اسلام کے جنگی قوانین کے مطابق غیر جانب دار افراد یا ممالک کے ساتھ جنگ نہیں کی جائے گی، خواہ ان کے ساتھ نظریاتی اختلاف کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو. اسلام نے ایسے غیر جانب دار لوگوں کے ساتھ پُرامن رہنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اسلام خواہ مخواہ جنگ یا تصادم کو پسند نہیں کرتا. وہ ہر انسانی جان کا احترام کرتا ہے اور انسانی خون کی حرمت کی پاسداری کا ہر سطح پر پورا پورا اہتمام کرتا ہے.
1. اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ ِﷲِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ ز وَلاَ يَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اﷲَ ط اِنَّ اﷲَ خَبِيْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَo
’’اے ایمان والو! اﷲ کے لیے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو. عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو! بے شک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہےo‘‘
المائدة، 5: 8
اس آیت میں کسی قوم کی دشمنی (hostility) کے باوجود اس کے ساتھ طرزِ عمل میں ظلم کرنے یا حد سے تجاوز کرنے کی ممانعت ہے جیسا کہ امام قرطبی نے ابو عبیدہ اور فراء کے حوالے سے اس کا معنی بیان کیا ہے:
معنی {لاَ يَجْرِمَنَّکُمْ} ای لا يکسبنکم بغض قوم ان تعتدوا الحق إلی الباطل، والعدل إلی الظلم.
’’لاَ يَجْرِمَنَّکُمْ کا معنی یہ ہے کہ کسی قوم کا بغض و عداوت تم سے یہ کام نہ کروا سکے کہ تم حق سے باطل اور عدل سے ظلم کی طرف تجاوز کرو.‘‘
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 6: 45
2. اسی طرح بلاامتیاز قتل عام کی ممانعت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا يَنْهٰکُمُ اﷲُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِيَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَيْهِمْ ط اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَo
’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہےo‘‘
الممتحنة، 60: 8
دہشت گرد بلاامتیازِ مذہب و جنس - خودکش حملوں، بم دھماکوں اور دیگر ذرائع سے - انسانیت کے قتل عام کے مرتکب ہو رہے ہیں. ان کی سب سے بڑی دلیل - جس کی بناء پر وہ ایسا کرنا جائز سمجھتے ہیں - مسلمان ممالک پر غیر مسلم فوجوں اور طاقتوں کا قبضہ اور وہاں کے مسلمانوں پر زبردستی جنگ مسلط کیا جانا ہے.
اس پس منظر میں اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ دہشت گرد جس طرح بلا امتیازِ مرد و زن، بازاروں، شہروں، عبادت گاہوں اور دیگر عوامی مقامات پر بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے انسانیت کے قتلِ عام کے مرتکب ہو رہے ہیں کیا حالتِ جنگ میں بھی ایسے اقدامات کی اسلام اجازت دیتا ہے؟
ارشادِ باری تعالیٰ
{ لَا يَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَلاَّ تَعْدِلُوْا}
میں صراحتاً یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ کسی قوم، گروہ یا ملک کی دشمنی میں بھی مسلمانوں کو عدل ترک کرنے اور ظلم اختیار کرنے کی اجازت نہیں. امام قرطبی اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ نصِ قرآنی سے یہ ثابت ہے کہ اسلام ہر حال میں اعتدال اور میانہ روی کے راستہ کو اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے. یہاں تک کہ دورانِ جنگ بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق قتلِ عام کی قطعاً اجازت نہیں.
دہشت گردی کی مذمت اور اس کی حقیقت پر دلائل بڑے واضح اور صریح ہیں. اگر ہم بعض انتہا پسندوں کے اس موقف کو ایک لمحے کے لئے مان لیتے ہیں کہ وہ اسلام دشمن قوتوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں تو اس صورت میں بھی ان کی کارروائیاں اسلامی جہاد کے زمرے میں نہیں آئیں گی کیونکہ موجودہ دور میں جاری ان کی سرگرمیاں کسی صورت بھی اسلامی قوانینِ جنگ کے دائرے میں نہیں آتیں. عہدِ نبوی اور عہدِ خلفاء راشدین میں جاری کئے گئے احکامات و ہدایات ذیل میں ملاحظہ ہوں.
موجودہ دہشت گردی پر مبنی کارروائیوں میں مسلمان ریاستوں سمیت غیر مسلم ممالک میں بھی لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے. اس پر یہ لوگ غیر مسلم حکومتوں کی طرف سے جاری رکھے جانے والے معاندانہ سلوک کو دلیل بناتے ہیں کہ چونکہ غیر مسلم حکومتیں مسلمانوں کو قتل کرنے پر آمادہ ہیں اور اس کا ارتکاب کر رہی ہیں، اس لیے ہمیں بھی جوابی کارروائی کے طور پر ان کے شہروں میں قتال کرنا چاہیے. حالانکہ ان کی یہ دلیل بنیادی اسلامی تعلیمات اور اسلام کے عمومی مزاج کے سراسر خلاف ہے. اسلام اس طرح غیر مسلموں کا قتل عام تو کُجا دورانِ جنگ بھی بے قصور غیر مسلموں کے قتل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے. اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے دورانِ جنگ بھی اسلامی فوجوں کے لئے باقاعدہ اصول و ضوابط کا تعین کیا. چنانچہ تعلیماتِ اسلام کے مطابق دورانِ جنگ بھی عورتوں کا قتل جائز نہیں ہے. اس کے ثبوت میں درج ذیل احادیث ملاحظہ ہوں:
1. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ: وُجِدَتِ امْرَاَةٌ مَقْتُوْلَةً فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَنَهَي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالصِّبْيَانِ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی غزوہ میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کر دیا گیا تھا. اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (سختی سے) عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت فرما دی.‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب قتل النساء في الحرب، 3: 1098، رقم: 2852
مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب تحريم قتل النساء والصبيان في الحرب، 3: 1364، رقم: 1744
ترمذي، السنن، کتاب السير، باب ما جاء في النهي عن قتل النساء والصبيان، 4: 136، رقم: 1569
ابن ماجه، السنن، کتاب الجهاد، باب الغارة والبيات وقتل النساء والصبيان، 2: 947، رقم: 2841
احمد بن حنبل، المسند، 2: 22، رقم: 4739
ابنِ بطال نے ’’شرح صحیح البخاری (5: 186)‘‘ میں اور امام نووی نے ’’شرح صحیح مسلم (12: 37)‘‘ میں اسی موقف کی تائید کی ہے کہ دورانِ جنگ عورتوں کا قتل اسلامی تعلیمات کے منافی ہے.
2. اسی طرح دورانِ جنگ خواتین کے قتل کی ممانعت ایک اور حدیث سے واضح ہوتی ہے جس کو امام عبد الرزاق نے اپنی مصنّف، امام شافعی نے اپنی مسند، امام طحاوی نے شرح معانی الآثار اور امام بیہقی نے السنن الکبریٰ میں درج کیا ہے.
عَنِ ابْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه اَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ بَعَثَ إِلَي ابْنِ اَبِي حَقِيْقٍ، نَهَي حِيْنَئِذٍ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ.
’’حضرت ابن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ابن ابی حقیق کی طرف لشکر روانہ کیا تو لشکرِ اسلام کو عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے صریحاً منع کیا.‘‘
عبد الرزاق، المصنف، 5: 202، رقم: 9385
شافعي، المسند: 238
طحاوي، شرح معاني الآثار، 3: 221
بيهقي، السنن الکبري، 9: 77، رقم: 17865
3. حضرت ابو ثعلبہ خشنی روایت کرتے ہیں:
نهی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم عن قتل النساء والولدان.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا.‘‘
طبرانی، المعجم الاوسط، 7: 113، رقم: 7011
دورانِ جنگ غیر مسلم خواتین کے علاوہ غیر مسلموں کے بچوں کے قتل کی ممانعت بھی اسلام کے سنہری اور انسان دوست ضابطوں میں سے ایک ہے. حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصولِ جنگ بھی دیکھیں اورجہاد کے نام پر کلمہ گو دہشت گردوں کی چیرہ دستیاں بھی. کاش ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان فرامین کا تھوڑا سا بھی حیاء ہوتا!
1. امام مسلم اپنی صحیح میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے تحریر فرمایا:
وَإِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَمْ يَکُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ، فَـلَا تَقْتُلِ الصِّبْيَانَ.
’’بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (یعنی عہدِ نبوی کی مسلم فوج) دشمنوں کے بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے، سو تم بھی بچوں کو قتل نہ کرنا.‘‘
(1) مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب النساء الغازيات يرضخ لهن ولا يسهم والنهي عن قتل صبيان اهل الحرب، 3: 1444، رقم: 1812
2. اس سلسلے میں دوسری روایت ملاحظہ کریں جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑے سخت کلمات کے ذریعے صحابہ ث کو غیر مسلموں کے بچے قتل کرنے سے منع فرمایا اور ان کلمات کو بار بار تاکیداً دہرایا. حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کُنَّا فِي غَزَاةٍ فَاَصَبْنَا ظَفَرًا وَقَتَلْنَا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ، حَتَّی بَلَغَ بِهِمُ الْقَتْلُ إِلَی اَنْ قَتَلُوا الذُّرِّيَةَ، فَبَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ: مَا بَالُ اَقْوَامٍ بَلَغَ بِهِمُ الْقَتْلُ إِلَي اَنْ قَتَلُوا الذُّرِّيَةَ؟ اَ لَا! لَا تَقْتُلُنَّ ذُرِّيَةً. اَ لَا! لَا تَقْتُلُنَّ ذُرِّيَةً. قِيْلَ: لِمَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اَلَيْسَ هُمْ اَوْلَادُ الْمُشْرِکِيْنَ؟ قَالَ: اَوَلَيْسَ خِيَارُکُمْ اَوْلَادَ الْمُشْرِکِيْنَ؟
’’ہم ایک غزوہ میں شریک تھے (ہم لڑتے رہے یہاں تک) کہ ہمیں غلبہ حاصل ہو گیا اور ہم نے مشرکوں سے قتال کیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگوں نے بعض بچوں کو بھی قتل کر ڈالا. یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جن کے قتل کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے بچوں تک کو قتل کر ڈالا؟ خبردار! بچوں کو ہرگز قتل نہ کرو، خبردار! بچوں کو ہرگز قتل نہ کرو. عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کیوں، کیا وہ مشرکوں کے بچے نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے بہترین لوگ بھی مشرکوں کے بچے نہیں تھے؟‘‘
نسائي، السنن الکبري، کتاب السير، باب النهي عن قتل ذراري المشرکين، 5: 184، رقم: 8616
دارمي، السنن، کتاب السير، باب النهي عن قتل النساء والصبيان، 2: 294، رقم: 2463
حاکم، المستدرک، 2: 133، 134، رقم: 2566، 2567
طبراني، المعجم الکبير، 1: 284، رقم: 829
ایک روایت میں ہے کہ کسی نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! وہ مشرکین کے بچے تھے. تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خِيَارُکُمْ اَبْنَائُ الْمُشْرِکِيْنَ. اَلَا! لَا تُقْتَلُ الذُّرِّيَة.
’’تم میں سے بہترین لوگ بھی تو مشرکین ہی کے بچے تھے (یعنی اُن کے والدین بھی مشرک تھے). خبردار! بچوں کو جنگ کے دوران بھی قتل نہ کیا جائے.‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 3: 435، رقم: 15626، 15627
بيهقی، السنن الکبری، 9: 77، رقم: 17868
3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جاں نثار صحابہ ث سے بڑھ کر کون جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت اور ضرورت سے آگاہ ہوگا! لیکن قربان جائیں ان پیکرانِ اطاعت و محبت پر، انہوں نے کس حد تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم کی تعمیل کی اور جنگ کے دوران کس قدر احتیاط سے کام لیا. اس کی ایک خوبصورت مثال ملاحظہ ہو.
حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کُنْتُ فِيْمَنْ حَکَمَ فِيْهِمْ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، فَشَکُّوْا فِيَّ اَمِنَ الذُّرِّيَةِ اَنَا اَمْ مِنَ الْمُقَاتِلَةِ؟ فَنَظَرُوْا إِلَی عَانَتِي فَلَمْ يَجِدُوْهَا نَبَتَتْ، فَاُلْقِيْتُ فِي الذُّرِّيَةَ، وَلَمْ اُقْتَلْ.
’’میں بذاتِ خود ان لوگوں میں شامل تھا جن کے بارے میں دورانِ جنگ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا تھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ تو اُنہوں نے میرے بارے میں شک کیا کہ آیا میں بچوں میں شامل ہوں یا لڑائی کرنے والوں میں؟ لہٰذا اُنہوں نے میرے جسم پر بلوغت کے بال تلاش کئے جو ابھی اُگے بھی نہ تھے. تو مجھے بچوں میں شمار کر لیا گیا اور میں قتل ہونے سے بچ گیا.‘‘
ابن حبان، الصحيحِ، کتاب السير، باب الخروج وکيفية الجهاد، 11: 109، رقم: 4788
عبد الرزاق، المصنف، 10: 179، رقم: 18742
طبراني، المعجم الکبير، 17: 164، رقم: 434
بيهقي، السنن الکبریٰ، 6: 166، رقم: 11098
دورانِ جنگ غیر مسلم عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کو قتل کرنے کی ممانعت سے متعلق مندرجہ احکامات کی روشنی میں جلیل القدر فقیہ احناف امام سرخسی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’المبسوط‘‘ میں اپنا نقطہ نظر یوں بیان کرتے ہیں:
قال صلی الله عليه وآله وسلم : ولا تقتلوا وليدا والوليد المولود في اللغة وکل آدمي مولود، ولکن هذا اللفظ إنما يستعمل في الصغار عاده. ففيه دليل علي انه لا يحل قتل الصغار منهم، إذا کانوا لا يقاتلون. وقد جاء في الحديث ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم نهي عن قتل النساء والولدان. وقال: اقتلوا شيوخ المشرکين، واستحيوا شروحهم. والمراد بالشيوخ البالغين وبالشروخ الاتباع من الصغار والنساء والإستحياء الاسترقاق. قال اﷲ: {وَاسْتَحْيُوْا نِسَآءَ هُمْ}.(1) وفي وصية ابي بکر رضي الله عنه ليزيد بن ابي سفيان: لا تقتل شيخا ضرعا ولا صبيا ضعيفا، يعني شيخا فانيا و صغيرًا لا يقاتل.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بچوں کو قتل نہ کرو، ولید لغت میں مولود کے معنی میں ہے. یوں تو ہر انسان مولود ہے مگر عادتاً اس لفظ کا استعمال چھوٹے بچوں کے لئے ہوتا ہے.یہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کی دلیل ہے کہ بچوں کا قتل جائز نہیں (خاص طور پر) جبکہ وہ قتال میں شریک ہی نہ ہوں. حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا اور فرمایا: (حربی) مشرکین میں سے جو بالغ ہیں (صرف حالتِ جنگ میں) اُنہیں قتل کرو لیکن عورتوںاور بچوں کو (پھر بھی) زندہ رہنے دو. شیوخ سے مراد (جنگ میں شریک) بالغ افراد ہیں، شروخ سے مراد بچے اور عورتیں ہیں، استحیاء کا مطلب ہے: نرمی کا برتاؤ کیا جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَاسْتَحْيُوْا نِسَآءَ هُمْ}اس آیت میں بھی استحیاء نرمی کے برتاؤ کے معنی میں استعمال ہوا ہے. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یزید بن ابی سفیان کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ کسی شیخ فانی (عمر رسیدہ یا قریب المرگ بوڑھے) اور ناتواں بچے کو ہرگز قتل نہ کرے.‘‘
مومن، 40: 25
سرخسی، کتاب المبسوط، 10: 5، 6
اسلام کے قوانینِ جہاد کے تحت دورانِ جنگ ضعیف العمر بوڑھوں کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے. اِس اصول کی صراحت درج ذیل احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتی ہے.
1. امام ابو داؤد حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیںکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَلَا تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِيرًا وَلَا امْرَاَةً.
’’نہ کسی بوڑھے کو قتل کرو، نہ شیر خوار بچے کو، نہ نابالغ کو اور نہ عورت کو.‘‘
ابو داؤد، السنن، کتاب الجهاد، باب دعاء المشرکين، 3: 37، رقم: 2614
ابن ابي شيبة، المصنف، 6: 483، رقم: 33118
بيهقي، السنن الکبریٰ، 9: 90، رقم: 17932
2. امام ابن ابی شیبہ حضرت ضحاک سے روایت کرتے ہیں:
کَانَ صلي الله عليه وآله وسلم يَنْهَي عَنْ قَتْلِ الْمَرْاَةِ وَالشَّيْخِ الْکَبِيْرِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عورتوں اور عمر رسیدہ افراد کو قتل کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے.‘‘
ابن ابي شيبة، المصنف، 6: 484، رقم: 33133
3. امام ابن ابی شیبہ حضرت راشد بن سعد سے روایت کرتے ہیں:
نَهَی رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالذُّرِّيَةِ وَالشَّيْخِ الْکَبِيْرِ الَّذِي لَا حِرَاکَ بِهِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں، بچوں اور عمر رسیدہ افراد - جن میں کوئی سکت نہ ہو - کو قتل کرنے سے منع فرمایا.‘‘
ابن ابي شيبة، المصنف، 6:484، رقم: 33135
4. سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث نبوی کو امام بیہقی نے بیان کیا ہے جس میں مندرجہ بالا طبقات کا اکٹھا اور قدرے تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے تو یوں ہدایات دیتے:
ولا تقتلوا وليدا طفلا، ولا امراة، ولا شيخا کبيرا، ولا تغورن عينا، ولا تعقرن شجرة إلا شجرا يمنعکم قتالا، ولا تمثلوا بآدمي ولا بهيمة، ولا تغدروا ولا تغلوا.
’’کسی بچے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا، جنگ میںحائل درختوں کے سوا کسی دوسرے درخت کو نہ کاٹنا، کسی انسان کا مثلہ نہ کرنا، کسی جانور کا مُثلہ نہ کرنا، بدعہدی نہ کرنا اورچوری و خیانت نہ کرنا.‘‘
بيهقي، السنن الکبري، 9: 90، رقم: 17934
5. حضرت جبیر بن نفیل روایت کرتے ہیں:
مر رجل بثوبان ، فقال: اين تريد؟ قال: اريد الغزو في سبيل اﷲ ل. قال: ولا تغلل إن غنمت، ولا تقتلن شيخا کبيرا، ولا صبيا صغيرا. فقال له الرجل: ممن سمعت هذا؟ قال: من رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’ایک شخص حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزر رہا تھا. پس انہوں نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ اس نے جواب دیا: جہاد پر روانہ ہو رہا ہوں. انہوں نے فرمایا: اگر تجھے مالِ غنیمت حاصل ہو تو اس میں خیانت نہ کرنا، کسی بوڑھے شخص کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی بچے کو قتل کرنا. اس شخص نے کہا: آپ نے یہ کہاں سے سنا؟ تو انہوں نے فرمایا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے.‘‘
ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 27: 404
اسلام میں دورانِ جنگ اور فتوحات کے بعد غیر مسلم مذاہب کے رہنماؤں کے قتل کی بھی ممانعت ہے.
1. امام احمد بن حنبل حضرت ابن عباس رضي اﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اسلامی لشکروں کو جہاد پر روانہ کرتے تو انہیں واضح طور پر یہ ہدایات فرمایا کرتے تھے:
أخرُجُوْا بِسْمِ اللّٰهِ، تُقَاتِلُوْنَ فِي سَبِيْلِ اللّٰهِ، مَنْ کَفَرَ بِاللّٰهِ لَا تَغْدُرُوْا وَلَا تَغُلُّوْا وَلَا تُمَثِّلُوْا وَلَا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ وَلَا اَصْحَابَ الصَّوَامِعِ.
’’اﷲ کا نام لے کر روانہ ہو جاؤ، تم اﷲ کی راہ میںاس کے ساتھ کفر کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنے جارہے ہو، اس دوران بدعہدی نہ کرنا، چوری و خیانت نہ کرنا، مُثلہ نہ کرنا، بچوں کو قتل نہ کرنا اور راہبوں کو قتل نہ کرنا.‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 5:358، رقم: 2728
2. ابن اَبی شیبہ، حضرت ابن عباس رضی اﷲ عہنما سے ایک اور روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے لشکروں کو روانہ کرتے تو فرماتے:
لَا تَقْتُلُوا اَصْحَابَ الصَّوَامِعِ.
’’کلیساؤں کے متولیوں (یعنی پادریوں) کو قتل نہ کرنا.‘‘
ابن ابي شيبة، المصنف، 6:484، رقم: 33132
ابو يعلي، المسند، 5:59، رقم: 2650
طحاوي، شرح معاني الاثار، 3:225
ديلمي، مسند الفردوس، 5:45، رقم: 7410
3. امام ابن ابی شیبہ حضرت ثابت بن حجاج کلابی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور پھر فرمایا:
اَ لَا! لَا يُقْتَلُ الرَّاهِبُ فِي الصَّوْمَعَةِ.
’’خبردار! عبادت گاہوں میں موجود (غیر متحارب) پادری کو قتل نہ کیا جائے.‘‘
ابن ابي شيبة، المصنف، 6: 483، رقم: 33127
4. امام بیہقی حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب اسلامی لشکروں کو جہاد کی مہم پر روانہ کرتے تو انہیں بطورِ وصیت فرماتے:
ولا تغرقن نخلا، ولا تحرقنها، ولا تعقروا بهيمة، ولا شجرة تثمر، ولا تهدموا بيعة، ولا تقتلوا الولدان، ولا الشيوخ، ولا النساء، وستجدون اقواما حبسوا انفسهم في الصوامع فدعوهم، وما حبسوا انفسهم له.
’’کھجور کے باغات کو تباہ و برباد کرنا نہ اُنہیں جلانا، نہ کسی چوپائے کو ذبح کرنا، نہ کسی پھل دار درخت کو کاٹنا، نہ کوئی گرجا گرانا، نہ بچوں کو قتل کرنا نہ بوڑھوں کو، نہ عورتوں کو. عنقریب تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو عبادت گاہوں میں پابند کر رکھا ہوگا، پس تم انہیں اور جس چیز کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو پابند کر رکھا ہے، چھوڑ دینا.‘‘
بيهقی، السنن الکبریٰ، 9: 85، رقم: 17904
5. اسی طرح کی دوسری روایت حضرت صالح بن کیسان سے مروی ہے جسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف لشکر روانہ کرتے ہوئے فرمایا:
إنکم ستجدون اقواما قد حبسوا انفسهم في هذه الصوامع، فاترکوهم وما حبسوا له انفسهم، ولا تقتلوا کبيرا هرما، ولا امراة، ولا وليدا، ولا تخربوا عمرانا، ولا تقطعوا شجرة إلا لنفع، ولا تعقرن بهيمة إلا لنفع، ولا تحرقن نخلا ولا تغرقنه، ولا تغدر، ولا تمثل، ولا تجبن، ولا تغلل.
’’بے شک تم عنقریب ایسے لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے ان عبادت گاہوں میں اپنے آپ کو روک رکھا ہوگا، پس تم انہیں اور جس چیز کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو روک رکھا ہے، کو چھوڑ دینا. اور شیخ فانی (ضعیف، عمر رسیدہ یا قریب المرگ شخص)، عورت اور بچے کو قتل نہ کرنا اور آبادی کو ویران نہ کرنا. بلا ضرورت درخت نہ کاٹنا اور نہ چوپائے کو ذبح کرنا اور کھجوروں کے باغات نہ جلانا اور نہ انہیں تباہ و برباد کرنا اور نہ غداری کرنا، نہ مُثلہ کرنا، نہ بزدلی کرنا اور نہ مالِ غنیمت کی تقسیم میں دھوکہ بازی کرنا.‘‘
بيهقي، السنن الکبریٰ، 9: 90، رقم: 17929
اِن واضح اَحکامات میں جہاں غیر مسلموں کے مذہبی رہنماؤں کو قتل کرنے کی ممانعت ہیں، وہاں اُن لوگوں کے خود ساختہ مذہبی تصورات اور نام نہاد جہاد کی کیا تعریف کی جائے گی جو مسلمان علماء و مشائخ کا قتل، مخالف مسلک کی مساجد کو تباہ کرنے اور مزارات و خانقاہوں کو گرانا نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ اس کا علی الاعلان اِرتکاب بھی کرتے ہیں. لیکن اس کے باوجود خود کو دینی تعلیمات کے عامل اور مبلّغ بھی سمجھتے ہیں.
اسلام دورانِ جنگ اور فتوحات کے بعد غیر مسلم معاشرے کے تاجروں (businessmen & traders) اور کاشت کاروں (farmers) کے قتل کا بھی صریح مخالف ہے کیونکہ ان کے ساتھ انسانی آبادیوں کی معیشت وابستہ ہے. اس کی وضاحت درج ذیل احادیث مبارکہ سے ہوتی ہے.
1. امام ابن ابی شیبہ اور امام بیہقی حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
کَانُوْا لَا يَقْتُلُوْنَ تُجَّارَ الْمُشْرِکِيْنَ.
’’مسلمان کبھی بھی مشرک تاجروں کو قتل نہیں کرتے تھے.‘‘
ابن ابي شيبة، المصنف، 6:484، رقم: 33129
بيهقي، السنن الکبري، 9:91، رقم: 17939
ابن آدم القرشي، الخراج، 1:52، رقم: 133
2. امام ابن ابی شیبہ حضرت زید بن وہب سے بیان کرتے ہیں کہ اُن کے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خط آیا جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:
لَا تَغُلُّوْا وَلَا تَغْدِرُوْا، وَلَا تَقْتُلُوْا وَلِيْدًا، وَاتَّقُوا اﷲَ فِی الْفَلَّاحِيْنَ.
’’مالِ غنیمت کی تقسیم میں دھوکہ نہ کرو، نہ غداری کرو، نہ بچوں کو قتل کرو. اور کسانوں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو.‘‘
ابن ابي شيبة، المصنف، 6:483، رقم: 33120
ابن آدم القرشي، کتاب الخراج، 1:52، رقم: 132
امام بیہقی کی بیان کردہ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
اتَّقُوْا اﷲَ فِي الْفَلَّاحِيْنَ، فَـلَا تَقْتُلُوْهُمْ.
’’کسانوں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، سو انہیں قتل نہ کرو.‘‘
بيهقي، السنن الکبریٰ، 9:91، رقم: 17938
3. علامہ ابن القیم نے آپ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ قول بھی نقل کیا ہے:
فإنّ أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم لم يقتلوهم حين فتحوا البلاد، ولأنّهم لا يقاتلون، فاشبهوا الشيوخ والرهبان.
’’صحابہ کرام ث کا یہ معمول تھا کہ وہ کسی علاقے کو فتح کرلینے کے بعد ان لوگوں (زراعت پیشہ افراد) کو قتل نہ کرتے کیونکہ وہ براھِ راست جنگ میں شریک نہ ہوتے تھے، پس وہ بوڑھوں اور مذہبی پیشوائوں کے حکم میں ہوتے تھے.‘‘
ابن القيم، احکام اهل الذمة، 1: 165
4. امام اوزاعی نے بھی یہی فرمایا ہے:
لا يقتل الحرّاث إذا عُلِمَ أنّه ليس مِنَ المقاتله.
’’دورانِ جنگ زراعت پیشہ افراد کو قتل نہیں کیا جائے گا، اگر یہ معلوم ہو کہ وہ جنگ میںعملاً شریک نہیں.‘‘
ابن القيم، احکام اهل الذمة، 1: 165
5. ابن قدامہ المقدسی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے:
فأمّا الفلّاح الذي لا يقاتل فينبغي ألّا يُقْتَلَ، لما رُوِيَ عن عمر بن الخطّاب رضي الله عنه أنّه قال: اتّقوا اﷲ في الفلّاحين، الذين لا ينصبون لکم في الحرب.
’’ان کسانوں اور مزارعوں کو قتل کرنا جائز نہیں جو جنگ میںعملاً شریک نہ ہوں، کیونکہ حضرت عمر بن خطاب صسے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان کسانوںاور مزارعوں کی نسبت اﷲ سے ڈرو جو دورانِ جنگ تمہارے خلاف لڑتے نہیں.‘‘
ابن قدامة، المغني، 9: 251
اسلام کے دیے گئے قوانینِ جہاد میں دورانِ جنگ خدمت پر مامور افراد کے قتل کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے.
امام احمد بن حنبل، امام ابو داؤد، امام نسائی، امام ابن ماجہ اور امام حاکم نے حضرت رباح بن ربیع رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بیان کی ہے، وہ فرماتے ہیں:
کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَةٍ، فَرَاَي النَّاسَ مُجْتَمِعِيْنَ عَلَي شَيئٍ، فَبَعَثَ رَجُـلًا فَقَالَ: انْظُرْ عَـلَي مَا اجْتَمَعَؤ لَائِ؟ فَجَاءَ، فَقَالَ: عَلَي امْرَاَةٍ قَتِيْلٍ. فَقَالَ: مَا کَانَتْ هَذِهِ لِتُقَاتِلَ. قَالَ: وَعَلَي الْمُقَدَّمَةِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيْدِ. فَبَعَثَ رَجُـلًا فَقَالَ: قُلْ لِخَالِدٍ: لَا يَقْتُلَنَّ امْرَاَةً وَلَا عَسِيْفًا. وفي روية: لَا تَقْتُلَنَّ ذُرِّيَةً وَلَا عَسِيْفًا.
’’ایک غزوہ میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ بہت سے لوگ کسی چیز کے پاس جمع ہیں. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو یہ دیکھنے کے لئے بھیجا کہ لوگ کس چیز کے پاس جمع ہوئے ہیں. اُس نے آ کر بتایا: ایک مقتول عورت کے پاس. فرمایا: یہ عورت تو جنگ نہیں کرتی تھی. حضرت رباح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اگلے دستے کے کمانڈر حضرت خالد بن ولید تھے. لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا: خالد سے کہنا: (مشرکین کی) عورتوں اور لوگوں کی خدمت کرنے والوں کو ہرگز قتل مت کرنا.‘‘ ایک روایت میں ہے: ’’بچوں اور خدمت گاروں کو ہرگز قتل مت کرنا.‘‘
ابو داؤد، السنن،کتاب الجهاد، باب في قتل النساء، 3:53، رقم: 2669
ابن ماجه، السنن،کتاب الجهاد، باب الغارة والبيات وقتل النساء والصبيان، 2:948، رقم: 2842
احمد بن حنبل، المسند، 3:488، رقم: 16035
نسائي، السنن الکبریٰ، 5:186187، رقم: 8625، 8627
حاکم، المستدرک، 2:133، رقم: 2565
یہاں تک کہ مفتوحہ علاقے کے غیر مسلم افراد کے گھروں میں کام کاج کرنے والے غیر مسلم ملازمین کو بھی نہ قتل کیا جاسکتا ہے، نہ ہی ان پر کسی قسم کا ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے. ان لوگوں کے معاملہ میں یہی شرعی حکم ہے، اسی بات کو علامہ ابن القیم نے عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے:
إنّ العبد محقون الدم فأشبه النساء والصبيان.
’’گھروں میں کام کاج کرنے والے خدمت گار بھی عورتوں اور بچوں کی طرح محفوظ الدم ہیں.‘‘
ابن القيم، احکام اهل الذمة، 1: 172
اور اسی طرح ابن المنذر نے تمام اہلِ علم کا اجماع نقل کیا ہے کہ غیر مسلموں کے بوڑھوں، بیماروں، محتاجوں، عورتوں، بچوں اور بے روزگار افراد کی طرح ان کے زیردست ملازموں پر بھی کوئی ٹیکس عائد نہیں ہو گا.
اسلام انسانی خون کی حرمت کو کعبۃ اﷲ کی حرمت سے زیادہ فضیلت کا سزاوار سمجھتا ہے، دورانِ جنگ بھی خونِ ناحق کی مذمت کی گئی ہے. دورانِ جنگ صرف انہی دشمنوں کو قتل کرنے کی اجازت ہے جو عملًاجنگ میں شریک ہوں جبکہ آبادی کا غیر محارب (non-combatant) حصہ - جس میں بیمار، معذور، گوشہ نشین افراد، بچے، بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں - قتال کی اجازت سے مستثنیٰ ہے. فتحِ مکہ کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو ہدایات جاری فرمائیں ان میں مذکور ہے کہ جو مقابلہ نہ کرے، جان بچا کر بھاگ جائے، اپنا دروازہ بند کرلے یا زخمی ہو اس پر حملہ نہ کیا جائے.
1. امام مسلم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ فتحِ مکہ کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ دَخَلَ دَارَ اَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ اَلْقَی السِّلَاحَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ اَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ.
’’جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اُسے امان ہے، جو شخص ہتھیار پھینک دے اُسے امان ہے اور جو شخص اپنے گھر کے دروازے بند کر لے اُسے بھی امان ہے.‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب فتح مکة، 3: 1407، رقم: 1780
ابو داؤد، السنن، کتاب الخراج والإمارة والفيء، باب ما جاء في خبر مکة، 3:162، رقم: 3021
بزار، المسند، 4:122، رقم: 1292
ان تمام اقدامات سے امن کا عزم اور پیغام ظاہر ہوتا ہے.
2. مصنف عبد الرزاق میں روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
لَا يُذَفَّفُ عَلَی جَرِيْحٍ، وَلَا يُقْتَلُ اَسِيْرٌ، وَلَا يُتْبَعُ مُدْبِرٌ.
’’زخمی کو فوراً قتل نہ کیاجائے، نہ قیدی کو قتل کیا جائے اور نہ بھاگنے والے کا تعاقب کیا جائے.‘‘
عبد الرزاق، المصنف، 10: 123، رقم: 18590
3. مصنف عبد الرزاق کی ایک اور روایت میں حضرت جویبر بیان کرتے ہیں کہ انہیں بنو اسد کی ایک عورت نے بتایاکہ اُس نے حضرت عمار کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جنگِ جمل سے فارع ہونے کے بعد یہ اعلان کرتے ہوئے سنا:
ولا تذففوا علي جريح، ولا تدخلوا دارا، من القي السلاح فهو آمن، ومن اغلق بابه فهو آمن.
’’زخمی کو فوراً قتل نہ کرنا اور کسی گھر میں داخل نہ ہونا، جس نے اپنا اسلحہ پھینک دیا اُسے امان ہے اور جس نے اپنا دروازہ بند کر لیا وہ بھی مامون ہے.‘‘
عبد الرزاق، المصنف، 10: 124، رقم: 18591
اسلامی قوانینِ جنگ میں ایک ضابطہ اخلاق یہ بھی ہے کہ رات کے وقت دشمن پر حملہ نہیںکیا جائے گا بلکہ صبح ہونے کا انتظار کیا جائے گا تاکہ غیر حربی (non combatant) لوگ - عورتیں، بوڑھے، مریض اور بچے - اچانک پریشان نہ ہوں اور انہیں کوئی گزند نہ پہنچے.
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
اَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم اَتَي خَيْبَرَ لَيْلًا، وَکَانَ إِذَا اَتَي قَوْمًا بِلَيْلٍ لَمْ يُغِرْ بِهِمْ حَتَّي يُصْبِحَ.
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت خیبر کے مقام پر پہنچے. چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کسی جگہ رات کو پہنچتے تو صبح ہونے تک ان لوگوں پر حملہ نہیں کیا کرتے تھے.‘‘
بخاري، الصحيح،کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4:1538، رقم: 3961
مسلم، الصحيح،کتاب الجهاد والسير، باب غزوة خيبر، 3:1427، رقم: 1365
ترمذي، السنن،کتاب السير، باب البيات والغارات، 4:121، رقم: 1550
اس نبوی ضابطہ جنگ کو سامنے رکھ کر دہشت گردوں کی ان کارروائیوں کا تصور کریں جو رات کے اندھیرے میں اچانک ہنستی بستی آبادیوں کو کھنڈرات میںبدل دیتے ہیں اور بیٹھے بٹھائے سیکڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں.
عہد جاہلیت میں لڑائی کے دوران اس قدر وحشیانہ افعال سرزد ہوتے تھے کہ شدتِ انتقام میں دشمن کو زندہ جلا دیا جاتا تھا. چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگی قوانین میں بے شمار اصلاحات کے ساتھ ساتھ آگ میں جلانے جیسی وحشیانہ حرکت سے بھی منع فرما دیا.
حضرت عبد الرحمن بن عبد اﷲ نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ ایک سفر میں وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قضاے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو انہوں نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے. انہوں نے اس کے بچے پکڑ لیے تو چڑیا اضطراب اور پریشانی میں پَر بچھانے لگی. جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائے آئے تو فرمایا:
مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا؟ رُدُّوا وَلَدَهَا إِلَيْهَا.
’’اسے اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تڑپایا ہے؟ اس کے بچے اسے لوٹا دو.‘‘
ابو داود، السنن، کتاب الجهاد، باب کراهية حرق العدو بالنار، 3: 55، رقم: 2675
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چیونٹیوں کا ایک بل دیکھا جسے جلایا گیا تھا. تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس کی ممانعت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي اَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ.
’’آگ کے ساتھ عذاب دینا آگ کے رب کے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں ہے.‘‘
ابو داود، السنن، کتاب الجهاد، باب کراهية حرق العدو بالنار، 3: 55، رقم: 2675
اسلام نے جہاں چیونٹی جیسی مخلوق کو آگ میں جلانے سے منع کیا ہے تو وہاں انسانوں کو جلانے کی اجازت کس طرح دی جاسکتی ہے؟ اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہادی مہمات پر روانہ کرتے ہوئے صحابہ کرام ث کو تاکید فرمائی کہ دشمن کو آگ میں جلا کر ہلاک نہ کرنا.(3) مگر حالیہ بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں عوامی مقامات، مساجد اور دفاتر میں لوگ آگ میں جل کر راکھ ہوتے ہیں؛ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہوا میں منتشر ہو جاتے ہیں لیکن تعجب تو یہ ہے کہ اس قدر بہیمانہ قتل کے بعد کوئی نام نہاد مسلمانوں کا گروہ اس کی ذمہ داری قبول کر لیتا ہے. جس سے دنیا میں یہ پیغام جاتا ہے کہ مسلمانوں کا تصورِ جہاد (نعوذ باﷲ) اس قدر ظالمانہ اور بہیمانہ ہے جبکہ حقیقت اس سے قطعاً مختلف ہے.
بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد و السير، باب لا يعذب بعذاب اﷲ، 3: 1098، رقم: 2853
مسلم فوج کو بلااجازت دشمنوں کے گھروں میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں دی گئی. حالتِ جنگ میں بھی اسلام نے چادر اور چار دیواری کے تحفظ پر زور دیا، عورتوں اور بچوں کو مارنے پیٹنے کی بھی اجازت نہیں اور بلاقیمت کوئی چیز لے کر کھانا بھی ممنوع ہے.
1. سنن ابی داؤد میں مروی ہے کہ حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خیبر کے مقام پر اترے اور کتنے ہی صحابہ کرام ث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے. خیبر کا سردار ایک مغرور اور سرکش آدمی تھا. اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہا: کیا آپ کے لیے مناسب ہے کہ آپ ہمارے گدھوں کو ذبح کریں، ہمارے پھلوں کو کھائیں اور ہماری عورتوں کو پیٹیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا: اے ابن عوف! اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر یہ منادی کردو کہ جنت حلال نہیں ہے مگر ایمان والے کے لیے اور نماز کے لیے جمع ہوجاؤ. راوی کا بیان ہے کہ لوگ جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا:
اَيَحْسَبُ اَحَدُکُمْ مُتَّکِئًا عَلَی اَرِيکَتِهِ قَدْ يَظُنُّ اَنَّ اﷲَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ؟ اَلَا وَإِنِّي وَاﷲِ قَدْ وَعَظْتُ وَاَمَرْتُ وَنَهَيْتُ عَنْ اَشْيَاءَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ اَوْ اَکْثَرُ. وَإِنَّ اﷲَ لَمْ يُحِلَّ لَکُمْ اَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتَ اَهْلِ الْکِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ، وَلَا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ، وَلَا اَکْلَ ثِمَارِهِمْ.
’’کیا تم میں سے کوئی اپنی مسند پر ٹیک لگا کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز حرام قرار نہیں دی مگر وہی جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے. آگاہ ہوجاؤ، خدا کی قسم، میں نے نصیحت کرتے ہوئے، حکم دیتے ہوئے اور بعض چیزوں سے منع کرتے ہوئے جو کچھ بھی کہا ہے وہ قرآن کی طرح ہے بلکہ ان کی تعداد قرآنی امور سے زیادہ ہے. اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے یہ جائز نہیں رکھا ہے کہ اہلِ کتاب کی اجازت کے بغیر ان کے گھروں میں داخل ہو، نیز ان کی عورتوں کو پیٹنا اور ان کے پھلوں کو کھانا بھی حلال نہیں ہے.‘‘
ابو داود، السنن، کتاب الخراج والإمارة والفيء، باب في تعشير اهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات، 3: 170، رقم: 3050
بيهقي، السنن الکبري، 9: 204، رقم: 18508
ابن عبد البر، التمهيد، 1: 149
2. اسلام سے قبل دورِ کفر و جاہلیت میں محض مال و دولت کے حصول کے لئے بھی عرب جنگجو لڑائی چھیڑ دیا کرتے تھے. تجارتی قافلوں کو لوٹنا بعض قبائل کا معمول بن چکا تھا لیکن اسلام نے اس زیادتی کو سختی سے ختم کر دیا. ایک غزوہ میں چند لوگوں نے مسافروں کو لوٹنا چاہا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سختی سے منع کر دیا.
حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک غزوہ میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ شرکت کی سعادت نصیب ہوئی. بعض لوگوں نے دوسروں کے راستے کو تنگ کیا اور راہ چلتے مسافروں کو لوٹنا شروع کر دیا. آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی کو بھیج کر اعلان کروایا:
اَنَّ مَنْ ضَيَقَ مَنْزِلًا اَوْ قَطَعَ طَرِيقًا فَـلَا جِهَادَ لَهُ.
’’جو شخص دوسروں کو گھروں میں گھس کر تنگ کرے یا راستوں میں لوٹ مار کرے اس کا یہ (دہشت گردانہ) عمل جہاد نہیں کہلائے گا.‘‘
ابو داود، السنن، کتاب الجهاد، بَابُ مَا يوْمَرُ مِنْ انْضِمَامِ الْعَسْکَرِ وَسَعَتِه، 3: 41، رقم: 2629
گویا اﷲ کی راہ میں لڑنے والے اگر لوٹ مار کرنے اور گھروں میں گھس کر لوگوں کو ہراساں کرنے لگیں، عوام الناس کے لئے ان کا عمل باعثِ آزار بننے لگے تو راهِ حق میں جانیں قربان کرنے کا عظیم جذبہ بھی بارگاھِ خداوندی میں مسترد کر دیا جائے گا اور یہ عمل جہاد نہیں بلکہ فعلِ حرام قرار پائے گا.
اسلام نہ خونِ ناحق کی اجازت دیتا ہے اور نہ دشمن کی سرزمین پر کھلی تباہی و بربادی کا خواہاں ہے. اسلام امن اور اصلاح کا داعی ہے اس لئے حالتِ جنگ میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نہ کھیتیاں برباد ہوں، نہ پھل دار درخت کاٹے جائیں اور نہ املاک کو نذرِ آتش کیا جائے.
1. اس حوالے سے امام ترمذی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے:
وَنَهَی اَبُو بَکْرٍ الصِّدِّيقُ اَنْ يَقْطَعَ شَجَرًا مُثْمِرًا اَوْ يُخَرِّبَ عَامِرًا، وَعَمِلَ بِذَلِکَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَهُ.
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے (دورانِ جنگ) پھل دار درخت کاٹنے یا عمارت کو تباہ کرنے سے منع فرمایا اور آپ کے بعد بھی مسلمان اسی پر عمل پیرا رہے.‘‘
ابو داود، السنن، کتاب الجهاد، بَابُ مَا يوْمَرُ مِنْ انْضِمَامِ الْعَسْکَرِ وَسَعَتِه، 3: 41، رقم: 2629
ترمذی، السنن، کتاب السير، بَابُ فِي التَّحْرِيقِ وَالتَّخْرِيبِ، 4: 122، رقم: 1552
2. اسی مضمون کی احادیث موطا امام مالک، مصنف عبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن بیہقی میں آئی ہیں جن میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے صراحتاً درخت کاٹنے سے منع فرمایا ہے.
حضرت یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ انہیں بتایا گیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شام کی طرف کچھ لشکر روانہ کرتے ہوئے یزید بن ابی سفیان کی طرف آئے اور اُسے فرمایا:
إِنِّي اُوْصِيْکَ بِعَشْرٍ: لَا تَقْتُلَنَّ صَبِيا وَلَا امْرَاَةً، وَلَا کَبِيْرًا هَرِمًا، وَلَا تَقْطَعَنَّ شَجَرًا مُثْمِرًا، وَلَا تَخْرَبَنَّ عَامِرًا، وَلَا تَعْقَرَنَّ شَاةً، وَلَا بَعِيْرًا إِلَّا لِمَأْکَلَةٍ، وَلَا تُغْرِقَنَّ نَخْلًا، وَلَا تَحْرِقَنَّهُ، وَلَا تَغْلُلْ وَلَا تَجْبُنْ.
’’میں تمہیں دس چیزوں کی وصیت کرتا ہوں: کسی بچے، عورت، بوڑھے اور بیمار کو ہرگز قتل نہ کرنا، اور نہ ہی کوئی پھل دار درخت کاٹنا، اور نہ ہی کسی آباد گھر کو ویران کرنا، اور نہ ہی کسی بھیڑ اور اونٹ کی کونچیں کاٹنا مگر کھانے کے لئے (جتنی ضرورت ہو شرعی طریقے کے مطابق ذبح کرلینا)، اور کھجوروں کے پودوں کو مت کاٹنا نہ انہیں جلانا، اور مالِ غنیمت کو تقسیم کرنے میں دھوکہ نہ کرنا اورنہ ہی بزدل ہونا.‘‘
مالک، الموطا، کتاب الجهاد، باب النهي عن قتل النساء والولدان في الغزو، 2:447، رقم: 965
عبد الرزاق، المصنف، 5:199، رقم: 9375
ابن ابي شيبة، المصنف، 6:483، رقم: 33121
بيهقي، السنن الکبري، 9:89، 90، رقم: 17927، 17929
مروزي، مسند ابي بکر: 6972، رقم: 21
3. امام ابن شیبہ حضرت مجاہد سے مروی روایت بیان کرتے ہیں:
لَا يُقْتَلُ فِي الْحَرْبِ الصَّبِيُّ، وَلَا امْرَاَةٌ وَلَا الشَّيْخُ الْفَانِي، وَلَا يُحْرَقُ الطَّعَامُ، وَلَا النَّخْلُ وَلَا تُخْرَبُ الْبُيُوْتُ وَلَا يُقْطَعُ الشَّجَرُ الْمُثْمِرُ.
’’جنگ میں کسی بچے، عورت یا شیخِ فانی کو قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی کھانے اور کھجور کے درختوں کو جلایا جائے، اور نہ ہی گھروں کو ویران کیا جائے اور نہ ہی پھل دار درختوں کو کاٹا جائے.‘‘
ابن ابي شيبة، المصنف، 6: 483، رقم: 33122
4. اسی طرح کی ایک اور روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لشکر کو شام کی طرف روانہ کیا تو اس کے ساتھ تقریباً دو میل چلے اور اہلِ لشکر کو مخاطب کرکے فرمایا:
اوصيکم بتقوي اﷲ، لا تعصوا ولا تغلوا، ولا تجبنوا، ولا تغرقوا نخلا، ولا تحرقوا زرعا، ولا تحبسوا بهيمة، ولا تقطعوا شجرة مثمرة، ولا تقتلوا شيخا کبيرا، ولا صبيا صغيرا.
’’میں تمہیں اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، (اور یہ کہ) نافرمانی نہ کرنا، بزدلی نہ کرنا، کھجور کے پودوں کو تباہ نہ کرنا، کھیتیاں نہ جلانا، چوپایوں کو قید کر کے نہ رکھنا، کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا اور کسی شیخِ فانی کو قتل کرنا نہ کسی چھوٹے بچے کو.‘‘
مروزی، مسند ابی بکر: 69-72، رقم: 21
5. عاصم بن کلیب نے اپنے والد ماجد سے روایت کیا ہے کہ ایک انصاری نے بیان کیا: ہم ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے تو لوگوں کو کھانے پینے کی بڑی ضرورت پیش آئی اور دقت کا سامنا کرنا پڑا. پس انہیں بکریاں ملیں تو انہیں لوٹ کر ذبح کر لیا. کھانے کی ہانڈیوں میں ابال آرہا تھا کہ کمان سے ٹیک لگائے ہوئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور اپنی کمان سے ہماری ہانڈیوں کو الٹنا شروع کر دیا اور گوشت کو مٹی میں ملانا شروع کر دیا. پھر فرمایا:
إِنَّ النُّهْبَةَ لَيْسَتْ بِاَحَلَّ مِنَ الْمَيْتَةِ.
’’لوٹ مار (کا کھانا) مردار جانوروں کے گوشت سے زیادہ حلال نہیں ہے.‘‘
کس قدر احتیاط، اصول پسندی اور اعلی سیرت و کردار کا مظاہرہ ہو رہا تھا. محاذِ جنگ تھا یا طویل سفر کے دوران بھوک کی شدت کی حالت، دنیا کا کوئی بھی عسکری قائد، مذہبی رہنما یا روحانی مربی اتنے صاف ستھرے، مضبوط اور پاکیزہ کردار کا یہ نمونہ پیش نہیں کرسکتا. اسی تربیت کا اثر تھا کہ بھوک سے نڈھال صحابہ ث کے سامنے گوشت سے اُبلتی ہوئی ہانڈیاں مٹی پر الٹا دی گئیں اور پیکرانِ صبر و رضا نے خاموشی کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کئے رکھا.
اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کلمات ارشاد فرمائے وہ انسانیت کے لئے ایک انمول تحفہ تھے. لوٹ مار کے رزق کو مردار جانور سے زیادہ ناپاک قرار دینا ان لوگوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے جو آئے روز لوٹ مار اور بنک ڈکیتیاں کرکے دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے رقم جمع کرتے ہیں.
درج بالا تصریحات سے یہ بات خوب واضح ہوتی ہے کہ جب اسلام پر جنگ مسلط کر دی جائے یا مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا جائے اور جواب میں اسلامی ریاست کی فوج باقاعدہ جہاد میں مصروف ہو تو ایسے حالات میں بھی عورتوں، بچوں اور خدمت گزاروں کو قتل نہیں کیا جا سکتا. یہی نہیں بلکہ دوران جنگ فصلوں کو تباہ کرنے، عمارتوں کو مسمار کرنے، عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے اور لوٹ مار سے بھی منع کیا گیا ہے. جو اسلام دوران جہاد بھی ان امور کی اجازت نہیں دیتا اس کے نزدیک ایسے مسلمانوں یا غیر مسلموں کو جو براہ راست جارحیت میں ملوث نہ ہوں، پُر امن طریقیسے اپنے گھروں اور شہروں میں مقیم ہوں، کاروبار میں مصروف ہوں، سفر کر رہے ہوں یا مساجد میں مصروفِ عبادت ہوں - دہشت گردی کے ذریعے قتل کرنے کی کیسے اجازت دی جا سکتی ہے؟ لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایسی کارروائیاں اِسلامی تعلیمات کے سراسر منافی اور قرآن و حدیث سے صریح اِنحراف ہیں.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved