حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا روزانہ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھتے اور ان سے خواب و بشارت کے حوالے سے دریافت فرماتے کہ آج رات کسے خواب آیا ہے، صحابہ کرام بیان کرتے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تعبیر ارشاد فرما دیتے۔
صحیح مسلم میں حضرت سمہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم اذا صلي الصبح اقبل عليهم بوجهه فقال هل راي احد منکم البارحة رؤيا.
مسلم، الصحيح، کتاب الرؤيا، باب رؤيا النبي، 4 : 1781، رقم : 2275
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ مبارک معمول تھا کہ جب صبح کی نماز آپ پڑھا لیتے تو ہماری طرف چہرہ اقدس پھیر کر تشریف فرما ہوتے اور اپنے غلاموں سے پوچھتے کہ تم میں سے کس نے پچھلی رات کوئی خواب دیکھا ہے۔‘‘
سنن ابی داؤد میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی معمول مبارک سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں منقول ہے :
ان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان اذا انصرف من صلوة الغداة يقول فهل راي منکم اليلة رويا ويقول انه ليس يبقي بعدي من النبوة الا الرويا الصالحة.
ابو داود، السنن، کتاب الادب، باب : ما جاء في الرويا، 2 : 723، رقم : 5017
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ کیا تم نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے اور یہ بھی فرماتے کہ میرے بعد نبوت باقی نہیں مگر نیک و صالح خواب باقی ہیں۔‘‘
بخاری شریف میں ہے کہ :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مما يکثر ان يقول لا صحابه فهل راي احد منکم قال فيقص عليه من شاء اﷲ ان يقص.
بخاري، الصحيح، کتاب التعبير، باب تعبير الرويا بعد صلاة الصبح، 6 : 6583، رقم : 6640
’’راوی کہتے ہیں، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیان کرتا وہ آدمی جس کا بیان اللہ کو منظور ہوتا (جس نے کوئی خواب دیکھا ہوتا)۔‘‘
اگر خواب بیان کرنے کی ممانعت ہوتی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی ہر روز نماز فجر کے بعد بھری محفل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ان کے خوابوں کے متعلق نہ پوچھتے اور انہیں سب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سامنے بیان کرنے کی اجازت نہ دیتے اور نہ ہی آپ تمام صحابہ کے سامنے ان کے خواب کی تعبیر بیان کرتے بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو بذات خود صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس میں اپنے خواب بیان کیے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس میں خواب بیان کرنا اور اس کی تعبیر بتانا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے، اب حسد و عناد، دشمنی و عداوت کی بنیاد پر یہ کہتے پھرنا کہ نیک خوابوں کا بیان کرنا غلط اور ناجائز ہے یا خلاف سنت ہے اور بزرگوں کا یہ معمول نہیں تو یہ سراسر جہالت و لاعلمی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ کا کھلا انکار ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام سے ان کے خوابوں کے بارے میں پوچھتے، ان کی تعبیر بیان کرتے اور پھر صحابہ کی مجلس میں اپنے خواب بھی بیان کرتے۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مقامات رفیع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جامع کمالات سے نوازا ہے، رعب و دبدبہ کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے، اس کے بعد آپ نے فرمایا :
انا نائم ثم اتيت بمفاتيح خزائن الارض فوضعت في يدي.
بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب قول النبي نصرت بالرعب مسيرة شهر 3 : 1087، رقم : 2815
’’میں سویا ہوا تھا، اس حالت میں تمام زمین کے خزانوں کی چابیاں میرے ہاتھ میں دے دی گئیں۔‘‘
اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مقام ہجرت کے متعلق اپنے مقدس خواب کا ذکر کیا ہے۔
مسلم شریف میں حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ورأيت في المنام اني اهاجر من مکه الي ارض بها نخل فذهب وهلي الي انها اليمامة او هجر فاذا هي المدينه يثرب.
مسلم، الصحيح، کتاب الرويا، باب رويا النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 : 1789، رقم : 2272
’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ کی زمین سے ہجرت کر کے ایسی زمین کی طرف گیا ہوں جس میں کھجوروں کے کثیر درخت ہیں، میں نے اسے یمامہ یا ہجر کی زمین سمجھا مگر میں نے ہجرت کی تو یہ مدینہ کی سرزمین تھی۔‘‘
جھوٹے مدعیان نبوت کے متعلق بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو آگاہ فرما دیا تھا۔ مسلم شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
بينا انا نائم رأيت في يديّ سوارين من ذهب فأهمني شأنهما فأوحي إلي في المنام أن أنفخهما فنفختهما فطارا فاولتهما کذابين يخرجان من بعدي.
مسلم، الصحيح، کتاب الرويا، باب رؤيا النبي صلي الله عليه وآله وسلم 4 : 1781، رقم : 2274
’’میں نیند کی حالت میں تھا، میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنائے گئے ہیں، میں نے انہیں توڑ دیا اور ناپسند کیا، پھر مجھے حکم دیا گیا تو میں نے انہیں پھونک دیا اور وہ اڑ گئے، میں نے اس کی تعبیر یہ نکالی کہ دو جھوٹے ظاہر ہوں گے۔‘‘
راوی حدیث حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ دونوں کے مصداق کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ایک ان میں اسود عنسی ہے جسے یمن میں فیروز نامی شخص نے قتل کیا اور دوسرے کا نام مسیلمہ ہے۔
بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ایک خاتون کو دیکھا جس کا رنگ نہایت ہی سیاہ اور بال بکھرے ہوئے ہیں، وہ مدینہ سے نکل کر مقام حجفہ کی طرف چلی گئی، اس کے بعد آپ نے اس کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا :
ان وباء المدينة نقل اليها
بخاري، الصحيح، کتاب التعبير، باب اذا راي انه اخرج الشيء من کورة فاسکنه موضعا، 6 : 5280، رقم : 6631
’’یہ مدینہ کی وباء تھی جو مقام حجفہ کی طرف منتقل کر دی گئی ہے۔‘‘
خواب کا اسلوب عموماً تمثیلی ہوتا ہے، بات علامتوں اور استعاروں کے ذریعے سمجھائی جاتی ہے اور انہی علامتوں اور استعاروں سے مفہوم اخذ کرنا خواب کہلاتا ہے۔
ورقہ بن نوفل سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے چچا زاد بھائی تھے، آمد اسلام سے پہلے عیسائی تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ ہوئی اور آپ سے نزول وحی و جبرئیل کے بارے میں سنا تو انہوں نے آپ کی نبوت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا اگر میں زندہ رہا تو اس وقت جب آپ کو قوم شہر بدر کرے گی تو میں آپ کی مد کروں گا۔ ایک دفعہ سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ورقہ بن نوفل کے بارے میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہوں نے آپ کی تصدیق کی لیکن آپ کے ظہور سے پہلے وفات پا گئے ہیں، کیا وہ جنت میں گئے ہیں یا دوزخ میں؟ جامع ترمذی میں ہے، اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
أريته في المنام وعليه ثياب بيض ولو کان من اهل النار لکان عليه لباس غير ذلک.
حاکم، المستدرک، 4 : 435، رقم : 8187
’’مجھے وہ خواب میں اس حال میں دکھائے گئے ہیں کہ وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے، اگر وہ دوزخی ہوتے تو ان کا یہ لباس نہ ہوتا بلکہ اور لباس ہوتا۔‘‘
ان احادیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ خواب کا سننا اور اسے اہل عقیدت و محبت اور اہل ایمان و ایقان کے سامنے بیان کرنا اور اس کی تعبیر بتانا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
تحریک منہاج القرآن جو غلبہ دین حق کی بحالی اور احیائے اسلام کی عالمگیر تحریک ہے، اگر اسلام کے احیاء، خدمت دین اور امت مسلمہ کی اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی اشارے پر آپ کی بشارت کا ذکر ان خاص افراد کے سامنے جو مشن کے ساتھ جان نثاری کے جذبے کے ساتھ چل رہے ہیں انہیں مسجد کے اندر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام کی سنت کے مطابق جزواً کر دیا تو ظالمو بتاؤ تو سہی اس عمل سے کون سی شریعت اسلامی اور سیرت طیبہ کی خلاف ورزی ہوئی۔ تحریک تو اتباع مصطفیٰ کی راہ پر چل رہی ہے اور چلتی رہے گی۔ تحریک منہاج القرآن سے بغض و عناد، عداوت و دشمنی، حسد و مخالفت کی وجہ سے تم خیانت کر گئے ہو اور حد سے گزر گئے ہو۔ تعصب و عناد نے تمہاری آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں۔ خواب و بشارات کے ان تصورات کو اچھال رہے ہو اور استہزاء و مذاق کر رہے ہو جن سے کتب احادیث بھری پڑی ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved