قرآن و حدیث سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اِسلام دینِ اَمن ہے اور یہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو - خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور رنگ و نسل سے ہو - جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت عطا کرتا ہے حتیٰ کہ ایک اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر بالعموم اور اسلامی ریاست پر بالخصوص فرض ہے.
اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں. اُن حقوق میں سے پہلا حق جو اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ کی طرف سے انہیں حاصل ہے وہ حقِ حفاظت ہے، جو انہیں ہر قسم کے خارجی اور داخلی ظلم و زیادتی کے خلاف میسر ہوگا تاکہ وہ مکمل طور پر امن و سکون کی زندگی بسر کر سکیں.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر پوری نسل انسانی کو عزت، جان اور مال کا تحفظ فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
إِنَّ دِمَاءَ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هَذَا، فِی شَهْرِکُمْ هَذَا، فِی بَلَدِکُمْ هَذَا، إِلَی يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ.
’’بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں (مقرر کی گئی) ہے. یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے.‘‘
بخاري، الصحیح، کتاب الحج، باب الخطبة ايام منی، 2: 420، رقم: 1454
مسلم، الصحيح، کتاب القسامة والمحاربين والقصاص والديات، باب تغليظ تحريم الدماء والاعراض والاموال، 3: 1305، 1304، رقم: 1479
لہٰذا کسی بھی اِنسان اور کسی بھی مذہب کے پیروکار کو ناحق قتل کرنا، اُس کا مال لوٹنا، اس کی عزت پر حملہ کرنا یا اس کی تذلیل کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ اس کے مرتکب شخص کو الم ناک سزا کی وعید سنائی گئی ہے. ذیل میں ہم قرآن و حدیث سے متعدد دلائل و براہین پیش کریں گے جس سے یہ حقیقت عیاں ہوجائے گی کہ اسلام نے کس طرح غیر مسلم شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی تلقین کی ہے.
اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم شہری کو قتل کرنا حرام ہے. کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو قتل کرے. قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا.
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا.‘‘
المائدة، 5: 32
اس آیہ کریمہ میں نَفْسًا کا لفظ عام ہے، لہٰذا اس کا اطلاق بھی عموم پر ہوگا. یعنی کسی ایک انسانی جان کا قتلِ ناحق - خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، کوئی بھی زبان بولتا ہو اور دنیا کے کسی بھی ملک یا علاقے کا رہنے والا ہو - قطعاً حرام ہے اور اس کا گناہ اتنا ہی ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کرنے کا ہے. لہٰذا مسلم ریاست میں آباد غیر مسلم شہریوں کا قتل بھی اسی زمرے میں آئے گا. اس کی تصریح آگے آنے والی احادیث سے بھی ہوتی ہے.
1. حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ کُنْهِهِ، حَرَّمَ اﷲُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.
’’جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (معاہد)(2) کو ناحق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر جنت حرام فرما دے گا.‘‘
نسائي، السنن،کتاب القسامة، باب تعظيم قتل المعاهد، 8: 24، رقم: 474
ابو داود، السنن، کتاب الجهاد، باب في الوفاء للمعاهد وحرمة ذمته، 3: 83، رقم: 2740
احمد بن حنبل، المسند، 5: 34، 38، رقم: 20393، 20419
دارمي، السنن، 2: 308، رقم: 2504
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 154، رقم: 2431
امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔(2) حدیث میں معاہد کا لفظ استعمال کیا گیا جس سے مراد ایسے شہری ہیں جو معاہدے کے تحت اِسلامی ریاست کے باسی ہوں، یا ایسے گروہ اور قوم کے افراد ہیں جنہوں نے اسلامی ریاست کے ساتھ معاہدئہ امن کیا ہو۔ اسی طرح جدید دور میں کسی بھی مسلم ریاست کے شہری - جو اُس ریاست کے قانون کی پابندی کرتے ہوں اور آئین کو مانتے ہوں - مُعاہد کے زمرے میں آئیں گے۔ جیسے پاکستان کی غیر مسلم اقلیتیں جو آئین پاکستان کے تحت باقاعدہ شہری اور رجسٹرڈ ووٹر ہیں، پاکستان کے آئین و قانون کو پاکستان کی مسلم اکثریت کی طرح تسلیم کرتے ہیں یہ سب معاہد ہیں۔ پاکستان میں موجود دیگر غیر مسلم اقلیتیں تو مسلمان شہریوں کی طرح تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے وقت سے ہی اس مملکت کے شہری تھے اور ہیں۔ اس لیے جدید تناظر میں معاہد کا ترجمہ ہم نے غیر مسلم شہری کیا ہے۔
فيض القدير للمناوی، 4: 153
2. حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيْحَهَا تُوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ اَرْبَعِيْنَ عَامًا.
’’جس نے کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے.‘‘
گویا کسی غیر مسلم کا ناحق قتل کرنے والا جنت کے قریب بھی نہیں جا سکے گا بلکہ اسے جنت سے چالیس برس کی مسافت سے بھی دور رکھا جائے گا.
علامہ انور شاہ کاشمیری فیض الباری میں اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قَوْلُهُ صلی الله عليه وآله وسلم : ’’مَنْ قَتَل مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ‘‘ وَمُخُّ الْحَدِيْثِ: إِنَّکَ أَيُّهَا الْمُخَاطَبُ قَدْ عَلِمْتَ مَا فِيْ قَتْلِ الْمُسْلِمِ مِنَ الْإِثْمِ، فَإِنَّ شَنَاعَتَهُ بَلَغَتْ مَبْلَغَ الْکُفْرِ، حَيْثُ أَوْجَبَ التَّخْلِيْدَ. أَمَّا قَتْلُ مُعَاهَدٍ، فَأَيْضًا لَيْسَ بِهَيِّنٍ، فَإِنَّ قَاتِلَهِ أَيْضًا لَا يَجِدُ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جس نے کسی غیر مسلم شہری کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا.‘‘ اے مخاطب! حدیث کا لبِ لباب تجھے قتلِ مسلم کے گناہ کی سنگینی بتا رہا ہے کہ اس کی قباحت کفر تک پہنچا دیتی ہے جو جہنم میں خلود کا باعث بنتا ہے، جبکہ غیر مسلم شہری کو قتل کرنا بھی کوئی معمولی گناہ نہیں ہے. اسی طرح اس کا قاتل بھی جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا (جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں ڈالا جائے گا).‘‘
انور شاه کشميری، فيض الباری علي صحيح البخاری، 4: 288
اسلام قومی اور بین الاقوامی معاملات میں امن و رواداری کا درس دیتا ہے. قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق بدترین دشمن قوم کا سفارت کار بھی اگر سفارت کاری کے لیے آئے تو اس کا قتل حرام ہے. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کئی مواقع پر غیر مسلموں کے نمائندے آئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ہمیشہ خود بھی حسنِ سلوک فرمایا اور صحابہ کرام ث کو بھی یہی تعلیم دی. حتیٰ کہ نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب کے نمائندے آئے جنہوں نے صریحاً اعترافِ اِرتداد کیا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے سفارت کار ہونے کے باعث ان سے حسنِ سلوک سے پیش آئے.
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إِنِّي کُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم جَالِساً إِذْ دَخَلَ هَذَا (عَبْدُ اﷲِ بْنُ نُوَاحَةَ) وَرَجُلٌ وَافِدَيْنِ مِنْ عِنْدِ مُسَيْلَمَةَ. فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَتَشْهَدَانِ اَنِّي رَسُولُ اﷲِ؟ فَقَالاَ لَهُ: نَشْهَدُ أَنَّ مُسَيْلَمَةَ رَسُولُ اﷲِ، فَقَالَ: آمَنْتُ بِاﷲِ وَرُسُلِهِ، لَوْ کُنْتُ قَاتِلاً وَافِداً لَقَتَلْتُکُمَا.
’’میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب یہ شخص (عبد اللہ بن نواحہ) اور ایک اور آدمی مسیلمہ (کذاب) کی طرف سے سفارت کار بن کر آئے تو انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ انہوں نے (اپنے کفر و ارتداد پر اصرار کرتے ہوئے) کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے (معاذ اﷲ). حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (کمال برداشت اور تحمل کی مثال قائم فرماتے ہوئے ارشاد) فرمایا: میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں. اگر میں سفارت کاروں کو قتل کرنے والا ہوتا تو تم دونوں کو قتل کر دیتا (مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا نہ کیا اور انہیں جان کی سلامتی دی.‘‘
دارمی، السنن، 2: 307، رقم: 2503
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 404، رقم: 3837
نسائی، السنن الکبری، 5: 205، رقم: 8475
أبو يعلي، المسند، 9: 31، رقم: 5097
حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3: 54، رقم: 4378
غور کیجئے کہ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کے اعلانیہ کفر و ارتداد کے باوجود تحمل سے کام لیا گیا، کسی قسم کی سزا نہیں دی گئی، نہ ہی انہیں قید کیا گیا اور نہ ہی انہیں قتل کرنے کا حکم فرمایا گیا. صرف اس لیے کہ وہ سفارت کار (diplomats) تھے. مسند احمد بن حنبل،(1) مصنف عبد الرزاق،(2) اور مسند بزار(3) میں رَسُوْلاً کا لفظ آیا ہے یعنی اکیلا سفارت کار ہو یا سفارتی عملہ ہو، ہر دو صورتوں میں ان کا قتل جائز نہیں ہے.
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 390، 394، رقم: 3708، 3741
عبد الرزاق، المصنف، 10: 194، رقم: 18708
بزار، المسند، 5: 142، رقم: 1733
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مندرجہ بالا ارشاد اور آپ کے عمل مبارک سے یہ امر پایہءِ ثبوت کو پہنچ گیا کہ غیر ملکی نمائندوں اور سفارت کاروں کی جان کی حفاظت کرنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے. حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
فَجَرَتْ سُنَّةٌ اَنْ لَا يُقْتَلَ الرَّسُولُ.
’’(اِس عمل سے) سنت جاری ہوگئی کہ سفارت کار کو قتل نہ کیا جائے.‘‘
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 390، رقم: 3708
گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس جملے نے سفارت کاروں کے احترام کا بین الاقوامی قانون وضع فرما دیا. اس حکم سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ تمام عملہ جو کسی embassy میں سفارت کاری پر تعینات ہو اِسی حسن سلوک کا حق دار ہے اور اس کا قتل بھی از روئے حدیث حرام ہے. گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں غیر ملکی سفارت کاروں اور انجینئرز کے اغوا اور قتل کے متعدد واقعات رُونما ہو چکے ہیں جن کی ذمہ داری دہشت گرد قبول کرتے رہے ہیں. کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تعلیمات سے صریحاً انحراف برتنے کے باوجود خود کو ’’مجاہدینِ اسلام‘‘ سمجھتے ہیں!
جس طرح غیر مسلم سفارت کاروں کے قتل کو حرام قرار دیا گیا ہے اسی طرح غیر مسلموں کے مذہبی رہنماؤں کے قتل کی بھی ممانعت کی گئی ہے. حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے:
کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا بَعَثَ جُيُوشَهُ قَالَ: لَا تَغْدِرُوا وَلَا تَغُلُّوْا وَلَا تُمَثِّلُوْا وَلَا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ وَلَا اَصْحَابَ الصَّوَامِعِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے لشکروں کو روانہ کرتے تو حکم فرماتے: غداری نہ کرنا، دھوکا نہ دینا، نعشوں کی بے حرمتی نہ کرنا اور بچوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنا.‘‘
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 330، رقم: 2728
ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 484، رقم: 33132
أبو يعلي، المسند، 4: 422، رقم: 2549
ابن رشد، بدية المجتهد، 1: 281
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم کے مذہبی رہنماؤں کا قتل عام حالات کے علاوہ دورانِ جنگ بھی جائز نہیں ہے.
اسلام نے کسی بھی شخص (مسلم یا غیر مسلم) کو ناحق قتل کرنے والے قاتل پر قصاص لازم کیا ہے. جبکہ قتل خطاء یعنی غلطی سے قتل ہو جانے کی صورت میں دیت (monetary compensation) کی ادائیگی کو واجب قرار دیا ہے.
1. ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَيوةٌ ياُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo
’’اور تمہارے لیے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے اے عقلمند لوگو! تاکہ تم (خونریزی اور بربادی سے) بچوo‘‘
البقرة، 2: 179
2. قتل خطاء کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَاً فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰی اَهْلِـه اِلَّآ اَنْ يَصَّدَّقُوْا.
’’جس نے کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کر دیا تو (اس پر) ایک مسلمان غلام یا باندی کا آزاد کرنا اور خون بہا (کا ادا کرنا) جو مقتول کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے (لازم ہے) مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں.‘‘
(2) النساء، 4: 92
پہلی آیت مبارکہ میں حکم قصاص یعنی قاتل کو جرمِ قتل کی سزا میں قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے. اس اَمر پر پوری امت کا اجماع ہے کہ قاتل (ناحق قتل کرنے والے) کو قصاص میں قتل کیا جائے سوائے اس کے کہ مقتول کے ورثا قاتل کو معاف کر دیں.
دوسری آیت میں دیت کا ذکر ہے. اگر قتلِ خطا ہو جائے یعنی غیر ارادی طور پر غلطی سے کوئی شخص کسی کو قتل کر دے تو قاتل پر دیت (خون بہا؛ monetary compensation) لازم ہو گی.
1. حضرت عبد الرحمن بن بیلمانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
اَنَّ رَجُـلًا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ، فَرُفِعَ إِلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَنَا أَحَقُّ مَنْ وَفَي بِذِمَّتِهِ، ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ.
’’ایک مسلمان نے اہل کتاب میں سے ایک آدمی کو قتل کر دیا، وہ مقدمہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں. چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (بطورِ قصاص مسلمان قاتل کو قتل کیے جانے کا) حکم دیا اور اُسے قتل کر دیا گیا.‘‘
شافعي، المسند: 343
أبو نعيم، مسند أبي حنيفة: 104
شيباني، المبسوط، 4: 488
بيهقي، السنن الکبري، 8: 30، رقم: 15494
2. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص اور دیت کی یوں وضاحت فرمائی:
مَنْ اُصِيبَ بِقَتْلٍ اَوْ خَبْلٍ، فَإِنَّهُ يَخْتَارُ إِحْدَی ثَـلَاثٍ: إِمَّا اَنْ يَقْتَصَّ، وَإِمَّا اَنْ يَعْفُوَ، وَإِمَّا اَنْ يَاْخُذَ الدِّيَةَ. فَإِنْ اَرَادَ الرَّابِعَةَ فَخُذُوا عَلَی يَدَيْهِ {فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَهُ عَذَابٌ اَلِيْمٌ}.
’’جس کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے یا اس کا کوئی عضو کاٹ دیا جائے تو اسے تین میں سے ایک چیز کا اختیار ہے: چاہے قصاص لے، چاہے معاف کر دے اور چاہے تو دیت وصول کرلے. اگر وہ کسی چوتھی چیز کا ارادہ کرے تو اس کے ہاتھ پکڑ لو {اور جو اس کے بعد بھی زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے}.‘‘
أبو داود، السنن، کتاب الدية، باب الإِمام يامر بالعفو في الدمِ، 4: 149، رقم: 4494
عبد الرزاق، المصنف، 10: 84، رقم: 18454
ان احادیث مبارکہ کے عمومی بیان سے معلوم ہوا کہ اسلام نے مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کو بھی قصاص اور دیت میں مسلمانوں کے برابر حیثیت دی ہے.
ایک روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إِذَا قَتَلَ الْمُسْلِمُ النَّصْرَانِيَّ قُتِلَ بِهِ.
’’اگر کسی مسلمان نے عیسائی کو قتل کیا تو وہ مسلمان قصاصاً قتل کیا جائے گا.‘‘
شيباني، الحجة، 4: 349
شافعي، الام، 7: 320
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیرمسلموں کو دیت (monetary compensation) میں مساوی حقوق دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
دِيةُ الْيَهُوْدِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ وَکُلِّ ذِمِّیٍّ مِثْلُ دِيَةِ الْمُسْلِمِ.
’’یہودی، عیسائی اور ہر غیر مسلم شہری کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر ہے.‘‘
عبد الرزاق، المصنف، 10: 97 98
ابن رشد، بدية المجتهد، 2: 310
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
دِيَةُ الْيَهُوْدِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ وَالْمَجُوْسِيِّ مِثْلُ دِيَةِ الْحُرِّ الْمُسْلِمِ.
’’(پُرامن) یہودی، عیسائی اور مجوسی کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر ہے.‘‘
ابن أبي شيبة، المصنف، 5: 407، رقم: 27448
عبد الرزاق، المصنف، 10: 95، 97، 99
امام ابن شہاب زہری فرماتے ہیں:
إِنَّ دِيَةَ الْمُعَاهَدِ فِيْ عَهْدِ أَبِيْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ مِثْلُ دِيَةِ الْحُرِّ الْمُسْلِمِ.
’’بے شک سیدنا ابوبکر، عمر اور عثمان ث کے اَدوار میں غیر مسلم شہری کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر تھی.‘‘
شيباني، الحجة، 4: 351
شافعي، الام، 7: 321
احناف کا موقف یہ ہے کہ مسلمان کو غیر مسلم شہری کے قتل کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا اور یہ کتاب و سنت کی اُن نصوص کے عموم کی وجہ سے ہے جو قصاص کو واجب کرتی ہیں اور دونوں (مسلمان اور غیر مسلم شہری) کے خون کی دائمی عصمت میں برابر ہونے کی وجہ سے. اس موقف پر امام نخعی، ابن ابی لیلیٰ، شعبی اور عثمان البتی نے بھی احناف کی موافقت اختیار کی ہے.
یہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درج ذیل فرمان اقدس سے ایک اِشکال وارد ہو سکتا ہے:
وَلَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ.
’’اور غیر مسلم کے بدلے مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا.‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب العلم، باب کتابة العلم، 1: 53، رقم: 111
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مطلب کیا ہوا؟ ائمہ کرام نے اِس کی وضاحت یوں کی ہے کہ یہاں غیر مسلم سے مراد پُر امن شہری نہیں بلکہ صرف حربی (جنگجو) غیر مسلم مراد ہے جو میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے مارا جاتا ہے، اس پر کوئی قصاص نہیں ہو گا. یہ قانون دنیا کے تمام ممالک کے قوانینِ جنگ میں یکساں ہے، اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں.
امام جصاص بیان کرتے ہیں:
’’اس حدیث مبارکہ میں غیر مسلم سے مراد صرف حربی غیر مسلم ہے، اسلامی ریاست کی شہریت رکھنے والا غیر مسلم یا غیر اِسلامی ریاست کا پُرامن غیر مسلم مراد نہیں ہے. یہ تطبیق متفقہ ہے.‘‘(2)
جصاص، أحکام القرآن، باب قتل المسلم الکافر: 140-144
قرآن و حدیث کے مطابق ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے. جس نے ظلم کیا حسبِ دستور بدلہ اور سزا کا وہی مستحق ہے، اس کے بدلے میں کوئی دوسرا نہیں. اس کے جرم کی سزا اس کے اہل و عیال، دوستوں یا اس کی قوم کے دیگر افراد کو نہیں دی جا سکتی. ارشادِ ربانی ہے:
وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْهَاج وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ج ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَيُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَo
’’اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا. پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں ان (باتوں کی حقیقت) سے آگاہ فرما دے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھےo‘‘
الأنعام، 4: 144
اسلام اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ پر امن شہریوں کو دوسرے ظالم افراد کے ظلم کے عوض سزا دے. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
لَا يُؤخَذُ مِنْهُمْ رَجُلٌ بِظُلْمٍ آخَرَ.
’’کسی امن پسند غیر مسلم شہری کو دوسرے غیر مسلم افراد کے ظلم کے عوض کوئی سزا نہیں دی جائے گی.‘‘
ابو يوسف، الخراج: 78
بلاذری، فتوح البلدان: 9
لہٰذا ایسے دہشت گرد افراد جو انتقاماً مخالف قوم کے افراد کو قتل کریں، ان کا مال لوٹیں اور ان کی املاک تباہ کریں، وہ صریحاً قرآنی آیات اور ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرنے والے ہیں.
اسلام نے دوسروں کا مال لوٹنا بھی حرام قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo
’’اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالاں کہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)o‘‘
البقرة، 2:188
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی دوسروں کے مال کو لوٹنا حرام قرار دیا ہے.
إِنَّ دِمَاءَ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ.
’’بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں.‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب الخطبة ايام مني، 2: 420، رقم: 1454
غیر مسلم شہریوں کی جانوں کی طرح ان کے اموال کی حفاطت بھی اسلامی ریاست پر لازم ہے. ہر دور میں جمیع مسلمانوں کا اس پر اجماع رہا ہے.
امام ابو عبید قاسم بن سلام، ابن زنجویہ، ابن سعد اور امام ابو یوسف نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاہدے کی یہ شق نقل کی ہے:
ولنجران وحاشيتها جوار اﷲ وذمه محمد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، علي اَموالهم وأنفسهم وأرضهم وملتهم، وغائبهم وشاهدهم، وعشيرتهم وبيعهم، وکل ما تحت يديهم من قليل أو کثير.
’’اللہ اور اﷲ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہلِ نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے ان کے مالوں، ان کی جانوں، ان کی زمینوں، ان کے دین، ان کے غیر موجود و موجود افراد، ان کے خاندان کے افراد، ان کی عبادت گاہوں اور جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہے، تھوڑا یا زیادہ، ہر شے کی حفاظت کے ضامن اور ذمہ دار ہیں.‘‘
أبو يوسف، کتاب الخراج: 78
أبو عبيد قاسم، کتاب الأموال: 244، 245، رقم: 503
ابن سعد، الطبقات الکبري، 1: 288، 358
ابن زنجوية، کتاب الأموال: 449، 450، رقم: 732
بلاذري، فتوح البلدان: 90
حضرت عمرص نے شام کے گورنر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھاتھا اس میں من جملہ دیگر احکام کے یہ بھی درج تھا:
وَامْنَعِ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ ظُلْمِهِمْ وَالْإِضْرَارِ بِهِمْ وَأَکْلِ أَمْوَالِهِمْ إِلَّا بِحِلِّهَا.
’’(تم بحیثیت گورنر شام) مسلمانوں کو ان غیر مسلم شہریوں پر ظلم کرنے، انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کا مال کھانے سے سختی کے ساتھ منع کرو.‘‘
ابو يوسف، کتاب الخراج: 152
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
إنما بذلوا الجزية لتکون دماؤهم کدمائنا واموالهم کاموالنا.
’’غیر مسلم شہری ٹیکس اس لئے ادا کرتے ہیں کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے اَموال کے برابر محفوظ ہو جائیں.‘‘
ابن قدامة، المغنی، 9: 181
زيلعي، نصب الرية، 3: 381
اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے کہ ان کے اموال کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی مسلمانوں کے اموال کی حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا خنزیر کو تلف کر دے تو اس پر بھی جرمانہ لازم آئے گا.
فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’الدر المختار‘‘ میں ہے:
وَيَضْمَنُ الْمُسْلِمُ قِيْمَةَ خَمْرِهِ وَخِنْزِيْرِهِ إِذَا أَتْلَفَهُ.
’’غیر مسلم شہری کی شراب اور اس کے خنزیر کو تلف کرنے کی صورت میں مسلمان اس کی قیمت بطور تاوان ادا کرے گا.‘‘
حصکفی، الدرالمختار، 2: 223
شامی، رد المحتار، 3: 273
غیر مسلم شہری کا مال چرانے والے پر بھی اسلامی حد کا نفاذ ہوگا
اسلام نے مال کی چوری کو حرام قرار دیا ہے اور اس پر نہایت سخت سزا مقرر کی ہے. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قریش کی ایک مخزومی عورت نے چوری کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم فرمایا. لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی سفارش کرنا چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اُس پر بھی حد جاری کی جاتی.
بخاري، الصحيح، کتاب الانبياء، باب حديث الغار، 3: 1282، رقم: 3288
مسلم، الصحيح، کتاب الحدود، باب قطع السارق الشريف وغيره والنهي عن الشفاعة في الحدود، 3: 1315، رقم: 1488
1. امام نووی شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں:
فإن مال الذمی والمعاهد والمرتد فی هذا کمال المسلم.
’’یقینا غیر مسلم شہری، معاہد اور مرتد کا مال بھی اس اعتبار سے مسلمان کے مال ہی کی طرح ہے.‘‘
نووی، شرح صحيح مسلم، 12: 7
2. امام ابن قدامہ حنبلی نے کہا ہے کہ غیر مسلم شہری کا مال چوری کرنے والے پر اُسی طرح حد عائد ہوگی جس طرح مسلمان کا مال چوری کرنے والے پر ہوتی ہے.(1)
ابن قدامة، المغنی، 9: 112
3. علامہ ابن حزم بیان کرتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ غیر مسلم شہری کا مال چوری کرنے پر بھی مسلمان پر حد جاری کی جائے گی.(2)
ابن حزم، المحلی، 10: 351
4. علامہ ابن رشد کہتے ہیں کہ اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم شہری کا مال چرائے تو اس پر حد جاری کی جائے گی.(3)
ابن رشد، بدية المجتهد، 2: 299
مال کے حکمِ حفاظت میں بھی مسلم اور غیر مسلم شہری برابر ہیں. اگر کسی مسلمان نے غیر مسلم شہری کا مال چوری کیا تو اس پر حد نافذ ہوگی اور اگر کسی نے غیر مسلم شہری کا مال غصب کیا تو اس پر تعزیر نافذ ہوگی. اسلام میں غیر مسلم شہریوں کے اَموال کی حفاظت کا اس قدر لحاظ رکھا گیا ہے کہ غیر مسلم شہریوں کی ہر اس چیز کی حفاظت کی جائے گی جسے وہ مال میں شمار کرتے ہوں اگرچہ مسلمانوں کے نزدیک وہ مال کے زمرے میں نہ آتی ہو. جیسا کہ شراب اور خنزیر مسلمانوں کے لیے قابلِ حیثیت مال نہیں. لہٰذا اگر کوئی شخص مسلمان کی شراب ضائع کر دے تو اس پر کوئی سزا اور تعزیر نہیں ہے. اس کے برعکس اگر کسی مسلمان نے غیر مسلم کی شراب اور خنزیر کو نقصان پہنچایا تو اس سے ان کی قیمت تاوان کے طور پر لی جائے گی کیونکہ یہ دونوں چیزیں اس غیر مسلم کے نزدیک مال متصور ہوتی ہیں.
اسلام میں جیسے مسلمان کی عزت و آبرو کی حرمت کو پامال کرنا حرام ہے ویسے ہی غیر مسلم شہری کی عزت کو پامال کرنا بھی جائز نہیں ہے. کسی مسلمان کو اجازت نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو گالی گلوچ کرے، اس پر تہمت لگائے، اس کی طرف جھوٹی بات منسوب کرے یا اس کی غیبت کرے. اسلام کسی مسلمان کو اس امر کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کے ایسے عیب کا تذکرہ کرے جس کا تعلق اس کی ذات، اس کے حسب و نسب یا اس کے جسمانی و اخلاقی عیب سے ہو.
ایک دفعہ گورنرِ مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی. خلیفہ وقت امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت کی گئی تو اُنہوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی وہ تاریخی جملہ ادا فرمایا جو بعض محققین کے نزدیک انقلابِ فرانس کی جد و جہد میں روحِ رواں بنا. آپ نے گورنر مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے فرمایا:
مَتَی اسْتَعْبَدْتُمُ النَّاسَ وَقَدْ وَلَدَتْهُمْ أُمَّهَاتُهُمْ أَحْرَارًا؟
’’تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا؟‘‘
هندی، کنز العمال، 2: 455
غیر مسلم شہری کو زبان یا ہاتھ پاؤں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز اور حرام ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز اور حرام ہے. ’’الدر المختار‘‘ میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ:
وَيَجِبُ کَفُّ الْاَذَی عَنْهُ وَتَحْرُمُ غِيبَتُهُ کَالْمُسْلِمِ.
’’غیر مسلم کو اذیت سے محفوظ رکھنا واجب ہے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی غیبت کرنا.‘‘
حصکفی، الدر المختار، 2: 223
ابن عابدين شامي، رد المحتار، 3: 273، 274
غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے بارے میں مالکی فقیہ امام شہاب الدین القرافی اپنی کتاب ’’الفروق‘‘ میں کہتے ہیں:
إن عقد الذمة يوجب لهم حقوقا علينا، لأنهم في جوارنا وفي خفارتنا (حميتنا) وذمتنا وذمة اﷲ تعالي، وذمة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، ودين الإسلام، فمن اعتدي عليهم ولو بکلمة سوء أو غيبة، فقد ضيع ذمة اﷲ، وذمة رسوله صلي الله عليه وآله وسلم ، وذمة دين الإسلام.
’’غیر مسلم شہری کا معاہدہ ہم پر ان کے حقوق ثابت کرتا ہے کیونکہ وہ ہمارے پڑوس میں، ہماری حفاظت میں، ہمارے ذمہ میں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دینِ اسلام کی امان میں رہتے ہیں. پس جس نے ان پر زیادتی کی، چاہے بری بات سے ہو یا غیبت کے ذریعے ہی کی ہو، تو اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین اسلام کی ضمانت کو ضائع کیا (یعنی حق اور فرض ادا نہ کیا اور گناہ کا مرتکب ہوا).‘‘
قرافی، الفروق، 3: 14
علامہ ابن عابدین شامی غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے بارے میں لکھتے ہیں:
لأنه بعقد الذمة وجب له ما لنا، فإذا حرمت غيبة المسلم حرمت غيبته، بل قالوا: إن ظلم الذمي اشد.
’’عقدِ ذمہ کی وجہ سے غیر مسلم کے وہی حقوق لازم ہیں جو ہمارے ہیں. جب مسلمان کی غیبت حرام ہے تو اس کی غیبت بھی حرام ہے بلکہ علماء نے کہا کہ غیر مسلم اقلیت پر ظلم کرنا مسلمان کے مقابلے میں بڑا سخت گناہ ہے.‘‘
ابن عابدين شامي، رد المحتار، 3: 273، 274
امام کاسانی نے اپنی کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘ میں مسلموں اور غیر مسلموں کے حقوق کو مساوی قرار دیا ہے:
لهم ما لنا وعليهم ما علينا.
’’غیر مسلم شہریوں کو وہی حقوق حاصل ہیں جو ہمیں (مسلمانوں کو) حاصل ہیں اور ان کی وہی ذمہ داریاں ہیں جو ہماری ہیں.‘‘
کاسانی، بدائع الصنائع، 7: 111
درج بالا آثار و اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم شہریوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے.
حضور سرورِ کائنا ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے. اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلم شہریوں کو ظلم و زیادتی سے تحفظ کی ضمانت دے. اگر اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم شہری پر ظلم ہو اور ریاست اسے انصاف نہ دلا سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت کے روز ایسے مظلوم لوگوں کا وکیل بن کر انہیں ان کا حق دلوانے کا اعلان فرمایا ہے.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا، اَوِ انْتَقَصَهُ، اَوْ کَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ، اَوْ اَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيْبِ نَفْسٍ، فَاَنَا حَجِيْجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
’’خبر دار! جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا یا اُس کا حق مارا یا اس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اُس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اُس سے چھین لی تو قیامت کے دن میں اُس کی طرف سے جھگڑا کروں گا.‘‘
ابو داود، السنن، کتاب الخراج والفي والإمارة، باب في تعشير اهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات، 3: 170، رقم: 3052
بيهقي، السنن الکبري، 9: 205، رقم: 18511
منذري، الترغيب والترهيب، 4: 7، رقم: 4558
عجلوني نے ’’کشف الخفاء (2: 342)‘‘ میں کہا ہے کہ اِس حدیث کی سند حسن.
فرمانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان معاشرہ غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن بن جائے اور اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ہرگز تساہل نہ کرے.
اسلامی قوانین کے مطابق ریاست کے فرائض میں سے ہے کہ وہ تمام غیر مسلم شہریوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرے. کوئی بھی فرد خواہ کسی قوم، مذہب یا ریاست سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ کسی غیر مسلم شہری پر جارحیت کرے اور اس پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلاامتیازِ مذہب اپنے شہری کو تحفظ فراہم کرے، چاہے اس سلسلے میں اسے جارحیت کرنے والے سے جنگ کرنی پڑے.
ارشاد ربانی ہے:
وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍ م بَئِيْسٍ م بِمَا کَانُوْا يَفْسُقُوْنَo
’’اور ہم نے (بقیہ سب) لوگوں کو جو (عملاً یا سکوتاً) ظلم کرتے تھے نہایت برے عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کر رہے تھےo‘‘
الأعراف، 7: 145
قرآن مجید دوسروں پر ظلم کرنے پر سخت عذاب کی وعید سناتا ہے جبکہ حرام کا ارتکاب کرنے پر سخت ترین عذاب کی وعید سناتا ہے. پس دوسروں پر ظلم حرام ہے اگرچہ وہ اہل ذمہ یا ان کے علاوہ دوسرے لوگ ہی کیوں نہ ہوں.
غیر مسلم شہریوں کی اندرونی ظلم و زیادتی سے حفاظت کو بھی اسلام بڑی تاکید کے ساتھ لازم اور واجب قرار دیتا ہے. اسلام کسی مسلمان کے ہاتھوں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ کسی قسم کی ظلم و زیادتی کو ہرگز برداشت نہیں کرتا خواہ اس ظلم و اذیت کا تعلق ہاتھ سے ہو یا زبان سے.
ظلم کی قباحت و حرمت پر اور دنیا و آخرت میں اس کے دردناک انجام پر کثرت کے ساتھ آیات اور احادیث موجود ہیں، خاص طور پر غیر مسلم شہریوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ممانعت پر تو خصوصی ارشادات گرامی وارد ہوئے ہیں.
سنن ابی داؤد میں مروی ایک حدیثِ مبارکہ پہلے بیان کی جا چکی ہے، جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزِ قیامت مظلوم کی طرف سے وکیل ہونے کا علان فرمایا ہے. اسی مضمون کی ایک اور حدیث حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ آذی ذِمِّيا فَأَنَا خَصْمه، وَمَنْ کُنْتُ خَصْمهُ خَصَمْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَة.
’’جس نے کسی غیر مسلم شہری کو تکلیف پہنچائی تو میں اس کا وکیل ہوں گا اور جس کا میں فریق ہوں گا تو قیامت کے دن اس پر غالب آجاؤں گا.‘‘
عيني، عمدة القاري، 15: 89
خطيب بغدادي ’’تاريخ بغداد (8: 370)‘‘
میں اسناد حسن کے ساتھ روایت کیا
غیر مسلم شہریوں کو بیرونی جارحیت سے بچانے کے حوالے سے حکومتِ وقت پر وہ سب کچھ واجب ہے جو مسلمانوں کے لئے اس پر لازم ہے. چونکہ حکومت کے پاس قانونی و سیاسی طور پر غلبہ و اقتدار بھی ہوتا ہے اور عسکری و فوجی قوت بھی، اس لئے اس پر لازم ہے کہ وہ ان کی مکمل حفاظت کا اہتمام کرے.
1. امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إنما بذلوا الجزية لتکون دماؤهم کدمائنا واموالهم کاموالنا.
’’بے شک یہ غیر مسلم شہری اس لئے ٹیکس دیتے ہیںکہ ان کے مال ہمارے مال کی طرح اور ان کے خون ہمارے خون کی طرح محفوظ ہو جائیں.‘‘
ابن قدامم، المغنی، 9: 181
زيلعي، نصب الريم، 3: 381
2. حنابلہ کی کتب میں سے ایک کتاب ’’مطالب اولی النہی‘‘ میں ہے:
’’حکومت کا فرض ہے کہ وہ غیر مسلم شہریوں کو مسلم ریاست میں رہنے کی وجہ سے ہر قسم کی اذیت و تکلیف سے مکمل تحفظ فراہم کرے.‘‘(2)
مصطفی بن سعد، مطالب أولی النهی، 2: 402، 403
3. اگر اسلامی ریاست میں موجود غیر مسلم شہریوں پر کوئی باہر سے حملہ آور ہو اور انہیں پکڑنے، مارنے یا اذیت دینے کی کوشش کرے تو اس صورت میں اسلامی ریاست پر لازم ہے کہ ان کا تحفظ کرے. امام قرافی المالکی اپنی کتاب ’’الفروق‘‘ میں علامہ ابن حزم کا قول نقل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب ’’مراتب الاجماع‘‘ میں بیان کیا ہے کہ:
وجب علينا أن نخرج لقتالهم بالکراع والسلاح، ونموت دون ذلک.
ُُ’’ہماری اسلامی ریاست پر لازم ہے کہ وہ اسلحہ اور لشکر کے ساتھ غیر مسلم شہریوں کی حفاظت کے لیے جنگ کرے خواہ حملہ آوروں کے ساتھ لڑتے لڑتے اس کے کئی سپاہی جان ہی کیوں نہ دے بیٹھیں.‘‘
قرافی، الفروق، 3: 14، 15
علامہ ابن تیمیہ کا موقف بھی یہی ہے. جب تاتاریوں نے ملک شام پر قبضہ کر لیا تو علامہ ابن تیمیہ قیدیوں کی رہائی کے لئے ’’قطلوشاہ‘‘ کے پاس گئے. تاتاری قیادت نے مسلمان قیدیوں کو رہا کرنے پر تو آمادگی ظاہر کی مگر غیر مسلم شہریوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا. چنانچہ علامہ ابن تیمیہ نے کہا: ہم اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ یہود و نصاریٰ میں سے بھی تمام قیدی آزاد نہ کیے جائیں. وہ ہمارے ہی غیر مسلم شہری ہیں اور ہم کسی بھی قیدی کو قید کی حالت میں نہیں چھوڑیں گے خواہ وہ غیر مسلم آبادی سے تعلق رکھتا ہو یا مسلم آبادی سے. جب اس نے اپنے موقف پر ان کا اصرار اور شدت دیکھی تو ان کی خاطر تمام مسلم و غیر مسلم قیدیوں کو آزاد کر دیا.
ابن تيمية، مجموع الفتاویٰ، 28:417، 418
آیاتِ قرآنی، اَحادیثِ مقدّسہ اور فقہاے اُمت کے اَقوال کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی غیر مسلم شہری کو محض اس کے غیر مسلم ہونے کی بنا پر قتل کر دے یا اس کا مال لوٹے یا اس کی عزت پامال کرے. اسلام غیر مسلم شہریوں کو نہ صرف ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے بلکہ ان کی عبادت گاہوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved