یہ لفظ سورہ فاتحہ میں ذات باری تعالیٰ کی پہلی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے، جس کے معنی مربی اور مالک کے ہیں۔ فاتحۃ الکتاب میں باری تعالیٰ کی شان الوہیت پر دلالت کرنے والے پہلے صفاتی نام کی حیثیت سے اس کے معنی و مفہوم کو مختلف جہتوں سے سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے اندر مضمر اعلان ربوبیت درحقیقت توحید الٰہی کا سب سے کامل اور بین ثبوت ہے۔ کیونکہ دور جاہلیت کے کفار و مشرکین کی طرح انسانی زندگی میں شرک، تصور خالقیت کی راہ سے کم اور تصورِ ربوبیت کی راہ سے زیادہ داخل ہوا ہے۔
یہ امر ثابت اور مسلّم ہے کہ کفار و مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو نام خواہ کچھ بھی دیتے ہوں، اسے رب الارباب ضرور مانتے تھے۔ کائنات میں اس کی مطلق بڑائی سے کسی کو انکار نہ تھا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ وہ اس بالادست ہستی کے نیچے کئی رب اور بھی مانتے تھے اور اسی عقیدے نے ان کی جبینوں کو متعدد خداؤں کی پرستش کے لیے جھکا دیا تھا۔ ربوبیت میں اس تصور شراکت نے عقیدہ توحید کے خالص اور نکھرے ہوئے چہرے کو ان کی نظروں سے اوجھل کردیا تھا۔ بنا بریں ہم لفظ رب کے معنی کا جائزہ علمی و عملی ہر دوگوشوں سے لینا چاہتے ہیں تاکہ اس کے حقیقی مفہوم اور تصور کی معرفت حاصل ہوسکے۔ اس کی مختصر تحقیق یہ ہے کہ یہ لفظ تربیت کے معنی میں اصلاً مصدر ہے مگر اس کا اطلاق و صفاً فائل کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے عادل کے لیے مبالغۃ عدل کا اور صائم کے لیے صوم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کا مفاد یہ ہے کہ فی الحقیقت رب صرف مربی کو نہیں بلکہ نہایت ہی کامل مربی کو کہا جاسکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جو خود ہر جہت سے کامل ہو وہی دوسرے کی کامل تربیت کرنے کا اہل ہوسکتا ہے۔ اس لیے تربیت کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :
التربية هی تبليغ الشئي الي کماله شيا فشيا.
تربیت سے مراد کسی چیز کو درجہ بدرجہ اس کے کمال تک پہنچانا ہے۔
(تفسيرأبی السعود، 1 : 13)
بعض اہل علم کے نزدیک لفظ رب، مربی کے معنی میں خود نعت ہے۔ (جیسے نعمَّ۔ ینمّ۔ فھونمٌّ، ربّ، یربّ، فھو ربٌّ) لیکن دونوں صورتوں میں اصل مفہوم اور اس کی دلالت ایک ہی رہتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصل میں یہ لفظ راب تھا جس کی درمیانی الف حذف کردی گئی اور رجل بار سے رجل بر کی طرح راب سے لفظ رب رہ گیا۔ جیسا کہ ابوحیان کا قول ہے۔ بعض نے اسے مبالغہ پر اسم فاعل بھی قرار دیا ہے اور بعض نے صفت مشبہ کیونکہ وہ بسا اوقات فاعل کی صورت میں بھی پائی جاتی ہے مثلاً الخالق، المنعم اور الصاحب وغیرہ ہیں۔
ائمہ تفسیر نے بالعموم رب کے معنی میں دو صفات کو شامل کیا ہے۔ ان دونوں کی اپنی اپنی جگہ معنوی حکمت و افادیت معلوم ہونی چاہئیے۔
تربیت : اس کی تعریف سے واضح ہے کہ یہ دو شرائط کا تقاضا کرتی ہے :
i۔ تکمیل
ii۔ تدریج
تربیت کی مختصر تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :
هوالتبليغ الي الکمال تدريجاً.
یہ کسی شے کو تدریجا کمال تک پہنچانے کا نام ہے۔
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مفہوم کو نہایت بلیغ انداز میں واضح کیاہے۔ وہ فرماتے ہیں :
الرب في الاصل التربيه و هو انشاء الشيء حالا فحالًا اليٰ حد التمام.
لفظ رب اصلاً تربیت کے معنی میں ہے اور اس سے مراد کسی چیز کو درجہ بدرجہ مختلف احوال میں سے گزارتے ہوئے آخری کمال کی حد تک پہنچا دینا ہے۔
(المفردات : 184)
کمال سے یہاں مراد ہے ما یتم بہ الشیء فی صفاتہ یعنی یہ کسی چیز کی وہ حالت ہوتی ہے جہاں وہ اپنی جملہ صفات کے اعتبار سے انتہا کو پہنچ جائے۔ ان توضیحات سے معلوم ہوا کہ اگر تربیت پانے والا اپنے کمال یعنی صفاتی انتہا کو نہ پہنچے، تب بھی تربیت نامکمل رہی، اور اگر اس نے جملہ تدریجی اور ارتقائی مراحل طے نہ کیے ہوں تب بھی تربیت کامل نہ ہوئی۔ لہذا نظام تربیت کا کمال یہ ہے کہ مربوب (تربیت پانے والا) تدریجی اور ارتقائی منزلوں میں سے گزرتا ہوا اپنی صفات کی آخری حد کو پالے۔ اس تصور تربیت سے مزید دو باتوں پر روشنی پڑتی ہے :
1۔ حفاظت و کفالت اور ملکیت و قدرت
2۔ ارتقاء میں تسلسل اور استمرار
حقیقی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مربوب کی تمام ضرورتوں کی صحیح کفالت اور اس کے جملہ مفادات کی صحیح حفاظت نہ ہو۔ اگر کسی بھی جہت سے مربوب کی کفالت یا حفاظت میں کوئی کمی رہ جائے تو اس کی تکمیل نا ممکن ہوجاتی ہے۔ اور کفالت و حفاظت کی جملہ شرائط اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتیں جب تک وہ شے کاملا ً مربی کے قبضہ و تصرف میں نہ ہو۔ اگر مربی بلا شرکت غیرے اپنے مربوب کا مالک ہو اور بحیثیت مالک اسے اپنے مربوب کے تمام معاملات میں مکمل تصرف اور قدرت حاصل ہو تو تبھی وہ بتمام و کمال کفالت و حفاظت کی ذمہ داری پوری کرسکتا ہے، جس کے نتیجے میں ا س کا کامل مربی ہونا واقعہ بن سکے گا اور اس کی تربیت حقیقی تربیت قرار پائے گی۔ اس لیے لفظ رب اس الوہی شان کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ کامل مربی و مالک ہے۔ وہی قادر اور جمیع امور میں حقیقی متصرف ہے۔ اس کی شان ربوبیت میں کوئی شریک ہے نہ دخیل۔ اس لیے اس کا رب ہونا علی الاطلاق ہے جبکہ اس عالم اسباب میں کئی افراد جو ایک دوسرے کے مربی ہوتے ہیں، انہیں جب مجازا رب کہا جاتا ہے تو ہمیشہ اضافت کی شرط کے ساتھ کہا جاتا ہے۔ مثلاً گھر اور گھوڑے کے مالک کو مجازا ً رب الدار او ر رب الفرس کہا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے میں ایک شخص سے بادشاہ مصر کے بارے میں فرماتے ہیں :
اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ.
اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کردینا (شاہد اسے یاد آجائے) کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا۔
(يوسف، 12 : 42)
اسی طرح آپ ایلچی کو فرماتے ہیں :
ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ.
اپنے بادشاہ کے پاس لوٹ جا اور اس سے (یہ) پوچھ (کہ) ان عورتوں کا (اب) کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے۔
(يوسف، 12 : 50)
اسی طرح والدین کی نسبت بارگاہ ایزدی میں اس دعا کی تلقین فرمائی گئی ہے :
وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاO
اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو اے میرے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔
(بني اسرائيل، 17 : 24)
یہاں بھی رَبَّیٰنِی کا فعل رب مصدر سے والدین کے حق میں مجازاً استعمال کیا گیا ہے۔ الغرض جہاں بھی رب بطور مصدر یا کسی فرد کے لیے مجازاً استعمال ہوگا کسی نہ کسی اضافت کے ساتھ ہوگا۔ مطلقاً اس کا استعمال صرف اللہ تعالی کے لیے ہے کیونکہ حقیقی مربی اور مالک مطلق وہی ذات ہے اور اسی کی ملکیت و پرورش ساری کائنات کے لیے علی الاطلاق ہے۔ اس لیے وہی اکیلا قادر مطلق اور مسبب الاسباب ہے۔ اگر اس کی اس شان ربوبیت میں کوئی اور شریک ہوتا تو نظام کائنات اس حسن تدبیر کے ساتھ کبھی نہ چل سکتا۔ جیسا کہ خود قرآن اعلان فرماتا ہے :
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا.
اگران دونوں (زمین و آسمان) میں اللہ کے سوا اور (بھی) معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہوجاتے۔
(الانبياء، 21 : 22)
بنا بریں بعض مفسرین نے رب کا اطلاق مالک، نگران، مربی، مدبر، منعم، مصلح اور معبود کے معانی پر کیا ہے۔ اور بطور خاص حفظ اور ملک کو معنی ربوبیت کا لازمی حصہ تصور کیا ہے۔
دوسری بات جو معنی تربیت میں شامل ہے وہ تکمیل کے سلسلے میں تدریج و ارتقاء کا تسلسل اور استمرار ہے۔ تدریج باب تفعیل کے خواص میں سے ہے اور تدریج و ارتقاء کی صحت اس کے تسلسل اور استمرار پر منحصر ہوتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کمال کی طرف بڑھنے کا سلسلہ رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ کسی مرحلے پر رکے بغیر جاری رہے تو تدریج کی صحت اور فوائد برقرار رہتے ہیں اور اگر درمیان میں انقطاع اور عدم تسلسل آجائے تو تکمیل متاثر ہوجاتی ہے۔ نظام ربوبیت اور تصور ارتقاء پر باقاعدہ گفتگو تو ذرا آگے چل کر ہوگی لیکن یہاں اسی قدر سمجھ لینا ضروری ہے کہ رب کے نظام پرورش میں تدریج و ارتقاء بھی ہے اور تسلسل و استمرار بھی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں واضح فرمایا گیا ہے :
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِO الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَO فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَO
اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے رب کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا؟ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر اس نے تجھے درست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایا جس صورت میں بھی چاہا اس نے تجھے ترکیب دے دیا۔
(الانفطار، 82 : 6، 7، 8)
اس آیت میں باری تعالیٰ نے اپنا ذکر شان ربوبیت سے فرمایا ہے اورساتھ ہی انسانی شخصیت کی جسمانی تکمیل کے سلسلے میں تدریج اور تسلسل کو بیان کیا ہے جس سے مذکورہ بالا تصور کو اجمالی تائید میسر آجاتی ہے اور لفظ رب کی اس معنوی خصوصیت کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اقدس کو قرآن مجید میں کم و بیش نو سو اڑسٹھ (968) مرتبہ شان ربوبیت کے ذریعے بصراحت متعارف کرایا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی یہ شان مخلوقات عالم کے ہر وجود کو اپنے فیض سے نواز رہی ہے۔ فیضیاب تو کئی صورتوں میں لوگ ایک دوسرے سے ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً کوئی پیاسے کو پانی پلاتا ہے، کوئی بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے، کوئی محتاج کی مالی اعانت کرتا ہے، کوئی کمزور کا سہارا بنتا ہے، یہ ساری نفع بخشیاں اور فیض رسانیاں ایک دوسرے کی امداد و اعانت کی مختلف صورتیں اور احسان و انعام کی مختلف شکلیں ضرور ہیں مگر ربوببیت کے عنوان میں نہیں آسکتیں، کیونکہ ربوبیت سے مراد کسی کی پرورش کرنا اور پالنا ہے۔ مذکورہ بالا سب صورتیں اپنی نوعیت اور دائرہ کار کے لحاظ سے دو جہتی یاسہ جہتی اعانتیں ہیں، مگر ربوبیت ہمہ گیر و ہمہ جہت شے ہے۔ مزید یہ کہ دوسری تمام اعانتیں ہنگامی اور وقتی ہوسکتی ہیں مگر ربوبیت ایک مستقل اور مسلسل عمل ہے جو کبھی بھی منقطع نہیں ہوسکتا۔ وہ ہر حال میں ہر لحظہ جملہ سمتوں میں جاری رہتا ہے۔ عام اعانتوں احسانات و انعامات سے ضرورت مندوں کی ایک دو ضرورتوں اور حاجتوں کی تکمیل کا سامان ہوتا ہے۔ لیکن انسانی وجود کو اپنی پیدائش سے پہلے بطن مادر کے دور سے لے کر عالم شباب کو پہنچنے اور اس کے بعد ضعف و پیری کے مرحلوں میں سے گزرنے کے لیے ہر زمانے میں جو جو حاجت اور ضرورت ہوتی ہے ربوبیت اس کی کفیل ہوتی ہے۔ پھر حاجت و ضرورت کی تکمیل کے لیے عالم داخل اور عالم خارج میں جیسے جیسے حالات، تقاضے، تغیرات، عواطف و میلانات اور احوال و کیفیات درکار ہوتی ہیں ربوبیت انہیں بغیر کسی مطالبے بغیر کسی تاخیر کے از خود مہیا کرتی رہتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ خوبی کسی ایسی ذات میں ہوسکتی ہے جو ہر وجود پر ابتداء سے انتہاء تک اپنے علم و قدرت کے ساتھ حاوی اور محیط ہو، اس کی مالک اور نگہبان ہو۔ اس کی ہر حالت اور ضرورت سے ہر وقت اچھی طرح واقف اور اس پر نہایت شفیق اور مہربان ہو۔ ہر قسم کی مدد واعانت پر مکمل طور پر قادر اور خود ہر حاجت و ضرورت سے کلیتہً بے نیا ز ہو اور تمام امور میں حقیقی متصرف اور مدبر ہو۔ یہ تمام خوبیاں چونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور میں نہیں ہوسکتی تھیں، اس لیے اس نے الحمدللہ فرما کر حقیقتاً خود کو مستحق حمد ٹھہرایا اور استحقاق حمد کی دلیل اپنی ربوبیت کو قرار دیا جو فی الحقیقت صرف اسی کی شان ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے :
قُلْ أَغَيْرَ اللّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ
فرما دیجئے کیا میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا رب تلاش کروں حالانکہ وہ ہر شے کا پروردگار ہے۔
(الانعام، 6 : 164)
باری تعالیٰ نے اپنی صفت ربوبیت کی اضافت و نسبت اس لفظ کے ساتھ کی ہے۔ اس لئے یہ جاننا انتہائی ضروری ہوجاتا ہے کہ العالمین سے کیا مراد ہے؟ عالمین، عالم کی جمع ہے۔ یہ اسم جنس ہے اور خود بھی جمع ہے مگر اس کا واحد کوئی نہیں، جیسے لفظ الناس جمع ہے مگر اس کا واحد کوئی نہیں۔ یہ ’’ع، ل، م،، سے مشتق ہے اور اسم آلہ ہے۔ اس کی مختصر ترین تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :
العالم اسم لما يعلم به.
عالم وہ اسم ہے جس سے کسی کو جانا اور پہچانا جائے۔
(تفسير ابي السعود، 1 : 13)
(تفسير روائع البيان، 1 : 24)
گویا عالم وسیلہ علم ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس کو جاننے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ اس کا مختصر جواب اس تعریف میں مضمر ہے :
انه من العلامة و هو يقوي قول أهل النظر فکأنه انما سمي عندهم بذالک لأنه دالٌّ علي وجود الخالق.
’’عالم،، کے علامت سے (مشتق) ہونے کی وجہ سے اہل نظر کا یہ قول برحق ثابت ہوتا ہے کہ اسے ’’عالم،، کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کے وجود پر دلالت کرتا ہے۔
(تفسير زاد المسير، 1 : 12)
واضح رہے کہ کسی کو معلوم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے سے موجود ہو۔ موجود کی دو اقسام ہیں :
1۔ واجب الوجود
2۔ ممکن الوجود۔
واجب الوجود تو فقط باری تعالیٰ ہے اور ممکن الوجود اس کے سوا سب کچھ ہے۔ جوذات واجب الوجود ہے وہ ہمارے حواس و مشاہدات، عقلی ادراکات حتی کہ قلبی لطائف و اکتشافات سے بھی ماوراء ہے۔ اس کی حقیقت انسان کی ہر سطح کی نفسی استعداد کے حیطۂ ادارک سے بلند ہے۔ وہ موجود ہے لیکن غیر مرئی اور غیر محسوس۔ اس لیے اسے جاننے کے لیے کوئی ذریعہ اور وسیلہ چاہئیے۔ چنانچہ اس نے اپنی معرفت کے ذریعے اور وسیلے کے طور پر پوری کائنات کو تخلیق کیا، یہ کائنات ممکن الوجود ہے مگر واجب الوجود پر دلالت کر تی ہے، جو خود حادث ہے مگر قدیم پر دلالت کرتی ہے، جو خود عارضی مگر دائمی پر دلالت کرتی ہے، جو خود متغیر ہے مگر غیر متغیر پر دلالت کرتی ہے، جو خود اضافی ہے مگر حقیقی پر دلالت کرتی ہے، جو خود محدود و متناہی ہے مگر غیر محدود اور لا متناہی پر دلالت کرتی ہے۔ الغرض کائنات پس و بالا کے وجود کا ہر ذرہ اور اس کے نظام کا ہر گوشہ اپنے خالق و منتظم کی نشاندہی کرتا ہے۔ عالم ذریعہ علم ہے اور وہ ذات حق خود مقصود علم۔ حق یہ ہے کہ یہاں العالمین کا معنوی اطلاق اﷲ کی مخلوق کی کسی خاص نوع یا صنف سے مختص نہیں بلکہ جملہ مخلوقات کی تمام انواع و اصناف اور افراد و اجزاء کو شامل ہے۔ اس کائنات ہست و بود میں جس شے کی بھی دلالت ذات حق اور اس کی ربوبیت پر موجود ہے، وہ العالمین میں داخل ہے۔ کیونکہ اس کا وجود اس کے صانع کے وجود کی دلیل ہے اور یہی مفہوم عالم ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
العالم آلة في الدلالة علي صانعه.
عالم اپنے بنانے والے کے وجود کے لیے آلہ دلالت ہے۔
(المفردات، 344)
اسی قبیل سے علم ہے جس کے معنی جھنڈے کے ہیں۔ وہ بھی کسی ملک جماعت، عمارت، دفتر، شخصیت یا لشکر کی علامت ہوتا ہے۔ ا ندھیری رات میں اگر کہیں دیا جل رہا ہو جو وہاں کسی انسان کی موجودگی کا پتہ دے تو اسے بھی علم کہا جائے گا۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا :
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ
ہم عنقریب ان کو دنیا میں اور خود ان کی ذات میں اپنی (قدرت و حکمت کی) نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر کھل جائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔
(حم السجدة، 41 : 53)
مزید ارشاد فرمایا گیا ہے :
أَوَلَمْ يَنظُرُواْ فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّهُ مِن شَيْءٍ.
کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت میں اور (علاوہ ان کے) جو کوئی چیز بھی اللہ نے پیدا فرمائی ہے (اس میں) نگاہ نہیں ڈالی۔
(الاعراف، 7 : 185)
ایک اور مقام پر آسمان و زمین کی ساری کائنات کی ذات حق پر شان دلالت کا ذکر یوں کیا گیا ہے :
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي الْأَلْبَابِO الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً.
بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقل سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروڑوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔
(آل عمران، 3 : 190، 191)
جب یہ امر بالکل واضح ہے کہ کائنات ارض و سماء کی ہر شے اور مخلوقات و موجودات کا ہر فرد، وجود الٰہی، اس کی شان خلاقیت اور صفت ربوبیت کی دلیل و علامت ہے تو اس میں سے کسی بھی حصے کو اس جگہ عالمین کے دائرہ اطلاق سے خارج تصور کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ قرآن مجید خود بھی ایک مقام پر اس معنی کی تصریح ان الفاظ میں کرتا ہے :
قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِينَO قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا إن كُنتُم مُّوقِنِينَO
فرعون بولا اور پروردگار عالم کی حقیقت کیا ہے؟ (یعنی وہ ہے کیا) فرمایا (وہ) آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اگر تم لوگ یقین کرو۔
(الشعراء، 26 : 23، 24)
یہاں قرآن مجید نے رب العالمین کی وضاحت میں خود ساری کائنات پست و بالا اور اس کے جملہ موجودات کو بیان کردیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس قرآنی تصریح کے بعد رب العالمین کے مفہوم کو اس مقام پر صرف جن و انس یا بعض دیگر انواع خلق پر محصور و محدود کرنے کی کوئی خاص وجہ نہیں رہ جاتی۔ مذکورہ بالا آیت میں آسمانی اور زمینی کائنات اور اس کے جملہ موجودات کو العالمین میں شمار کر کے فرمایا گیا ہے ان کنتم مؤقنین یعنی اگر تم صاحب ایقان ہو۔ ایقان اس علم صحیح کو کہتے ہیں جو استدلال سے حاصل ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی شان میں موقن نہیں کہا جاتا بلکہ موقن مخلوق ہی ہوسکتی ہے کیونکہ وہ موجودات عالم اور ان کے نظام ہائے گوناگوں سے ان کے خالق و صانع پر استدلال کرتی اور اس کی ہستی پر یقین حاصل کرتی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے فرمایا گیا :
وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَO
اور اسی طرح ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائبات خلق) دکھائیں اور (یہ) اس لیے کہ وہ وعین الیقین والوں میں ہوجائے۔
(الانعام، 6 : 75)
یہاں بھی زمین و آسمان کی ساری کائنات اور عوالم ارض و سماء کے تمام موجودات کے مشاہدے کو بنائے ایقان قرار دیا گیا ہے۔ جس سے باری تعالیٰ کی ربوبیت مطلقہ پر دلالت میسر آتی ہے۔ اس لیے رب العالمین میں العالمین کا مفہوم اور دائرہ صرف عالم انسانیت یا عالم جن و انس تک ہی مختص تصور نہیں کیا جانا چاہئیے، جیسا کہ بعض مترجمین اور مفسرین نے کیا ہے، بلکہ اس مقام پر اس لفظ کی معنوی وسعت میں جملہ عوالم اور ان کے موجودات کو شامل تصور کیا جانا ضروری ہے۔
درست ہے کہ قرآن مجید میں العالمین کا لفظ ہر جگہ اسی معنوی وسعت کے حوالے سے استعمال نہیں ہوا بلکہ مختلف وجوہ پر وارد ہوا ہے۔ مثلاً سورۃ البقرہ اورسورۃ الجاثیہ میں ’’أَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ،، اور سورۃالدخان میں وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَى عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ کا اطلاق ایک مخصوص زمانے کی اقوام پر ہے۔ اسی طرح سورۃآل عمران میں وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ کا اطلاق ہے۔بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ میں العالمین کا اطلاق جمیع اولاد آدم پر ہے۔ سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ میں اطلاق اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) پر ہے۔ وَلَـكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ میں اطلاق جمیع اہل ایمان پر ہے۔ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ میں اطلاق قوم منافقین پر ہے۔
الغرض ہر جگہ اس لفظ کے دائرہ اطلاق کا اندازہ خود ان آیات کے سیاق و سباق سے ہو جاتا ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی لفظ اپنے اصل اطلاق اور انطباق کی وسعت سے ہٹ کر کسی خاص دائرے میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے لیے واضح قرینہ موجود ہوتا ہے اور جہاں ایسا خاص قرینہ موجود نہ ہو وہاں اسے اپنے اصل مفہوم کی وسعت پر ہی قائم رکھا جاتا ہے۔ اس آیت میں چونکہ جملہ حمد کے استحقاق کے لئے باری تعالیٰ نے اپنے العالمین کے رب ہونے کو بطور دلیل پیش فرمایا ہے۔ لہذا کائنات کی جو شے بھی رب کریم کے فیضان ربوبیت سے پروان چڑھ رہی ہے وہ بہر صورت العالمین کے دائرہ اطلاق میں داخل ہوگی۔
مذکورہ بالا اصول کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے لیے بھی اطلاق ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے قرآن مجید میں بھی العالمین کا لفظ دو طرح استعمال ہوا ہے :
1۔ العالمین بمعنی عالم انس و جان۔
2۔ العالمین بمعنی موجودات کائنات۔
پہلا استعمال لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا۔ (الفرقان : 1) ’’تاکہ وہ دنیا جہان والوں کو (اللہ کی نافرمانی کے عواقب سے) ڈرانے والے ہوں،، یہاں عالمین کی معنوی وسعت، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان نذیریت کے حوالے سے متعین کی جائے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ نذیر ہوناصرف اس ذوی العقول مخلوق کے لیے ہی ہوسکتا ہے جو بارگہ ایزدی میں اپنے اعمال پر جوابدہ ہو اور یہ مکلف مخلوق فقط عالم انس و جان کے افراد ہیں۔ اس لیے یہاں عالمین سے مراد تمام انسان اور جنات ہوں گے۔ تمام اقوام عالم بھی اس معنی میں شامل ہیں۔
العالمین کا دوسرا استعمال وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO ’’(اے رسول محتشم) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر،، (الانبیاء، 21 : 107) کی صورت میں کیا گیا ہے۔ یہاں اس کی معنوی وسعت کا تعین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت کے حوالے سے ہوگا۔ یہ امر ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان رحمت سے نہ صرف عالم انس و جان متمتع ہوئے ہیں بلکہ عالم ملائک، عالم ارواح، عالم اجسام، عالم نباتات و جمادات، عالم حیوانات، ذوی العقول، غیرذوی العقول حتی کہ دنیا و آخرت کے جملہ عوالم میں ہر کسی نے رحمت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے اپنے حسب حال فیض حاصل کیا ہے، کر رہا ہے اور کرے گا۔ اس لیے کہ رحمت صرف بصورت ہدایت ہی نہیں اور بھی کئی صورتوں میں صادر ہوتی ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات و معجزات سے تواتر اور صحت کے ساتھ ثابت ہیں۔ اس لیے یہاں العالمین کا دائرہ کائنات ارض و سماء کے جملہ موجودات کو محیط ہے۔ لہذا جہاں العالمین کی معنوی وسعت باری تعالی کی شان ربوبیت کے حوالے سے متعین ہوگی۔ اس کا دائرہ جملہ عوالم و موجودات کو کیوں محیط نہ ہوگا؟
یہ پہلوخاص طور پر قابل توجہ ہے کہ جب انواع خلق کے لحاظ سے ایک عالم پوری کائنات ہے توپھر عالمین کی وسعت کتنے عالموں اور کائناتوں کو محیط ہوگی۔ حضرت وہب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں۔
اﷲ ثمانية عشر ألف عالم، الدنيا منها عالم واحد.
اﷲ تعالیٰ کے تخلیق کردہ اٹھارہ ہزار (18,000) عالم ہیں اور دنیا ان میں سے ایک ہے۔
(الدرالمنثور، 1 : 13)
(تفسيرأبي السعود، 1 : 14)
حضرت کعب الاحبار فرماتے ہیں :
لایحصیٰ عدد العالمین۔ عوالم کی تعداد کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔
قرآن مجید میں ہے :
وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ.
اور آپ کے پروردگار کے لشکروں کو بجز اس کے کوئی نہیں جانتا۔
(المدثر، 74 : 31)
یہاں لشکروں سے مراد مختلف انواع خلق ہیں جو ارض و سماء کی وسعتوں میں جدا جدا عالمین میں موجود ہیں۔ جن کی صحیح تعداد اور حتمی تفصیلات خالق کائنات کے سوا کسی اور کو معلوم نہیں۔ اسی طرح ارشاد فرمایا گیا :
وَيَخْلُقُ مَا لاَ تَعْلَمُونَO
اور وہ پیدا فرمائے گا جنہیں تم (آج) نہیں جانتے۔
(النحل، 16 : 8)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اورہمیشہ جاری رہے گا۔ بنابریں اس کے تخلیق کردہ عوالم اس قدر ہیں کہ کسی کو ان کا اندازہ بھی نہیں۔ اس امر کی تائید اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے :
يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ.
وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے بڑھاتا جاتا ہے۔
(فاطر، 35 : 1)
یہ سب مقامات بتاتے ہیں کہ نہ معلوم دن بدن اور لمحہ بہ لمحہ کتنی کائناتیں اور عوالم منصہ خلق پر ظہور پذیر ہورہے ہیں۔ بقول اقبال :
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
چنانچہ جن علماء نے مختلف عالموں کی تعداد کا ذکر کیا ہے وہ کسی نہ کسی خاص نسبت اور جہت سے کیا ہے :
1۔ اہل علم پر جوں جوں علوم وفنون منکشف ہوتے رہے ہیں وہ اپنی اپنی بساط اور ذوق و فہم کے مطابق عالمین کی اقسام بیان کرتے رہے ہیں۔ کوئی عالم اجسام اور عالم ارواح کی تقسیم اس طور پر بیان کرتا ہے کہ عالم اجسام میں پھر اجسام علویہ اور اجسام سفلیہ کے عوالم ہیں۔ اجسام علویہ میں شمس و قمر دیگر سیارات، افلاک وکواکب، عرش و کرسی، سدرۃ المنتہٰی، لوح و قلم اور جنت وغیرہ کے عالم شامل ہیں۔ اجسام سفلیہ میں کرہ ارض، کرہ ہوا اور کرہ نار ہیں۔ یہ سب اہل فلسفہ کے نزدیک اجسام بسیط کے عالم ہیں اور اجسام مرکبہ میں عالم نباتات، عالم معدنیات، عالم حیوانات وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح عالم ارواح میں بھی علوی اور سفلی کی تقسیم ہے جن میں ملائکہ اور جن و انس کے عوالم آجاتے ہیں۔
2۔ بعض اہل علم عالم اکبر اور عالم اصغر کی تقسیم کرتے ہیں۔ عالم اکبر سے مراد ساری خارجی کائنات ہے جس کی وسعتیں زمین وآسمان کو محیط ہیں اور عالم اصغر خود وجود انسانی ہے جو عالم اکبر کی جملہ حقیقتوں کا جامع ہے۔ عالم اکبر جن حقائق کی تفصیل ہے عالم اصغر ان سب کا اجمال ہے بایں طور کائنات عالم مفصل ہے اور انسان عالم مجمل ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَO وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَO
اور (یوں تو) یقین رکھنے والوں کے لئے زمین میں (بے شمار) نشانیاںْ ہیں اور (اے لوگو) خود تمہارے نفسوں میں بھی (اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں) پھر کیا تم غور نہیں کرتے۔
(الذرايت، 51 : 20، 21)
اسی طرح :
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ.
ہم عنقریب ان کو دنیا میں اور خود ان کی ذات میں (اپنی قدرت و حکمت کی) نشانیاں دکھائیں گے۔
(حم السجدة، 41 : 53)
اس آیت میں واضح طور پر عالم انفس اور عالم آفاق کا ذکر ہے۔ دونوں میں فرق یہی ہے کہ جو آیات الہیہ عالم آفاق میں منتشر ہیں وہ سب عالم انسانی میں متجمع ہیں اس لیے کہا گیا ہے :
من عرف نفسه فقد عرف ربه.
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا پس اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
(الحاوي للفتاويٰ، 2 : 412)
(کشف الخفاء، 2 : 262)
کیونکہ عالم انفس میں مخفی حقیقتیں سب رب کریم کی ذات و صفات کا پتہ دیتی ہیں۔ بقول اقبال :
اگر خواہی خدا را فاش بینی
خودی را فاش تر دیدن بیاموز
3۔ عالمین کی وسعت کا ایک ادنیٰ سا اندازہ وہ بھی ہے جو آج سائنسی انکشافات کے ذریعے حاصل ہورہا ہے۔ اس کا تذکرہ رب العالمین کے الفاظ میں پنہاں ربوبیت الہیہ کی بے کراں وسعتوں کو کسی حد تک اجمالاً سمجھنے میں یقیناً ممد ہوگا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved