سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق سے لے کر حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ بعثت تک ہر عہد میں آپ ﷺ کی بعثت و نبوت کا چرچا ہوتا رہا،تاآنکہ ولادت کے وقت ارہاصات (وہ خلافِ معمول واقعات یا عجائبات جن کا ظہور کسی نبی یا رسول کی ولادت باسعادت کےوقت یا پیدائشِ مبارکہ سے پہلے ہوتا ہے) کی صورت میں ابتدائی کرنیں پھوٹنے لگیں، جیسے رات کی تاریکی کے بعد سب سے پہلے صبح صادق ہوتی ہے، پھر سورج کے طلوع سے پہلے کرنیں پھوٹتی ہیں، پھرسورج طلوع ہوتا ہے،پھر اشراق ہوتا ہے،اسی طرح جب آپ ﷺ کی ولادت کا زمانہ آیا تو صبحِ صادق کی طرح نورِ نبوت کی کرنیں پھوٹنے لگیں اور پھر وہ کرنیں اور شعاعیں چالیس برس تک اور زیادہ ظاہر اور جلی ہوتی گئیں،بالآخر جب بعثت ہوئی تو گویا وہ نورِ نبوت طلوع ہو گیا، آپ ﷺ کی بعثت کے تین سال کے بعد جب دعوتِ عام کا حکم ہوا تو گویا آپ ﷺ کی نبوت کے اشراق (یعنی اِظہار) کا وقت شروع ہوا۔ یہ امر تو ہم واضح کر چکے ہیں کہ شرفِ نبوت کو حضور نبی اکرم ﷺ کی خلقت کے ساتھ ہی متعلق کیا گیا تھا اور ظہورِ بشریت سے پہلے عالمِ اَرواح میں میثاق انبیاء علیہم السلام کے ذریعے اس کی توثیق فرمائی گئی تھی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ﴾ (آل عمران، 3: 81)
اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( ﷺ ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔
بعد ازاں حضور نبی اکرم ﷺ کی مقدس روح آپ ﷺ کے جسدِ اقدس میں عصمتِ کاملہ کے ساتھ اِس زمین پر جلوہ گر ہوئی۔ آپ ﷺ نے قبل اَز بعثت جو چالیس برس گزارے، اس عرصے میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو عصمتِ کاملہ کی شان عطا فرمائی تھی، یعنی بعد اَز بعثت آپ ﷺ کی ذاتِ اَقدس جن عیوب و نقائص سے منزہ تھی، قبل اَز بعثت بھی آپ ﷺ کو ان تمام معائب سے محفوظ رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضور ﷺ نے سب سے پہلے قریش کے سرداروں کو جمع کرکے اپنا پیغامِ توحید سنایا،تو اپنی نبوت پر سب سے پہلی جو دلیل قائم کی وہ بعثت سےقبل کے چالیس برس پر مشتمل آپ ﷺ کی پاکیزہ زندگی تھی۔ آپ ﷺ نے اُسی پاکیزہ زندگی کو اپنے دعویٰ نبوت و رسالت اور دعویٰ توحید پر دلیل بناتے ہوئے بفحوائے قرآنی فرمایا:
﴿فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾
(يونس، 10: 16)
بے شک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتے۔
یعنی میں نے اِس اعلانِ بعثت سے قبل اپنے عمر عزیز کا جو ایک عرصہ تمہارے درمیاں گزارا ہے، میری زندگی کا وہ عرصہ میری بعثت کے حق ہونے پر دلیل ہے۔ اِسی آیتِ کریمہ کی روشنی میں قبل از بعثت آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس سے ظاہر ہونے والے جملہ اُمور میں علماء و محدثین نے عصمت کا قول کیا ہے۔
یہاں یہ بات نہایت قابل توجہ ہے کہ کسی نبی کو بعثت سے قبل عام انسانوں میں شمار کرنا اور بشری نقائص اور کمزوریوں کی ان کی طرف نسبت کرنا نہایت نادانی اور کم علمی بلکہ سوئے ادب ہے، انبیاء کرام علیہم السلام کے بارے میں نعوذ باللہ یہ گمان کرنا کہ بعثت سے پہلے ہر نبی بھی عام لوگوں کی طرح ہوتا ہے اور انہیں اپنی نبوت کا علم بھی نہیں ہوتا، سراسر جہالت اور قرآن سے عدم واقفیت کی دلیل ہے۔ اس حوالے سے صحیح عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام تو پیدا ہوتے ہی صفتِ نبوت سے متصف ہوتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ بعثت سے قبل صفتِ نبوت ان میں بالفعل نہیں بلکہ بالقوہ موجود ہوتی ہے۔ جب وہ باقاعدہ اپنی بعثت کا اعلان کرتے ہیں اور اللہ کی طرف سے عملاً ذمہ داریاں نبھانے کی خاطر انہیں مبعوث کر دیا جاتا ہے تو پھر اُس صفت کا بالفعل اِظہار ہو جاتا ہے۔
آیتِ میثاق میں بالتخصیص اس حلف کا ذکر کرنا اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ عالمِ ہست و بود میں آنے سے پہلے عالمِ ارواح میں ہر نبی اور رسول کو اپنے اپنے منصبِ نبوت پر نہ صرف فائز کیا گیا، بلکہ حلف لے کر انہیں نبی اور رسول ہونے کا ادراک اور احساس بھی عطا کردیا گیا۔ لہٰذا یہ امر واضح ہے کہ کوئی نبی اس عالمِ شہادت میں اپنے نبی ہونے کے احساس سے بے خبر پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسے ولادت کے دن ہی سے اپنے نبی اور رسول ہونے کی خبر ہوتی ہے، لیکن اس حال کو اس لیے مخفی رکھا جاتا ہے کہ بعثت تک اس کی نبوت و رسالت صرف اس کا ذاتی شرف و کمال ہوتا ہے، مخلوق کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، خلقِ خدا کا اس منصب سے تعلق اس وقت قائم ہوتا ہے جب نبی کا زمانہ بعثت شروع ہوتا ہے۔
قبل از بعثت عصمتِ انبیاء علیہم السلام کے حوالے سے علماء کے کئی اقوال ہیں: درست و صحیح قول یہی ہے کہ وہ قبل از بعثت بھی اسی طرح معصوم ہوتے ہیں جس طرح بعد از بعثت۔ انبیاء کرامعلیہم السلام کے اخبار و آثار اُن کی پیدائش سے ہی ہر قسم کے عیوب و نقائص سے مُنزَّہ و مُبرَّأ ہونے کی تائید کرتے ہیں۔ وہ حالتِ توحید وایمان پر پروان چڑھتے ہیں بلکہ انوارِ معارف ان کے چہروں سے چمکتے اور الطافِ سعادت ان کے وجودِ مسعود سے دمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ائمہ کرام میں سے کسی نے بھی کفر و ضلالت اور معصیت میں معروف شخص کو نبی بنائے جانے کا بیان نہیں کیا۔ قریشِ مکہ نے ہمارے نبی مکرم ﷺ پر ہر قسم کی من گھڑت افتراء پردازی کی، جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے یا ائمہ حدیث نے ہم تک پہنچایا ہے۔ جب کہ سابقہ اُمتوں میں بھی کفار و مشرکین نے ہر ممکنہ طور پر اپنے انبیاء کرام علیہم السلام میں عیوب نکالنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود کسی نے بھی ان نفوسِ قدسیہ پر کوئی ایسا الزام نہیں لگایا جس سے شرک یا غیر اللہ کی عبادت کا جواز نکلتا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو یقیناً کفار اس میں سبقت لے گئے ہوتے۔
اَہل سنت و جماعت کے نزدیک تمام انبیاءِ کرام علیہم السلام وحی سے پہلے بھی صفتِ نبوت سے متصف اور معصوم ہوتے ہیں اور اِسی طرح وفات کے بعد بھی۔ ا س پر دلیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا. قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ﴾
(مريم، 19: 29-30)
وہ کہنے لگے: ہم اس سے کس طرح بات کریں جو (ابھی) گہوارہ میں بچہ ہے، (بچہ خود) بول پڑا: بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔
یہ بات ثابت اور معلوم ہے کہ منصبِ نبوت پر فائز کرنے کے لئے وحیِ اِلٰہی کا نزول ہر کس و ناکس پر نہیں ہوتا۔ کلامِ اِلٰہی کا نزول صرف نبی مرسل پر ہوتا ہے۔ یہ بغیر کسی تاویل و ابہام کے نص ہے، اور جو اس کا انکار کرے کافر ہو جائے گا۔
حدیث مبارک ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! آپ کب نبوت سے سرفراز ہوئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 66، الرقم: 16674، والبخاري في التاريخ الكبير، 7: 374، رقم: 1606، والحاكم في المستدرك على الصحيحين، 2: 665، الرقم: 4209، وابن أبي شيبة في المصنف، 7: 329، الرقم: 36553، والطبراني في المعجم الكبير، 12: 92، الرقم: 12571، وأيضا، 20: 353، الرقم: 833، والديلمي في مسند الفردوس، 3: 284، الرقم: 4845
میں اس وقت بھی نبی تھا جب کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کے لیے جب عصمت قبل از وحی ثابت ہے تو بعد از وحی تو بدرجہ اُولیٰ ہوگی۔ بفرضِ محال اگر وہ کذب و معاصی سے معصوم نہ ہوں تو یہ شبہہ کا موجب ہوگا اور اُس کے دعویٔ نبوت میں شک و شبہ پیدا ہو جائے گا، جب کہ کسی کاذب اور فاسق شخص پر وحی کا نزول حکمتِ الٰہی میں جائز نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا لازم ہے کہ نبی نزولِ وحی سے قبل بھی بطریقِ وجوب معصوم ہو نہ کہ بطریقِ جواز، کیونکہ بطریقِ جواز ماننے سے تو رسول اور اُمت برابر ہو جائیں گے، گویا اِن کا معصوم ہونا یا نہ ہونا دونوں جائز ہوں گے۔ حالانکہ صحیح عقیدہ یہی ہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام ہر عیب سے منزَّہ ہیں، اور ہر قسم کے شک و ارتیاب کا سبب بننے والی شے سے بھی معصوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاءِ کرام علیہم السلام کو اپنےاس ارشادِ گرامی کے ذریعے ہر عیب سے منزَّہ قرار دیا ہے:
﴿وَإِذۡ أَخَذۡنَا مِنَ ٱلنَّبِيِّۧنَ مِيثَٰقَهُمۡ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٖ وَإِبۡرَٰهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ٱبۡنِ مَرۡيَمَۖ وَأَخَذۡنَا مِنۡهُم مِّيثَٰقًا غَلِيظٗا﴾
(الْأَحْزَاب، 33: 7)
اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور عیسٰی ابن مریم (علیہم السلام) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿وَإِذۡ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ ٱلنَّبِيِّۧنَ لَمَآ ءَاتَيۡتُكُم مِّن كِتَٰبٖ وَحِكۡمَةٖ ثُمَّ جَآءَكُمۡ رَسُولٞ مُّصَدِّقٞ لِّمَا مَعَكُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥ﴾
(آل عِمْرَان، 3: 81)
اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( ﷺ ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے۔
حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے، اُنہوں نے فرمایا:
مَا بَعَثَ اللهُ نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ إِلَّا أَخَذَ عَلَيْهِ الْمِيْثَاقَ: لَئِنْ بُعِثَ مُحَمَّدٌ ﷺ وَهُوَ حَيٌّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ وَلَيَنْصُرَنَّهُ، وَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ الْمِيْثَاقَ عَلَى أُمَّتِهِ: لَئِنْ بُعِثَ مُحَمَّدٌ ﷺ وَهُمْ أَحْيَاءٌ لَيُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَيَنْصُرَنَّهُ.
ذكره ابن كثير في تفسير القرآن العظيم، 1: 379
اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی مبعوث نہیں فرمایا مگر اس سے پختہ عہد لیا کہ اگر اس کی زندگی میں محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا گیا تو وہ ہر صورت ان پر ایمان لائے گا اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرے گا۔ اُسے اپنی اُمت سے بھی اَخذِ میثاق کا حکم دیا گیا کہ اگر اُن افرادِ امت کی زندگیوں میں حضرت محمد ﷺ کی بعثت ہوئی تو وہ تمام کے تمام آپ ﷺ پر ایمان لائیں گے اور آپ ﷺ کی مدد کریں گے۔
حضرت قتادہ اور السُّدی نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے، اِسی مفہوم کے قریب قریب بیان حضرت حسن اور حضرت طاؤس کا بھی ہے، جسے امام عبد الرزاق نے نقل کیا ہے اور امام طبری، حافظ ابن حجر اور اہلِ تفسیر و حدیث کی ایک جماعت نے اسی طرح بیان کیا ہے۔
عبد الرزاق الصنعاني في تفسير القرآن، 1: 24، والطّبري في جامع البيان في تفسير القرآن، 3: 31، وابن كثير في تفسير القرآن العظيم، 1: 379
امام زرقانی نے آیتِ میثاق کے ذیل میں امام تقی الدین السبکی کا درج ذیل قول نقل کیا ہے:
فِي هَذِهِ الْآيَةِ الشَّرِيْفَةِ مِنَ التَّنْوِيْهِ بِالنَّبِيِّ ﷺ وَتَعْظِيْمِ قَدْرِهِ الْعَلِيِّ، إِنَّهُ ﷺ عَلَى تَقْدِيْرِ مَجِيْئِهِمْ فِي زَمَانِهِ يَكُوْنُ مُرْسَلًا إِلَيْهِمْ. فَتَـكُوْنُ نُبُوَّتُهُ ﷺ وَرِسَالتُهُ ﷺ عَامَّةً لِجَمِيْعِ الْخَلْقِ، مِنْ زَمَنِ آدَمَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَتَكُوْنُ الْأَنْبِيَاءُ وَأُمَمُهُمْ كُلُّهُمْ مِنْ أُمَّتِهِ ﷺ ، وَيَكُوْنُ قَوْلُهُ ﷺ : «بُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً» لَا يَخْتَصُّ بِهِ النَّاسُ فِي زَمَانِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، بَلْ يَتَنَاوَلُ مَنْ قَبْلَهُمْ أَيْضًا.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1: 301، الرقم: 2742، والطّبراني في المعجم الكبير، 11: 73، الرقم: 11085
ذكره الزّرقاني في شرحه على المواهب اللدنية، 1: 79
اس آیت مبارکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بلند قدر و منزلت کی عظمت و رفعت کا بیان ہے۔ (اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیہم السلام کو مخاطب کرکے فرمایا: ) اگر نبی آخر الزماں ﷺ دیگر انبیاء کے زمانے میں تشریف لائیں تو آپ ﷺ ان انبیاء کی طرف بھی رسول ہوں گے۔ حضور ﷺ کی نبوت و رسالت سیدنا آدم علیہ السلام سے قیامت تک تمام مخلوق کےلیے عام ہوگی، اور تمام انبیاءِ کرام علیہم السلام اور ان کی اُمتیں آپ ﷺ کی اُمت میں ہوں گے، نیز آپ ﷺ کا ارشادِ گرامی: ’میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں‘ آپ ﷺ کے زمانہِ انور سے قیامت تک کے افراد کے ساتھ ہی مختص نہ ہو گا، بلکہ یہ ارشاد اِن سے پہلے گزشتہ اُمتوں کو بھی شامل ہوگا۔
یہ اَمر طے شدہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمام انبیاءِ کرام علیہم السلام سے آپ ﷺ کے لیے عہد لیے، تاکہ وہ سب جان لیں کہ آپ ﷺ اُن پر مقدّم ہیں اور آپ ﷺ ان کے بھی نبی اور رسول ہیں۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی مکرم ﷺ سے میثاق لیا جب کہ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ اللہ تعالی آپ ﷺ کی تخلیق سے پہلے آپ ﷺ سے میثاقِ نبوت لے، پھر تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے آپ ﷺ کی ولادت سے کئی زمانے پہلے آپ ﷺ پر ایمان لانے اور آپ ﷺ کی مدد و نصرت کرنے کا عہد لے، پھر آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ میں ولادتِ با سعادت کے بعد ضلالت و گمراہی یا ذُنوب و عیوب کو بھی جائز قرار دے؟ یہ عقیدہ کسی ملحد اور گمراہ شخص کا ہی ہو سکتا ہے۔
ذیل میں حضور نبی اکرم ﷺ کی قبل از بعثت پاکیزہ زندگی اور عصمت کے اُن چند پہلوؤں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن سے آثارِ نبوت کا اظہار ہوتا ہے۔
1. رَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي ‹‹دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ››، فِي بَابِ مَا جَاءَ فِي حِفْظِ اللهِ تَعَالَى رَسُولَهُ ﷺ فِي شَبِيبَتِهِ عَنْ أَقْذَارِ الْجَاهِلِيَّةِ وَمَعَائِبِهَا. عَنْ يُوْنُسَ بْنِ بُكَيْرٍ بِسَنَدِهِ قَالَ: قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: فَشَبَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ ، يَكْلَؤُهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَيَحْفَظُهُ وَيَحُوطُهُ مِنْ أَقْذَارِ الْجَاهِلِيَّةِ وَمَعَائِبِهَا، لِمَا يُرِيدُ بِهِ مِنْ كَرَامَتِهِ وَرِسَالَتِهِ، ... حَتَّى بَلَغَ أَنْ كَانَ رَجُلًا أَفْضَلَ قَوْمِهِ مُرُوْءَةً، ... وَأَكْرَمَهُمْ مُخَالَطَةً، وَأَحْسَنَهُمْ جِوَارًا، وَأَعْظَمَهُمْ خُلُقًا، وَأَصْدَقَهُمْ حَدِيْثًا، وَأَعْظَمَهُمْ أَمَانَةً، وَأَبْعَدَهُمْ مِنَ الْفُحْشِ وَالْأَخْلَاقِ الَّتِي تُدَنِّسُ الرِّجَالَ، تَنَزُّهًا وَتَكَرُّمًا حَتَّى مَا اسْمُهُ فِي قَوْمِهِ إِلَّا الْأَمِينُ لِمَا جَمَعَ اللهُ تَعَالَى فِيْهِ مِنَ الْأُمُورِ الصَّالِحَةِ، وَكَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يُحَدِّثُ عَمَّا كَانَ يَحْفَظُهُ اللهُ تَعَالَى بِهِ فِي صِغَرِهِ وَأَمْرِ جَاهِلِيَّتِهِ.
أخرجه البيهقيّ في دلائل النّبوة، 2: 30
امام بیہقی نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے: اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول ﷺ کے دورِ جوانی میں دورِ جاہلیت کی آلائشوں اور عیوب سے حفاظت فرمانا۔ چنانچہ یونس بن بکیر سے مروی ہے کہ ابن اسحٰق نےکہاہے: اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رسول اللہ ﷺ دورِ جاہلیت کی تمام آلائشوں اور عیوب سے محفوظ اور پاک جوان ہوئے۔ اس حفاظت کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو برگزیدہ رسول بنانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ (اوصاف حمیدہ کی) اس حالت کو پہنچے کہ آپ ﷺ اپنی قوم میں مروت کے اعتبار سے سب سے افضل، میل جول کے اعتبار سے معزز ترین، سب سے بہترین پڑوسی اور اخلاقِ حسنہ میں خلقِ عظیم کے مالک، گفتگو میں سب سے زیادہ سچے،سب سے بڑے امین، بری باتوں اور لوگوں کو عیب دار بنانے والے اخلاق سے کوسوں دور، امانت کے اعتبار سے اپنی قوم میں اتنے بڑے امین کہ آپ ﷺ کو اوصافِ حمیدہ اور اخلاقِ حسنہ کی بناء پر امین اور صادق کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام امورِ صالحہ آپ ﷺ میں جمع فرما دیے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے بچپن میں ہر قسم کے اُمورِ جاہلیت سے اللہ کی عطا کردہ حفاظت کو خود بیان فرمایا کرتے تھے۔
2. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها، قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : فَمَا ذُقْتُ شَيْئًا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ، حَتَّى أَكْرَمَنِيَ اللهُ بِرِسَالَتِهِ.
أخرجه أبو نعيم في دلائل النبوة: 188، الرقم: 131
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ.
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے بتوں کے استھانوں پر ذبح کیے جانے والے جانوروں کے گوشت سے کبھی چکھا بھی نہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی رسالت سے مشرف فرمایا۔
اس حدیث کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
3. وَعَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: قِيْلَ لِلنَّبيِّ ﷺ : هَلْ عَبَدْتَ وَثْنًا قَطُّ؟ قَالَ: لَا، قَالُوْا: فَهَلْ شَرِبْتَ خَمْرًا قَطُّ؟ قَالَ: لَا.
ذكره السيوطي في الخصائص الكبرى، 1: 150، وأيضًا في الدر المنثور، 7: 364، والهندي في كنز العمال، 12: 183، الرقم: 35439، والحلبي في السيرة الحلبية، 1: 204، والشوكاني في فتح القدير، 4: 546
ذَكَرَهُ السُّيُّوْطِيُّ فِي الْخَصَائِصِ.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: کیا آپ نے کبھی کسی بت کی عبادت کی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (کبھی) نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیا آپ نے کبھی شراب نوشی کی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (کبھی) نہیں۔
اِسے امام سیوطی نے’’الخصائص الکبری‘‘ میں بیان کیا ہے۔
4. وَعَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ: إِذَا فَرَغَ الْقَوْمُ مِنَ الطَّعَامِ وَتَفَرَّقُوْا، قَامَ بَحِيرَاءُ فَقَالَ لَهُ: يَا غُلَامُ، أَسْأَلُكُ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى إِلَّا أَخْبَرْتَنِي عَمَّا أَسْأَلُكَ عَنْهُ، وَإِنَّمَا قَالَ لَهُ بَحِيرَاءُ ذَلِكَ، لِأَنَّهُ سَمِعَ قَوْمَهُ يَحْلِفُونَ بِهِمَا، فَزَعَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ ، قَالَ لَهُ: لَا تَسْأَلْنِي بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى شَيْئًا، فَوَاللهِ، مَا أَبْغَضْتُ شَيْئًا قَطُّ بُغْضَهُمَا. فَقَالَ لَهُ بَحِيرَاءُ: فَبِاللهِ، إِلَّا مَا أَخْبَرْتَنِي عَمَّا أَسْأَلُكَ عَنْهُ. فَقَالَ: سَلْنِي عَمَّا بَدَا لَكَ. فَجَعَلَ يَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ حَالِهِ: فِي نَوْمِهِ، وَهَيْئَتِهِ، وَأُمُورِهِ، فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ، يُخْبِرُهُ، فَيُوَافِقُ ذَلِكَ مَا عِنْدَ بَحِيرَاءَ مِنْ صِفَتِهِ. ثُمَّ نَظَرَ إِلَى ظَهْرِهِ فَرَأَى خَاتَمَ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ عَلَى مَوْضِعِهِ، مِنْ صِفَتِهِ الَّتِي عِنْدَهُ.
أخرجه ابن إسحاق في السيرة، 2: 54، والبيهقى في دلائل النبوة، 2: 28، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3: 10-12، وذكره السيوطي في الخصائص الكبرى، 1: 143
رَوَاهُ ابْنُ إِسْحَاقَ، وَالْبَيْهَقِيُّ، وَابْنُ عَسَاكِرَ.
ابن اسحاق سے سيرت میں ایک طويل روایت مروی ہے، انہوں نے بیان کیا ہے: جب سب لوگ (بحيرا راہب کی دعوت پر)کھانے سے فارغ ہو کر ادھر اُدھر ہو گئے، تو بحیرا راہب کھڑا ہوا اور آپ ﷺ سے کہا: اے بچے! میں تمہیں لات و عزیٰ کی قسم دے کر کہتا ہوں: تم میرے ہر سوال کا جواب دو گے۔ بحیرا نے یہ اس لیے کہا تھا کہ اُس نے ان لوگوں کے بارے سُن رکھا تھا کہ وہ لات و عزیٰ کی قسم کھاتے ہیں۔ رسولُ اللہ ﷺ نے اُسے فرمایا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم نہ دو کیونکہ اللہ کی قسم! میں کسی شے کے بارے میں اتنی نفرت نہیں رکھتا جتنی ان بتوں سے رکھتا ہوں۔ اس پر بحیرا نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں، تم میرے ہر سوال کا جواب دو گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اب جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو، وہ آپ ﷺ کی نیند، ہیئت اور دیگر کئی روز مرہ کے اُمور کے بارے پوچھنے لگا، رسول اللہ ﷺ اس کے سوالوں کا جواب ارشاد فرماتے رہے، وہ سب کچھ اُن صفات کے موافق تھا جو وہ آپ ﷺ کے بارے میں جانتا تھا، پھر اُس نے آپ ﷺ کی پُشت مبارک پر کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت کا اسی جگہ مشاہدہ کیا جہاں کے بارے میں اس نے جان رکھا تھا۔
اسے امام ابن اسحاق، بیہقی اور ابن عساکر نے بیان کیا ہے۔
5. وَعَنْ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ رضي الله عنه قَالَ: كَانَ صَنَمٌ مِنْ نُحَاسٍٍ يُقَالُ لَهُ: إِسَافٌ، أَوْ نَائِلَةُ، يَتَمَسَّحُ بِهِ الْمُشْرِكُونَ إِذَا طَافُوا، فَطَافَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ، فَطُفْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا مَرَرْتُ مَسَحْتُ بِهِ، فَقَالَ: رَسُولُ اللهِ ﷺ : «لَا تَمَسَّهُ». فَقَالَ زَيْدٌ: فَطُفْتُ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: لَأَمَسَّنَّهُ حَتَّى أَنْظُرَ مَا يَكُونُ، فَمَسَحْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : «أَلَمْ تُنْهَ؟» ... قَالَ زَيْدٌ: فَوَالَّذِي هُوَ أَكْرَمَهُ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، مَا اسْتَلَمَ صَنَمًا حَتَّى أَكْرَمَهُ اللهُ بِالَّذِي أَكْرَمَهُ،وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ.
أخرجه الحاكم في المستدرك، 3: 238، الرقم: 4956، والبيهقيّ في دلائل النّبوة، 2: 34، وذكره الذّهبي في تاريخ الإسلام، 1: 81
رَوَاهُ الْحَاكِمُ، وَصَحَّحَهُ، وَالْبَيْهَقِيُّ، وَاللَّفْظُ لَهُ.
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: إساف یا نائلہ نامی تانبے کا ایک بت تھا، مشرکین دورانِ طواف اس کو مَس کیا کرتے تھے، ایک دن رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کا طواف کیا، میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ طواف میں شریک تھا، جب میں اس بُت کے پاس سے گزرا تو میں نے ا س پر ہاتھ پھیرا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اِسے مَس مت کرو، حضرت زید کہتے ہیں: اس کے بعد ہم نے طواف شروع کر دیا، پھر میں نے اپنے دل میں کہا: میں اِسے ضرور مَس کروں گا، پھر دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے؟ میں نے اس کو ہاتھ لگایا، تورسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں اس کام سے منع نہیں کیا تھا؟ حضرت زید بیان کرتے ہیں: قسم ہے اس ذاتِ اقدس کی جس نے آپ ﷺ کو کرامت بخشی اور آپ ﷺ پر کتابِ مقدس نازل فرمائی! آپ ﷺ نے کبھی کسی بُت کو استلام نہیں کیا،یہاں تک کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ ﷺ کو شرفِ نبوت سے سرفراز فرمایا اور آپ ﷺ پر اپنی کتاب (قرآنِ مجید) نازل فرمائی۔
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کرکے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ امام بیہقی نے بھی اسے روایت کیا ہے، جب کہ مذکورہ الفاظ امام بیہقی کے ہیں۔
6. وَعَنْ عُرْوَةَ ابْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَارٌ لِخَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ يَقُولُ لِخَدِيجَةَ: أَيْ خَدِيجَةُ، وَاللهِ، لَا أَعْبُدُ اللَّاتَ، وَاللهِ، لَا أَعْبُدُ الْعُزَّى أَبَدًا.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5: 362، الرقم: 23117، وأيضًا في فضائل الصحابة، 2: 851، الرقم: 1578
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
حضرت عروہ بن زبیر سے مروی ہے: وہ کہتے ہیں: مجھے حضرت سیدہ خدیجۃُ الکبریٰ بنت خویلد رضی اللہ عنہاکے ایک پڑوسی نے بتایا: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو حضرت خدیجہ سے ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اے خدیجہ! اللہ کی قسم، میں کبھی لات کی عبادت نہیں کروں گا، میں کبھی عُزَّی کی عبادت نہیں کروں گا۔
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
وعدہ کی پاس داری اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات اس وصف کی سب سے زیادہ حق دار ہے، جیسا کہ سورۃ النور کی آیت نمبر 55 میں وارد ہوا ہے:
﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾
اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفا اور تعمیل امت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی امانتِ اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے۔
وعدہ کی پاس داری انبیاء و مرسلین کی صفات میں سے بھی ہے، جیسا کہ سورۃ النجم کی آیت نمبر 37 میں وارد ہوا ہے:
﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤیۙ﴾
اور ابراہیم ( علیہ السلام ) کے (صحیفوں میں تھیں) جنہوں نے (اللہ کے ہر امر کو) بتمام و کمال پورا کیا۔
سورۃ مریم کی آیت نمبر 54 میں آیا ہے:
﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ ؗ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ﴾
اور آپ (اس) کتاب میں اسماعیل ( علیہ السلام ) کا ذکر کریں، بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے۔
حضور نبی اکرم ﷺ اس وصف سے قبل اَز بعثت ہی متصف تھے اور اُس وقت بھی آپ ﷺ اپنی قوم میں صادق اور امین کے لقب سے معروف تھے۔ آپ کے وعدوں کی پاس داری میں سے درج ذیل حدیث پیش کی جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن الحمساء رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں:
بَايَعْتُ النَّبِيَّ ﷺ بِبَيْعٍ قَبْلَ أَنْ يُبْعَثَ، وَبَقِيَتْ لَهُ بَقِيَّةٌ، فَوَعَدْتُهُ أَنْ آتِيَهُ بِهَا فِي مَكَانِهِ، فَنَسِيْتُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ بَعْدَ ثَلَاثٍ، فَجِئْتُ فَإِذَا هُوَ فِي مَكَانِهِ، فَقَالَ: «يَا فَتًى، لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ، أَنَا هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ، أَنْتَظِرُكَ».
أخرجه أبو داود في السنن، كتاب الأدب، باب في العدّة، 4: 299، الرقم: 4996، والبيهقي في السنن الكبرى، 10: 198، الرقم: 20624، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9: 260، الرقم: 225، والخرائطي في مكارم الأخلاق: 79، الرقم: 193، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 7: 59
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ، وَالْبَيْهَقِيُّ، وَالْمَقْدِسِيُّ، وَالْخَرَائِطِيُّ، وَابْنُ سَعْدٍ.
میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے قبل ازبعثت ایک سودا کیا، میرے ذمہ آپ ﷺ کی کچھ ادائیگی باقی تھی، میں نے آپ ﷺ سے وعدہ کیا کہ میں ابھی آپ ﷺ کے پاس آتا ہوں، میں وہاں سے چلا گیاتواُس دن اور اگلے دن بھی وعدہ بھول گیا، پھر تیسرے دن یاد آنے پر میں آپ ﷺ کے پاس آیا، تو میں نے آپ ﷺ کو اُسی جگہ موجود پایا، اس وقت آپ ﷺ نے مجھ سے فقط اتنا فرمایا: اے جوان! تم نے مجھے بڑی مشقت میں ڈالا، میں یہاں تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔
اس حدیث کو امام ابو داؤد، بیہقی، مقدسی،خرائطی او ر ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved