تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اسلام کے احیاء، امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ اور ایک ہمہ گیر انقلاب بپا کرنے اور معاشرے میں اصلاح احوال کے لئے کسی تحریک نے جنم لیا ہے تو وہ قوتیں جو امت مسلمہ کے احوال میں تبدیلی، اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور عظمت و شوکت اسلام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے نہیں دیکھ سکتیں اور اسلام کے احیاء سے خوفزدہ ہیں اور نہیں چاہتیں کہ افق عالم پر اسلام ایک عظیم قوت بن کر ابھرے۔ وہ مختلف طریقوں سے اس تحریک کو اپنی منزل کی طرف بڑھنے سے روکتی ہیں اور ہر سطح پر ہر حربہ استعمال کرکے اسے دبانے کی کوشش کرتی ہیں۔ مختلف حیلوں، بہانوں سے احیاء اسلام اور غلبہ دین حق کی بحالی کی اس تحریک کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔ مزاحمت کرتی ہیں مخالفتوں کے طوفان اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ تحریک کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے عوام و خواص کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا کرکے فتنہ و شر پیدا کیا جاتا ہے اجارہ دار طبقات بھی نہیں چاہتے کہ معاشرے میں ان کی اجارہ داریاں ختم ہو جائیں۔ چنانچہ وہ بھی سماج کے ان منفری عناصر کے ساتھ مل کر اس اصلاحی اور انقلابی تحریک کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ اس کے تصورات کو مسخ کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو اس ابھرتی ہوئی تحریک سے دور رکھنے کے لئے ہر ہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں نیکی و بدی کے معیارات مٹتے جا رہے ہیں معاشرے تضادات کا شکار ہے۔ نیکی اور بدی کی قوتیں ایک حد تک ایک ساتھ چلتی ہیں اور یہ بات ہمارے روز مرہ کے مشاہدہ میں آتی ہیں کہ ہم ایسے کئی افراد کو جانتے ہوں گے کہ وہ رشوت بھی لیتے ہیں۔ ڈاکہ، چوری، بدکاری میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ شراب بھی پیتے ہیں اور سمگلنگ بھی کرتے ہیں لیکن مسجدوں میں نمازیں بھی ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ دینی محافل اور روحانی اجتماعات میں بھی دیکھے جاتے ہیں۔ اللہ کی یاد میں روتے بھی ہیں اس کے حضور سر بسجود بھی ہوتے ہیں مسجد کی تعمیر میں بھی چندہ دیتے ہیں اور نیکی کے کاموں میں حصہ بھی لیتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد اس وقت تک نیکی کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں جب تک یہ نیکی ان کے وجود کے لئے خطرہ و چیلنج نہیں بنتی اور پھر ایمان کی ایک کرن تو ان کے اندر بھی ہوتی ہے کلیتاً اسلام کے منکر نہیں ہوتے نیکی کے کاموں میں بھی حصہ لیتے رہتے ہیں۔ اور دوسری طرف فسق و فجور دجل و فریب اور منافقت کو بھی اپنے طرز عمل سے فروغ دیتے رہتے ہیں۔
لیکن جب نیکی ان کے کاروبار حیات کے لئے چیلنج بن جاتی ہے نیکی کو غالب کرنے والی تحریک اٹھتی ہے جو ان کے جھوٹے مفادات کے لئے خطرہ بن جاتی ہے تو نیکی اور بدی کا یہ مصنوعی سمجھوتہ ختم ہو جاتا ہے اور یہ پوری قوت کے ساتھ نیکی کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں۔ بدی کو فروغ دینے اور نیکی کے خلاف محاذ آراء ہونے والے نہیں چاہتے کہ نیکی انقلاب بنے اور نظام خیر بن کر پورے معاشرے پر چھا جائے۔ ایک تحریک بن کر ابھرے اور ایک قوت کی شکل اختیار کرکے بدی اور ظلم کے وجود کو نیست و نابود کر دے اور منافقت کو ختم کرکے عدل و انصاف اور حق و صداقت پر مبنی نظام رائج کرے۔
تحریک منہاج القرآن بھی عدل و انصاف اور حق و صداقت پر مبنی اسی نظام رحمت کے احیاء کے لئے عالمگیر سطح پراپنی انقلابی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس تحریک کا مقصد محض وعظ و تبلیغ، تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر نہیں یہ ہر سطح پر مصطفوی انقلاب بپا کرنا چاہتی ہے۔ تحریک کامیابی کے ساتھ غلبہ دین حق کے مشن کی جانب رواں دواں ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مقدسہ کے توسل سے غلبہ دین حق کی بحالی اتحاد امت اور اتباع رسول اور عشق پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ کے لئے ہمارا یہ سفر جاری رہے گا تا وقتیکہ اس قرآنی حکم کی تعمیل ہوجائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَO
التوبه، 9 : 33
’’تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگے۔‘‘
غلبہ دین حق کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا ہمارا ھدف اور عالمگیر سطح پر اسلام کو ایک عظیم انقلابی قوت بنانا ہمارا مقصود ہے اور یہی ہدف سامراجی طاقتوں کو منظور نہیں کہ امتِ مسلمہ پھر سے اپنے پر عظمت ماضی کی طرف لوٹے۔ سامراجی اور استعماری طاقتیں نہیں چاہتیں کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہو اور یہ صفحہ ہستی پر ایک عظیم طاقت بن کر ابھرے۔ امت مسلمہ میں اتحاد و یگانگت پیدا ہو اور احیاء اسلام کے لئے ایک ایسی عظیم تحریک اٹھے جو شرق سے غرب تک اسلام کے پرچم کو سربلند کرے۔ اس تحریک کی انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں عالمگیر سطح پر امت مسلمہ ایک عظیم بلاک بن کر قوموں کی برادری میں موثر اور باوقار کردار ادا کرسکے۔ ان سامراجی اور استحصالی قوتوں نے تحریک منہاج القرآن کی اٹھان دیکھی، اس کا مستقبل دیکھا اور عالمگیر سطح پر تحریک نے جس برق رفتاری سے اپنا سفر طے کیا ہے اس کا مشاہدہ کیا انہوں نے دیکھا کہ اب تحریک منہاج القرآن دعوت، تنظیم اور تربیت کے مرحلوں سے گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک اور انقلاب کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ان سامراجی استحصالی قوتوں اور مفاد پرست ٹولے نے جو نہ تو داخلی اور خارجی سطح پر حقیقی معنوں میں اسلام کی ترویج اور نفاذ چاہتے ہیں اور نہ عالمگیر سطح پر اسلام کی عظمت کی بحالی چاہتے ہیں بالواسطہ طور پر اس تحریک کی مخالفت اور ہر سطح پر مزاحمت کے لئے طرح طرح کی صورتیں پیدا کر دیں یہ ایک حقیقت ہے کہ دین کے دشمنوں نے باہر سے اسلام کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا، جتنا اسلام کے نادان دوستوں نے پہنچایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کے خلاف جب بھی سازشوں کا جال بچھایا گیا اور کوئی تحریک اس کے خلاف اٹھی تو دشمنان اسلام کو اکثر و بیشتر مسلمانوں کے اندر سے ہی میر جعفر اور میر صادق ملتے رہے جو اپنے مفادات کی خاطر، اپنی اجارہ داریوں اور کرسیوں کی خاطر اسلام کی عظیم الشان عمارت میں نقب لگاتے رہے ہیں۔
الحمد للہ تحریک منہاج القرآن اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ ان منفی قوتوں کو اپنا وجود خطرے میں نظر آیا۔ انہوں نے دیکھا کہ تحریک منہاج القرآن امت مسلمہ کو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھولا ہوا سبق پھر یاد کرا رہی ہے۔ ادب و تعظیم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ سینوں میں روشن ہو رہے ہیں۔ وہ نوجوان نسل جو عشق الہی، عبادت الہی، اطاعت الٰہی، تعلق باللہ، ربط رسالت، عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ادب محبوب کبریاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی اور وجدانی مراکز سے دور کر دی گئی تھی وہ دیوانہ وار پلٹ کر کشاں کشاں اسی منزل عشق کی طرف رواں دواں ہوگئی ہے۔ لبوں پر عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ترانے ہیں۔ سینوں میں عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چراغاں ہو رہا ہے۔ وطن عزیز کی فضائیں تاجدار مدینہ کے ترانوں سے گونج رہی ہیں۔ تو ان قوتوں نے فی الفور سازش کے تحت تحریک منہاج القرآن کو بدنام کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی یہ تحریک پر اللہ کا بے پایاں فضل و کرم تھا کہ دشمن فکری اور عملی اعتبار سے تو تحریک سے ٹکر لینے کی جرات نہ کرسکے۔ ان میں مردوں کی طرح اصول اور ضابطے کے مطابق مقابلہ کرنے کی نہ اخلاقی جرات تھی اور نہ اس کی صلاحیت اور طاقت۔ اختلاف تھا تو پوری جرات اور دیانت سے سامنے آتے ہماری غلطی کی نشاندہی کرتے ہمارا ظرف اتنا تنگ نہیں کہ اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرسکتے لیکن عدل وانصاف، امانت ودیانت اور اخلاق و کردار اور وسعت ظرف جیسے اوصاف باطل کے کردار میں شامل ہی نہیں چنانچہ در پردہ سازشی، تخریبی، ناجائز اور غیر عادلانہ طریقے اپنائے گئے۔ تحریک کی فکر اور تحریک کی قیادت دونوں پر جھوٹی تہمتیں لگائی گئیں، غلط اور من گھڑت تصورات تحریک کے ساتھ منسوب کئے گئے الزام تراشیوں کا ایک سلسلہ چل نکلا، حسد اور عناد کی انتہا ہوگئی اگر وہ حملہ صرف میری ذات تک محدود ہوتا تو کوئی بات نہ تھی لیکن عداوت و تنگ نظری تمام اخلاقی حدود اور ضابطوں کو توڑ کر یہاں تک جان پہنچی کہ ظالموں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس اور اس مبارک نسبت کو بھی معاف نہ کیا۔ یہ دراصل عقیدے پر حملہ تھا۔ تحریک کی فکری اور نظریاتی اساس پر حملہ تھا۔ یہ انقلاب اور اس کے عظیم تصور پر حملہ تھا اور سب سے بڑھ کر عشق و ادب رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ تھا۔ میری نسبت سے عام ذہنوں میں یہ غلط فہمی پیدا کی گئی کہ قادری صاحب نے خوابوں، بشارتوں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی مبشرات کے افشاء کو اپنا معمول بنا رکھا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ بڑے منظم طریقے سے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پاکستان سے باہر بھی کیا گیا یہ فتنہ کیسٹوں کے ذریعہ سعودی عرب اور خدا جانے کہاں کہاں پہنچایا گیا۔
ان باتوں کو عام کیا گیا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں غلط بیانی کی گئی کہ قادری صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان عوامی تحریک کا نام بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر رکھا ہے۔ یہ لغو اور بے بنیاد الزام ہے۔ ہم نے اشارۃً بھی کبھی ایسی بات نہیں کہی اور نہ ہی یہ ہماری کسی تحریر میں ہے اور نہ تقریر میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بشارت بھی پاکستان عوامی تحریک کے نام کی بنیاد نہیں بلکہ یہ نام باہمی مشاورت اور جمہوری طریقے سے رکھا گیا تھا۔ ہم نے فقط اتنا کہا ہے کہ اس نام کا انتخاب ہم پچپن (55) آدمیوں نے مدینہ منورہ کی سر زمین پر کیا۔ مسجد نبوی کے اندر بھی اور باہر بھی صلاح و مشورہ ہوتا رہا اور خاصی سوچ و بچار کے بعد اس نام پر اتفاق ہوا۔ درحقیقت انسان جب بغض و عناد اور حس میں اندھا ہو جائے تو جھوٹ اور سچ میں تمیز کھو بیٹھتا ہے۔
ادارہ منہاج القرآن کے بارے میں بھی غلط بیانی کی گئی کہ قادری صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ ادارہ منہاج القرآن کا نام بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر رکھا گیا ہے۔ یہ بھی سراسر تہمت اور بہتان ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام ایسے معاملات میں اگر کوئی حکم دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں جس وقت چاہیں اپنے کسی امتی کی راہنمائی کرسکتے ہیں کرتے رہیں اور سلف صالحین میں اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں مگر امر واقعہ یہ ہے کہ 1980ء میں ہم نے قرآن پاک میں سے چوبیس، پچیس نام چنے تھے اور بالآخر منہاج القرآن کا نام تجویز ہو کر منظور ہوا۔ اس کا تعلق بھی کسی بشارت یا خواب سے نہ تھا۔
لوگ تو اس حد تک جھوٹ اور تہمت باندھتے ہیں کہ ادارہ منہاج القرآن کے تمام فیصلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت، حکم اور بشارتوں پر ہوتے ہیں ہم نے یہ دعویٰ بھی کبھی نہیں کیا حالانکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی معاملے میں اگر کسی فرد یا پوری امت کی رہنمائی فرمانا چاہیں تو فرما سکتے ہیں۔ یہ رہنمائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی فرماتے ہی اور قیامت تک رہنمائی فرماتے رہیں گے اور اس پر ہمارا ایمان ہے۔ البتہ ہم اپنے تمام تنظیمی اور تحریکی فیصلے اپنی مجالس میں باہمی مشاورت سے جمہوری انداز میں کرتے ہیں۔ بحث و تمحیص ہوتی ہے سوچ بچار ہوتی ہے۔ ہم نے انہیں کبھی بھی الہامی فیصلہ نہیں کہا جو شخص جھوٹ کذب اور افتراء باندھتا ہے اسے اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اسے اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اس جھوٹ پر اس کی گرفت ہوگی۔ اسے قبر کی رات اور روز حساب سے ڈرنا چاہیے۔
یہ الزام بھی سراسر جھوٹ اور افترا پر مبنی ہے کہ ہم نے خوابوں اور بشارتوں کو برملا بیان کرنا اپنا معمول بنا رکھا ہے۔ تین ہزار سے زیادہ موضوعات پر ہمارے آڈیو اور ویڈیو کیسٹس موجود ہیں۔ گذشتہ دس سال سے تبلیغ اور فروغ دین کا یہ سلسلہ پوری دنیا میں انتہائی منظم طریقے سے جاری ہے جملہ آڈیو اور ویڈیو کیسٹس میں کوئی کیسٹ بھی ایسی نہیں جس سے ثابت ہو کہ ہم نے خوابوں اور بشارتوں کے افشاء کو اپنا معمول بنایا ہے۔ صرف ایک کیسٹ ایسی ہے جو 25 جنوری 1989ء کو جامع مسجد منہاج القرآن میں انتہائی معتمد اور قریبی تحریکی ساتھیوں کے خصوصی اجلاس میں جو پاکستان عوامی تحریک کے قیام سے قبل منعقد ہوا تھا جس میں بعض دینی و تحریکی حکمتوں اور مصلحتوں کے پیش نظر اور مبشرات اور رویائے صالحہ جن کا تعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھا جزوا بیان کیا گیا۔ میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ اس کا بیان ہمارا فرض اور تحریکی ساتھیوں کا حق تھا۔ یہ بیان اس لئے ریکارڈ کرا لیا گیا تھا تاکہ اس میں نہ تحریف کی جاسکے اور نہ اسے مسخ کیا جائے اور نہ کوئی غلط بات ہماری طرف منسوب کی جاسکے۔ اس موقع پر اجلاس میں شریک ساتھیوں سے حلف لیا گیا تھا کہ وہ کسی سے بھی اس کا ذکر نہیں کریں گے۔ وہ کیسٹ ان جان نثار ساتھیوں کے لئے تھی جنہوں نے اپنا جینا مرنا مصطفوی انقلاب کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔ جو حقیقتاً تحریک منہاج القرآن کا سرمایہ ہیں۔ تحریک کے مشن کے ساتھ وقف افراد جو ہر مرحلہ پر احیاء اسلام، اتحادامت، امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ اور دین کی اقدار کی بحالی کے لئے ہمارے شریک سفر تھے ان کے اطمینان قلب، اعتقاد اور اعتماد میں پختگی کے لئے ان تک اس کا پہنچانا ضروری تھا۔ یہ ایک امانت تھی بحمد اللہ ہمارے کسی ساتھی نے اس امانت میں خیانت نہیں کی۔
اب رہا یہ سوال کہ مذکورہ کیسٹ کو افشا کس نے کیا اس کے افشا میں کون کون سے محرکات پس پردہ کام کر رہے ہیں۔ تو اس سلسلہ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ خدا جانے کس طرح یہ کیسٹ فتنہ پرور عناصر کے ہاتھ لگ گئی۔ سیاق و سباق سے جدا کرکے تین گھنٹے کے دورانیے کو آدھ پون گھنٹے کا کرکے ابتدائیے اور متعلقہ وضاحتوں کو کاٹ کر عامۃ الناس میں بدگمانیوں پیدا کرنے کے لئے منظم طریق سے پھیلایا۔ یہ اسی طرح ہے جیسے قرآن حکیم کی یہ آیت کریمہ
لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى.
النساء، 4 : 43
’’اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ۔‘‘
کا آدھا آخری حصہ کاٹ دیا جائے اور کہا جائے کہ دیکھو قرآن کہہ رہا ہے کہ ’’نماز کے قریب مت جاؤ‘‘ آپ ذرا تحریف کے مرتکب اس شخص کے ایمان کا اندازہ کر لیں۔ اس سے بڑی بد دیانتی وخیانت اور کیا ہوگی؟ تحریک منہاج القرآن کو بدنام کرنے کے لئے اس تحریف شدہ کیسٹ کی ہزاروں کاپیاں اندرون ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیلائی گئیں۔ رسالوں میں اس کیسٹ کے مندرجات کو منفی انداز میں اچھالا گیا۔ پمفلٹ چھاپے گئے پوسٹر اور ہینڈ بل بنوائے گئے۔ میں ان تخریبی و فتنہ پرور عناصر سے صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس کیسٹ کو عام ہم نے کیا یا تم نے یقیناً بھونڈے طریقے سے اس کیسٹ کو افشا کرکے خیانت کے مرتکب ہونے والوں سے صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر رات کو مصلے پر بیٹھنے کی خدا توفیق دے تو اللہ کے حضور حاضری کا تصور کرکے فیصلہ کرنا کہ ہماری طرف جو باتیں تم نے منسوب کی ہیں وہ سچ ہیں یا جھوٹ، کیسٹ کو سرعام پھیلانے کا کردار تمہارے خبث باطن کی آئینہ داری کرتا ہے یا نہیں اگر تمہارا ضمیر زندہ ہے تو وہ تمہیں جھنجوڑ کر جواب دے گا۔ کہ تم نے ایسا ظلم کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
بدگمانیوں کی گرد سے آلودہ فضا میں اب ضروری ہوگیا تھا کہ علمی سطح پر اس فتنہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جائے اور قرآن و سنت کی روشنی میں بدعقیدگی کے اس طوفان کو روکنے کا انتظام کیا جائے جو درپردہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و احترام کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے۔ وسوسہ اندازی پھیلانے والے اگر قرآن و حدیث، سنت صحابہ اور تابعین، سنت اکابر و اسلاف اور اولیاء کے حوالے سے علمی سطح پر کسی مقام پر تبادلہ خیالات کرنا چاہیں تو ہمارے دروازے کھلے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved