اَربابِ علم و دانش نے علم کی تعریف یوں کی ہے:
العلم إدراک الشیء بحقيقته.
’’علم کسی چیز کو اس کی حقیقت کے اعتبار سے جان لینے کا نام ہے۔‘‘
یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ علم کا اطلاق ایسے قضیے پر ہوتا ہے جو محکوم اور محکوم بہ پر مشتمل ہو، جس کے متوازی خارج میں ویسی ہی حقیقت موجود ہو جیسی قضیے میں بیان ہوئی ہے۔ اب ہر قضیہ علم نہیں ہو سکتا۔ جس قضیے پر علم کا اطلاق ہوتا ہے وہ ایسا قضیہ ہے جو کلی ہو، وجوبی ہو اور وجودِ خارجی کے حوالے سے صحت کا مصداق ہو۔ مثلاً تمام اِنسان فانی ہیں، یہ قضیہ علم ہے مگر انسان حیوان ناطق ہے، یہ قضیہ علم نہیں کیوں کہ یہ قضیہ، قضیہ تحلیلہ ہے۔ یعنی پہلے سے معلوم بات کی تحلیل اور تجزیہ کر کے اسے دوبارہ بیان کر دیا گیا ہے۔ اس قضیے میں محکوم بہ کو محکوم کے تجزیے سے فراہم کیا جاتا ہے جس کے متوازی خارج میں اس کے مصداق کا وجود ضروری نہیں ہے۔ چوں کہ حیوانِ ناطق ہی کو انسان کہتے ہیں اس لیے انسان کا تجزیہ کر کے اسے حیوانِ ناطق کہنا علم نہیں ہے۔ جیسے یہ کہنا کہ تمام اَجسام متحیز ہیں یعنی تمام اجسام میں موٹائی، لمبائی اور چوڑائی ہوتی ہے۔ اسی موٹائی ، چوڑائی اور لمبائی یعنی تحیز ہی کو جسم کہتے ہیں۔ چنانچہ اَجسام کو متحیز کہہ دینا قضیہ تحلیلہ ہوا، یہ قضیہ علمیہ نہیں کہلائے گا۔ جب کہ ممکن ہے کہ علم ایک طرف ناظر اور دوسری طرف منظور ہو۔ ناظر میں علم کی استعداد ہو اور منظور ایسا ہو جو ناظر کی استعدادِ علم سے جانا جا سکتا ہو۔ ان چاروں شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری نہ ہو تو علم ناممکن ہو گا۔ جیسے ذاتِ باری تعالیٰ کا علم اس لیے ناممکن ہے کہ ہماری کوئی استعداد اس کے ادراک کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ جس دور میں یہ موقف پیشِ نظر رہا ہے کہ صرف عقل ذریعہ علمِ حقیقت ہے، قضیہ تحلیلہ کو علم سمجھا جاتا رہا ہے، حالاں کہ وہ علم نہیں تھا۔ لہٰذا تمام ورائے محسوسات حقائق کا علم ممکن نہیں۔ ان پر ایمان لایا جا سکتا ہے، مزید یہ کہ ان کے ہونے کا یقین ہو سکتا ہے مگر علم نہیں ہو سکتا۔ جیسے:
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ.
البقره، 2: 3
’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘
اور
وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ.
البقره، 2: 4
’’اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیںo‘‘
اِسی طرح ایمانِ مجمل اور ایمانِ مفصل دونوں میں بیان ہونے والے حقائق علم کے مصداق نہیں۔ اس لیے انہیں ایمان باللہ اور ایمان بالغیب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک اور بات بھی ذہن نشین رہے کہ مذکورہ بالا چاروں شرائطِ علم کو سمجھنے سے تین مختلف چیزیں سامنے آتی ہیں۔ ایک وہ حقیقت جسے جانا جا رہا ہے، جسے ہم نے منظور کا نام دیا ہے اور جو معلوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرا وہ قضیہ جو اس منظور کے علم پر مشتمل ہے اور تیسری وہ استعداد جو ادراک کا ذریعہ ہے۔ گویا حقیقت، علم اور ذریعہ علم تینوں چیزیں مختلف ہیں۔ ان میں کوئی التباس نہیں ہونا چاہیے۔ اس امتیاز کے پیشِ نظر غور کریں تو تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، تصوف، تاریخِ اسلام، فلسفہ، معاشیات، سیاسیات، طبیعات اور حیاتیات وغیرہ پر علم کا اطلاق ہو گا جب کہ ان کے ذرائع اور موضوعات الگ الگ ہوں گے۔
غیر مذہبی علوم کے عنوان سے یہ غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہیے کہ ان سے مراد خلافِ دین علوم ہیں بلکہ وہ علوم جن کی ترتیب وتدوین کا محرک مذہب ہو مذہبی علوم کہلاتے ہیں جب کہ غیر مذہبی علوم دو اقسام پر مشتمل ہیں: انسانی علوم (human sciences) اور فطری علوم (natural sciences)۔ ان میں وہ تمام علوم و فنون شامل ہیں جن کی تدوین کا محرک مذہب نہیں۔ ان علوم کو غیر مذہبی (secular) قرار دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ تعلیماتِ اسلام کے منافی ہیں۔ بعض ذہنوں میں مغالطہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ سیکولر (secular) کا معنی صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا۔ عام طور پر secular کا معنی انکارِ مذہب تصور کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ secular کا معنی یہ ہے کہ مذہب کو نجی، ذاتی اور شخصی مسئلہ تصور کیا جائے اور اس کا کوئی تعلق سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی اور ثقافتی زندگی سے تسلیم نہ کیا جائے۔ گویا دنیا اور مذہب کے درمیان اس تقسیم کو سیکولر اِزم (secularism) کا نام دیا جاتا ہے۔
یہ اِس سلسلے کا پہلا علم ہے۔ اس کا موضوع قرآن حکیم ہے جو یقینا تفسیر سے متمیز ہے۔ کیوں کہ قرآن وہ حقیقت ہے جس کے علم کا نام تفسیر ہے، یعنی قرآن نص ہے اور تفسیر اس کی تعبیر، جس کا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کیا ہے؟
اِس کا موضوع سنتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول و عمل کیا تھا؟
اِس کا موضوع انسانی زندگی سے متعلق اوامر و نواہی ہیں۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟ کتبِ حدیث اور بالخصوص کتبِ سنن کے اُسلوبِ تبویب کو دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر علمِ حدیث کی تدوین کا اصل محرک بھی فقہ ہی تھا۔ گویا انسانی زندگی کو منظم کرنے والا ضابطہ اور اس کی اصل سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرنے کے لیے اَحادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمع اور مرتب کیا گیا۔
اس کا موضوع عقائد ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ عقائد کی عقلی اساس کیا ہے؟ اس کا وظیفہ (function) عقائدِ صحیحہ کی تائید اور عقائدِ باطلہ کی تردید میں اِستدلال فراہم کرنا ہے۔
اِس کا موضوع طریقت ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ اَحکامِ فقہ کی بجا آوری میں اخلاص کیسے پیدا ہو گا؟
تاریخِ اسلام کا موضوع دو اَدوار کے بیان پر مشتمل ہے: دورِ رسالت اور دورِ مابعد رسالت۔ بحیثیت علم کے تاریخ کا مسئلہ اُمت کے عروج و زوال کے اَسباب کی جستجو ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اِنسانی اِستعداد کے یہ زائیدہ مذہبی علوم زندگی میں نتائج پیدا کرنے میں مؤثر نہیں رہے۔ حتی کہ اِسلام کے عقیدہ و عمل کا کوئی اثر ہماری حیاتِ اجتماعی پر باقی نہیں رہا۔ عقائد اَوہام میں اور عبادات رسوم و ظواہر میں بدل کر رہ گئی ہیں۔ ان کا علاقہ عملی زندگی سے یکسر منقطع ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی مذہبی اور غیر مذہبی (religious and secular) کے دو شعبوں میں تقسیم ہو گئی ہے اور اس کی ثنویت و غیریت کو کسی سطح پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب کے سب علوم اس سوال کا جواب ہیں کہ یہ کیا ہے؟
علم کا ایک تقاضا ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ اِس تقاضے کے غالب آنے کی وجہ سے علم بالوحی اِنسانی اِستعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل گیا اور علم کا ایک ویسا ہی شدید مطالبہ ہم آہنگی کے تقاضے کے تحت نظر انداز کر دیا گیا جو یہ تھا کہ مماثل فضائل کے درمیان امتیازات کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس تقاضے کے نظر انداز ہو جانے سے علم بالوحی کے اِس مسئلے کی نوعیت سے صرفِ نظر ہو گیا کہ زندگی پسندیدہ نمونے پر ڈھلے کیسے؟ اس سوال سے صورتِ حال کا اثر یہ ہوا کہ:
علمِ تفسیر اِس جستجو سے دست بردار ہو گیا کہ قرآن حکیم جس نمونے پر انسانی زندگی کو ڈھالنا چاہتا ہے، وہ کیسے ڈھلے گی؟ یعنی قرآن حکیم جس طرح کا انسان چاہتا ہے، وہ کس طرح میسر آئے گا؟
علمِ حدیث اِنسانی استعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل گیا تو یہ جستجو پیش نظر نہ رہ سکی کہ جن عملی نتائج تک علم بالوحی پہنچانا چاہتا ہے، اس تک پہنچنے میں حدیث سے کیا رہنمائی ملتی ہے۔ اسے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدود سے آج پھر کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے؟
علم فقہ کے انسانی استعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل جانے سے قرآنی اَحکام کے بارے میں اس مقصد سے صرفِ نظر ہو گیا کہ اَوامر و نواہی کے مطابق اور جائز و ناجائز کے امتیاز پر زندگی عملاً کیسے استوار ہو گی؟ اگر تفسیر، حدیث اور فقہ کے مروّجہ علوم کے دائرہ کار پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت اَظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ یہ تمام مذہبی علوم صرف حلال و حرام، جائز و ناجائز، مستحب و مکروہ اور پسندیدہ و ناپسندیدہ یعنی انسانی اعمال کے لیے صحت اور عدم صحت کی حدود کے بیان تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ انسانی احوال کو بدلنے کی تدبیر ان کے موضوع سے خارج ہے۔ لیکن اس وقت تک عالمِ اسلام کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں ان امور کو جان لینے کے باوجود تمرد اور اِنحراف کے راستے پر گامزن ہیں۔
مسلمانوں کو اِجتماعی زندگی اِنتشار، اِضمحلال اور اِنحطاط کا شکار ہے، جس سے نکلنے کی آرزو کے باوجود وہ اس سے نکل نہیں پاتے اور اصلاح کی تمام فکری اور عملی کوششیں بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ متداول علوم غلط اور صحیح کی نشان دہی اور امتیاز کر دینے کے باوجود اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ صحیح راستے پر کس طرح گامزن ہوا جائے؟ مطلوبہ نمونہ کمال کے مطابق زندگی کس طرح بسر ہو؟ اور اَحوالِ زندگی کا جو معاملہ بگڑ چکا ہے، اسے پھر سے کس طرح سنوارا جائے؟ گویا اسلام جس تباہی سے بچانا چاہتا ہے، ملتِ اسلامیہ اس تباہی وہلاکت سے کیسے بچے؟ محض مقصد اور نصب العین کا بیان کر دینا ہی کافی نہیں، جب تک اس مقصد کے حاصل کرنے کی تدبیر اور حتمی طریقِ کار بیان نہ کیا جائے، کسی علم کی تاثیر وافادیت مسلّم نہیں ہو سکتی۔
اِس علم کا وظیفہ زیادہ سے زیادہ ان شکوک کو باطل کرنا ہے جو عقائدِ صحیحہ کی نسبت ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن یقینِ کامل اور رسوخ فی الایمان علمِ کلام کے حوالے سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ یقین ہمیشہ نتائج کی تجربی توثیق اور شہادت سے میسر آتا ہے جب کہ ایمان بالغیب کی حیثیت ایمانِ وہبی کی ہے، جس کی بنیاد صاحبِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ہے۔ اس کی وضاحت اس میں ہے کہ غایتِ تخلیق، غایتِ بعثت اور غایتِ نزولِ قرآن ایک ہی ہے۔ عملی نتائج ان کائناتی قوانین سے متعین ہوتے ہیں جو نظامِ تکوین میں متعین کر دیے گئے ہیں اور ایمان بالغیب وہ ایمان ہے جو عملی جد و جہد سے پہلے درکار ہے۔ اس کے بغیر مقصد کے لیے جان کی بازی نہیں لگائی جا سکتی۔
اِس علم کا موضوع عملی زندگی میں اخلاص اور للہیت پیدا کرنا ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ اتباعِ شریعت میں حسنِ نیت اور خلوص کیسے پیدا ہوگا؟ مگر جب سے تصوف عمل کی بجائے ماورائی حقیقت کا علم بنا ہے، اس کے نتائج عملی زندگی پر مرتب ہونا بند ہو گئے ہیں۔ اب علمِ تصوف کی تاثیر اور نتیجہ خیزی اُسی وقت برآمد ہو سکتی ہے جب انسانی زندگی پہلے شریعت کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اس کے بعد اس میں تشرع اور ریاکاری کے خاتمہ کے لیے تصوف اپنا انقلاب انگیز کردار ادا کر سکتا ہے۔
تاریخِ اِسلام بھی عروج و زوال کی توجیہ کا علم بن کر رہ گئی ہے جس میں جبر کا شائبہ غالب ہے۔ اس کی جستجو عروج و زوال کو بطور واقعہ موضوع بنا کر ہو سکتی ہے لیکن اس توجیہ میں مسلط ہو جانے والے زوال کے رُخ کو عروج کی سمت پھیرنا داخل نہیں ہے، جب کہ اِس وقت عالمِ اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ زوال کو عروج میں کیسے بدلا جائے؟ یہ مسئلہ اُس وقت حل ہو گا جب تاریخ کو تجدیدِ ملل اور تخلیقِ اُمم کا عمل قرار دیا جائے جو قرآن حکیم کا نقطہ نظر ہے۔ جیساکہ سورہ ہود کے آخر میں مذکور ہے:
وَكُـلاًّ نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ.
هود، 11: 120
’’اور ہم رسولوں کی خبروں میں سے سب حالات آپ کو سنا رہے ہیں جس سے ہم آپ کے قلبِ (اَطہر) کو تقویت دیتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اَنبیاے سابقین کے واقعات اس لیے بیان کرتا ہے کہ ان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اَطہر کو تسکین اور تقویت ملے۔ مگر انبیاے سابقین کے قصوں سے دل کو تقویت اور تسکین اُسی وقت میسر آسکتی ہے جب ہر قصے سے یہ نتیجہ برآمد ہو کہ غلبہ اَصحابِ حق ہی کو حاصل ہوتا رہا ہے اور یہ نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے جب اَصحابِ حق کا غلبہ اور اَصحابِ باطل کی شکست کسی ایسے قانون سے متعین ہو جو ناقابلِ تغیر اور ناقابلِ شکست ہو اور اس کی خلاف ورزی ممکن نہ ہو۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا.
الفرقان، 25: 31
’’اور اِسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے جرائم شعار لوگوں میں سے (ان کے) دشمن بنائے تھے (جو ان کے پیغمبرانہ مشن کی مخالفت کرتے اور اس طرح حق اور باطل قوتوں کے درمیان تضاد پیدا ہوتا جس سے انقلاب کے لیے سازگار فضا تیار ہو جاتی تھی) اور آپ کا رب ہدایت کرنے اور مدد فرمانے کے لیے کافی ہےo’’
پیغمبرانہ دعوت کے راستے میں کی جانے والی مزاحمت سے دعوت کے خاطرخواہ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا اعلان قرآن حکیم یوں کرتا ہے:
لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ.
المجادلہ، 58: 21
’’یقینا میں اور میرے رسول ضرور غالب ہو کر رہیں گے۔‘‘
لہٰذا تاریخ کی اِصلاح یوں ہوگی کہ زوال کا رخ عروج کی طرف پھیرنے کے لیے قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کی جائے جو مذکورہ بالا قانون کے حوالے کے بغیر میسر نہیں آ سکتی۔ چنانچہ مذہبی علوم کی جو نشو و نما اب تک ہو چکی ہے، اس کی صحیح سمت مقرر کرنے کے لیے علم بِالوحی سے رہنمائی طلب کی جائے تاکہ زوال و اِنحطاط میں مبتلا ملت کے غلبہ و عروج کی طرف بڑھنے کے لیے مذہبی علوم کا جائزہ لے کر ان کی نشو و نما کی تکمیل کا رُخ متعین کیا جا سکے۔ کیوں کہ علم بِالوحی دَر حقیقت عمل کا علم ہے۔ گویا یہ نصب العین اور اس کے حاصل کرنے کے نتیجہ خیز طریقہ کار کا علم ہے۔ جب اس طریقہ کار سے نتائج پیدا ہو جائیں جو اِنسانی اِستعداد کے زائدہ علوم کے موضوعات ہیں، تو ان کی توجیہ کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر مطلوبہ نتائج پیدا ہی نہیں ہوئے تو ان کی توجیہ عملاً کیسے اثر پیدا کر سکتی ہے؟ توجیہ کے ڈھب پر مرتب ہونے والے تمام علوم موجودہ اَقدارِحیات کی حفاظت تو کر سکتے ہیں مگر مٹی ہوئی اَقدار کو زندہ نہیں کر سکتے۔
یہ اَمر ملحوظ رہے کہ ہمارے تمام متداولہ مذہبی علوم اُسی دور میں مرتب و مدون ہوئے تھے جب اِسلام کا سیاسی غلبہ بحال تھا۔ شریعت، طریقت اور مسالک اپنے اپنے میدانوں میں مؤثر طور پر فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔ چناں چہ اُس وقت مسلمانوں کی حیاتِ اِجتماعی میں موجودہ اَقدار(existing values) کو محفوظ کیا جا رہا تھا۔ لیکن جب سے ہمارے ہاتھوں سے سیاسی غلبہ چھن گیا، ان علوم کے پیچھے قوتِ نافذہ باقی نہ رہی، غلبہ اِستعمار اور طویل دورِ غلامی نے ہماری اَقدارِ حیات کو مٹا کر ختم کر دیا بلکہ ان کی جگہ منفی اور غیر اِسلامی اَقدار نے لے لی۔ چناں چہ اب سیاسی اور معاشی سطح پر اس صورتِ حال یعنی status quo کو بحال رکھتے ہوئے محض توجیہی علوم کی مدد سے ختم شدہ اَقدار کو زندہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ علوم تو موجودہ اَقدار کو محفوظ کرنے کے لیے معرضِ وجود میں آئے تھے، ان سے آج حیاتِ ملی کو اَز سرِ نو زندگی نہیں بخشی جا سکتی۔ آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مذہبی علوم کے ذریعے معیاری دین اور معمول بہ دین میں اِمتیاز پیدا کیا جائے اور پھر اس اِمتیاز کی روشنی میں اُن کی تکمیل کا رُخ دوبارہ متعین کیا جائے۔
اس سلسلے کا پہلا علم فلسفہ ہے۔ جس کا موضوع من حیث الکل کائنات کی ماہیتِ اَصلی ہے۔ اِس کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ حقیقت من حیث الکل کیا ہے؟ اِس میں اِنسان کا مقام و منصب کیا ہے؟ اور اس مقام و منصب کے لحاظ سے اِنسان کا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟
دوسرا علم اَخلاقیات ہے۔ اِس کا موضوع معیارِ اَخلاق ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ فضائلِ اَخلاق کیا ہیں؟ اُن کا معیار کیا ہے؟ اور ان کی مابعد الطبیعی اساس کیا ہے؟
تیسرا علم عمرانیات کا ہے۔ اس کا موضوع معاشرہ ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ معاشرہ کیسے وجود میں آتا ہے؟ کیسے ترقی کرتا ہے؟ اور کیسے زوال پذیر ہوتا ہے؟
چوتھا علم معاشیات کا ہے۔ اِس کا موضوع تخلیقِ دولت کا نظام ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ دولت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ اس کی تقسیم کیسے ہوتی ہے؟ اور یہ کس طرح صرف ہوتی ہے؟ یعنی دولت کی پیدائش (production)، تقسیم (distribution) اور صرف (consumption) اس کے مسائل ہیں۔
پانچواں علم سیاسیات ہے۔ جس کا موضوع ریاست اور اس کے وظیفے کی ادائیگی کا طرزِ عمل یعنی آئین ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ ریاست کیا ہے؟ کیسے وجود میں آتی ہے؟ اس کا وظیفہ کیا ہے اور اس کے وظیفے کو ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
ا۔ طبیعات کا موضوع مظاہرِ طبیعی (physical phenomena) ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ مظاہر طبیعی میں حرکت کیسے واقع ہوتی ہے؟
ب۔ حیاتیات کا موضوع مظاہرِ حیاتیات (biological phenomena) ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ عالمِ نامی (organic world) میں تغیرات کیسے رُونما ہوتے ہیں؟
ج۔ نفسیات کاموضوع شعور کی کیفیات ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ مختلف اَعمالِ شعوری (conscious process) کیا ہیں؟ اور کیوں کر وجود میں آتے ہیں؟
اِن میں سے سب سے پہلے طبیعات وجود میں آئی جو اِبتدا میں فلسفے کا حصہ تھی۔ مگر اس کی نشو و نما کے لیے ضروری تھا کہ وہ فلسفے سے اپنا رشتہ منقطع کر لے۔ اِسی طرح حیاتیات بھی پہلے فلسفے کا جزو تھی۔ جب علومِ فطرت مدوّن ہو گئے تو اِنسان کی توجہ کیفیاتِ شعور کی طرف منعطف ہوئی جس کا مطالعہ نفسیات قرار پایا۔ ان میں سے ہر سائنس کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک موضوع (subject matter) ہو، ایک مسئلہ (problem) ہو، منہاج یعنی طریقہ تحقیق (research methodology) ہو، کچھ مسلمات (postulates) ہوں، ایک وظیفہ (function) ہو اور وظیفہ توجیہ و تعلیل (causal explanation) ہے۔ توجیہ کے لیے ضروری ہے کہ کچھ بنیادی تصورات یا مقولات (categories) ہوں جن کے تحت مشاہدے (observation) سے جمع کیے ہوئے مدلولات (data) کو منظم کیا جائے اور ایک مفروضہ یعنی (hypothesis) ہو جس کے تحت ان مدلولات کی توجیہ کی جا سکے۔
اِن تمام غیرمذہبی علوم (secular sciences) کی نشو و نما اِقدام و خطا (trial & error method) کے انداز میں ہو رہی ہے۔ اس لیے آج تک ان کی نشوونما کی تکمیل کا رُخ متعین نہیں ہو سکا اور اِقدام و خطا کے انداز میں نشو و نما کا اثر یہ ہے کہ ان علوم کے مقولات اور مفروضات کی صحت کی حدود کو متعین بھی نہیں کیا جا سکا جس کے نتیجے میں طبیعات، حیاتیات اور نفسیات کے درمیان اِلتباس پیدا ہو گیا ہے۔ اِس اِلتباس کو رفع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر سائنس کے اپنے اپنے مقولات اور مفروضات کو اسی مخصوص سائنس کے دائرے میں صحیح سمجھا جائے اور ایک علم کے مقولات (categories) کو دوسرے علم کے مقولات و مفروضات کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔
علمِ طبیعات کے مقولات یہ ہیں:
اِسی طرح طبیعات کا مفروضہ جو عالم طبیعی میں واقع ہونے والی حرکت کی توجیہ کے لیے اختیار کیا جا سکتا ہے وہ میکانی علت کا مفروضہ ہے۔ اسے hypothesis of mechanical causation کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ کسی بے جان وجود میں اُس وقت تک حرکت پیدا نہیں ہوتی جب تک کوئی بیرونی مؤثر اسے ایک نقطہ مکانی سے دوسرے نقطہ مکانی اور ایک لمحہ زمانی سے دوسرے لمحہ زمانی تک منتقل نہ کر دے۔ حالانکہ عالمِ نامی (organic world) میں جو حرکت واقع ہوتی ہے وہ اَز خود حرکت ہے یعنی وہ spontaneous movement ہے۔ یہ ہرگز کسی بیرونی محرک کا نتیجہ نہیں۔ جو لوگ نامی حرکت کی توجیہ مفروضہ اِرتقاء (hypothesis of evolution) کی بجائے میکانی علت کے مفروضے سے کرتے ہیں وہ نامی (organic) اور غیرنامی (inorganic) کے درمیان اِلتباس پیدا کر دیتے ہیں۔
اِسی طرح نفسیات میں جو حرکت شعوری طور پر واقع ہوتی ہے، وہ علت غائی (purposive causality) کا نتیجہ ہے۔ اس کی توجیہ میکانی علت یا مفروضہ اِرتقا سے کرنا شعور اور زندگی کے مظاہر کے درمیان اِلتباس پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ توجیہ میں یہ اِلتباس ڈاروِن (Darwin) نے اپنی Theory of Evolutionمیں میکانی علیت کے مفروضے کو اِختیار کر کے غیر نامی سے نامی کی توجیہ کرنے میں پیدا کیا ہے اور نامی اور غیر نامی کے درمیان اِمتیازات ملحوظ نہیں رکھے۔ اس طرح جب ماہرینِ نفسیات نفسیاتی کردار کی توجیہ میکانی علت کے مفروضے سے کرتے ہیں, جیسے واٹسن (Watson) نے behaviourism کے اِستدلال میں شعوری کردار کی توجیہ میکانی علت سے کرنا چاہی تو شعوری اور غیر شعوری حرکت کو انداز نظر انداز کر دیا۔ اِسی طرح مغربی ماہرینِ جرمیات نے جرائم کے اِرتکاب کے اَسباب ومحرکات پر بحث کرتے ہوئے جو مختلف مکاتبِ فکر وضع کیے ہیں۔ مثلاً Socialogical School، Positivistic School، Psychological School، Psychiatic School، Ecological School؛ اور یہ سب اپنے اپنے مظاہر کی توجیہ کے لیے غلط مفروضے کے استعمال اور تحقیق میں التباس کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پوری تحقیق نے جرم کی ذمہ داری سے ہر مجرم کو بری ثابت کر دیا ہے اور یہ سوچ بڑے اخلاقی بگاڑ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے۔
اگر ہم انسانی علوم (human sciences) کے اِصلاح طلب پہلو کی طرف توجہ کر یں تو واضح ہو گا کہ یہ پہلو فلسفہ اقدام و خطا کے انداز میں نشو و نما پانے کی وجہ سے تضادات میں الجھ گیا ہے۔ اس کی نشو و نما کی تکمیل کا رُخ اس وقت تک متعین نہیں ہو سکتا جب تک علم بِالوحی سے ہدایت حاصل نہ کی جائے۔ مثلاً سب سے پہلے فلسفے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عقلیت (rationalism) کا منہاج اختیار کیا گیا کہ صرف اور صرف عقل ہی ذریعہ علمِ حقیقت ہے۔ یہ عقل کے ذریعے علمِ حقیقت ہونے کے بارے میں لامحدود یقین کا موقف تھا، جس سے متضاد نتائج برآمد ہوئے اور یہ یقین متزلزل ہو گیا۔ اس کی بجائے حسیت (impericism) کا موقف اختیار کیا گیا تو اس کا اصول یہ تھا کہ حواس ہی ذریعہ علمِ حقیقت ہیں۔ یہ موقف عقل کے باب میں لامحدود بے یقینی کا موقف تھا، جس نے انجامِ کار فلاسفہ کو تشکیک میں مبتلا کر دیا۔ چوں کہ ذہنِ انسانی دیر تک تشکیک میں مبتلا نہیں رہ سکتا اس لیے تنقیدکا اصول سامنے آیا اورفلسفے میں دورِ تنقید (critical era) کی ابتدا ہوئی اور ذہنِ انسانی اس نتیجہ پر پہنچا کہ علمِ یقینی محسوسات تک محدود ہے اور ماورا محسوسات کا نہ تو انکار جائز ہے اور نہ اس کا علمِ یقینی ممکن ہے۔ اس لیے عملی شعور (practical consciousness) کا تقاضا ابھرا کہ انسان کا نصب العین متعین کیا جائے۔ اس مرحلے پر فلسفے کا مسئلہ یہ ہو گیا کہ انسان اس طرح سوچے کہ میں کیا ہوں؟ اور اس کائنات میں میرا مقام و منصب کیا ہے؟ اور اس کے لحاظ سے میرا نصب العین کیا ہے؟ یعنی فلسفے میں جستجو کا رُخ منظور سے ناظر کی جانب پھر گیا۔ اس میں کانٹ (Kant) اور بعد کے فلسفے میں ہیگل (Hegal) اور مارکس (Marx) شامل ہیں جنہوں نے متضاد نصب العین پیش کیے۔ جن کے نظریات کو مختلف قسم کی اِرادیت (volunteerism) سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان سب کی معذوری یہ ہے کہ نصب العین تو بیان کرتے ہیں لیکن اسے حاصل کرنے کا حتمی ، قطعی اور یقینی طور پر نتیجہ خیز لائحہ عمل بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں اور کسی کی جد و جہد میں کامیابی کی ضمانت میسر نہیں آتی۔ یہ سب کچھ اقدام وخطا (trial & error) کے انداز میں غور کرنے کا نتیجہ ہے ۔ یہاں پہنچ کر انسانیت تضادات میں الجھ گئی ہے اور پورا عالم نظریاتی بحران میں مبتلا ہے۔ ان تضادات نے عالمِ اِنسانیت کو نہایت مہلک قسم کے تضادات کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔
اس لیے مذہبی علوم کی اصلاح کا امکان بھی صرف اس صورت میں ہے کہ ان کی نشو و نما کا رُخ اقدام و خطا سے متعین ہونے کی بجائے علم بِالوحی سے متعین کیا جائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved