امام احمد بن محمد القسطلانی رحمۃ اللہ علیہ ’’المواھب اللدنیۃ،، میں رقم طراز ہیں کہ شیخ عبداﷲ بن ابی جمرہ اپنی کتاب ’’بہجۃ النفوس،، میں اور امام ابن سبع ’’شفاء الصدور،، میں سیدنا کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب اﷲ تعالی نے بشریت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تخلیق فرمانا چاہا تو جبریل امین کو ارشاد فرمایا کہ وہ زمین کے دل اور سب سے اعلٰی مقام کی مٹی لے آئے تاکہ اسے منور کیا جائے :
فهبط جبريل في ملائکةالفردوس و ملائکة الرفيع الاعلٰي فقبض قبضة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من موضع قبره الشريف وهي بيضاء منيرة فعجنت بماء التسنيم في معين أنهار الجنة حتي صارت کالدرة البيضاء لها شعاع عظيم.
پس جبریل علیہ السلام مقام فردوس اور رفیع اعلیٰ کے فرشتوں کے ساتھ اترے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار اقدس کی جگہ سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت مطہرہ کے لیے مٹی حاصل کی۔ وہ سفید رنگ کی چمکدار مٹی تھی پھر اسے جنت کی رواں نہروں کے دھلے اور اجلے پانی سے گوندھا گیا اور اسے اس قدر صاف کیا گیا کہ وہ سفید موتی کی طرح چمکدار ہوگئی اور اس میں سے نور کی عظیم کرنیں پھوٹنے لگیں۔
(المواهب اللدنية، 1 : 8)
اس کے بعد ملائکہ نے اسے لے کر عرش الہی اور کرسی وغیرہ کا طواف کیا۔ بالآخر تمام ملائکہ اورجمیع مخلوقات عالم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی پہچان ہوگئی۔ حضرت ابن عباس سے اس ضمن میں اس قدر مختلف منقول ہے کہ آپ کے لیے خاک مبارک سرزمین مکہ کے مقام کعبہ سے حاصل کی گئی۔ صاحب عوارف المعارف نے اس کی تائید کی ہے۔
شیخ یوسف بن اسماعیل النبہانی رحمۃ اللہ علیہ بھی جواہرالعارف السید عبداﷲ میر غنی کے تحت ان کی کتاب’’ الاسئلۃ النفسیۃ،، کے حوالے سے اس امر کی تائید کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکر بشریت بھی نور کی طرح لطیف تھا۔ سورج کی دھوپ اور چاند کی روشنی میں آپ کا سایہ نہ تھا۔ جیساکہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح کی ہے :
إنه کان لا ظل لشخصه فی شمس ولاقمر لأنه کان نورا.
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیکر اقدس کا سورج کی دھوپ اور چاند کی چاندنی میں بھی سایہ نہ تھا کیونکہ آپ مجسم نور تھے۔
(الشفاء، 1 : 522)
اس کی وضاحت میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح الشفاء میں فرماتے ہیں کہ یہ بات درست ہے، کیونکہ نور کا سایہ عدم جرمیت کی وجہ سے نہیں ہوتا۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی اصول کے تحت مکتوبات میں اس امر کی تصریح کرتے ہیں اور امام نسفی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر المدارک میں یہی بات سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں یوں روایت کی ہے :
إن اﷲ ما أوقع ظلک علی الارض لئلا يضع إنسان قدمه علی ذالک الظل.
یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک اﷲ تعالیٰ نے آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑنے دیا تاکہ کسی شخص کا قدم آپ کے سایہ مبارک پر نہ آئے۔
(تفسيرالمدارک، 3 : 135)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت مطہرہ کی اس پاکیزہ اور نورانی جوہر کی حالت کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکر اقدس سایہ سے پاک ہونے کے علاوہ اس امر سے بھی پاک تھا کہ اس پر کبھی مکھی بیٹھے۔ جیسا کہ کتب سیر و فضائل میں صراحتاً منقول ہے :
إن الذباب کان لا يقع علی جسده و لا ثيابه.
مکھی نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد اقدس پر بیٹھتی تھی اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لباس پر۔
(الشفاء، 1 : 522)
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی :
لأن اﷲ عصمک من وقوع الذباب علی جلدک لأنه يقع علي النجاسات.
بے شک اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسم پر مکھی کے بیٹھنے سے بھی پاک رکھا ہے کیونکہ وہ نجاستوں پر بیٹھتی ہے۔
(تفسيرالمداک، 3 : 134)
ان مقامات پر بے شک دیگر حکمتوں کی نشان دہی کی گئی ہے، مگر یہ امر تو واضح ہوجاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت مطہرہ کی لطافت و نظافت جو اس جوہری حالت کی آئینہ دار تھی، اس کا عالم کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیکر بشریت سے ہمہ وقت خوشگوار مہک آتی تھی۔ پسینہ مبارک کو لوگ خوشبو کے لیے محفوظ کرتے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تاریخ کبیر میں لکھتے ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس راستے سے گزر جاتے لوگ فضا میں رچی ہوئی خوشبوؤں سے پہچان لیتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادھر تشریف لے گئے ہیں۔ اپنا دست مبارک کسی کے سر یا بدن سے چھو دیتے تو وہ بھی خوشبو سے پہچانا جاتا۔ الغرض ان تمام امور سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ بشریت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی تخلیق کے لحا ظ سے ہی اعلیٰ، نورانی اور روحانی لطائف سے معمور تھی۔ گویا یہ تخلیق بشریت کے ارتقائی مراحل کا وہ نقطۂ کمال تھا جسے آج تک کوئی نہیں چھو سکا۔ یہ اعجاز و کمال اس شان کیساتھ فقط بشریت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی نصیب ہوا۔
لفظ مصطفیٰ کا مادہ صفو یا صفا ہے جس کے معنی ہیں :
خلوص الشیء من الشوب.
کسی شے کا ملاوٹ سے بالکل پاک ہونا۔
(المفردات : 487)
اسی سے الاصطفاء ہے، جس کے معنی استصفاء (تناول الصفو، تناول صفوالشیئ، کسی شے کی انتہائی صاف حالت کو حاصل کرنا) کے ہیں۔ جیسے الاختیار کے معنی تناول خیرالشیء کے آتے ہیں۔ یہاں ایک اہم نکتہ قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ لفظ مصطفیٰ کا معنی منتخب اور اصطفاء کا معنی منتخب کرنا بھی ہے۔ لغت میں اجتباء کے بھی یہی معنی آتے ہیں۔ اس لحاظ سے مصطفیٰ اور مجتبٰی کو بالعموم ہم معنی اور مترادف تصور کیا جاتا ہے۔ مگر فی الحقیقت دونوں میں نہایت ہی لطیف فرق ہے، جو ہم یہاں واضح کرنا چاہتے ہیں :
تخصيصه إياه بفيض إلهی يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعی من العبد.
کسی شخص کو اس فیضان الٰہی کی بنا پر بطور خاص چن لینا اور بندے کی کوشش اور کسب کے بغیر اسے نعمتیں عطا کرنا۔
(المفردات : 176)
اجتباء میں بندہ بغیر کسب کے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی فیضان کی بناء پر منتخب کیا جاتا ہے۔ اس انتخاب میں بھی منشاء محض اور وہب خالص کارفرما ہوتا ہے۔ یہ انتخاب بندے کی زندگی میں کسی وقت بھی ہوسکتا ہے، ضروری نہیں کہ شروع سے ہی ہو۔ جبکہ اصطفاء میں انتخاب تخلیق کے وقت سے ہی عمل میں آجاتا ہے۔
إيجاده تعالٰی إياه صافياً عن الشوب الموجود في غيره.
اللہ تعالی کا کسی کو بوقت تخلیق ہی ہر قسم کی میل اور ملاوٹ سے پاک کردینا جو دوسروں میں پائی جاتی ہے۔
(المفردات : 488)
اطفاء میں بھی انتخاب اور چناؤ بندے کے کسب اور کوشش کے بغیر محض وہب الٰہی کے طور پر ہوتا ہے۔ مگر یہ بعد میں کسی وقت نہیں بلکہ تخلیق اور ایجاد کے وقت سے ہی ہوجاتا ہے۔ اس لیے اسے بوقت تخلیق ہی ہرقسم کے میل اور کثافت سے پاک و صاف کرلیا جاتا ہے اور وہ پیکر جب معرض وجود میں آتا ہے تو پہلے ہی سے ہر کثافت سے مصفّٰی ہر میل سے مزکیّٰ اور ہر عیب سے منزہ ہوتا ہے، کیونکہ اس کی تخلیق ہی پیکر صفا کے طور پر ہوتی ہے۔ اس لیے اسے مصطفیٰ کہا جاتا ہے۔ یہ اصطفاء اور انتخاب وقت ایجاد ہی سے ہوچکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خمیر بشریت تیار ہوا تو اسے پہلے ہی سے صفو یعنی صفائی، نظافت اور لطافت کے اس مقام بلند تک پہنچا دیا گیا کہ عام خلق میں اس کی کوئی نظیر اور مثال نہ تھی۔ بلکہ ملائکہ اور ارواح کو جو لطافت، تزکیہ اور نظافت اپنی نورانیت کے باعث نصیب ہوتی ہے، وہ سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیکر بشریت کو عطا کردیا گیا۔ یہ آپ کے مقام اصطفاء کا بنیادی تقاضا تھا۔ بنابریں ہمارا لعاب، پسینہ، خون اور فضلات وغیرہ جو جسمانی کثافتوں کے باعث غلیظ ناپاک یا بیماری کا باعث ہوتے ہیں، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد اطہر کے لئے انہیں بھی پاک اور معطر بلکہ باعث شفاء بنایا گیا ہے، جیسا کہ متعدد کتب حدیث و فضائل سے ثابت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ، سہل بن سعد ساعدی، سلمہ رضی اللہ عنہ، یزید بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ، عمرو بن معاد انصاری رضی اللہ عنہ، بشیر بن عقربہ الجہنی رضی اللہ عنہ، محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ، ابوامامہ رضی اللہ عنہ، وائل بن حجر رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ، ہمام بن نفیل السعدی رضی اللہ عنہ، عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ، عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ، اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ، ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ، عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ، مالک بن سنان رضی اللہ عنہ، سعید بن منصور رضی اللہ عنہ، عمرو بن السائب رضی اللہ عنہ، سفینہ رضی اللہ عنہا، جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ، ام ایمن رضی اللہ عنہا، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ و صحابیات سے اس باب میں اس قدر احادیث اور روایات مروی ہیں کہ کوئی بھی سلیم الطبع شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا۔ اس نوعیت کی احادیث صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، صحیح ابن حبان، طبرانی، مسند احمد بن حنبل، سنن ابن ماجہ، سنن بیہقی، ابونعیم، معجم بغوی، مسند بزار، مستدرک حاکم، دارقطنی، الاصابہ، ابن السکن اور دیگر متعدد کتب حدیث و سیر میں مروی ہیں، جن سے اس امر کی تائید اور استشہاد ملتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved