1۔ قاضی عیاض اپنی کتاب ’الشفا‘ میں فرماتے ہیں:
قَدِ اسْتَبَانَ لَكَ مِمَّا قَرَّرْنَاهُ، مَا هُوَ الْحَقُّ مِنْ عِصْمَتِهِ ﷺ عَنِ الْجَهْلِ بِاللهِ، وَصِفَاتِهِ، أَوْ كَوْنِهِ عَلَى حَالَةٍ تُنَافِي الْعِلْمَ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ جُمْلَةً، بَعْدَ النُّبُوَّةِ عَقْلًا وإِجْمَاعًا، وَقَبْلَهَا سَمْعًا وَنَقْلًا، وَلَا بِشَيْءٍ مِمَّا قَرَّرْنَاهُ مِنْ أُمُورِ الشَّرْعِ، وَأَدَّاهُ عَنْ رَبِّهِ مِنَ الْوَحْيِ قَطْعًا وَعَقْلًا وَشَرْعًا، وَعِصْمَتِهِ عَنِ الْكَذِبِ، وَخُلْفِ الْقَوْلِ مُنْذُ نَبَّأَهُ اللهُ، وَأَرْسَلَهُ، قَصْدًا أَوْ غَيْرَ قَصْدٍ، وَاسْتِحَالَةِ ذَلِكَ عَلَيْهِ شَرْعًا وَإِجْمَاعًا، وَنَظَرًا وَبُرْهَانًا، وَتَنْزِيهِهِ عَنْهُ قَبْلَ النُّبُوَّةِ قَطْعًا، وَتَنْزِيهِهِ عَنِ الْكَبَائِرِ إِجْمَاعًا، وَعَنِ الصَّغَائِرِ تَحْقِيقًا، وَعَنِ اسْتِدَامَةِ السَّهْوِ وَالْغَفْلَةِ فِيمَا شَرَعَهُ لِلْأُمَّةِ، وَعِصْمَتِهِ فِي كُلِّ حَالَاتِهِ، مِنْ رِضًا وَغَضَبٍ، وَجَدٍّ وَمَزْحٍ.
فَيَجِبُ عَلَيْكَ أَنْ تَتَلَقَّاهُ بِالْيَمِينِ، وَتَشُدَّ عَلَيْهِ يَدَ الضَّنِينِ، وَتُقَدِّرَ هَذِهِ الْفُصُوْلَ حَقَّ قَدْرِهَا، وَتَعْلَمَ عَظِيمَ فَائِدَتِهَا وَخَطَرِهَا، فَإِنَّ مَنْ يَجْهَلُ مَا يَجِبُ لِلنَّبِيِّ ﷺ ، أَوْ يَجُوزُ لَهُ، أَوْ يَسْتَحِيلُ عَلَيْهِ، وَلَا يَعْرِفُ صُوَرَ أَحْكَامِهِ، لَا يَأْمَنُ أَنْ يَعْتَقِدَ فِي بَعْضِهَا خِلَافَ مَا هِيَ عَلَيْهِ، وَلَا يُنَزِّهُهُ عَمّا لَا يَجِبُ أَنْ يُضَافَ إِلَيْهِ، فَيَهْلِكَ مِنْ حَيْثُ لَا يَدْرِي، وَيَسْقُطَ فِي هُوَّةِ الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ، إِذْ ظَنَّ الْبَاطِلَ بِهِ، وَاعْتِقَادَ مَا لَا يَجُوزُ عَلَيْهِ، يُحِلُّ بِصَاحِبِهِ دَارَ الْبَوَارِ.
القاضي عياض في الشفا بتعريف حقوق المصطفى ﷺ، 2: 172-173
رسول اللہ ﷺ اس امر سے کلیتاً معصوم ہیں کہ آپ ﷺ ذات و صفات باری تعالیٰ سے بے خبر ہوں، یا آپ ﷺ کسی ایسی حالت پر ہوں جو کسی نہج سے علم کے منافی ہو، ان باتوں سےآپ ﷺ کا پاک ہونا نبوت کے بعد عقل اور اجماع کے دلائل سے اور نبوت سے پہلے نقل اور سماع کے دلائل سے ثابت ہے، اسی طرح ان اُمور شرعیہ میں سے جن کو ہم نے ذکر کیا بواسطہ وحی جسے آپ ﷺ نے اپنے رب تعالیٰ کی طرف سے پہنچایا اس حوالے سے آپ ﷺ کا کسی ایسی حالت پر فائز ہونا جو علم کے منافی ہو، عقلی اور شرعی دلائل سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔ آپ ﷺ کذب اور خلاف گوئی سے بھی وقتِ اِعطاء نبوت و رسالت قصداً و بلا قصد ہر طرح سے معصوم تھے، بالاتفاق آپ ﷺ سے اس امر کا صادر ہونا شرعاً، اجماعاً، عقلاً اور برہاناً ہر طرح سے محال تھا، آپ ﷺ کا ما قبل نبوت اس سے منزہ ہونا قطعی طور پر ثابت ہے،کبائر سے پاک ہونا بطورِ اجماع اور صغائر سے منزہ ہونا بطورِ تحقیق ثابت ہے۔آپ ﷺ نے جن اُمور کو اُمت کے لیے مشروع فرمایا، آپ ﷺ ان اُمور کے بارے میں دائمی غفلت اور استمرارِ نسیان سے معصوم ہیں۔ آپ ﷺ ہر حالتِ خوشی و غضب اور مسرت و مزاح میں بھی معصوم عن الخطاء ہیں۔
اب ہمارے لیے لازم ہے کہ آپ ﷺ کے اقوال و افعال کو پوری قوت سے لازم پکڑیں، ان پر کامل مضبوطی سے عمل پیرا ہوں، جیسا کہ کوئی بخیل کسی شے کو پکڑتا ہے، چاہیے کہ ان قصوں کی بڑی قدر کریں، ان کے فوائدِ عظیمہ سے علم حاصل كریں اور جو ان کی لاعلمی سے خطرات و نقصانات ہیں ان سے بے خبر نہ رہیں، کیونکہ جو شخص حضور نبی اکرم ﷺ کے حقوقِ واجبہ یا وہ اُمور جو جائزہیں، یا وہ جو آپ ﷺ پر محال ہیں، ان سے غافل و جاہل ہے وہ آپ ﷺ کے احکام کی معرفت کر ہی نہیں سکتا، وہ شخص خلاف واقع اُمور کے اعتقاد سے محفوظ رہ ہی نہیں سکتا، نہ ہی وہ آپ ﷺ کو ان اُمور سے معصوم جان سکتا ہے جن کا آپ ﷺ کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسا شخص ہلاک ہو جاتا ہے، حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ کس طرف سے ہلاکت واقع ہوئی ہے، وہ جہنم کے نچلے تاریک گڑھے میں جا پڑتا ہے، کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے حق میں باطل کا گمان کرنا، آپ ﷺ کے بارے میں اس شے کا گمان کرنا جوآپ ﷺ کے حوالے سے جائز نہیں ہے، ایسا اعتقاد رکھنے والا دَارَ الْبَوَارْ (ہلاکت کے گڑھے) كا مستحق ہو جاتا ہے۔
2۔ قاضی عیاض مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَقَدْ كَتَبَ اللهُ تَعَالَى عَلَى أَهْلِ هَذِهِ الدَّارِ: ﴿فِیْهَا تَحْیَوْنَ وَ فِیْهَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُوْنَ۠﴾ (الأعراف، 7: 25). وَخَلَقَ جَمِيعَ الْبَشَرِ بِمَدْرَجَةِ الْغِيَرِ، فَقَدْ مَرِضَ ﷺ ، وَاشْتَكَى، وَأَصَابَهُ الْحَرُّ وَالْقَرُّ، وَأَدْرَكَهُ الْجُوعُ وَالْعَطَشُ، وَلَحِقَهُ الْغَضَبُ وَالضَّجَرُ، وَنَالَهُ الْإِعْيَاءُ وَالتَّعَبُ، وَمَسَّهُ الضَّعْفُ وَالْكِبَرُ، وَسَقَطَ فَجُحِشَ شِقُّهُ، وَشَجَّهُ الْكُفَّارُ، وَكَسَرُوا رُبَاعِيَّتَهُ، وَسُقِيَ السُّمُّ، وَسُحِرَ، وَتَدَاوَى، وَاحْتَجَمَ، وَتَنَشَّرَ وَتَعَوَّذَ، ثُمَّ قَضَى نَحْبَهُ، فَتُوُفِّيَ ﷺ ، وَلَحِقَ بِالرَّفِيقِ الْأَعْلَى، وَتَخَلَّصَ مِنْ دَارِ الْاِمْتِحَانِ وَالْبَلْوَى، وَهَذِهِ سِمَاتُ الْبَشَرِ الَّتِي لَا مَحِيصَ عَنْهَا، وَأَصَابَ غَيْرَهُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ مَا هُوَ أَعْظَمُ مِنْهُ، فَقُتِّلُوْا قَتْلًا.
وَهَكَذَا سَائِرُ أَنْبِيَائِهِ مُبْتَلًى وَمُعَافًى، وَذَلِكَ مِنْ تَمَامِ حِكْمَتِهِ، لِيُظْهِرَ شَرَفَهُمْ فِي هَذِهِ الْمَقَامَاتِ، وَيُبَيِّنُ أَمْرَهُمْ، وَيُتِمُّ كَلِمَتَهُ فِيهِمْ، وَلِيُحَقِّقَ بِامْتِحَانِهِمْ بَشَرِيَّتَهُمْ، وَيَرْتَفِعَ الْاِلْتِبَاسُ عَنْ أَهْلِ الضَّعْفِ فِيهِمْ، لِئَلَّا يَضِلُّوْا بِمَا يَظْهَرُ مِنَ الْعَجَائِبِ عَلَى أَيْدِيهِمْ ضَلَالَ النَّصَارَى بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَلِيَكُونَ فِي مِحَنِهِمْ تَسْلِيَةٌ لِأُمَمِهِمْ، وَوُفُوْرٌ لِأُجُورِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ إِلَيْهِمْ.
القاضي عياض في الشفا بتعريف حقوق المصطفى ﷺ، 2: 178-179
یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے رہنے والوں کے لیے ہی فرمایا ہے: ﴿فِيهَا تَحۡيَوۡنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنۡهَا تُخۡرَجُونَ﴾ ’تم اسی (زمین) میں زندگی گزارو گے اور اسی میں مَرو گے اور (قیامت کے روز) اسی میں سے نکالے جاؤ گے‘۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو تغیر پذیر بنایا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ بیمار بھی ہوئے، گرمی سردی بھی لگی، بھوک و پیاس بھی محسوس ہوئی، غصہ و رنج بھی لاحق ہوا، تھکان و تکلیف بھی پہنچی، ضعف و کبرِ سنی بھی آئی، آپ ﷺ گھوڑے سے بھی گرے، جس سے آپ ﷺ کا ایک پہلو زخمی ہوا، کفار نے مجروح کیا، سامنے کے چار دندان مبارک بھی شہید ہوئے، زہر بھی پلایا گیا، جادو بھی کیا گیا، علاج بھی کیا، پچھنے بھی لگوائے، دَم اور تعویذ وغیرہ بھی ہوا، پھر آپ ﷺ پر آخری وقت بھی آیا، اپنی ظاہری مدتِ حیات پوری فرما کر آپ ﷺ رفیقِ اعلیٰ سے بھی ملے، اور اس آزمائش وامتحان کی دنیا سے خلاصی پائی۔ یہ سب وہ بشری کیفیات اور علامتیں ہیں جن سے خلاصی نہیں ہو سکتی، آپ ﷺ کے سوا دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو اس سےبڑھ کر تکلیفیں پہنچیں، اور انہیں بے دردی سے قتل بھی کیا گیا۔
اسی طرح تمام انبیاء کرام علیہم السلام مبتلاء آلام کیے گئے اور اُنہیں بچایا بھی گیا، یہ اسی کی حکمت تامہ کی وجہ سے ہے تاکہ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ ان کی بزرگی اور شرافت ظاہر فرمائے، ان کے امر کو واضح فرمائے، ان انبیاء علیہم السلام کے بارے میں وہ اپنا وعدہ پورا فرمائے، یوں ان امتحانات سے ان کی بشریت متحقق اور ثابت ہو جائے، کمزور دلوں کے شبہات جو ان کے بارے میں ہوں جاتے رہیں، تاکہ ان کے ہاتھوں پر جو عجائبات ظاہر ہوتے ہیں، ان کی وجہ سے (خدا مان کر) گمراہی میں نہ پڑ جائیں، جس طرح حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی وجہ سے نصاریٰ گمراہ ہوئے، اُن کے مشقت اُٹھانے سے اُن کی اُمت کے لیے تسلی ہو، اور اُن کے رب تعالیٰ کے حضور اُن کا اجرِ عظیم ہو، جس نے اُن پر احسان فرمایا۔
3۔ اس کے بعد قاضی عیاض فرماتے ہیں:
قَالَ بَعْضُ الْمُحَقِّقِينَ: وَهَذِهِ الطَّوَارِئُ وَالتَّغَيُّرَاتُ الْمَذْكُوْرَةُ، إِنَّمَا تَخْتَصُّ بِأَجْسَامِهِمُ الْبَشَرِيَّةِ، الْمَقْصُودِ بِهَا مُقَاوَمَةُ الْبَشَرِ، وَمُعَانَاةُ بَنِي آدَمَ لِمُشَاكَلَةِ الْجِنْسِ. وَأَمَّا بَوَاطِنُهُمْ فَمُنَزَّهَةٌ غَالِبًا عَنْ ذَلِكَ، مَعْصُوْمَةٌ مِنْهُ، مُتَعَلِّقَةٌ بِالْمَلَأِ الْأَعْلَى وَالْمَلَائِكَةِ لِأَخْذِهَا عَنْهُمْ، وَتَلَقِّيْهَا الْوَحْيَ مِنْهُمْ. قَالَ: وَقَدْ قَالَ ﷺ : إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي. كَمَا رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. وَقَالَ ﷺ : إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ، إِنِّي أَبِيتُ، يُطْعِمُنِي رَبِّي، وَيَسْقِينِي، كَمَا رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. وَقَالَ: لَسْتُ أَنْسَى، وَلَكِنْ أُنْسَى، لِيُسْتَنَّ بِي، كَمَا رَوَاهُ الْإِمَامُ مَالِكٌ فِي الْمُوَطَّأِ. فَأَخْبَرَ أَنَّ سِرَّهُ وَبَاطِنَهُ، وَرُوحَهُ بِخِلَافِ جِسْمِهِ وَظَاهِرِهِ، وَأَنَّ الْآفَاتِ الَّتِي تَحِلُّ ظَاهِرَهُ مِنْ ضَعْفٍ وَجُوعٍ وَسَهَرٍ وَنَوْمٍ، لَا يَحِلُّ مِنْهَا شَيْءٌ بَاطِنَهُ، بِخِلَافِ غَيْرِهِ مِنَ الْبَشَرِ فِي حُكْمِ الْبَاطِنِ، لِأَنَّ غَيْرَهُ إِذَا نَامَ اسْتَغْرَقَ النَّوْمُ جِسْمَهُ وَقَلْبَهُ، وَهُوَ ﷺ فِي نَوْمِهِ حَاضِرُ الْقَلْبِ، كَمَا هُوَ فِي يَقَظَتِهِ، حَتَّى قَدْ جَاءَ فِي بَعْضِ الْآثَارِ، أَنَّهُ كَانَ مَحْرُوسًا مِنَ الْحَدَثِ فِي نَوْمِهِ، وَكَانَ يُصَلِّي إِذَا اسْتَيْقَظَ مِنَ النَّوْمِ كَانَ لَا يَحْتَاجُ إِلَى تَجْدِيدِ الْوُضُوءِ بِسَبَبِ النَّوْمِ، لِكَوْنِ قَلْبِهِ يَقْظَانَ كَمَا ذَكَرْنَاهُ، وَكَذَلِكَ غَيْرُهُ إِذَا جَاعَ ضَعُفَ لِذَلِكَ جِسْمُهُ، وَخَارَتْ قُوَّتُهُ، فَبَطَلَتْ بِالْكُلِّيَّةِ جُمْلَتُهُ، وَهُوَ ﷺ قَدْ أَخْبَرَ أَنَّهُ لَا يَعْتَرِيهِ ذَلِكَ، لِقَوْلِهِ: لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي، وَيَسْقِينِي،. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
أخرجه البخاري في الصّحيح، كتاب الكسوف، أبواب التّهجد، باب قيام النبي ﷺ باللیل فی رمضان وغیره، 1: 385، الرقم: 1096
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الصّوم، باب الوصال، 2: 693، الرقم: 1863
أنظر: الموطأ لمالك، كتاب السّهو، باب العمل في السهو، 1: 100، الرقم: 225
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الصوم، باب الوصال، 2: 693، الرقم: 1863
بعض محققین نے کہا ہے: یہ مذکورہ تفسیرات انبیاءِ کرام علیہم السلام کے اَجسامِ بشریہ کے ساتھ مختص ہیں، جن سے بشرکے ساتھ برابری اور بنی آدم کے ہم شکل ہونے پر قیاس کرنا مطلوب و مقصود ہے۔ رہ گئے اُن کے بواطن تو وہ ان تمام چیزوں سے منزَّہ اور معصوم ہیں، وہ ملاء اعلیٰ اور ملائکہ کے ساتھ تعلق میں ہیں، اُن سے وحی حاصل کرتے ہیں،اسی لیے آپ ﷺ نےفرمایا: ’’بے شک میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا‘‘۔ نیز امام بخاری نے روایت کیا ہے: رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’میں تمہارے جیسا نہیں ہوں، میں اللہ کے ہاں رات گزارتا ہوں، میرا رب مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے‘‘۔ نیز امام بخاری نے یہ بھی روایت کیا ہے، رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایاہے: ’’میں بُھولتا نہیں ہوں بلکہ بُھلایا جاتا ہوں تاکہ سنت قائم ہو‘‘۔ جیسا کہ امام مالک نے ’’الموطا‘‘ میں روایت کیا ہے۔ آپ ﷺ کا سِرّ، باطن اور روح آپ ﷺ کے جسم مبارک اور ظاہر سے مختلف چیز ہے، جوآفات آپ ﷺ کے ظاہرکو لاحق ہوتی ہیں مثلاً: کمزوری، بھوک، جاگنا اور سونا وغیرہ ان میں سے کوئی چیز دیگر انسانوں کی طرح آپ ﷺ کے باطن کو متاثر نہیں کرتی، کیونکہ جب کوئی دوسرا انسان سوتا ہے تو نیند اس کے جسم و قلب پر بھی طاری ہوتی ہے، جب کہ نبی مکرم ﷺ حالتِ نیند میں بھی حالتِ بیداری کی طرح حاضر القلب ہوتے تھے، حتی کہ بعض روایات میں آیا ہے، آپ ﷺ کی نیند ناقضِ وضو نہ تھی، آپ ﷺ نیند سے بیداری کی صورت میں تجدیدِ وضو کے بغیر ہی نماز پڑھ لیتے تھے، کیونکہ حالتِ نیند میں آپ ﷺ کا قلبِ انور بیدار رہتا تھا، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ اسی طرح کوئی دوسرا آدمی جب بھوکا ہوتا ہے تو اس کا جسم بھوک سے کمزور اور قوت میں کمی سے دوچار ہوکر بالآخر کلیۃً ختم ہو جاتا ہے، جب کہ آپ ﷺ کو کھائے بغیر بھی اس طرح کی کوئی کیفیت لاحق نہیں ہوتی تھی۔ کیوں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میں (رب کے ہاں) رات گزارتا ہوں، میرا رب مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے‘‘۔ اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
آخر میں اِس موضوع کو سمیٹتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَكَذَلِكَ أَقُولُ: إِنَّهُ فِي هَذِهِ الْأَحْوَالِ كُلِّهَا مِنْ وَصَبٍ وَمَرَضٍ، وَسِحْرٍ وَغَضَبٍ، لَمْ يَجُزْ عَلَى بَاطِنِهِ مَا يَحِلُّ بِهِ، وَلَا فَاضَ مِنْهُ عَلَى لِسَانِهِ وَجَوَارِحِهِ مَا لَا يَلِيقُ بِهِ، كَمَا يَعْتَرِي غَيْرَهُ مِنَ الْبَشَرِ.
ذكره القاضي عياض في الشفاء، 2: 173-180
اسی طرح میں (قاضی عیاض) کہتا ہوں: تمام احوالِ درد و مرض اور سحر و غضب آپ ﷺ کے باطن کو متاثر کر سکتے تھے نہ آپ ﷺ کی زبان و جوارح پر اس طرح اثر انداز ہو سکتے تھے، جو آپ ﷺ کی شان کے لائق نہ ہو، جس طرح دیگر انسانوں پر ہوتے ہیں۔
Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved