بقول مفکرِ اِسلام علامہ اِقبال قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جو مجرّد تصوّر کی بجائے ٹھوس عمل پر زور دیتی ہے۔ اِس عمل کے سُوتے بلا شبہ رضا و مشیتِ الٰہی کے سرچشمے سے پھوٹتے ہیں۔ قرآن سے اَخذ کردہ علم۔ ۔ ۔ علم بالوحی ہے، جو اِس عالمِِ دنیا میں عالمِِ آخرت تک رسائی حاصل کرنے اور اُخروی زندگی میں فوز و فلاح کی ضمانت حاصل کرنے کے لئے ایک زِینے کا کام دیتا ہے۔ قرآن سرتا پا برھان اور فرقان اور حق و باطل کے مابین حدِ فاصل ہے، جو اُمتِ مسلمہ کے ہر فرد کے لئے مکمل ضابطۂ حیات کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں وضاحت و صراحت کے ساتھ کامیاب زندگی گزارنے کے لئے ہر شعبے اور ہر پہلو کے حدود متعین کئے گئے ہیں۔ قرآنِ حکیم کے وضع کردہ ضابطے بڑے واضح اور ہر قسم کے اِبہام اور شک و ریب سے پاک ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات شارع (Law Giver) اور شارح (Interpreter) دونوں حیثیتوں کی حامل ہے۔ اسلام وہ نظامِ حیات فراہم کرتا ہے جس میں عقائد و نظریات اور اعمال کی اساس کو پرکھنے کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کسوٹی (Touchstone) کا درجہ رکھتی ہے اور وہی راستہ صراطِ مستقیم ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کی وساطت سے کامیاب اُخروی زندگی سے ہمکنار کرتا ہے۔ بقول حضرت سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ:
خلافِ پیغمبر کسے رَہ گزید
ہرگز نخواہد بمنزل رسید
قرآن کا نظریۂ کائنات کسی جامد اور غیرمتحرّک کائنات کا تصور پیش نہیں کرتا بلکہ ایک ایسی کائنات کا نقشہ ہمارے سامنے رکھتا ہے جو دائمی تغیرات اور مسلسل تبدیلیوں کی آماجگاہ ہے۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کُن فَیَکُوں
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں وہ دن دُور نہیں جب مذہب اور سائنس کے مابین مغایرت (Alienation) اور دُوئی (Duality) اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی اور دونوں بتدریج ایک ایسے نقطے کو چھولیں گے جو باہمی ہم آہنگی اور توافق (Mutual Harmony) کا آئینہ دار ہوگا۔
مفکرِ اسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا زیر نظر خطاب ایک ایسی حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے جو جدید سائنسی علوم کے حوالے سے ہمارے اَسلاف کے شاندار اور قابلِ تقلید علمی و فکری کارناموں کی روشنی سے مزین ہے اور اس میں اولیاء اللہ کی شان اور مقام و مرتبہ سے بحث کی گئی ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جب سے علم و ہنر اور حکمت و فلسفہ کی عظیم میراث اہلِ اسلام سے چھن کر اغیار کے قبضہ و تصرّف میں چلی گئی ہے، ایک ہمہ گیر زوال و انحطاط اور اِدبار کے تاریک سائے اُمتِ مسلمہ کے سر پر گہرے اور دبیز ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ قائدِ تحریک منہاج القرآن نے اپنے خطاب میں اِس تلخ حقیقت کا ذکر اِنتہائی دِلسوزی سے کیا ہے اور بڑے ہی دردمندانہ پیرائے میں اِس امر پر زور دیا ہے کہ کاش عصرِ حاضر میں مردِ مومن دوبارہ اپنی اُس گمشدہ میراث کو پا لے۔
غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
ضرورت اِس امر کی ہے کہ قائدِ انقلاب کے اِس پیغام کو ہمہ تن گوش ہوکر سنا جائے اور مِن حیث المجموع جدید سائنسی علوم کے حصول کو اپنا قومی نصب العین بنا لیا جائے۔
ضیاء نیر
خادمِ تحریکِ منہاج القرآن
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved