امام عبد الرزاق حدیث نقل کرتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَخْبِرْنِي عَنْ أَوَّلِ شَيءٍ خَلَقَهُ اللهُ تَعَالَی قَبْلَ الْأَشْیَاءِ، قَالَ: یَا جَابِرُ، إِنَّ اللهَ تَعَالَی قَدْ خَلَقَ قَبْلَ الْأَشْیَاءِ نُوْرَ نَبِیِّكَ مِنْ نُوْرِهِ، فَجَعَلَ ذَلِكَ النُّوْرُ یَدُوْرُ بِالْقُدْرَةِ حَیْثُ شَاءَ اللهُ تَعَالَی، وَلَمْ یَكُنْ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ لَوْحٌ وَلَا قَلَمٌ، وَلَا جَنَّةٌ وَلَا نَارٌ، وَلَا مَلَكٌ، وَلَا سَمَاءٌ وَلَا أَرْضٌ، وَلَا شَمْسٌ وَلَا قَمَرٌ، وَلَا جِنِّيٌّ وَلَا إِنْسِيٌّ ... الحديث.
أخرجه عبد الرزاق في المصنف (الجزء المفقود)، 1: 63، الرقم: 63، وذكره القسطلانی في المواهب اللدنیة، 1: 71 (برواية الإمام عبد الرزاق)، والزرقاني في شرح المواهب اللدنیة، 1: 89-91، والحلبي في السیرة الحلبیة، 1: 50، وذكره العيدروسي في تاريخ النور السافر، 1: 8، وأشرف علي التهانوي في نشر الطیب: 13. قال الإمام العجلوني ناقلًا الحديث المذكور: رواه الإمام عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ في المصنف.
میں نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا: یا رسول الله! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ الله تعالیٰ نے سب سے پہلے کس شے کو پیدا فرمایا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے جابر! بے شک الله تعالیٰ نے تمام مخلوق (کو پیدا کرنے) سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور (کے فیض) سے پیدا فرمایا، پھر وہ نور مشیتِ ایزدی سے جہاں اس نے چاہا سیر کرتا رہا۔ اُس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ (کوئی) فرشتہ تھا، نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھے اور نہ انسان۔
اس حدیث مبارک کو کثیر ائمہ و محدثین نے نقل کیا ہے۔ امام زرقانی ’شرح المواہب‘ میں فرماتے ہیں:
لَا بِمَعْنَی إِنَّهَا مَادَّةٌ خُلِقَ نُوْرُهُ مِنْهَا، بَلْ بِمَعْنَی تَعَلُّقِ الْإِبْرَارَةِ بِهِ بِلَا وَاسِطَةِ شَیءٍ فِي وُجُوْدِهِ (مِنْ نُوْرِهِ) إِضَافَةُ تَشْرِیْفٍ كَقَوْلِهِ تَعَالَی:
﴿ثُمَّ سَوّٰىهُ وَ نَفَخَ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ﴾.(لسجدة، 32: 9)
ذكره الزرقاني في شرح المواهب اللدنیة، 1: 90
اس حدیث میں نور محمدی ﷺ کے نورِ الٰہی سے خلق ہونے کا معنی یہ نہیں کہ خود نورِ الٰہی اس نور کا مادۂ تخلیق تھا۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے نورِ محمدی ﷺ کو اپنے تعلقِ ارادہ كےساتھ اپنے نورِ ذات کے براہ راست فیض کے ذريعے تخلیق فرمایا۔ ’’مِنْ نُوْرِهِ‘‘ میں اضافتِ تشریفیہ ہے۔ جیسے سیدنا آدم علیہ السلام کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا: اللہ تعالىٰ نے حضرت آدم كے جسد خاكى ميں اپنى روح پھونكى۔
امام زرقانی لکھتے ہیں کہ اس معنى كى تائيد ’صحیح مسلم‘ کی اُس حدیث سے بھى ہو جاتى ہے جس میں فرمایا گیا ہے:
خُلِقَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ.
أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الزهد والرقائق، باب في أحاديث متفرقة، 4: 2294، الرقم: 2996.
ملائکہ نور سے پیدا کیے گئے ہیں۔
اِسی طرح عکرمہ سے مروی ہے:
خُلِقَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُوْرِ الْعِزَّةِ.
أخرجه ابن راهويه في المسند، 2: 278، الرقم: 788.
ملائکہ نورِ عزت سے پیدا کیے گئے ہیں۔
نورِ عزت کی اضافت بھی اسی طرح تشریفی ہے جیسے ابتداء میں نورِ محمدی ﷺ کے لیے ’مِنْ نُوْرِهِ‘ کے الفاظ میں نورِ الٰہی كى نسبت كا تشریفًا ذکر آیا ہے۔ (27)
ذكره الزرقاني في شرح المواهب اللدنیة، 1: 90-91.
اِس حديث سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوئی کہ کائنات میں خلقت کے اعتبار سے نورِ محمدی ﷺ کو حقیقی اولیت کا شرف حاصل ہے اور باقی اشیاء اپنی اپنی اجناس کے لحاظ سے اضافی اور اعتباری اولیت رکھتی ہیں۔ نورِ محمدی کے ﷺ کائنات میں سب سے پہلے تخلیق کیے جانے اور آپ ﷺ کو تخلیقِ آدم سے بھی پہلے شرفِ نبوت سے بہرہ یاب کیے جانے کے مضامین بہت سی احادیث میں آئے ہیں جنہیں مختلف الفاظ میں امام بخاری نے اپنی ’تاریخ‘ میں، مسلم نے ’الصحیح‘ میں، احمد بن حنبل نے ’المسند‘ میں، حاکم نے ’المستدرک‘ میں، ترمذی نے ’السنن‘ میں، بیہقی نے ’دلائل النبوۃ‘ میں، بغوی نے ’شرح السنہ‘ میں، خطیب التبریزی نے ’مشکوٰۃ المصابیح‘ میں، دیار بکری نے ’تاریخ الخمیس‘ اور دیگر ائمہ نے اپنی کتب میں روایت کیا ہے۔ اسی طرح امام ابو نعیم، بزار، طبرانی، ابن حبان، ابو حیان، ابن سعد، ابن عساکر، خرائطی، ابن الجوزی، خطیب بغدادی، حافظ ابو بکر، زرکشی، عسقلانی، قسطلانی، سیوطی اور زرقانی وغیرھم نے بھی اسى مضمون كى بہت سی احادیث کی تخریج کی ہے اور ان پر اعتماد کیا ہے۔ علاوہ ازیں امام محمد الفاسی نے ’مطالع المسرات‘ میں، قاضی عیاض المالکی نے ’الشفاء‘ میں، امام ابن حجر الہیتمی مکی نے ’الفتاوی الحدیثیہ‘ میں، ملا علی قاری نے ’مرقاۃ المفاتیح‘ اور ’شرح الشفاء‘ میں، امام عبدالغنی نابلسی نے ’الحدیقۃ الندیہ‘ میں، شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے ’مدارج النبوۃ‘ میں اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ’التفہیمات الالٰہیہ‘ میں ان احادیث کو نقل کرکے ان سے استناد کیا ہے۔ امام شعرانی، امام آلوسی، امام نبہانی، حتی کہ مولانا اشرف علی تھانوی اور بہت سے دیگر متاخرین نے بھی ان احادیث و روایات کو اپنی کتب میں نہ صرف نقل کرکے ان کی توثیق و تائید کی ہے بلکہ مستقل ابواب قائم کرکے انہیں ثابت کیا ہے۔
Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved