نبوت محمدی ﷺ کا آغاز کب ہوا؟

اَلْبَابُ الْأَوَّلُ: مَتَى بَدَأَتِ النُّبُوَّةُ الْمُحَمَّدِيَّةُ ﷺ ؟

(نبوتِ محمدیہ ﷺ کا آغاز کب ہوا؟)

لَا يَجْدُرُ أَنْ يَغِيْبَ عَنِ الْبَالِ أَنَّ هُنَاكَ أَحَادِيْثَ صَحِيْحَةً، تَتَعَلَّقُ بِأَوَّلِيَّةِ النُّبُوَّةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ، عَلَى نُبُوَّةِ جَمِيْعِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِينَ، فَمِنْهَا:

یہ اَمر قلب و ذہن میں راسخ ہونا چاہیے کہ نبوتِ محمدیہ کے تمام اَنبیاء و رُسل علیہم السلام کی نبوتوں سے مقدم ہونے کے بارے میں صحیح اَحادیث وارِد ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

1. كَانَ النَّبِيُّ ﷺ نَبِيًّا ثَابِتًا فِي الْخَارِجِ قَبْلَ خَلْقِ آدَمَ علیہ السلام

(حضور ﷺ تخلیقِ آدم علیہ السلام سے بھی پہلے نبی تھے)

1. قَالَ التِّرْمِذِيُّ: حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ الْوَلِيْدُ بْنُ شُجَاعِ بْنِ الْوَلِيْدِ الْبَغْدَادِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيْدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 66، الرقم: 16674، وأيضًا في 5: 59، الرقم: 20615، وأيضًا، 5: 379، الرقم: 23260، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ، 5: 585، الرقم: 3609، والحاكم في المستدرك، 2: 665، الرقم: 4209–4210، وابن أبي شيبة في المصنف، 7: 329، الرقم: 36553، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9: 142–143، الرقم: 123–124، والطبراني في المعجم الأوسط، 4: 272، الرقم: 4175، وأيضًا في المعجم الكبير، 12: 92، 119، الرقم: 12571، 12646، وأيضًا، 20: 353، الرقم: 833، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 7: 122، 9: 53، وأيضًا في دلائل النبوة، 1: 48، الرقم: 8، والبخاري في التاريخ الكبير، 7: 374، الرقم: 1606، والخلال في السنة، 1: 188، الرقم: 200، بإسناد صحيح، وابن أبي عاصم في السنة، 1: 179، الرقم: 411، إسناده صحيح، وأيضًا في الآحاد والمثاني، 5: 347، الرقم: 2918، وعبد الله بن أحمد في السنة، 2: 398، الرقم: 864، إسناده صحيح، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1: 148، وأيضًا، 7: 60، وابن حبان في الثقات، 1: 47، وأبو سعد النيسابوري في شرف المصطفى ﷺ، 1: 286، الرقم: 75، وابن قانع في معجم الصحابة، 2: 127، الرقم: 591، وأيضًا، 3: 129، الرقم: 1103، واللالكائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة، 4: 753، الرقم: 1403، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1: 10، وأيضًا في الإكمال، 1: 428، الرقم: 898، والديلمي في مسند الفردوس، 3: 284، الرقم: 4845، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 26: 382، 45: 488–489، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 3: 70، الرقم: 1032، وأيضًا، 5: 82، الرقم: 2472، وأيضًا، 10: 146، الرقم: 5292، والقزويني في التدوين في أخبار قزوين، 2: 244، وذكره العسقلاني في تهذيب التهذيب، 5: 147، الرقم: 290، وأيضًا في الإصابة، 6: 239، وأيضًا في تعجيل المنفعة، 1: 542، الرقم: 1518، وابن عبد البر في الاستيعاب، 4: 1488، الرقم: 2582، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 7: 384، 11: 110، وقال: هذا حديث صالح السند. وابن كثير في البداية والنهاية، 2: 307، 320–321، والجرجاني في تاريخ جرجان، 1: 392، الرقم: 653، وذكره السيوطي في الخصائص الكبرى، 1: 7–8، 18، وأيضًا في الحاوي للفتاوي، 2: 100، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1: 60، والهيثمي في مجمع الزّوائد، 8: 223، وقال: رواه الطّبراني والبزار، والألباني في سلسلة الأحاديث الصّحيحة، 4: 471، الرقم: 1856.

رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَاللَّفْظُ لَهُ، وَالْحَاكِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

امام ترمذی بیان کرتے ہیں: ہمیں ابو ہمام الولید بن شجاع بن ولید البغدادی نے بیان کیا ہے، انہوں نے کہا: ہمیں ولید بن مسلم نے، انہوں نے اوزاعی سے، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے ابی سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی؟ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی (یعنی روح اور جسم کاباہمی تعلق ابھی قائم نہ ہوا تھا)۔

اسے امام احمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے کہا: اس کی سند کے راوی ثقہ ہیں۔

2. وَقَالَ الْآجُرِّيُّ فِي ‹‹الشَّرِيْعَةِ››: وَأَنْبَأَنَا الْفِرْيَابِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ يَزِيْدَ الدِّمَشْقِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيْدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللَّهِ ﷺ : مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ وَنَفْخِ الرُّوْحِ فِيْهِ.

أخرجه الآجرى في الشرىعة، 3: 1407، الرقم: 946، والحاكم في المستدرك، 2: 665، الرقم: 4210، وابن حبان في الثقات، 1: 47.

امام آجری نے ’الشریعہ‘ میں بیان کیا ہے: ہمیں امام فریابی نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہمیں عمرو بن حفص بن یزید دمشقی نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہمیں ولید بن مسلم نے اوزاعی سے، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا: یا رسول اللہ ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (اُس وقت جب کہ) آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح پھونکے جانے کے مرحلہ میں تھی۔

3. وَقَالَ تَمَّامٌ الرَّازِيُّ فِي ‹‹الْفَوَائِدِ››: أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَرَ مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ اللَّبَّادُ، ثَنَا أَبُو الطَّيِّبِ طَاهِرُ بْنُ عَلِيٍّ بِطَبَرِيَّةَ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَثَلَاثِمِائَةٍ، ثَنَا إِبْرَاهِيْمُ بْنُ سَلَمَةَ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، فَذَكَرَهُ كَذَلِكَ.

أخرجه تمام الرازي في الفوائد، 1: 240، الرقم: 581

تمّام الرازی نے ’الفوائد‘ میں بیان کیا ہے: ہمیں ابو عمر محمد بن سلیمان بن داود اللباد نے خبر دی ہے، انہوں نے کہا: ہمیں طبریہ میں سن 304 میں ابوطیب طاہر بن علی نے بيان کیا، انہوں نے کہا: ہمیں ابراہیم بن سلمہ نے، انہوں نے کہا: ہمیں محمد بن شعيب نے امام اوزاعی سے مذکورہ بالا طریق سے يہی حدیث بیان کی ہے۔

4. وَحَدَّثَ بِهِ التِّرْمِذِيُّ. قَالَ: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّيَّاتُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْحَفَّارُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ، قَالَ: حَدَّثَنِيَ الْوَلِيدُ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَذَكَرَهُ.

أخرجه الخطيب البغدادي في تارىخ بغداد، 3: 70، الرقم: 1032

امام ترمذی نے بیان کیا ہے: ہمیں احمد بن ابی جعفر نے خبر دی ہے، انہوں نے کہا: ہمیں عمر بن محمد الزیات نے، انہوں نے کہا: ہمیں محمد بن علی الحفار نے، انہوں نے کہا: ہمیں ابو ہمام الولید بن شجاع نے، انہوں نے کہا: مجھے ولید بن مسلم نے، انہوں نے اوزاعی سے، انہوں نے یحییٰ سے، انہوں نے ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا۔ اس سے آگے حدیث کے سابقہ الفاظ ہی ہیں۔

5. وَتَابَعَهُ أَبُوْ بَكْرِ بْنُ أَبِي خَيْثَمَةَ فِي «تَارِيْخِهِ»، فَحَدَّثَ بِهِ عَنِ الْوَلِيْدِ بْنِ شُجَاعٍ. وَخَرَّجَهُ التِّرْمِذِيُّ مِنْ طَرِيْقِ الْأَوْزَاعِيِّ مَوْصُوْلًا كَذَلِكَ. وَلَفْظُهُ: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللَّهِ، مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ». وَخَرَّجَهُ الْحَاكِمُ فِي مُسْتَدْرَكِهِ وَصَحَّحَهُ.

امام ابوبکر بن ابی خیثمہ نے اپنی ’’التاریخ‘‘ میں امام ترمذی کی پیروی کی ہے۔ انہوں نےولید بن شجاع سے روایت کیا ہے، اور امام ترمذی نے بھی اسی طرح امام اوزاعی کے طریق سے متصل سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی؟ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی (یعنی روح اور جسم کاباہمی تعلق بھی ابھی قائم نہ ہوا تھا)۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے المستدرک میں روایت کرتے ہوئے صحیح قرار دیا ہے۔

b وَلَهُ طُرُقٌ أُخْرَى، فَمِنْهَا:

یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

(1) رَوَاهُ خَيْثَمَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الطَّبَرِيُّ بِصُوَرٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى كُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وَآدَمُ مُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ رضي الله عنه».

أخرجه تمام الرازي في الفوائد، 1: 240، الرقم: 580

خیثمہ بن سلیمان روایت کرتے ہیں: ہمیں ابو جعفر محمد بن علی الطبری نے مختلف طرق سے، انہوں نےحفص بن عمر البصری سے، انہوں نے اوزاعی سے، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کب سے نبی تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم علیہ السلام (کا جسم ابھی) مٹی میں گندھا ہوا تھا۔

(2) رَوَاهُ أَبُو الطَّيِّبِ طَاهِرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ : مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ علیہ السلام وَنَفْخِ الرُّوحِ فِيهِ.

أخرجه تمام الرازي في الفوائد، 1: 240-241، الرقم: 581.

ابو طيب طاہر بن علی روایت کرتے ہیں: ہمیں ابراہیم بن سلمہ نے، انہوں نے محمد بن شعیب سے، انہوں نے اَوزاعی سے، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے ابوسلمہ سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی تھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (اُس وقت جب) ابھی آدم علیہ السلام کی تخلیق رُوح پھونکے جانے کے مرحلہ میں تھی۔

(3) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْعَبَّاسِ الْبَجَلِيُّ، قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ بْنِ صُبَيْحٍ، قَالَ: نا نَصْرُ بْنُ مُزَاحِمٍ، قَالَ: نا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِىًّا؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.

أخرجه أحمد في المسند، 5: 59، الرقم: 20615، والطبراني في المعجم الكبير، 12: 92، الرقم: 12571، وابن أبي عاصم في السنة، 1: 179، الرقم: 410

رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالطَّبَرَانِيُّ، وَاللَّفْظُ لَهُ، وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ، وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ، وَرِجَالُهُ كُلُّهُمْ ثِقَاتٌ رِجَالُ الصَّحِيْحِ، وَقَالَ الذَّهَبِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ صَالِحُ السَّنَدِ.

ہمیں علی بن عباس البجلی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہمیں محمد عمارہ بن صبیح نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہمیں نصر بن مزاحم نے، انہوں نے کہا: ہمیں قیس بن الربیع نے، انہوں نے جابر سے، انہوں نے شعبی سےاور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ! آپ کے لیے نبوت کب فرض کی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اُس وقت بھی نبی تھا جب) آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم (کی تخلیق) کے مرحلہ میں تھے۔

اِسے امام احمد نے، طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ اِس حدیث کی سند صحیح، تمام رجال ثقہ اورصحیح حدیث کے رجال ہیں۔ امام ذہبی نے فرمایا ہے: یہ حدیث عمدہ سند والی ہے۔

(4) وَقَالَ الطَّبَرَانِيُّ: حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا زَيْدُ بْنُ الْحَرِيشِ، ثنا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ جُوَيْبِرٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَتَى أُخِذَ مِيثَاقُكَ؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ».

أخرجه الطبراني في المعجم الكبير، 12: 119، الرقم: 12646.

امام طبرانی روایت کرتے ہیں: ہمیں عبدان بن احمد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہمیں زید بن الحریش نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہمیں یحیی بن کثیر ابو نضر نے بیان کیا، انہوں نے جویبر سے، انہوں نے ضحاک بن مزاحم سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ سے میثاق (یعنی وعدۂ نبوت) کب لیا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میرا میثاقِ نبوت اس وقت ہو چکا تھا) جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔

(5) وَأَخْرَجَ ابْنُ سَعْدٍ فِي طَبَقَاتِهِ عَنْ أَبِي الْجَدْعَاءِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللَّهِ، مَتَى جُعِلْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «إِذْ آدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ».

أخرجه ابن سعد في الطبقات الكبرى، 1: 148

امام ابن سعد نے ’الطبقات الکبری‘ میں حضرت ابن ابی الجدعا کی روایت بیان کی ہے، وہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضور ﷺ سے پوچھا: (یا رسول اللہ!) آپ کب نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔

(6) وَقَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُلَيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قَالَ أَعْرَابِيٌّ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ : مَتَى كُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ لَهُ النَّاسُ: مَهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : دَعُوْهُ، كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ.

أخرجه ابن سعد في الطبقات الكبرى، 1: 148

امام ابن سعد نے ایک اور روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے: ہمیں اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے بیان کیا ہے، انہوں نے خالد الحذاء سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں: ایک دیہاتی صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کب نبی تھے؟ لوگوں نے اس دیہاتی صحابی رضی اللہ عنہ سے کہا: اس سوال سے رُک جاؤ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے کچھ نہ کہو۔ (پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ) میں اُس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔

(7) قَالَ الْفِرْيَابِيُّ: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيْدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيْدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيْقٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ.

أخرجه الفِرْيابِي في كتاب القدر: 28، الرقم: 15

امام فریابی نے بیان کیا ہے: ہمیں قتیبہ بن سعید نے، انہوں نے کہا: ہمیں یزید بن زُریع نے، انہوں نے خالد الحذاء سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے اِسی طرح کی ایک روایت بیان کی ہے۔

(8) وَقَالَ الدَّارِمِيُّ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَنْبَأَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ خَالِدٍ وَهُوَ الْحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْجَدْعَاءِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ».

أخرجه الدارمي في الرد على الجهمية: 45، الرقم: 260

امام دارمی نے روایت کیا ہے: ہمیں عمر بن عون نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہمیں ہشیم نے بیان کیا، انہوں نے خالد الحذاء سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے حضرت ابو الجدعاء سے روایت کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں: ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کب نبی لکھ دیے گئے تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔

(9) خَرَّجَهُ الذَّهَبِيُّ فِي ‹‹مُعْجَمِهِ›› عَنْ أَبِي يَحْيَى الْجَحْدَرِيِّ، عَنْ كَامِلِ بْنِ طَلْحَةَ عَنْ حَمَّادٍ نَحْوَهُ.

ذكره الذهبي في معجم الشيوخ، 2: 13

اِسی روایت کو امام ذہبی نے اپنی ’’المعجم‘‘ میں حضرت ابو یحییٰ الجحدری سے، انہوں نے کامل بن طلحہ سے اور انہوں نے حماد سے بیان کیا ہے۔

(10) وَحَدَّثَ بِهِ ابْنُ سَعْدٍ فِي ‹‹الطَّبَقَاتِ›› عَنْ عَفَّانَ بْنِ مُسْلِمٍ وَعَمْرِو بْنِ عَاصِمٍ الْكَلَابِيِّ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ. فَذَكَرَ مِثْلَهُ.

أخرجه ابن سعد في الطبقات الكبرى، 7: 59

اسی روایت کو ابن سعد نے ’الطبقات الکبری‘ میں عفان بن مسلم اور عمرو بن عاصم الکلابی سے روایت کیا ہے۔ ان دونوں نے کہا ہے: ہمیں حماد بن سلمہ نے روایت کیا ہے۔ پھر انہوں نے مذکورہ حدیث بیان کی ہے۔

(11) حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ رَجُلٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَى جُعِلْتَ نَبِىًّا؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 66، الرقم: 16476.

رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

ہمیں سریج بن نعمان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہمیں حماد نے بیان کیا، انہوں نے خالد حذاء سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے ایک صحابی سے روایت کیا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو کب نبی بنایا گیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔

اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔

(12) وَتَابَعَهُ وُهَيْبٌ فِيْمَا رَوَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي «الْمُصَنَّفِ» فَقَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، وَعَمِّي أَبُوْ بَكْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيْقٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ وَذَكَرَ الْحَدِيْثَ.

أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7: 329، الرقم: 36553

ان کی اتباع میں وہيب نے بھی روایت بیان کی ہے جس کو ابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی کتاب ’’المصنف‘‘ میں روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے: مجھے میرے والد گرامی اور چچا ابوبکر دونوں نے یہ حدیث بیان کی اور کہا: ہمیں عفان نے بيان کیا، انہوں نے وہیب سے، انہوں نے خالد الحذاء سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا، اور پھر یہ (مذکور ہ بالا) حدیث بیان کی۔

(13) وَرَوَاهُ أَبُو بَكْرٍ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الْمُسْتَفَاضِ الْفِرْيَابِيُّ أَيْضًا مُرْسَلًا. فَقَالَ: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ رضي الله عنه، قَالَ: قِيْلَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ : مَتَى كُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ».

أخرجه الفريابي في القدر: 29، الرقم: 16، والدارقطني في العلل الواردة في الأحاديث النبوية، 14: 73-74

اِس حدیث کو امام ابوبکر جعفر بن محمد بن حسن بن مستفاض فریابی نے بھی مرسلاً روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہمیں قتیبہ نے، وہ کہتے ہیں: ہمیں حماد بن زید نے، انہوں نے بديل بن میسرہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا: آپ کب نبوت سے سرفراز ہوئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔

(14) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، قَالَا: ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْعَوَقِيُّ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ رضي الله عنه، قَالَ: قُلْتُ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ : مَتَى كُنْتَ نَبِىًّا؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.

أخرجه الحاكم في المستدرك، 2: 665، الرقم: 4209، والبخاري في التارىخ الكبير، 7: 374، الرقم: 1606

رَوَاهُ الْحَاكِمُ، وَالْبُخَارِيُّ فِي الْكَبِيْرِ. وَقَالَ الْحَاكِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.

ہمیں ابو نضر فقیہ اور احمد بن محمد بن سلمہ عنزی نے روایت کیا۔ ان دونوں نے کہا: ہمیں عثمان بن سعید دارمی اور محمد بن سنان عوقی نے روایت کیا۔ وہ کہتے ہیں: ہمیں ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، انہوں نے بدیل بن میسرہ سے، انہوں نے عبداللہ بن شقیق سے، اور انہوں نے حضرت میسرۃ الفجر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: آپ کب منصبِ نبوت پر فائز ہوئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔

اس حدیث کو امام حاکم نے اور امام بخاری نے التاريخ الکبير میں روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا ہے: یہ حدیث صحیح الإسناد ہے۔

(15) وَخَرَّجَهُ إِسْمَاعِيْلُ بْنُ نُجَيْدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ يُوْسُفَ السُّلَمِيُّ، فِي «جُزْءٍ مِنْ أَحَادِيْثِ أَبِي عَمْرٍو السُّلَمِيِّ» فَقَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْعَوَقِيُّ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.

أخرجه أبو عمرو إسماعيل بن نجيد في جزء من أحاديث أبي عمرو السلمي شيوخه،: 324، الرقم: 963

اسماعيل بن نجيد بن احمد بن يوسف السلمی نے ’جُزْء مِنْ أَحَادِيْثِ أَبِي عَمْرٍو السُّلَمِيّ‘ میں اس حدیث کی تخریج کی ہے۔ انہوں نے کہا: ہمیں محمد بن ایوب الرازی نے بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہمیں محمد بن سنان العوقی نے بیان کیا۔ بعد میں اسی مذکورہ حدیث کو بیان کیا ہے۔

(16) وَتَابَعَهُمَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ صَالِحٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيْسَى الْقَاضِي، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيْلَ بْنِ يُوْسُفَ السُّلَمِيُّ، وَالْحَسَنُ بْنُ سَلَامٍ السَّوَّاقُ، عَنِ الْعَوَقِيِّ مِثْلَهُ.

ذكره الذهبي في سير أعلام النبلاء، 7: 384

اور احمد بن اسحاق بن صالح، احمدبن محمد بن عیسی القاضی، محمد بن اسماعیل بن يوسف السلمی اور حسن بن سلام السواق نے ان دونوں کی اتباع کی ہے۔ انہوں نے عوقی سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔

(17) وَرَوَاهُ أَبُو عَمْرِو بْنُ نُجَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوْبَ الرَّازِيِّ بِهِ.

ذكره الذهبي في سير الأعلام النبلاء، 31: 451

اس حدىث كو ابو عمرو بن نجىد نے محمد بن ایوب الرازی سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

(18) وَحَدَّثَ بِهِ شُعَيْبُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ طَهْمَانَ مِثْلَهُ.

أخرجه الآجري في الشرىعة، 3: 1407، الرقم: 945، وذكره ابن عدي في الكامل في ضعفاء الرجال، 4: 168، الرقم: 988

اس حدیث کو شعیب بن حرب نے ابراہیم بن طہمان سےاسی طرح روایت کیا ہے۔

(19) وَقَالَ ابْنُ أَبِي خَيْثَمَةَ فِي ‹‹التَّارِيْخِ››: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ: حَدَّثَناَ إِبْرَاهِيْمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ رضي الله عنه؛ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرَّوْحِ وَالْجَسَدِ.

أخرجه ابن أبي خيثمة في التاريخ، 1: 553، الرقم: 2277

ابن ابی خیثمہ نے اپنی ’تاریخ‘ میں کہا ہے: ہمیں محمد بن سنان نے، انہوں نے کہا: ہمیں ابراہیم بن طہمان نے، انہوں نے بدیل بن میسرہ سے، انہوں نے عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے، اور انہوں نے حضرت میسرہ الفجر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ کب نبی لکھ دیے گئے تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔

(20) وَحَدَّثَ بِهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِيْنٍ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ.

أخرجه الطبراني في المعجم الكبير، 20: 353، الرقم: 834، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 9: 53

اس حدیث کو ابو جعفر محمد بن عثمان بن ابی شيبہ نے یحییٰ بن معین سے روایت کیا ہے۔

(21) وَتَابَعَهُ مَطِيْنٌ، وَزَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ، وَعَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، وَيَعْقُوْبُ الدَّوْرَقِيُّ، عَنِ ابْنِ مَهْدِيٍّ.

أخرجه الآجري في الشريعة، 3: 1405-1406، الرقم: 943-944

مطین، زید بن اَخزم، عباس العنبری اور يعقوب الدورقی نے ابن مہدی سے مذکورہ روایت بیان کرکے سابقہ راویوں کی پیروی کی ہے۔

تَنْبِيهٌ:

وَ(مَيْسَرَةُ):

(أ) هُوَ مَيْسَرَةُ بْنُ مَسْرُوْقٍ الْعَبْسِيُّ، يُقَالُ: مَيْسَرَةُ الْفَجْرِ، يُعَدُّ فِي أَعْرَابِ الْبَصْرَةِ.

ذكره ابن الجوزي في تلقيح فهوم أهل الأثر في عيون التاريخ والسير: 185

قَالَ ابْنُ الْفَرَجِ: وَاسْمُ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي الْجَدْعَاءِ، وَمَيْسَرَةُ لَقَبٌ لَهُ.

الإكمال لرجال أحمد: 428، الرقم: 898

حدیث کے راوی حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ کا نام میسرہ بن مسروق عبسی ہے، جنہیں میسرۃ الفجر کہا جاتا ہے۔ ان کا شمار بصرہ کے اعراب میں ہوتا ہے۔ ابن الفرج نے کہا ہے: حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن ابی الجدعاء ہے جب کہ میسرہ ان کا لقب ہے۔

(ب) وَقِيْلَ: ابْنُ أَبِي الْحَمْسَاءِ، رَوَى عَنْهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ شَقِيْقٍ غَيْرَ حَدِيْثٍ، وَقِيْلَ: إِنَّهُ مَيْسَرَةُ الْفَجْرِ.

ذكره العسقلاني في تهذيب التهذيب، 5: 147، الرقم: 290

ایک قول یہ ہے کہ ان کانام ابن ابی الحمساء ہے۔ ان سے عبداللہ بن شقیق نے کئی احادیث روایت کی ہیں۔ یہ بھی منقول ہے کہ وہ میسرۃ الفجر ہیں۔

(ج) وَالْجُمْهُوْرُ عَلَى أَنَّهُمْ ثَلَاثَةٌ، قَالَ الْإِمَامُ مُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ فِي كِتَابِهِ ‹‹الْمُنْفَرِدَاتُ وَالْوُحْدَانُ››: وَمِنْهُمْ: (عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي الْجَدْعَاءِ)، وَ(عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي الْحَمْسَاءِ)، وَ(مَيْسَرَةُ الْفَجْرِ) لَمْ يَرْوِ عَنْهُمْ إِلَّا عَبْدُ اللهِ ابْنُ شَقِيْقٍ.

ذكره مسلم في المنفردات والوحدان: 44-45، الرقم: 28-30

جمہور کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ تینوں الگ الگ راوی ہیں۔ امام مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب ’المنفردات والوحدان‘ میں کہاہے: اس حدیث کے رواۃ میں عبداللہ بن ابی الجدعاء، عبداللہ بن ابی الحمساء اور میسرۃ الفجر شامل ہیں۔ ان سب سے صرف حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔

(22) وَحَدِيْثُ مَيْسَرَةَ هَذَا خَرَّجَهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ فِي ‹‹مُسْنَدِهِ››

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5: 59، الرقم: 20615

وَعِنْدَهُ: مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ وَهُوَ فِي ‹‹الْمُسْتَدْرَكِ لِلْحَاكِمِ››

أخرجه الحاكم في المستدرك، 2: 665، الرقم: 4209

وَكِتَابِ ‹‹السُّنَّةِ›› لِأَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي عَاصِمٍ بِنَحْوِهِ.

أخرجه ابن أبي عاصم في السنة، 1: 179، الرقم: 410

حضرت میسرہ کی یہ حدیث امام احمد بن حنبل نے اپنی ’مسند‘ میں روایت کی ہے اور ان کے الفاظ ہیں: مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا (آپ کب نبی لکھ دیے گئے تھے)؟ یہ حدیث امام حاکم کی ’المستدرک‘ اور امام ابو بکر بن ابی عاصم کی ’السنہ‘ میں بھی اسی طرح وارد ہوئی ہے۔

(23) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ أَعْرَابِيٌّ لِرَسُوْلِ اللَّهِ ﷺ : مَتَى كُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ لَهُ النَّاسُ: مَهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : «دَعُوْهُ، كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ».

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 66، الرقم: 16674، والبخاري في التاريخ الكبير، 7: 374، رقم: 1606، والحاكم في المستدرك على الصحيحين، 2: 665، الرقم: 4209، وابن أبي شيبة في المصنف، 7: 329، الرقم: 36553، والطبراني في المعجم الكبير، 12: 92، الرقم: 12571، وأيضا، 20: 353، الرقم: 833، والديلمي في مسند الفردوس، 3: 284، الرقم: 4845.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاكِمُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ.

ہمیں قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہمیں یزید بن زُریع نے بیان کیا، انہوں نے خالد الحذاء سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ایک دیہاتی صحابی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: آپ کب نبوت سے سرفراز ہوئے؟ اس پر لوگوں نے اسے کہا: خاموش ہو جاؤ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے کہنے دو۔ میں اُس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، حاکم، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نےبیان کیا ہے۔

(24) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا زَيْدُ بْنُ الْحَرِيشِ، ثنا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ جُوَيْبِرٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَى أُخِذَ مِيْثَاقُكَ؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.

أخرجه الطبراني في المعجم الكبير، 12: 119، الرقم: 12646

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

ہمیں عبدان بن احمد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہمیں زید بن الحریش نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہمیں یحییٰ بن کثیر ابو نضر نے بیان کیا، انہوں نے جویبر سے، انہوں نے ضحاک بن مزاحم سے، اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں: میں نے ایک مرتبہ عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ سے میثاق (یعنی وعدۂ نبوت) کب لیا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

(25) أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ بْنُ يُونُسَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ ﷺ : مَتَى اسْتُنْبِئْتَ؟ فَقَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ حِيْنَ أُخِذَ مِنِّيَ الْمِيْثَاقُ.

أخرجه ابن سعد في الطبقات الكبرى، 1: 148

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.

ہمیں فضل بن دکین نے بتایا، وہ کہتے ہیں: ہمیں اسرائیل بن یونس نے، انہوں نے حضرت جابر سے، انہوں نے حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔ انہوں نے کہا: ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: آپ کب شرفِ نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب مجھ سے میثاقِ نبوت لیا گیا تھا، اُس وقت آدم علیہ السلام روح اور جسم کی تخلیق کے درمیانی مرحلہ میں تھے۔

اسے ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

(26) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ الزُّبَيْرِ الْحَلَبِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ رُوَيْمٍ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ قَالَ: قَالَ عُمَرُ رضي الله عنه: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَى جُعِلْتَ نَبِىًّا؟ قَالَ: وَآدَمُ مُنْجَدِلٌ فِي الطِّيْنِ.

ذكره ابن كثىر في البداية والنهاية، 2: 321، والسيوطي في الدر المنثور، 6: 569

أَخْرَجَهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ، وَذَكَرَهُ ابْنُ كَثِيْرٍ، وَالْحَافِظُ السُّىُوْطِيُّ.

ہمیں سلیمان بن احمد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہمیں یعقوب بن اسحاق بن زبیر حلبی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہمیں ابو جعفر نفیلی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہمیں عمرو بن واقد نے بیان کیا، انہوں نے عروہ بن رویم سے اور انہوں نے صنابحی سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو کب نبی بنایا گیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب آدم علیہ السلام (کا جسم ابھی) مٹی میں گندھا ہوا تھا۔

اس حدیث کو امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر اور امام سیوطی نے اسے ان کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔

2. مَعْنَى الْحَدِيْثِ: كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ

(حدیثِ نبوی ’میں اُس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمياني مرحلہ میں تھی‘ کا معنی ومفہوم)

إِنَّ اللهَ تَعَالَى أَظْهَرَ نُبُوَّتَهُ ﷺ لِلْمَلَائِكَةِ قَبْلَ تَمَامِ خَلْقِ آدَمَ علیہ السلام ، وَلَیْسَ مَعْنَی الْحَدِيثِ أَنَّهُ قَدَّرَ ذَلِكَ الْوَقْتَ أَنَّهُ نَبِيٌّ، كمَا قَالَ بَعْضُهُمْ، فَإِنَّ ذَلِكَ التَّقْدِیْرَ وَالْعِلْمَ كانَ أَزَلِیًّا قَبْلَ خَلْقِ آدَمَ بِجَمِیْعِ الْكائِنَاتِ، فَأَيُّ خُصُوْصِیَّةٍ تَبْقَی لِنُبُوَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ فِي ذَلِكَ؟

اللہ تعالیٰ نے حضورنبی اکرم ﷺ كى نبوت كو تخلىقِ آدم علیہ السلام کی تکمیل سے بھی پہلے فرشتوں پر آشکار کردیا تھا۔ حدیث مبارک کا مفہوم یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُس وقت تقدیر میں لکھ دیا تھا کہ آپ ﷺ نبی ہوں گے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ اِس طرح کا تقدیری اَمر اور علم تو تخلیقِ آدم علیہ السلام سے پہلے ازل میں تمام کائنات کے لیے تھا، اس میں سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی نبوت کی کون سی خصوصیت باقی رہ جاتی ہے!

وَلَا يَجْدُرُ أَنْ يَتَبَادَرَ إِلَى الذِّهْنِ أَنَّ نُبُوَّةَ مُحَمَّدٍ ﷺ لَمْ تَكُنْ إِلَّا فِي عِلْمِ اللهِ، فَذَلِكَ لَا يَتْرُكُ مِيْزَةً خَاصَّةً لَهُ ﷺ ، لِذَلِكَ فَإِنَّ الْعِلْمَ الْإِلَهِيَّ لَمْ يَكُنْ قَاصِرًا عَلَى الْعِلْمِ بِنُبُوَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ وَحْدَهُ. وَالْحَقِيْقَةُ أَنَّ جَمِيْعَ الْكَائِنَاتِ كَانَتْ فِي عِلْمِ اللهِ تَعَالَى. غَيْرَ أَنَّ السُّؤَالَ هُنَا: ‹‹مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ››؟ ذَلِكَ أَنَّهُ كَانَ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ، أَي: كَانَ لَهُ شَرَفُ النُّبُوَّةِ قَبْلَ خَلْقِ آدَمَ علیہ السلام . قَالَ ذَلِكَ بَقِيَّةُ الْمُجْتَهِدِيْنَ أَبُو شَامَةَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ إِسْمَاعِيْلَ بْنِ إِبْرَاهِيْمَ الشَّافِعِيُّ.

یہ اَمر ذہن نشین رہے کہ نبوتِ محمدی عَلَى صَاحِبِهَا الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ کا علمِ الہٰی میں ہونا آپ ﷺ کی نبوت کا امتیاز قرار نہیں پاتا کیونکہ علمِ اِلٰہی فقط نبوتِ محمدی ﷺ تک محدود نہیں تھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ’آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی‘؟ اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا: میں اُس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان (مرحلۂ تخلیق) میں تھے یعنی آپ ﷺ تخلیقِ آدم علیہ السلام سے بھی پہلے شرفِ نبوت سے سرفراز تھے۔ ائمہ و مجتہدین کی علامت ابو شامۃ عبد الرحمن بن اسماعیل بن ابراہیم الشافعی نے يہی بات کہی ہے۔

(1) مِنْهُمْ مَنْ سَبَقَهُ إِلَى مَعْنَاهُ الْحَافِظُ أَبُو نُعَيْمٍ الْأَصْبَهَانِيُّ، كَمَا فِي الْبِدَايَةِ وَالنِّهَايَةِ لِابْنِ كَثِىْرٍ، فَقَالَ: فَفِي هَذَا الْحَدِيْثِ الْفَضِيْلَةُ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ لِمَا أَوْجَبَ اللهُ لَهُ النُّبُوَّةَ قَبْلَ تَمَامِ خَلْقِ آدَمَ، وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَّكُوْنَ هَذَا الْإِيْجَابُ هُوَ مَا أَعْلَمَ اللهُ مَلَائِكَتَهُ مَا سَبَقَ فِي عِلْمِهِ وَقَضَائِهِ مِنْ بَعْثِهِ لَهُ ﷺ فِي آخِرِ الزَّمَانِ.

ابن كثىر في البداية والنهاية، 2: 321-322

اس معنی کو جن ائمہ کرام نے اختیار کیا ہے ان میں حافظ ابو نعیم الاصبہانی بھی ہیں جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ‘ میں بیان کیا ہے کہ حافظ ابونعیم نے کہا ہے: اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی فضیلت کا بیان ہے کہ اللہ رب العزت نے تخلیقِ آدم علیہ السلام کی تکمیل سے پہلے آپ ﷺ کو منصب نبوت سے سرفراز کیا تھا۔ یہ احتمال بھی ہےکہ اس جواب سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو پہلے سےعلم عطا فرما رکھا ہے جو اس کے علم اور قضاء میں آخری زمانہ میں آپ ﷺ کی بعثت کے حوالے سے تھا۔

(2) وَذَكَرَ الطِّيْبِيُّ: أَنَّ هَذَا الْحَدِيْثَ كَانَ لَمَّا سَأَلَهُ ﷺ الصَّحَابَةُ رضي الله عنهم : مَتَى وَجَبَتْ لَهُ النُّبُوَّةُ؟ فَأَخْبَرَهُمْ أَنَّهَا وَجَبَتْ لَهُ ﷺ وَآدَمُ فِي تِلْكَ الْحَالَةِ.

الطيبي في الكاشف عن حقائق السنن، 11: 3643

امام طیبی نے بیان کیا ہے: یہ ارشاد گرامی تب وارد ہوا جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےآپ ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی؟ آپ ﷺ نے انہیں آگاہ کیا کہ اُس وقت جب آدم علیہ السلام ابھی تخلیق کے مرحلہ میں تھے۔

(3) وَقَالَ الْقَسْطَلَانِيُّ: إِنَّ هَذَا الْحَدِيْثَ يُثْبِتُ نُبُوَّةَ مُحَمَّدٍ ﷺ قَبْلَ خَلْقِ آدَمَ علیہ السلام.

القسطلاني في المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 49

امام قسطلانی نے کہا ہے: یہ حدیث آپ ﷺ کی نبوت کا تخلیقِ آدم علیہ السلام سے پہلے واجب ہونا ثابت کرتی ہے۔

(4) وَقَدْ عَلَّقَ الشَّيْخُ عَبْدُ الْحَقِّ الْمُحَدِّثُ الدِّهْلَوِيُّ عَلَى هَذَا الْحَدِيْثِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الْحَدِيْثَ يَدُلُّ عَلَى أَوَّلِيَّةِ نُبُوَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ عَلَى نُبُوَّةِ آدَمَ علیہ السلام .

الشيخ عبد الحق المحدث الدهلوي في لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح، 9: 234-235، الرقم: 5758

شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے: یہ حدیث نبوتِ محمدیہ ﷺ کا سیدنا آدم علیہ السلام کی نبوت سے پہلے ہونا ثابت کرتی ہے۔

(5) وَلِلْمَزِيْدِ مِنَ التَّوْضِيْحِ نُوْرِدُ قَوْلَ الشَّيْخِ أَنْوَر شَاه الْكَاشَمِيْرِيِّ: أَيْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ نَبِيًّا، وَجَرَتْ عَلَيْهِ أَحْكَامُ النُّبُوَّةِ مِنْ ذَلِكَ الْحِيْنِ بِخِلَافِ الْأَنْبِيَاءِ السَّابِقِيْنَ، فَإِنَّ الْأَحْكَامَ جَرَتْ عَلَيْهِمْ بَعْدَ الْبِعْثَةِ.

أنور شاه الكاشميري في العرف الشذي شرح سنن الترمذي، أبواب المناقب: 485

اس کی مزید وضاحت کے لیے ہم شیخ انور شاہ کشمیری کا قول بیان کرتے ہیں: (اُنہوں نے فرمایا: ) حضور نبی اکرم ﷺ اُس وقت بھی نبی تھے اور آپ ﷺ پر اَحکامِ نبوت کا اِجراء تب سے ہوا، بر خلاف دیگر انبیاء سابقین علیہم السلام کے کیوں کہ ان انبیاء کرام علیہم السلام پر اَحکام نبوت کا اِجراء ان کی بعثت کے بعد سے ہوا۔

(6) وَقَدْ أَوْرَدَ الشَّيْخُ الْكَاشَمِيْرِيُّ قَوْلَ الْإِمَامِ الْجَامِيِّ: إِنَّهُ ﷺ كَانَ نَبِيًّا قَبْلَ نَشْأَةِ الْعُنْصَرِيَّةِ.

أنور الشاه الكاشميري في العرف الشذي شرح سنن الترمذي، أبواب المناقب: 485

شیخ انور شا ہ کشمیری نے امام جامی کا وہ قول نقل کیا ہے جس میں ہے کہ آپ ﷺ بشری وجود کی تشکیل سے پہلے بھی نبی تھے۔

(7) وَقَالَ الشَّيْخُ وَلِيُّ اللهِ الْمُحَدِّثُ الدِّهْلَوِيُّ فِي شَرْحِ هَذَا الْحَدِيْثِ فِي ‹‹التَّفْهِيْمَاتِ الْإِلَهِيَّةِ››: سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فِي الْمَنَامِ سُؤَالًا رُوْحَانِيًّا عَنْ مَعْنَى قَوْلِهِ ﷺ : «كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ مُنْجَدِلٌ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّيْنِ»، فَفَاضَ عَلَى رُوْحِي مِنْ رُوْحِهِ الْكَرِيْمَةِ الصُّوْرَةَ الْمِثَالِيَّةَ الَّتِي كَانَتْ قَبْلَ أَنْ يُوْجَدَ فِي عَالَمِ الْأَجْسَامِ، وَأَنَّ فَيْضَانَهَا فِي الْحَضْرَةِ الْمِثَالِيَّةِ كَانَ عِنْدَ كَوْنِ آدَمَ مُنْجَدِلًا بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّيْنِ، وَأَنَّ لَهُ ﷺ ظُهُوْرًا تَامًّا فِي تِلْكَ الْحَضْرَةِ، وَهُوَ الْمُعَبَّرُ عَنْهُ بِالنُّبُوَّةِ فِي هَذَا الْحَدِيْثِ.

الشيخ ولي الله في التفهيمات الإلهية: 73

شاه ولى الله محدث دہلوی نے ’التَّفْهِيْمَات الْإِلَهِيَّةِ‘ میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھاہے: میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ سے ایک روحانی سوال آپ ﷺ کے ارشاد گرامی، ’’میں اس وقت بھی نبی تھا، جب آدم علیہ السلام (کا جسم ابھی) پانی اورمٹی میں گُندھا ہوا تھا‘‘، کے حوالے سے پوچھا تو ميری روح پر آپ ﷺ کی مبارک روح اس مثالی صورت میں طاری ہوئی جو بشری جسم کے وجود میں آنے سے پہلے موجود تھی۔ آپ ﷺ کی روحِ مقدسہ کا فیض مثالی صورت میں اس وقت بھی موجود تھا جب آدم علیہ السلام (کا جسم ابھی) پانی اورمٹی میں گُندھا ہوا تھا اور یہ کہ آپ ﷺ کی مبارک روح اس وقت کاملاً ظہور پذير تھی۔ حدیث مبارک میں نبوت کی تعبير اِسی روح مقدسہ کا وجود ہے۔

3. اَلْفَرْقُ بَيْنَ شَرَفِ مُطْلَقِ النُّبُوَّةِ وَشَرَفِ خَتْمِ النُّبُوَّةِ

(مطلق نبوت کے شرف اور ختمِ نبوت کے شرف میں کیا فرق ہے؟)

وَمِنَ الْبَدِيْهِيِّ أَنَّ هُنَاكَ فَارِقًا بَيْنَ مُطْلَقِ شَرَفِ النُّبُوَّةِ وَشَرَفِ خَتْمِ النُّبُوَّةِ. فَإِنَّ خَتْمَ النُّبُوَّةِ يَخْتِمُ كَوْنَ الْبِعْثَةِ مُتَأَخِّرَةً بَعْدَ بِعْثَةِ سَائِرِ النَّبِيِّيْنَ. وَلِذَلِكَ جَاءَتْ هَذِهِ الْأَلْفَاظُ فِي الْحَدِيْثِ: «إِنِّي عِنْدَ اللهِ مَكْتُوْبٌ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ»، وَلَيْسَ هُنَاكَ شَرْطُ الْبِعْثَةِ أَوَّلًا أَوْ آخِرًا لِحُصُوْلِ شَرَفِ النُّبُوَّةِ. لِذَلِكَ أَوْضَحَ أَوَّلًا حُصُوْلَ شَرَفِ النُّبُوَّةِ. وَلَوْ لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ لَمْ يَقُلْ: ‹‹وَجَبَتْ لِيَ النُّبُوَّةُ››، بَلْ لَقَالَ: (كُتِبَتْ لِيَ النُّبُوَّةُ) أَوْ (قُدِّرَتْ لِيَ النُّبُوَّةُ) بَدَلًا مِنْ ذَلِكَ. وَهَذَا مَا يُؤَكِّدُ كَوْنَ نُبُوَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ لَهَا شَرَفُ الْأَوَّلِيَّةِ الْحَقِيْقِيَّةِ. وَهَذَا مَا يُصَرِّحُ بِهِ جُلَّةُ الْمُحَدِّثِيْنَ.

یہ بدیہی امر ہےکہ مطلق شرفِ نبوت اور ختمِ نبوت سے سرفراز کیے جانے میں فرق ہے۔ ختمِ نبوت سے مراد ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت دیگر نبوتوں کا اختتام ہے، اس حیثیت سے کہ آپ ﷺ کی بعثت مبارکہ تمام انبياء علیہم السلام سے آخر میں ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے حدیث مبارک میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: ’’میں اللہ تعالیٰ کے ہاں خاتم النبیین لکھا ہوا تھا‘‘۔ اس حدیث مبارک میں آپ ﷺ کے شرفِ نبوت سے سرفراز کیے جانے کے حوالے سے ایسی کسی شرط کا ذکر نہیں کہ اس کے لیے آپ ﷺ کی بعثت پہلے ہوگی یا آخر میں، کیونکہ یہ پہلے وضاحت فرما دی کہ آپ شرفِ نبوت سے سرفراز ہو چکے تھے۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو آپ ﷺ یوں نہ فرماتے کہ ’میرے لیے نبوت واجب کر دی گئی ہے‘، بلکہ اس کی جگہ یوں ارشاد فرماتے کہ ’میرے لیے نبوت لکھ دی گئی ہے‘ یا ’میرے لیے نبوت مقدر کردی گئی ہے‘۔ یہ امر اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ نبوتِ محمدیہ ﷺ کو شرفِ اوّلیت حاصل ہے۔ یہ وہ اَمر ہے جس کی تصریح اجل محدثین کرام نے کی ہے۔

(1) وَرَوَاهُ أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بَشْرَانَ، وَمِنْ طَرِيْقِهِ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي كِتَابِهِ: ‹‹اَلْوَفَا بِأَحْوَالِ الْمُصْطَفَى ﷺ ›› بِلَفْظِ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَی كُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللهُ الْأَرْضَ، وَاسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ، فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ، وَخَلَقَ الْعَرْشَ، كَتَبَ عَلَی سَاقِ الْعَرْشِ: مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ. وَخَلَقَ اللهُ الْجَنَّةَ الَّتِي أَسْكَنَهَا آدَمَ وَحَوَّاءَ، فَكَتَبَ اسْمِي عَلَی الْأَبْوَابِ وَالْأَوْرَاقِ وَالْقِبَابِ وَالْخِيَامِ، وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ، فَلَمَّا أَحْيَاهُ اللهُ تَعَالَی، نَظَرَ إِلَی الْعَرْشِ، فَرَأَی اسْمِي، فَأَخْبَرَهُ اللهُ أَنَّهُ سَيِّدُ وَلَدِكَ، فَلَمَّا غَرَّهُمَا الشَّيْطَانُ تَابَا، وَاسْتَشْفَعَا بِاسْمِي إِلَيْهِ.

أخرجه ابن الجوزي في الوفا بأحوال المصطفى ﷺ: 26، الرقم: 3، وذكره الحلبي في السيرة الحلبية، 1: 355، وابن تيمية في مجموع الفتاوى، 2: 150

وَإِسْنَادُ هَذِهِ الرِّوَايَةِ قَوِيٌّ أَيْضًا.

اس حدیث کو ابو الحسین بن بشران نے روایت کیاہےاور ان کے طریق سے ابن الجوزی نے اپنی کتاب ’’اَلْوَفَا بِأَحْوَالِ الْمُصْطَفَى ﷺ ‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیاہے۔ (حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ) میں نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کب سے منصبِ نبوت پر فائز ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا، پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا، اس نے اسے سات آسمانوں میں تقسیم کر دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے عرش کو تخلیق کیا اور اس کی پیشانی پر لکھا: محمد اللہ کے رسول اور سلسلۂ انبیاء کو ختم فرمانے والے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت کو تخلیق کیا کہ جہاں اس نے آدم اور حوا علیہما السلام کو بسایا تھا۔ جنت کے دروازوں، درختوں کے پتوں، خیموں اور محلات پر بھی میرا نام لکھا۔ اس وقت آدم علیہ السلام ابھی (اپنی تخلیق میں) روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا فرمایا تو انہوں نے عرش پر میرا نام لکھا ہوا دیکھا، تب اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ (اے آدم!) وہ تیری اولاد کے سردار ہیں۔ اس لیے جب شیطان نے انہیں دھوکہ دیا تو انہوں نے توبہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میرے نام کا ہی وسیلہ اختیار کیا۔ اس روایت کی سند بھی قوی ہے۔

(2) وَقَوْلُ الصَّحَابِيِّ: ‹‹مَتَی كُنْتَ نَبِيًّا؟›› فِي هَذَا الْحَدِيْثِ، قَدْ تَقَدَّمَ شَرْحُ مَعْنَى كَوْنِهِ نَبِيًّا فِي الْحَدِيْثِ قَبْلَهُ، بِمَا لَا مَزِيْدَ عَلَيْهِ، غَيْرَ أَنَّ بَعْضَ الْعُلَمَاءِ ذَكَرَ أَنَّ الْمُرَادَ بِهَذَا الْحَدِيْثِ وَمَا فِي مَعْنَاهُ: ثُبُوْتُ نُبُوَّتِهِ فِي عِلْمِ اللهِ وَتَقْدِيْرِهِ، وَأَنَّ الْمَعْنَى: كُنْتُ نَبِيًّا فِي تَقْدِيْرِ اللهِ، وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ، وَكَذَلِكَ قَالَ فِي الْحَدِيْثِ: «كُنْتُ أَوَّلَ النَّبِيِّيْنَ فِي الْخَلْقِ»، أَنَّ الْمُرَادَ بِالْخَلْقِ: التَّقْدِيْرُ، لَا الْإِيْجَادُ، أَيْ: كُنْتُ أَوَّلَهُمْ فِي التَّقْدِيْرِ. هَذَا حَاصِلُ مَا ذَكَرَهُ.

اس حدیث مبارک میں صحابى كا یہ قول ہے: آپ کب شرفِ نبوت سے سرفراز ہوئے ہیں؟ اس حدیث کی شرح اس سےقبل گزر چکی ہے کہ آپ ﷺ کے نبی ہونے کامعنی کیا ہے۔ اس میں مزید کسی اضافہ کی گنجائش نہیں ہے سوائے اس کے کہ بعض علماء نے اس حدیث کا مفہوم اور اس کے معنی کے بارے میں بیان کیا ہے کہ اس سے مراد آپ ﷺ کی نبوت کا علم و تقدیرِ اِلٰہی میں ہونا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا: جب آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیانی مرحلے میں تھے، میں اُس وقت بھی تقدیرِ اِلٰہی میں نبی تھا۔ اسی طرح یہ بھی حدیث میں کہا گیا ہے: میں تخلیق کے اعتبار سے سب سے پہلے نبی تھا۔ یہاں خلق سے مراد تقدیر ہے نہ کہ ایجاد (عالم خلق میں موجودگی) یعنی: میں تقدیر میں ان سب سے پہلے تھا۔ یہ ان کی بحث کا خلاصہ ہے۔

b لَكِنَّ مَفْهُوْمَ الْحَدِيْثِ الْمَذْكُوْرِ أَعْلَاهُ بَاطِلٌ لِوُجُوْهٍ:

لیکن مذکورہ بالا حدیث مبارک کا یہ مفہوم بعض وجوہات کی بناء پر باطل ہے:

اَلْأَوَّلُ: أَنَّ نُبُوَّةَ النَّبِيِّ ﷺ ثَابِتَةٌ فِي عِلْمِ اللهِ وَتَقْدِيْرِهِ مُنْذُ الْأَزَلِ، فَتَخْصِيْصُهَا بِوَقْتِ كَوْنِ آدَمَ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ، لَغْوٌ يَجِبُ تَنْزِيْهُ الْحَدِيْثِ عَنْهُ.

پہلی وجہ: حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت تو علمِ اِلٰہی اور تقدیر میں ازل سے ثابت ہے۔ جس وقت حضرت آدم ﷺ روح پھونکے جانے اور جسم کی تخلیق کے مرحلے میں تھے، اس وقت اس بات کا خصوصی ذکر کرنا بے مقصد کلام ہے جس سے حدیثِ (رسول ﷺ ) کا پاک ہونا لازم و ضروری ہے۔

اَلثَّانِي: أَنَّ نُبُوَّةَ الْأَنْبِيَاءِ عليهم السلام، بَلِ الْمَوْجُوْدَاتِ كُلَّهَا، ثَابِتَةٌ فِي عِلْمِ اللهِ وَتَقْدِيْرِهِ، فَلَمْ يَبْقَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا خُصُوْصِيَّةٌ عَلَی غَيْرِهِ، وَالْحَدِيْثُ إِنَّمَا أَتَى لِبَيَانِ الْخُصُوْصِيَّةِ، فَلَا بُدَّ أَنْ يَكُوْنَ فِيْهِ مَعْنًى زَائِدٌ لَا يُشَارِكُهُ فِيْهِ غَيْرُهُ، وَإِلَّا كَانَ الْحَدِيْثُ مِنْ قَبِيْلِ الْعَبَثِ، وَذَلِكَ بَاطِلٌ.

دوسری وجہ: نہ صر ف انبیاء کرام علیہم السلام کی نبوت بلکہ تمام موجودات کا علم اور تقدیرِ اِلٰہی میں ہونا ثابت ہے۔ سو اس بات کا ذکر کرنا حضور نبی اکرم ﷺ کی دوسروں پر خصوصیت کی وجہ نہیں بنتا، (جب کہ یہاں) تو حدیث مبارک اس لیے وارد ہوئی ہے کہ آپ ﷺ کی خصوصیت کا بیان کیا جائے۔ لہٰذا ضروری ہےکہ حدیث مبارک میں ایسا منفرد معنی پایا جائے جس میں کوئی اور شریک نہ ہو، بصورتِ دیگر حدیث کا وارد ہونا از قبیلِ عبث ہوگا اور یہ باطل ہے۔

اَلثَّالِثُ: أَنَّ الصَّحَابَةَ الَّذِيْنَ سَأَلُوْهُ بِقَوْلِهِمْ: مَتَى كُنْتَ نَبِيًّا؟ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ أَنَّ نُبُوَّتَهُ ثَابِتَةٌ فِي عِلْمِ اللهِ وَتَقْدِيْرِهِ، بَلْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ أَنَّ الْأَشْيَاءَ كُلَّهَا ثَابِتَةٌ فِي عِلْمِ اللهِ وَتَقْدِيْرِهِ، فَهُمْ بِالضَّرُوْرَةِ إِنَّمَا أَرَادُوْا بِسُؤَالِهِمْ قَدْرًا زَائِدًا عَلَی مَا كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ.

تیسری وجہ: وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے یہ کہہ کر عرض کیا: آپ کب منصبِ نبوت پر فائز ہوئے؟ وہ بہ خوبی جانتے تھے کہ آپ ﷺ کی نبوت علم و تقدیرِ اِلٰہی میں موجود اور ثابت ہے بلکہ انہیں یقین تھا کہ علم الٰہی و تقدیرِ اِلٰہی میں تمام اشیاء موجود اور ثابت ہیں۔ لہٰذا انہوں نے یقیناً اس سوال کے ذریعے اپنی معلومات سے زیادہ جاننے کے لیے عرض کیا۔

اَلرَّابِعُ: أَنَّ عُمَرَ رضي الله عنه سَأَلَهُ: مَتَى جُعِلْتَ نَبِيًّا؟ وَهَذَا اللَّفْظُ صَرِيْحٌ فِي التَّصْيِيْرِ، أَيْ: مَتَى صِرْتَ نَبِيًّا، وَذَلِكَ لَا يَتَأَتَّی إِلَّا فِي مَوْجُوْدٍ يَصِحُّ اتِّصَافُهُ بِالصِّفَةِ الَّتِي صُيِّرَ إِلَيْهَا، كَمَا تَقُوْلُ: جَعَلْتُ قِطْعَةَ الذَّهَبِ خَاتَمًا، أَيْ: صَيَّرْتُهَا كَذَاكَ، وَقَدْ كَانَتِ الْقِطْعَةُ قَبْلَ ذَلِكَ مَوْجُوْدَةً، غَيْرَ أَنَّهَا لَمْ تُوْصَفْ بِالْخَاتَمِيَّةِ، إِلَّا بَعْدَ الْجَعْلِ وَالتَّصْيِيْرِ.

ذكره السيوطي في الخصائص الكبرى، 1: 8، وابن كثير في البداية والنهاية، 2: 321

چوتھی وجہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) آپ کو نبوت سے کب سرفراز کیا گیا؟ روایت کے یہ الفاظ بنائے جانے کی تصریح کرتے ہیں کہ آپ کو کب نبی بنایا گیا؟ اس طرح کا سوال کرنے کا خیال تب آتا ہے جب پہلے سے موجود امرمیں مزید کسی صفت کا اضافہ مطلوب ہو اور اس کا اِس صفت سے متصف ہونا صحیح ہو جس کے لیے وہ بنایا گیا ہو۔ جیسے آپ کہیں کہ میں نے سونے کے ٹکڑے سے انگوٹھی بنائی یعنی میں نے اس کو اس شکل میں ڈھالا حالانکہ وہ سونے کا ٹکڑا تو پہلے بھی موجود تھا مگر اس کو بنانے سے پہلے انگوٹھی کی صفت سے متصف نہیں تھا۔

اَلْخَامِسُ: أَنَّ وُجُوْدَ الْأَشْيَاءِ فِي عِلْمِ اللهِ وَتَقْدِيْرِهِ، لَا تُتَصَوَّرُ فِيْهِ أَسْبَقِيَّةُ بَعْضِهَا عَلَی بَعْضٍ، فَلَا يَصِحُّ أَنْ يُقَالَ: كُنْتُ أَوَّلَ النَّبِيِّيْنَ فِي الْخَلْقِ، لِمَا يَلْزَمُ عَلَيْهِ مِمَّا لَا يَلِيْقُ بِاللهِ سبحانه وتعالى، وَإِنَّمَا تَصِحُّ الْأَوَّلِيَّةُ في الْخَلْقِ بِمَعْنَى الْإِيْجَادِ؛ لِأَنَّهُ صِفَةُ فِعْلٍ يُتَصَوُّرُ مَعَهُ أَسْبَقِيَّةُ بَعْضِ الْحَوَادِثِ عَلَى بَعْضٍ، كَمَا دَلَّ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ وَالسُّنَّةُ، فَتَبيَّنَ مِنْ هَذَا بُطْلَانُ مَا ذَكَرَهُ الْبَعْضُ وَتَعَيَّنَ مَا ذَكَرْنَاهُ، وَهُوَ أَنَّ اللهَ أَفَاضَ عَلَی رُوْحِ نَبِيِّهِ الشَّرِيْفَةِ أَوْ عَلَی حَقِيْقَتِهِ الْمُحَمَّدِيَّةِ وَصْفَ النُّبُوَّةِ، وَخَلَعَ عَلَيْهَا خِلْعَةَ شَرَفِ النُّبُوَّةِ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ، تَمْيِيْزًا لَهُ عَلَی سَائِرِ الْمَخْلُوْقَاتِ، وَاصْطِفَاءً لَهُ مِنْ بَيْنِ أَنْوَاعِ الْمَوْجُوْدَاتِ، فَهُوَ خُلَاصَةُ النَّوْعِ الْإِنْسَانِيِّ، وَسَيِّدُ الثَّقَلَيْنِ، وَأَبُو الْأَنْبِيَاءِ ﷺ .

پانچویں وجہ: تقدیر اور علمِ الٰہی میں بعض اشیاء کا بعض سے پہلے موجود ہونے کا تصور غلط ہے۔ لہٰذا یہ بات درست نہیں کہ يوں کہا جائے: میں علم الٰہی میں تمام مخلوقات سے پہلے تھا، یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں۔ درست بات یہ ہےکہ خلق میں اوّلیت وجود کے اعتبار سے ہو کیونکہ یہ فعل کی وہ صفت ہے کہ اس میں بعض واقعات کا بعض سے مقدم ہونا درست تصور کیا جاسکتا ہے۔ قرآن و سنت میں اس پر دلائل موجود ہیں۔ لہٰذا اس سے بعض لوگوں کے بیان کردہ مفہوم کا باطل ہونا ثابت ہوا اور صحیح امر متعین ہوگیا جس کا ہم نے ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی روحِ مبارکہ پر یا حقیقتِ محمدی ﷺ پر وصفِ نبوت کا فیض جاری فرمایا تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شرفِ نبوت کا پوشاک عطا فرمایا تھا، جب کہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی روح پھونکے جانے اور تخلیقِ جسم کے مرحلے میں ہی تھے۔اس سے آپ ﷺ کوتمام مخلوقات پر برتری عطا کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے موجودات کی تمام اقسام میں سے آپ ﷺ کو چنا۔ آپ ﷺ نوعِ انسانی کا خلاصہ اور دونوں مخلوقات (جن و انس) کے سردار اور انبیاء کرام علیہم السلام کے والد ہیں۔

وَإِلَى هَذَا أَشَارَ ابْنُ الْفَارِضِ عَلَى لِسَانِ الْحَضْرَةِ الْمُصْطَفَوِيَّةِ:

وَإنِّي وَإِنْ كُنْتُ ابْنَ آدمَ صُوْرَةً

فَلِيَ فِيْهِ مَعْنًى شَاهِدًا بِأُبُوَّتِي

ابن الفارض نے حضور نبی اکرم ﷺ کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خوب اشعار کہے ہیں:

میں اگر چہ صورت کے اعتبار سے آدم علیہ السلام کا بیٹا ہوں لیکن ایک جہت سے اِس کے اندر میرے (اُن کا) باپ ہونے کا معنی بھی موجود ہے۔

يُقْصَدُ بِالْمَعْنَى الشَّاهِدِ: النُّوْرُ الَّذِي كَانَ فِي جَبِيْنِ آدَمَ علیہ السلام ، ثُمَّ انْتَقَلَ إِلَى شِيْثٍ مِنْ بَعْدِهِ، وَهَكَذَا، عَلَى مَا ثَبَتَ فِي كُتُبِ السِّيْرَةِ النَّبَوِيَّةِ.

(تمام انبیاء کرام اور اُمتوں پر) شاہد ہونے سے ان کی مراد وہ نور ہے جو سیدنا آدم علیہ السلام کی پیشانی میں موجود تھا، پھر وہ نور حضرت شیث علیہ السلام کو منتقل ہوا، اسی طرح یہ نور آگے انبیاء کرام علیہم السلام کی پاک پشتوں میں منتقل ہوتا رہا، جس طرح کہ کتب سیرت نبويہ سے ثابت ہے۔

وَقَوْلُهُ فِي آخِرِ الْحَدِيْثِ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ، يَرْجِعُ إِلَى كِتَابَةِ اسْمِهِ عَلَى أَبْوَابِ الْجَنَّةِ وَأَوْرَاقِهَا وَقِبَابِهَا وَخِيَامِهَا، وَكِتَابَةِ اسْمِهِ ﷺ عَلَی سَاقِ الْعَرْشِ، وَهُوَ أَعْظَمُ الْأَجْرَامِ عَلَى الْإِطْلَاقِ، تُنَاسِبُ كَوْنَهُ ﷺ أَوَّلَ الْمَخْلُوْقَاتِ وَأَعْظَمَ الْمَخْلُوْقَاتِ، وَكَذَلِكَ كَوْنَهُ أَوَّلَ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 66، الرقم: 16674، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب فضل النبي ﷺ، 5: 585، الرقم: 3609، والحاكم في المستدرك على الصحيحين، 2: 665، الرقم: 4210، وابن أبي شيبة في المصنف، 7: 329، الرقم: 36553، والطبراني في المعجم الكبير، 12: 92، الرقم: 12571، والديلمي في مسند الفردوس، 3: 284، الرقم: 4845

حدیث کے آخر میں آپ ﷺ کا اشاد گرامی ’’اور آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تخلیق کے مرحلے میں تھے‘‘، کا مرجع پچھلا جملہ ہے کہ ’’جنت کے دروازوں، درختوں کے پتوں، خیموں اور محلات پر آپ ﷺ کا اسمِ گرامی لکھا ہوا تھا اور آپ ﷺ کا اسمِ گرامی عرش کے ستون پر بھی لکھا ہوا تھا‘‘۔ وہ عرش اجرامِ فلکی میں سے علی الاطلاق سب سے بڑا ہے۔ اِس مناسبت سے (آپ کے اسمِ گرامی کااس کے ستون پر لکھے ہونے کا مطلب ہے کہ) آپ ﷺ کو تمام مخلوقات پر اوّلیت حاصل ہے۔ عرشِ الٰہی کی طرح آپ ﷺ مخلوقات میں سب سے عظیم اور انبیاء و رُسل علیہم السلام میں سب پر مقدم ہیں۔

Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved