1. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لِحَسَّانَ : إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ لَا يَزَالُ يُؤَيِّدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللهِ وَرَسُوْلِهِ، وَقَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، يَقُوْلُ : هَجَاهُمْ حَسَّانُ، فَشَفٰی وَاشْتَفٰی. قَالَ حَسَّانُ :
هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ
عَنْهُ
وَعِنْدَ اللهِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ
هَجَوْتَ مُحمَّدًا بَرًّا حَنِيْفًا
رَسُوْلَ اللهِ شِيْمَتُهُ الْوَفَاءُ
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
مَتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب من أحب أن لا يسب نسبه، 3 / 1299، الرقم : 3338، وأيضًا في کتاب المغازي، باب حديث الإفک، 4 / 1523، الرقم : 3914، وأيضًا في کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5 / 2278، الرقم : 5798، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1934. 1935، الرقم : 2489.2490.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت حسّان رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے سنا : جب تک تم اللہ عزوجل اور اس کے رسول کی طرف سے ان کا دفاع کرتے رہو گے روح القدس (جبرائیل علیہ السلام ) تمہاری تائید کرتے رہیں گے۔ نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ حسان نے کفارِ قریش کی ہجو کرکے مسلمانوں کو شفا دی (یعنی ان کا دل ٹھنڈا کردیا) اور اپنے آپ کو شفا دی (یعنی اپنا سینہ ٹھنڈا کیا)۔ حضرت حسان نے (کفار کی ہجو میں) کہا :
’’تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کی، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے جواب دیا ہے اور اس کی اصل جزا اللہ عزوجل ہی کے پاس ہے۔
’’تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کی، جو نیک اور ادیانِ باطلہ سے اعراض کرنے والے ہیں، وہ اللہ عزوجل کے (سچے) رسول ہیں اور ان کی خصلت وفا کرنا ہے۔
’’بلا شبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع کے لیے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
2. عَنْ عُرْوَةَ رضی الله عنه قَالَ : کَانَتْ عَائِشَةُ رضی الله عنها تَکْرَهُ أَنْ يُسَبَّ عِنْدَهَا حَسَّانُ، وَتَقُوْلُ : فَإِنَّهُ قَالَ :
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب حديث الإفک، 4 / 1518، الرقم : 3910، ومسلم في الصحيح، کتاب التوبة، باب في حديث الإفک وقبول توبة القاذف، 4 / 2137، الرقم : 2770، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 197، الرقم : 25665، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 296، الرقم : 8931.
’’حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات کو (سخت) ناپسند فرماتی تھیں کہ ان کے سامنے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جائے (اگرچہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں میں شامل تھے)۔ آپ فرماتی تھیں : (انہیں برا بھلا مت کہو،) انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں) یہ نعت پڑھی ہے :
’’بلاشبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع کے لیے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3. عَنْ هِشَامٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : ذَهَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَةَ رضی الله عنها، فَقَالَتْ : لَا تَسُبَّهُ، فَإِنَّهُ کَانَ يُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب، حديث الإفک، 4 / 1523، الرقم : 3914، وأيضًا في کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5 / 2278، الرقم : 5798، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1933، الرقم : 2487.
’’حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے اپنے والد (حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ) سے روایت کیا، انہوں نے فرمایا : میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا (کیوں کہ وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں میں شامل تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : انہیں برا بھلا نہ کہو، وہ کفار کے مقابلہ میں (اپنی شاعری کے ذریعے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کیا کرتے تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لِحَسَّانَ : اهْجُهُمْ أَوْ هَاجِهِمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
5. وفي رواية للبخاري : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ قُرَيْظَةَ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه : اهْجُ الْمُشْرِکِيْنَ، فَإِنَّ جِبْرِيْلَ مَعَکَ.
4.5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکة، 3 / 1176، الرقم : 3041، وأيضًا في کتاب المغازي، باب مرجع النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الأحزاب ومخرجه إلی بني قريظة، 4 / 1512، الرقم : 3897، وأيضًا في کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5 / 2279، الرقم : 5801، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة رضی الله عنه، باب فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1933، الرقم : 2486، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 302، والنسائي في السنن الکبری، 3 / 493، الرقم : 6024.
’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا : مشرکین کی ہجو کرو (یعنی ان کی مذمت میں اشعار پڑھو) اور جبرائیل علیہ السلام بھی (اس کام میں) تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریظہ کے روز حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ’’مشرکین کی ہجو (یعنی مذمت) کرو یقینا جبرائیل علیہ السلام بھی (میری ناموس کے دفاع میں) تمہارے ساتھ شریک ہیں۔‘‘
6. عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ : دَخَلْنَا عَلٰی عَائِشَةَ رضی الله عنها وَعِنْدَهَا حَسَّانُ ابْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنه يُنْشِدُهَا شِعْرًا يُشَبِّبُ بِأَبْيَاتٍ لَهُ، وَقَالَ :
حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيْبَةٍ
وَتُصْبِحُ غَرْثٰی مِنْ لُحُوْمِ الْغَوَافِلِ
فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ رضی الله عنها : لٰکِنَّکَ لَسْتَ کَذَالِکَ. قَالَ مَسْرُوْقٌ : فَقُلْتُ لَهَا : لِمَ تَأْذَنِيْنَ لَهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْکِ وَقَدْ قَالَ اللهُ تَعَالٰی : ﴿وَالَّذِي تَوَلّٰی کِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيْمٌo﴾ [النور، 24 : 11]؟ فَقَالَتْ : وَأَيُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنَ الْعَمٰی؟ قَالَتْ لَهُ : إِنَّهُ کَانَ يُنَافِحُ أَوْ يُهَاجِي عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب حديث الإفک، 4 / 1523، الرقم : 3915، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1934، الرقم : 2488.
’’حضرت مسروق بیان کرتے ہیں کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، درآنحالیکہ ان کے پاس حضرت حسان رضی اللہ عنہ بیٹھے انہیں اپنے اشعار سنا رہے تھے۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کہا :
’’وہ پاکیزہ اور دانش مند ہیں، ان پر کسی کے عیب جوئی کی تہمت نہیں ہے، وہ صبح غافلوں کے گوشت سے بھوکی اٹھتی ہیں (یعنی کسی کی غیبت نہیں کرتیں)۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے (اَز راہِ تفنن) فرمایا : لیکن تم اس طرح نہیں تھے۔ مسروق نے کہا : آپ انہیں اپنے پاس آنے کی کیوں اجازت دیتی ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (اور ان میں سے جس نے اس (بہتان) میں سب سے زیادہ حصہ لیا اس کے لیے زبردست عذاب ہے۔) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اندھے پن سے بڑا عذاب بھی ہوگا؟ حضرت حسان رضی اللہ عنہ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع میں کفار کو جواب دیتے تھے، یا ان (کفار) کی ہجو و مذمت کرتے تھے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
7. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ : اِسْتَأْذَنَ حَسَّانُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي هِجَاءِ الْمُشْرِکِيْنَ. قَالَ : کَيْفَ بِنَسَبِي؟ فَقَالَ حَسَّانُ : لَأَسُلَّنَّکَ مِنْهُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِيْنِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
8. وفي رواية : عَنِ الشَّعْبِيِّ قال : اسْتَأْذَنَ حَسَّانُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي قُرَيْشٍ. قَالَ : کَيْفَ تَصْنَعُ بِنَسَبِي فِيْهِمْ؟ قَالَ : أَسُلُّکَ مِنْهُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةَ مِنَ الْعَجِيْنِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
7.8 : أخرجه البخاري فيالصحيح، کتاب المناقب، باب من أحب أن لا يسب نسبه، 3 / 1299، الرقم : 3338، وأيضًا في کتاب المغازي، باب حديث الإفک، 4 / 1523، الرقم : 3914، وأيضًا في کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5 / 2278، وابن حبان في الصحيح، 16 / 95، الرقم : 7145، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 273، الرقم : 26018، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 297.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرکین کی ہجو کرنے کی اجازت طلب کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میرے نسب کا کیا ہوگا؟‘‘ تو انہوں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) ’’میں آپ کے نسب مبارک کو ان (مشرکین) سے ایسے نکال لوں گا، جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
’’امام شعبی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریش کی مذمت بیان کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان میں موجود میرے نسب کا کیا کرو گے؟ تو انہوں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں آپ کے نسب کو ان سے ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
9. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ : قَالَ حَسَّانُ رضی الله عنه : يَا رَسُوْلَ اللهِ، ائْذَنْ لِي فِي أَبِي سُفْيَانَ. قَالَ : کَيْفَ بِقَرَابَتِي مِنْهُ؟ قَالَ : وَالَّذِي أَکْرَمَکَ، لَأَسُلَّنَّکَ مِنْهُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْخَمِيْرِ، فَقَالَ حَسَّانُ :
وَإِنَّ سَنَامَ الْمَجْدِ مِنْ
آلِ هَاشِمٍ
بَنُوْ بِنْتِ مَخْزُوْمٍ وَوَالِدُکَ الْعَبْدُ
قَصِيْدَتُهُ هذِهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
9 : أخرجه أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1934، الرقم : 2489، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 273، الرقم : 26021، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 238، الرقم : 20894، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1 / 103، الرقم : 8.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے ابو سفیان کی ہجو کی اجازت دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کے ساتھ میری جو قرابت ہے اس کا کیا کرو گے؟ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت و تکریم عطا کی ہے! میں آپ (کے نسب مبارک) کو ان سے اس طرح نکال لوں گا جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ پھر حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے یہ قصیدہ کہا :
’’آل ہاشم کی بزرگی کا کوہان بنتِ مخزوم کی اولاد ہے، اور تیرا باپ تو غلام تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
10. عَنْ عَاءِشًةَ رضی الله عنها أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : اهْجُوْا قُرَيْشًا فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْهَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ، فَأَرْسَلَ إِلَی ابْنِ رَوَاحَةَ فَقَالَ : اهْجُهُمْ فَهَجَاهُمْ، فَلَمْ يُرْضِ، فَأَرْسَلَ إِلٰی کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلٰی حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ حَسَّانُ رضی الله عنه : قَدْ آنَ لَکُمْ أَنْ تُرْسِلُوْا إِلٰی هذَا الْأَسَدِ الضَّارِبِ بِذَنْبِهِ، ثُمَّ أَدْلَعَ لِسَانَهُ، فَجَعَلَ يُحَرِّکُهُ، فَقَالَ : وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَأَفْرِيَنَّهُمْ بِلِسَانِي فَرْيَ الْأَدِيْمِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَعْجَلْ، فَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ أَعْلَمُ قُرَيْشٍ بِأَنْسَابِهَا، وَإِنَّ لِي فِيْهِمْ نَسَبًا حَتّٰی يُلَخِّصَ لَکَ نَسَبِي. فَأَتَاهُ حَسَّانُ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَدْ لَخَّصَ لِي نَسَبَکَ. وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَأَسُلَّنَّکَ مِنْهُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِيْنِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالطَّبَرَانِيُّ.
10 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1935، الرقم : 2490، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 38، الرقم : 3582، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 238، الرقم : 20895، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1 / 64، الرقم : 21.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قریش کی ہجو کرو، کیوں کہ ان (گستاخوں) پر (میری نعت اور) اپنی ہجو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ شاق گزرتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابن رواحہ کی طرف پیغام بھیجا کہ کفار قریش کی ہجو کرو، انہوں نے کفار قریش کی ہجو کی، وہ آپ کو پسند نہیں آئی، پھر آپ نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا، پھر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا جب حضرت حسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے تو انہوں نے عرض کیا : اب وقت آگیا ہے، آپ نے اس شیر کی طرف پیغام بھیجا ہے جو اپنی دم سے مارتا ہے پھر اپنی زبان نکال کر ہلانے لگے۔ پھر عرض کیا : (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اپنی زبان سے انہیں اس طرح چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا جس طرح چمڑے کو پھاڑتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جلدی نہ کرو، یقینا ابو بکر قریش کے نسب کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اور ان میں میرا نسب بھی ہے۔ (تم ان کے پاس جاؤ) تاکہ ابو بکر میرا نسب ان سے الگ کردیں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، پھر واپس لوٹے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! ابو بکر نے میرے لیے آپ کا نسب الگ کر دیاہے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! میں آپ کو ان میں سے اس طرح نکال لوں گا جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
11. عَنِ ابْنِ الْمُسَيَبِ رضی الله عنه أَنَّ حَسَّانَ رضی الله عنه قَالَ فِي حَلْقَةٍ فِيْهِمْ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنْشُدُکَ اللهَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : أَجِبْ عَنِّي أَيَدَکَ اللهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ؟ فَقَالَ : اَللّٰهُمَّ، نَعَمْ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
12. وفي رواية : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه بِمَعْنَاهُ زَادَ : فَخَشِيَ أَنْ يَرْمِيَهُ بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَأَجَازَهُ وَتَرْکَهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ.
13. وفي رواية : أَقْبَلَ حَسَّانُ رضی الله عنه عَلٰی أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه فَقَالَ : أَنْشُدُکَ اللهَ، أَتَعْلَمُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَا حَسَّانُ، أَجِبْ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ. قَالَ : نَعَمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
11.13 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1933، الرقم : 2485، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في الشعر، 4 / 304، الرقم : 5014، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 269، الرقم : 7632، 5 / 222، الرقم : 21989، وعبد الرزاق في المصنف، 1 / 439، الرقم : 1716، 11 / 267، الرقم : 20510، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 40.41، الرقم : 3584. 3586، والبيهقي في السنن الکبری، 2 / 448، الرقم : 4145.
’’حضرت ابن مسیّب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے حلقہ میں جہاں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، ان سے دریافت کیا : اے ابوہریرہ! میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : (اے حسان! ) میری طرف سے (کفار و مشرکین کو) جواب دو، اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا : ہاں، اللہ کی قسم! میں نے سنا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
’’اسی معنی کی ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پس انہیں (یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو) خدشہ لاحق ہوا کہ یہ (یعنی حضرت حسان رضی اللہ عنہ ) انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حوالہ دے دیں گے۔ اس لیے انہوں نے اجازت دے دی (کیوں کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں منبر رسول پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت کے اشعار پڑھا کرتے تھے۔‘‘
اس روایت کو امام احمد اور ابو داود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
’’ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا : میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا : اے حسان! اللہ کے رسول کی طرف سے (کفار و مشرکین کی ہجو کا) جواب دو، (اور پھر دعا فرمائی : ) اے اللہ! روح القدس کے ذریعے اس کی مدد فرما؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : جی ہاں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
14. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ عُمَرَ رضی الله عنه مَرَّ بِحَسَّانَ رضی الله عنه وَهُوَ يُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ فَلَحَظَ إِلَيْهِ فَقَالَ : قَدْ کُنْتُ أنْشِدُ وَفِيْهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْکَ. ثُمَّ الْتَفَتَ إِلٰی أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه فَقَالَ : أَنْشُدُکَ اللهَ أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : أَجِبْ عَنِّي اَللّٰهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ. قَالَ : اَللّٰهُمَّ، نَعَمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
14 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1932، الرقم : 2485، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في الشعر، 4 / 303، الرقم : 5013، والنسائي في السنن، کتاب المساجد،باب الرخصة في إنشاد الشعر الحسن في المسجد، 2 / 48، الرقم : 716.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، درآنحالیکہ وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھور کر ان کی طرف دیکھا تو حضرت حسان نے کہا : میں مسجد میں اس وقت بھی شعر پڑھتا تھا جب مسجد میں آپ سے افضل شخص (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ظاہرًا) موجود تھے۔ پھر انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف مڑ کر دیکھا (جو کہ وہاں موجود تھے) اور کہا : (اے ابوہریرہ!) میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا تم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : (اے حسان!) میری طرف سے (مشرکین کو) جواب دو۔ اے اللہ! اس کی روح القدس کے ذریعہ سے تائید فرما؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، اللہ کی قسم! (سنا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
15. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ، يَقُوْمُ عَلَيْهِ قَائِمًا، يُفَاخِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَوْ قَالَ : يُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم. وَيَقُوْلُ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اللهَ يُؤَيِّدُ حَسَّانَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ مَا يُفَاخِرُ أَوْ يُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
15 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في إنشاد الشعر، 5 / 138، الرقم : 2846، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 72، الرقم : 24481، والحاکم في المستدرک، 3 / 554.555، الرقم : 6058.6059، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 298، وأبو يعلی في المسند، 8 / 189، الرقم : 4746، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 37، الرقم : 3580.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لیے منبر رکھتے تھے جس پر وہ کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے (مشرکین کے مقابلہ میں) فخر یا دفاع کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا رہے گا جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے فخر یا دفاع کرتا رہے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کی اور فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
16. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ، فَيَقُوْمُ عَلَيْهِ يَهْجُوْ مَنْ قَالَ فِي رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ مَعَ حَسَّانَ مَا نَافَحَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.
16 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في الشعر، 4 / 304، الرقم : 5015، وذکره العسقلاني في فتح الباري، 1 / 548، الرقم : 442، والشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 169.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد میں منبر رکھوایا کرتے تھے اور وہ اس پر کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کرنے والوں کی ہجو (یعنی مذمت) کیا کرتے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک جب تک حسان رسول اللہ کی طرف سے دفاع کرتا رہے گا روح القدس بھی حسان رضی اللہ عنہ کے ساتھ (ان کے مددگار) ہوں گے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
17. عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ : ذُکِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ رضی الله عنها حَسَّانُ فَقِيْلَ لَهَا : إِنَّهُ قَدْ أَعَانَ عَلَيْکِ وَفَعَلَ وَفَعَلَ، فَقَالَتْ : مَهْ.لًا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ اللهَ يُؤَيِّدُ حَسَّانَ فِي شِعْرِهِ بِرُوْحِ الْقُدُسِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
17 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 273، الرقم : 26019، وأيضًا في کتاب الأدب / 357، الرقم : 382.
’’امام شعبی سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہوا کہ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف لوگوں کی مدد کرتے تھے، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : (حسان کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل اچھی طرح) سوچ لیا کرو کیوں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ شعر گوئی میں اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعہ حسان کی مدد فرماتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
18. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ يَحْمِي أَعْرَاضَ الْمُؤْمِنِيْنَ؟ قَالَ کَعْبٌ : أَنَا. قَالَ ابْنُ رَوَاحَةَ : أَنَا. قَالَ : إِنَّکَ لَتُحْسِنُ الشِّعْرَ. قَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنه : أَنَا. إِذْ قَالَ : أُهْجُهُمْ، فَإِنَّهُ سَيُعِيْنَُکَ عَلَيْهِمْ رُوْحُ الْقُدُسِ. رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ.
18 : أخرجه الطحاوي فيشرح معاني الآثار، 4 / 297، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 416، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 590.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مومنوں کی عزتوں کی حفاظت کون کرے گا؟ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں۔ اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے بھی عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں (حفاظت کروں گا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک تو عمدہ شعر کہنے والا ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں (بھی حفاظت کروں گا)۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا : تم مشرکین کی ہجو کرو اور اس کام میں روح القدس تمہاری مدد کرے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طحاوی نے بیان کیا ہے۔
19. عَنْ بَرِيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : أَعَانَ جِبْرِيْلُ عليه السلام حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ رضی الله عنه عَلٰی مَدْحِهِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم بِسَبْعِيْنَ بَيْتًا.
رَوَاهُ الْفَاکِهِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْمِزِّيُّ. وَقَالَ ابْنُ عَسَاکِرَ : هذَا الإِسْنَادُ وَهُوَ الصَّحِيْحُ.
19 : أخرجه الفاکهي في أخبار مکة، 1 / 306، الرقم : 631، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 12 / 406، والمزي في تهذيب الکمال، 6 / 21، والخزرجي في خلاصة تذهيب تهذيب الکمال، 1 / 75، الرقم : 11، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 337.
’’حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح کے سلسلہ میں ستر اشعار کے ساتھ مدد فرمائی۔‘‘
اس حدیث کو امام فاکہی، ابن عساکر اور مزی نے روایت کیا ہے۔ امام ابن عساکر نے فرمایا : اس کی اسناد صحیح ہے۔
20. عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لَهُ : وَإِيَاکَ يَا سَيِّدَ الشُّعَرَاءِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْيَا.
20 : أخرجه ابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف، 1 / 244، الرقم : 296، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 28 / 93.
’’حضرت ہشام بن حسان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اور (سناؤ!) اے شاعروں کے سردار!‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی دنیا نے روایت کیا ہے۔
21. عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ عَائِشَةَ رضی الله عنها فَدَخَلَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنه فَأَمَرَتْ فَألْقِيَ لَهُ وِسَادَة.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ.
22. وفي رواية : عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ أَنَّ عَائِشَةَ رضی الله عنها کَانَتْ تَأذَنُ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه وَتَدْعُوْ لَهُ بِالْوِسَادَة وَتَقُوْلُ : لَا تُؤْذُوْا حَسَّانَ، فَإِنَّهُ کَانَ يَنْصُرُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِلِسَانِهِ.
ذَکَرَهُ السُّيُوْطِيُّ.
21.22 : أخرجه الطبري في جامع البيان، 18 / 88، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 273، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 158.
’’حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں موجود تھے کہ اتنے میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (ان کی تکریم کرنے کا) حکم دیا کہ اُن کے لیے تکیہ رکھا جائے۔ (حضرت حسان رضی اللہ عنہ چونکہ اشعار کے ذریعے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرتے تھے، اس لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یہ عزت و تکریم بخشی)۔‘‘
اس روایت کو امام طبری اور ابن کثیر نے بیان کیا ہے۔
’’ایک دوسری روایت میں امام محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو گھر میں آنے کی (خصوصی) اجازت دیتی تھیں اور ان کے لیے تکیہ لگانے کا اہتمام کرتی تھیں اور تاکیداً فرماتیں کہ انہیں تنگ نہ کیا جائے کیوں کہ وہ اپنے اَشعار کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کیا کرتے تھے۔‘‘
اسے امام سیوطی نے ذکر کیا ہے۔
23. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَتٰی فَقِيْلَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَهْجُوْکَ، فَقَامَ ابْنُ رَوَاحَةَ رضی الله عنه فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، ائْذَنْ لِي فِيْهِ. فَقَالَ : أَنْتَ الَّذِي تَقُوْلُ ثَبَّتَ اللهُ. قَالَ : نَعَمْ. قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ،
فَثَبَّتَ اللهُ مَا أَعْطَاکَ
مِنْ حُسْنٍ
تَثْبِيْتَ مُوْسٰی وَنَصْرًا مِثْلَ مَا نُصِرُوْا
قَالَ : وَأَنْتَ يَفْعَلُ اللهُ بِکَ خَيْرًا مِثْلَ ذَالِکَ. ثُمَّ وَثَبَ کَعْبٌ رضی الله عنه فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، ائْذَنْ لِي فِيْهِ. قَالَ : أَنْتَ الَّذِي تَقُوْلُ : هَمَّتْ؟ قَالَ : نَعَمْ. قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ،
هَمَّتْ سَخِيْنَةُ أَنْ تُغَالِبَ
رَبَّهَا
فَلْيَغْلَبَنَّ مَغَالِبَ الْغَ.لَّابُ
قَالَ : أَمَا أَنَّ اللهَ لَمْ يَنْسَ ذَالِکَ لَکَ. قَالَ : ثُمَّ قَامَ حَسَّانُ رضی الله عنه، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، ائْذَنْ لِي فِيْهِ وَأَخْرَجَ لِسَانًا لَهُ أَسْوَدَ. فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، ائْذَنْ لِي إِنْ شِئْتَ أَفْرَيْتُ بِهِ الْمَزَادَ. فَقَالَ : اذْهَبْ إِلٰی أَبِي بَکْرٍ لِيُحَدِّثَکَ حَدِيْثَ الْقَوْمِ وَأَيَامَهُمْ وَأَحْسَابَهُمْ، ثُمَّ اهْجُهُمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي الدُّنْيَا نَحْوُهُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
23 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 556، الرقم : 6065، وابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف، 1 / 242، الرقم : 295، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 12 / 405، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 336.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مسجد نبوی میں) تشریف لائے تو آپ سے عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب (اپنے اشعار میں) آپ کی مذمت (وہجو) کرتا ہے۔ اس موقع پر حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کرنے لگے : (یا رسول اللہ!) ابو سفیان کی ہجو و مذمت میں مجھے (اشعار کہنے کی) اجازت دیجیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ہی نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ثابت قدم رکھے۔ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں، یا رسول اللہ! میں نے ہی کہا تھا۔ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ!
’’پس اللہ تعالیٰ آپ کے عطا کر دہ حسنِ بے پایاں کو سلامت رکھے، جیسے اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حسن کو سلامت رکھا، اور اسی طرح آپ کی بھی مدد و نصرت فرماتا رہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد و نصرت فرماتا رہا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا : اور اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ اسی طرح بھلائی فرمائے گا۔ پھر حضرت کعب رضی اللہ عنہ اچانک اٹھے اور عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ! مجھے بھی اجازت عنایت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو وہی ہے جس نے ہَمَّتْ والا شعر کہا ہے؟ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں۔ (پھر فرماتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ!
’’قبیلہ سخینہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے مالک پر غالب آجائیں، پس چاہیے کہ بہت زیادہ غلبہ پانے والا شخص مغلوب جگہوں پر (ہمیشہ ہی) غالب آ جائے۔‘‘
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقینا اللہ تعالیٰ تمہاری اس خدمت کو نہیں بھول سکتا جو تم نے پیش کی ہے۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ اس کے بعد حضرت حسان رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ! مجھے بھی اس (ابو سفیان) کی مذمت میں کچھ کہنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ پھر انہوں نے اپنی زبان نکالی جس کا کچھ حصہ کالا تھا اور عرض کیا : یا رسول اللہ اگر آپ کی مرضی ہو تو مجھے اجازت دیجیے تاکہ میں (اپنی زبان کے نشتر سے) اس کا پیٹ چاک کروں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (پہلے تم) ابو بکر کے پاس جاؤ، وہ تمہیں ان کے (مخصوص ) ایام اور ان کے حسب و نسب کے بارے میں بتائیں گے۔ پھر تم ان کی مذمت کرو (اور اس کام میں) جبرائیل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ ہیں۔ ‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور اسی طرح ابن ابی دنیا نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے۔
24. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ : لَمَّا دَخَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَامَ الْفَتْحِ رَأَی النِّسَاءَ يَلْطِمْنَ وُجُوْهَ الْخَيْلِ بِالْخَمْرِ، فَتَبَسَّمَ إِلٰی أَبِي بَکْرٍ رضی الله عنه وَقَالَ : يَا أَبَا بَکْرٍ، کَيْفَ قَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ؟ فَأَنْشَدَهُ أَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه :
عَدِمَتْ ثِنْيَتِي إِنْ لَمْ تَرَوْهَا
تُثِيْرُ النَّقْعَ مِنْ کَتَفَي کِدَاءُ
يُنَازِعْنَ الْأَعِنَّةَ مُسْرِعَاتٍ
يَلْطِمُهُنَّ بِالْخَمْرِ النِّسَاءُ
فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : ادْخُلُوْا مِنْ حَيْثُ قَالَ حَسَّانُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرِيُّ وَالطَّحَاوِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
24 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 76، الرقم : 4442، والطبري في تهذيب الآثار، 2 / 664، الرقم : 979، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 296، والفاکهي في أخبار مکة، 5 / 215، الرقم : 172.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا : جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح کے سال (مکہ میں) داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو فرطِ خوشی سے گھوڑوں کے چہروں پر شراب کے کٹورے مارتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر تبسم ریز ہوئے اور فرمایا : اے ابوبکر! حسان نے کیسے شعر کہا تھا؟ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ شعر پڑھا :
’’میرا دہن نابود ہو جائے اگر تم اسے دیکھ نہ سکو۔ (میں خود پر گریہ کروں یعنی مر جاؤں) اگر تم گھوڑوں کو مقام کداء کی طرف گرد اڑاتے نہ دیکھو۔ وہ گھوڑے جو تمہاری طرف دوڑتے ہیں، اور ان کی تھوتھنیوں پر عورتیں شراب پھینکتی ہیں۔‘‘
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہیں سے داخل ہو جاؤ، جہاں سے داخل ہونے کا حسان نے کہا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، طبری اور طحاوی نے بیان کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
25. عَنْ حَبِيْبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ أَنَّ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ رضی الله عنه أَنْشَدَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم :
شَهِدْتُ بِإِذْنِ اللهِ أَنَّ
مُحَمَّدًا
رَسُوْلُ الَّذِي فَوْقَ السَّمَاوَاتِ مِنْ عَلُ
وَأَنَّ أَبَا يًحْيٰی وَيحْيٰی
کِلَاهُمَا
لَهُ عَمَلٌ فِي دِيْنِهِ مُتَقَبَّلُ
وَأَنَّ أًخَا الْأَحْقَافِ إِذْ
قَامَ فِيْهِمْ
يَقُوْلُ بِذَاتِ اللهِ فِيْهِمْ وَيَعْدِلُ
فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : وَأَنَا.
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
25 : أخرجه أبو يعلی في المسند، 5 / 61، الرقم : 2653، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 273، الرقم : 26017، وأيضًا في کتاب الأدب / 345، الرقم : 365.
’’حضرت حبیب بن ابی ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مندرجہ ذیل اشعار سنائے :
’’میں اللہ تعالیٰ کے اذن سے یہ گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ ربّ العزت کے برگزیدہ رسول ہیں اور بے شک ابو یحییٰ (یعنی زکریا علیہ السلام ) اور یحیٰ علیہ السلام دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں مقبول عمل ہیں، اور ہود علیہ السلام جب اپنی قوم میں کھڑے ہوتے تو فرماتے : اللہ کی ذات کی قسم! وہ نبی آخر الزماں ان میں ہیں اور وہ عدل و انصاف کرنے والے ہیں۔‘‘
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور وہ (نبی آخر الزماں) میں ہی ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو یعلی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
26. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ رضی الله عنه يَقُوْلُ : هَجَا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَالْمُسْلِمِيْنَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ : عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ الزِّبَعْرِي وَأَبُوْ سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ. فَقَالَ الْمُهَاجِرُوْنَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَ لَا تَأْمُرُ عَلِيًّا أَنْ يَهْجُوَ عَنَّا هٰؤُلَاءِ الْقَوْمَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَيْسَ عَلِيٌّ هُنَالِکَ. ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ الله صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا الْقَوْمُ نَصَرُوا النَّبِيَّ بِأَيْدِيْهِمْ وَأَسْلِحَتِهِمْ فَبِأَلْسِنَتِهِمْ أَحَقُّ أَنْ يَنْصُرُوْهُ. فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ : أَرَادَانَا. فَأَتَوْا حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ رضی الله عنه فَذَکَرُوْا ذَالِکَ لَهُ، فَأَقْبَلَ يَمْشِي حَتّٰی وَقَفَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِمِقْوَلِي مَا بَيْنَ صَنْعَاءَ وَبُصْرٰی. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنْتَ لَهَا. فَقَالَ حَسَّانُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّهُ لاَ عِلْمَ لِي بِقُرَيْشٍ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لِأَبِي بَکْرٍ : أَخْبِرْهُ عَنْهُمْ وَنَقِّبْ لَهُ فِي مَثَالِبِهِمْ. فَهَجَاهُمْ حَسَّانُ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ وَکَعْبُ بْنُ مَالِکٍ. قَالَ ابْنُ سِيْرِيْنَ : أُنْبِئْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ هُوَ يَسِيْرُ عَلٰی نَاقَتِهِ، وَشَنَقَهَا بِزَمَامِهَا، حَتّٰی وَضَعَتْ رَأَْسَهَا عِنْدَ قَادِمَة الرَّحْلِ. فَقَالَ : أَيْنَ کَعْبٌ؟ فَقَالَ کَعْبٌ : هَا أَنَذَا يَا رَسُوْلَ اللهِ. قَالَ : خُذْ. قَالَ کَعْبٌ :
قَضَيْنَا مِنْ تِهَامَةَ کُلَّ
رَيْبٍ
وَخَيْبَرَ ثُمَّ أَجْمَمْنَا السُّيُوْفَا
نُخَيِّرَهَا وَلَوْ نَطَقَتْ لَقَالَتْ
قَوَاطِعُهُنَّ دَوْسًا أَوْ ثَقِيْفَا
قَالَ : فَأَنْشَدَ الْکَلِمَةَ کُلَّهَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَهِيَ أَشَدُّ عَلَيْهِمْ مِنْ رَشْقِ النَّبْلِ.
27. وفي رواية : قَالَ مُحَمَّدٌ (يعني ابن سيرين) : فَنُبِّئْتُ أَنَّ دَوْسًا أَسْلَمَتْ بِکَلِمَةکَعْبٍ هٰذِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
28. وفي رواية : فَکَانَ حَسَّانُ وَکَعْبٌ يُعَارِضَانِهِمْ بِمِثْلِ قَوْلِهِمْ بِالْوَقَاءِعِ وَالْأَيَامِ وَالْمَآثِرِ، وَيُعِيْرُوْنَهُمْ بِالْمَنَاقِبِ، وَکَانَ ابْنُ رَوَاحَةَ يُعِيْرُهُمْ بِالْکُفْرِ، وَيَنْسِبُهُمْ إِلَی الْکُفْرِ، وَيَعْلَمُ أَنَّهُ لَيْسَ فِيْهِمْ شَيئٌ شَرًّا مِنَ الْکُفْرِ وَکَانُوْا فِي ذَالِکَ الزَّمَانِ، أَشَدُّ الْقَوْلِ عَلَيْهِمْ قَوْلُ حَسَّانَ وَکَعْبٍ وَأَهْوَنُ الْقَوْلِ عَلَيْهِمْ قَوْلُ ابْنِ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا أَسْلَمُوْا وَفَقِهُوا الإِسْلَامَ کَانَ أَشَدُّ الْقَوْلِ عَلَيْهِمْ قَوْلَ ابْنِ رَوَاحَةَ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ کَمَا قَالَ السُّيُوْطِيُّ.
26.28 : أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2 / 659.660، الرقم : 975.976، وعبد الرزاق في المصنف، 11 / 264، الرقم : 20502، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 28 / 96، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 338، والمناوي في فيض القدير، 1 / 447.
’’امام محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کے تین آدمیوں عمرو بن العاص، عبد اللہ بن زبعری اور ابو سفیان بن الحارث بن عبد المطلب نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کی، تو مہاجرین نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم کیوں نہیں دیتے کہ وہ ہماری طرف سے ان مشرکین کی مذمت کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی اس کام کے لیے موزوں نہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب ایک قوم نے اللہ تعالیٰ کے رسول کی اپنے ہاتھوں اور اسلحہ کے ساتھ مدد کی تو وہ اپنی زبانوں سے بھی اس کی مدد کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ تو انصار نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کی مراد ہم (یعنی انصار) سے ہے۔ تو وہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور سارا ماجرہ بیان کیا۔ وہ آگے بڑھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوگئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا ہے! مجھے یہ پسند نہیں کہ مجھے میرے قول (یعنی نعتوں) کے بدلہ میں جو کچھ صنعاء اور بصری کے درمیان (دولت) ہے وہ بھی ملے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ہی اس کام کے لیے موزوں ہو۔ تو حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے قریش کے بارے میں علم نہیں ہے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اے ابو بکر! حسان کو قریش کے بارے میں بتا دو، اور ان کی خامیوں اور خرابیوں کے بارے میں بھی اسے آگاہ کر دو۔ تو حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور حضرت کعب بن مالک نے مشرکین کی مذمت میں اشعار کہے۔‘‘
’’امام ابن سیرین فرماتے ہیں : مجھے بتایا گیا کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اونٹنی مبارک پر جا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی لگام کھینچی، یہاں تک کہ اس نے اپنا سر زمین پر رکھ دیا اور بیٹھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کعب کہاں ہے؟ تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شعر پڑھنا شروع کرو۔ تو حضرت کعب نے کہا :
’’ہم نے تہامہ اور خیبر سے ہر شک کو ختم کر دیا۔ پھر ہم نے تلواریں جمع کیں اور انہیں اختیار دیا اور اگر وہ بول سکتیں تو یقینًا یہ کہتیں کہ ان کی کاٹ قبیلہ دوس ہیں یا قبیلہ ثقیف۔‘‘
راوی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے پورا قصیدہ پڑھا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں مجھ محمد کی جان ہے! یہ اشعار ان کفار پر تیروں کے اثر انداز ہونے سے بھی زیادہ اثر رکھتے ہیں۔‘‘
ایک روایت میں امام محمد بن سیرین نے فرمایا : مجھے بتایا گیا کہ قبیلۂ دوس حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے ان اشعار کی وجہ سے اسلام لے آیا۔‘‘
اسے امام طبری، عبد الرزاق اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان بن ثابت اور حضرت کعب رضی اللہ عنہما کفار کو (اپنے اشعار کے ذریعے) آڑھے ہاتھوں لیتے، جیسا کہ مختلف واقعات، مخصوص دنوں اور کارناموں میں ان کے اشعار اور ان کے مناقب میں عیب لگاتے اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ انہیں کفر کا عیب لگاتے اور کفر کی طرف منسوب کرتے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ان کے ہاں کفر سے بڑھ کر کوئی چیز بری نہیں ہے۔ اور اس زمانہ میں ان کفار پر سب سے سخت قول حضرت حسان اور حضرت کعب رضی اللہ عنہما کا ہوتا اور سب سے ہلکا قول حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا ہوتا۔ پس جب مشرکین مکہ نے اسلام قبول کر لیا اور اس کی سمجھ بوجھ حاصل کر لی تو ان پر سب سے سخت قول حضرت ابن رواحہ کا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام سیوطی نے فرمایا ہے۔
29. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم بَنٰی لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ يُنْشِدُ عَلَيْهِ الشِّعْرَ.
30. وفي رواية : يَهْجُوْ عَلَيْهِ الْمُشْرِکِيْنَ. قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : اهْجُهُمْ أَوْ هَاجِهِمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ.
رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَابْنُ شَاهِيْنَ وَابْنُ عَدِيٍّ وَوَافَقَهُ ابْنُ تَيْمِيَةَ وَالذَّهَبِيُّ.
29.30 : أخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 298، وابن شاهين في ناسخ الحديث ومنسوخه، 1 / 484، الرقم : 648، وابن عدي في الکامل، 4 / 274، الرقم : 1106، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 214، والذهبي في ميزان الاعتدال، 4 / 300، الرقم : 4913.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد میں منبر بنوا رکھا تھا۔ وہ اس پر (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں) نعت پڑھتے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ اس پر کھڑے ہو کر (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع میں) مشرکین کی ہجو کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’(اے حسان!) مشرکین کی ہجو کرو اور (اس کام میں) جبرائیل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طحاوی، ابن شاہین اور ابن عدی نے روایت کیا ہے اور ابن تیمیہ اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
31. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها أَنَّهَا قَالَتْ : مَا سَمِعْتُ بِشِعْرٍ أَحْسَنَ مِنْ شِعْرِ حَسَّانَ رضی الله عنه وَلَا تَمَثَّلْتُ بِهِ إِلَّا رَجَوْتُ لَهُ الْجَنَّةَ، قَوْلُهُ لِأَبِي سُفْيَانَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ :
هَجُوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ
عَنْهُ
وَعِنْدَ اللهِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
أَتَشْتِمُهُ وَلَسْتَ لَهُ بِکُفْئٍ
فَشَرُّکُمَا لِخَيْرِکُمَا الْفَدَاءُ
لِسَانِي صَارِمٌ لَا عَيْبَ فِيْهِ
وَيَجْرِي لَا تُکَدِّرُهُ الدَّلاَّءُ
فَقِيْلَ : يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِيْنَ، أَلَيْسَ هذَا لَغْوًا؟ قَالَتْ : لَا، إِنَّمَا اللَّغْوُ مَا قِيْلَ عِنْدَ النِّسَاءِ. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَالسُّيُوْطِيُّ.
31 : أخرجه الطبري في جامع البيان، 18 / 88، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 274، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 158، والمزي في تهذيب الکمال، 35 / 39.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آپ فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا شعر نہیں سنا جو حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی شاعری سے بہتر ہو اور میں نے جب بھی حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا یہ شعر پڑھا تو ان کے لیے جنت کی آرزو کی۔ (بالخصوص) ان کا وہ شعر جو ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب کی (ہجو میں) انہوں نے کہا تھا :
’’تو نے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی مذمت کی تو میں تجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے اس مذمت کا جواب دیتا ہوں اور یہ کہ اس جواب کی جزاء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاؤں گا، کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ میرے والد اور میرے دادا اور میری شرافت اور ناموسِ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ناموس و شرافت کو تم سے بچانے والی (ڈھال) ہے۔ تمہاری مجال کیسے ہوئی کہ تم (ہمارے آقا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (سبّ و شتم) کرو جبکہ تم تو خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس نعلین کے برابر بھی نہیں گردانے جاتے۔ بس پھر یہ بات ٹھہری کے تمہارا شر تمہارے خیر پر قربان ہو گیا میری زبان تو (گستاخِ رسول کے خلاف) تیزی سے کاٹ کرنے والی ہے اور اِس میں کوئی عیب اور دوہرا معیار نہیں (یعنی ناموس مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع میں ہم ساری مصلحتیں بالائے طاق رکھ دیتے ہیں) اور یہ زبان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی میں ہمیشہ محو رہی ہے اور آئندہ بھی اسی ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت گوئی میں ہی مصروف رہے گی۔ اور کوئی پلیدی اسے گدلا نہیںسکے گی۔‘‘
تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا : اے اُمّ المؤمنین! کیا یہ لغو بات نہیں؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : نہیں، بلکہ فضول باتیں وہ ہیں جو عورتوں کے ہاں بطور تغزل کہی جاتی ہیں (جبکہ یہ تو مدحتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے)۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری، ابن کثیر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
32. عَنْ هِشَامٍ قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ مَحَمَّدًا (يعني ابن سيرين) وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ : وَالرَّجُلُ يُرِيْدُ أَنْ يُصَلِّيَ أَيَتَوَضَّأُ مَنْ يُنْشِدُ الشِّعْرَ وَيُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ؟ قَالَ : وَأَنْشَدَهُ أَبْيَاتًا مِنْ شِعْرِ حَسَّانَ ذَالِکَ الدَّقِيْقِ ثُمَّ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ نَحْوُهُ.
33. وفي رواية : عَنْ جَرِيْرِ بْنِ حَازِمٍ قَالَ : رَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيْرِيْنَ تَوَضَّأَ ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ لِيُصَلِّيَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ أُخْتِهِ يُوْسُفُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ : يَا خَالِي، أَنِّي سَمِعْتُ نَاسًا فِي الْمَسْجِدِ يَقُوْلُوْنَ : إِنَّ الشِّعْرَ يَنْقُضُ الْوُضُوْءَ. قَالَ : فَأَنْشَدَ مُحَمَّدٌ عَشَرَةَ أَبْيَاتٍ مِنْ شِعْرِ حَسَّانَ ابْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه مِنْ هَجَاءِهِ ثُمَّ کَبَّرَ مُحَمَّدٌ لِلصَّلَاة. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْيَا.
32.33 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 279، الرقم : 26064، وأيضًا في کتاب الأدب / 380، الرقم : 412، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2 / 275، وابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف / 149، الرقم : 92.
’’حضرت ہشام سے روایت ہے، انہوں نے بیان فرمایا : امام محمد بن سیرین مسجد میں تشریف فرما تھے اس وقت ایک سائل نے جو کہ نماز پڑھنے کا ارادہ رکھتا تھا ان سے سوال کیا کہ جو شخص مسجد میں شعر گنگناتا ہے کیا وہ (نماز ادا کرنے سے پہلے دوبارہ) وضو کرے؟ تو راوی بیان کرتے ہیں کہ امام ابن سیرین نے (اس شخص کو مسئلہ سمجھانے کے لیے اسی وقت) حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار میں سے کچھ (نہایت عمدہ اور) معنی خیز شعر سنائے۔ پھر (دوبارہ وضو کیے بغیر) فوراً نماز کا آغاز کر دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور ابو نعیم نے بھی اس طرح روایت کیا ہے۔
’’ایک روایت میں حضرت جریر بن حازم سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا : میں نے دیکھا کہ امام محمد بن سیرین نے وضو کیا، پھر نماز ادا کرنے کے لیے مسجد تشریف لائے، تو ان کے بھانجے یوسف بن عبد اللہ بن حارث نے ان سے دریافت کیا : ماموں جان! میں نے لوگوں کو مسجد میں کہتے ہوئے سنا ہے کہ شعر کہنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں : انہوں نے (یعنی امام ابن سیرین نے بھانجے کو مسئلہ سمجھانے کے لیے پہلے) حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے وہ دس اشعار پڑھے جو انہوں نے (نعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور) کفار و مشرکین کی ہجو میں کہے تھے، پھر انہوں نے (نیا وضو کیے بغیر ) نماز کے لیے تکبیر کہی۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی دنیا نے روایت کیا ہے۔
34. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ السَّاءِبِ بْنِ بَرَکَةَ عَنْ أُمِّهِ قَالَتْ : کُنْتُ مَعَ عَائِشَةَ رضی الله عنها فِي الطَّوَافِ، فَتَذَاکَرُوْا حَسَّانَ رضی الله عنه، فَوَقَعُوْا فِيْهِ فَنَهَتْهُمْ عَنْهُ، فَقَالَتْ : أَلَيْسَ هُوَ الَّذِي يَقُوْلُ :
هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ
عَنْهُ
وَعِنْدَ اللهِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَتِي وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
رَوَاهُ ابْنُ جُبَيْرٍ وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْمِزِّيُّ.
34 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 281، الرقم : 26080، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 240، الرقم : 20908، والفاکهي في أخبار مکة، 1 / 306.307، الرقم : 632.633، وابن جبير في حديث المصيصي لوين، 1 / 52، الرقم : 28، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 12 / 396، والمزي في تهذيب الکمال، 6 / 20، والذهبي في ميزان الاعتدال، 7 / 50، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 10 / 426.
’’ایک روایت میں محمد بن سائب بن برکہ رضی اللہ عنہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتی ہیں : میں طواف کے دوران حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تھی کہ بعض لوگوں نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا اور انہیں برا بھلا کہا، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان لوگوں کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے سے منع کیا اور فرمایا : کیا (حضرت حسان رضی اللہ عنہ ) وہی نہیں ہیں جو (اپنے اشعار میں) یہ کہتے ہیں :
’’تو نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کی، تو میں ان کی طرف سے تجھے جواب دیتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کام کا اجر و ثواب ہے، اور بے شک میرے والد، والدہ اور میری عزت، تم سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کو بچانے کے لیے ڈھال ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن جبیر نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے، اس کے علاوہ ابن عساکر اور مزی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
35. عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْبَرَّادِ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هذِهِ الآيَةُ : ﴿وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ﴾ [الشعراء، 26 : 224] جَاء عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ وَکَعْبُ بْنُ مَالِکٍ وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُمْ يَبْکُوْنَ. فَقَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَنْزَلَ اللهُ هذِهِ الآيَةَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّا شُعَرَاءُ. فَقَالَ : إِقْرَأُوْا مَا بَعْدَهَا : ﴿إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ [الشعراء، 26 : 227] أَنْتُمْ ﴿وَانْتَصَرُوْا﴾ أَنْتُمْ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَالطَّبَرِيُّ.
35 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 277، الرقم : 26051، وابن أبي حاتم في تفسيره، 9 / 2834.2835، والطبري في جامع البيان، 19 / 129.130، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 334، والعسقلاني في فتح الباری، 10 / 539، والعيني في عمدة القاري، 22 / 181، والعظيم آبادي في عون المعبود، 13 / 244.
’’حضرت حسن براد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان فرمایا : جب یہ آیت مبارکہ (اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں) نازل ہوئی تو حضرت عبد اللہ بن ابی رواحہ، حضرت کعب بن مالک اور حضرت حسان بن ثابت تینوں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس حال میں کہ وہ گریہ کناں تھے اور عرض کرنے لگے : یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے (شعراء کے بارے میں) یہ آیت نازل فرمائی ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم بھی شاعر ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کے بعد والی آیت پڑھو کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (سوائے ان (شعرائ) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس آیت سے مراد تم لوگ ہو اور پھر (آیت کا اگلا حصہ) (اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا) تلاوت کر کے فرمایا : اس سے مراد بھی تم لوگ ہی ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم اور طبری نے روایت کیا ہے۔
36. عَنْ أَبِي الْحَسَنِ مَوْلٰی بَنِي نَوْفَلٍ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ رَوَاحَةَ وَحَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ رضی الله عنها أَتَيَا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ نَزَلَتْ ﴿طٰسم الشُّعَرَاءُ﴾ يَبْکِيَانِ وَهُوَ يَقْرَأُ عَلَيْهِمْ : ﴿وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ﴾ حَتّٰی بَلَغَ ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ قَالَ : أَنْتُمْ؛ ﴿وَذَکَرُوا اللهَ کَثِيْرًا﴾ قَالَ : أَنْتُمْ؛ ﴿وَانْتَصَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا﴾ قَالَ : أَنْتُمْ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
37. وفي رواية : عَنِ السَّدِّيِّ رضی الله عنه فِي قَوْلِهِ : ﴿إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ قَالَ : نَزَلَتْ فِي عَبْدِ اللهِ بْنِ رَوَاحَةَ رضی الله عنه وَفِي شُعَرَاءِ الأَنْصَارِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ کَمَا قَالَ السُّيُوْطِيُّ.
38. وفي رواية : عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ : ﴿وَانْتَصَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا﴾ قَالَ : عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ رضی الله عنه وَأَصْحَابُهُ. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ.
36.38 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 556، الرقم : 6064، والطبري في جامع البيان، 19 / 130، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 334. 336.
’’حضرت ابو الحسن مولی بنی نوفل سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (طسم الشعراء) نازل ہوئی تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں اس حال میں حاضر ہوئے کہ وہ زار و قطار رو رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے سامنے یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے : (اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں)۔ یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آیت کے اس حصہ (سوائے ان (شعرائ) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔) تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس سے مراد تم لوگ ہو۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت کا اگلا حصہ تلاوت کیا : ) (اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس سے مراد بھی تم لوگ ہو۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت کا اگلا حصہ تلاوت کیا : ) (اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعہ اسلام اور مظلوموں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ان کا جوش بھی بڑھایا تو یہ شاعری مذموم نہیں)) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اس سے مراد بھی تم لوگ ہی ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں حضرت سدَّی سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : (سوائے اُن (شعرائ) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے) کے بارے میں فرمایا : یہ آیت حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور شعرائے انصار کی شان میں اتری ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے، جیسا کہ امام سیوطی نے فرمایا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت مجاہد اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک (اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعہ اسلام اور مظلوموں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ان کا حوصلہ بھی بڑھایا تو یہ شاعری مذموم نہیں)) سے مراد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور اُن کے اصحاب ہیں۔‘‘
اِسے امام طبری نے روایت کیا ہے۔
39. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ قَالَ : کَانَ شُعَرَاءُ أَصْحَابِ مُحًمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ، وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، وَکَعْبُ بْنُ مَالِکٍ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
39 : أخرجه البيهقي في السنن الکبری، 10 / 240.241، الرقم : 20909. 20912، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 28 / 93، 50 / 192، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 525.
’’امام محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شعراء صحابہ کرام میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ، حضرت حسان بن ثابت اور حضرت کعب بن مالک شامل تھے۔‘‘
اسے امام بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
40. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما ﴿وَالشُّعَرَاءُ﴾ قَالَ : اَلْمُشْرِکُوْنَ مِنْهُمُ الَّذِيْنَ کَانُوْا يَهْجُوْنَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ﴿يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ﴾ غُوَاةُ الْجِنِّ ﴿فِي کُلِّ وَادٍ يَهِيْمُوْنَ﴾ فِي کُلِّ فَنٍّ مِنَ الْکَلَامِ، يَأْخُذُوْنَ ثُمَّ اسْتُثْنِيَ، فَقَالَ : ﴿إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ يَعْنِي حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اللهِ بْنَ رَوَاحَةَ وَکَعَبَ بْنَ مَالِکٍ کَانُوْا يَذُبُّوْنَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَصْحَابِهِ هَجَاءَ الْمُشْرِکِيْنَ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَالسُّيُوْطِيُّ.
40 : أخرجه ابن أبي حاتم في تفسيره، 9 / 2834، والزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار، 2 / 480، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 334.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (وَالشُّعَرَاءُ) سے وہ مشرک شاعر مراد ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفقائے کار کی مذمت (اور ہجو) کرنے میں مصروف رہتے تھے، اور آیت مبارکہ ۔ (شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں)۔ سے یہ مراد ہے کہ جن لوگوں کو جنات نے بہکایا ہو (اور وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہوں۔) اسی طرح وہ اپنی تاویلیں ہر فن اور کلام میں گھڑتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں استثناء کرتے ہوئے فرمایا : (سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے) اور اِس سے مراد حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ (و دیگر نعت خواں) ہیں جو مشرکین مکہ کے خلاف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اصحاب کا دفاع کیا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی حاتم اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved