رب العالمین کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ کائنات جملہ عوالم اور مظاہر حیات کی تخلیق وتکمیل کے مسلسل نظام ارتقاء سے گزر رہی ہے۔ کیونکہ رب یرب اور تربیت و ربوبیت کا معنی ارتقائی، تدریجی اور مرحلہ وار پرورش کے مفہوم پر ہی دلالت کرتا ہے، جس کی تفصیل پہلے لفظ رب کے معنی و مفہوم کے تحت گزر چکی ہے۔ باری تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق اور فعل خلق کی تکمیل کے بیان کے لیے اپنی صفت ربوبیت کو منتخب فرمایا ہے، جس سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔ قرآن تصور ربوبیت کی صورت میں اپنا ایک نظریہ ارتقاء دے رہاہے جس کا ثبوت ہمیں انفس و آفاق کے دونوں عالموں میں واضح طور پر میسر آتا ہے اور رب العالمین کے الفاظ کے ذریعے اس امر کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ کائنات ہمیں جس شکل میں آج نظر آرہی ہے یہ اس کی وہ اصل ابتدائی شکل نہیں جس میں اسے اولاً تخلیق کیا گیا تھا بلکہ یہ تخلیقی ارتقاء کے مختلف مراحل اورمدارج طے کرتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہے۔
قرآن مجید رب العالمین کی شان تخلیق کو دو الفاظ کے ذریعے واضح کرتا ہے:
1۔ امر اور
2۔ خلق
ارشاد ربانی ہے:
ألَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأمْرُ.
خبردار! ہر چیز کی تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔
(الاعراف، 7: 54)
اس حوالے سے امر، ابداع (عدم سے وجود میں لانا) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور خلق کا ایک استعمال ابداع کے مقابلے میں ایجاد الشئ من الشئ (ایک شے سے دوسری شے وجود میں لانا) کے معنی میں ہے۔ اس معنوی جہت کی بنا پر تخلیق کے دومرحلے ہیں جو ربوبیت الہیہ کے فیضان سے مکمل ہوتے ہیں۔ امر پہلا مرحلہ ہے اور خلق دوسرا۔ خلق کی تعریف انگریزی زبان میں یوں کی جاسکتی ہے:
KHALQ: is to creat a new object the existing constituents, which means appearance of an object in its manifest form.
امر کو ان الفاظ میں واضح کیا جاسکتا ہے:
AMR: is a process of becoming, prior to the stage of Khalq, which means coming of an object in its original existence.
امرو خلق کے مراحل میں ارادہ ربوبیت اور الوہی فلسفہ کار فرما ہوتا ہے، اسے مشیت کہتے ہیں۔ ارشاد قرآنی ہے:
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُO
اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو (پیدا کرنے) کا ارادہ فرماتا ہے، اس سے کہتا ہے ہوجا! پس وہ ہوجاتی ہے۔
(يسين، 36: 82)
اس شے کا ہوجانا کیا ہے؟ یہ بھی ایک عمل ارتقائی ہے جو فوری طور پر وجود میں آتا جاتا ہے۔ توجہء کن، ارادۂ حق یا مشیت ربانی سے اس شے کو جس کا وجود پہلے فقط درجۂ علم میں ہوتا ہے، دو صفات عطا کردی جاتی ہیں:
1۔ منظوریت (Objectivity)
2۔ استمرار (Persistence / Existence)
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شے وجود علمی سے وجود خارجی میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اب دیکھے جانے کے قابل ہوجاتی ہے اور برقرار رہ سکتی ہے۔ یہ عالم غیر نامی (Inorganic World) کا آغاز ہوتا ہے۔ جمادات وغیرہ کا تعلق اسی عالم سے ہے۔ بعدازاں اسے امر کن کے فیضان مسلسل سے صفت نمو (Organism) عطا کردی جاتی ہے اور عالم نامی (Organic World) وجود میں آجاتا ہے۔ نباتات کا تعلق اس عالم سے ہے۔ پھر اس عالم سے امر کن کے ذریعے ہی شعور (Conscience) کا اضافہ کیا جاتا ہے تو عالم حیوانات (Animal World) وجود میں آجاتا ہے اور اس میں خود شعوری کا اضافہ ہوتاہے تو عالم انس کا ظہور عمل میں آتا ہے۔ پھرہر ہر عالم کے اندر ایک جداگانہ نظام ارتقاء ہے جس سے سلسلۂ تخلیق کو وسعت ملتی چلی جاتی ہے۔ یہ سب مادی کائنات کا سلسلئہ تخلیق ہے جسے عرف عام میں عالم خلق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح غیر مادی یا فوق الطبیعی کائنات بھی ہے، جسے عرف عام میں عالم امر سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کا بھی ایک سلسلۂ تخلیق ہے جو جداگانہ نظام ارتقاء پرمبنی ہے۔ یہ انوار و ارواح کا عالم ہے۔ اس کے ارتقائی اور توسیعی سلسلے پر کچھ روشنی اس حدیث نبوی ﷺ سے پڑتی ہے، جس میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ حضور ﷺ سے دریافت کرتے ہیں:
بأبی أنت و أمی أخبرنی عن أول شئ خلق اللہ تعالٰی قبل الأشياء قال يا جابر إن اللہ تعالٰى خلق قبل الأشياء نور نبيک من نوره.
یا رسول اللہ ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھے خبر دیجئے کہ سب اشیاء سے پہلے اللہ تعالٰی نے کون سی چیز پیدا کی؟ آپ نے فرمایا: اے جابر! اللہ تعالٰی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور (کے فیض) سے پیدا کیا۔
(السيرة الحلبيه، 1: 30)
(المواهب اللدنية، 1: 9)
(شرح المواهب، 1: 46)
پھر اس نور کی تقسیم ہوئی جس سے قلم، عرش اور حاملانِ عرش وجود میں آئے۔ پھر اس کی مزید تقسیم سے کرسی اور ملائکہ وغیرہ پیدا ہوئے۔
اس حدیث سے بھی اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ تخلیق موجودات کے سارے نظام میں شان ربوبیت کی کارفرمائی اور ارتقاء و تدریج کا نظام ہے۔ ہر چیز خواہ اس کا تعلق کسی بھی عالم سے ہو، ایک ارتقائی نظام کے تحت وجود میں آئی ہے۔ یہی رب العالمین کا مفہوم ہے۔
جس طرح عالم آفاق کے جلوے اجمالا ًعالم انفس میں کار فرما ہیں، اسی طرح نظام ربوبیت کے آفاقی مظاہر بھی پوری آب و تاب کے ساتھ حیات انسانی کے اندر جلوہ افروز ہیں۔ انسان کے احسن تقویم کی شان کے ساتھ منصہ خلق پر جلوہ گر ہونے سے پہلے اس کی زندگی ایک ارتقائی دور سے گزری۔ یہی اسکے کیمیائی ارتقاء (Chemical Evolution) کا دور ہے۔ جس میں باری تعالیٰ کے نظام ربوبیت کا مطالعہ بجائے خود ایک دلچسپ اور نہایت اہم موضوع ہے۔ یہ کیمیائی ارتقاء کا قبل از حیاتیاتی دور ہے۔ یہ حقائق آج صدیوں کے بعد سائنس کو معلوم ہو رہے ہیں جبکہ قرآن انہیں چودہ سو سال پہلے بیان کرچکا ہے۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی زندگی کا کیمیائی ارتقاء کم وبیش سات مرحلوں سے گزر کر تکمیل پذیر ہوا ہے جو درج ذیل ہے:
1. تُرَابٌ (Inorganic matter)
2. مَآءٌ (Water)
3. طِيْنٌ (Clay)
4. طِيْنٌ لَازِبٌ (Sticky clay / Adsorption)
5. صَلْصَالٌ مِنْ حَمَاءٍ مَسْنُوْنٍ (Old, Physically & Chemically altered mud)
6. صَلْصَالٌ کَالْفَخَّارِ (Dried & Highly purified clay)
7. سُلَالَةٌ مِنْ طِيْنٍ (Extract of purified clay)
قرآن مجید میں مذکورہ بالا سات مرحلوں کا ذکر مختلف مقامات پر یوں آتا ہے:
هوَ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِنْ تُرَابٍ.
وہی ہے جس نے تم کو (پہلے) مٹی (یعنی غیر نامی مادے) سے بنایا۔
(المؤمن، 40: 67)
اس آیت کریمہ میں آگے حیاتیاتی ارتقاء کے بعض مراحل کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً: ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلاً۔ لیکن قابل توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ انسانی زندگی کے ان ارتقائی مرحلوں کا ذکر باری تعالیٰ نے اپنی صفت رب العالمین کے بیان سے شروع کیا ہے۔ اس سے پہلی آیت کے آخری الفاظ یہ ہیں:
وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَO
اور مجھے یہ حکم مل چکا ہے کہ میں سارے جہانوں کے پروردگار کا فرمانبردار رہوں۔
(المؤمن، 40: 66)
یہاں اپنی شان رب العالمین کا ذکر کر کے ساتھ ہی دلیل کے طور پر انسانی زندگی کا ارتقاء بیان کردیا گیا ہے، جس سے واضح طور پر یہ سبق ملتا ہے کہ قرآن باری تعالیٰ کے رب العالمین ہونے کو انسانی زندگی کے نظام ارتقاء کے ذریعے سمجھنے کی دعوت دے رہا ہے کہ اے نسل نبی آدم! ذرا اپنی زندگی کے ارتقاء کے مختلف ادوار و مراحل پر غور کرو کہ تم کس طرح مرحلہ وار اپنی تکمیل کی طرف لے جائے گئے ہو۔ کس طرح تمہیں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل کیا گیا اور کس طرح تم بالآخر احسن تقویم کی منزل کو پہنچے۔ کیا یہ سب کچھ رب العالمین کی پرورش کا مظہر نہیں ہے، جس نے تمہیں بجائے خود ایک عالم بنا دیا ہے۔
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا.
اور ہم نے (زمین پر) پر زندہ چیز (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی تو کیا وہ (ان حقائق سے آگاہ ہو کر اب بھی) ایمان نہیں لاتے۔
(الفرقان، 25: 54)
اس آیت کریمہ میں بھی تخلیق انسانی کے مرحلے کے ذکر کے بعد باری تعالیٰ کی شان ربوبیت کا بیان ہے:
وَکَانَ رَبُّکَ قَدِيْراًo
اورآپ کا رب قدرت والا ہے۔
(الفرقان، 25: 54)
گویا یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تخلیق انسانی کا یہ سلسلہ باری تعالیٰ کے نظام ربوبیت کا مظہر ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا:
وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَO
اور ہم نے (زمین پر) ہر زندہ چیز (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی تو کیا وہ (ان حقائق سے آگاہ ہو کر اب بھی) ایمان نہیں لاتے۔
(الانبياء، 21: 30)
یہ آیت کریمہ حیات انسانی یا حیات ارضی کے ارتقائی مراحل پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے لیے دعوت فکر بھی ہے اور دعوت ایمان بھی۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ.
(اللہ) وہی ہے جس نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا۔
(الانعام، 6: 2)
یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ مترجمین قرآن نے بالعموم تراب اور طین دونوں کا معنی مٹی کیا ہے۔ جس سے یہ مغالطہ پیدا ہوسکتا ہے کہ آیا یہ دو الگ مرحلے ہیں یا ایک ہی مرحلے کے دو مختلف نام۔ اس لیے ہم نے دونوں کے امتیاز کو برقرار رکھنے کے لیے طین کا معنی گارا کیا ہے۔ تراب اصل میں خشک مٹی کو کہتے ہیں۔ بلکہ امام راغب اصفھانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: التراب: الارض نفسھا (تراب سے مراد فی نفسہ زمین ہے) جبکہ طین اس مٹی کو کہتے ہیں جو پانی کے ساتھ گوندی گئی ہو۔ جیسا کہ مذکور ہے:
الطين: التراب والماء المختلط.
مٹی اور پانی باہم ملے ہوئے ہوں تو اسے طین کہتے ہیں۔
(المفردات: 312)
اسی طرح کہا گیا ہے:
الطين: التراب الذی يجبل بالماء.
طین سے مراد وہ مٹی ہے جو پانی کے ساتھ گوندھی گئی ہو۔ (اسی حالت کو گارا کہتے ہیں)
(المنجد: 496)
اس لحاظ سے یہ ترتیب واضح ہوجاتی ہے: مٹی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گارا۔
إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍO
ہم نے تو ان لوگوں کو ایک چپکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا۔
(الصافات، 37: 11)
طین لازب، طین کی اگلی شکل ہے، جب گارے کا گاڑھا پن زیادہ ہوجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے:
اذا زال عنه (الطين) قوة الماء فهو طين لازب.
جب گارے سے پانی کی سیلانیت زائل ہوجائے تو اسے طین لازب کہتے ہیں۔
یہ وہ حالت ہے جب گارا قدرے سخت ہوکر چپکنے لگتا ہے۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍO
اوربے شک ہم نے انسان کی (کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سن رسیدہ، سیاہ بدبودار ہو چکا تھا۔
(الحجر، 15: 26)
اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ تخلیق انسانی کے کیمیائی ارتقاء میں یہ مرحلہ طین لازب کے بعد آتا ہے۔ یہاں صلصال (بجتی مٹی) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کی اصل صلل ہے۔ اس کا معنی ہے:
تردد الصوت من الشئ اليابس سمی الطين الجاف صلصالا.
خشک چیز سے پیدا ہونے والی آواز کا تردد یعنی کھنکھناہٹ، اسی لیے خشک مٹی کو صلصال کہتے ہیں کیونکہ یہ بجتی اور آواز دیتی ہے۔
(المفردات: 274)
اہل لغت الصلصال کا معنیٰ کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں:
الصلصال: الطين اليابس الذي يصل من يبسه اي يصوت.
صلصال سے مراد وہ خشک مٹی ہے جو اپنی خشکی کی وجہ سے بجتی ہے، یعنی آواز دیتی ہے۔
(المنجد: 442)
صلصال کی حالت گارے کے خشک ہونے کے بعد ہی ممکن ہے، پہلے نہیں۔ کیونکہ عام خشک مٹی، جسے تراب کہا گیا ہے، اپنے اندر بجنے اور آواز دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لفظ صلصال اس اعتبار سے تراب سے مختلف مرحلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ لہذا صلصال کا مرحلہ طین لازب یعنی چپکنے والے گارے کے بعد آیا۔ جب طین لازب (چپکنے والا گارا) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خشک ہوتا گیا تو اس خشکی سے اس میں بجنے اور آواز دینے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ یہ تو طبعی تبدیلی (Physical change) تھی مگر اس کے علاوہ اس پر وقت گزرنے کے مرحلے میں صاف ظاہر ہے کیمیائی تبدیلی (Chemical change) بھی ناگزیر تھی، جس میں اس مٹی کے کیمیائی خواص میں بھی تغیر آیا ہوگا۔
ان دونوں چیزوں کی تصدیق اس آیت کے اگلے الفاظ سے ہوجاتی ہے:
صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍO
ایسے خشک بجنے والے گارے سے جو (پہلے) سن رسیدہ، سیاہ بدبودار ہو چکا تھا۔
(الحجر، 15: 26)
اس آیت کریمہ میں دو الفاظ قابل توجہ ہیں:
1۔ حماء
2۔ مسنون
حماء: سیاہ گارے کو کہتے ہیں۔ گارے یا کیچڑ کی سیاہی بھی اس کے سڑے ہوئے ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ حمیٰ حرارت اور بخار کو کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ تپنے، کھولنے اور جلنے وغیرہ کے معنوں میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
1. تَصْلَى نَارًا حَامِيَةًO
دہکتی ہوئی آگ میں جاگریں گے۔
(الغاشية، 88: 4)
2. يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ.
جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی۔
(التوبة، 9: 35)
3. لَّا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًاO إِلَّا حَمِيمًا.
نہ وہ اس میں(کسی قسم کی) ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ کسی پینے کی چیز کا سوائے کھولتے ہوئے گرم پانی کے۔
(النباء، 78: 24، 25)
الغرض حماء میں اس سیاہ گارے کا ذکر ہے جس کی سیاہی، تپش اور حرارت کے باعث وجود میں آئی ہو۔ گویا یہ لفظ جلنے اور سڑنے کے مرحلے کی نشان دہی کر رہا ہے۔
مسنون: اس سے مراد متغیر اور بدبودار ہے۔ یہ سِنٌ سے مشتق ہے جس کے معنی صاف کرنے چمکانے اور صیقل کرنے کے بھی ہیں۔ مگر یہاں اس سے مراد متغیر ہوجانا ہے، جس کے نتیجے میں کسی شے میں بو پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ احماء (جلانے اور ساڑنے) کا لازمی نتیجہ ہے۔ جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ
پس (اب) تو پنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیر (باسی) بھی نہیں ہوئیں۔
(البقرة، 2: 259)
جب گارے (طین لازب) پر طویل زمانہ گزرا اور اس نے جلنے سڑنے کے مرحلے عبور کیے تو اس کا رنگ بھی متغیر ہو کر سیاہ ہوگیا اور جلنے کے اثر سے اس میں بو بھی پیدا ہوگئی۔ اسی کیفیت کا ذکر صَلْصَالٍ مِنْ حَمَاء مَسْنُوْنٍ میں کیا جا رہا ہے۔
کسی شے کے جلنے سے بدبو کیوں پیدا ہوتی ہے؟ اس کا جواب بڑا واضح ہے کہ جلنے کے عمل سے کثافتیں سڑتی ہیں اور بدبو کو جنم دیتی ہیں جو کہ مستقل نہیں ہوتی۔ اس وقت تک رہتی ہے جب تک کثافتوں کے سڑنے کا عمل یا اس کا اثر باقی رہتا ہے اور جب کثافت ختم ہوجاتی ہے بدبو بھی معدوم ہوجاتی ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا:
صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍO
ایسے خشک بجنے والے گارے جو (پہلے) سن رسیدہ، سیاہ بدبودار ہو چکا تھا۔
(الحجر، 15: 26)
گویا لفظ صلصال واضح کر رہا ہے کہ اس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے مٹی کی سیاہی اور بدبو وغیرہ سب ختم ہو چکی تھی اور اس کی کثافت بھی کافی حد تک معدوم ہوچکی تھی۔
اس مرحلے کی نسبت ارشاد باری تعالیٰ ہے:
خَلَقَ إلْانْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ.
اسی نے انسان کو مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح بجتی تھی پیدا کیا۔
(الرحمن، 55: 14)
جب تپانے اور جلانے کا عمل مکمل ہوتا ہے تو گارا پک کر خشک ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کو صلصال کالفخار سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس تشبیہ میں دو اشارے ہیں:
i۔ ٹھیکرے کی طرح پک کر خشک ہو جانا۔
ii۔ کثافتوں سے پاک ہو کر نہایت لطیف اور عمدہ حالت میں آجانا۔
لفظ فخار کا مادہ فخر ہے جس کے معنی مباہات اور اظہار فضیلت کے ہیں۔ یہ فاخر سے مبالغے کے صیغے میں ہے یعنی بہت فخر کرنے والا۔ فخار عام طور پر گھڑے کو بھی کہتے ہیں اور مترجمین و مفسرین نے بالعموم یہاں یہی معنی مراد لیے ہیں۔ ٹھیکرا اور گھڑا چونکہ اچھی طرح پک چکا ہوتا ہے اور خوب بجتا اور آواز دیتا ہے، گویا اپنی آواز اور گونج سے اپنے پکنے خشک اور پختہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے، اس لیے اسے فخر کرنے والے کے ساتھ تشبیہ دے دی گئی ہے کہ وہ بھی اپنی فضیلت اور شرف کو ظاہر کرتا ہے۔
فاخر اور فخار کا ایک دوسرا معنی بھی ہے، جس کی طرف عام طور پر توجہ نہیں کی گئی، حالانکہ وہ اس پس منظر میں نہایت اہم ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
يعبر عن کل نفيس بالفاخريقال ثوب فاخر وناقة فخور.
ہر نفیس اور عمدہ چیز کو فاخر کہتے ہیں۔ اس لیے ثوب فاخر نفیس کپڑے کو اور ناقۃ فخور عمدہ اونٹنی کو کہا جاتا ہے۔
(المفردات: 374)
فخار، فاخر سے مبالغہ ہے جو کثرت نفاست اور نہایت عمدگی پر دلالت کرتا ہے۔ صاحب المحیط بیان کرتے ہیں:
الفاخر: الجيد من کل شیء
فاخر: کسی بھی شے کی عمدگی کو کہتے ہیں۔
(القاموس المحيط، 2: 112)
فخار میں عمدگی اور نفاست میں مزید اضافہ مراد ہے۔ اس معنی کی رو سے اظہار شرف کی بجائے اصل شرف کی طرف اشارہ ہے۔ دونوں معانی میں ہرگز کوئی تخالف اور تعارض نہیں بلکہ ان میں شاندار مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
باری تعالیٰ تخلیق انسانی کے سلسلہ ارتقاء کے ضمن میں اس مرحلے پر یہ واضح فرما رہے ہیں کہ وہ مٹی اور گارا جو انسانی بشریت کی اصل تھا اس قدر تپایا اور جلایا گیا کہ وہ خشک ہو کر پکتا بھی گیا اور ساتھ ہی ساتھ مٹی اپنی کثافتوں سے پاک صاف ہو کر نفاست اور عمدگی کی حالت کو بھی پاتی گئی۔ یہاں تک کہ جب وہ صلصال کالفخار کے مرحلے تک پہنچی تو ٹھیکرے کی طرح خشک ہوچکی تھی اور کثافتوں سے پاک ہو کر نہایت لطیف اور عمدہ مادے کی حالت اختیار کرچکی تھی۔ گویا اب ایسا پاک صاف، نفیس، عمدہ اور لطیف مادہ تیار ہوچکا تھا کہ اسے اشرف المخلوقات کی بشریت کا خمیر بنایا جاسکے۔ انسان اور جن کی تخلیق میں یہی فرق ہے کہ جن کی خلقت ہی آگ سے ہوئی مگر انسان کی خلقت میں صلصال کی پاکیزگی طہارت اور لطافت کے حصول کے لیے آگ کو محض استعمال کیا گیا۔ اسے خلقت انسانی کا مادہ نہیں بنایا گیا۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِo وَ خَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍo
اسی نے انسان کو مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح بجتی تھی پیدا کیا اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔
(الرحمن، 55: 14، 15)
اسی طرح ارشاد فرمایا گیا:
وَ الْجَآنَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْل مِنْ نَارِ السَّمُومِo
اور اس سے پہلے ہم نے جنوں کو شدید جلا دینے والی آگ سے پیدا کیا جس میں دھواں نہیں تھا۔
(الحجر، 15: 27)
اس لئے خلقت انسانی کے مراحل میں آگ کو ایک حد تک دخل ضرور ہے مگر وہ جنات کی طرح انسان کا مادہ تخلیق نہیں۔
ارشاد ایزدی ہے:
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا إلْانْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِيْنٍo
اور بے شک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتدائی) مٹی (کے کیمیائی اجزاء) کے خلاصہ سے فرمائی۔
(المومنون، 23: 12)
اس میں گارے کے اس مصفّٰی اور خالص نچوڑ کی طرف اشارہ ہے، جس میں اصل جوہر کو چن لیا جاتا ہے۔ یہاں طین لازب کے تزکیہ و تصفیہ کا بیان ہے۔ سُلالۃ: سل یسل سے مشتق ہے، جس کے معنی میں نکالنا، چننا اور میل کچیل سے اچھی طرح صاف کرنا شامل ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ سُلالۃ من طین سے مراد الصفو، الذی یسل من الارض ہے۔ یعنی مٹی سے چنا ہوا وہ جوہر جسے اچھی طرح میلے پن سے پاک صاف کردیا گیا ہو۔ جس تلوار کی دھار خوب تیز کی گئی ہو اسے السیف السلیل کہتے ہیں۔ الغرض سُلالۃ اس وقت وجود میں آتا ہے جب کسی چیز کو اچھی طرح صاف کیا جائے، اس کی کثافتوں اور میلے پن کو ختم کیا جائے اور اس کے جوہر کو مصفّٰی اور مزّٰکی حالت میں نکالا جائے۔ گویا سُلالۃ کا لفظ کسی چیز کی اس لطیف ترین شکل پر دلالت کرتا ہے جو اس چیز کا نچوڑ اور جوہر کہلاتی ہے۔
کرۂ ارض پر تحقیق انسانی کے آغاز کے لیے خمیر بشریت اپنے کیمیائی ارتقاء کے کن کن مراحل سے گزارا، اپنی صفائی اور لطافت کی آخری منزل کو پانے کے لیے کن کن تغیرات سے نبرد آزما ہوا اور بالآخر کس طرح اس لائق ہوا کہ اس سے حضرت انسان کا بشری پیکر تخلیق کیا جائے اور اسے خلافت و نیابت الہیہ کے عالی شان منصب سے سرفراز کیا جائے؟ اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو مذکورہ بالا بحث سے ضرور ہوسکتا ہے۔ یہاں یہ امر پیش نظر رہے کہ ان ارتقائی مراحل کی جس ترتیب اور تفصیل کا ہم نے ذکر کیا ہے اسے حتمی نہ سمجھا جائے۔ کوئی بھی صاحب علم ان جزئیات و تفصیلات کے بیان میں اختلاف کرسکتا ہے۔ جو کچھ مطالعہ قرآن سے ہم پر منکشف ہوا ہم نے بلا تامل عرض کردیا ہے۔ البتہ اس قدر حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آیات قرآنی میں مختلف الفاظ و اصطلاحات کے استعمال سے کیمیائی ارتقاء کے تصور کی واضح نشان دہی ہوتی ہے۔
جب ارضی خمیر بشریت مختلف مراحل سے گزر کر پاک صاف ہوچکا اور اپنی جوہری حالت کو پہنچا تو اس سے باری تعالیٰ نے پہلے انسان کی تخلیق بصورت حضرت آدم علیہ السلام فرمائی اور فرشتوں کو ارشاد فرمایا کہ میں زمین میں خلیفہ پیدا فرمانے والا ہوں جس کا پیکر بشریت اس طرح تشکیل دوں گا۔ یہ تفصیلات سورہ البقرۃ، 2: 30۔ 34، سورہ الہجر، 15: 26۔ 35، سورہ الاعراف، 7: 11۔ 16 اور دیگر کئی ایک مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔
فرشتوں کا اس خیال کو ظاہر کرنا کہ یہ پیکر بشریت زمین میں خونریزی اور فساد انگیزی کرے گا، اسی طرح ابلیس کا انکار سجدہ کے جواز کے طور پر حضرت آدم علیہ السلام کی بشریت اور صلصال من حماء مسنون کا ذکر کرنا وغیرہ، یہ سب امور اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ان کی نظر انسان کی بشریت کی تشکیل کے ابتدائی اور دورانی مراحل پر تھی، اور وہ یہ خیال ان اجزائے ترکیبی کے خواص کے باعث کر رہے تھے، جن کا استعمال کسی نہ کسی شکل میں اس پیکر خاکی کی تخلیق میں ہوا تھا۔ وہ مٹی کی کثافت اور آگ کی حرارت جیسی چیزوں کی طرف دھیان کئے ہوئے تھے۔ ان کی نظر مٹی کی اس جوہری حالت پر نہ تھی جو مصفّٰی اور مزّٰکی ہو کر سراسر کندن بن چکی تھی، جسے باری تعالیٰ سُلالۃ من طین سے تعبیر فرما رہا تھا۔ مٹی کی یہ جوہری حالت ’’سُلالۃ،، کیمیائی تغیرات سے تزکیہ و تصفیہ کے ذریعے اب یقیناً اس قابل ہوچکی تھی کہ اس میں روح الہیہ پھونکی جاتی اور نفخ روح کے ذریعے اس کے پیکر کو فیوضات الہیہ کے اخذ و قبول اور انوار و تجلیات ربانی کے انجذاب کے قابل بنادیا جاتا۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا:
فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوْحِی فَقَعُوْا لَهُ سَاجِدِيْنَo
پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لاچکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نوارنی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدہ میں گر پڑنا۔
(الحجرات، 15: 29)
چنانچہ بشریت انسانی کی اسی جوہری حالت کو سنوارا گیا اور اسے نفخ روح کے ذریعے وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا (آدم کو تمام اشیاء کے اسماء کا علم عطا فرمایا) کا مصداق بنایا گیا اور تب ہی حضرت انسان مسجود ملائک ہوا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved