1. وَمِنَ الْبَدِيْهِيِّ أَنَّ مِيْثَاقَ النُّبُوَّةِ هَذَا يَخْتَلِفُ عَنْ مِيْثَاقِ النَّبِيِّيْنَ الْمَذْكُوْرِ فِي الْآيَةِ الْقُرْآنِيَّةِ التَّالِيَةِ: ﴿وَإِذۡ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ ٱلنَّبِيِّيۡنَ لَمَآ ءَاتَيۡتُكُمْ مِّنْ كِتَٰبٖ وَحِكۡمَةٖ ثُمَّ جَآءَكُمۡ رَسُولٞ مُّصَدِّقٞ لِّمَا مَعَكُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥ﴾ (آل عمران، 3: 81).
یہ بات ظاہر ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا میثاقِ نبوت دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے اس میثاق سے الگ (اور ممتاز) حیثیت کا حامل ہے، جو اس آیتِ کریمہ میں بیان ہوا ہے: ’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( ﷺ ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے۔‘‘
وَهَذَا الْمِيْثَاقُ كَمَا يَبْدُو قَدْ أُخِذَ عَلَى أَرْوَاحِ سَائِرِ الْأَنْبِيَاءِ عليهم السلام بِاتِّبَاعِ الرَّسُوْلِ الْكَرِيْمِ ﷺ ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ كَانَ دَاعِيًا لِمَنْحِهِمْ شَرَفَ النُّبُوَّةِ. أَمَّا الْمِيْثَاقُ الَّذِي أُخِذَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَيَخْتَلِفُ عَنْ هَذَا، وَهُوَ الَّذِي أُخِذَ عَلَى رُوْحِهِ الطَّيِّبَةِ بَعْدَ مَنْحِهِ شَرَفَ النُّبُوَّةِ، كَمَا يُؤْخَذُ الْيَمِيْنُ مِنْ أَحَدِهِمُ الْيَوْمَ بَعْدَ حُصُوْلِهِ عَلَى مَنْصِبِ الرِّئَاسَةِ؛ لِذَا فَإِنَّ هَذَا الْمِيْثَاقَ قَدْ أُخِذَ فِي الْمَوْقِعِ الَّذِي شُرِّفَ النَّبِيُّ ﷺ فِيْهِ بِالنُّبُوَّةِ بَعْدَ خَلْقِ نُوْرِهِ ﷺ . وَمِنْ هَذَا تَثْبُتُ أَوَّلِيَّةُ نُبُوَّتِهِ. وَبَعْدَ ذَلِكَ أُعْطِيَتْ مَعْرِفَتُهُ ﷺ لِأَرْوَاحِ سَائِرِ الْأَنْبِيَاءِ عليهم السلام وَأُخِذَ مِنْهُمُ الْمِيْثَاقُ. وَعِنْدَمَا أُعْطُوْا الْمِيْثَاقَ بِذَلِكَ شُرِّفُوْا بِالنُّبُوَّةِ.
یہ میثاق جیسا کہ ظاہر ہے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح سے رسولِ مکرم ﷺ کی اتباع (اور پیروی) کے لیے لیا گیا، کیوں کہ يہی میثاق انبیاء کرام علیہم السلام کو شرفِ نبوت سے سرفراز کیے جانے کا سبب بنا۔ جہاں تک اُس میثاق کا تعلق ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ سے لیا گیا تو وہ اِس ميثاق سے الگ ہے۔ یہ میثاق حضور نبی اکرم ﷺ کو شرفِ نبوت عطا کیے جانے کے بعد آپ ﷺ کی مبارک روح سے لیا گیا تھا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آج کل کسی شخصیت کا کسی اعلی منصب اور عہدے پر فائز ہونے کے بعد حلف لیا جاتا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ سے یہ میثاق آپ ﷺ کے نور مبارک کی تخلیق اور آپ ﷺ کو شرفِ نبوت سے سرفراز کیے جانے کے بعد لیا گیا تھا۔ اس سے بھی آپ ﷺ کی نبوت کا مقدم ہونا ثابت ہوتا ہے۔اس کےبعد تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح سے آپ ﷺ کی پہچان کرائی گئی، ان سے میثاق لیا گیا اور جب تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اِتباعِ محمدی کا میثاق لے لیا تب انہیں شرفِ نبوت عطا کیاگیا۔
2. ذَكَرَ الْإِمَامُ الْقَسْطَلَانِيُّ: إِنَّ اللهَ تَعَالَى لَمَّا خَلَقَ نُوْرَ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ ﷺ ، أَمَرَهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى أَنْوَارِ الْأَنْبِيَاءِ عليهم السلام، فَغَشِيَهُمْ مِنْ نُوْرِهِ مَا أَنْطَقَهُمُ اللهُ بِهِ. فَقَالُوا: يَا رَبَّنَا، مَنْ غَشِيَنَا نُوْرُهُ؟ فَقَالَ اللهُ تَعَالَى: هَذَا نُوْرُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، إِنْ آمَنْتُمْ بِهِ جَعَلْتُكُمْ أَنْبِيَاءَ. قَالُوْا: آمَنَّا بِهِ وَنُبُوَّتِهِ. فَقَالَ اللهُ تَعَالَى: أَشْهَدُ عَلَيْكُمْ. قَالُوْا: نَعَمْ. فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: ﴿وَإِذۡ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ ٱلنَّبِيِّيۡنَ ... وَأَنَا۠ مَعَكُمْ مِّنَ ٱلشَّٰهِدِينَ﴾ (آل عمران، 3: 81).
القسطلاني في المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 66
امام قسطلانی نے بیان کیا ہے: بے شک اللہ تعالیٰ نے جب ہمارے نبی مکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے نور کو تخلیق فرمایا تو اسے حکم دیا کہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح پر نظر ڈالے۔ اُس نور نے ان سب کو ڈھانپ لیا، اللہ تعالیٰ نے ان سب ارواح کو اس نور کے وسیلے سےقوتِ گویائی عطا فرمائی۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح نے عرض کیا: اے ہمارے پروردگار! ہماری ارواح کو کس کے نور نے ڈھانپ رکھا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: یہ محمد بن عبداللہ کا نور ہے، اگر تم ان پر ایمان لے آؤ تو میں تمہیں نبوت عطا کروں گا۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح نے عرض کیا: ہم ان پر اور ان کی نبوت پر ایمان لائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تم پر گواہ ہوں۔ ارواح نے عرض کیا: جی ہاں۔ یہی وہ موقع ہے جس کے بارے ارشاد الٰہی وارد ہوا ہے: ’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ ..... اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔‘‘
3. وَإِذَا ثَبَتَ مِنْ هَذَا أَنَّ لِنُبُوَّةِ رَسُوْلِنَا الْكَرِيْمِ ﷺ شَرَفَ أَوَّلِيَّةِ النُّبُوَّةِ، بَقِيَ الْقَوْلُ: إِنَّ أَوَّلِيَّةَ نُبُوَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ وَأَوَّلِيَّةَ نُبُوَّةِ آدَمَ علیہ السلام أَصْبَحَتَا ثَابِتَتَيْنِ، فَكَيْفَ التَّطَابُقُ بَيْنَ الْقَوْلَيْنِ إِذَنْ؟ إِذَا أَخَذْنَا بِعَيْنِ الْاِعْتِبَارِ مَا تَقَدَّمَ تَفْصِيْلُهُ وَجَدْنَا أَنَّ شَرَفَ أَوَّلِيَّةِ النُّبُوَّةِ كَانَ لِمُحَمَّدٍ ﷺ فِي عَالَمِ الْأَرْوَاحِ وَكَانَ لِآدَمَ فِي عَالَمِ الْبَشَرِ. وَاسْتِنَادًا إِلَى هَذَا الْأَمْرِ نَفْسِهِ فَإِنَّ الْعَارِفِيْنَ وَالرُّوْحَانِيِّيْنَ يَعْتَبِرُوْنَ مُحَمَّدًا ﷺ أَبَا النَّاسِ الرُّوْحِيَّ، وَآدَمَ أَبَاهُمُ الْبَشَرِيَّ. يَقُوْلُ الشَّيْخُ الْأَكْبَرُ ابْنُ عَرَبِيٍّ: إِنَّ أَصْلَ أَرْوَاحِنَا رُوْحُ مُحَمَّدٍ ﷺ ، فَهُوَ أَوَّلُ الْآبَاءِ رُوْحًا، وَآدَمُ أَوَّلُ الْآبَاءِ جِسْمًا.
ابن عربي في الفتوحات المكية، 5: 73.
جب یہ اَمر ثابت ہوگیا کہ ہمارے نبی مکرم ﷺ کی نبوت کو تمام نبوتوں سے مقدم ہونے کا شرف حاصل ہے تو یہ اشکال باقی رہ گیا ہے کہ ہمارے نبی مکرم سیدنا محمد ﷺ کی نبوت کی اوّلیت اور حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت کی اوّلیت اپنی اپنی جگہ ثابت ہے۔ ان دونوں اقوال کے درمیان تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟ اس بارے میں جب ہم سابقہ تفصیلی بحث پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی نبوت کو اوّلیت عالمِ ارواح میں حاصل تھی، اور حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت کو اوّلیت عالمِ بشریت کے اعتبار سے حاصل ہے۔ یہ امر بذاتِ خود اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ عرفاء اور صوفیاء کرام کے نزدیک سیدنا محمد مصطفی ﷺ لوگوں کے روحوں کے اعتبار سے باپ ہیں، اور حضرت آدم علیہ السلام بشری اعتبار سے لوگوں کے باپ ہیں۔ شیخ اکبر ابن عربی فرماتے ہیں: ہماری اَرواح کی اَصل روحِ محمدی ﷺ ہے۔ لہٰذا حضور ﷺ روحانی اعتبار سے جب کہ آدم علیہ السلام جسمانی اعتبار سے ہمارے پہلے باپ ہیں۔
4. وَأَوْرَدَ الْإِمَامُ النَّبْهَانِيُّ: رُوْحُهُ ﷺ هِيَ أُمُّ الْأَرْوَاحِ، وَحَقِيْقَةُ أَصْلِ الْحَقَائِقِ، وَهُوَ ﷺ أَبُو آدَمَ مِنْ حَيْثُ الرُّوْحِ، وَآدَمُ علیہ السلام أَبُوْهُ ﷺ مِنْ حَيْثُ الْجِسْمِ، وَهُوَ أَوَّلُ النَّبِيِّيْنَ فِي الْبُطُوْنِ، وَخَاتَمُهُمْ فِي الظُّهُوْرِ، وَهُوَ سُلْطَانُهُمُ الْأَعْظَمُ.
النبهاني في جواهر البحار في فضائل النبي المختار ﷺ، 1: 11
امام نبہانی نے فرمایا ہے: حضور ﷺ کی روحِ مبارک تمام اَرواح کا مصدر ہے اور آپ کی حقیقت تمام حقائق کی اصل ہے۔ حضور ﷺ روح کے اعتبار سے حضرت آدم علیہ السلام کے باپ ہیں، اور حضرت آدم علیہ السلام جسم کے اعتبار سے حضور ﷺ کے باپ ہیں۔ اِسی طرح حضور ﷺ باطن میں تمام انبیاء سے اوّل ہیں، اور ظاہر میں تمام سے آخر، اور آپ ﷺ ہی سب انبیاء کے سلطانِ اعظم ہیں۔
5. وَقَدْ أَجَادَ فِي تَقْرِيْرِ هَذَا الْمَعْنَى وَإِيْضَاحِهِ الْإِمَامُ الْحَافِظُ تَقِيُّ الدِّيْنِ السُّبْكِيُّ فِي رِسَالَةٍ: ‹‹اَلتَّعْظِيمُ وَالْمِنَّةُ››، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿لَتُؤۡمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥۚ﴾ (آل عمران، 3: 81)
وَهِيَ مَطْبُوْعَةٌ فِي ‹‹فَتَاوِيْهِ››،
انظر: فتاوى السبكي، 1: 38-41
وَنَقَلَ كَلَامَهُ الْحَافِظُ السُّيُوْطِيُّ فِي ‹‹الْخَصَائِصِ الْكُبْرَى››،
السيوطي في الخصائص الكبرى، 1: 8-12
وَالْقَسْطَلَانِيٌّ فِي ‹‹الْمَوَاهِبِ اللَّدُنِّيَّةِ››
القسطلاني في المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 39-45؛ 2: 529-530
وَغَيْرُهُمَا. وَلَفْظُهُ:
حافظ تقی الدين السبکی نے اپنے رسالہ ’’اَلتَّعْظِيمُ وَالْمِنَّةُ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿لَتُؤۡمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥۚ﴾ کے تحت اس معنی کو بڑی عمدگی کے ساتھ ثابت اور واضح کیا ہے۔ یہ رسالہ ان کے فتاویٰ میں طبع ہو چکا ہے۔ ان کے کلام کو امام سیوطی نے ’’الخصائص الكبرى‘‘ میں، امام قسطلانی نے ’’المواهب اللدنية‘‘ میں اور دیگر اَئمہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام تقی الدین السبکی کی عبارت درج ذیل ہے:
فَقَدْ حَصَلَ الْبَحْثُ فِي تَفْسِيرِ قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَإِذۡ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ ٱلنَّبِيِّۧنَ لَمَآ ءَاتَيۡتُكُم مِّن كِتَٰبٖ وَحِكۡمَةٖ ثُمَّ جَآءَكُمۡ رَسُولٞ مُّصَدِّقٞ لِّمَا مَعَكُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥۚ﴾ (آل عمران، 3: 81).
وَقَوْلُ الْمُفَسِّرِينَ هُنَا: أَنَّ الرَّسُولَ هُوَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ ﷺ ، وَأَنَّهُ مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا أَخَذَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْمِيْثَاقَ، أَنَّهُ إِنْ بُعِثَ مُحَمَّدٌ فِي زَمَانِهِ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ، وَلَتَنْصُرُنَّهُ، وَيُوصِي أُمَّتَهُ بِذَلِكَ، وَفِي ذَلِكَ مِنَ التَّنْوِيْهِ بِالنَّبِيِّ ﷺ وَتَعْظِيمِ قَدْرِهِ الْعَلِيِّ مَا لَا يَخْفَى، وَفِيهِ مَعَ ذَلِكَ أَنَّهُ عَلَى تَقْدِيرِ مَجِيْئِهِ فِي زَمَانِهِمْ يَكُونُ مُرْسَلًا إِلَيْهِمْ، فَتَـكُونُ نُبُوَّتُهُ وَرِسَالَتُهُ عَامَّةً لِجَمِيْعِ الْخَلْقِ مِنْ زَمَنِ آدَمَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَيَكُوْنُ الْأَنْبِيَاءُ وَأُمَمُهُمْ كُلُّهُمْ مِنْ أُمَّتِهِ، وَيَكُوْنُ قَوْلُهُ ﷺ : «بُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً» لَا يَخْتَصُّ بِهِ النَّاسُ مِنْ زَمَانِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، بَلْ يَتَنَاوَلُ مَنْ قَبْلَهُمْ أَيْضًا، وَيَتَبَيَّنُ بِذَلِكَ مَعْنَى قَوْلِهِ ﷺ : «كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ» وَإِنَّ مَنْ فَسَّرَهُ بِعِلْمِ اللَّهِ بِأَنَّهُ سَيَصِيْرُ نَبِيًّا لَمْ يَصِلْ إِلَى هَذَا الْمَعْنَى، لِأَنَّ عِلْمَ اللَّهِ مُحِيْطٌ بِجَمِيْعِ الْأَشْيَاءِ، وَوَصْفُ النَّبِيِّ ﷺ بِالنُّبُوَّةِ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ، يَنْبَغِي أَنْ يُفْهَمَ مِنْهُ أَنَّهُ أَمْرٌ ثَابِتٌ لَهُ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ، وَلِهَذَا «رَأَى اسْمَهُ آدَمُ مَكْتُوبًا عَلَى الْعَرْشِ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ». فَلَا بُدَّ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ مَعْنًى ثَابِتًا فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ، وَلَوْ كَانَ الْمُرَادُ بِذَلِكَ مُجَرَّدَ الْعِلْمِ بِمَا سَيَصِيرُ فِي الْمُسْتَقْبَلِ لَمْ يَكُنْ لَهُ خُصُوصِيَّةٌ بِأَنَّهُ نَبِيٌّ، وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ، لِأَنَّ جَمِيعَ الْأَنْبِيَاءِ يَعْلَمُ اللَّهُ نُبُوَّتَهُمْ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ وَقَبْلَهُ، فَلَا بُدَّ مِنْ خُصُوْصِيَّةٍ لِلنَّبِيِّ ﷺ ، لِأَجْلِهَا أَخْبَرَ بِهَذَا الْخَبَرِ إِعْلَامًا لِأُمَّتِهِ، لِيَعْرِفُوا قَدْرَهُ عِنْدَ اللَّهِ، فَيَحْصُلُ لَهُمُ الْخَيْرُ بِذَلِكَ.
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( ﷺ ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے‘‘۔ اس کی تفسیر میں حاصلِ بحث یہ ہے کہ ائمہ تفسیر اس مقام پر فرماتے ہیں: یہاں رسول سے مراد ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ مزید یہ کہ کوئی نبی ایسا نہیں ہے جس سے اللہ تعالی نے یہ عہد نہ لیا ہو۔ اگر نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ اس کے زمانے میں مبعوث ہوئے تو وہ ضرور بالضرور ان پر ایمان لائیں گے، ضرور بالضرور ان کی مدد کریں گے اور اپنی امت کو بھی اس عہد پر کاربند رہنے کا حکم دیں گے۔ اس آیتِ کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بلندیِ شان اور آپ ﷺ کے عظیم مرتبہ کا بیان ہے جو کسی پر مخفی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس میں یہ بات بھی ہے کہ فرض کریں اگر یہ نبی معظم ﷺ ان انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں سے کسی کے زمانے میں مبعوث ہوتے تو آپ ﷺ کی بعثت ان انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف بھی ہوتی۔ اس لحاظ سے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے عام ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی ساری اُمتیں بھی آپ ﷺ کی امت میں شامل ہیں۔ آپ ﷺ کا ارشادگرامی ہے: ’’میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں‘‘۔ اس میں لوگوں سے مراد صرف آپ ﷺ کے زمانہ بعثت کے بعد سے لے کر قیامت تک کے لوگ نہیں بلکہ ان میں آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے زمانے کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس سے آپ ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مفہوم واضح ہوتا ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’میں اُس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی‘‘۔ جن ائمہ نے اس کی تشریح میں یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ عنقریب آپ ﷺ کو نبی بنایا جائے گا، وہ اصل مفہوم تک نہیں پہنچ سکے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا علم تو تمام اشیاء پر محیط ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کا اس وقت نبوت سے متصف ہونا امر ثابت تھا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے آپ ﷺ کا اسم گرامی اُس وقت عرشِ الہٰی پر يوں لکھا ہوا ملاحظہ کیا تھا: ’’مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ‘‘۔ لہذا ضروری ہے کہ آپ ﷺ کا نبی ہونا تب بھی ثابت ہو۔ اگر ’كنت نبیًّا‘ سے مراد محض علم ہونا ہو کہ عنقریب آپ ﷺ کو نبی بنایا جائے گا تو یہ آپ ﷺ کی خصوصیت نہیں ہوگی۔ آپ ﷺ تو اُس وقت بھی نبی تھے جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔ اللہ تعالیٰ کو تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی نبوتوں کا علم اس وقت بھی تھا اور اس سے پہلے بھی تھا (محض اللہ تعالیٰ کے علم میں ہونا کوئی خصوصیت نہیں ہے)۔ لہٰذا آپ ﷺ کے لیے اس خصوصیت کا ثابت ہونا ضروری ہے، اس سبب سے آپ ﷺ نے اپنی نبوت کی خبر دی تاکہ اُمت کو معرفت نصیب ہو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ ﷺ کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔
فَإِنْ قُلْتَ: أُرِيْدُ أَنْ أَفْهَمَ ذَلِكَ الْقَدْرَ الزَّائِدَ، فَإِنَّ النُّبُوَّةَ وَصْفٌ، لَا بُدَّ أَنْ يَكُوْنَ الْمَوْصُوْفُ بِهِ مَوْجُوْدًا، وَإِنَّمَا يَكُوْنُ بَعْدَ بُلُوغِ أَرْبَعِيْنَ سَنَةً أَيْضًا، فَكَيْفَ يُوْصَفُ بِهِ قَبْلَ وُجُوْدِهِ وَقَبْلَ إِرْسَالِهِ؟ فَإِنْ صَحَّ ذَلِكَ فَغَيْرُهُ كَذَلِكَ.
اگر آپ یہ کہیں کہ میں اس سے زیادہ جاننا چاہتا ہوں، کیوں کہ نبوت ایک ایسی صفت ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ موصوف موجود ہو اور یہ چالیس سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد ملتی ہے۔ تو نبوت کو کسی نبی کے لیے اس کی تخلیق اور بعثت سے پہلے کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟ اگر یہ بات صحیح ہے تو دوسرے انبیاء علیہم السلام کے لیے بھی اِسی طرح نبوت ثابت ہو سکتی ہے۔
قُلْتُ: قَدْ جَاءَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْأَرْوَاحَ قَبْلَ الْأَجْسَادِ، فَقَدْ تَكُوْنُ الْإِشَارَةُ بِقَوْلِهِ: «كُنْتُ نَبِيًّا» إِلَى رُوحِهِ الشَّرِيفَةِ ﷺ وَإِلَى حَقِيْقَتِهِ، وَالْحَقَائِقُ تَقْصُرُ عُقُوْلُنَا عَنْ مَعْرِفَتِهَا، وَإِنَّمَا يَعْلَمُهَا خَالِقُهَا.
میں کہوں گا: روایت میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو اجسام کی تخلیق سے پہلے تخلیق فرمایا تھا۔ سو آپ ﷺ کے ارشادِ گرامی: ’’میں نبی تھا‘‘ میں اشارہ آپ ﷺ کی روحِ مقدسہ کی طرف اور آپ ﷺ کی حقیقت کی طرف ہے۔ حقائق کی معرفت سے ہماری عقلیں قاصر ہیں، ان کا علم فقط ان کے خالق کو ہے۔
وَمَنْ أَمَدَّهُ بِنُورٍ إِلَهِيٍّ، ثُمَّ إِنَّ تِلْكَ الْحَقَائِقَ يُؤْتِي اللَّهُ كُلَّ حَقِيقَةٍ، مِنْهَا مَا يَشَاءُ فِي الْوَقْتِ الَّذِي يَشَاءُ، فَحَقِيقَةُ النَّبِيِّ ﷺ قَدْ تَكُونُ مِنْ قَبْلِ خَلْقِ آدَمَ، آتَاهَا اللَّهُ ذَلِكَ الْوَصْفَ بِأَنْ يَكُوْنَ خَلَقَهَا مُتَهَيِّئَةً لِذَلِكَ، وَأَفَاضَهُ عَلَيْهَا مِنْ ذَلِكَ الْوَقْتِ، فَصَارَ نَبِيًّا، وَكَتَبَ اسْمَهُ عَلَى الْعَرْشِ، وَأَخْبَرَ عَنْهُ بِالرِّسَالَةِ لِيَعْلَمَ مَلَائِكَتُهُ وَغَيْرُهُمْ كَرَامَتَهُ عِنْدَهُ، فَحَقِيقَتُهُ مَوْجُوْدَةٌ مِنْ ذَلِكَ الْوَقْتِ، فَإِنْ تَأَخَّرَ جَسَدُهُ الشَّرِيفُ الْمُتَّصِفُ بِهَا، وَاتِّصَافُ حَقِيقَتِهِ بِالْأَوْصَافِ الشَّرِيفَةِ الْمُفَاضَةِ عَلَيْهِ مِنَ الْحَضْرَةِ الْإِلَهِيَّةِ حَاصِلٌ مِنْ ذَلِكَ الْوَقْتِ، وَإِنَّمَا يَتَأَخَّرُ الْبَعْثُ وَالتَّبْلِيغُ لِتَكَامُلِ جَسَدِهِ ﷺ الَّذِي يَحْصُلُ بِهِ التَّبْلِيغُ، وَكُلُّ مَا لَهُ مِنْ جِهَةِ اللَّهِ تَعَالَى، وَمِنْ جِهَةِ تَأَهُّلِ ذَاتِهِ الشَّرِيفَةِ وَحَقِيقَتِهِ مُعَجَّلٌ لَا تَأَخُّرَ فِيْه، وَكَذَلِكَ اسْتِنْبَاؤُهُ وَإِيتَاؤُهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ، وَإِنَّمَا الْمُتَأَخِّرُ تَكَوُّنُهُ وَتَنَقُّلُهُ إِلَى أَنْ ظَهَرَ ﷺ وَغَيْرُهُ مِنْ أَهْلِ الْكَرَامَةِ.
وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے نور کے ذریعے مدد دیتا ہے (ان پر بھی حقائق منکشف ہوئے ہیں)۔ پھر یہ اللہ تعالیٰ کی منشاء پر منحصر ہے کہ وہ ان حقائق میں سے جو حقیقت اور وصف جس کو چاہے اور جس وقت چاہے عطا فرما دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضورنبی اکرم ﷺ کی حقیقت جو کہ تخلیقِ آدم علیہ السلام سے پہلے موجود تھی، اس کو اس صفتِ نبوت کے ساتھ متصف فرمایا ہے، اس حقیقتِ محمدیہ کو قبولِ نبوت کے لیے تیار کیا اور آپ ﷺ کی نبوت کا آپ ﷺ کی حقیقت پر اُسی وقت سے اجراء فرمایا۔ تب سے آپ ﷺ نبی ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اسمِ گرامی کو عرشِ الٰہی پر لکھا۔ اس کے ذریعے آپ ﷺ کی رسالت کی خبر دی تاکہ فرشتوں سمیت سب کو معلو م ہو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ ﷺ کا کتنا اکرام اور مقام ہے۔ آپ ﷺ کی حقیقت اس وقت بھی موجود تھی اگر چہ آپ ﷺ کا جسمِ اقدس جو اس وصفِ نبوت سے موصوف ہے، بعد میں وجود میں آیا۔ حقیقتِ محمدیہ اسی وقت سے ان اوصاف مبارکہ سے متصف ہے جو اللہ رب العزت کی بارگاہ سے آپ ﷺ کو عطاہوئے، البتہ آپ ﷺ کے جسم اطہر کی تخلیق کی تکمیل تک آپ ﷺ کی بعثت اور فريضۂ تبليغ کو مؤخر کیا گیا۔ اس لیے کہ تبلیغ کا فریضہ جسمِ اطہر کے وجود کے ساتھ ادا ہوسکتا ہے، جسمِ اطہر کے علاوہ آپ ﷺ کی حقیقت کا ہر وہ پہلو خواہ اس کا تعلق جہت الٰہی سے تھا یا آپ ﷺ کی ذات و حقیقت کی جہت سے، اس کے اظہار میں کوئی تاخیر نہیں کی گئی۔آپ ﷺ کو نبی بنانے، کتاب عطاکرنے اور حکم و نبوت عطا کرنے کا معاملہ بھی اسی طرح مقدم ہے۔ آپ ﷺ کے وجود مسعود کی کائنات میں منتقلی کو آپ ﷺ اور دیگر اہلِ کرامت کے ظہور تک مؤخر کیا گیا۔
وَلَا نُمَثِّلُ بِالْأَنْبِيَاءِ بَلْ بِغَيْرِهِمْ قَدْ يَكُونُ إِفَاضَةُ اللَّهِ تِلْكَ الْكَرَامَةَ عَلَيْهِ بَعْدَ وُجُودِهِ بِمُدَّةٍ كَمَا يَشَاءُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى، وَلَا شَكَّ أَنَّ كُلَّ مَا يَقَعُ فَاللَّهُ تَعَالَى عَالِمٌ بِهِ مِنَ الْأَزَلِ، وَنَحْنُ نَعْلَمُ عِلْمَهُ بِذَلِكَ بِالْأَدِلَّةِ الْعَقْلِيَّةِ وَالشَّرْعِيَّةِ، وَيَعْلَمُ النَّاسُ مِنْهَا مَا يَصِلُ إِلَيْهِمْ عِنْدَ ظُهُورِهِ لِعِلْمِهِمْ نُبُوَّةَ النَّبِيِّ ﷺ حِينَ نَزَلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ فِي أَوَّلِ مَا جَاءَهُ بِهِ جِبْرِيلُ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ، وَهُوَ فِعْلٌ مِنْ أَفْعَالِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى مِنْ جُمْلَةِ مَعْلُومَاتِهِ مِنْ آثَارِ قُدْرَتِهِ وَإِرَادَتِهِ وَاخْتِيَارِهِ فِي مَحَلٍّ خَاصٍّ يَتَّصِفُ بِهَا.
اِس اَمر کی مثال ہم صرف انبیاء کرام علیہم السلام میں ہی پیش نہیں کرتے بلکہ ان کے علاوہ دیگر لوگوں میں سے بھی کسی پر بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وصفِ کرامت کا فیض اس کے پیدا ہونے کے مدتوں بعد جب تک اللہ سبحانہ وتعالیٰ چاہے، جاری ہوتا رہتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر امرِ واقع سے اللہ تعالیٰ ازل سے باخبر ہے۔ ہمیں اس بات کا علم عقلی اور شرعی دلائل کی بنا پر ہوتا ہے اور لوگوں کو اس کا علم اس کے ظہور کے وقت تب ہوا جب انہیں حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت کا علم ہوا۔ جب آپ ﷺ پر قرآن نازل ہوا، سب سے پہلے حضرت جبریل علیہ السلام اسے لے کر آئے۔ یہ فعل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے افعال، اس کی تمام معلومات، اس کی قدرت کے آثار، اس کے ارادہ اور اختیار میں سے ہے کہ وہ کسی امر کو ایک خاص محل میں کسی صفت کے ساتھ متصف فرماتا ہے۔
فَهَاتَانِ مَرْتَبَتَانِ: الْأُولَى: مَعْلُومَةٌ بِالْبُرْهَانِ، وَالثَّانِيَةُ: ظَاهِرَةٌ لِلْعِيَانِ، وَبَيْنَ الْمَرْتَبَتَيْنِ وَسَائِطُ مِنْ أَفْعَالِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى تَحْدُثُ عَلَى حَسَبِ اخْتِيَارِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى. مِنْهَا: مَا يَظْهَرُ لِبَعْضِ خَلْقِهِ حِينَ حُدُوثِهِ، وَمِنْهَا: مَا يَظْهَرُ لَهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ، وَمِنْهَا: مَا يَحْصُلُ بِهِ كَمَالٌ لِذَلِكَ الْمَحَلِّ، وَإِنْ لَمْ يَظْهَرْ لِأَحَدٍ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ، وَذَلِكَ يَنْقَسِمُ إِلَى كَمَالٍ يُقَارِنُ ذَلِكَ الْمَحَلَّ مِنْ حِينِ خَلْقِهِ، وَإِلَى كَمَالٍ يَحْصُلُ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ، وَلَا يَصِلُ عِلْمُ ذَلِكَ إِلَيْنَا إِلَّا بِالْخَبَرِ الصَّادِقِ، وَالنَّبِيُّ ﷺ خَيْرُ الْخَلْقِ، فَلَا كَمَالَ لِمَخْلُوقٍ أَعْظَمُ مِنْ كَمَالِهِ، وَلَا مَحَلَّ أَشْرَفُ مِنْ مَحَلِّهِ، يُعَرِّفُنَا بِالْخَبَرِ الصَّحِيحِ حُصُولَ ذَلِكَ الْكَمَالِ مِنْ قَبْلِ خَلْقِ آدَمَ لِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ ﷺ مِنْ رَبِّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى، وَأَنَّهُ أَعْطَاهُ النُّبُوَّةَ مِنْ ذَلِكَ الْوَقْتِ، ثُمَّ أَخَذَ لَهُ الْمَوَاثِيقَ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ، وَعَلَى أُمَمِهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّهُ الْمُقَدَّمُ عَلَيْهِمْ، وَأَنَّهُ نَبِيُّهُمْ وَرَسُوْلُهُمْ.
وَلِذَلِكَ دَخَلَتْ لَامُ الْقَسَمِ فِي ﴿لَتُؤۡمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥۚ﴾ (آل عمران، 3: 81).
یہ دو درجات ہیں، ان دونوں درجات میں سے پہلا درجہ دلائل سے معلوم ہوا اور دوسرا درجہ اس کے اظہار سے معلوم ہوا۔ ان دونوں درجات کے درمیان افعالِ الٰہی کے کئی واسطے آتے ہیں جو حسبِ اختیار الٰہی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بعض مخلوقات کے لیے ان کی تخلیق کے وقت ہی ظاہر ہوئے، جب کہ بعض وہ ہیں جو ان کی تخلیق کےبعد ظا ہر ہوئے۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جنہیں اسی مقام پر کمال حاصل ہوا اگرچہ مخلوق میں سے کسی کو معلوم نہیں ہوا۔ یہ کمال پھر دو جہتوں میں منقسم ہوا: ایک وہ کمال جو اس محل کے ساتھ اس کے تخلیق کے وقت سے ہی تھا اور ایک وہ کمال جو اس کے بعد اسے حاصل ہوا اور اس بات کا علم ہمیں کسی سچی خبر کے ذریعہ مل سکتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ تمام مخلوقات میں سے سب سے بہترین ہیں، مخلوق میں سے کسی کو بھی آپ ﷺ کے کمال سے زیادہ کمال نہیں ملا، کسی کا کوئی درجہ اور مقام آپ ﷺ کے درجہ اور مقام سے زیادہ نہیں ہے۔ ہمیں صحیح حدیث سے اس کمال کے حصول کا علم ہوا جو ہمارے نبی مکرم ﷺ کو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے اللہ رب العزت کی بارگاہ سے عطا ہوا تھا۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے اس وقت آپ ﷺ کو شرفِ نبوت سے نوازا، پھر اس پر تمام انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی اُمتوں سے میثاق (پختہ عہد) لیا تاکہ وہ جان لیں کہ آپ ﷺ ان سے پہلے ہیں اور یہ کہ آپ ﷺ ان کے نبی اور رسول ہیں۔
اسی لیے لامِ قسم يہاں اِس آیت ﴿لَتُؤۡمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥۚ﴾ پر داخل ہے۔
(لَطِيفَةٌ أُخْرَى): وَهِيَ كَأَنَّهَا أَيْمَانُ الْبَيْعَةِ الَّتِي تُؤْخَذُ لِلْخُلَفَاءِ، وَلَعَلَّ أَيْمَانَ الْخُلَفَاءِ أُخِذَتْ مِنْ هُنَا. فَانْظُرْ هَذَا التَّعْظِيمَ الْعَظِيمَ لِلنَّبِيِّ ﷺ مِنْ رَبِّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى، فَإِذَا عُرِفَ ذَلِكَ فَالنَّبِيُّ ﷺ هُوَ نَبِيُّ الْأَنْبِيَاءِ، وَلِهَذَا ظَهَرَ ذَلِكَ فِي الْآخِرَةِ جَمِيعُ الْأَنْبِيَاءِ تَحْتَ لِوَائِهِ، وَهُوَ فِي الدُّنْيَا كَذَلِكَ لَيْلَةَ الْإِسْرَاءِ صَلَّى بِهِمْ، وَلَوِ اتَّفَقَ مَجِيئُهُ فِي زَمَنِ آدَمَ وَنُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى عليهم السلام وَجَبَ عَلَيْهِمْ وَعَلَى أُمَمِهِمْ الْإِيمَانُ بِهِ وَنُصْرَتُهُ.
ایک لطیف نکتہ: یہ میثاق خلفاء و حکمرانوں سے بیعت کا حلف لینے کی مثل ہے۔ ممکن ہے کہ خلفاء سے بيعت لینے کے حلف کا تصور یہیں سے ماخوذ ہو۔ آگاہ رہیں کہ رب کائنات کی بارگاہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی کس قدر عظیم الشان تعظیم پائی گئی۔ جب یہ بات معلوم ہوگئی تو ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ تمام نبیوں کے نبی ہیں۔ يہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن تمام انبیاء علیہم السلام آپ ﷺ کے جھنڈے تلے جمع ہوں گے۔ دنیا میں اس اعزاز کا نظارہ شبِ اسراء میں ہوا تھا جب آپ ﷺ نےانبیاء کرام علیہم السلام کو نماز پڑھائی۔ اگر آپ ﷺ کی بعثت حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ جیسے جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں ہوتی تو ان انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کا آپ ﷺ پر ایمان لانا اور آپ ﷺ کی نصرت کرنا واجب ہوتا۔
وَبِذَلِكَ أَخَذَ اللَّهُ الْمِيْثَاقَ عَلَيْهِمْ فَنُبُوَّتُهُ عَلَيْهِمْ وَرِسَالَتُهُ إِلَيْهِمْ مَعْنًى حَاصِلٌ لَهُ، وَإِنَّمَا أَثَرُهُ يَتَوَقَّفُ عَلَى اجْتِمَاعِهِمْ مَعَهُ، فَتَأَخُّرُ ذَلِكَ الْأَمْرِ رَاجِعٌ إلَى وُجُودِهِمْ لَا إِلَى عَدَمِ اتِّصَافِهِ مِمَّا تَقْتَضِيْهِ، وَفَرْقٌ بَيْنَ تَوَقُّفِ الْفِعْلِ عَلَى قَبُولِ الْمَحَلِّ، وَتَوَقُّفِهِ عَلَى أَهْلِيَّةِ الْفَاعِلِ، فَهُنَا لَا تَوَقُّفَ مِنْ جِهَةِ الْفَاعِلِ، وَلَا مِنْ جِهَةِ ذَاتِ النَّبِيِّ ﷺ الشَّرِيْفَةِ، وَإِنَّمَا هِيَ مِنْ جِهَةِ وُجُودِ الْعَصْرِ الْمُشْتَمِلِ عَلَيْهِمْ، فَلَوْ وُجِدَ فِي عَصْرِهِمْ لَزِمَهُمُ اتِّبَاعُهُ بِلَا شَكٍّ، وَلِهَذَا يَأْتِي عِيْسَى فِي آخِرِ الزَّمَانِ عَلَى شَرِيْعَتِهِ، وَهُوَ نَبِيٌّ كَرِيْمٌ عَلَى حَالَتِهِ، لَا كَمَا ظَنَّ بَعْضُ النَّاسِ، أَنَّهُ يَأْتِي وَاحِدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ، نَعَمْ هُوَ وَاحِدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ لِمَا قُلْنَاهُ، أَنَّ اتِّبَاعَهُ لِلنَّبِيِّ ﷺ وَإِنَّمَا يَحْكُمُ بِشَرِيْعَةِ نَبِيِّنَا ﷺ بِالْقُرْآنِ وَالسُّنَّةِ، وَكُلُّ مَا فِيْهَا مِنْ أَمْرٍ أَوْ نَهْيٍ، فَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِهِ كَمَا يَتَعَلَّقُ بِسَائِرِ الْأُمَّةِ، وَهُوَ نَبِيٌّ كَرِيْمٌ عَلَى حَالِهِ لَمْ يَنْقُصْ مِنْهُ شَيْءٌ، وَكَذَلِكَ لَوْ بُعِثَ النَّبِيُّ ﷺ فِي زَمَانِهِ أَوْ فِي زَمَنِ مُوْسَى وَإِبْرَاهِيْمَ وَنُوْحٍ وَآدَمَ عليهم السلام كَانُوْا مُسْتَمِرِّيْنَ عَلَى نُبُوَّتِهِمْ وَرِسَالَتِهِمْ إِلَى أُمَمِهِمْ، وَالنَّبِيُّ ﷺ نَبِيٌّ عَلَيْهِمْ وَرَسُوْلٌ إِلَى جَمِيْعِهِمْ، فَنُبُوَّتُهُ وَرِسَالَتُهُ أَعَمُّ وَأَشْمَلُ وَأَعْظَمُ، وَتَتَّفِقُ مَعَ شَرَائِعِهِمْ فِي الْأُصُولِ لِأَنَّهَا لَا تَخْتَلِفُ، وَتُقَدَّمُ شَرِيْعَةُ النَّبِيِّ ﷺ فِيمَا عَسَاهُ يَقَعُ الْاِخْتِلَافُ فِيهِ مِنَ الْفُرُوعِ، إِمَّا عَلَى سَبِيلِ التَّخْصِيْصِ، وَإِمَّا عَلَى سَبِيْلِ النَّسْخِ، أَوْ لَا نَسْخَ وَلَا تَخْصِيصَ بَلْ تَكُونُ شَرِيعَةُ النَّبِيِّ ﷺ فِي تِلْكَ الْأَوْقَاتِ بِالنِّسْبَةِ إلَى أُوْلَئِكَ الْأُمَمِ مَا جَاءَتْ بِهِ أَنْبِيَاؤُهُمْ، وَفِي هَذَا الْوَقْتِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ هَذِهِ الشَّرِيْعَةُ، وَالْأَحْكَامُ تَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْأَشْخَاصِ وَالْأَوْقَاتِ، وَبِهَذَا بَانَ لَنَا مَعْنَى حَدِيثَيْنِ خَفِيَ عَنَّا، أَحَدُهُمَا: قَوْلُهُ ﷺ : «بُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً».
أخرجه أحمدبن حنبل في المسند، 1: 301، الرقم: 2742
كُنَّا نَظُنُّ أَنَّهُ مِنْ زَمَانِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَبَانَ أَنَّهُ جَمِيعُ النَّاسِ أَوَّلُهُمْ وَآخِرُهُمْ، وَالثَّانِي: قَوْلُهُ ﷺ : «كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ» كُنَّا نَظُنُّ أَنَّهُ بِالْعِلْمِ، فَبَانَ أَنَّهُ زَائِدٌ عَلَى ذَلِكَ عَلَى مَا شَرَحْنَاهُ، وَإِنَّمَا يُفَرَّقُ الْحَالُ بَيْنَ مَا بَعْدَ وُجُودِ جَسَدِهِ ﷺ وَبُلُوْغِهِ الْأَرْبَعِيْنَ. وَمَا قَبْلَ ذَلِكَ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْمَبْعُوثِ إِلَيْهِمْ، وَتَأَهُّلِهِمْ لِسَمَاعِ كَلَامِهِ. ...
وَتَعْلِيقُ الْأَحْكَامِ عَلَى الشُّرُوْطِ قَدْ يَكُونُ بِحَسَبِ الْمَحَلِّ الْقَابِلِ، وَقَدْ يَكُوْنُ بِحَسَبِ الْفَاعِلِ الْمُتَصَرِّفِ، فَهَاهُنَا التَّعْلِيقُ إِنَّمَا هُوَ بِحَسَبِ الْمَحَلِّ الْقَابِلِ، وَهُوَ الْمَبْعُوثُ إِلَيْهِمْ، وَقَبُولُهُمْ سَمَاعَ الْخِطَابِ وَالْجَسَدِ الشَّرِيفِ الَّذِي يُخَاطِبُهُمْ بِلِسَانِهِ، وَهَذَا كَمَا يُوَكِّلُ الْأَبُ رَجُلًا فِي تَزْوِيجِ ابْنَتِهِ، إِذَا وَجَدَتْ كُفُؤًا، فَالتَّوْكِيْلُ صَحِيْحٌ، وَذَلِكَ الرَّجُلُ أَهْلٌ لِلْوَكَالَةِ وَوَكَالَتُهُ ثَابِتَةٌ، وَقَدْ يَحْصُلُ تَوَقُّفُ التَّصَرُّفِ عَلَى وُجُودِ كُفُؤٍ، وَلَا يُوْجَدُ إِلَّا بَعْدَ مُدَّةٍ، وَذَلِكَ لَا يَقْدَحُ فِي صِحَّةِ الْوَكَالَةِ وَأَهْلِيَّةِ التَّوْكِيْلِ.
السبكي في الفتاوى، 1: 38-41
اِسی بات پر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام سے پختہ عہد لیا ہے۔ سو انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت ایک ایسامعنی ہے جو آپ ﷺ کے لیے ان کے ادوارمیں حاصل ہوا۔ اس معنی کا اثر اس بات پر موقوف تھا کہ تمام انبیاء علیہم السلام آپ ﷺ کے ساتھ جمع ہوں، تو یہ امر ان کے وجود تک مؤخر رہا۔ نبوت و رسالت میں یہ بات نہیں کہ اس کے تقاضے سے وہ متصف نہ تھے۔ کسی فعل کا اس کے محل کی قبولیت پر انحصار اور فاعل کی اہلیت پر منحصر ہونے میں فرق ہے۔ یہاں فاعل کے اعتبار سے نبوت کا اثر موقوف نہیں اور نہ ہی ذاتِ نبی ﷺ کے اعتبار سے موقوف ہے بلکہ اس کا توقف انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا زمانہ پائے جانے کی وجہ سے تھا، جس میں اس کی تعمیل ہوئی۔ اگر آپ ﷺ کی بعثت ان انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں ہوتی تو بلا شبہ ان پر آپ ﷺ کی اتباع لازم ہوتی۔ لہٰذا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانے میں حضور نبی اکرم ﷺ کی شریعت کے مطابق تشریف لائیں گے، جب کہ وہ نبی مکرم خود نبوت سے سرفراز ہو چکے ہوں گے۔ اُن کا آنا ویسا نہیں ہوگا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے، بلکہ وہ اس امت میں سے ایک فرد ہوں گے۔ اس حوالے سے یہی بات درست ہے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اتباع کرنے والوں میں سے ہوں گے۔ وہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کی شریعت یعنی قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ شریعت محمدی علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کے اوامر و نواہی کے ساتھ آپ علیہ السلام کاتعلق اسی طرح ہوگا جس طرح دیگر تمام امت کاتعلق ہے۔ اس کے باوجود وہ اسی طرح نبی مکرم ہوں گے جیسے تھے، ان کی نبوت میں کسی چیز کی کمی نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح اگر آپ ﷺ کو حضرت عیسیٰ یا پھر حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم، حضرت نوح یا حضرت آدم علیہم السلام کے دورِ نبوت میں مبعوث کیا جاتا تو وہ اپنی اپنی امتوں کی طرف نبی و رسول ہوتے۔ حضور نبی اکرم ﷺ ان انبیاء کرام علیہم السلام پر نبی ہوتے اور ان سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول بن کر مبعوث ہوتے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت ورسالت عام ہے، تمام نبوتوں کو شامل ہے اور سب سے بڑی نبوت ہے۔ شرعی اُصولوں کے اعتبار سے آپ ﷺ کی نبوت دیگر انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں سے متفق ہے اور ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی شریعتِ مطہرہ ان کی شریعتوں سے متقدم ہے، اگر کہیں اختلاف رونما ہوتا ہے تو وہ فروعات میں ہوتا ہے۔ یہ اختلاف یا تو تخصیص کی بنا پر یعنی آپ ﷺ کی خصوصیت کی بناء پر ہوتا ہے، یا نسخ کی بناء پر، یا تخصیص اور نسخ دونوں کی وجہ سے بھی نہیں بلکہ اِس وجہ سے ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی شریعت اپنے زمانے کے تقاضے کے مطابق ہے بہ نسبت سابقہ شریعتوں کے، جو ان انبیاء کرام علیہم السلام کے زمانے کے مطابق تھیں۔یہ شریعت موجودہ دور میں اس اُمت کے اعتبار سے ہے، افراد اور زمانے کے تقاضے کے مطابق فروعات بدلتی رہتی ہیں۔ اس سے ہمارے لیے دو حدیثوں کا وہ معنی واضح ہوگیا جو ہم سے مخفی تھا۔ ایک روایت میں آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں‘‘۔ ہمارا خیال تھا کہ اس ارشادِ گرامی سے مراد آپ ﷺ کی بعثتِ مبارکہ سے قیامت تک کا زمانہ ہے لیکن واضح ہوا کہ اس سے مراد اگلے پچھلے تمام لوگ ہیں۔ دوسری روایت میں آپ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’میں اُس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی‘‘۔ اس بارے میں ہمارا یہ خیال تھا کہ اس سے مراد علم ہے، لیکن واضح ہوتا ہے کہ یہ اس بحث سے اضافی بات ہے جس کی ہم نے تشریح کی ہے۔ آپ ﷺ کی دونوں حالتیں جدا ہیں۔ ایک آپ ﷺ کے وہ احوال جو آپ ﷺ کی پیدائش سے لے کر آپ ﷺ کے چالیس سال کی عمر تک پہنچنے کے درمیان ہیں، دوسرے احوال اس سے پہلے کے زمانے میں ان لوگوں کی نسبت سے ہیں جن کی طرف آپ ﷺ کو مبعوث کیا گیا تھا اور وہ آپ ﷺ کا کلام سننے کے اہل ہوئے تھے۔
اَحکام کا شرائط سے معلق ہونا کبھی تو آنے والے حالات کے پیش نظر ہوتا ہے اور کبھی تصرف کرنے والے فاعل کی وجہ سے۔ یہاں حکم کی تعلیق قبول کرنے والے محل کے اعتبار سے ہے۔محل وہ لوگ ہیں جن کی طرف آپ ﷺ مبعوث ہوئے، ان کا آپ ﷺ کی سماعت کو قبول کرنا ہے اور آپ ﷺ کے جسدِ اَطہر کو قبول کرنا جو اپنی زبان مبارک سے ان سے مخاطب ہوگا۔ یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی باپ کسی شخص کو اپنی بیٹی کے نکاح کے لیے وکیل بنائے۔ لہذا جب کوئی کفو مل جائے تو وکالت صحیح ہوگی، وہ شخص وکالت کا اہل ہوگا اور اس کی وکالت ثابت ہوگی۔ کبھی اس کا تصرف کفو نہ پائے جانے کی وجہ سے موقوف ہوتا ہے اور بڑے عرصے بعد کفو مل جاتا ہے تو اس درمیانی عرصہ کی وجہ سے وکالت کے صحیح ہونے اور اہل ہونے پر کوئی رکاوٹ نہیں بنتا۔
قَالَ الْإِمَامُ الْقَسْطَلَانِيُّ فيِ ‹‹الْمَوَاهِبِ اللَّدُنِّيَّةِ››: أَنَّهُ لَمَّا تَعَلَّقَتْ إِرَادَةُ الْحَقِّ تَعَالَی بِإِيْجَادِ خَلْقِهِ، وَتَقْدِيْرِ رِزْقِهِ، أَبْرَزَ الْحَقِيْقَةَ الْمُحَمَّدِيَّةَ مِنَ الْأَنْوَارِ الصَّمَدِيَّةِ فِي الْحَضْرَةِ الْأَحَدِيَّةِ، ثُمَّ سَلَخْ مِنْهَا الْعَوالِمَ كُلَّهَا، عُلُوَّهَا وَسُفْلَهَا، عَلى صُوْرَةِ حُكْمِهِ، كَمَا سَبَقَ فِي سَابِقِ إِرَادَتِه وَعِلْمِهِ، ثُمَّ أَعْلَمَهُ تَعَالَى بِنُبُوَّتِهِ، وَبَشَّرَهُ بِرِسَالَتِهِ، هَذَا وَآدَمُ لَمْ يَكُنْ إِلَّا كَمَا قَالَ، بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ، ثُمَّ انْبَجَسَتْ مِنْهُ ﷺ عُيُوْنُ الْأَرْوَاحِ، فَظَهَرَ بِالْمَلَأِ الْأَعْلَى، وَهُوَ بِالْمَنْظَرِ الْأَجْلَى، فَكَانَ لَهُمُ الْمَوْرِدُ الأَحْلَى، فَهُوَ ﷺ الْجِنْسُ الْعَالِي عَلَى جَمِيْعِ الْأَجْنَاسِ، وَالْأَبُ الْأَكْبَرُ لِجَمِيْعِ الْمَوْجُوْدَاتِ وَالنَّاسِ.
امام قسطلانی نے ’المواہب اللدنیہ‘ میں کہا ہے: جب حق تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تخلیق اور ان کو زرق مقدر کرنے کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہِ اَحدیت میں انوارِ صمدیہ میں سے حقیقتِ محمدی ﷺ کو آشکار کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس (حقیقتِ محمدیہ) سے تمام عوالم کو خواہ وہ بلند تھے یا پست، اپنے ازلی ارادے اور علم کے مطابق جیسے فیصلہ فرمایا پیدا کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضورنبی اکرم ﷺ کو آپ ﷺ کی نبوت سے آگا ہ کیا اور رسالت کی بشارت دی۔ یہ اس وقت ہوا جب یہ کائنات اور حضرت آدم ﷺ موجود نہیں تھے، جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی‘‘۔ پھر آپ ﷺ کی روح اقدس سے اَرواحِ انبیاء کے چشمے پھوٹ پڑے اور پھر ملاء اعلیٰ (بلند مرتبہ فرشتوں) میں آپ ﷺ کی حقیقت کا کامل ظہور ہوا۔ یہ ان کے لیے نہایت خوش نما منظر اور شیریں مقام ہے۔آپ ﷺ تمام جنس مخلوقات سے اعلیٰ شان کے حامل جنس اور تمام موجودات اور لوگوں کے عظیم باپ یعنی اصل ہیں۔
وَلَمَّا انْتَهى الزَّمَانُ بِاسْمِ الْبَاطِنِ فِي حَقِّهِ ﷺ إِلَى وُجُوْدِ جِسْمِهِ، وَارْتِبَاطِ الرُّوْحِ بِهِ، انْتَقَلَ حُكْمُ الزَّمَانِ إِلَى الْاِسْمِ الظَّاهِرِ، فَظَهَرَ مُحَمَّدٌ ﷺ بِكُلِّيَّتِهِ جِسْمًا وَرُوْحًا، فَهُوَ ﷺ وَإِنْ تَأَخَّرَتْ طِيْنَتُهُ، فَقَدْ عُرِفَتْ قِيْمَتُهُ، فَهُوَ خَزَانَةُ السِّرِّ، وَمَوْضِعُ نُفُوْذِ الْأَمْرِ، فَلَا يُنْفَذُ أَمْرٌ إِلَّا مِنْهُ، وَلَا يُنْقَلُ خَيْرٌ إِلَّا عَنْهُ.
القسطلاني في المواهب اللدنية، 1: 39
جب آپ ﷺ کے حق میں اسمِ باطن کے ساتھ زمانہ آپ ﷺ کے جسمانی وجود اور آپ ﷺ کے ساتھ روح کے تعلق تک پہنچا تو زمانے کا حکم اسمِ ظاہر کی طرف منتقل ہوا۔ پھر سیدنا محمد مصطفی ﷺ مکمل طور پر جسم اور روح کے ساتھ ظاہر ہوئے۔ اگرچہ آپ ﷺ کا (جسمانی)خمیر مبارک بعد میں بنا لیکن آپ ﷺ کی قدر و منزلت واضح ہو گئی۔ لہذا آپ ﷺ خزانہ سر الٰہی ہیں اور نفاذِ امر کا مقام ہیں (یعنی ایسا مقام جہاں سے کمالات ظاہر ہوتے ہیں)۔ ہر امر آپ ﷺ کی جانب سے نافذ ہوتا ہے اور ہربھلائی آپ ﷺ سے ہی منتقل ہوتی ہے۔
وَهَذِهِ الرِّوَايَاتُ مُتَقَارِبَةٌ، وَالْمُرَادُ بِهَا الْإِخْبَارُ بِوُجُوْبِ نُبُوَّتِهِ، أَيْ: ثُبُوْتُهَا لِرُوْحِهِ الشَّرِيْفَةِ الْمَخْلُوْقَةِ قَبْلَ الْأَرْوَاحِ، وَرِوَايَةُ: ‹‹مَتَی كُتِبْتَ؟›› مَعْنَی الْكِتَابَةِ فِيْهَا: الْوُجُوْبُ، وَالثُّبُوْتُ فِي الْخَارِجِ أَيْضًا، فَإِنَّ الْكِتَابَةَ تُسْتَعْمَلُ فِيْمَا هُوَ وَاجِبٌ ظَاهِرٌ فِي الْخَارِجِ، نَحْوُ: ﴿كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلصِّيَامُ﴾ (البقرة، 2: 183)، وَ﴿كَتَبَ ٱللَّهُ لَأَغۡلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِيْ﴾ (المجادلة، 58: 21)، وَ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلۡقِصَاصُ﴾ (البقرة، 2: 178).
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 66، الرقم: 16674، والحاكم في المستدرك على الصحيحين، 2: 665، الرقم: 4209، وابن أبي شيبة في المصنف، 7: 329، الرقم: 36553، والطبراني في المعجم الكبير، 12: 92، الرقم: 12571، وأيضا في، 20: 353، الرقم: 833، والديلمي في مسند الفردوس، 3: 284، الرقم: 4845
یہ تمام روایات معنی کے اعتبار سے قریب قریب ہیں، ان سے مراد آپ ﷺ کی نبوت کے وجوب و ثبوت کی اطلاع دینا ہے۔ یعنی آپ ﷺ کی روح مبارکہ کے لیے نبوت کا تمام ارواح سے قبل ثابت ہونا ہے۔ روایت میں ’’مَتَی كُتِبْتَ؟‘‘ کے الفاظ کا معنی ’واجب ہونا اور خارجی اعتبار سے ثابت ہونا‘ ہے۔ کیوں کہ کتابت اس امر میں استعمال کیا جاتا ہے جب وہ خارج میں ظاہری طور پر بھی واجب ہو، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں‘‘، ’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ یقینا میں اور میرے رسول ضرور غالب ہو کر رہیں گے‘‘، اور ’’اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے۔‘‘
وَحَاصِلُ الْمَعْنَى: أَنَّ اللهَ تَعَالَی أَفَاضَ عَلَی رُوْحِ نَبِيِّهِ الشَّرِيْفَةِ، أَوْ حَقِيْقَتِهِ الْمُحَمَّدِيَّةِ وَصْفَ النُّبُوَّةِ، فِي وَقْتٍ كَانَ آدَمُ لَا يَزَالُ فِي مَرَِاحِلِ الْتَخْلِيْقِ، قَبْلَ نَفْخِ الرُّوْحِ فِيْهِ، وَإِفَاضَةُ النُّبُوَّةِ فِي هَذَا الْوَقْتِ تَسْتَلْزِمُ تَقَدُّمَ خَلْقِهِ عَلَی غَيْرِهِ كَمَا هُوَ ظَاهِرٌ. وَهَذَا مَا يَقْصِدُهُ أَصْحَابُ السِّيَرِ بِقَوْلِهِمْ: ‹‹خُلِقَ نُوْرُهُ قَبْلَ الْأَشْيَاءِ››، لِأَنَّ رُوْحَهُ الشَّرِيْفَةَ كَانَتْ مَوْجُوْدَةً مُتَّصِفَةً بِالنُّبُوَّةِ قَبْلَ نَفْخِ الرُّوْحِ فِي آدَمَ كَمَا تَبَيَّنَ، وَالرُّوْحُ جِسْمٌ نُوْرَانِيٌّ لَطِيْفٌ، كَمَا حَقَّقَهُ ابْنُ الْقَيِّمِ وَغَيْرُهُ، وَكَذَا إِذَا قُلْنَا: إِنَّ الْمُرَادَ حَقِيْقَتُهَا، فَإِنَّهَا أَمْرٌ نُوْرَانِيٌّ تَقْصُرُ عُقُوْلُنَا عَنْ مَعْرِفَتِهِ، إِذَ الْحَقَائِقُ تَقْصُرُ الْعُقُوْلُ عَنْ مَعْرِفَتِهَا.
بیان کردہ معنی ومفہوم کا خلاصہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ نےاپنے محبوب نبی ﷺ کی روحِ اقدس پر یا حقیقتِ محمدی ﷺ پر صفتِ نبوت کا فیض اُس وقت جاری فرمایا تھا جب حضرت آدم علیہ السلام روح پھونکنے سے پہلے تخلیقی مراحل میں سے گزر رہےتھے۔ اُس وقت نبوت کا اِجراء اس بات کا متقاضی تھا کہ آپ ﷺ کی تخلیق دیگر مخلوقات سے پہلے ہو۔ یہی وہ بات ہے جس کا اِظہار سیرت نگاروں نے اس قول سے کیا ہے: ’’رسول اللہ ﷺ کے نور کو ہر شے کی تخلیق سے پہلے پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ اس لیے کہ آپ ﷺ کی وصفِ نبوت سے متصف روحِ مبارکہ حضرت آدم علیہ السلام کے جسم میں روح پھونکنے سے قبل موجود تھی، جیسا کہ واضح طور پر بیان ہو چکا ہے۔ علامہ ابن القیم وغیرہ نے ثابت کیا ہے کہ روح لطیف نورانی جسم ہے، اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ’’اس سے مراد حقیقت ہے‘‘ تو اس کامطلب وہ نورانی امر ہے جس کو سمجھنے سے ہماری عقلیں قاصر ہیں کیوں کہ حقائق کی معرفت سے عقلیں قاصر ہیں۔
Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved