یہ اَمر متفق علیہ ہے کہ عالم بشریت میں سلسلہ نبوت کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا۔ اس طرح گروہِ انبیاء علیہم السلام میں شرفِ اولیت حضرت آدم علیہ السلام کے حصے میں آیا اگر چہ حضور نبی اکرم ﷺ کی روحِ اقدس کو تخلیقِ آدم سے قبل ہی شرفِ نبوت سے نوازديا گیاتھا۔ اس مضمون كا درج ذيل احاديث كى روشنى ميں جائزہ ليتے ہيں:
1۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيُّ الْأَنْبِيَاءِ كَانَ أَوَّلَ؟ قَالَ: آدَمُ. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، وَنَبِيٌّ كَانَ؟ قَالَ: نَعَمْ، نَبِيٌّ مُكَلَّمٌ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5: 178، الرقم: 21546، وأيضًا في 5: 179، الرقم: 21592، والطیالسي في المسند، 1: 65، الرقم: 478، وابن أبي شیبة في المصنف، 7: 265، الرقم: 35933، والطبراني في المعجم الكبیر، 8: 217، الرقم: 7871، والبیهقي في شعب الإیمان، 3: 292، الرقم: 3576، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 1: 159.
میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! سب سے پہلے نبی کون تھے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آدم علیہ السلام ۔ میں نے پوچھا: کیا آدم نبی تھے؟ فرمایا: ہاں وہ نبی تھے، خدا نے ان سے کلام کیا۔
2۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ».
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3: 2، الرقم: 11000، والترمذی في السنن، كتاب تفسیر القرآن، 5: 308، الرقم: 3148، وأيضًا في كتاب المناقب، 5: 587، الرقم: 3615، وابن ماجه في السنن، كتاب الزهد، 2: 1440، الرقم: 4308.
روزِ قیامت میں بنی آدم کا سردار ہوں گا اور میں یہ فخر سے نہیں کہتا۔ میرے ہی ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اور ميں يہ بات فخر سے نہیں کہتا۔ قیامت کے روز کوئی نبی خواہ آدم ہوں یا ان کے علاوہ، ایسا نہ ہوگا جو میرے جھنڈے کے نیچے نہ ہو۔ روزِ قیامت سب سے پہلے میں قبر سے اٹھوں گا اور ميں يہ بات فخر سے نہیں کہتا۔
اس حدیث میں حضرت آدم علیہ السلام کا نام اس لیے لیا گیا ہے کہ وہ سب سے پہلے نبی تھے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ خواہ سب سے پہلے نبی آدم علیہ السلام ہوں یا ان کے بعد آنے والے دیگر انبیاء و رسل علیہم السلام سب میرے جھنڈے کے نیچے جمع ہوں گے۔ ان احادیث سے دنیاے انسانیت میں ظہورِ نبوت کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ثابت ہوتا ہے کہ وہی اول الانبیاء تھے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی روحِ اَقدس کو تخلیقِ آدم سے قبل ہی شرف نبوت سے نواز ديا تھا اور يہ شرف آپ ﷺ کے خصائص ميں سے ہے۔ آپ ﷺ کی شرف نبوت سے بہرہ یابی صرف علمِ الہی اور مرتبۂِ تقدیر میں نہیں تھی بلکہ اِس کا ثبوت اور صدور عالم خارج میں فرما دیا گیا تھا۔ احادیثِ صحیحہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی پہلے نبوتِ محمدی ﷺ کے ثبوت پر شاہد عادل ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 66، الرقم: 16674، وأيضًا: 5: 59، الرقم: 20615، وأيضًا، 5: 379، الرقم: 23260، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ، 5: 585، الرقم: 3609.
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: یارسول اللہ! آپ کو نبوت کے شرف سے کب بہرہ ور کیا گیا تھا؟ حضور ﷺ نے فرمایا: اس وقت سے جب کہ آدم علیہ السلام روح اور بدن کے درمیان تھے یعنی ان کی تخلیق بھی عمل میں نہیں آئی تھی۔
ملا علی قاری ’شرح المشکوٰۃ‘ میں بَيْنَ الرُّوْح وَالْجَسَد کا مطلب بیان کرتے ہیں:
يَعْنِي: وَأَنَّهُ مَطْرُوحٌ عَلَى الْأَرْضِ صُورَةً بِلَا رُوحٍ، وَالْمَعْنَى: أَنَّهُ قَبْلَ تَعَلُّقِ رُوْحِهِ بِجَسَدِهِ.
الملا علي القاري في مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، 10: 439، الرقم: 5758.
یعنی (حضور ﷺ كى نبوت اُس وقت ثابت ہو چكى تھى) جب حضرت آدم علیہ السلام ابھى بغیر روح کے پیکرِ خاکی کے ساتھ زمینِ جنت پر موجود تھے۔ مراد یہ ہے کہ اُس وقت ان کی روح اور ان کے جسدِ عنصری کا آپس میں کوئی تعلق بھی قائم نہ ہوا تھا۔
اس حديث سے ہرگز يہ مرادنہيں کہ تخلیقِ آدم علیہ السلام سے پہلے نبوتِ محمدی ﷺ کا ثبوت محض علم الٰہی میں تھا اور عالمِ خارج میں نہ تھا۔ کیونکہ اس معنی سے تو حضور نبی اکرم ﷺ کی کوئی امتیازی فضیلت يا خصوصيت باقی نہیں رہتی۔ اس لیے کہ علمِ الٰہی میں تمام انبیاء کی نبوتیں تھیں۔ سو اس میں حضور ﷺ کا کون سا امتیاز ثابت ہوتا ہے؟ حالانکہ یہاں حضور ﷺ کی نبوت کی امتیازی خصوصیت بیان ہو رہی ہے۔ مزید یہ کہ علم الٰہی میں حضور نبی اکرم ﷺ کا نبی ہونا کب سے تھا؟ یہ سوال تو سائلین کے ذہن میں بھی نہ تھا کیونکہ اس امر کے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ کائنات کی ہر چیز تخلیقِ کائنات سے پہلے علمِ الٰہی میں تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سوال تو یہ ہے: مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ (آپ کے لیے نبوت کس وقت ثابت اور واجب ہوئی؟) ثبوتِ وجود کو مستلزم ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ تخلیقِ محمدی ﷺ تو ساری کائنات سے پہلے ہو چکی تھی لیکن شرفِ نبوت سے حضور ﷺ کو کس وقت ہم کنار کیا گیا؟ جس کا جواب حضور ﷺ یہ دے رہے ہیں: ’’میں اس وقت بھى نبی تھا جب آدم علیہ السلام کی تخلیق بھی عمل میں نہ آئی تھی‘‘۔
حضور نبی اکرم ﷺ کو دوسری فضیلت یہ عطا کی گئی کہ آپ ﷺ کے خاتم النبیین یعنی آخری نبی ہونے کا فیصلہ فرما دیا گیا تھا۔ مگر ختمِ نبوت کا خارج میں ظہور اُس وقت تک نہیں ہو سکتا تھا جب تک عالمِ بشریت میں آپ ﷺ کی بعثت اور آپ ﷺ کی نبوت کا ظہور نہ ہو جائے۔ آپ ﷺ پر چالیس برس کی عمر مبارک میں وحی کا نازل کیا جانا ہی عالمِ بشریت میں آپ ﷺ کی نبوت کاظاہر کیا جانا ہے اور اِسی کو بعثت کا نام دیا جاتا ہے۔ ختم نبوت کا تعلق بعثت سے ہے، جس کا معنی سلسلہ بعثت انبیاء علیہم السلام کو ختم کرنا ہے۔یہ شانِ خاتمیت تب ہی ظاہر ہوسکتی ہے جب کہ متقدم رُسل اور انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے زمانوں میں پہلے مبعوث ہوچکے ہوں۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ ختمِ نبوت کو آپ ﷺ کی بعثت کے ساتھ متعلق رکھا گیا جب کہ شرفِ نبوت کو آپ ﷺ کی خلقت کے ساتھ متعلق کیا گیا۔ چوں کہ آپ ﷺ کا خاتم النبین ہونا علم الٰہی میں طے ہو چکا تھا اِس لیے میثاق الانبیاء کے موقع پر حضو رنبی اکرم ﷺ کی بعثت کا ذکر اللہ رب العزت نے جس انداز سے فرمایا اُس سے از خود آپ ﷺ کے خاتم النبیین کا معنیٰ ثابت ہوگیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ملاحظہ ہو:
﴿وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗ ؕ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِكُمْ اِصْرِیْ ؕ قَالُوْۤا اَقْرَرْنَا ؕ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ﴾
(آل عمران، 3: 81)
اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام اور رُسل عظام علیہم السلام اپنے اپنے زمانہ ہاے بعثت میں حضور نبی اکرم ﷺ کی تشریف آوری کی خوش خبری سناتے رہتے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنے کئی ارشاداتِ گرامی میں شرفِ نبوت کے عطا ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ ’مسند امام احمد بن حنبل‘ میں حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ، وَإِنَّ آدَمَ علیہ السلام لَمُنْجَدِلٌ فِي طِیْنَتِهِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 127-128، الرقم: 16770، 16712، والطبراني في المعجم الكبیر، 18: 253، الرقم: 631، والحاكم في المستدرك، 2: 656، الرقم: 4175، وابن سعد في الطبقات الكبری، 1: 149.
میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوحِ محفوظ میں اُس وقت بھی خاتم النبیین (آخری نبی) تھا جب کہ آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی کے خمیر کے مرحلے میں میں تھے۔
مذکور ہ روایت ’صحیح ابن حبان‘ میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
إِنِّي عِنْدَ اللَّهِ مَكْتُوبٌ بِخَاتَمِ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ، وَسَأُخْبِرُكُمْ بِأَوَّلِ ذَلِكَ: دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيمَ، وَبِشَارَةُ عِيسَى، وَرُؤْيَا أُمِّيَ الَّتِي رَأَتْ حِيْنَ وَضَعَتْنِي، أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ، أَضَاءَتْ لَهَا مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ.
أخرجه ابن حبان في الصحیح، 14: 313، الرقم: 6404، والنميري في أخبار المدينة، 1: 335، الرقم: 1035، والهيثمي في موارد الظمآن، 1: 512، الرقم: 2093.
میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس وقت بھی خاتم النبیین (آخری نبی) لکھا جا چکا تھا جب کہ آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی کے خمیر کے مرحلے میں تھے۔ اب میں تمہیں اس کی تاویل بھی بتاتا ہوں: میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں (جو انہوں نے میرے ظہور اور بعثت کے لیے مانگی) اور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں (جو انہوں نے اپنی قوم کو دی) اور اس کے علاوہ میں اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو اُنہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا جس سے شام کے محلات تک روشن ہو گئے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مطلق شرفِ نبوت اور وصفِ ختمِ نبوت دونوں میں فرق ہے۔ وصفِ ختمِ نبوت کے ظہور کے لیے تمام انبیاء و مرسلین کے بعد مبعوث ہونا شرط تھا۔ اس لیے اس وصف کو إِنِّي عِنْدَ اللَّهِ مَكْتُوبٌ بِخَاتَمِ النَّبِيِّينَ (میں اللہ کے ہاں خاتم النبیین لکھا جاچکا تھا) کے الفاظ کی صورت میں بیان فرمایا گیا ہے۔ جب کہ مطلقًا شرفِ نبوت کے لیے بعدیت اور آخریت ( یعنی سب کے بعد اور سب کے آخر میں مبعوث ہونے) کی شرط نہ تھی۔ اس لیے شرفِ نبوت کو فی الواقع ثابت ہونے کی صورت میں بیان فرمایا گیا ہے۔ اگر یہ فرق نہ ہوتا تو ثبوتِ نبوت والی حدیث میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جواباً یہ کہا جاسکتا تھا: میں خدا کے ہاں نبی لکھا جا چکا تھا۔ مگرایسا نہیں کہا گیا، بلکہ فرمایا: ’میری نبوت اُس وقت بھی واجب اور ثابت تھی جب کہ آدم ابھی اپنی بشری تشکیل کے مرحلے میں تھے‘۔ جب کہ ختمِ نبوت کے لیے فرمایا: ’میں خاتم النبیین لکھا جاچکا تھا‘۔ یا فرمایا: ’اللہ کے ہاں خاتم النبیین طے ہو چکا تھا‘۔ دو مختلف اندازِ بیان اس امر کو خوب عیاں کر دیتے ہیں کہ نبوتِ محمدی ﷺ کو ہی حقیقی اوّلیت حاصل ہے۔
سورۃ آل عمران کی مذکورہ آیت نمبر 81 میں واضح طور پر ختم نبوت کے دو دلائل موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے میثاقِ انبیاء علیہم السلام کے وقت جملہ انبیاء علیہم السلام سے یہ ارشاد فرمایا:
﴿لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ﴾
جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں۔
اس حصہ آیت میں یہ مذکور ہے کہ اے جمیع اَنبیاء و رُسل! جب میں تم سب کو نبوت و رسالت اور کتاب و حکمت سے نواز کر دنیا میں بھیج چکوں گا تو اس کے بعد میرے محبوب نبی آخر الزماں کی آمد کا وقت آئے گا؛ یعنی جب تک دنیا میں تمہاری بعثت کا سلسلہ ختم نہیں ہو جائے گا اس وقت تک میرے محبوب کی بعثت نہیں ہوگی۔ سو اس کی آمد سے پہلے تم ہر زمانے میں خود بھی اس پر ایمان لاتے رہنا اور اپنی اپنی قوم کو اس کی آمد کا بتاتے رہنا۔ گویا تمہیں اس کی آمد کی بشارت دینے والا بنا کر بھیج رہا ہوں۔ اس بیان کے بعد ﴿ثُمَّ جَآءَكُمۡ رَسُولٞ﴾ کے کلمات یہ وضاحت کر رہے ہیں: جب تم سب دنیا میں آچکو گے اور مزید کوئی نبی یا رسول آنے والا نہیں رہے گا، تب تم سب کے آخر میں وہ رسولِ منتظر تشریف لائیں گے۔ اس لیے وہ آخری نبی اور آخری رسول ہوں گے، ان کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔
ختمِ نبوت محمدی ﷺ کا دوسرا الوہی بیان ﴿مُّصَدِّقٞ لِّمَا مَعَكُمۡ﴾ کے الفاظ میں تھا۔ جس میں حضور ﷺ کو تمام انبیاء کا مصدق (تصدیق کرنے والا) قرار دیا گیا ہے جب کہ باقی تمام انبیاء کو حضور ﷺ کا مبشر (بشارت دینے والا)بنایا گیا تھا۔ یاد رہے کہ بشارت آئندہ ظاہر ہونے والے امر سے متعلق ہوتی ہے جب کہ تصدیق کسی گزشتہ امر سے متعلق ہو تی ہے۔ گویا بشارت مستقبل کے لیے ہوتی ہے جو دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام حضور ﷺ کی آمد کے بارے میں دیتے رہے، اور تصدیق ماضی کے لیے ہوتی ہے جو حضور ﷺ نے گزشتہ زمانوں میں مبعوث ہونے والے انبیاء کے بارے میں فرمائی۔
سو حضور ﷺ کسی نبی کے مبشر نہیں تھے بلکہ سب کے مصدق تھے، جب کہ تمام انبیاء حضور ﷺ کے مبشر تھے۔اگر کسی نبی نے حضور ﷺ کے بعد مبعوث ہونا ہوتا تو حضور ﷺ اس کی نبوت کے مبشر ہوتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حضور ﷺ کا مبشر ہونا اہل ایمان کے حسنِ آخرت کے لیے ہے جب کہ مصدق ہونا اپنے سے پہلے مبعوث ہونے والے سب انبیاء کے لیے ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے عالمِ اَرواح میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے تبلیغِ رسالت کا وعدہ لیا تو اس کا تذکرہ یوں فرمایا:
﴿وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ۪ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاۙ﴾
(الأحزاب، 33: 7)
اور اے محبوب! یاد کرو جب ہم نے انبیاء سے وعدہ لیا اور آپ سے بھی اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم (علیہم السلام) سے بھی اور ہم نے ان سب سے پختہ عہد لیا۔
اس آیتِ کریمہ میں پہلے انبیاء کے میثاق کا عمومی ذکر کیا گیا ہے۔ بعد ازاں پانچ اُولو العزم رسولوں کا تصریح کے ساتھ خصوصی ذکر ہے۔ اس خصوصی ذکر میں پھر حضور ﷺ کو اولیت دی گئی ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے اس میثاقِ نبوت میں سب سے پہلی حلف برداری حضور ﷺ کی ہوئی۔یہ اَمر بھی آپ ﷺ کی نبوّت کی حقیقی اَوّلیت کا اشارہ دیتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ یہ میثاق پہلے میثاق سے مختلف تھا۔ پہلے میثاق میں سب انبیاء سے حضور ﷺ کی نبوت پر ایمان لانے کاعہد لیا گیا تھا، جب کہ دوسرے میثاق میں ہر نبی سے اس کے اپنے فرائضِ نبوت ادا کرنے کا عہد لیا گیا۔ یہ میثاق انبیاء کی روحانی حلف برداری کا درجہ رکھتا ہے۔ اس حلف برداری کے عمل میں حضور ﷺ کو سب پر مقدم رکھا گیا اور آپ ﷺ کی حلف برداریِ نبوت کو اولیت عطا کی گی۔
امام قسطلانی فرماتے ہیں:
إِنَّ اللهَ تَعَالَی لَمَّا خَلَقَ نُوْرَ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ
ﷺ ، أَمَرَهُ أَنْ یَنْظُرَ إِلَى أَنْوَارِ الْأَنْبِیَاءِ عليهم السلام، فَغَشِیَهُمْ
مِنْ نُوْرِهِ مَا أَنْطَقَهُمُ اللهُ بِهِ فَقَالُوْا: یَا رَبَّنَا، مَنْ غَشِیَنَا
نُوْرُهُ؟ فَقَالَ اللهُ تَعَالَی: هَذَا نُوْرُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، إِنْ
آمَنْتُمْ بِهِ جَعَلْتُكُمْ أَنْبِیَاءَ. قَالُوْا: آمَنَّا بِهِ وَبِنُبُوَّتِهِ.
فَقَالَ اللهُ تَعَالَی: أَشْهَدُ عَلَیْكُمْ؟ قَالُوْا: نَعَمْ. فَذَلِكَ قَوْلُهُ
تَعَالَی: ﴿وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ ... وَ اَنَا مَعَكُمْ
مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ﴾
(آل عمران، 3: 81).
ذكره القسطلاني في المواهب اللدنية، 1: 66، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1: 78.
جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی محمد ﷺ کا نور تخلیق فرمایا تو اسے حکم دیا کہ اَنوارِ اَنبیاء علیہم السلام کی طرف متوجہ ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے نور اقدس نے سب انبیاء کرام علیہم السلام کے انوار کو ڈھانپ لیا۔ اس کے باعث اَرواحِ اَنبیاء علیہم السلام نے عرض کیا: اے رب! ہمیں کس کے نور نے ڈھانپ لیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ محمد بن عبداللہ کا نور ہے۔ اگر تم اس پر ایمان لاؤ گے تو تمہیں شرفِ نبوت سے بہرہ یاب کروں گا۔ انہوں نے کہا: ہم اس پر اور اس کی نبوت پر ایمان لاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تمہارے نبوتِ محمدی ﷺ پر ایمان لانے پر خودگواہ بنتا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا: یہ حق ہے۔ اسی امر کی طرف قرآن حکیم کے اس آیت میں اشارہ ہے: ’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( ﷺ ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔‘‘۔
اِسی لیے علماء ربانیین روحانی اعتبار سے حضور نبی اکرم ﷺ کو اور جسمانی اعتبار سے آدم علیہ السلام کو اَوّل الآباء بیان کرتے ہیں۔ اس قول کو امام نبہانی نے یوں نقل کیا ہے:
إِنَّ أَصْلَ أَرْوَاحِنَا رُوْحُ مُحَمَّدٍ ﷺ ، فَهُوَ أَوَّلُ الْآبَاءِ رُوْحًا، وَآدَمُ أَوَّلُ الْآبَاءِ جِسْمًا.
ذكره ابن عربي في الفتوحات المكية، 5: 73، والنبهاني في جواهر البحار، 1: 190
ہماری اَرواح کی اَصل روحِ محمدی ﷺ ہے۔ لہٰذا حضور ﷺ روحانی اعتبار سے جب کہ آدم علیہ السلام جسمانی اعتبار سے ہمارے پہلے باپ ہیں۔
اِسی حقیقت کی مزید وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
رُوْحُ النَّبِيِّ ﷺ هِيَ أُمُّ الْأَرْوَاحِ، وَحَقِيْقَتُهُ أَصْلُ الْحَقَائِقِ، وَهُوَ أَبُوْ آدَمَ مِنْ حَيْثُ الرُّوْحِ، وَآدَمُ أَبُوْهُ مِنْ حَيْثُ الْجِسْمِ، وَهُوَ أَوَّلُ النَّبِيِّينَ فِي الْبُطُوْنِ، وَخَاتِمُهُمْ فِي الظُّهُوْرِ، وَهُوَ سُلْطَانُهُمُ الْأَعْظَمُ.
ذكره النبهاني في جواهر البحار، 1: 11
حضور ﷺ کی روحِ مبارک تمام اَرواح کا مصدر ہے اور آپ کی حقیقت تمام حقائق کی اصل ہے۔ حضور ﷺ روح کے اعتبار سے حضرت آدم علیہ السلام کے باپ ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام جسم کے اعتبار سے حضور ﷺ کے۔ اِسی طرح حضور ﷺ باطن میں تمام انبیاء سے اوّل ہیں اور ظاہر میں تمام سے آخر، اور آپ ﷺ ہی سب انبیاء کے سلطانِ اعظم ہیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آپ ﷺ کی بعثت کے حوالے سے دعا کی، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠﴾
(البقرة، 2: 129)
اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( ﷺ ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بھی کامل طور پر آپ ﷺ کی بعثت کا علم عطا کر دیا گیا تھا۔ یہاں یہ اَمر قابلِ غور ہے کہ جس نبی اور رسول علیہم السلامنے بھی آپ ﷺ کا ذکر کیا، اُس نے آپ ﷺ کے وصفِ رسالت بھی ساتھ ہى بیان کیے۔ یہ اَمر صریحاً عالمِ اَرواح كے وقت سے آپ ﷺ کے نبوت و رسالت کی شان سے بہرہ یاب ہونے كو ظاہر کرتا ہے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نےآپ ﷺ کےاس وصفِ نبوت و رسالت کا ذکر اس طرح فرمایا:
﴿وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ﴾
(الصف، 61: 6)
اور اُس رسولِ (معظّم ﷺ کی آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( ﷺ ) ہے۔
بنی اسرائیل میں سے جتنے بھی انبیاء اور رُسل علیہم السلام گزرے ہیں سب کو علم عطا کر دیا گیا تھا کہ نبی آخر الزماں ﷺ تشریف لائیں گے۔ اس کا ذکر سابقہ آسمانی کتب خصوصاً تورات اور انجیل میں موجود تھا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اس کا ذکر آیا ہے:
﴿اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ﴾
(الأعراف، 7: 157)
(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( ﷺ ) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔
جب تورات اور انجیل میں حضور ﷺ کے اسمِ گرامی کو اِن اوصاف و کمالات کے ساتھ بیان کیا گیا تھا اور دیگر انبیاء كرام اور رُسل عظام علیہم السلامکی زبان مبارک سےآپ ﷺ کی صفات کا تذکرہ ہوا اور آپ ﷺ کے لیے دعا ہوئی تو اِس کا مطلب يہ ہے کہ تورات اور انجیل کے ذریعے اُن کے علم میں تھا کہ آخری زمانے میں سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ خاتم النبيين کی حیثیت سے مبعوث ہوں گے۔ قابلِ غور بات یہ ہےکہ آپ ﷺ کی آمد اوربعثت کے حوالے سے جب بھی تذکرہ ہوا جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعاکی اور سیدنا عیسی علیہ السلام نے بشارت دی تو نام لیے بغیر رسول اور نبی کہہ کر ذکر کیا گيا۔ اسم گرامی سیدنا محمد ﷺ کا ذکر نہیں کیا گيا كہ كہيں اس سے مراد يہ نہ لے ليا جائے کہ اللہ تعالیٰ اس نام سے موسوم ہستی کو نبوت ورسالت سے بہرہ یاب فرمائے گا بلکہ آپ ﷺ کا ذکر ہی نبی اور رسول کے عنوان سے کیا جاتا رہا۔ اِس كا واضح مطلب يہ تھا کہ اُن انبیاء علیہم السلام کو پہلے سے ہى آپ ﷺ کے منصب نبوت و رسالت پر فائز ہونے کا علم تھا۔ اس سے بھی يہى امر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں ہى آپ ﷺ کی روحِ مبارک کو نبوت و رسالت کا شرف عطا فرما ديا تھا۔ اس طرح آپ ﷺ کی نبوت ورسالت سے بہرہ یابی کی شان کو دیگر انبیاء علیہم السلام کی روحوں سے منفرد اور ممتاز کر دیا گيا تھا۔ ديگر انبياء و رسل كى نبوت و رسالت عالم ارواح كے وقت سے علمِ اِلٰہى ميں ثابت تھى اور ان كے ليے ميثاق كے وقت ﴿ٱلنَّبِيِّۧنَ﴾ كا لقب تقديراً استعمال ہوا تھا جب کہ حضور ﷺ کی نبوت و رسالت عالم خارج ميں ثابت تھى اور اس وقت آپ كا نبى اور رسول ہونا تقديراً نہيں بلكہ ثبوتاً اور وجوباً تھا۔ آپ ﷺ كى روح مبارك نبوت و رسالت كے اوصاف و كمالات سے بہرہ ور تھى اور ديگر انبياء كى اَرواحِ مباركہ اس سے فيض ياب ہوتى تھيں۔
اس ليے ﴿مِيثَٰقَ ٱلنَّبِيِّۧنَ﴾ کے وقت اللہ رب العزت نے حضور ﷺ كا ذكر ’رسول‘ ہى كے لقب سے فرمايا۔ ارشادِ بارى تعالىٰ ملاحظہ ہو:
﴿لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗ﴾
(آل عمران، 3: 81)
جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( ﷺ ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہےجو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے۔
خود اللہ تعالیٰ كا عالمِ اَرواح ميں آپ ﷺ کا ذكر ’نبی‘ اور ’رسول‘ کے لقب سے فرمانا اُس وقت سے آپ ﷺ کے شرفِ نبوت ورسالت سے متصف ہونے کے ثبوت کے لیے کافی اور وافی دلیل ہے۔
مزيد برآں يہ بھى احاديث سے ثابت ہے كہ تخليقِ آدم سے قبل عرشِ اِلٰہی پر کلمہ طیبہ (لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ) لکھا ہو ا تھا۔ عرش پر اللہ تعالىٰ كى توحيد كے ساتھ حضور ﷺ كى رسالت كا لكھا ہوا ہونا عالمِ خارج میں آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کے شرف كا واضح اعلان تھا۔ اسى ليے سیدنا آدم علیہ السلام نے زمين پر اترنے كے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کے وسیلے سے مغفرت طلب کی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں قبوليت سے نواز ديا۔ چنانچہ حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ نبوت اور شانِ ختمِ نبوت كا فرق واضح ہو جاتا ہے كيوں كہ شانِ نبوت اس وقت بھى فی الواقع ثابت تھى، جب كہ شانِ ختمِ نبوت فقط علمِ الٰہى ميں مقدر یعنی لوح محفوظ ميں مكتوب تھى۔ اس ليے كہ خاتم المرسلین كى شان کا عالمِ خارج ميں ظہور صرف عالمِ بشريت ميں بعثت كے بعد ہى ہو سكتا تھا۔ جو دیگر انبیاء علیہم السلام کا اپنے اپنے زمانوں میں مبعوث ہونے كے بعد آپ ﷺ کے اپنے زمانہ ميں مبعوث ہونے كے ذريعے ہوگيا۔
قرآن حکیم کی آیتِ ﴿مِيثَٰقَ ٱلنَّبِيِّۧنَ﴾ سے ظاہر ہے کہ ہر نبی سے پہلے نبوتِ محمدی ﷺ پر ایمان لانے كا اقرار كرايا گيا، پھر اسے اپنے وقت پر خلعتِ نبوت پہنائے جانے كا وعدۂ الٰہى كيا گيا۔ اسی لیے امام بوصیری کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے بحرِ جود و سخا سے انبیاء كرام علیہم السلام بھی دامنِ مراد بھرتے ہیں:
وَكُلُّهُمْ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ مُلْتَمِسٌ
غَرْفاً مِنَ الْبَحْرِ أَوْ رَشْفًا مِنَ الِدّیَمِ
فَهُوَ الَّذِي تَمَّ مَعْنَاهُ وَصُوْرَتُهُ
ثُمَّ اصْطَفَاهُ حَبِیْبًا بَارِيِ النَّسَمِ
تمام انبیاء علیہم السلام رسول اللہ ﷺ کے بحرِ عطا سے اپنی تشنگی مٹا رہے ہیں اور آپ ﷺ کے اَبرِ رحمت سے ہونٹ تر کر رہے ہیں۔ یہی وہ ذاتِ اقدس ہے جس کا ظاہر و باطن مکمل ہے۔ پھر ربِ ذو الجلال نے اس سراپا حسن و كمال کو اپنا حبیب منتخب فرمایا ہے۔
مذكورہ بالا آیت مبارکہ سے یہ امر بھى واضح ہوا کہ عالمِ اَرواح میں اللہ تعالىٰ نے جب تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے حضور ﷺ کی نبوت و رسالت کی تصدیق کرائی اور ان پر ایمان لانے کا پختہ عہد لیا تو سب سے وعدہ لے کر نہ صرف انہیں ایک دوسرے پر گواہ بنایا گيا بلکہ اللہ تعالىٰ نے خود ان انبياء كى تصديق پر اپنى شہادت كى مہر ثبت فرمائى اور يہ اعلان فرمايا:
﴿قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِكُمْ اِصْرِیْ ؕ قَالُوْۤا اَقْرَرْنَا ؕ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ﴾
(آل عمران، 3: 81)
کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔
حضور ﷺ کی نبوت ورسالت كے اقرار و تصديق کے لیے اس قدر پُر شکوہ اہتمام آپ ﷺ ہى كا امتياز تھا۔
زیرِ نظر آیت مبارکہ ﴿وَإِذۡ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ ٱلنَّبِيِّۧنَ﴾ میں حضور ﷺ سے مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے: ’وہ وقت ياد كرو جب اللہ تعالی نے عالمِ اَرواح میں تمام انبیاء علیہم السلام سے وعدہ لیا‘۔
قرآن حکیم میں جہاں بھی كلمہ ﴿إِذۡ﴾ سے کسی بات کا آغاز ہو تو اس سے اس خاص واقعہ کی طرف اشارہ اور توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے جو فی الحقیقت ماضى ميں رُونما ہوا تھا۔
کلمہ ﴿إِذۡ﴾ کا معنی اردو میں ’جب‘ کیا جاتا ہے۔ آپ ایسی آیاتِ مبارکہ کے ترجمے میں اکثر ’یاد کرو جب‘ كے كلمات لکھےہوئے دیکھتے ہیں۔ مثلاً: ﴿وَإِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ ٱسۡجُدُواْ لِأٓدَمَ﴾ ’’اور ياد كرو جب ہم نے فرشتوں سے كہا كہ آدم كو سجدہ كرو‘‘۔
عربى قاعدہ كى رُو سے کلمہ ﴿إِذۡ﴾ میں در اصل ’’اُذْكرْ (ياد كرو)‘‘ کا معنی مخدوف ہوتا ہے۔ یہ عربی لغت کا متفقہ قاعدہ ہے جس سے کسی کو انکار نہیں۔ گویا یہاں حضور ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے:
محبوب! وہ وقت یاد کرو جب ہم نے آپ كى خاطر سب انبياء كى روحوں سے خطاب كيا اور ان سے آپ كى نبوت پر ایمان لانے کا وعدہ لیا۔ گويا وہ منظر یاد کرو جب ہم نے آپ كى شانِ نبوت اور عظمتِ رسالت کے چرچےکل عالمِ اَرواح میں كر دیے۔
یہ پیار بھری شیریں گفتگو كس انداز سے کی جا رہى ہے اور اس خاص منظر كا كيسا پُرکشش اور سہانا نقشہ پيش كيا جا رہا ہے! اس اندازمیں كسى مخاطب سے ايسى بات صرف اس وقت كى جا سكتى ہے جب اس مخاطب نے اس واقعہ كا مشاہدہ خود كر ركھا ہو۔ مقصود صرف مخاطب کو یاد کرانا اور اس كى ياد كو ذہن میں تازہ کرنا ہوتا ہے۔ اس سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ حضور ﷺ كى نبوت و رسالت پر ايمان لانے كے ليے تمام انبياء كى ارواح سے عہد و ميثاق كا ليا جانا بھى ايك امر واقع تھا، جس كا صدور اور ظہور حقيقتاً عالم خارج ميں ہوا تھا۔ يہ ميثاق بھى كوئى ايسى چيز نہ تھى جو صرف علمِ الہى ميں تقديراً ثابت تھى اور واقعہ ميں اُس كا كوئى وجود نہ تھا بلكہ يہ واقعہ حقيقت ميں ظہور پذير ہوا تھا اور حضور ﷺ كى روحِ اقدس نے خود اس كا مشاہدہ فرمايا تھا۔ لہٰذا اسى واقعہ كى طرف كلمہ ﴿إِذۡ﴾ کے ذریعے حضور كى توجہ مبذول كرائى جا رہى ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی اوّلیتِ نبوت اور آپ ﷺ کی شانِ ختمِ نبوت کے ظہور کے مراحل کو نزولِ قرآن کے مراتب سے سمجھا جاسکتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہونے والی آخری کتا ب قرآن مجید کے نزول کے درج ذیل تین مرتبے ہیں:
1۔ مرتبۂ لوحِ محفوظ
2۔ مرتبۂ اِنزالِ بیت العزت
3۔ مرتبۂ تنزيلِ قرآن
نزولِ قرآن کا پہلا مرتبہ لوحِ محفوظ میں لکھا جانا ہے۔ اِسى كو مرتبہ علم الٰہى بھى كہتے ہيں، جس کا ذکر قرآن مجید میں یوں آیا ہے:
﴿بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌۙ. فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۠﴾
(البروج، 85: 21-22)
بلکہ یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے۔ (جو) لوحِ محفوظ میں (لکھا ہوا) ہے۔
اِس مرتبہ سے مراد نزولِ قرآن كا وہ مرحلہ ہے جس ميں قرآن مجید ایک ہی رات (لیلۃ القدر) میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر قائم بیت العزت ميں اُتارا گیا۔ یہ نزول کا دوسرا مرتبہ ہے۔ اِسے اِنزال سے تعبير كيا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّآ أَنزَلۡنَٰهُ فِي لَيۡلَةِ ٱلۡقَدۡرِ﴾
(القدر، 97: 1)
بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔
تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ لیلۃ القدر كى ايك ہى رات میں سارا قرآن یک بارگی لوحِ محفوظ سے بيت العزت ميں اُتارا گیا۔
يہ نزولِ قرآن کا تیسرا مرحلہ ہے۔ جس ميں جبریل امین کے ذریعے بیت العزت سے حسبِ ضرورت حضور ﷺ پر مكہ اور مدينہ كے دونوں ادوار ميں نازل كيا گيا۔ اس زمانہ ميں جو كم و بيش 23 برس پر مشتمل ہے، قرآن مجيد آپ ﷺ کے قلبِ اطہر پر اُتارا گیا۔ اس ضمن ميں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰی قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ﴾
(البقرة، 2: 97)
بے شک اس (جبریل) نے اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے۔
ہرچند كہ حضور علیہ السلام پر قرآن مجید کا پہلا نزول غارِ حرا میں ہوا اور 23 برس میں اِس کےنزول کی تکمیل ہوئی۔ مگر يہ مسلمہ حقيقت ہے كہ قرآن مجید کا وجود بعثتِ نبوی کے زمانہ نزول سے بہت پہلے سے ثابت ہے۔ اسى لیے سورۃ البقرۃ کی ابتداء میں قرآن مجید کا تعارف ان الفاظ ميں کرايا گيا ہے:
﴿ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ﴾
(البقرة، 2: 2)
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔
ائمہ تفسیر نے ﴿ذَٰلِكَ ٱلۡكِتَٰبُ﴾ کے معنى ميں يہ قول بھى بلا اختلاف بيان كيا ہے کہ اس سے مراد بلا شک و شبہ وہى کتاب ہے جو لوحِ محفوظ میں تھی۔ اِس سے يہ بھى معلوم ہوا كہ یہ قرآن اُس وقت بھی کتاب تھا جب بیت العزت میں اُتارا گيا اور تب بھی کتاب ہى تھا جب لوحِ محفوظ ميں موجود تھا۔ يہى وجہ ہے كہ لوحِ محفوظ كے حوالے سے بھى اسے ﴿بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌۙ. فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۠﴾ كہا گيا ہے۔ سو اُس وقت بھی قرآن عالمِ خارج میں اللہ کا کلام تھا۔ اِسی وجہ سے قرآن حادث نہیں بلكہ قديم ہے۔ گويا قرآن مجید نزول کے بعد وجود میں نہیں آیا بلکہ اس كا وجود نزول سے قبل بھی تھا۔ لیکن حضور ﷺ كى حياتِ طيبہ ميں فقط اِس كا عالمِ اَرضى كا ظہور ہوا، جسے عرفِ عام ميں نزولِ قرآن كہا جاتا ہے۔ لہذا جس طرح قرآن دُنيا ميں اپنے نزول سے پہلے بھى موجود تھا، اُسى طرح حضور ﷺ كى نبوت دُنيا ميں بعثت سے پہلے بھى موجود تھى۔ بعثت كى شكل ميں اس كا فقط دُنيوى ظہور عمل ميں آيا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ جب قرآن مجید لوحِ محفوظ پرثبت ہوا اور پھر بیت العزت میں اُتارا گیا تو اس پورے زمانے ميں اسى قرآن ميں يہ بات بھى مرقوم تھی کہ يہ كتاب حضور نبی آخر الزمان ﷺ پر اُترنے والی کتاب ہے۔ اسى وجہ سے آپ ﷺ كا كلمہ طيبہ، آپ ﷺ كا اسمِ پاک اور آپ ﷺ کی نبوت كا چرچہ ہفت سماء اور عرش و جنت ميں ہر جگہ كر ديا گيا۔
اِس لیے عالمِ بشريت كى تاريخ ميں آپ ﷺ کا نورِ اقدس آپ ﷺ کے سلسلہ نسب کے تمام آباء و اَجداد كى پاک صلبوں میں منتقل ہوتا آیا تھا۔ جب بھى يہ نور اُن میں چمکتا تھا تو اُس کی برکات ظاہر ہوتی تھیں، اسى كے فيض سے اُن كى سیرت و کردار اور اُن كے اخلاق اپنے معاشرے ميں سب سے عمدہ و پاكيزہ، ارفع و اعلىٰ اور ممیز و ممتاز رہتے تھے۔ اُن کے اوصاف سب سے جداگانہ نظر آتے تھے۔ يہى نور ہميشہ اُن كے ايمان كى حفاظت كرتا تھا اور اُنہيں اپنے زمانوں كى آلائشوں سے محفوظ و مامون ركھتا تھا۔ یہ سب اِسی نورِ نبوت کا فیض تھا۔
جس طرح قرآن مجید بعثتِ نبوی کے زمانے میں ظاہر ہونے سے قبل عالمِ خارج میں موجود تھا، اسی طرح نبوتِ محمدی ﷺ بھى زمانہ بعثت سے پہلے موجود اور آپ ﷺ كى روح مبارك كے لیے ثابت تھى۔ ہر چند كہ اُس كا دُنيوى ظہور بعثت اور نزولِ قرآن كے ساتھ ہوا، يہ نبوت محمدی ﷺ كا تيسرا مرتبہ ظہور تھا۔ اس سے قبل درج ذيل دو مرتبے گزر چكے تھے:
مرتبہ علمِ الٰہی میں آپ ﷺ کى صفتِ نبوت اور شانِ ختم نبوت دونوں اُس وقت سے تھیں جب آپ ﷺ کے نورِ اقدس کی تخلیق کی گئی تھى۔ اسى لیے بعض احادیث میں اس طرح کے الفاظ آئے ہیں:
كُنْتُ أَوَّلَ النَّبِيِّيْنَ فِي الْخَلْقِ، كُتِبْتُ نَبِيًّا، وَأَنَا عِنْدَ اللَّهِ مَكْتُوْبٌ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَغَىْرُهَا.
میں تخلیق کے اعتبار سے انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سےپہلا نبی ہوں اور بعثت کے اعتبار سے تمام نبیوں کے بعد ہوں، میری نبوت کا اجراء تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوتوں سے پہلے کیا گیا ہے۔
ان الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت اور ختمِ نبوت علمِ الٰہی میں آپ ﷺ کی تخلیق کےوقت سے ثابت تھی۔ يہ وہ شان ہے جس ميں ديگر انبياء كرام اور رُسل عظام بھى شريك ہيں۔ يہ امر حضور ﷺ كے خصائص ميں سے نہيں ہے كيونكہ كائنات كى كوئى بھى حقيقت علم الٰہى سے خارج تھى نہ ہو سكتى ہے۔
يہ آپ ﷺ کے ظہور نبوت کا دوسرا مرتبہ ہے۔ اس مرتبے میں تخلیقِ آدم علیہ السلام سے قبل عالمِ ارواح میں آپ ﷺ کی نبوت کو ظاہر كيا گيا۔ ميثاقِ انبياء بھى اسى دور كا واقعہ ہے۔ ہم اس زمانے کا تعین نہیں کرسکتے۔ اس زمانے كا دورانيہ صرف اللہ رب العزت ہی کو معلوم ہے۔ صحيح نصوص سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ تخلیق آدم علیہ السلام سے پہلے بھى نبى تھے اور اللہ تعالىٰ نے تمام انبياء كى ارواح سے آپ ﷺ کى نبوت پر ايمان لانے كا عہدليا تھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے كہ حضور ﷺ كے ثبوتِ نبوت اور ديگر انبياء كرام كے ثبوتِ نبوت ميں واضح فرق ہے۔ اس زمانے ميں ديگر تمام انبياء كى نبوتيں علم الہى ميں تقديراً ثابت تھيں، جب كہ حضور ﷺ كى نبوت عالم خارج ميں وقوعاً ثابت تھى اور يہى امر حضور ﷺ کے خصائص ميں سے تھا۔
چونکہ عالمِ ارواح اور عالمِ ملکوت، تکلیفِ شرعی کا عالم نہیں ہے، اِس لیے نبوتِ محمدی ﷺ كے اُس روحانى ظہور کو بعثت نہیں کہتے۔ بعثت صرف بشرى ظہور كو كہتے ہيں جس كا تعلق عالمِ انسانيت كے ساتھ ہے۔
مکلف صرف دو مخلوقات ہیں:
1۔ اِنسان
2۔ جن
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا خَلَقۡتُ ٱلۡجِنَّ وَٱلۡإِنسَ إِلَّا لِيَعۡبُدُونِ﴾
(الذاريات، 51: 56)
اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔
عالمِ جن و اِنس کے لیے تکلیفِ شرعی زمین پر مقرر کی گئی ہے۔ اس سے ماقبل كا دور اَرواح اور ملائكہ كے لیے فقظ فیض یابی کا دور تھا۔ جب آپ ﷺ کو عالم ارواح ميں باقاعدہ شرفِ نبوت سے نواز دیا گیا تو آپ ﷺ کا اسمِ گرامی ہر طرف ظاہر كر ديا گیا، حتى كہ عرشِ اِلٰہی، جنت کے دروازوں، درختوں اور پتوں پر بھى لکھ دیا گیا۔ یہ عالمِ اَرواح میں آپ ﷺ کی نبوت کا اعلان تھا۔ اعلان اس وقت ہوتا ہے جب كوئى امر حقيقت ميں واقع ہو چكا ہو۔ اگر روح اقدس كو باقاعدہ شرفِ نبوت عطا نہ کیا گیا ہوتا تو تحریر و کتابت کے ذریعہ اس کا اعلان كيونكر ہوتا۔
حضور ﷺ كى نبوت خلقت ميں سب سے پہلى ہے اور بعثت ميں سب سے آخرى ہے۔ اس لیے حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عيسىٰ علیہ السلام تك تمام انبياء کرام علیہم السلام آپ ﷺ ہى كے احاطہ نبوت ميں داخل ہيں۔ يہى وجہ ہے كہ يومِ قيامت حضرت آدم علیہ السلام سے لے كر حضرت عيسٰى علیہ السلام تك تمام انبياء آپ ﷺ كے لوائےحمد كے نيچے ہوں گے اور حضور ﷺ سب انبياء پر گواہ كے طور پر بلائے جائيں گے۔ جيسا كہ قرآن مجید ميں مذكور ہے:
﴿فَكَيۡفَ إِذَا جِئۡنَا مِن كُلِّ أُمَّةِۢ بِشَهِيدٖ وَجِئۡنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰٓؤُلَآءِ شَهِيدٗا﴾
(النساء، 4: 41)
بھلا وہ کیا منظر ہوگا جب ہم ہر امت میں سے (احوال بتانے كے لیے اُس امت كے نبی کو بطور) گواہ لائیں گے اور (اے محبوب ﷺ ) آپ کو ان سب پر گواہ لائيں گے۔
اِسى طرح حديثِ نبوى ﷺ ملاحظہ ہو۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3: 2، الرقم: 11000، والترمذي في السنن، كتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة بني إسرائيل، 5: 308، الرقم: 3148، وأيضا في كتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ، 5: 587، الرقم: 3615.
میں روزِ قیامت (تمام) اولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور میں یہ بات فخر سے نہیں کہتا۔ اس دِن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور یہ بات میں بطورِ فخر نہیں کہتا۔ اس دِن آدم علیہ السلام سمیت تمام انبیاء کرام علیہم السلام میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ عالم ارواح سے لے كر عالم آخرت تك تمام انبیاء و رسل اور اُن كى اُمتيں، حضور ﷺ کی تصدیق اور توثیق کى محتاج تھيں اور ہوں گى۔ اِسى لیے حضور ﷺ كى شانِ اقدس ميں ابتداء خلق میں ہى يہ فرمايا ديا گيا تھا:
﴿مُّصَدِّقٞ لِّمَا مَعَكُمۡ﴾
(آل عمران، 3: 81)
وہ (آخرالزماں نبى ﷺ ) تم سب اَنبياء كى نبوتوں كى تصديق فرمائے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَتُؤۡمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥۚ﴾
(آل عمران، 3: 81)
تم ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے
آيتِ ميثاق ميں حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے اور مدد کرنے کی بات پر زور دینے کے لیے دونوں کلمات کو لامِ تاکید سے شروع کیا گیا ہے اور ساتھ ہى نون ثقیلہ وارِد ہوئى ہے، جو اكیلی دوہرى تاكيد كے لیے استعمال ہوتى ہے۔ اس طرح دونوں حکم الگ الگ تین تاکیدوں کے ساتھ بيان ہوئے ہيں۔ اس سے میثاقِ نبوتِ محمدی ﷺ کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ خصوصیت بھی اللہ تعالیٰ نے صرف حضور نبی اکرم ﷺ کو عطا فرمائی ہے، ورنہ بہت سے انبیاء علیہم السلام ہم عصر تھے مگر کسی کو دوسرے پر ایمان لانے کا حکم نہیں ديا گيا۔
جس طرح مومن ہونے كے لیے لوگوں پر کسی نہ كسى نبی پر ایمان لانا ضروری تھا، اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کو کہا گیا کہ اگر تم میں سے کوئی میرے محبوب کا زمانہ پالے تو ہر صورت اس پر اُسی طرح ایمان لانا جس طرح ایک امتی اپنے نبی پر ايمان لاتا ہے۔ گويا حضور ﷺ كو صرف اپنى امت ہى كا نبى نہيں بنايا گيا بلكہ تمام انبياء اور اُن كى اُمم كا بھى نبى بنايا گيا ہے۔ اسى وجہ سے ہر نبى اپنى اُمت كو حضور ﷺ كى آمد كى بشارت ديتا تھا اور آپ ﷺ پر ايمان لانے كى تلقین كرتا تھا۔ سو اِس عمل كے ذريعے ہر نبى اللہ كے حضور نصرتِ محمدی ﷺ كے حوالے سے کیے گئے وعدہ كى تكميل كرتا تھا۔
حضور ﷺ پر ایمان لانے اور اُن كى مددكرنے كا وعدہ لينے كے بعد اللہ تعالیٰ نے انبیاء كى ارواح سے پھر پوچھا:
﴿ءَأَقۡرَرۡتُمۡ وَأَخَذۡتُمۡ عَلَىٰ ذَٰلِكُمۡ إِصۡرِي﴾
(آل عمران، 3: 81)
کیا تم نے اقراركر ليا ہے اور اس (شرط) پر میرے بھاری عہدكو مضبوطی سے تھام لیاہے؟
انہوں نے جواب دیا: ﴿أَقۡرَرۡنَا﴾ ہاں باری تعالیٰ! ہم نے اقرار کر لیا ہے کہ ہم خلقاً اول الانبياء ﷺ اور بعثاً آخر الانبياء ﷺ پر ایمان بھى لائیں گے اور ان کی مدد بھی کریں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿فَٱشۡهَدُواْ وَأَنَا۠ مَعَكُم مِّنَ ٱلشَّٰهِدِينَ﴾
(آل عمران، 3: 81)
تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔
یعنی تمہارے اِقرار نامے اور عہد نامے پر اپنى گواہى كى مہر ثبت فرماتا ہوں۔ اِس كا مطلب يہ فرمانا تھا كہ سن لو! اس اقرار پر ميں صرف تمہیں ہی گواہ نہیں بنا رہا بلکہ میں خود بھی اپنے محبوب ﷺ کے لیے کیے گئے وعدہ اور اقرار پر گواہ بن رہا ہوں۔
اللہ رب العزت نے انبیاء کرام علیہم السلام سے عہد لیتے ہوئے رِسالتِ محمدی ﷺ کی عالم گير وسعت کا بھى ذکر فرمایا اور ﴿ثُمَّ جَآءَكُمۡ رَسُولٞ﴾ کے ذریعے یہ واضح کیا کہ اے گروہِ انبیاء! تم میں سے کوئی رسول بن کر قومِ عاد کی طرف جائے گا اور کوئی ثمود کی طرف؛ کسی کو مدائن میں بھیجا جائے گا اور کسی کو فلسطین میں؛ کوئی مصر میں جائے گا، کوئی شام میں، كوئى مشرق ميں جائے گا اور كوئى مغرب ميں۔ الغرض! تم سب انبیاء کو اپنے اپنے علاقوں، نسلوں، قبیلوں، شہروں اور ملكوں میں پیغامِ رسالت دے کر بھیجوں گا اور یوں اس کائناتِ ارضى کا کوئی گوشہ ایسا نہیں رہے گا جہاں تم میں سے کوئی نہ پہنچا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِنْ مِّنۡ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٞ﴾
(فاطر، 35: 24)
اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی نصیحت کرنے والا (پیغمبر) نہ گزرا ہو۔
ارشادِ بارى تعالىٰ ہے كہ ہر علاقے میں ہر قوم کی زبان میں پیغامِ رسالت دینے كے ليے نبى اور رسول بھیجے گئے ہيں:
﴿وَمَآ أَرۡسَلۡنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِهِۦ لِيُبَيِّنَ لَهُمۡ﴾
(إبراهىم، 14: 4)
اور ہم نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا مگر اس قوم کی زبان میں (تبلیغ کرنے والا تھا) تاکہ ان کو (ہمارے احکام بآسانی) سمجھا سکے۔
لیکن جب شعور انسانیت اپنے بلوغ كے آخری دور ميں داخل ہو جائے گا تو ﴿ثُمَّ جَآءَكُمۡ رَسُولٞ﴾ کا مصداق ايك ہى پیغمبر پوری کائنات کے لیے مبعوث ہوگا جو کسی مخصوص قریے، علاقے اور ملك کی طرف نہیں بلکہ پوری دنیاے عرب و عجم اور پورے عالمِ انسانيت کے لیے رسول ہوگا۔ اُس کا دائرۂ نبوت و رسالت کسی مخصوص قوم يا نسل تک محدود نہیں ہوگا۔ وہ نسلى، لسانی، اَلوانی، طبقاتی اور علاقائى حدود و قیود سے ماورا، ہمہ گیر اور كائناتى رسالت کا مالک ہوگا۔ سب انبياء کی نبوتیں اور رسالتیں زمانی اور مکانی تھىں لیکن رسالتِ محمدی ﷺ زمان و مکان کی سارى حدیں ختم کرکے پوری دُنیاے انسانيت كو یکجا کر دے گی۔ اُسى آخری رسول ﷺ کی نبوت و رسالت قیامت تک جاری و ساری رہے گی۔ قرآن مجید اس امر کی شہادت ایک مقام پر یوں دے رہا ہے:
﴿وَمَآ أَرۡسَلۡنَٰكَ إِلَّا كَآفَّةٗ لِّلنَّاسِ بَشِيرٗا وَنَذِيرٗا﴾
(سبا، 34: 28)
اور اے محبوب! ہم نے آپ کو تمام بنی نوع انسان کے لیے خوش خبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
اسى طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿تَبَارَكَ ٱلَّذِي نَزَّلَ ٱلۡفُرۡقَانَ عَلَىٰ عَبۡدِهِۦ لِيَكُونَ لِلۡعَٰلَمِينَ نَذِيرًا﴾
(الفرقان، 25: 1)
وہ خدائے عزوجل بہت بابرکت ہے جس نے اپنے برگزیدہ بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ وہ پورى كائنات انسانى كو ڈر سنانے والا (اور ہدايت كرنے والا) ہو۔
اسى طرح ارشاد فرمايا گياہے:
﴿وَمَآ أَرۡسَلۡنَٰكَ إِلَّا رَحۡمَةٗ لِّلۡعَٰلَمِينَ﴾
(الأنبياء، 21: 107)
اور ہم نے آپ ﷺ كو نہيں بھيجا مگر تمام جہانوں كے لیے رحمت بنا كر۔
يہى مضمون حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروى درجِ ذيل فرمان نبوى ﷺ ميں بيان ہوا ہے:
وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً.
أخرجه مسلم في الصحىح، كتاب المساجد، 1: 371، الرقم: 523، وأحمد بن في حنبل في المسند، 2: 411، الرقم: 9326، وابن حبان في الصحىح، 6: 87، الرقم: 2313، وأبو عوانة في المسند، 1: 330، الرقم: 1169، وأبو يعلى في المسند، 11: 377، الرقم: 6491.
مجھے (اَزل سے اَبد تک کی) تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔
چنانچہ ﴿ثُمَّ جَآءَكُمۡ رَسُولٞ﴾ کے كلمات ميں بھى درحقيقت اِسى نكتے كى تصريح ہے کہ میرے رسولِ آخرالزماں ﷺ كى نبوت و رسالت سب انبیاء و رُسل علیہم السلام کی نبوتوں اور رسالتوں پر حاوی ہوگى۔ درج ذيل كلماتِ آيت میں اسى شان كى طرف اشارہ ہے:
﴿مُّصَدِّقٞ لِّمَا مَعَكُمۡ﴾
(آل عمران، 3: 81)
گويا وہ رسول تم سب كى نبوتوں اور رسالتوں کی تصدیق کرنے کے علاوہ تم پر نازل ہونے والى كتابوں، صحیفوں اور وحى کی بھى تصدیق فرمائے گا۔
مذکورہ بالا گفتگو سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے اَدوار بھی حقيقت میں نبوتِ محمدی ﷺ كے دائرے ميں داخل ہيں۔ نبوتِ محمدی ﷺ تمام انبياء كى نبوتوں كو محيط ہے۔ اِسى طرح آپ ﷺ كا زمانہ سب زمانوں كو محيط ہے۔ چنانچہ خلقت كے اعتبار سے آپ ﷺ ہى سب انبياء ميں اَوّل ہيں اور بعثت كے اعتبار سے آپ ﷺ ہى سب انبياء ميں آخر ہيں۔ سو عالمِ خلق ميں اس شان كے ساتھ آپ ﷺ ہى اَوّل و آخر ہيں۔ عالمِ نبوت ميں آپ ﷺ ہى فاتح و خاتم ہيں۔ سو دائرۂ نبوت آپ ﷺ ہى كے وجود سے شروع ہوا تھا اور آپ ﷺ ہى كے ظہور پر آكر ختم ہوگيا۔
Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved