آئیے! اب ذرا بزرگان دین، اولیاء کے خواب کو بیان کرنے اور اخفا کرنے کا طریقہ سمجھیں۔ اولاً یہ جان لینا چاہیے کہ اخفاء کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ خوابوں اور بشارات کا ذکر اور چرچا ہر وقت ہر لمحہ اور ہر جگہ نہیں کرتے رہنا چاہیے جیسے دروس قرآن، دینی و ایمانی پہلوؤں پر وعظ و تبلیغ اور اولیاء اللہ کی تعلیمات کھلے عام اجتماع میں بیان کی جاتی ہیں، خواب ہر کس وناکس اہل و نااہل کے سامنے ہر تقریر و خطاب میں بیان نہ کرنے کی حکمت یہ ہے کہ خواب کی ایک تعبیر و تاویل ہوتی ہے جسے ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا، اس بنا پر خواص اہل محبت و عقیدت اور متعلقین کی مجلس میں اسے بیان کیا جائے، علاوہ ازیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
اخفاء کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی خواب ایسا ہے جس کا تعلق آپ کے روحانی مقام و مرتبے، ذاتی عمل و اصلاح رشد و ہدایت سے ہے تو اسے مخفی رکھیں، لوگوں کے سامنے اسے بیان کرنے کی ضرورت و حاجت نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی خواب کا تعلق فقط آپ کی ذات سے نہیں بلکہ پوری تحریک اور مشن سے وابستہ افراد کے ساتھ بھی ہے تو اسے اس خصوصی حلقے تک پہنچانا بھی ایک امانت ہے۔
اس لیے سنن ابن ماجہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس سے تعلق و محبت ہو اور جسے بہتر سمجھے اس کے سامنے خواب بیان کر دے۔
اخفاء کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ رویائے صالحہ اور مبشرات میں جو کچھ کسی نے دیکھا وہ کسی سے بالکل بیان نہ کرے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر ہزارہا خواب اور مبشرات کی تعبیرات اور سینکڑوں صحابہ، تابعین و ائمہ دین اور اولیاء کرام مشائخ و علماء کے خواب کتابوں میں درج نہ ہوتے نہ خود بیان و تحریر کرتے اور نہ کسی اور کو اجازت دیتے۔ اخفاء کا مطلب فقط یہ ہے کہ عام مسائل، دینی تعلیمات، دینی معارف کی طرح بلا امتیاز ہر مجلس و اجتماع میں انہیں بیان نہ کیا جائے بلکہ خواص کی مجلس میں الگ انہیں بیان کیا جائے۔
اولیاء و بزرگان دین کا خواب و بشارات کو بیان کرنے کے حوالے سے کشف المحجوب کا مطالعہ کریں، حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی اس کتاب سے پوری انسانیت مستفید ہو رہی ہے، خلق خدا اس کتاب میں درج تعلیمات سے اصلاح و احوال کا سامان کر رہی ہے، ہر کس و ناکس اس کا مطالعہ کرتا ہے، اس میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے خوابوں و بشارات کا تذکرہ کیا ہے لیکن آج تک کسی نے انگشت اعتراض بلند کرنے کی سعی نہیں کی اور نہ کرے گا۔
حضرت غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی کتاب ’’بہجۃ الاسرار‘‘ میں آپ کی سوانح حیات اور خوابوں اور بشارات کا تذکرہ ہے جنہیں ان خصوصی مجالس میں جو کہ سینکڑوں، ہزاروں افراد پر مشتمل تھیں آپ نے اپنے اہل عقیدت و محبت اور اہل ارادت و نسبت افراد کے سامنے بیان کیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، آپ نے ارشاد فرمایا : بیٹا عبدالقادر میری امت کو وعظ کیا کر اور انہیں اللہ کے دین کی طرف ہدایت کا راستہ بتایا کر، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عجمی ہوں ان عربی دانوں کے سامنے کیسے بولوں؟ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : منہ کھولو، میں نے منہ کھولا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات مرتبہ لعاب دہن میرے منہ میں ڈالا۔ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کے لعاب دہن کے منہ میں پڑنے کی دیر تھی کہ پھر میری زبان سے حقائق و معارف، اسرار و حکمتیں جاری ہو گئیں۔
امام ابوالحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ نے کثرت کے ساتھ اپنی خوابوں اور روحانی مبشرات کا ذکر کیا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان پر بے پایاں عنایت و شفقت تھی، اکثر انہیں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت و دیدار نصیب ہوتا۔
حضرت شیخ ابوالعباس مرسی رحمۃ اللہ علیہ کو چالیس سال سے اللہ تعالیٰ نے بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ مقام قرب عطا کیا ہے کہ ہر وقت نگاہ میں چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رہتا ہے، فرماتے ہیں اگر ایک لمحے کے لیے ہی چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو وہ اس لمحے میں خود کو مسلمان تصور ہی نہیں کرتا۔ بارگاہ نبوت میں دائمی حضوری، جلوہ دیدار کا یہ عالم ہے کہ ہر وقت بیداری میں ہی دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو رہا ہے، چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظروں سے اوجھل ہی نہیں ہو رہا، گویا آج بعد از وصال بھی آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زیارت جسے بھی کروانا چاہیں تو خواب تو درکنار عالم بیداری میں سفید دن کے اندر کرا سکتے ہیں۔ اگر اولیاء و صلحاء و اکابرین امت ان چیزوں کو بیان نہ کرتے تو آج امت کا یہ عقیدہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کبھی نہ ہوتا۔
اولیاء مشائخ اور علماء و صلحاء نے جن خواب و مبشرات کو بیان کیا ہے ان کے پیچھے کچھ مقاصد کارفرما ہوتے، کبھی تو امت کے مجموعی طور پر عقیدے کی اصلاح کے لیے بیان کرتے، کبھی امر واقع کے لیے اور کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں اور رفعتوں کو آشکار کرنے کے لیے اور کبھی کسی دینی حکمت و مصلحت کے لیے اور کبھی کسی امر خیر کی وجہ سے مبشرات کا ذکر کرتے ہیں، تاکہ امت عقیدہ و ایمان کی پختگی کے ساتھ صراط مستقیم پر گامزن رہے۔ مبشرات کو اپنی ذات کی خاطر افشاء اور بیان نہیں کرتے۔
مولانا اشرف علی تھانوی اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی کتب کا مطالعہ کیجئے، لکھتے ہیں کہ مولانا قلندر بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صاحب حضوری بزرگ ہو گزرے ہیں، بڑی کثرت سے انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت و دیدار نصیب ہوتا، ایک مرتبہ حج پر تشریف لے گئے، اس زمانے میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان اونٹ کی سواری میسر ہوتی تھی۔ آپ ایک سواری پر سوار ہوئے جسے ایک نو عمر بچہ چلا رہا تھا، اس کی کسی غفلت کی وجہ سے غصہ آ گیا اور اس کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیا، بس اتنا کرنے کی دیر تھی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار و زیارت بند ہو گئی، پریشان و دکھی ہو کر مارے مارے پھرتے رہے، تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ سید زادہ ہے اہل بیت سے تعلق رکھتا ہے، شہر مدینہ کا رہنے والا ہے اسے طمانچہ مارنے کی وجہ سے آقا ناراض ہو گئے، دیدار بند ہو گیا، ہر عالم بزرگ، صوفی و عارف کے پاس گئے، معافیاں مانگیں وظیفے کیے لیکن معافی نہ ملی بالآخر ایک بزرگ کی صحبت میں گئے زار و قطار روتے اور تڑپتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا، انہوں نے بھی صاف جواب دے دیا کہ اس رکاوٹ کا دور ہونا مشکل ہے، البتہ انہوں نے راہنمائی فرمائی ایک مجذوبہ، عارفہ ولیہ مائی ہے جو ہر روز در اقدس پر حاضری دیتی ہے، ایڑیاں اٹھا اٹھا کر گنبد خضری کو اپنی نگاہوں میں سماتی ہے، ادب کا عالم یہ ہے کہ گنبد خضریٰ کی طرف پشت کر کے نہیں چلتی، بڑی کاملہ و متصرفہ ہے، اس کی خدمت میں جاؤ شاید تمہاری یہ رکاوٹ اور مسئلہ حل ہو جائے، ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اپنی پریشانی بیان کی کہ غلطی سے ایک سید زادے کو طمانچہ مار دیا ہے، نتیجتاً دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محروم ہو گیا ہوں کوئی سبیل کیجئے، خدا را میرے حال پر کرم کریں، میرا یہ سلسلہ بحال کرا دیں اور آقا سے معافی لے کر دیں، وہ مجذوبہ عارفہ مائی جلال میں آ گئی، گنبد خضریٰ کی طرف اشارہ کر کے فرمانے لگی دیکھ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ سامنے کھڑے ہیں، یوں حالت بیداری میں دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہو گیا۔
خواب و بشارات کو اولیاء اللہ، علماء و مشائخ نے بیان کیا، اپنی ذات کی عظمت و بزرگی ناموری اور شہرت کے لیے نہیں کہ لوگ ہمیں ولی و مقرب بزرگ و عظیم جانیں، یہ تصور و خیال شیطانی و طاغوتی ہے جبکہ ان مبشرات کو مقربین و صالحین نے اس لئے بیان کیا کہ امت کا یہ ایمان و عقیدہ پختہ ہو جائے کہ اگر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہیں تو ایک ادنیٰ غلام کو بھی سفید دن میں حالت بیداری میں زیارت و دیدار کرا سکتے ہیں۔
ہمارے خواب و مبشرات کے حوالے سے جو تہلکہ و طوفان بپا کیا گیا ہے اس طوفان کے پس منظر میں اور وجوہات کے علاوہ اس عقیدے پر بھی ضرب کاری لگانا مقصود تھا کہ امت اپنے ذہن و دماغ سے اس تصور کو ہی محو کر دے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی غلام کو بھی اپنی زیارت و دیدار کرا سکتے ہیں، اس طوفان و پراپیگنڈہ کا کچھ ناداں دوست بھی شکار ہو گئے جن کے عقیدے کی بنیاد ہی اسی تصور پر استوار ہے۔
امام شعرانی اپنی کتاب طبقات میں اور علامہ انور شاہ کشمیری فیض الباری میں ذکر کرتے ہیں، امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے خواب تو درکنار عالم بیداری میں ستر مرتبہ اپنی زندگی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کیا اور جس کسی چیز کے سمجھنے میں مشکل و دشواری پیش آتی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوتے۔
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضوری ہو جاتی، عرض کرتے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! فلاں مسئلے کی سمجھ نہیں آ رہی، دشواری پیش آ رہی ہے، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرم کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ’’جلال الدین ایسے کر لو‘‘ چنانچہ مشکل حل ہو جاتی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس طرح پتہ چلا کہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کو عالم بیداری میں دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوا اور علماء نے اپنی کتابوں میں اسے کیسے درج کر لیا۔ صاف ظاہر ہے انہوں نے اپنے ان احوال کو بیان کیا ہی ہے تو کتابوں اور سینوں کی زینت بنے ہیں۔
شیخ محمد ابو المواہب شاذلی رحمۃ اللہ علیہ پر ہمہ وقت بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضوری کی کیفیت طاری رہتی تھی، کثرت زیارت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتی، شیخ ابوالمواہب نے نہ صرف اپنی خوابوں و بشارات کو بیان کیا ہے بلکہ خود کتابی صورت میں اپنی خوابوں کو مرتب بھی کیا ہے۔
حضرت شیخ عبدالعزیز دباغ جن کی کتاب الابریز ہے، جابجا اپنی رؤیات و بشارات کو بیان کرتے ہیں، اگر خواب بیان کرنے پر فتوے لگاتے ہو تو خدا کا خوف کرو اس طرح تو جملہ مکاتب فکر کے اکابرین و اسلاف میں سے کوئی بھی تمہارے فتویٰ سے نہیں بچے گا، مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا مطالعہ کریں جہاں آپ نے ضرورت محسوس فرمائی بلاتامل اپنی رویات، مبشرات و مکاشفات کا ذکر کیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت مقدسہ کا مطالعہ کریں، حرمین شریفین حاضری کے وقت جو خواب، بشارات، مکاشفات اور کیفیات وارد ہوئیں انہیں بذات خود کتاب کی صورت میں مرتب فرمایا، اسی موضوع پر آپ نے مستقل ایک کتابچہ ’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین‘‘ رقم کیا ہے جس میں اپنے والد گرامی، مشائخ اور خود اپنے چالیس خوابوں کو جمع کیا ہے۔
یہ مت کہیں کہ بزرگوں کا فقط اپنے حلقے میں ہی خواب بیان کرنے کا معمول تھا بلکہ بزرگوں نے عوام و خواص اہل محبت و عقیدت کے استفادے کے لیے خود اپنے خوابوں کو جمع کیا ہے، فرق فقط یہ ہے اس وقت تمہارے جیسے فتنہ پرور بدعقیدہ و بدبخت حاسد، کینہ پرور اور استہزاء و مذاق کرنے والے تعصب و عناد کی آگ میں جل کر مسلمہ تصورات کا انکار کرنے والے نہ تھے، اگر اس وقت تم ہوتے، تمہارے اخبار و رسائل ہوتے تو شاہ ولی اللہ کی ذات بھی تمہارے ہاتھوں سے نہ بچتی، ان کی پگڑی بھی تم اچھالتے۔
الدر الثمین اور انفاس العارفین میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنے والد گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ بیمار ہو گئے اس وقت آپ کے سسر حضرت شاہ عبدالعزیز بھی ہمارے گھر تشریف لائے ہوئے تھے، فرمانے لگے بیٹا جس رخ پر تمہاری چارپائی بچھی ہوئی ہے اور جس طرف تمہارے قدم ہیں اس سمت سے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری عیادت کے لیے تشریف لا رہے ہیں، ابھی تو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف ہی نہیں لائے لیکن خبر والوں کو پہلے ہی خبر ہو گئی کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔
اگر تمہارے جیسے لوگ وہاں موجود ہوتے تو مذاق اڑاتے دیکھو جی چودہ سو سال گزر گئے ہیں معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر آ رہے ہیں، بے ادبی و گستاخی کر دی ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں تشریف لا رہے ہیں، مگر اہل ایمان دل جانتے ہیں کہ چھوٹا بڑے کے ہاں جائے تو لینے کے لیے جاتا ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلاموں کے ہاں تشریف لائیں تو دینے کے لیے آتے ہیں۔
غرضیکہ چارپائی کا رخ بدلا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا کیف حالک یا انبی؟ میرے بیٹے کیسا حال ہے؟ اپنا دست اقدس پھیرا تو حضرت شاہ عبدالرحیم شفاء یاب ہو گئے، دل میں خیال آیا کہ پتہ نہیں خواب ہے یا بیداری کاش آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی نشانی دے جائیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریش مبارک پر ہاتھ پھیرا۔ دو موئے مبارک ہاتھ میں آئے تکیے کے نیچے رکھ کر عطا کر دیئے فرمایا بیٹا ہم تمہیں دو موئے مبارک بطور نشانی دیے جا رہے ہیں، صبح بیدار ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک موجود تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان میں سے ایک موئے مبارک میرے پاس موجود ہے۔ اس وقت اگر تم جیسے لوگ ہوتے تو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ پر فتوی جڑ دیتے کہ دیکھو جی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کا اپنے پاس موجود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، یہ گستاخی بے ادبی ہے۔ لیکن یہ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا ہے جسے نوازیں خالی ظرف والے تو اعتراضات و فتنے پیدا کرتے ہی رہتے ہیں۔
مولانا اشرف علی تھانوی کی نشرالطیب میں ہے کہ حضرت امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ چودہ سال سے فالج زدہ تھے، چلنے پھرنے سے عاری ہو گئے، مرض لا علاج ہو گیا، رات کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں تشریف لائے، امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سو پینسٹھ اشعار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ قصیدے کی صورت میں تحریر کیے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بوصیری رحمۃ اللہ علیہ اٹھ وہ نعتیہ اشعار تو سنا جو تو نے میری شان میں لکھے ہیں، عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے تو فالج ہے میں کیسے اٹھوں، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس پھیرا تو چودہ سال کا فالج ختم ہو گیا، روبصحت ہو گئے اٹھ کر بیٹھ گئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قصیدہ سنایا تو آپ جھوم جھوم کر سنتے رہے، خوش ہو کر اپنی چادر عطا کی، چادر کو عربی زبان میں ’’بردہ‘‘ کہتے ہیں، اسی بنا پر قصیدے کا نام ’’قصیدہ بردہ‘‘ رکھا، باہر نکلے تو دنیا دنگ رہ گئی کہ فالج زدہ بیمار تھے چودہ سال بعد صحت یاب کیسے ہو گئے راستے میں ایک مجذوب عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پروانہ آ رہا تھا آہستہ سے آواز دی بوصیری ایک بات تو سن، آپ رک گئے قریب آئے تو وہ درویش، مجذوب کہنے لگا رات والا قصیدہ مجھے بھی تو سناؤ، امام بوصیری چونک اٹھے کونسا قصیدہ، اس نے پہلا شعر سنا دیا امن تذکر جیران۔ ۔ ۔ وہ قصیدہ جو اس شعر سے شروع ہوتا ہے آپ حیران رہ گئے کہ ابھی تو میں نے کسی کو سنایا ہی نہیں پوچھا تمہیں کیسے خبر ہوئی؟ فرمانے لگے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جھوم جھوم کر سن رہے تھے تو دور کھڑا میں بھی سن رہا تھا، اس کے بعد تھانوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ قصیدے کی شہرت ہو گئی بادشاہ وقت کو خبر ہوئی اس نے اپنے پاس لکھ کر رکھ لیا نوبت یہاں تک پہنچی کہ کوئی نابینا و بیمار ہوتا تو قصیدہ بردہ شریف کے کاغذ مبارک اس کی آنکھوں پر رکھنے سے بینا اور شفایاب ہو جاتا۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ الحاوی للفتاوی میں نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کی روح اقدس کو ملکوت ارض و سما میں تصرف وسیع عطا کر دیا ہے، دن ہو یا رات، عالم خواب ہو یا عالم بیداری، جس وقت اور جب بھی آقا چاہیں کسی بھی غلام کو اپنے دیدار اور زیارت سے نواز سکتے ہیں، جسے چاہیں چادر مبارک عطا کر جائیں اور جسے چاہیں موئے مبارک دیں۔
یہ عقائد ہمیشہ رہے ہیں یہ چیزیں اہل ایمان و اہل محبت و عقیدت کے عقیدے کی اصلاح اور ایمان کی تازگی کے لیے بیان ہوتی رہی ہیں، وہ ان کے فیوضات سے اپنے دامن و جھولیاں بھرتے رہے ہیں، ہم نے کوئی نیا کام نہیں کیا دین و شریعت کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی، فرق صرف یہ کہ بدقسمتی سے ہمارے دور میں تم ہو اور ان کی خوش قسمتی اس دور میں تم نہ تھے، بد اعتقادی، فکری انتشار اور حسد و عناد کی یہ صورت نہ تھی، علمی دیانت و امانت کا لحاظ تھا کسی فرد یا جماعت کو نام لے کر مطعون کرنا اور برا بھلا کہنا یہ ہمارا وطیرہ اور روش نہیں ہے۔ ہماری بشارات کی کیسٹ کو سیاق و سباق سے جدا کر کے غلط تعبیرات کر کے اور معاذ اللہ اس کے نفس مضمون کو گستاخانہ پیرائے میں بدل کر ایک انتشار و فتنہ پیدا کرنے کی جن عناصر نے کوشش کی ہے ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جن کے ہاں علمائے دیوبند کی بڑی قدر و منزلت ہے اور ان سے خاصی عقیدت و محبت اور جذباتی حد تک وابستگی ہے، ہم اپنی روش کے مطابق نہ کسی پر طعن کرتے ہیں اور نہ کریں گے اور نہ ہی بطور طعن ذکر کر رہے ہیں صرف اس حد تک متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ کاش کم از کم اتنا ہی پڑھ لیا ہوتا کہ جن علماء و بزرگوں کا تم احترام و اکرام، عقیدت و محبت اور تعظیم و ادب کرتے ہو بشارات و خواب کو بیان کرنا ان کے معمولات میں سے تھا یا کہ نہیں؟ اسی پر فیصلہ ہو جاتا۔
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی ’’امداد المشتاق‘‘ اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی ’’شمائم امدادیہ‘‘ پڑھیے، جگہ جگہ بشارات کا ذکر ہے، مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے ایک پوری کتاب ’’حکایات اولیاء‘‘ کے نام سے مرتب کی ہے جس میں ایک دو نہیں سینکڑوں کی تعداد میں انہوں نے اپنے علماء اور مختلف بزرگوں کی کرامات و مکاشفات اور بشارات و خوابوں کا ذکر کیا ہے، ساری کتاب خوابوں سے بھری پڑی ہے۔ کم از کم اسی کا خیال کر لیتے کہ یہ معمول ان کے اپنے اکابر و علماء کا رہا ہے یا کہ نہیں؟ آج بھی یہ کتابیں چھپتی ہیں اور دوکانوں پر فروخت ہو رہی ہیں، اگر ہم چاہتے تو مختلف چیزوں کو اچھال سکتے تھے مگر نہیں، یہ خیانت ہے اور یہ امانت و دیانت عدل و انصاف کے خلاف ہے، ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا اور نہ کبھی کریں گے، اس لیے کہ ہمارے نزدیک علم میں امانت و دیانت کا ایک تصور ہے۔
تذکرۃ الرشید کو اٹھائیے، مولانا عاشق الٰہی میرٹھی نے علمائے دیوبند میں سے ایک عالم مولانا رشید احمد گنگوہی کی سوانح حیات رقم کی ہے، اس کتاب میں ایک پورا باب ’’مبشرات و شہادات‘‘ قائم کیا ہے۔ اب ذرا ’’تذکرہ مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی‘‘ کا مطالعہ کیجئے، اس کتاب کو برصغیر پاک و ہند کے بہت معروف عالم دین مولانا سید ابوالحسن ندوی نے مرتب کیا ہے جس میں انہوں نے ان کی سوانح حیات اور بشارات پر فصلیں قائم کی ہیں۔
یہ ٹھوس و جامع دلائل اور حوالہ جات اس لیے پیش کر رہے ہیں تاکہ یہ طے کیا جائے کہ کسی بھی مکتب فکر کا کوئی بھی عالم، بزرگ اور شیخ ایسا بھی ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ وہ ہستی خواب و بشارات کا تذکرہ نہیں کرتی تھی، اگر یہ خواب بیان کرنا اتنا ہی گناہ، ناجائز اور خلاف اسلام ہوتا اور اس کے بیان کرنے سے فتنہ پیدا ہوتا تو یہ سارے مسالک کے علماء و اکابر کتابوں میں پورے کے پورے ابواب درج نہ کرتے۔
’’اشرف السوانح‘‘ مولانا اشرف علی تھانوی کے سوانح حیات پر ان کی زندگی میں لکھی گئی اس کتاب کو پڑھیے، اس میں ان کے حالات زندگی لکھے گئے ہیں جو انہیں پڑھ کر سنائے گئے، انہوں نے تصدیق کی اور اس کے بعد اپنے ہاتھوں سے خود تقریظ لکھی اس کے بعد یہ کتاب چھپی، اس میں ایک مستقل باب ’’بشارات منامیہ‘‘ کے نام سے قائم ہے جس میں انہوں نے اپنی بشارات و خوابوں کا ذکر کیا ہے۔
آپ کو بھی یہ خیال نہ آیا کہ تنقید کا وہی تیر جس کا رخ ادھر کیا ہے تھوڑا سا ادھر بھی کر لیا ہوتا تو سمجھ آ جاتی۔ یہ اچھی اور دیانتدارانہ بات نہیں ہے، تمام مسالک کے اکابر علماء کے معمولات میں سے یہ چیز رہی ہے کہ جہاں کوئی دینی حکمت و مصلحت اور امر خیر و بھلائی دیکھی صرف وہاں خواب کو بیان کیا۔
’’اصدق الرؤیا‘‘ مولانا اشرف علی تھانوی کی اس کتاب میں سینکڑوں کی تعداد میں وہ خواب جو انہوں نے خود دیکھے اور پھر وہ جو ان کے مریدین، عقیدت مندوں اور خلفاء نے دیکھے، یہ سارے خواب اور ان کی تعبیرات دو جلدوں پر مشتمل پوری کتاب میں محفوظ ہیں اور یہ کتاب پوری دنیا میں موجود ہے، لیکن آج تک کسی نے یہ اعتراض نہ کیا کہ خوابوں پر پوری کتاب لکھ دی ہے، خوابوں و بشارات کو عام بیان کرتے ہیں، اگر ہم بھی چاہتے تو ان چیزوں کو اچھال سکتے تھے لیکن ہم ایمانداری کے ساتھ سمجھتے ہیں کسی سے اتفاق ہو یا اختلاف دین و علم کے معاملے میں دیانت کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ آپ کو تحریک منہاج القرآن، غلبہ دین حق کی بحالی کے مشن اور اس احقر سے اختلاف تھا تو اختلاف کرنے کے ہزارہا طریقے ہیں سارے آزما لیتے لیکن اختلاف میں اس حد تک نہ جاتے کہ چودہ سو سال سے امت میں جو چیزیں اکابر سے لے کر اصاغر تک مسلمہ چلی آ رہی ہیں محض ہماری مخالفت، بغض و حسد اور عناد کی وجہ سے ان کا ہی برملا انکار کرتے اور ان کا استہزاء مذاق اڑا کر قرآن و سنت کے مسلمہ تصور کی نفی کرتے۔
’’معرفت الٰہیہ‘‘ مولانا شاہ عبدالغنی جو کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ ہیں، اپنی کتاب میں جگہ جگہ بشارات و خوابوں کا ذکر کرتے ہیں اور باقاعدہ ’’خلافت کے متعلق چند غیبی شہادتیں‘‘ ’’مبشرات منامیہ‘‘ اور ’’تعبیرات خواب‘‘ کے ابواب قائم کرتے ہیں۔
کسی بھی مکتبہ فکر کے اکابر سے لے کر اصاغر تک کسی کی بھی سوانح حیات، کتابوں اور تذکروں کو پڑھ لیجئے آپ کو ابواب کے ابواب اس موضوع پر بھرے ملیں گے، اب اگر سوال کیا جائے خواب کو اخفاء کرنا بیان نہ کرنا، نہ لکھنا اور ذکر نہ کرنا کہاں گیا تو آپ کا جواب ہو گا کہ وہ اپنے حلقہ ارادت اور متعلقین میں بیان کرتے تھے یہی جواب یہاں بھی ہے، ہم نے یہ بات آپ کے لیے نہیں کہی تھی اور نہ کوئی کیسٹ بنا کر آپ کی طرف بھیجی تھی اور نہ کوئی اس موضوع پر کتاب تحریر کر کے آپ کو دی تھی اور نہ آج تک عوام کے لیے شائع کی ہے اور نہ ہی پاکستان کے کروڑوں عوام کو کیسٹ سننے کے لیے جاری کی تھی او نہ اب جاری کی ہے اور نہ کبھی اپنے خطابات و تقریروں سے اس کے سننے کی ترغیب دی ہے۔ غیر متعلقہ لوگوں کو اس کے سننے کی کبھی اجازت نہیں دی، بلکہ ہم نے تو تحریک منہاج القرآن کے لاکھوں وابستگان جو تحریک کے ساتھ دل و جان سے وابستہ ہو کر چل رہے ہیں انہیں بھی بالعموم اس کے سننے اور دیکھنے کی اجازت نہیں دی، چہ جائیکہ عوام الناس میں اس کی تشہیر کرتے، ہم نے آج تک کسی پبلک سٹال پر اسے فروخت نہیں کیا اور نہ کسی بھی سطح پر اس کی تشہیر کی اور نہ ہی رسالوں و اخبارات میں اس کے سننے کے لیے اشتہار جاری کیے۔ ہم نے تو انتہائی محدود حلقے میں خاص افراد کے سامنے غلبہ دین حق کے عالمگیر مشن کے حوالے سے ان کے شرح صدر کے لیے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ خیرات کو بیان کیا۔ اور اس کیسٹ کو ریکارڈ کر لیا تاکہ کوئی اسے مسخ نہ کر سکے اور نہ ہی اس میں رد و بدل کرے۔ آج تک اسے محفوظ رکھا ہے، عوام کے لیے نہ کبھی جاری کی تھی نہ اب کی ہے، ہم تو اس طریقے و روش پر چل رہے ہیں جس پر آج تک تمام مکاتب فکر کے اکابر و اسلاف قائم رہے ہیں، لیکن تم نے تحریک منہاج القرآن کی مخالفت و دشمنی، بغض و حسد میں وہ کچھ کیا ہے جو تاریخ اسلام میں کسی کی عداوت و دشمنی پر آج تک کسی نے نہیں کیا۔
’’محبوب العارفین‘‘ اس کتاب میں مولانا محمد زکریا جو کہ تبلیغی جماعت کے بانی ہیں، ان کی زندگی میں ان کے بیان کردہ چالیس خوابوں کو جمع کیا گیا۔ یہ ان کی زندگی میں مرتب ہوئی اور چھپ کر لوگوں کے ہاتھ آئی، اس کے حصہ دوم ’’بہجۃ القلوب‘‘ میں بشارات، مبشرات کا ذکر ہے، آپ انہیں پڑھتے ہیں اور اپنی مجالس میں بیان کرتے ہیں لیکن جب ہمارا معاملہ آیا تو ان ہی مبشرات و خوابوں کو اپنی مجالس میں بیان کرنے والے انہیں اچھالنے لگے اور استہزاء و مذاق کرنے لگے، کاش دین کے لیے ایک ہی پیمانہ و ترازو و کسوٹی بنائی ہوتی۔ ایسا نہ ہوتا کہ اپنوں کی بات ہو تو معیار اور ہو جائے اور دوسروں کی بات ہو تو معیار بدل جائے۔ اپنے چاہنے والے کے لیے محبت کا پیمانہ اور جن سے دشمنی و عداوت ہے ان کے لیے بغض و عناد اور حسد کا پیمانہ بن جائے۔
مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہے میں صرف دردمندی اور اظہار درد کے ساتھ آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں، خدا را اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین اور امت کے حال پر رحم کرو، وہ چیزیں جو تمام اکابر اور اصاغر کے درمیان مسلمہ اور متفق علیہ ہیں ان کا انکار نہ کرو اور اپنی حسد کی آگ بجھانے کے لیے اور تحریک کے مشن کے خلاف اپنی مخالفت و عداوت کو انجام تک پہنچانے کے لیے خدارا ایسا ظلم نہ کرو کہ امت کا اعتماد و اعتقاد ان چیزوں سے اٹھ جائے، اگر یہ ہو گیا تو کسی کا دامن محفوظ نہ بچے گا، سب کے خرمن جل جائیں گے۔ مسلمہ تصورات و اعتقادات برباد ہو جائیں گے اور ہر دور کے اکابرین سے لے کر اصاغرین تک کی ذات سے ہر کسی کا اعتماد اٹھ جائے گا اور امت بہت بڑے انتشار و افتراق میں مبتلا ہو جائے گی۔
دیانت و امانت کا تقاضا یہ ہے کہ جو کوئی خواب بیان کرے اسے اس کے ایمان پر چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ کیسٹ جسے بعض شیطان صفت عناصر نے پھیلایا اس میں ابتداء سے ہی بعض ان ضروری وضاحتوں کو کاٹ دیا گیا جو ان کے منصوبے کے خلاف جاتی تھیں تاکہ لوگ وہ نہ سن سکیں اور یہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوں، اس کیسٹ میں، میں نے بیان کیا کہ جو شخص خواب کی حالت میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کوئی جھوٹی اور غلط بات منسوب کرے اور یہ کہتا پھرے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجھے زیارت ہوئی اور آپ نے یہ ارشاد فرمایا تو سن لیجئے کہ ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ ایسا شخص جہنمی، لعنتی اور دنیا و آخرت میں مردود ہے اور آخرت میں دوزخ کا ایندھن بنایا جائے گا کیونکہ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
من رأني في المنام فقد رأني فان الشيطان لا يتمثل في صورتي. ومن کذب عليَّ متعمدا فليتبوأ مقعده من النار.
بخاري، الصحيح، کتاب الادب، باب من سمي باسماء الانبياء، 5 : 2290، رقم : 5844
’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے (واقعی) مجھے دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا اور جو جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں سمجھے۔‘‘
میں نے چند ضروری وضاحتیں اور احادیث بیان کی تھیں، کاش ان چیزوں کو بھی اپنی کیسٹ میں رکھ لیتے تاکہ میری زبان سے لوگ یہ بھی سن لیتے کہ میں نے ان چند چیزوں کو بیان کرنے سے پہلے یہ ضروری چیزیں بھی بیان کی ہیں، میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے والا مرتد بے ایمان، لعنتی اور جہنمی ہے، لیکن تم نے سب ضروری وضاحتوں کو کاٹ کر اپنے مطلب کی چیزیں اکٹھی کر لیں، اس طرح تم نے اہل ایمان کو بہت بڑا دھوکہ و فریب دے کر بددیانتی و خیانت کا ارتکاب کیا ہے۔
’’آب بیتی‘‘ یہ کتاب مولانا زکریا تبلیغی جماعت کے بانی نے خود تصنیف کی ہے، اس میں انہوں نے اپنی بشارات، خوابوں اور استخاروں کا ذکر کیا ہے۔ کیا تبلیغی جماعت کے اجتماعات میں ان خوابوں، بشارات کا ذکر نہیں ہوتا، اس پر تو کسی نے بھی کبھی طعن و تشنیع نہیں کی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ آخر یہ طعن و تشنیع کی زبان تحریک منہاج القرآن کے حوالے سے ہی کیوں کھلی، ان تیروں کا رخ ادھر ہی کیوں ہوا؟ اگر بات علمی مسئلے کی ہوتی تو یہ تیر ادھر بھی چلتے اور ادھر بھی چلتے، مگر ایسا نہ ہوا اور اسی طرح اگر یہ بات دیانت داری پر مبنی ہوتی تو اعتراض وہاں بھی ہوتے اور یہاں بھی، پگڑی ادھر بھی اچھلتی اور ادھر بھی، مگر یک طرفہ الزامات کی بارش سے واضح ہوتا ہے کہ بات علمی مسئلے اور امانت و دیانت کی نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ ادھر تو تعریف ہے، ادھر حسد ہے، ادھر محبت و عقیدت ہے اور ادھر تعصب و عنادت ہے اور یہ تعصب کی آگ سامنے آ کر بھڑکنے کے قابل نہ تھی اور نہ ہی اسے جرات تھی لیکن اسے پس پردہ بھڑکایا گیا۔
ہم برملا یہ بیان کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم بذات خود کچھ نہیں ہیں بلکہ ہم تو ریت اور مٹی کے ذرات کے برابر بھی نہیں۔ یہ صرف اللہ کا فضل اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کی خیرات ہے، اگر یہ نہ ہو تو ہم دو قدم بھی نہیں چل سکتے۔ اس لیے بتانا یہ چاہتا ہوں کہ منہاج القرآن کا یہ مشن حق ہے، اس لیے درپردہ جتنی سازشیں کی جائیں گی یہ ختم ہو جائے تو یاد رکھیئے کہ
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
دنیا کی کوئی بھی طاقت، کسی بھی قسم کی سازش اس مشن کو ختم نہیں کر سکتی (ان شاء اللہ)۔
’’سیرت النبی بعد از وصال النبی‘‘ یہ کتاب محترم عبدالمجید صاحب صدیقی جو ہائیکورٹ کے ایڈووکیٹ ہیں، انہوں نے اس میں ان شخصیات کا تذکرہ کیا ہے جن کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد زیارت کی سعادت نصیب ہوئی، اس کتاب کو چھپے ہوئے گیارہ بارہ سال گزر چکے ہیں لیکن اس پر کسی نے گرفت نہیں کی۔
’’زیارت نبی بحالت بیداری‘‘ یہ بھی صدیقی صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے ان شخصیات کے احوال و واقعات کا ذکر کیا ہے جنہیں وصال مبارک کے بعد حالت بیداری میں دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوا۔ اس کتاب کو بھی چھپے ہوئے گیارہ بارہ سال ہو گزرے لیکن کسی نے بھی کوئی زبان نہیں کھولی بلکہ ان میں سے اول الذکر کتاب پر نامور علماء جن میں مولانا قاری محمد طیب مہتمم دار العلوم دیوبند، علامہ علاؤ الدین صدیقی سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی اور مولانا عبدالماجد دریا آبادی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’کام نہایت ہی اہم ہے بشرطیکہ احتیاط سے کیا جائے‘‘ علماء کے علاوہ بڑے بڑے معروف صحافیوں نے بھی تقاریظ کی صورت میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود نہ کسی نے اس کو اچھالا اور نہ اعتراض کیا ہے۔
کیا ان کتابوں سے کیسٹس نہیں بن سکتے یا ان پر مضامین نہیں لکھے جا سکتے؟ ادھر ہماری طرف سے کوئی بات بیان ہو تو فوری طور پر پمفلٹ، رسالے اور اخبار شائع ہو جاتے ہیں اور ایک کردار کشی کی مہم شروع ہو جاتی ہے، یہ پہلو بطور خاص غور کرنے کے قابل ہے کہ ان تمام تر مخالفت کا مقصد علمی دیانت نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں کچھ اور ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved