152 / 1. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوْءَ، فَلَمْ يَجِدُوْهُ، فَأتِيَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِوَضُوْءٍ، فَوَضَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي ذَلِکَ الْإِنَاءِ يَدَهُ وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوْا مِنْهُ. قَالَ : فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِهِ حَتَّی تَوَضَّئُوْا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ. مُتَفَّقٌ عَلَيْهِ.
1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الوضوئ، باب : التماس الوضوء إذا حانت الصلاة، 1 / 74، الرقم : 167، وفي کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1310، الرقم : 3380، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : في معجزات النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1783، الرقم : 2279، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : في آيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اﷲ ل، 5 / 596، الرقم : 3631، وقال أبو عيسی : وحديث أنس حديث حسن صحيح، والنسائي في السنن، کتاب : الطهارة، باب : الوضوء من الإنائ، 1 / 60، الرقم : 76، ومالک في الموطأ، 1 / 32، الرقم : 62، والشافعي في المسند، 1 / 15، وابن حبان في الصحيح، 14 / 477، الرقم : 6539، والربيع في المسند، 1 / 63، الرقم : 131، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 193، الرقم : 878، والفريابي في دلائل النبوة، 1 / 55، الرقم : 19، والعيني في عمدة القاري، 3 / 33، 16 / 118، الرقم : 3753، والشوکاني في نيل الأوطار، 1 / 21، 23.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ نماز عصر کا وقت ہو گیا۔ لوگوں نے پانی تلاش کیا تو نہ ملا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں وضو کے لیے پانی پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس برتن میں اپنا دستِ مبارک ڈالا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس سے وضو کریں۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے پانی کو (چشمے کی طرح) پھوٹتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ آخری آدمی نے بھی وضو کر لیا۔‘‘
یہ حدیث متفق عليہ ہے۔
153 / 2. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم دَعَا بِإِنَاءٍ مِنْ مَاءٍ، فَأتِيَ بِقَدَحٍ رَحْرَاحٍ فِيهِ شَيئٌ مِنْ مَاءٍ، فَوَضَعَ أَصَابِعَهُ فِيْهِ. قَالَ أَنَسٌ ص : فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَی الْمَاءِ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ. قَالَ أَنَسٌ ص : فَحَزَرْتُ مَنْ تَوَضَّأَ مَا بَيْنَ السَّبْعِيْنَ إِلَی الثَّمَانِيْنَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الوضوئ، باب : الوضوء من التور، 1 / 84، الرقم : 197، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : في معجزات النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1783، الرقم : 2279، وأبو يعلی في المسند، 6 / 74، الرقم : 3329، وابن حبان في الصحيح، 14 / 483، الرقم : 6546، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 30، الرقم : 117، وفي الاعتقاد، 1 / 274، والفريابي في دلائل النبوة، 1 / 57، الرقم : 22، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 206، الرقم : 206، والعيني في عمدة القاري، 3 / 93، الرقم : 200.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا برتن منگوایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں کھلے منہ کا پیالہ پیش کیا گیا جس میں ذرا سا پانی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں مبارک انگلیاں ڈالیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں پانی کو دیکھ رہا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں سے پھوٹ کر بہہ رہا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے وضو کرنے والوں کا اندازہ کیا تو وہ سترّ سے اَسّی تک تھے۔‘‘
یہ حدیث متفق عليہ ہے۔
154 / 3. عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِالْهَاجِرَةِ إِلَی الْبَطْحَاءِ، فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ صَلَّی الظُّهْرَ رَکْعَتَيْنِ وَالْعَصْرَ رَکْعَتَيْنِ وَبَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ، قَالَ شُعْبَةُ : وَزَادَ فِيْهِ عَوْنٌ عَنْ أَبِيْهِ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ : کَانَ يَمُرُّ مِنْ وَرَائِهَا الْمَرْأَةُ وَقَامَ النَّاسُ، فَجَعَلُوْا يَأَْخُذُوْنَ يَدَيْهِ، فَيَمْسَحُوْنَ بِهَا وُجُوْهَهُمْ قَالَ : فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ، فَوَضَعْتُهَا عَلَی وَجْهِي، فَإِذَا هِيَ أَبْرَدُ مِنْ الثَّلْجِ وَأَطْيَبُ رَائِحَةً مِنَ الْمِسْکِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1304، الرقم : 3360، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : سترة المصلي، 1 / 360، الرقم : 503، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 309، الرقم : 18789، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 115، الرقم : 294.
’’حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز وادی بطحاء کی جانب تشریف لے گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا، پھر ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں اور عصر کی بھی دو رکعتیں پڑھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک نیزہ گاڑ دیا گیا تھا۔ حضرت عون نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جحیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت کیا کہ اس نیزے کے پیچھے سے عورتیں گزر گئیں اور مرد کھڑے رہے پھر صحابہ کرام اپنے ہاتھوں کو حبیب پروردگار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے مس کر کے اپنے چہروں پر مل لیتے، میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ مبارک تھاما اور اپنے چہرے سے مس کیا تو دیکھا کہ وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے اور اس کی خوشبو کستوری کی خوشبو سے زیادہ عمدہ تھی۔‘‘
یہ حدیث متفق عليہ ہے۔
155 / 4. عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِالْهَاجِرَةِ، فَأُتِيَ بِوَضُوْئٍ فَتَوَضَّأَ، فَجَعَل النَّاسُ يَأْخُذُوْنَ مِنْ فَضْلِ وَضُوْئِهِ فَيَتَمَسَّحُوْنَ بِهِ، فَصَلَّی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم الظُّهْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَالْعَصْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ. وَقَالَ أَبُوْ مُوْسَی : دَعَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِقَدَحٍ فِيْهِ مَاءٌ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيْهِ وَمَجَّ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمَا : اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلَی وُجُوْهِکُمَا وَنُحُوْرِکُمَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
4-5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الوضوء، باب : اسْتِعْمَالِ فَضْلِ وَضُوْءِ النَّاسِ،1 / 80، الرقم : 185، وفي کتاب : الصلاة في الثياب، باب : الصلاةِ فِی الثَّوبِ الأَحْمَرِ، 1 / 147، الرقم : 369، وفي کتاب : الصلاة، باب : سترة الإمامِ سترةُ مَن خَلْفَهُ، 1 / 187، الرقم : 473، وفي باب : الصلاةِ إلَی العَنَزَةِ، 1 / 188، الرقم : 477، وفي باب : السُّتْرَةُ بِمَکَّةَ وَغَيْرِهَا، 1 / 188، الرقم : 479، وفي کتاب : الأذان، باب : الأذان لِلمُسَافِرِ، إذا کانوا جماعةً، والإقامة، وکذلک بِعَرَفَةَ وَ جَمْعٍٍ، 1 / 227، الرقم : 607، وفي کتاب : المناقب، باب : صِفةِ النَّّبِي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1304، الرقم : 3373، وفي کتاب : اللباس، باب : التَّشْمِيْر فِي الثِّيَابِ، 5 / 2182، الرقم : 5449، وفي کتاب : الوضوء، باب : الغسل والوضوء في المخضب والقدح، والخشب والحجارة، 1 / 83، الرقم : 193، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل أبي موسی وأبي عامر الأشعريين رضي اﷲ عنهما، 4 / 1943، الرقم : 2497، والعيني في عمدة القاري، 3 / 75، الرقم : 187، والشوکاني في نيل الأوطار، 1 / 24، والعسقلاني في تغليق التعليق، 2 / 128.
’’حضرت ابوجُحَیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ پانی لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے بچے ہوئے پانی کو لینے لگے اور اُسے اپنے اوپر ملنے لگے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں ادا فرمائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے نیزہ گاڑ دیا گیا تھا۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا۔ پس اپنے ہاتھوں اور چہرہ اقدس کو اُسی میں دھویا اور اُسی میں کلی کی پھر اُن دونوں (یعنی حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت ابوعامر اشعری) سے فرمایا : اس میں سے پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر بھی ڈال لو۔‘‘ یہ حدیث متفق عليہ ہے۔
156 / 5. وفي رواية عنه : قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِـلَالًا أَخَذَ وَضُوْءَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُوْنَ ذَاکَ الْوَضُوْءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ، ثُمَّ رَأَيْتُ بِـلَالًا أَخَذَ عَنَزَةً فَرَکَزَهَا، َوخَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مُشَمِّرًا، صَلَّی إِلَی الْعَنَزَةِ بِالنَّاسِ رَکْعَتَيْنِ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ، يَمُرُّوْنَ مِنْ بَيْنَ يَدَي الْعَنَزَةِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وُمُسْلِمٌ مُخْتَصَرًا.
’’اور حضرت ابوجُحَیفہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک روایت میں ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استعمال شدہ پانی لیتے دیکھا اور میں نے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کی طرف لپکتے دیکھا جسے کچھ مل گیا اُس نے اسے اپنے اُوپر مل لیا اور جسے اس میں سے ذرا بھی نہ ملا اُس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ سے تری حاصل کی (اور اسے اپنے جسم پر مل لیا)، پھر میں نے دیکھا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نیزہ لے کر گاڑ دیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سُرخ لباس میں جوڑے کو سمیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے اور نیزے کی طرف منہ کر کے لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں اور میں نے دیکھا کہ نیزے سے پرے آدمی اور جانور گزر رہے ہیں۔‘‘ اسے امام بخاری نے اور مسلم نے بھی مختصراً بیان کیا ہے۔
157 / 6. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : أُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِإِنَاءٍ، وَهُوَ بِالزَّوْرَائِ، فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ، فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ. قَالَ قَتَادَةُ : قُلْتُ لِأَنَسٍ : کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ : ثَـلَاثَ مِائَةٍ، أَوْ زُهَاءَ ثَـلَاثِ مِائَةٍ. وفي رواية : لَوْ کُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1309.1310، الرقم : 3379.3380، 5316، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : في معجزات النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1783، الرقم : 2279، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : (6)، 5 / 596، الرقم : 3631، ومالک في الموطأ، 1 / 32، الرقم : 62، والشافعي في المسند، 1 / 15، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 132، الرقم : 12370، والبيهقی في السنن الکبری، 1 / 193، الرقم : 878، وابن أبی شيبة في المصنف، 6 / 316، الرقم : 31724.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پانی کا ایک برتن پیش کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زوراء کے مقام پر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برتن کے اندر اپنا دستِ مبارک رکھ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے اور تمام لوگوں نے وضو کر لیا۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : آپ کتنے (لوگ) تھے؟ انہوں نے جواب دیا : تین سو یا تین سو کے لگ بھگ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہم اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی سب کے لئے کافی ہوتا لیکن ہم پندرہ سو تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق عليہ ہے۔
158 / 7. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ يَدَيْهِ رِکْوَةٌ، فَتَوَضَّأَ، فَجَهِشَ النَّاسُ نَحْوَهُ، فَقَالَ : مَا لَکُمْ؟ قَالُوْا : لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا بَيْنَ يَدَيْکَ، فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الرَّکْوَةِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُوْرُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ کَأَمْثَالِ الْعُيُوْنِ، فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قُلْتُ : کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ : لَوْ کُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا‘ کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
7 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1310، الرقم : 3383، وفي کتاب : المغازي، باب : غزوة الحديبية، 4 / 1526، الرقم : 3921.3923، وفي کتاب : الأشربة، باب : شرب البرکة والماءِ المبارک، 5 / 2135، الرقم : 5316، وفي کتاب : التفسير / الفتح، باب : إِذْ يُبَايِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ : (18)، 4 / 1831، الرقم : 4560، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 329، الرقم : 14562، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 65، الرقم : 125، وابن حبان في الصحيح، 14 / 480، الرقم : 6542، والدارمي في السنن، 1 / 21، الرقم : 27، وأبو يعلی في المسند، 4 / 82، الرقم : 2107، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 272، وابن الجعد في المسند، 1 / 29، الرقم : 82.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پانی کی ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے وضو فرمایا : لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھپٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارے پاس وضو کے لئے پانی ہے نہ پینے کے لئے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ سن کر) دستِ مبارک چھاگل کے اندر رکھا تو فوراً چشموں کی طرح پانی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار کر نکلنے لگا چنانچہ ہم سب نے پانی پیا اور وضو بھی کر لیا۔ (سالم راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اس وقت آپ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا : اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کے لئے کافی ہو جاتا، جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔
159 / 8. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي بَعْضِ مَخَارِجِهِ وَمَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَانْطَلَقُوْا يَسِيْرُوْنَ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلَمْ يَجِدُوْا مَاءً يَتَوَضَّئُوْنَ، فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَجَاءَ بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ يَسِيْرٍ، فَأَخَذَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ مَدَّ أَصَابِعَهُ الْأَرْبَعَ عَلَی الْقَدَحِ ثُمَّ قَالَ : قُوْمُوْا، فَتَوَضَّئُوْا، فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ حَتَّی بَلَغُوْا فِيْمَا يُرِيْدُوْنَ مِنَ الْوَضُوْءِ وَکَانُوْا سَبْعِيْنَ أَوْ نَحْوَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلَی.
8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1310، الرقم : 3381، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 216، الرقم : 13289، وأبو يعلی في المسند، 5 / 147، الرقم : 2759، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 179، والفريابي في دلائل النبوة، 1 / 76، الرقم : 41، والعيني في عمدة القاري، 3 / 34، 16 / 119، الرقم : 4753، وابن حزم في الإحکام، 2 / 200.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سفر کے لیے نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ وہ برابر چلتے رہے یہاں تک کہ نماز کا وقت ہوگیا، لیکن وضو کے لیے پانی نہیں مل رہا تھا۔ ان میں سے ایک شخص گیا اور پیالے میں تھوڑا سا پانی لے آیا۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے لے کر وضو فرمایا۔ پھر اپنی چار انگلیاں پیالے کے اوپر رکھتے ہوئے فرمایا : کھڑے ہو جاؤ اور وضو کرو۔ لوگوں نے وضو کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ تمام لوگ وضو کر چکے اور وہ ستر یا اس کے لگ بھگ افراد تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
160 / 9. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَقَامَ مَنْ کَانَ قَرِيْبَ الدَّارِ مِنَ الْمَسْجِدِ، يَتَوَضَّأ، وَبَقِيَ قَوْمٌ، فَأتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِمِخْضَبٍ مِنْ حِجَارَةٍ فِيْهِ مَاءٌ، فَوَضَعَ کَفَّهُ، فَصَغُرَ الْمِخْضَبُ أَنْ يَبْسُطَ فِيْهِ کَفَّهُ، فَضَمَّ أَصَابِعَهُ فَوَضَعَهَا فِي الْمِخْضَبِ، فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ کُلُّهُمْ جَمِيْعًا قُلْتُ : کَمْ کَانُوْا؟ قَالَ : ثَمَانُوْنَ رَجُـلًا.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ.
9 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1310، الرقم : 3382، وفي کتاب : الوضوئ، باب : الغسل والوضوء في المخضب والقدح والخشب والحجارة، 1 / 83، الرقم : 192، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 316، الرقم : 31724، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 106، 175، الرقم : 12051، 12817، وابن حبان في الصحيح، 14 / 483، الرقم : 6545، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 30، الرقم : 115، وابن المنذر في الأوسط، 1 / 360، الرقم : 328، 2 / 117، الرقم : 644، والفريابي في دلائل النبوة، 1 / 58، الرقم : 24، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 206، الرقم : 206، والعيني في عمدة القاري، 16 / 119، الرقم : 5753، والقاضي عياض في مشارق الأنوار، 1 / 243.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز کا وقت ہو گیا تو جن حضرات کے گھر مسجد کے نزدیک تھے وہ وضو کرنے چلے گئے اور کتنے ہی افراد باقی رہ گئے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک پتھر کا برتن پیش کیا گیا جس کے اندر پانی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک پانی میں ڈال دیا لیکن برتن چھوٹا ہونے کے باعث ہاتھ کھلتا نہ تھا تو انگلیوں کو ملا کر برتن میں ڈالا گیا اور سارے ہی حاضرین کو وضو کروا دیا گیا۔ (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے پوچھا، وہ کتنے افراد تھے؟ (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) فرمایا کہ وہ اسی آدمی تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
161 / 10. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنه قَالَ : بَعَثَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی أَبِي رَافِعٍ الْيَهُوْدِيِّ رِجَالاً مِنَ الْأَنْصَارِ، فأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اﷲِ بْنَ عَتِيْکٍ رضی الله عنه، وَکَانَ أَبُوْ رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَيُعِيْنُ عَلَيْهِ، وَکَانَ فِي حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الْحِجَازِ … (قَالَ : عَبْدُ اﷲِ بْنُ عَتِيْکٍ رضی الله عنه فِي قِصَّةِ قَتْلِ أَبِي رَافِعٍ) فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ : فَجَعَلْتُ أَفْتَحَُ الْأَبْوَابَ بَابًا بَابًا، حَتَّی انْتَهَيْتُ إِلَی دَرَجَةٍ لَهُ فَوَضَعْتُ رِجْلِي وَأَنَا أرَی أَنِّي قَدِ انْتَهَيْتُ إِلَی الْأَرْضِ، فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ فَانْکَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبْتُهَا بِعِمَامَةٍ … فَانْتَهَيْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَحَدَّثْتُهُ، فَقَال : ابْسُطْ رِجْلَکَ. فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَهَا، فَکَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَکِهَا قَطُّ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
10 : أخرجه البخاری في الصحيح، کتاب : المغازی، باب : قتل أبی رافع عبداﷲ بن أبی الحُقَيْقِ، 4 / 1482، الرقم : 3813، والبيهقي فيالسنن الکبری، 9 / 80، والأصبهانی في دلائل النبوة، 1 / 125، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 946، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 56، وابن کثير في البداية والنهاية : 4 / 139، وابن تيمية في الصارم المسلول، 2 / 294.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو رافع یہودی کی (سرکوبی کے لئے اس) طرف چند انصاری مردوں کو بھیجا اور حضرت عبداﷲ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان پر امیر مقرر کیا۔ ابو رافع آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے (دین کے) خلاف (کفار کی) مدد کرتا تھا اور سر زمین حجاز میں اپنے قلعہ میں رہتا تھا۔۔۔(حضرت عبداﷲ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے ابو رافع یہودی کے قتل کی کارروائی بیان کرتے ہوئے فرمایا : ) مجھے یقین ہوگیا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ پھر میں نے ایک ایک کرکے تمام دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ زمین پر آرہا۔ چاندنی رات تھی میں گر گیا اور میری پنڈلی ٹوٹ گئی تو میں نے اسے عمامہ سے باندھ دیا ۔۔۔ پھر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ عرض کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پاؤں آگے کرو۔ میں نے پاؤں پھیلا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر دستِ کرم پھیرا تو (ٹوٹی ہوئی پنڈلی جڑ گئی اور) پھر کبھی درد تک نہ ہوا۔‘‘
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
162 / 11. عن أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : بَعَثَنِي أَبُوْ طَلْحَةَ رضی الله عنه إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لِأَدْعُوَهُ وَقَدْ جَعَلَ طَعَامًا قَالَ : فَأَقْبَلْتُ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَعَ النَّاسِ فَنَظَرَ إِلَيَّ فَاسْتَحْيَيْتُ فَقُلْتُ : أَجِبْ أَبَا طَلْحَةَ فَقَالَ لِلنَّاسِ : قُوْمُوْا : فَقَالَ أَبُوْ طَلْحَةَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّمَا صَنَعْتُ لَکَ شَيْئًا قَالَ : فَمَسَّهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَدَعَا فِيْهَا بِالْبَرَکَةِ ثُمَّ قَالَ : أَدْخِلْ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِي عَشَرَةً وَقَالَ : کُلُوْا وَأَخْرَجَ لَهُمْ شَيْئًا مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ، فَأَکَلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا، فَخَرَجُوْا فَقَالَ : أَدْخِلْ عَشَرَةً، فَأَکَلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا فَمَا زَالَ يُدْخِلُ عَشَرَةً وَيُخْرِجُ عَشَرَةً حَتَّی لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ فَأَکَلَ حَتَّی شَبِعَ ثُمَّ هَيَأَهَا فَإِذَا هِيَ مِثْلُهَا حِينَ أَکَلُوْا مِنْهَا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُُ.
11-13 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الأشربة، باب : جواز استتباعه غيره إلی دار من يثق برضاه بذلک وبتحققه تحققا تاما، 3 / 1612، الرقم : 2040، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 313، الرقم : 31707، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 218، الرقم : 13307، وأبو يعلی في المسند، 7 / 170، الرقم : 4145، 4331، والفريابي في دلائل النبوة، 1 / 41، الرقم : 10، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 151، الرقم : 151.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بھیجا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا لاؤں، درآں حالیکہ انہوں نے کھانا تیار کر رکھا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گیا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب میری جانب دیکھا تو مجھے شرم آئی، میں نے عرض کیا : حضرت ابو طلحہ کی دعوت قبول کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا : اٹھو چلو، حضرت ابوطلحہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے تو آپ کے لیے تھوڑا سا کھانا تیار کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کھانے کو چھوا او ر اس پر برکت کی دعا کی، پھر فرمایا میرے صحابہ میں سے دس افراد کو بلاؤ، اور ان سے فرمایا : کھاؤ، اور اپنی انگلیوں کے درمیان سے کچھ نکالا، سو انہوں نے کھایا اور سیر ہو گئے، پھر وہ چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دس اور آدمیوں کو بلاؤ، پھر انہوں نے کھایا اور سیر ہو گئے اور چلے گئے، پھر اسی طرح دس دس آتے اور جاتے رہے، یہاں تک کہ ان میں سے کوئی بھی باقی نہ بچا اور سب نے کھا لیا اور سیر ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا منگوایا تو وہ اتنا ہی باقی تھا جتنا ان کے کھانے کے وقت تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
163 / 12. وفي رواية عنه : قَالَ : بَعَثَنِي أَبُوْ طَلْحَةَ رضی الله عنه إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَسَاقَ الْحَدِيْثَ بِنَحْوِ حَدِيْثِ ابْنِ نُمَيْرٍ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ فِي آخِرِهِ : ثُمَّ أَخَذَ مَا بَقِيَ، فَجَمَعَهُ ثُمَّ دَعَا فِيْهِ بِالْبَرَکَةِ قَالَ : فَعَادَ کَمَا کَانَ. فَقَالَ : دُوْنَکُمْ هَذَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
’’ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی مروی ہے کہ مجھے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں (انہیں دعوت کے لئے بلانے) بھیجا، اس کے بعد حسب سابق حدیث ہے، البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ اس کے بعد جو کھانا بچا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو جمع فرمایا اور اس میں برکت کی دعا فرمائی، وہ کھانا پھر پہلے جتنا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لو یہ کھانا لے لو۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
164 / 13. وفي رواية عنه : قَالَ : أَمَرَ أَبُوْ طَلْحَةَ رضی الله عنه أمَّ سُلَيْمٍ رضي اﷲ عنها أَنْ تَصْنَعَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم طَعَامًا لِنَفْسِهِ خَاصَّةً ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَيْهِ وساق الحديث وقال فيه : فَوَضَعَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَدَهُ وَسَمَّی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ : ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَدَخَلُوْا فَقَالَ : کُلُوْا وَسَمُّوا اﷲَ، فَأَکَلُوْا حَتَّی فَعَلَ ذَلِکَ بِثَمَانِيْنَ رَجُـلًا ثُمَّ أَکَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بَعْدَ ذَلِکَ وَأَهْلُ الْبَيْتِ وَتَرَکُوْا سُؤْرًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
’’ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امّ سلیم رضي اﷲ عنہا سے یہ کہا کہ تم خصوصی طور پر خود ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کھانا تیار کرو، پھر مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بھیجا، اس کے بعد وہی بیان ہے، اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (کھانے پر) اپنا دستِ اقدس رکھا اور بسم اللہ پڑھی، پھر فرمایا : دس آدمیوں کو بلاؤ دو، انہوں نے دس آدمیوں کو بلایا، وہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بسم اللہ پڑھو اور کھاؤ سو انہوں نے کھایا یہاں تک کہ اسی (80) آدمیوں نے کھایا، اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور گھر والوں نے کھایا اور (پھر بھی) کھانا باقی بچ گیا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
165 / 14. عَنْ أَبِي زَيْدِ بْنِ أَخْطَبَ رضی الله عنه قَالَ : مَسَحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَدَهُ عَلَی وَجْهِي وَدَعَا لِي، قَالَ عَزْرَةُ : إِنَّهُ عَاشَ مِائَةً وَعِشْرِيْنَ سَنَةً وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ إِلَّا شَعَرَاتٌ بِيْضٌ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالشَّيْبَانِيُّ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : (6)، 5 / 594، الرقم : 3629، والطبراني المعجم الکبير، 17 / 27، الرقم : 45، 18 / 21، الرقم : 35، والشيباني في الآحاد والمثاني، 4 / 199، الرقم : 2182، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 412.
’’حضرت ابو زید اخطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے چہرے پر پھیرا اور میرے لئے دعا فرمائی، عزرہ (راوی) کہتے ہیں کہ ابو زید ایک سو بیس سال زندہ رہے اور (دستِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے) ان کے سر میں صرف چند بال سفید تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، طبرانی اور شیبانی نے روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
166 / 15. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ أسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ رضی الله عنه رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ : بَيْنَمَا هُوَ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ وَکَانَ فِيْهِ مِزَاحٌ، بَيْنَا يُضْحِکُهُمْ فَطَعَنَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي خَاصِرَتِهِ بِعُوْدٍ فَقَالَ : أَصْبِرْنِي فَقَالَ : اصْطَبِرْ قَالَ : إِنَّ عَلَيْکَ قَمِيْصًا وَلَيْسَ عَلَيَّ قَمِيْصٌ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ قَمِيْصِهِ فَاحْتَضَنَهُ وَجَعَلَ يُقَبِّلُ کَشْحَهُ قَالَ : إِنَّمَا أَرَدْتُ هَذَا يَا رَسُولَ اﷲِ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
15 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الأدب، باب : في قبلة الجسد، 4 / 356، الرقم : 5224، والحاکم في المستدرک، 3 / 327، الرقم : 5262، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 102، الرقم : 13364، 8 / 49، الرقم : 15800، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 205.206، الرقم : 556.557، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4 / 276، الرقم : 1471، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 9 / 76، والزيلعي في نصب الراية، 4 / 259، والزرعي في حاشية ابن القيم، 12 / 175،
’’عبدالرحمن بن ابو لیلیٰ، حضرت اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ لوگوں سے ہنسی مزاح کی بات چیت کر کے انہیں ہنسا رہے تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی کمر میں لکڑی سے کچوکا لگایا تو انہوں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) مجھے بدلہ دیجئے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم بدلہ لے لو۔ اس نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کے بدن پر قمیض ہے جبکہ میرے بدن پر قمیض نہیں تھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیض اوپر اٹھالی تو وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسلیوں (اور شکم) مبارک کو چومنے لگا۔ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میرا یہی (حصول برکت کا) ارادہ تھا۔(کہ میں آپ کے جسم اقدس سے مس ہونے کی سعادت حاصل کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ سے نجات پا جاؤں)۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود، حاکم، بیہقی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
167 / 16. عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيْدَ بْنِ الْأَسْوَدِ السُّوَائِيِّ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّهُ صَلَّی مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم الصُّبْحَ فذکر الحديث قَالَ : ثُمَّ ثَارَ النَّاسُ يَأخُذُوْنَ بِيَدِهِ يَمْسَحُوْنَ بِهَا وُجُوْهَهُمْ قَالَ : فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ فَمَسَحْتُ بِهَا وَجْهِي فَوَجَدْتُهَا أَبْرَدَ مِنَ الثَّلْجِ وَأَطْيَبَ رِيْحًا مِنَ الْمِسْکِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
16-18 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 161، الرقم : 17513، والدارمي في السنن، 1 / 366، الرقم : 1367، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 67، الرقم : 1638، والبخاري في التاريخ الکبير، 8 / 317، الرقم : 3154، وابن قانع في معجم الصحابة، 3 / 221، الرقم : 1201، وابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1571، الرقم : 2755، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 573، والعيني في عمدة القاري، 4 / 100، 16 / 108، والشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 354.355.
’’حضرت جابر بن یزید بن اسود سوائی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ پھر آگے روایت بیان کی ہے، کہتے ہیں : (نماز سے فرغت کے بعد) پھر لوگ جوش و خروش سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک کو تھامتے اور اسے اپنے چہروں پر پھیرتے۔ کہتے ہیں : میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑا اور اسے اپنے چہرے پر پھیرا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک کو برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبودار پایا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، دارمی اور بخاری نے التاريخ الکبير میں روایت کیا ہے۔
168 / 17. وفي رواية : قَالَ : قَبَّلْتُ يَدَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِذَا هِيَ أَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ وَأَطْيَبُ رِيْحًا مِنَ الْمِسْکِ. رََوَاهُ ابْنُ قَانِعٍ.
’’اور ایک روایت میں ہے کہتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس چوما تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔‘‘
اسے امام ابن قانع نے روایت کیا ہے۔
169 / 18. وفي رواية : قَالَ : أَخَذْتُ بِيَدِهِ، فَوَضَعْتُهَا عَلَی صَدْرِي، فَمَا وَجَدْتُ کَفًّا أَبْرَدَ وَلَا أَطْيَبَ مِنْ کَفِّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لَهِيَ أَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ وَأَطْيَبُ مِنْ رِيْحِ الْمِسْکِ. رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
’’اور ایک روایت میں (ان الفاظ کے ساتھ ہے) راوی کہتے ہیں : میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک کو پکڑا اور اسے اپنے سینے پر رکھا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ ٹھنڈی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ خوشبودار ہتھیلی کہیں نہیں پائی۔ یہ برف سے زیادہ ٹھنڈی اور کستوری سے زیادہ خوشبودار تھی۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
170 / 19. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ بِابْنٍ لَهَا إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ ابْنِي بِهِ جُنُوْنٌ وَإِنَّهُ يَأخُذُهُ عِنْدَ غَدَائِنَا وَعَشَائِنَا فَيُخَبَّثُ عَلَيْنَا. فَمَسَحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم صَدْرَهُ وَدَعَا فَثَعَّ ثَعَّةً وَخَرَجَ مِنْ جَوْفِهِ مِثْلُ الْجِرْوِ الْأَسْوَدِ فَسَعَی.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
19 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 24، الرقم : 19، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 254، 268، الرقم : 2288، 2418، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 57، الرقم : 12460.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنے بیٹے کو لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے اس بیٹے کو جن چمٹا ہوا ہے۔ اور وہ اسے ہمارے دوپہر اور شام کے کھانے کے وقت پکڑ لیتا ہے، اور ہمیں اپنی خباثت سے تنگ کرتا ہے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے سینے پر اپنا دستِ اقدس پھیرا اور دعا کی تو اس بچے نے قے کی تو (دستِ اقدس کی برکت سے) وہ جن اس کے پیٹ سے سیاہ پلے کی طرح دوڑتا ہوا نکل گیا۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
171 / 20. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : دَعَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِـلَالًا فَطَلَبَ بِـلَالٌ الْمَاءَ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ : لَا وَاﷲِ، مَا وَجَدْتُ الْمَاءَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَهَلْ مِنْ شَنٍّ. فَأَتَاهُ بِشَنٍّ فَبَسَطَ کَفَّيْهِ فِيْهِ فَانْبَعَثَ تَحْتَ يَدَيْهِ عَيْنٌ. قَال : فَکَانَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه يَشْرَبُ وَغَيْرُهُ يَتَوَضَّأ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
20 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 26، الرقم : 25.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا (اور پانی لانے کا حکم دیا جبکہ ہر طرف قحط سالی تھی) تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ پانی کی تلاش میں نکلے (اور کہیں سے پانی نہ پا کر) واپس حاضر ہوئے اور عرض کیا : (یا رسول اللہ!) خدا کی قسم! مجھے کہیں سے بھی پانی نہیں ملا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا کوئی مشکیزہ ہے؟ (جس میں تھوڑا سا پانی ہی ہو) حضرت بلال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں (کہیں سے) مشکیزہ لے کر حاضر ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دونوں ہتھیلیاں مبارک اس میں کھول دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں تلے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا، راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس سے پانی پینے لگے اور دوسرے لوگ اس سے وضو کرنے لگے۔‘‘ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت ہے۔
172 / 21. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : غَزَوْنَا أَوْ سَافَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَنَحْنُ يَوْمَئِذٍ بِضْعَةَ عَشَرَ وَمِائَتَانِ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : هَلْ فِي الْقَوْمِ مِنْ طَهُوْرٍ. فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْعَی بِإِدَاوَةٍ فِيْهَا شَيئٌ مِنْ مَاءٍ لَيْسَ فِي الْقَوْمِ مَاءٌ غَيْرُهُ فَصَبَّهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي قَدَحٍ ثُمَّ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوْءَ ثُمَّ انْصَرَفَ وَتَرَکَ الْقَدَحَ فَرَکِبَ النَّاسُ ذَلِکَ الْقَدَحَ وَقَالُوْا : تَمَسَّحُوْا تَمَسَّحُوْا. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : عَلَی رِسْلِکُمْ، حِيْنَ سَمِعَهُمْ يَقُوْلُوْنَ ذَلِکَ. فَوَضَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَفَّهُ فِي الْمَاءِ وَالْقَدَحِ وَقَالَ : بِسْمِ اﷲِ. ثُمَّ قَالَ : أَسْبِغُوْا الطُّهُوْرَ. فَوَالَّذِي هُوَ ابْتَـلَانِي بِبَصَرِي لَقَدْ رَأَيْتُ الْعُيُوْنَ عُيُوْنَ الْمَاءِ تَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ فَلَمْ يَرْفَعْهَا حَتَّی تَوَضَّئُوْا أَجْمَعُوْنَ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
21 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 27، الرقم : 26، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 292، 357، الرقم : 14147، 14903، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 56، الرقم : 107، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 316، الرقم : 31723، والحنبلي في تنقيح تحقيق أحاديث التعليق، 1 / 106، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 68، الرقم : 32، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 586، الرقم : 3379.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں کوئی غزوہ یا سفر کیا اور ہم اس وقت دو سو سے بھی زیادہ افراد تھے، نماز کا وقت ہو گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا (تم) لوگوں میں سے کسی کے پاس وضو کے لئے پانی کا انتظام ہے؟ تو ایک شخص چمڑے کا چھوٹا سا برتن لے کر دوڑتا ہوا حاضر ہوا جس میں تھوڑا سا پانی تھا، لوگوں کے پاس اس کے علاوہ اور پانی بالکل نہیں تھا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پانی ایک پیالے میں انڈیلا، پھر اس سے اچھی طرح وضو فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے ہٹ گئے اور پیالہ وہیں چھوڑ دیا، لوگ اس پیالے پر ٹوٹ پڑے اور کہنے لگے : اس پیالے کو (ہی برکت کی خاطر) چھو لو، اس پیالے کو ہی مس کر لو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب انہیں یہ کہتے ہوئے سنا تو فرمایا : اپنی اپنی جگہ ٹھہر جاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس اس پانی کے پیالے میں رکھ دیا اور فرمایا : ’’بسم اﷲ‘‘ پھر حکم دیا کہ تم سارے اچھی طرح وضو کر لو۔‘‘ (راوی بیان کرتے ہیں) اس ذات کی قسم جس نے مجھے میری بصارت کے ساتھ آزمایا! بے شک میں نے پانی کے چشموں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے (اُبل کر ابل کر) نکلتے ہوئے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس اس پیالے سے اس وقت تک نہ ہٹایا جب تک وہ سارے لوگ وضو نہ کر چکے۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی، احمد، ابن خزیمہ اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
173 / 22. عَن جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : شَکَا أَصْحَابُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم الْعَطَشَ فَدَعَا بِعُسٍّ فَصُبَّ فِيْهِ مَاءٌ وَوَضَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَدَهُ فِيْهِ. قَالَ : فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَی الْمَاءِ يَنْبُعُ عُيُوْنًا مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَالنَّاسُ يَسْتَقُوْنَ حَتَّی اسْتَقَی النَّاسُ کُلُّهُمْ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ.
22 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 27، الرقم : 28، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 343، الرقم : 14738، وأبو يعلی في المسند، 4 / 82، الرقم : 2107، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 60، 93، الرقم : 6848، 6954، وفي المعجم الصغير، 2 / 146، الرقم : 938، وفي المعجم الکبير، 7 / 76، الرقم : 6420، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 293، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 3 / 68، الرقم : 1029، وابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 4 / 293، 677، والأصبهاني في تاريخ أصبهان، 2 / 226.
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیاس کی شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بڑا پیالہ منگوایا، اس میں پانی ڈالا گیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس اس پیالے میں رکھ دیا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پس میں دیکھ رہا تھا کہ وہ پانی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے چشمہ کی طرح ابل ابل کر نکل رہا تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم اس سے خوب سیراب ہوتے رہے یہاں تک کہ تمام کے تمام لوگ اس سے سیراب ہو گئے۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی، احمد، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
174 / 23. عَنْ أَبِي زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : ادْنُ مِنِّي قَالَ : فَمَسَحَ بِيَدِهِ عَلَی رَأسِهِ وَلِحْيَتِهِ. قَالَ : ثُمَّ قَالَ : اَللَّهُمَّ، جَمِّلْهُ وَأَدِمْ جَمَالَهُ. قَالَ : فَلَقَدْ بَلَغَ بِضْعًا وَمِئَةَ سَنَةٍ، وَمَا فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ بَيَاضٌ إِلاَّ نَبْذٌ يَسِيْرٌ وَلَقَدْ کَانَ مُنْبَسِطَ الْوَجْهِ وَلَمْ يَنْقَبِضْ وَجْهُهُ حَتَّی مَاتَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
23 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 77، الرقم : 21013، والعسقلاني في الإصابة، 4 / 599، الرقم : 5763، والمزي في تهذيب الکمال، 21 / 542، الرقم : 4326.
’’حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : میرے قریب ہو جاؤ۔ پھر میرے سر اور داڑھی پر اپنا دست مبارک پھیرا اور دعا فرمائی : الٰہی! اسے زینت بخش اور اس کے حسن و جمال کو دوام عطا فرما۔ (راوی کہتے ہیں کہ) انہوں نے سو سال سے زیادہ عمر پائی لیکن ان کے سر اور داڑھی کے چند ہی بال سفید ہوئے تھے۔ ان کا چہرہ صاف او روشن رہا اور تادمِ آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔‘‘ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
175 / 24. عَنْ ذَيَالِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ حَنْظَلَةَ قَالَ : سَمِعْتُ حَنْظَلَةَ بْنَ حِذْيَمٍ قَالَ : أَتَی أَبِي النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَحَنْظَلَةُ مَعَهُ غُـلَامٌ … قَالَ أَتَی حَنْظَلَةُ : فَدَنَا بِي إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : إِنَّ لِي بَنِيْنَ ذَوِي لِحًی وَدُوْنَ ذَلِکَ وَإِنَّ ذَا أَصْغَرُهُمْ فَادْعُ اﷲَ لَهُ فَمَسَحَ رَأسَهُ وَقَالَ : بَارَکَ اﷲُ فِيْکَ أَوْ بُوْرِکَ فِيْهِ. قَالَ ذَيَالٌ : فَلَقَدْ رَأَيْتُ حَنْظَلَةَ يُؤْتَی بِالإِْنْسَانِ الْوَارِمِ وَجْهُهُ أَوِ الْبَهِيْمَةِ الْوَارِمَةِ الضَّرْعِ، فَيَتْفُلُ عَلَی يَدَيْهِ وَيَقُوْلُ : بِسْمِ اﷲِ، وَيَضَعُ يَدَهُ عَلَی رَأسِهِ وَيَقُوْلُ : عَلَی مَوْضِعِ کَفِّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَيَمْسَحُهُ عَلَيْهِ وَقَالَ ذَيَالٌ : فَيَذْهَبُ الْوَرَمُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
24 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 67، الرقم : 20684، والبخاري في التاريخ الکبير، 3 / 37، الرقم : 152، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 191، الرقم : 2896، وفي المعجم الکبير، 4 / 6، 13، الرقم : 3477، 3501، وابن قانع في معجم الصحابة، 1 / 203، الرقم : 232، وأبو يعلی في المفاريد، 1 / 109، الرقم : 110، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 3 / 355، والعسقلاني في الإصابة، 2 / 133، الرقم : 1857، والمزي في تهذيب الکمال، 7 / 434، الرقم : 1557، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 211، 9 / 408.
’’حضرت ذیال بن عبید بن حنظلہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ میں نے حضرت حنظلہ بن حذیم رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا : میرے والد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور حنظلہ اس وقت بچے تھے اور ان کے ساتھ تھے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : پس میرے والد نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب کیا اور عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میرے کچھ بیٹے بالغ ہیں اور کچھ ابھی نابالغ ہیں اور یہ ان میں سب سے چھوٹا ہے۔ آپ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے سر پر دستِ شفقت پھیرا اور فرمایا : اللہ تعالیٰ تجھ میں برکت فرمائے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس میں برکت ہو۔ راوی حضرت ذیال کہتے ہیں : میں نے حضرت حنظلہ کو دیکھا کہ کسی ایسے شخص کو ان کے پاس لایا جاتا جس کے چہرے پر سوجن ہوتی یا سوجے ہوئے تھن والا کوئی جانور لایا جاتا۔ وہ اپنے ہاتھوں پر تھوکتے اور پھر بسم اللہ پڑھ کر اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ دیتے اور (یہ الفاظ) : کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دستِ اقدس مَس کیا تھا کہتے۔ اور پھر اس (شخص کی متاثرہ جگہ) پر اپنا ہاتھ پھیرتے۔ حضرت ذیال نے بیان کیا کہ (اس جگہ کی برکت سے) اس کی سوجن فوراً دور ہو جاتی۔‘‘
اس حدیث کو احمد اور بخاری نے التاريخ الکبير میں اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رِجال ثقہ ہیں۔
176 / 25. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : أَصْبَحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ، وَلَيْسَ فِي الْعَسْکَرِ مَاءٌ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَيْسَ فِي الْعَسْکَرِ مَاءٌ. قَالَ : هَلْ عِنْدَکَ شَيئٌ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَاْتِنِي بِهِ. قَالَ : فَأَتَاهُ بِإِنَائٍ فِيْهِ شَيئٌ مِنْ مَاءٍ قَلِيْلٍ. قَالَ : فَجَعَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَصَابِعَهُ فِي فَمِ الإِْنَائِ وَفَتَحَ أَصَابِعَهُ. قَالَ : فَانْفَجَرَتْ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ عُيُوْنٌ، وَأَمَرَ بِـلَالًا رضی الله عنه فَقَالَ : نَادِ فِي النَّاسِ الْوَضُوْئَ الْمُبَارَکَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
25 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 251، 324، الرقم : 2268، 2991، والفريابي في دلائل النبوة، 1 / 75، الرقم : 40.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک غزوہ کے دوران حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت بیدار ہوئے تو لشکر میں پانی نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک صحابی آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! لشکر میں پانی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا : کیا تمہارے پاس تھوڑا سا پانی ہے؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ پانی لے آؤ۔ وہ صحابی آئے تو ان کے پاس ایک برتن تھا جس میں بہت تھوڑا پانی تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مبارک انگلیاں اس برتن میں ڈالیں اور پھر انگلیوں کو پھیلا دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے چشمے پھوٹ پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کے درمیان اعلان کر دو کہ (آؤ اور) مبارک پانی سے وضو کر لو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
177 / 26. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ أَرْعَی غَنَمًا لِعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ فَمَرَّ بِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ فَقَالَ : يَا غُـلَامُ، هَلْ مِنْ لَبَنٍ؟ قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ، وَلَکِنِّي مُؤْتَمَنٌ قَالَ : فَهَلْ مِنْ شَاةٍ لَمْ يَنْزُ عَلَيْهَا الْفَحْلُ فَأَتَيْتُهُ بِشَاةٍ فَمَسَحَ ضَرْعَهَا فَنَزَلَ لَبَنٌ فَحَلَبَهُ فِي إِنَائٍ فَشَرِبَ وَسَقَی أَبَا بَکْرٍ ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ : اقْلِصْ فَقَلَصَ قَالَ : ثُمَّ أَتَيْتُهُ بَعْدَ هَذَا فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، عَلِّمْنِي مِنْ هَذَا الْقَوْلِ قَالَ : فَمَسَحَ رَأْسِي وَقَال : يَرْحَمُکَ اﷲُ فَإِنَّکَ غُلَيِّمٌ مُعَلَّمٌ.
وفي رواية : قَالَ : فَلَقَدْ أَخَذْتُ مِنْ فِيْهِ سَبْعِيْنَ سُوْرَةً مَا نَازَعَنِي فِيْهَا بَشَرٌ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلَی وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ.
26 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 379، الرقم : 3598. 3599، وأبو يعلي في المسند، 8 / 402، الرقم : 4985، وابن حبان في الصحيح، 14 / 432، الرقم : 6504، والطبراني في المعجم الکبير، 9 / 79، الرقم : 8456، والبيهقي الاعتقاد، 1 / 284، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 987، الرقم : 1659، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 33 / 70، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1 / 465، ومحب الدين الطبري، 1 / 464، الرقم : 385، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1 / 366.
’’حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں : میں عقبہ بن معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا ۔ (ایک دن) میرے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گزرے۔ انہوں نے کہا : اے لڑکے کیا دودھ ہے؟ کہتے ہیں۔ میں نے کہا : ہاں ہے۔ لیکن یہ میرے پاس امانت ہے۔ انہوں نے کہا : کیا تمہارے پاس کوئی ایسی بکری ہے جس کے پاس اس کا نر نہ گیا ہو؟ پس میں ان کے پاس ایک (ایسی ہی) بکری لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے تھن پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو اس میں دودھ اتر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو ایک برتن میں دوہا اور وہ دودھ خود بھی نوش فرمایا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی پلایا پھر تھن کو حکم دیا : سکڑ جانا۔ پس وہ سکڑ گیا۔ راوی کہتے ہیں : میں اس کے بعد آپ کے پاس آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے اس قول کی تعلیم دیں۔ کہتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر پر دستِ شفقت پھیرا اور فرمایا : اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے تم ایک سمجھدار لڑکے ہو۔‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک سے ستر سورتیں لیں اور اس چیز میں کوئی فردِ بشر میرا مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ابو یعلی، ابن حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
178 / 27. عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ : سَمِعْتُ شَيْخًا مِنْ قَيْسٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّهُ قَالَ : جَاءَ نَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَعِنْدَنَا بَکْرَةٌ صَعْبَةٌ لاَ يُقْدَرُ عَلَيْهَا قَالَ : فَدَنَا مِنْهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَسَحَ ضَرْعَهَا فَحَفَلَ فَاحْتَلَبَ قَالَ : وَلَمَّا مَاتَ أَبِي جَاءَ وَقَدْ شَدَدْتُهُ فِي کَفَنِهِ وَأَخَذْتُ سُلاَّئَةً فَشَدَدْتُ بِهَا الْکَفَنَ فَقَالَ : لاَ تُعَذِّبْ أَبَاکَ بِالسُّلَّی قَالَهَا حَمَّادٌ : ثَـلَاثًا قَالَ : ثُمَّ کَشَفَ عَنْ صَدْرِهِ وأَلْقَی السُّلَّی ثُمَّ بَزَقَ عَلَی صَدْرِهِ حَتَّی رَأَيْتُ رُضَاضَ بُزَاقِهِ عَلَی صَدْرِهِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ.
27 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 73، الرقم : 20717، والحارث في المسند، 1 / 368، الرقم : 268، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 25، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 282، الرقم : 1733.
’’حماد بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے قیس قبیلے کے ایک بوڑھے آدمی سے سنا وہ اس کو اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں : ہمارے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور ہمارے پاس ایک اونٹنی تھی جو بہت اکھڑ تھی اور ( اس کا دودھ دوہنے کے لیے) اس پر قابو پانا بہت مشکل تھا۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے قریب ہوئے اور اس کے تھن پر دستِ شفقت پھیرا تو اس کا دودھ اتر آیا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا دودھ دوہا۔ راوی کہتے ہیں : جب میرے والد گرامی فوت ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے (اپنے والد کی) میت کو اس کے کفن میں باندھ دیا تھا اور میں نے کھجور کا کانٹا لے کر اس کفن کو سینا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے باپ کو کانٹوں کے ذریعے تکلیف نہ دو۔ حماد نے ایسا تین دفعہ کہا۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے سینے سے کفن ہٹایا، اور کانٹے پھینک دیئے اور اس کے سینے پر (برکت کے لئے) اپنا لعاب دہن مبارک ڈالا، یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب دہن مبارک کے قطرے اس کے سینے پر دیکھے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں جیسا کہ امام ہیثمی نے فرمایا ہے۔
179 / 28. عَنْ بِنْتٍ لِخَبَّابٍ رضی الله عنه قَالَتْ : خَرَجَ خَبَّابٌ فِي سَرِيَةٍ وَکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَتَعَاهَدُنَا حَتَّی کَانَ يَحْلُبُ عَنْزًا لَنَا فَکَانَ يَحْلُبُهَا فِي جَفْنَةٍ لَنَا فَکَانَتْ تَمْتَلِيئُ حَتَّی تَطْفَحَ قَالَتْ : فَلَمَّا قَدِمَ خَبَّابٌ حَلَبَهَا فَعَادَ حِـلَابُهَا إِلَی مَا کَانَ، فَقُلْنَا لِخَبَّابٍ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَحْلُبُهَا حَتَّی تَمْتَلِیئَ جَفْنَتُنَا فَلَمَّا حَلَبْتَهَا نَقَصَ حِـلَابُهَا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُمَا رِجَالُ الصَّحِيْحِِ.
28 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 111، الرقم : 21108، 6 / 372، الرقم : 27142، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 322، الرقم : 31761، والطبراني في المعجم الکبير، 25 / 187، الرقم : 460، والشيباني في الآحاد والمثاني، 6 / 27، الرقم : 3207. 3208، وابن راهويه في المسند، 5 / 236، الرقم : 2382، وابن سعد في الطبقات الکبری، 8 / 290، وابن السري في الزهد، 2 / 409، الرقم : 794، والعسقلاني في الإصابة، 7 / 672، الرقم : 11229، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 312.
’’حضرت خباب کی صاحبزادی بیان کرتی ہیں : حضرت خباب ایک سریہ میں (جہاد کے لئے) نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارا خیال رکھا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ ہماری بکری کا دودھ بھی دوہتے تھے۔ آپ ایک بڑے برتن میں دودھ دیتے تھے اور وہ برتن بھر جاتا یہاں تک کہ چھلکنے لگتا تھا۔ بیان کرتی ہیں : جب حضرت خباب رضی اللہ عنہ واپس آئے اور دودھ دوہا تو اس کا دودھ جتنا تھا اتنا واپس لوٹ آیا۔ ہم نے حضرت خباب سے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو دوہتے تھے تو ہمارا برتن بھر جاتا تھا۔ جب آپ نے دوہا ہے تو اس کا دودھ کم ہو گیا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ ان دونوں کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
180 / 29. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ أَنْسَی الْقُرْآنَ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي أَنْسَی الْقُرْآنَ، فَضَرَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي صَدْرِي ثُمَّ قَالَ : أُخْرُجْ يَا شَيْطَانُ، مِنْ صَدْرِ عُثْمَانَ، فَمَا نَسِيْتُ شَيْئًا بَعْدُ أرِيْدُ حِفْظَهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالنُّمَيْرِيُّ.
29 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 47، الرقم : 8374، والنميري في أخبار المدينة، 1 / 274، الرقم : 877، والحارث في المسند، 2 / 932، الرقم : 1028، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 3.
’’حضرت عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں (جو) قرآن (میں سے یاد کرتا) بھول جاتا۔ تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا : یا رسول اللہ! میں قرآن یاد کرتا ہوں اور بھول جاتا ہوں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سینے پر اپنا دستِ اقدس مارا اور فرمایا : اے شیطان! عثمان کے سینہ سے نکل جا (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) اس کے بعد میں نے جو چیز بھی یاد کرنا چاہی وہ کبھی نہ بھولی۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور نمیری نے روایت کیا ہے۔
181 / 30. عَنْ حَشْرَجِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ حَشْرَجٍ قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيْهِ عَنْ عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو الْمُزَنِيِّ قَالَ : أَصَابَتْنِي رَمْيَةٌ فِي وَجْهِي وَأَنَا أُقَاتِلُ بَيْنَ يَدَي رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ حُنَيْنٍ، فَلَمَّا سَاَلَتِ الدِّمَاءُ عَلَی وَجْهِي وَلِحْيَتِي وَصَدْرِي، تَنَاوَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَسَلَتَ الدَّمَ عَنْ وَجْهِي وَصَدْرِي إِلَی ثُنْدُوَتِي ثُمَّ دَعَا لِي قَالَ حَشْرَجٌ : فَکَانَ يُخْبِرُنَا بِذَلِکَ عَائِذٌ فِي حَيَاتِهِ فَلَمَّا هَلَکَ وَغَسَلْنَاهُ نَظَرْنَا إِلَی مَا کَانَ يَصِفُ لَنَا مِنْ أَمْرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی مُنْتَهَی مَا کَانَ يَقُوْلُ لَنَا مِنْ صَدْرِهِ فَإِذَا غُرَّةٌ سَائِلَةٌ کَغُرَّةِ الْفَرَسِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ لَا بَأْسَ بِهِ.
30 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 677، الرقم : 6486، والطبراني في المعجم الکبير، 81 / 20، الرقم : 32، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 238، الرقم : 285، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 412.
’’حضرت حشرج بن عبد اللہ بن حشرج نے بذریعہ والد اپنے دادا سے روایت کی اور انہوں نے حضرت عائذ بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عائذ بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غزوہ حنین کے روز میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ میں شریک تھا کہ ایک تیر میرے چہرے پر آ کر لگا اور جب خون میرے چہرے ،داڑھی اور چھاتی تک بہنے لگا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر قریب کیا اور اپنے دست مبارک سے میرے چہرے داڑھی اور چھاتی سے خون صاف کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لئے دعا فرمائی ۔ حضرت حشرج بیان کرتے ہیں کہ عائذ انہیں اپنی زندگی میں یہ واقعہ سنایا کرتے تھے جب وہ فوت ہو گئے تو ہم نے انہیں غسل دیا اور ہم نے اس ساری جگہ کو دیکھا جس کے بارے میں وہ بیان کرتے تھے کہ وہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے انہیں مس کیا تھا تو وہ جگہ (دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے) اس طرح چمکدار تھی جس طرح گھوڑے کی پیشانی چمکدار ہوتی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے ایسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے جس میں کوئی نقص نہیں ہے۔
182 / 31. عَنْ صَفِيَةَ بِنْتِ مَجْزَأَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ أَبَا مَحْذُوْرَةَ رضی الله عنه کَانَتْ لَهُ قُصَّةٌ فِي مُقَدَّمِ رَأْسِهِ، إِذَا قَعَدَ أَرْسَلَهَا، فَتَبْلُغُ الْأَرْضَ، فَقَالُوْا لَهُ : أَلَا تَحْلِقُهَا؟ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَسَحَ عَلَيْهَا بِيَدِهَ، فَلَمْ أَکُنْ ِلأَحْلِقَهَا حَتَّی أَمُوْتَ فَلَمْ يَحْلِقْهَا حَتَّی مَاتَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالطَّبَرَانِيُّ.
31 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 589، الرقم : 6181، والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 177، الرقم : 2403، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 176، الرقم : 6746، وابن حبان في الثقات، 4 / 386، الرقم : 3489، والمزي في تهذيب الکمال، 34 / 258، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 3 / 119، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 165.
’’حضرت صفیہ بنت مجزاۃ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ابو محذورہ کے سر کے بالوں کے اگلے حصے میں ایک طویل لٹ تھی۔ جب وہ بیٹھتے تھے تو اسے نیچے چھوڑ دیتے تھے اور وہ لٹ زمین تک پہنچ جاتی تھی۔ لوگ ان سے کہتے تھے : آپ اسے منڈواتے کیوں نہیں؟ تو وہ فرماتے : ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان بالوں پر اپنا دست شفقت پھیرا تھا پس میں ان بالوں کو اپنی موت تک نہیں کٹواؤں گا پس انہوں نے اپنی موت تک انہیں نہیں کٹوایا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، بخاری نے التاريخ الکبير میں اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
183 / 32. عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رضی الله عنه يَقُوْلُ : کُنْتُ أَصْحَابِ الصُّفَةِ فَشَکَی أَصْحَابِي الْجُوْعَ فَقَالُوْا : يَا وَاثِلَةُ، اذْهَبْ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ، فَاسْتَطْعَمْ لَنَا فَأَتَيْتُ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ أَصْحَابِي يَشْکُوْنَ الْجُوْعَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا عَائِشَةُ، هَلْ عِنْدَکِ مِنْ شَيئٍ؟ قَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا عِنْدِي إِلَّا فُتَاتُ خُبْزٍ قَالَ : هَاتِيْهِ، فَجَائَتْ بِجَرَابٍ، فَدَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِصَحْفَةٍ، فَأَفْرَغَ الْخُبْزَ فِي الصَّحْفَةِ، ثُمَّ جَعَلَ يُصْلِحُ الثَّرِيْدَ بِيَدَيْهِ وَهُوَ يَرْبُوْ حَتَّی امْتَـلَأَتِ الصَّحْفَةُ فَقَالَ : يَا وَاثِلَةُ، اذْهَبْ فَجِيْ بِعَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِکَ وَأَنْتَ عَاشِرُهُمْ، فَذَهَبْتُ، فَجِئْتُ بِعَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِي وَأَنَا عَاشِرُهُمْ فَقَالَ : اجْلَسُوْا خُذُوْا بِسْمِ اﷲِ خُذُوْا مِنْ حَوَالَيْهَا وَلَا تَأخُذُوْا مِنْ أَعْـلَاهَا فَإِنَّ الْبَرَکَةَ تَنْحَدِرُ مِنْ أَعْـلَاهَا فَأَکَلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا ثُمَّ قَامُوْا وَفِي الصَّحْفَةِ مِثْلَ مَا کَانَ فِيْهَا ثُمَّ جَعَلَ يُصْلِحُهَا بِيَدِهِ وَهِيَ تَرْبُوْ حَتَّی امْتَـلَأَتْ فَقَالَ : يَا وَاثِلَةُ، اذْهَبْ فَجِيْ بِعَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِکَ، فَذَهَبْتُ، فَجِئْتُ بِعَشْرَةٍ قَالَ : اجْلَسُوْا، فَجَلَسُوْا، فَأَکَلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا ثُمَّ قَامُوْا قَالَ : اذْهَبْ فَجِيْ بِعَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِکَ فَذَهَبْتُ فَجِئْتُ بِعَشْرَةٍ، فَفَعَلُوْا مِثْلَ ذَلِکَ فَقَالَ : هَلْ بَقِيَ أَحَدٌ؟ قُلْتُ : نَعَمْ، عَشْرَةٌ قَالَ : اذْهَبْ فَجِيْ بِهِمْ، فَذَهَبْتُ، فَجِئْتُ بِهِمْ فَقَالَ : اجْلَسُوْا فَجَلَسُوْا، فَأَکَلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا ثُمَّ قَامُوْا وَبَقِيَ فِي الصَّحْفَةِ مِثْلَ مَا کَانَ ثُمَّ قَالَ : يَا وَاثِلَةُ، اذْهَبْ بِهَذَا إِلَی عَائِشَةَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ کُلَّهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادَيْنِ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
32 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 86، الرقم : 208، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2 / 22، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 22 / 223، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 305.
’’حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں اصحابہ صفہ میں سے تھا۔ میرے دوستوں نے بھوک کی شکایت کی او رکہنے لگے : اے واثلہ! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جاؤ اور ہمارے لیے کھانا طلب کرو۔ پس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آیا اور عرض کیا : یارسول اﷲ! میرے دوست بھوک کی شکایت کرتے ہیں (پس انہیں کچھ کھانے کے لیے دیں) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ انہوں نے عرض کیا یارسول اﷲ! میرے پاس روٹی کے چند ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہی ٹکڑے لے آؤ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا توشہ دان لے آئیں۔ پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تھال منگوایا اور روٹی کے ان ٹکڑوں کو اس تھال میں ڈال دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دستِ مبارک سے ثرید بنانے لگے اور وہ بڑھنا شروع ہوا یہاں تک کہ تھال بھر گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے واثلہ! جاؤ اور اپنے دس ساتھیوں کو لے آؤ اور تم ان میں سے دسویں ہو۔ پس میں گیا اور دس ساتھیوں کو لایا اور میں ان میں سے دسواں تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیٹھو اور بسم اﷲ پڑھ کر ارد گرد سے کھانا کھاؤ اور اوپر سے نہ کھاؤ کیونکہ برکت اوپر سے نیجے اترتی ہے۔ پس انہوں نے کھایا یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئے، پھر وہ کھڑے ہوئے اور تھال میں کھانا اتنا ہی تھا جتنا (کھانے سے) پہلے تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے اپنے دستِ مبارک سے درست کرنے لگے اور یہ بڑھنے لگا یہاں تک کہ تھال بھر گیا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے واثلہ! جاؤ اور اپنے دوستوں میں سے دس کو لے آؤ پس میں گیا اور دس کو لے کر آیا۔ آپ نے فرمایا : بیٹھو! پس وہ بیٹھ گئے انہوں نے کھایا یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئے پھر وہ کھڑے ہوئے (اور چلے گئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جاؤ اور اپنے دوستوں میں سے دس کو لاؤ۔ پس میں گیا اور دس افراد کو لایا پس انہو ں نے بھی ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیا کوئی شخص باقی رہ گیا ہے؟ میں نے عرض کیا : دس رہ گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جاؤ اور ان کو بھی لاؤ، پس میں گیا اور ان کو بھی لایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیٹھو وہ بیٹھ گئے اور انہوں نے پیٹ بھر کر کھایا، پھر وہ کھڑے ہوئے (اور چلے گئے) اور ٹرے میں اتنا ہی کھانا تھا جتنا پہلے تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے واثلہ! اس کھانے کو عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس لے جاؤ۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس مکمل حدیث کو امام طبرانی نے دو سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔
184 / 33. عَنْ أَبِي طَلْحَةَ رضی الله عنه قَالَ : دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَعَرَفْتُ فِي وَجْهِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم الْجُوْعَ، فَخَرَجْتُ حَتَّی أمِّ سُلَيْمٍ. وَهِيَ أمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه کَانَتْ تَحْتَ مَالِکٍ أَبِي أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه. فَقُلْتُ : يَا أمَّ سُلَيْمٍ، إِنِّي قَدْ عَرَفْتُ فِي وَجْهِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم الْجُوْعَ فَهَلْ عِنْدَکِ مِنْ شَيئٍ؟ قَالَتْ : عِنْدِي شَيئٌ وَأَشَارَتْ بِکَفِّهَا فَقُلْتُ لَهَا : اصْنَعِي وَإِنْعَمِي فَأَرْسَلَتْ أَنَسًا إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : سَارَّهُ فِي أذُنِهِ وَادْعُهُ فَلَمَّا أَقْبَلَ أَنَسٌ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : هَذَا رَجُلٌ قَدْ جَاءَ بِخَيْرٍ، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَرْسَلَکَ أَبُوْکَ يَدْعُوْنَا يَا بُنَيَّ؟ قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لِأَصْحَابِهِ : اذْهَبُوْا بِسْمِ اﷲِ قَالَ : فَأَدْبَرَ أَنَسٌ يَشْتَدُّ حَتَّی أَتَی أَبَا طَلْحَةَ فَقَالَ : هَذَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَدْ أَتَاکَ النَّاسُ قَالَ : فَخَرَجْتُ حَتَّی لَقِيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عِنْدَ الْبَابِ عَلَی مُسْتَرَاحِ الدَّرْجَةِ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَاذَا صَنَعْتَ بِنَا إِنَّمَا عَرَفْتُ فِي وَجْهِکَ الْجُوْعَ، فَصَنَعْنَا لَکَ شَيْئًا تَأکُلُهُ قَالَ : ادْخُلْ وَأَبْشِرْ قَالَ : فَأَخَذَهَا رَسُوْلُ اﷲِ فَجَمَعَهَا فِي الصَّحْفَةِ بِيَدِهِ ثُمَّ أَصْلَحَهَا فَقَالَ : هَلْ مِنْ؟ کَأَنَّهُ يَعْنِي الْأدْمَ. قَالَ : فَأَتَوْهُ بِعُکَّتِهِمْ فِيْهَا شَيئٌ أَوْ لَيْسَ فِيْهَا شَيئٌ. فَقَالَ بِهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِيَدِهِ : فَاسْکُبْ مِنْهَا السَّمْنَ ثُمَّ قَالَ : أَدْخِلْ عَلَيَّ عَشْرَةً عَشْرَةً (وفي رواية الطبراني : وَهُمْ زُهَاءَ مِائَةٍ) فَأَکَلُوْا کُلُّهُمْ وَشَبِعُوْا. وَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لِلْفَضْلِ الَّذِي فَضَلَ : کُلُوْا أَنْتُمْ وَعِيَالُکُمْ فَأَکَلُوْا وَشَبِعُوْا.
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُمَا رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
33 : أخرجه أبو يعلی في المسند، 3 / 17، الرقم : 1426، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 103، الرقم : 4729، وفي المعجم الأوسط، 3 / 152، الرقم : 2765، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 306.
’’حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر بھوک دیکھی پس میں حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنہا کے پاس گیا جو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ماں اور مالک بن انس رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔ میں نے عرض کیا : اے ام سلیم! میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہر مبارک پر بھوک کے آثار دیکھے ہیں کیا آپ کے پاس (کھانے والی) کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا : میرے پاس کچھ ہے اور اپنی ہتھیلی کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے ان سے کہا : تیار کرو اور خوش رہو (اور پریشان نہ ہو) میں (کھانا تیار ہونے کے بعد) حضرت اُم سلیم رضی اﷲ عنھا نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بھیجا اور کہا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوش مبارک میں راز داری سے کہیں اور صرف آپ ان کو بلا لائیں۔ جب حضرت انس رضی اللہ عنہ آئے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ شخص خیر لایا ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے والد نے تمہیں ہمیں بلانے کے لیے بھیجا ہے؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : پس رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : اﷲ کا نام لے کر جاؤ راوی کہتے ہیں : پس حضرت انس رضی اللہ عنہ گرفتہ دل کے ساتھ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس واپس آئے اور کہا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے پاس لوگوں کو لائے ہیں۔ (حضرت ابو طلحہ کہتے ہیں) میں نکلا یہاں تک کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دروازے کے پاس پائیدان پر دیکھا میں نے (پریشانی کی حالت میں) عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ نے ہمارے ساتھ کیا کر دیا (یعنی اتنے مہمانوں کی مہمان نوازی کیسے کریں گے؟) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر بھوک کے آثار دیکھے تو ہم نے صرف آپ کے لیے کچھ تیار کیا تاکہ آپ اسے تناول فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ہماری پریشانی بھانپتے ہوئے) ارشاد فرمایا : اندر داخل ہو اور خوش ہو جاؤ۔ راوی کہتے ہیں، حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کھانے کو پکڑا اور اپنے دستِ مبارک سے اسے تھال میں اکٹھا فرمایا، پھر اسے درست فرمایا اور فرمایا : کیا تمہارے پاس سالن ہے؟ وہ اپنا گھی کا مشکیزہ لائے (یہ معلوم نہیں کہ) اس میں کوئی چیز تھی یا نہیں؟ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : اس سے گھی نچوڑو پھر فرمایا : میرے پاس دس دس آدمی لاؤ۔ (اور طبرانی کی روایت میں ہے۔ اور وہ افراد سو کے قریب تھے) پس ان سب نے سیر ہو کر کھایا اور بچے ہوئے کھانے کے بارے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کھانے کو تم اور تمہارے اہلِ خانہ کھالیں۔ پس انہوں نے سیر ہو کر کھایا ۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ ان دونوں کے راوی صحیح حدیث کے ہیں۔
185 / 34. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : أَخْطَأَنِي الْعِشَاءُ ذَاتَ لَيْلَةٍ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَخْطَأَنِي أَنْ يَدْعُوَنِي أَحَدٌ مِنْ إِخْوَانِنَا، فَصَلَّيْتُ الْعِشَاءَ ثُمَّ أَرَدْتُ أَنْ أَنَامَ فَلَمْ أَقْدِرْ وَأَرَدْتُ أَنْ أُصَلِّيَ فَلَمْ أَقْدِرْ، فَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَتَيْتُهُ فَإِذَا هُوَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي فَصَلَّی ثُمَّ اسْتَنَدَ إِلَی السَّارِيَةِ الَّتِي کَانَ يُصَلِّي إِلَيْهَا فَقَالَ : مَنْ هَذَا؟ أَبُوْ هُرَيْرَةَ، قُلْتُ : نَعَمْ. قَالَ : أَخْطَأَکَ الْعِشَائُ مَعَنَا اللَّيْلَةَ قَلْتُ : نَعَمْ، قَالَ : انْطَلِقْ إِلَی الْمَنْزِلِ فَقُلْ : هَلُمُّوْا الطَّعَامَ الَّذِي عِنْدَکُمْ، فَأَعْطُوْنِي صَحْفَةً فِيْهَا عَصِيْدَةٌ بَتَمْرٍ، فََأَتَيْتُ بِهَا النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَوَضَعْتُهَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ لِي : أدْعُ لِي أَهْلَ الْمَسْجِدِ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي : اَلْوَيْلُ لِي مِمَّا أَرَی مِنْ قِلَّةِ الطَّعَامِ وَالْوَيْلُ لِي مِنَ الْمَعْصِيَةِ، فَـآتِي الرَّجُلَ وَهُوَ نَائِمٌ فَأُوْقِظُةُ وَأَقُوْلُ أَجِبْ وَآتِي الرَّجُلَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَأَقُوْلُ أَجِبْ حَتَّی اجْتَمَعُوْا عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَوَضَعَ أَصَابِعَهُ فِيْهَا وَغَمَزَ نَوَاحِيْهَا وَقَالَ : کُلُوْا بِسْمِ اﷲِ، فَأَکَلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا وَأَکَلْتُ حَتَّی شَبِعْتُ فَقَالَ : خُذْهَا يَا أَبَا هَرٍّ، فَارْدُدْهَا إِلَی آلِ مُحَمَّدٍ فَمَا فِي آلِ مُحَمَّدٍ طَعََامٌ يَأْکُلُهُ ذُوْکَبِدٍ غَيْرُهُ، أَهْدَاهَا إِلَيْنَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَأَخَذْتُ الصَّحْفَةَ، فَرَفَعْتُهَا، فَإِذَا هِيَ کَهَيْئَتِهَا حِيْنَ وَضَعْتُهَا إِلَّا أَنَّ فِيْهَا آثَارَ خُطُوْطِ أَصَابِعِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم .
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
34 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 240، الرقم : 7387، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 308.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں : ایک رات میری عشاء کی نماز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ پڑھنے سے رہ گئی اور میرے دوستوں میں سے بھی کسی نے مجھے (نماز کے لئے) نہیں بلایا۔ میں نے عشاء کی نماز پڑھی اور پھر سونے کا ارادہ کیا مگر میں سو نہ سکا اور میں نے ارادہ کیا کہ میں نماز پڑھوں مگر میں نماز نہ پڑھ سکا۔ اس دوران میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارک کے پاس ایک آدمی دیکھا تو میں اس کے پاس آیا۔ دیکھا تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے جو نماز ادا فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی پھر اس ستون کے ساتھ ٹیک لگائی جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منہ کر کے نماز پڑھتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : یہ کون ہے؟ حضرت ابوہریرہ ہیں۔‘‘ میں نے کہا : ’’جی آقا میں ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آج رات تمہاری عشاء ہمارے ساتھ رہ گئی۔ میں نے عرض کیا : جی آقا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ہمارے) گھر جاؤ اور کہو : جو کھانا تمہارے پاس ہے وہ کھانا لاؤ۔ پس انہوں نے مجھے ایک تھال دی جس میں کھجوروں کا حلوہ تھا۔ میں وہ ٹرے لے کر بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور اس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس اہلِ مسجد کو بلا لاؤ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا : میرے لئے مصیبت ہے جو میں کھانے کی قلت دیکھ رہا ہوں اور میرے لئے (نہ بلانے کی) نافرمانی میں بھی مصیبت ہے۔ پس میں (صحابہ صفہ میں سے) ایک صاحب کے پاس آتا اور وہ سویا ہوتا۔ میں اسے جگاتا اور اسے کہتا دعوت میں شرکت کے لئے آؤ۔ اور پھر کسی اور آدمی کے پاس آتا تو وہ نماز پڑھ رہا ہوتا تو میں کہتا : دعوت میں شرکت کے لئے آؤ۔ یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگلیاں اس میں رکھ دیں اور اس کے اردگرد کو ہاتھ لگایا اور فرمایا : اﷲ کا نام لے کر کھاؤ۔ پس انہوں نے کھایا یہاں تک کہ وہ سب سیر ہو گئے اور میں نے بھی کھایا یہاں تک کہ سیر ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوہریرہ! اس (کھانے) کو پکڑو اور آل محمد کو واپس لوٹا کر آؤ کیونکہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اس کے سوا کوئی کھانے کی چیز نہیں جسے وہ کھا سکیں۔ یہ کھانا بھی ایک انصاری نے ہدیہ دیا ہے۔ پس میں نے تھال کو پکڑا اور اسے اٹھایا تو دیکھا تو یہ اسی حالت میں تھا جس حالت میں میں نے اسے رکھا تھا مگر اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں کے نشانات تھے۔‘‘
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔
186 / 35. عَنْ صَفِيَةَ رضي اﷲ عنها زَوْجِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَتْ : جَاءَ نِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي يَوْمٍ فَقَالَ : أَعِنْدَکِ يَا بِنْتَ حُيَيٍّ شَيئٌ؟ فَإِنِّي جَائِعٌ فَقُلْتُ : لَا وَاﷲِ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِلاَّ مُدٌّ مِنْ طَحِيْنٍ قَالَ : فَأَسْخِنِيْهِ قَالَتْ : فَجَعَلْتُهُ فِي الْقِدْرِ وَأَنْضَجْتُهُ فَقُلْتُ : قَدَ نَضَجَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَقَالَ : أَتَعْلَمِيْنَ فِي نَحْيِ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ شَيْئًا؟ فَقُلْتُ : مَا أَدْرِي يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَتْ : فَذَهَبَ هُوَ بِنَفْسِهِ حَتَّی أَتَی بَيْتَهَا فَقَالَ : فِي نَحْيِکِ يَا ابْنَةَ أَبِي بَکْرٍ شَيئٌ؟ قَالَتْ : لَيْسَ فِيْهِ إِلَّا قَلِيْلٌ، فَجَاءَ بِهِ هُوَ بِنَفْسِهِ، فَعَصَرَ حَافَتَهُ فِي الْقِدْرِ حَتَّی رَأَيْتُ الَّذِي يَخْرُجُ مَوْضِعَ يَدِهِ فَقَالَ : بِسْمِ اﷲِ ثُمَّ دَعَا بِالْبَرَکَةِ فَقَالَ : ادْعِي أَخَوَاتِکِ، فَإِنِّي أَعْلَمُ أَنَّهُنَّ يَجِدْنَ مِثْلَ مَا أَجِدُ، فَدَعَوْتُهُنَّ فَأَکَلْنَا حَتَّی شَبِعْنَا ثُمَّ جَاءَ أَبُوْ بَکْرٍ فَاسْتَأْذَنَ، فَدَخَلَ ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ آخَرُ قَالَتْ : فَأَکُلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا وَفَضَلَ عَنْهُمْ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
35 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 262، الرقم : 6360، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 309.
’’ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں : ایک دن میرے پاس رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : اے بنت حُيَی! مجھے بھوک لگی ہے۔ کیا تمہارے پاس کوئی کھانے والی چیز ہے؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! نہیں، میرے پاس کھانے والی کوئی چیز نہیں سوائے ایک مُد (یعنی تقریباً ڈیڑھ کلو) آٹے کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اسے پکاؤ۔ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا نے کہا : میں نے اس کو ہنڈیا میں ڈال دیا اور اسے پکایا پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ پک گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم بنت ابی بکر (یعنی حضرت عائشہ) کے گھی کے مشکیزے کے بارے میں کچھ جانتی ہو؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! مجھے علم نہیں۔ سیدہ صفیہ رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے حجرے میں بذات خود تشریف لے گئے اور فرمایا : اے ابو بکر کی صاحبزادی! آپ کے مشکیزے میں کوئی شے ہے؟ انہوں نے کہا : اس میں تھوڑا سا (گھی) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذات خود اس مشکیزے کو لے کر آئے اور اس کے کنارے کو ہنڈیا میں نچوڑا یہاں تک کہ میں نے وہ (گھی) دیکھا جو آپ کے ہاتھ کی جگہ سے نکل رہا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی بہنوں کو بلاؤ، مجھے علم ہے وہ بھی (بھوک) محسوس کر رہی ہیں جو میں محسوس کر رہا ہوں۔ پس میں نے ان کو بلایا اور ہم نے کھایا یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور انہوں نے اجازت چاہی پھر داخل ہوئے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے پھر کوئی اور آدمی آیا۔ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : ان سب نے سیر ہو کھایا اور ان سے بچ بھی گیا۔‘‘
اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔
187 / 36. عَنْ قَيْسِ بْنِ النُّعْمَانِ السَّکُوْنِيِّ رضی الله عنه قَالَ : انْطَلَقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَمَعَهُ أَبُوْ بَکْرٍ مُسْتَخْفِيَانِ مِنْ قُرَيْشٍ فَمَرُّوْا بِرَاعٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : هَلَ مِنْ شَاةٍ ضَرَبَهَا الْفَحْلُ ؟ قَالَ : لاَ وَلَکِنْ هَاهُنَا شَاةٌ قَدْ خَلَّفَهَا الْجَهْدُ قَالَ : ائْتِنِي بِهَا، فَأَتَاهُ بِهَا، فَمَسَحَ ضَرْعَهَا وَدَعَا بِالْبَرَکَةِ فَحَلَبَ، فَسَقَی أَبَا بَکْرٍ ثُمَّ حَلَبَ، فَسَقَی الرَّاعِيَ ثُمَّ حَلَبَ فَشَرِبَ فَقَالَ لَهُ : تَاﷲِ، مَا رَأَيْتُ مِثْلَکَ مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ : إِنْ أَخْبَرْتُکَ تَکْتُمُ عَلَيَّ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : أَنَا مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ قَالَ : أَنْتَ الَّذِي تَزْعَمُ قُرَيْشٌ أَنَّکَ صَابِئِيٌّ قَالَ : إِنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ ذَلِکَ قَالَ : فَإِنِّي أَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اﷲِ وَإِنَّهُ لَا يَقْدِرُ عَلَی مَا فَعَلْتَ إِلاَّ رَسُوْلٌ ثُمَّ قَالَ لَهُ : أَتَّبِعُکَ. فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَّا الْيَوْمَ فَـلَا وَلَکِنْ إِذَا سَمِعْتُ إِنَّا قَدْ ظَهَرْنَا فَائْتِنَا فَأَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم بَعْدَ مَا ظَهَرَ بِالْمَدِيْنَةِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ يَعْلَی مُخْتَصَرًا، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ، وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : أَخْرَجَهُ الطَّبَرَانِيُّ وَسَنَدُهُ صَحِيْحٌ.
36 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 343، الرقم : 874، وأبو يعلی في المسند، 1 / 106، الرقم : 114. 115، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 8 / 362، الرقم : 726، وفي الإصابة، 5 / 505، الرقم : 7248، والمزي في تهذيب الکمال، 24 / 85، الرقم : 4924، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 312.
’’حضرت قیس بن نعمان سکونی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ قریش سے چھپتے ہوئے چلے۔ وہ ایک چرواہے کے پاس سے گزرے۔ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کوئی دودھ دینے والی بکری ہے اس نے کہا : نہیں لیکن یہاں ایک بکری ہے جو کمزوری کے باعث پیچھے رہ گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے میرے پاس لاؤ۔ وہ چرواہا اس کو آپ کے پاس لایا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے تھن پر دستِ مبارک پھیرا اور برکت کی دعا فرمائی پھر اس سے دودھ دوہا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پلایا، پھر دودھ دوہا اور چرواہے کو پلایا پھر دودھ دوہا اور خود نوش فرمایا۔ چرواہے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : اللہ کی قسم میں نے آپ جیسا (عظیم المرتبت شخص) کوئی نہیں دیکھا۔ آپ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر میں تمہیں خبر دوں تو تم اس بات کو راز میں رکھوگے۔ اس چرواہے نے کہا : جی ٹھیک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں۔ اس نے کہا : آپ وہی ہستی ہیں جن کے بارے میں قریش خیال کرتے ہی کہ وہ بے دین ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ یہی بات کہتے ہیں۔ چرواہے نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو کام آپ نے کیا ہے اس پر ایک رسول کے سوا کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا۔ پھر اس نے کہا : میں آپ کی پیروی کروں گا تو اس کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا : آج نہیں لیکن جب تم سنو کہ ہم غالب آ گئے ہیں تو ہمارے پاس آنا۔ بس یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ پر غالب آ گئے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور ابو یعلی نے مختصراً روایت کیا ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔ اور امام عسقلانی نے فرمایا کہ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved