت مجدد اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مجدد ہونے پر بھی کسی کو کوئی اِختلاف نہیں، جنہوں نے بادشاہ اَکبر کے خود ساختہ ’دینِ اِلٰہی‘ کو زمین بوس کر کے دِین اِسلام کی تجدید کی۔ آپ کی وِلادتِ باسعادت 971 ہجری میں ہوئی۔
رواں صدی میں مسلمانوں کے ہمہ جہتی زوال کے پیشِ نظر تجدید کی ذِمہ داری بھی ہمہ جہتی نوعیت کی ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے:
لَا يَقُوْمُ بِدِيْنِ اﷲِ اِلا مَنْ اَحَاطَهُ مِنْ جَمِيْعِ جَوَانِبِه.
(دلائل النبوة لأبی نعيم)
ترجمہ: ’’(ہمہ جہتی زوال کے بعد) اَللہ کے دین کو صرف وُہی قائم کر سکے گا جو اُس کے تمام پہلوؤں کا اِحاطہ کرے گا۔‘‘
پچھلی صدی میں فرقہ پرستی کے چنگل میں پھنسی اُمتِ مسلمہ کے ہاں دِین کا تصورِ جامعیت پارہ پارہ ہو چکا تھا اور ہر فرقہ اَپنے حسبِ ذوق دِین کا کوئی ایک جزو لئے ہوئے خوش تھا۔ کسی کا سارا زور ظاہری حلئے سے متعلق سنتوں پر عمل تھا تو کوئی محض اَولیاء اﷲ کی نسبت کو ہی بخشش کا ذرِیعہ سمجھ رہا تھا، کوئی اَہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کو کافی گردانتا تھا تو کوئی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت میں اَہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کو بھی پسِ پشت ڈال چکا تھا، کوئی میلاد اور گیارہویں منانے کو نیکی کا معیار تصور کرتا تھا تو کوئی شرک و بدعت کے فتووں کو دِین کی خدمت سمجھتا تھا، کوئی جامد تقلید کے تصور میں بند تھا تو کوئی اِجتہاد کے نام پر دِین و مذہب کا حلیہ بگاڑ رہا تھا، کسی کے ہاں تبلیغ ہی دونوں جہانوں میں کامیابی کا راز تھی تو کسی کی ساری محنت خلافت کے قیام پر تھی، کوئی دِین کے مذہبی پہلو کی حد تک اِکتفاء کئے ہوئے تھا تو کوئی جہاد کا مَن گھڑت تصور لئے نئی نسل کو گمراہ کر رہا تھا، اَلغرض فرقہ پرستی میں مبتلا ہر طبقہ دُوسروں کی کوششوں کو جھٹلاتے ہوئے محض اپنی سوچ کو دِین کی خدمت قرار دے رہا تھا اور عوام الناس کا بڑا طبقہ دِین سے بیزار ہو کر دُنیاداری میں مگن تھا۔
اَیسی ہی صورتِ حال کے حوالے سے قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے :
فَتَقَطَّعُوْا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ.
(المؤمنون، 23 : 53)
’’پس اُنہوں نے اپنے (دِین کے) اَمر کو آپس میں اِختلاف کر کے فرقہ فرقہ کر ڈالا، ہر فرقہ والے(دِین کے) اُسی قدر (حصہ) سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے ۔‘‘
آج ایسے وقت میں جب دِین اور دُنیا کی ثنوِیت (duality) کا فتنہ عروج پر تھا اور اِسلام جیسے عظیم معاشرتی دِین کے تصورِ اِجتماعت کو پارہ پارہ کر کے اُسے عیسائیت کی طرح ایک ناکام مذہب ثابت کرنے کے لئے مسجدوں میں بند کرنے کی سازشیں زور پکڑ رہی تھیں، تاکہ معاشرے اُس کے فیوضات سے محروم ہو سکیں، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دِین کے ہمہ جہتی زوال کو عروج میں بدلنے کے لئے عالمگیر تجدید کا کام شروع کیا، جن کی وِلادت 12 جمادی الاوّل 1370 ہجری (19 فروری 1951ء) کو ہوئی۔ حدیثِ مبارکہ کے عین مطابق اَگلی صدی کے سرے پر یعنی 8 ذوالحجہ 1400 ہجری بمطابق (17 اکتوبر1980ء) کو اِدارہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھ کر شیخ الاسلام نے اپنی تجدیدی کاوِشوں کا آغاز کر دیا اور صرف 30 سال کے قلیل عرصہ میں علمی و فکری، تحقیقی و تعلیمی اور عملی میدانوں میں اَیسے ہمہ جہت تاریخ ساز کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جن کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نبی اَکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جس کی جتنی رسائی ہے وہ اُسی قدر شیخ الاسلام کا معترف ہے، اور مخالف وُہی ہے جو رسائی نہیں رکھتا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خلاف جتنا پروپیگنڈا کیا گیا اُتنا شاید کم ہی کسی کے خلاف کیا گیا ہوگا۔ آپ کے خلاف جاری منفی پروپیگنڈا کے بالعموم تین اَسباب ہیں اور تحریکِ منہاج القرآن کی تیس سالہ تارِیخ گواہ ہے کہ جتنے بھی نام نہاد مولویوں اور دانشوروں نے شیخ الاسلام کے خلاف پروپیگنڈا میں حصہ لیا اُن کا شمار اِنہی میں سے کسی ایک زُمرے میں ہوتا ہے:
اَب ہم باری باری اِن تینوں اَسباب کا جائزہ پیش کرتے ہیں، تاکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے بے شمار تاریخ ساز کارناموں کے باوُجود آپ کے خلاف جاری پروپیگنڈا کی وُجوہات سے قارئین آگاہ ہو سکیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی مخالفتوں کا ایک بڑا سبب رِوایتی مذہبی ذِہن کے لوگوں کا آپ کی ’تجدیدی حکمتوں‘ کو سمجھ نہ سکنا ہے۔ آپ کی جملہ تجدیدی خدمات کی حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے اِسلام کے نام لیواؤں کے طرزِعمل سے متنفر ہو کر دِین سے بیزار ہو جانے والے مسلمانوں کو گمراہی کی زندگی سے واپس دِین کی طرف بلایا۔ آپ نے پہلے سے دین پر قائم لوگوں سے کئی گنا زیادہ محنت مختلف طبقہ ہائے زِندگی سے تعلق رکھنے والے اُن لوگوں پر کی جو دِین سے برگشتہ ہو چکے تھے۔
نئے لوگوں کو دِین کی طرف بلانے کے لئے آپ نے سیرت طیبہ کی روشنی میں دِین کا اِنتہائی لچک دار رویہ اُن کے سامنے رکھا، جس کے نتیجے میں اُنہیں دِین اِسلام کی تعلیمات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ کے اِس لچکدار رویہ کو اِنتہا پسندوں اور رِوایتی مذہبی ذِہن کے حاملین نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور آپ کے خلاف فتویٰ بازی شروع کر دی۔ عورت کی پوری دِیت کا معاملہ ہو یا سر پر عمامہ کی بجائے ٹوپی رکھنے کا معمول، اپنے پیروکاروں پر لمبی داڑھی رکھنے کی پابندی نہ لگانا ہو یا موسیقی، فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی وغیرہ کو ایک حد تک مشروع رکھنا، اِن سب میں اَیسی بے شمار حکمتیں کارفرما ہیں جنہیں رِوایتی مذہبی ذِہن سمجھ نہیں پایا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تجدیدی حکمتیں اپنے نتائج کے ساتھ لوگوں کو سمجھ آنے لگ جائیں گی، جیسے دِینی تعلیمی اِداروں میں دُنیوی تعلیم کو لازمی قرار دینے کی حکمت بہت سوں کو سمجھ آنے لگ گئی ہے۔ اِسی طرح ایک وقت تھا جب شیخ الاسلام پر تصویر بنوانے اور خطابات کی ویڈیو ریکارڈنگ کروانے کی بناء پر فتوے لگائے جاتے تھے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اُس ’تجدیدی حکمت‘ کی سمجھ آنے لگ گئی، حتیٰ کہ فتوے لگانے والی بعض جماعتوں نے اَب اپنے ٹی وی چینل بنا رکھے ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ یہی قوم آپ کی تجدیدی حکمتوں کے نتائج دیکھ کر آپ کی گروِیدا ہو جائے گی، مگر تب پروپیگنڈا میں مصروف اَیسے ناسمجھوں کے لئے صرف حسرتیں باقی رہ جائیں گی۔
آج کل کے دَور میں قیادت ہمیشہ قوم کے بل پر تصور ہوتی ہے۔ جتنے زیادہ لوگ کسی لیڈر کے ساتھ ہوں وہ اُتنا بڑا لیڈر کہلاتا ہے، اِسی طرح جتنے زیادہ لوگ کسی عالم کے پیروکار ہوں وہ اُتنا بڑا علامہ کہلاتا ہے۔ جب ہمہ جہتی زوال کے خاتمہ کے لئے شیخ الاسلام نے ہمہ جہتی اِصلاحات کا آغاز کیا تو جب جس پہلو میں اِصلاحی خدمات کا آغاز ہوا تب اُس پہلو کے ٹھیکیداروں نے اپنے تحفظات کے پیشِ نظر شور مچانا شروع کر دیا۔ اُن اِصلاحی خدمات کے دوران جب جس فرقہ اور گروہ کی تعلیمات کو حقیقی اِسلامی تعلیمات کے ساتھ موازنہ کر کے پرکھا جانے لگا اور حق و باطل میں فرق صاف نظر آنے لگا تو اُس فرقے کے عمائدین (لیڈر) اپنے عقیدت مندوں کی تعداد کم ہوتی دیکھ کر چیخنے لگے۔ جس گروہ کے پاس اپنے حسبِ ذوق دِین کا جو جزو جس بھی حالت میں تھا، وہ اُسی کے حوالے سے پریشان ہوا۔
ہر بات کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کے دَعویداروں نے جب شیخ الاسلام کے قلم اور زبان سے عقائدِ اَہلِ سنت کی تائید میں قرآن و سنت کے دلائل کا اَنبار دیکھا تو وہ گھبرا گئے اور بلاجواز و بلادلیلِ شرعی بات بات پر شرک اور بدعت کی تہمتیں لگانے لگے۔ اِمامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو معاذاللہ حدیثِ رسول کا مخالف قرار دینے اور گزشتہ کئی نسلوں سے فقہِ حنفی کے خلاف زہر اُگلنے والوں کو شیخ الاسلام کی تحقیق سے اِمام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ’’اِمام الائمہ فی الحدیث‘‘ ثابت ہونا کیوں کر قبول ہو سکتا تھا! اِسی طرح دورۂ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے دوران اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ و اِمام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے عقائد کا بیان خود کو حدیثِ نبوی کا اِکلوتا وارِث سمجھنے والوں کو ذرا نہ بھایا اور وہ شیخ الاسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈا کو ہر ممکن حد تک تیز سے تیزتر کرنے لگے۔
خارِجی عقائد سے مزین ہونے کے باوُجود اَہلِ سنت کا ٹائٹل اِختیار کر کے خود کو دین کا اَصل وارِث قرار دینے والا گروہ شیخ الاسلام کی تصانیف اور خطابات میں جابجا اَہلُ السنت والجماعت کے حقیقی عقائد کی تائید میں قرآن و سنت کے دلائل کا اَنبار دیکھ کر پشیمان ہوا۔ شیخ الاسلام کے دلائل کے سامنے اُن کی ایک نہ چلی اور وہ اَہلِ سنت کا ٹائٹل واپس سوادِ اَعظم کی طرف پلٹتا دیکھ کر گھبرا گئے اور مختلف حیلوں بہانوں سے کبھی شیخ الاسلام کے دروسِ تصوف و رُوحانیت کے خلاف بیان بازی اور کبھی میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بدعت ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے۔ دِفاعِ شانِ علی رضی اللہ عنہ پر شیخ الاسلام کے خطابات سے اُن کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوا تو وہ مزید اوچھی حرکتوں پر اُتر آئے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے نام پر اپنے مَن گھڑت نظریات کی دکان چلانے والے اہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم کی شان سن کر پریشان ہوئے۔ شیعہ کو واجبُ القتل قرار دے کر قوم کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنے والوں کے لئے یہ منظر کیوں کر قابلِ قبول ہو سکتا تھا کہ سنیوں کی زبان سے اَہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم کے حق میں اور شیعوں کی زبان سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں نعرے بلند ہوں۔ اُلٹا ’’شیعہ سنی بھائی بھائی‘‘ کے نعرے سن کر اُنہیں اپنی دُکانداری خطرے میں نظر آئی تو اُنہوں نے شیخ الاسلام کی ہر ممکن اَنداز میں کردارکشی کی۔ مگر تارِیخ گواہ ہے کہ شیخ الاسلام نے جواب میں کبھی اُن جیسی زبان اِستعمال نہ کی اور وہ اَپنی موت آپ مر گئے۔
اَہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کی آڑ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر زبانِ طعن دراز کرنے والوں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معاذاللہ منافق قرار دینے والوں کو شیخ الاسلام کی زبانِ حق ترجمان سے دِفاعِ شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم پر 48 گھنٹے طوِیل دلائل کا اَنبار قطعی پسند نہ آیا۔ شیخ الاسلام نے اَہلِ تشیع ہی کی کتب سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں اِس قدر دلائل دیئے کہ کوئی ذِی شعور اُنہیں سن لینے کے بعد ماننے سے اِنکار نہیں کر سکتا، مگر جن کی دکانداری کو خطرہ ہو وہ کیسے مانیں! چنانچہ جو پہلے اَہل بیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم کی شان میں شیخ الاسلام کے خطابات سن کر سر دُھنتے تھے اَب اُنہیں شانِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا علمی دِفاع قطعی پسند نہ آیا اور وہ صدیوں پر محیط اِعتدال و توازُن سے ہٹی روِش کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوئے بلکہ اُلٹا مختلف حیلوں بہانوں سے آپ کی کردارکشی میں مصروف ہوگئے۔
سوادِ اَعظم کے زعم میں مبتلا ہو کر اپنے سوا باقی تمام فرقوں کو کافر قرار دینے والوں نے ’’اپنا عقیدہ چھوڑو مت اور دُوسرے کا عقیدہ چھیڑو مت‘‘ کی حکمت نہ سمجھ سکنے اور اَدب و گستاخی کے معاملے کو اِنفرادی عمل قرار دیتے ہوئے پورے فرقے کو کافر قرار نہ دینے کے جرم کی پاداش میں شیخ الاسلام پر ’’صلحِ کلیت‘‘ کا ٹائٹل لگا کر اُنہیں دائرۂ اِسلام سے نکال باہر کرنے کا اِعلان کر دیا۔ خود کو بریلویت کے دائرے میں محدود کر لینے والوں کو اِس ٹائٹل کے بغیر ہر شخص کافر دِکھائی دینے لگا۔ اُن کی سادہ لوحی پر کیا کہیئے کہ اُنہیں ساری زندگی اِتنی بات کی سمجھ نہیں آ سکی کہ یہ خود ساختہ ٹائٹل تو محض برصغیر میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ لفظ ’’بریلویت‘‘ کی بجائے ’’اَہلِ سنت‘‘ کے ٹائٹل کی بحالی دیکھ کر گھبرانے لگے اور صرف مسلمان کہلانا اُنہیں ناگوار گزرا۔
تقلیدِ محض کے حاملین اِجتہاد کے لفظ سے خوف کھا کر مخالفت پر اُتر آئے۔ اُنہیں عورت کی دِیت جیسے معمولی فقہی مسائل پر شیخ الاسلام کا اِجتہادی مؤقف جان کر یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں اِس سے دِین کی اَصل رُوح غائب نہ ہو جائے۔ وہ دِیت جیسے فقہی مسئلے کو توحید و رِسالت جیسے اِسلام کے بنیادی ستونوں کی طرح اَہم قرار دینے لگے۔ اُن کے نزدِیک اِمام اَعظم رحمۃ اللہ علیہ کے فتویٰ سے اِختلاف اِیمان سے خالی ہونے کے مترادف ٹھہرا اور وہ یہ بھول گئے کہ فقہِ حنفی کی ہر کتاب میں جابجا اِمام اَعظم رحمۃ اللہ علیہ سے اُن کے شاگردوں کا اُسی دَور میں اِختلاف موجود ہے، جب کہ شیخ الاسلام کا زمانہ تو اِمام اَعظم رحمۃ اللہ علیہ سے صدیوں بعد کا زمانہ ہے، جب مرورِ زمانہ سے حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ اِجتہاد سے خائف علماء اِس پر بھی قائل نہ ہو سکے کہ اِسلام کو جدید دَور کے بین الاقوامی اِشاعتی تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے پیش کرنا کیوں ضروری ہے!
شیخ الاسلام نے جب برصغیر میں تصوف میں دَر آنے والے بگاڑ کی اِصلاح کی طرف توجہ دلائی تو نام نہاد صوفی اپنی دُکانداری بند ہوتی دیکھ کر چیخے چلائے اور شیخ الاسلام کو خارج اَز اہلِ سنت حتیٰ کہ یہودیوں کا ایجنٹ تک قرار دینے لگے، مگر اُن کا کاروبار بحال نہ ہو سکا۔
شیخ الاسلام نے جب ’’آمدِ اِمام مہدی‘‘ کے حوالے سے اُٹھنے والے فتنے کا سدِباب کیا تو لوگوں کی عقیدتوں کا مرکز بننے کے شوق میں خود کو اِمام مہدی قرار دینے کی تیاری میں مصروف فتنہ گروں کی جڑیں کٹ گئیں اور وہ آپ کے خلاف پروپیگنڈا میں اپنا حصہ ڈالنے لگے۔
شیخ الاسلام کی زبانِ حق ترجمان سے ختمِ نبوت کی علمی و قانونی حیثیت جاننے کے بعد جھوٹے نبی کے اُمتیوں کا مقصدِ وُجود خطرے میں پڑ گیا اور وہ خود کو بچانے کے لئے شیخ الاسلام کے خلاف ہر ممکن پروپیگنڈا کا سہارا لینے لگے۔ کبھی وہ مغربی دُنیا کو آپ کا خطرناک حد تک بنیاد پرست اور اِنتہا پسند ہونا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی شیخ الاسلام کے خطابات کی قطع و برید کر کے اپنے جھوٹے نبی کی حقانیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اُن کی ساری کوششیں رائیگاں ہی جائیں گی اور اللہ ربّ العزت کا فیصلہ ثابت ہو کر رہے گا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے حسد میں تمام فرقوں کا یوں متفق ہو کر تنقید کرنا، ایک دُوسرے پر کفر و شرک کے فتوے لگانے والوں کا آپ کے خلاف منفی پروپیگنڈا میں ایک دُوسرے کی بھرپور مدد کرنا، حتیٰ کہ مرتدین کا بھی اِس مہم میں بڑھ چڑھ کر شریک ہونا، آپ کی سرپرستی میں جاری عظیم مصطفوِی مشن کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بقول علامہ اِقبال
یہ اِتفاق مبارک ہو مومنوں کے لئے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
شیخ الاسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈا کا تیسرا بڑا سبب ’لالچ‘ ہے۔ زوال کی اِنتہاؤں کو چھونے والے اِس دور میں جن علمائے سُوء نے اپنا دِین و اِیمان فقط دولتِ دُنیا کو بنا رکھا ہے، اُنہوں نے آپ کی سیاسی و اِنقلابی جدوجہد کے دَور میں دُنیادار سیاستدانوں کے اِشاروں پر کئی بار فتویٰ زنی کی۔ تارِیخ گواہ ہے کہ ہر بار جب بھی شیخ الاسلام نے مصطفوی اِنقلاب کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مغربی ایجنڈا نافذ کرنے والے حکمرانوں کے خلاف ٹکر لی، اِلیکشن کے دِن قریب آئے تو عوامُ الناس کو بدظن کرنے کے لئے تنخواہ دار فتویٰ بازوں کی فوج میدان میں اُتر آئی اور اُنہوں نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں، اَخبارات اور رسالوں میں، ہر طرف کردارکُشی کا ماحول گرم کرنا شروع کر دیا۔
سال 2002ء میں پاکستانی نظامِ اِنتخابات سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد لالچی فتویٰ بازوں کے فتووں کا سیلاب تھم گیا تھا۔ مگر مارچ 2010ء کے بعد اچانک اُس سیلاب میں سونامی کا منظر دکھائی دیکھنے لگا۔ فرق صرف اِتنا تھا کہ ماضی میں بعض مفاد پرست سیاسی جماعتیں اُنہیں اپنے مقصد کے لئے خریدتی تھیں جب کہ اِس بار اُن کے غیرملکی آقاؤں نے اُنہیں کافی مہنگے داموں خریدا ہے۔
مارچ 2010ء میں دہشت گردی کے خلاف فتویٰ جاری کر کے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عالمِ اِسلام کو اِسلام دُشمن طاقتوں اور خارِجیوں کی مشترکہ تباہ کن چال سے بچا لیا۔ اُس فتویٰ کے ذرِیعہ آپ نے دُہرا کام کیا، ایک طرف خارِجیوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اُنہیں بے نقاب کیا تو دُوسری طرف مغربی دُنیا میں اِسلام کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرنے کے عمل کا سدِباب بھی کیا۔
یوں دہشت گردی کے خلاف فتویٰ کے ذرِیعہ سے شیخ الاسلام نے اُن کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ دراصل وہ طاقتیں نہیں چاہتیں کہ عالمی سطح پر اَمن قائم ہو اور مغربی دُنیا کے لئے اِسلام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے، چنانچہ وہ کسی نہ کسی بہانے اِسلام کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھتی ہیں۔ اُنہیں معلوم ہے کہ اگر اِسلام کا حقیقی چہرہ مغربی دُنیا کی نوجوان نسلوں کے سامنے آ گیا تو یورپ اور امریکہ میں قبولیتِ اسلام کی شرح کئی گنا بڑھ جائے گی۔ سووِیت یونین کی شکست کے بعد سے اِسلام اور دہشت گردی کو جوڑتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف جاری پروپیگنڈا جب اپنے عروج پر پہنچا تو ضربِ یداللّٰہی نے اُسے پارہ پارہ کرنے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے یہ عظیم کام لیا۔ گزشتہ تین دہائیوں میں اِسلام کو مقید کرنے کے لئے بُنے گئے جال میں سوراخ ہوتا دیکھ کر وہ طاقتیں بوکھلا اُٹھیں اور اُنہوں نے کئی مختلف محاذوں پر بیک وقت وار کرنے کی ٹھانی۔
پاکستان بیرونی دُنیا میں دہشت گردی کو فروغ دینے والے ملک کے طور پر مشہور ہے۔ علاوہ اَزیں عالمی میڈیا پاکستان کو مزید بدنام کرنے کے لئے مغربی دُنیا کو ہمیشہ مسلم کرسچین فسادات کی خبریں نمایاں کر کے دِکھاتا ہے۔ چنانچہ مغربی دُنیا کے تھنک ٹینکس اِس بات کو سمجھ نہ پائے کہ پاکستان جیسے ملک میں (جہاں سے ہمیشہ مسلمانوں کے عیسائیوں کو مارنے کی خبریں ریلیز ہوتی ہوں) وہیں سے ایک نامور مسلمان عالمِ دِین کا مسیحیوں کے ساتھ مل کر اَمن کی شمع روشن کرنا، بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لئے علامتی طور پر اُنہیں اپنے مرکز پر مدعو کر کے کرسمس کے کیک کاٹنا، سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِتباع میں اُنہیں اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اِجازت دینا اور قرآنِ مجید اور بائبل کا ایکسچینج کرنا، اِن اُمور پر اُنہیں شدید تعجب ہوا۔ چنانچہ اُنہوں نے سوچا کہ بین المذاہب رواداری کو شیخ الاسلام کا کمزور پہلو بنا کر خوب پروپیگنڈا کیا جائے تو سادہ لوح مسلمانوں کو اُن کے خلاف اُبھارا جا سکتا ہے۔ اِس پہلو پر وار کرنے کے لئے اُنہوں نے اِنتہائی پلاننگ کے ساتھ کچھ اَیسے لالچی فتویٰ باز ملاؤں کو خریدنے کا فیصلہ کیا جن کا تعلق بالخصوص سوادِ اَعظم سے تھا، تاکہ لوگ اُن کے فتووں کو مسلکی مخالفت والی فتویٰ بازی سمجھ کر معمولی نہ جانیں اور اُس مخالفت میں زیادہ سے زیادہ جان ڈالی جا سکے۔
وہ یہ بات جانتے ہیں کہ تحریکِ منہاج القرآن کی کوششوں سے گرجوں میں میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس کے اِنعقاد کے خلاف سوادِ اَعظم سے وابستہ فتویٰ باز علماء نہیں بول پائیں گے، چنانچہ اُس کا جواب دینے کے لئے اُنہوں نے میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بدعت قرار دینے والوں کو آگے کرنے کا پلان بنایا۔ یعنی باقی ساری فتویٰ بازی تو سوادِ اعظم سے وابستہ لوگ کریں مگر چرچ میں میلاد کی اِفادیت کی نفی کرنے کی ذِمہ داری میلاد کو بدعت کہنے والوں کو سونپی گئی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اِنٹرنیٹ پر جاری بحثوں میں جب کسی کو چرچ میں ہونے والی اَذان، نماز، محفلِ قرات و نعت اور محفلِ میلاد کا بتایا جائے تو اُس کے لاجواب ہونے پر میلاد کو بدعت قرار دینے والے فرقے کے لوگ مدد کو آن ٹپکتے ہیں۔ یوں ایک دُوسرے کو کافر و مشرک قرار دینے والے فرقے بھی شیخ الاسلام کے خلاف مہم میں ایک دُوسرے کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں، جس سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ اُن کے پیچھے کوئی منظم ہاتھ کارفرما ہے۔ وہ محض ناسمجھی یا بُغض و حسد کی وجہ سے مخالفت نہیں کر رہے بلکہ کوئی خارِجی ہاتھ اُنہیں کٹھ پتلی کے طور پر اِستعمال کر رہا ہے۔ (بین المذاہب رواداری پر شرعی دلائل کیلئے ’’العلماء‘‘ جولائی 2011ء ملاحظہ فرمائیں)
دُوسرے پہلو پر وار کرنے کیلئے اُن تھنک ٹینکس نے اَیسے لوگ خریدے جو شیخ الاسلام کی طرف بدعات منسوب کر کے اُنہیں بدنام کر سکیں تاکہ اُن کے مشن کے ساتھ تیزی سے منسلک ہونے والے لوگوں کی شرح کو کم کیا جا سکے اور قوم آپ کی تعلیمات کو مسترد کر دے۔ بدعات کے ٹائٹل پر مبنی یہ کام چونکہ سوادِ اَعظم سے منسلک کوئی عالم نہیں کر سکتا تھا، چنانچہ اِس کام کے لئے بیرون ملکی خرچے پر پلنے والے خارِجیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اُنہیں اُن کی منہ مانگی رقم کے عوض شیخ الاسلام کی شخصیت کو داغ دار کرنے کے لئے قرآن و سنت کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا منصب سونپا گیا، چنانچہ اُنہوں نے ہر اُس مسئلہ کو ہاتھ ڈالا جس میں ذرا بھی گنجائش تھی اور منفی پروپیگنڈا کے لئے صرف اِنٹرنیٹ پر اِکتفاء نہیں کیا بلکہ CDs بنا کر مفت تقسیم کروائیں۔ یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے ہر اُس عالمِ دین سے رابطہ کیا جو شیخ الاسلام سے متعلق معمولی سا بھی نرم گوشہ رکھتا ہو، اور اُسے کسی نہ کسی طرح شیخ الاسلام کے خلاف بیان دینے پر آمادہ کیا۔ اِس سلسلہ میں اُنہوں نے مولانا زبیر احمد ظہیر کے گھر جا کر ’عرفان القرآن‘ کے خلاف بیان ریکارڈ کروا کر اِنٹرنیٹ پر اور CDs کی صورت میں پھیلایا، بعد اَزاں مولانا اِبتسام الٰہی ظہیر کے گھر جا کر شیخ الاسلام کے خلاف بیان ریکارڈ کروا کر اِنٹرنیٹ پر اور CDs کی صورت میں پھیلایا، اِسی طرح مولانا محمد اِسحاق جیسے معتدل مزاج اَہلِ حدیث عالم سے خفیہ طور پر آڈیو بیان ریکارڈ کر کے پھیلایا۔ ایسی اوچھی حرکتوں سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اِس سب کچھ کے پیچھے ایک منظم گروہ کارفرما ہے، جو شیخ الاسلام کی تجدِیدی حکمتوں سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور آپ کو ناکام کرنے کے لئے آئے روز نت نئے حربے آزماتا ہے۔ کبھی یہ گروہ ’قدم بوسی‘ کو معاذاللہ سجدہ کے نام سے مشہور کرتا ہے تو کبھی ’تلقینِ میت‘ کے مسنون عمل کو بدعت قرار دے کر اِنٹرنیٹ پر اور CDs بنا کر اُچھالتا ہے۔ اَلغرض بے شمار اِلزامات کی بوچھاڑ کے باوُجود شیخ الاسلام کا مشن روز بروز آگے سے آگے نکلتا چلا جا رہا ہے۔
شیخ الاسلام کی راہ میں روڑے اَٹکانے کے فریضہ پر کاربند مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے نام نہاد علماء آپس میں ایک دُوسرے کو بھی کافر اور مشرک ہی قرار دیتے ہیں، مگر مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے ایک دُوسرے کے ساتھ بڑھ چڑھ کر تعاون بھی فرما رہے ہیں۔
اَیسے میں پریشان ہو کر مخالفین مل بیٹھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو بدنام اور ناکام کرنے کی کون سی کوشش نہیں کی، مگر اُس کے باوُجود سب بے کار ہے۔ ہم نے ہر حربہ آزمایا مگر ہماری ہر کوشش رائیگاں گئی اور اُن کے پیروکاروں کی تعداد میں آئے روز اِضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اِسی اَثناء میں ایک ذہین شخص رائے دیتا ہے کہ تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے مخالفین میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے غیرسنجیدہ پن، شاید یہی وجہ ہے کہ بریلوی، دیوبندی، وہابی، شیعہ حتیٰ کہ قادیانیوں تک کی آپ کے خلاف تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ طے کرتے ہیں کہ اَب شیخ الاسلام کی علمی کاوِشوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے لئے اُن پر اِنتہائی سنجیدہ اَنداز میں تنقید کی جائے۔ اِس سلسلہ میں ’’تحقیق‘‘ کا آغاز ہو چکا ہے۔ پہلی اِینٹ کے طور پر ایک صاحب نے شیخ الاسلام کی تصانیف سے کیڑے نکالنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے اور اُسے اِنٹرنیٹ پر شائع کرتے ہوئے اپنے حواریوں کو یہ سبق دیا ہے کہ اُن میں سے ہر کوئی شیخ الاسلام کی کم از کم ایک کتاب پر اُسی سطح کی ’’تحقیق‘‘ کرے۔ چنانچہ محققین کی فوج حرکت میں آ چکی ہے اور یوں اللہ ربّ العزت شیخ الاسلام کے مخالفین کے ذرِیعے سے بھی آپ کے مشن کو فائدہ ہی دے گا۔ ان شاء اللہ
تحریکِ منہاج القرآن کی اِنٹرنیشنل میڈیا اور اِنٹرنیٹ پر پذیرائی کی کڑی نگرانی کے لئے بکاؤ مال قسم کے نام نہاد دانش وَروں کی ایک سپیشل ٹیم تحریکِ منہاج القرآن کی ویب سائٹس پر شائع ہونے والی خبروں کے علاوہ عالمی میڈیا میں ’دہشت گردی کے خلاف فتویٰ‘ کی پذیرائی اور عالمی اَمن کے لئے کی جانے والی کوششوں سے متعلقہ خبروں کے تعاقب میں بٹھائی گئی ہے، جو شیخ الاسلام کی عالمی کامیابیوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ اِنٹرنیٹ پر مختلف کمیونٹی ویب سائٹس پر ڈسکشن کے دوران اور دِیگر ویب سائٹس میں آرٹیکلز لکھ لکھ کر اُن خبروں کی اَہمیت کم کرنے کا فریضہ نبھا رہی ہے، تاکہ تحریکی کارکنوں کا مورال پست کیا جا سکے اور شیخ الاسلام کو عالمی سطح پر محنت اور لگن کے ساتھ مسلم دُنیا کا مقدمہ لڑنے میں جو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں قوم کو اُن سے بے خبر رکھا جا سکے، نیز پاکستانی میڈیا کو اُن تاریخی کامیابیوں کی کوریج سے باز رکھا جا سکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مارچ 2010ء کے بعد سے شیخ الاسلام کی طرف سے عالمی قیامِ اَمن کی کاوِشوں کے حوالے سے اِنٹرنیشنل نیوزچینلوں پر بھرپور کورِیج کے علاوہ اَخبارات اور اِنٹرنیٹ پر لاکھوں ویب صفحات شائع ہو چکے ہیں، مگر پاکستانی قوم کو اُس کے اَثرات سے ’محفوظ‘ رکھنے کے لئے نہ صرف ملکی میڈیا اَیسی خبروں کو ریلیز کرنے سے ہچکچاتا ہے بلکہ اِنٹرنیٹ پر پاکستانی کمیونٹی کی ویب سائٹس میں اُن خبروں کی اَہمیت کم کر کے پیش کرنے کی مہم بھی جاری ہے تاکہ پاکستانی قوم کو آپ کی عالمی کاوِشوں کے ثمرات سے محروم رکھا جا سکے۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طرزِعمل ہی ایک مسلمان کی زِندگی میں بہترین قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ نبی اَکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر اور آپ کی اَزواجِ مطہرات پر طرح طرح کے نازیبا اِلزامات لگائے گئے مگر آپ نے قطعی طور پر کوئی جوابی گالی نہیں دِی، کبھی بددُعا نہیں دِی، آپ کی سیرتِ طیبہ سے منور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی نے جذبات میں آ کر دُشمنانِ اِسلام کا گریبان نہیں پکڑا۔ حتیٰ کہ طائف کے بازاروں میں قوم نے جب آپ کو لہولہان کر دیا اور فرشتوں کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا، جبرئیلِ اَمین طائف کے مکینوں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دینے کے اِرادے سے حضور نبی اَکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِجازت نہ دی۔ اِس سطح کی بدسلوکی کے جواب میں بھی رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے حق میں فقط دُعا ہی کی اور جبرئیلِ اَمین کو یہ فرما کر روک دیا کہ یہ نہ سہی شاید اِن کی اَگلی نسلیں اِیمان لے آئیں۔
چنانچہ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں مصطفوِی کارکنوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی کی گالی کے جواب میں اُسے گالی دیں۔ ہمارا مقابلہ کردار کا مقابلہ ہے۔ مخالف اپنی بدکرداری میں جتنا بھی نیچے اُتر جائے ہمیں اَپنے مصطفوی کردار کے ساتھ اُس کے سامنے سینہ سپر رہنا ہے۔ اگر ہم مصطفوِی کارکن ہیں اور مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کی کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں مصطفوِی سیرت کو اَپنانا ہو گا۔
یاد رکھیں! گالی کے جواب میں گالی دینے سے ہم بھی ویسے ہی بن جاتے ہیں اور یہی مخالفین چاہتے ہیں۔ اِس لئے جب بھی کوئی علمی نوعیت کا اِعتراض کرے تو اُس کا علمی جواب دیں، مگر ہماری زبان سے ہمارا مصطفوِی کارکن ہونا نظر آئے اور جب کوئی جاہلانہ روِش کے ساتھ گالی دے یا برا بھلا کہے تو اُس کے لئے صرف سلامتی کی دُعا کریں۔
یاد رکھیں! حق کے خلاف پروپیگنڈا وقتی طور پر نقصان دِہ دِکھائی دیتا ہے مگر بعد اَزاں اُس میں اَہلِ حق کا ہی بے شمار فائدہ ہوتا ہے، جو وقتی طور پر سمجھ میں نہیں آتا۔ ’’حاسد کو اگر پتہ چل جائے کہ اُس کے حسد سے اَہلِ حق کو کتنا فائدہ ہو رہا ہے تو وہ حسد میں آ کر حسد کرنا چھوڑ دے۔‘‘
سیرتِ طیبہ میں اِس کی ایک بہترین مثال موجود ہے۔ مشرکینِ مکہ کے پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر ایک بڑھیا شہرِ مکہ چھوڑ کر جا رہی تھی۔ نبی اَکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی مدد کرنے کے لئے اُس کا سامان اُٹھا کر ساتھ چل دیئے۔ کچھ دُور تک چلنے کے بعد وہ عورت بولی: تم بھلے آدمی معلوم ہوتے ہو، بہتر ہو گا کہ تم بھی یہ شہر چھوڑ دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وجہ دریافت فرمائی تو وہ کہنے لگی کہ یہاں ایک جادُوگر رہتا ہے، جو اُس کی بات سن لیتا ہے وہ اُسی کا ہو جاتا ہے، اُس کا نام محمد ہے، اُس سے بچ کر رہنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ محمد تو میں ہی ہوں۔ چند لمحے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل کر وہ آپ کے اَخلاق و کردار سے اِتنا متاثر ہو چکی تھی کہ فوری اِسلام قبول کر لیا۔
اِس واقعہ میں دِیگر بہت سی حکمتوں کے علاوہ ایک سبق منفی پروپیگنڈا کا اَہلِ حق کے لئے فائدہ مند ہونا بھی ہے۔ اگر مشرکینِ مکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اِتنا پروپیگنڈا نہ کرتے تو وہ بڑھیا یوں حقیقت کو قریب سے نہ دیکھ پاتی، جتنا اُسے اِس صورت میں موقع ملا۔ یہ مشرکینِ مکہ کا پروپیگنڈا ہی تھا، جس نے اُس بڑھیا کو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام براہِ راست سننے کا موقع دیا۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَکَرُوا وَمَکَرَ اﷲُ وَاﷲُ خَيْرُ الْمَاکِرِيْنَ.
(آل عمران، 3 : 54)
’’پھر اُنہوں نے خفیہ سازش کی اور اَﷲ نے مخفی تدبیر فرمائی، اور اَﷲ سب سے بہتر مخفی تدبیر فرمانے والا ہے۔‘‘
یوں اَللہ ربّ العزت دِین دُشمن طاقتوں کی تدبیروں کو بھی اِسلام کے مفاد میں اِستعمال کرتا ہے۔ پس اگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خلاف پروپیگنڈا کی وجہ سے نئے لوگوں تک تحریک کا اچھا یا برا پیغام پہنچ رہا ہے تو ہمیں اِس موقع کو ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہیئے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم منفی پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر شکست خوردگی کا مظاہرہ کرنے یا گالی گلوچ بکنے والوں کو جواباً گالی دینے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ’’بیداری شعور‘‘ کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا پیغام براہِ راست ذرائع (آپ کی تصانیف و خطابات) کی مدد سے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں کیوں کہ یہی اِس دور میں اَصل جہاد ہے۔ اگر ہم میں سے ہر کارکن ’’بیداری شعور‘‘ کے لئے شیخ الاسلام کے پیغام کو اُنہی کی زبان میں ہزاروں لاکھوں لوگوں تک پہنچانے میں اَپنے دِن رات صرف نہیں کر سکتا تو ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم منفی پروپیگنڈا سے پریشان ہوں یا مخالفین کو جوابی گالیوں سے نوازنے لگیں۔
تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا، اَے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لئے
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved