نبوت محمدی ﷺ کا آغاز کب ہوا؟

2۔ ظہورِ وجودِ نبوی ﷺ کے مراحلِ ثلاثہ

یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ نورِ محمدی ﷺ کے ظہور کے تین مراحل ہیں:

1۔ حقیقت محمدی ﷺ ، 2۔ نورانیتِ محمدی ﷺ ، 3۔ بشریتِ محمدی ﷺ

نورِ محمدی ﷺ کے ظہورِ اَوَّل، یعنی حقیقتِ محمدی ﷺ سے عالمِ آخرت کو وجود بخشا گیا۔ ظہورِ ثانی، یعنی نورانیتِ محمدی ﷺ سے عالمِ اَرواح کو وجود بخشا گیا، جب کہ ظہورِ ثالث یعنی بشریتِ محمدی ﷺ کی خاطر عالمِ اجسام کو وجود عطا ہوا۔ حقیقتِ محمدی ﷺ کے پہلے پرتَو کا جہاں جہاں سایہ پڑا وہ حصہ جنت زار بن گیا اور جو حصہ اس سائے سے محروم رہا وہ دوزخ كا روپ دھار گیا۔ گویا جنت سرکار ﷺ کا سایہ ہے اور دوزخ اس سے محرومی کا عنوان ہے۔ جو کوئی دامانِ محمدی ﷺ کے سائے سے محروم رہتا ہے وہ جنت سے محروم رہتا ہے۔

اس سے یہ نکتہ بھی سمجھ میں آجانا چاہیے کہ جب سارا عالم وجودِ محمدی ﷺ کا سایہ ہے تو پھر اُس وجود کا سایہ زمین پر کیسے نظر آئے؟ بھلا سائے کے اندر بھی کوئی سایہ ہوتا ہے؟

حضور نبی اکرم ﷺ کے وجودِ مسعود کے ظہور کے مراحلِ ثلاثہ کی مزید تفصیلات درج ذیل ہیں:

(1) مرحلۂ اُولیٰ: خلقتِ نورِ محمدی ﷺ

پہلا مرحلہ حضور ﷺ کی خلقت کا ہے۔ اس سے مراد وجودِ محمدی ﷺ کے ظہور کا وہ مرحلہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے نور کو عالمِ عدم سے عالمِ وجود میں منتقل فرمایا۔

(i) اَمرِ کن کا مظہرِ اَوّل: نورِ محمدی ﷺ

حضور نبی اکرم ﷺ کائنات کی تمام موجودات کی اصل ہیں۔ اس کا ثبوت قرآن مجیدکی درج ذیل آیت کریمہ میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ﴾

(یس، 36: 82)

اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو (پیدا کرنے ) کا ارادہ فرماتا ہے اس سے کہتا ہے ہو جا، پس وہ ہو جاتی ہے۔

آیت مذکورہ میں ﴿إِنَّمَآ أَمۡرُهُۥٓ﴾ میں اَمرِ اِلٰہی کا ذکر ہے اور ﴿إِذَآ أَرَادَ شَيۡئًا﴾ میں اِرادۂ الٰہی کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا عملِ تخلیق اس کی شان کے لائق تین مرحلوں سے گزرتا ہے جن کا ذکر مندرجہ بالا آیہ کریمہ میں ہوا ہے۔ پہلے امر اور ارادہ کا ذکر فرمایا اور یہ دونوں چیزیں مخفی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کس شے کا ارادہ اور کس شے کو ظاہر فرمانا چاہتا ہے، یہ مخلوق کے علم میں نہیں صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے۔ جب وہ امر اور ارادہ فرما لیتا ہے تو حكم دىتا ہے کہ ہو جا تو وہ چیز ہو جاتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق وہ عمل ظاہر ہو جاتا ہے اور جس وجود یا حقیقت کو پیداکرنا مقصود ہوتاہے وہ پیدا ہو جاتی ہے۔ ﴿كُنۡ﴾ سے پہلے جو کچھ تھا وہ باطن ہے اور اس کے بعد جو کچھ تخلیق ہوا وہ ظاہر ہے۔ اَمرِ ﴿كُنۡ﴾ باطن اور ظاہر کے درمیان ظہور کا واسطہ ہے،کیونکہ ﴿فَيَكُونُ﴾ میں جو کچھ ظاہر ہوا وہ ﴿كُنۡ﴾ کے ذریعے سے وجود پذیر ہوا۔

اللہ تعالیٰ کے اَوّلين اَمرِ ﴿كُنۡ﴾ سے پہلے زمان و مکاں کی کوئی شے موجود نہ تھی، صرف اللہ تعالیٰ کی ذات تھی جو اپنی صفات کے پردوں میں مخفی تھی، اسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جس شے کا ارادہ فرمایا اور جو شے اس کی چاہت کا مرکز بنی وہ بھی مخفی تھی۔ جب ﴿كُن﴾ (ہو جا) فرمایا تو اس امر سے پردہ اٹھ گیا اور جو شے باطن تھی وہ ظاہر ہوگئی۔ سو کائنات کا پہلا اَمرِ ﴿كُنۡ﴾ نورِ محمدی ﷺ کی صورت میں وقوع پذیر اور ضَو فشاں ہوگیا۔

نورِ محمدی ﷺ اس کی ذات وحدہٗ لاشریک کی توجہ کا مرکز و محور بنا اور اس کی آغوشِ محبت میں پرورش پاتا رہا۔ جب اس نورِ اول ﷺ کی تخلیق ہو چکی تو اس سے تمام عوالم کو خلعتِ وجود عطا کیا گیا۔

(ii) مقامِ حمد اور حقیقتِ محمدی ﷺ

یہی پہلی توجہ، اور پہلا اَمرِ ﴿كُنۡ﴾ تھا۔ ﴿كُنۡ﴾ تک حق تھا، فاعل اللہ تعالیٰ کی ذات تھی اور نسبتِ فعل اللہ کی طرف تھی اور ضمیر کا مرجع بھی اللہ تھا۔ ﴿فَيَكُونُ﴾ سے جب مخلوق کا آغاز ہوا تو فعل کی نسبت بھی مخلوق کی طرف ہوگئی، صورتِ تخلیق یوں بنی کہ ﴿كُنۡ﴾ میں جلوۂ حق تھا اور ﴿فَيَكُونُ﴾ میں جلوۂ محمدی ﷺ کا ظہورہوا۔ جس کے بعد مخلوق حقیقتِ محمدی ﷺ کا حسن و جمال دیکھ کر حقیقتِ الٰہی کی عظمت و کمال کو سمجھنے لگی۔ اَفرادِ خلق حقیقتِ محمدی ﷺ کو دیکھتے گئے اور معرفتِ الٰہی کو پاتے گئے۔ اس مقام پر حقیقتِ محمدی ﷺ خود حمد تھی یعنی حسنِ اُلوہیت اور حسنِ ربوبیت کا بیانِ اوّل ہی حمد تھی۔ جس کسی نے حقیقتِ محمدی ﷺ کو دیکھا اور اس مبداءِ فیض سے فیض یاب ہوا، اُسی نے اُس کی بے شمارحمد کی، جب حمد حد سے بڑھی تو اُسی حقیقت کا نام محمد ﷺ رکھ دیا گیا۔ اِس لیے محمد ﷺ کا معنی ہے: جس کی بے شمار حمد کی گئی اوربار بار حمد کی گئی ہو۔ چوں کہ اس حقیقت نے خود سب سے پہلے اللہ تعالىٰ کی بے شمار حمد کی، سو اس کا نام احمد رکھ دیا گیا۔ اس طرح تخلیق کا یہ نقشِ اَوّل مظہر حمد بھی ہوا، حامد و محمود بھی بنا اورمحمد و احمد بھی قرار پایا۔

حدیثِ قدسی کے الفاظ ’’أَن أُعْرَفَ (میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں)‘‘ کو حمد کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس سے مراد ہوا: أَنْ أُحْمَدَ (میرے حسن و جمال اور عظمت و کمال کو سراہا جائے اورمیری تعریف کی جائے)۔

جب مجرّد ذات باری تعالیٰ تھی تو حمد نہ تھی۔ جب حقیقتِ محمدی ﷺ وجود میں آئی تو حمد بنی۔ حمد سے پہلے فقط وحدت تھی، پھر حمد سے کثرت وجود میں آگئی اور یہ کثرت حقیقتِ محمدی ﷺ کے توسط سے وجود میں آئی، اس طرح حقیقتِ محمدی ﷺ وحدت اورکثرت کے درمیان واسطہ قرار پائی۔ جب حسن و جمال اور حمد و کمال کی یہ کثرت خود وجود محمدی ﷺ میں اِنتہاے کثرت تک پہنچی تو آپ ﷺ ہی کو کوثر کا رتبہ عطا ہو گیا اور اعلان حق ہوا:

﴿إِنَّآ أَعۡطَيۡنَٰكَ ٱلۡكَوۡثَرَ﴾

(الكوثر، 108: 1)

سو وحدت کا حسن محمد ﷺ میں ظاہر ہوا اور محمد ﷺ کا حسن کثرت میں ظاہر ہوا۔ چوں کہ کثرت میں ہر سو محمد ﷺ کا حسن ہے اور محمد ﷺ میں سُو بسُو وحدتِ حق کا حسن ہے، اس لیے ہر کثرتِ خلق نے محمد ﷺ کی تعریف کی اور خود محمد ﷺ نے وحدتِ حق کی تعریف کی۔ سو سب سے پہلےیہ اِرادہ حق کہ میں پہچانا جاؤں حقیقتِ محمدی ﷺ کی صورت میں پورا ہوگیا۔

(iii) حقیقتِ محمدی ﷺ ہی سب سے اَعلیٰ اور اَکمل حمد ہے

﴿ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ﴾ کے رازوں میں سے ایک عظیم راز یہ بھی ہے کہ حقیقتِ محمدی ﷺ ہی سب سے اَعلیٰ اور اَکمل حمدِ اِلٰہی ہے۔ اس آیہ کریمہ میں حمد بیانِ حسن اور تعریفِ کمال سے عبارت ہے۔

یہاں چند نکات قابلِ توجہ ہیں:

1۔ ﴿لِلَّهِ﴾ اللہ کا مقامِ وحدت ہے اور وہ حسنِ مخفی تھا۔

2۔ ﴿حَمۡد﴾ بیانِ حسنِ وحدت ہے، اس کے لیے ضروری ہوا کہ یہ حسن اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی صورت میں ظاہر ہو۔

3۔ ظہورِ ربوبیت کے لیے ضروری ہوا کہ عالمین ہوں یعنی کثرتِ خلق ہو جو حسن وحدت کو جانے، پہچانے اور سراہے۔

4۔ عالمین کے وجود کے لیے ضروری ہوا کہ رحمتِ حق پہلے ظہور پذیر ہو، اور رحمتِ حق کے پہلے ظہور کا نام حقیقتِ محمدی ﷺ ہے۔

لہذا جوخلق کثرت کی صور ت میں ظاہر ہوئی وہ ﴿ٱلۡعَٰلَمِينَ﴾ کہلائی۔ اور یہ کثرت جس حقیقت کے ذریعے ظاہر ہوئی وہ ﴿رَحۡمَة لِّلۡعَٰلَمِينَ﴾ کہلائی۔ گویا اللہ کی شانِ وحدت کا آئینہ دار ﴿رَبُّ ٱلۡعَٰلَمِينَ﴾ کا عنوان ہےاور اس کی تخلیق میں وجہ کثرت کا آئینہ دار ﴿رَحۡمَة لِّلۡعَٰلَمِينَ﴾ کا عنوان ہے۔

(iv) عالمِ خلق میں حضور ﷺ ہی اَوّل و آخر ہیں

حضور نبى اكرم ﷺ کی حقیقت کا مقام اوّلِ کائنات میں ’’حمد‘‘ تھا اور آخرِ کائنات میں ’’محمود‘‘ ہوگا۔ حضور نبى اکرم ﷺ کی خلقت ہوئی تو حمد تھے، عالمِ روحانیت میں آئے تو احمد کہلائے، عالمِ بشریت میں آئے تو محمد ﷺ کہلائے۔ جب عالمِ آخرت میں جلوہ گر ہوں گے تو محمود ہوں گے اور جس مقام پر فائز ہوں گے اسے مقام محمود کہا جائے گا۔ گویا ابتداے ﴿كُنۡ﴾ پر حقیقتِ محمدی ﷺ کا مقام ’’حمد‘‘ تھا اور انتہاے ﴿فَيَكُونُ﴾ پر حقیقتِ محمدی ﷺ کا مقام ’’محمود‘‘ ہوگا۔

جب حضور نبی اکرم ﷺ نے اللہ کی حمد کی تو آپ احمد ﷺ قرار پائے اور جب اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی حمد کی تو آپ محمد ﷺ قرار پائے۔ اس لیے ظہورِ اَرضی سے قبل آپ ﷺ کا نام احمد رہا اور ظہورِ اَرضی کے بعد محمد ﷺ كے نام سے معروف ہوئے اور قیامت کے روز آپ ﷺ مقامِ محمود پر ظہور فرما ہوں گے۔ سو عالمِ خلق میں حضور نبی اکرم ﷺ ہی حمد كے عنوان سے اول ہیں اورحمد كے عنوان سے آپ ﷺ ہی آخر ہوں گے۔ لہٰذا حقیقتِ محمدی ﷺ اپنے وجود اور ظہور ہی کے مختلف مراحل ميں کبھی حمد تھی، کبھی حامد ہوئی، کبھی احمد بنی، کبھی محمد کہلائی اور کبھی محمود ہوگی۔ یہ سارے حقیقتِ محمدی ﷺ کے مظاہر ہیں اور آپ ﷺ ہی کی مختلف شانوں کے مراحل ہیں۔

اسى وجہ سے ظہورِ بشريت سے پہلے جب حضور ﷺ عالمِ ارواح ميں تھے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آپ ﷺ كى آمد كى خوش خبرى احمد ﷺ كے عنوان سے دی، جسے قرآن مجيد نے یوں بیان فرمایاہے:

﴿یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ﴾

(الصف، 61: 6)

اے بنی اسرائیل! میں اللہ کا رسول ہوں (جو) تمہاری طرف (بھیجا گیا ہوں) میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے آئی ہے اور خوشخبری سنانے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئیں گے، ان کا نام احمد ہے۔

آخرت میں حضور نبی اکرم ﷺ كے مقام كا محمود ہونا اِس ارشاد باری تعالیٰ ميں بيان ہوا ہے:

﴿عَسٰۤی اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا﴾

(الإسراء، 17: 79)

یقینًا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔

آپ ﷺ كے اسى مقامِ حمد كى وجہ سے حضرت آدم و حوا علیہما السلام کے نکاح کا مہر حضور ﷺ پر درود و سلام پڑھنا قرار پایا۔

امام قسطلانی اور امام دیار بکری، امام ابن الجوزی کے حوالے سےنقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی کتاب ’’سلوة الأحزان‘‘ میں بیان کیا ہے:

أَنَّهُ لَمَّا رَامَ الْقُرْبَ مِنْهَا طَلَبَتْ مِنْهُ الْمَهْرَ، فَقَالَ: یَا رَبِّ: وَمَاذَا أُعْطِیْهَا؟ فَقَالَ: یَا آدَمُ، صَلِّ عَلَی حَبِیْبِي مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ عِشْرِیْنَ مَرَّةً، فَفَعَلَ.

ذكره القسطلاني في المواهب اللدنية، 1: 76، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1: 101، والدياربكري في تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس، 1: 47، وابن حجر الهيتمي في إتمام الكبری علی العالم بمولد سيد ولد آدم: 46، والعجيلي في الفتوحات الإلهية بتوضيح تفسير الجلالين للدقائق الخفية، 7: 44.

جب حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت حوا کی قربت کا ارادہ کیا تو انہوں نے مہر طلب کیا۔ آدم علیہ السلام نے بارگاہِ ایزدی میں عرض کیا: پروردگار! میں کیا دوں؟ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ میرے حبیب محمد بن عبداللہ ( ﷺ ) پر 20 بار درود پڑھو (یہ تمہاری طرف سے حق مہر ہوگا)۔ سو انہوں نے اِسى پر عمل کیا۔

(2) مرحلۂ ثانیہ: ظہورِ نورانیتِ محمدی ﷺ

حضور نبی اکرم ﷺ کے وجود مسعود کے ظہور کا دوسرا مرحلہ’’ظہورِ نورانیتِ محمدی‘‘ ہے۔ اس سے مراد وجودِ مصطفی ﷺ کے ظہور کا وہ مرحلہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے نور کو پشت در پشت پاکیزہ صلبوں سے پاکیزہ رحموں میں منتقل کرنے کا آغاز فرمایا۔ اس مرحلےکی تفصیل درج ذیل ہے:

(i) نورِ محمدی ﷺ کا پاک پشتوں سے پاکیزہ رحموں میں منتقل ہونا

حضور ﷺ کے ظہور کا دوسرا مرحلہ نورِ محمدی ﷺ کی تخلیق سے ظہورِ بشری سےقبل تك كا زمانہ ہے۔ اِس مرحلہ میں نورِ محمدی ﷺ پشت در پشت پاکیزہ صلبوں سے پاکیزہ رحموں میں منتقل ہوتا رہا۔ تا آں کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پیشانی میں چمکا اور سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کی گود میں اتر آیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ كُنْتَ وَآدَمُ فِي الْجَنَّةِ؟

یا رسول اللہ! آپ اُس وقت کہاں تھے جب آدم علیہ السلام جنت میں تھے؟

حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كُنْتُ فِي صُلْبِهِ، وَأُهْبِطَ إِلَى الْأَرْضِ، وَأَنَا فِي صُلْبِهِ، وَرَكِبْتُ السَّفِينَةَ فِي صُلْبِ أَبِي نُوحٍ، وَقُذِفْتُ بِي فِي النَّارِ، فِي صُلْبِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ، لَمْ يَلْتَقِ لِي أَبَوَانِ قَطُّ عَلَى سِفَاحٍ، لَمْ يَزَلْ يَنْقِلُنِي مِنَ الْأَصْلَابِ الطَّاهِرَةِ إِلَى الْأَرْحَامِ النَّقِيَّةِ.

أخرجه ابن الجوزي في الوفا بأحوال المصطفی، 1: 28، الرقم: 9.

هذا لفظ ابن الجوزي وقد رواه الأئمة الكبار للحديث والسيرة، كما يلي:

أبو سعد النيسابوري في شرف المصطفى ﷺ، 1: 304، الرقم: 78، والقاضي عياض في الشفا بتعريف حقوق المصطفى: 126-127، الرقم: 131، والمقريزي في إمتاع الأسماع بما للنبي ﷺ من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، 3: 190، وابن كثير في السيرة النبوية، 1: 195-196، والسيوطي في الدر المنثور في التفيسر بالمأثور، 4: 28، 329، 6: 332، والهندي في كنز العمال، 12: 192، الرقم: 35489، والحلبي في السيرة الحلبية، 1: 70

میں ان کى صلب میں تھا اور جس وقت انہیں زمین پر اتارا گیا تب بھى ميں ان کى صلب میں تھا۔ پھر مجھے اپنے باپ نوح کى صلب میں کشتی میں سوار کیا گیا۔ پھر مجھے اپنے باپ ابراہیم کی پشت میں آگ میں ڈالا گیا۔ میرے نسب ميں كوئى بھى والدین کبھی برائی پر نہیں ملے۔ میں ہميشہ طاہر اور طيب پشتوں سے طاہر اور طيب رحموں میں منتقل ہوتا چلا آيا ہوں۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے نورِ اَقدس کے ظہور کے باب ميں حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ کی درج ذيل روایت قابلِ غورہے:

لَمَا أَرَادَ اللهُ تَعَالَی أَنْ یَخْلُقَ مُحَمَّدًا ﷺ أَمَرَ جِبْرِیْلَ علیہ السلام أَنْ یَأْتِیَهُ، فَأَتَاهُ بِالْقَبْضَةِ الْبَیْضَاءِ الَّتِي هِيَ مَوْضِعُ قَبْرِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، فَعُجِنَتْ بِمَاءِ التَّسْنِیْمِ، ثُمَّ غُمِسَتْ فِي أَنْهَارِ الْجَنَّةِ، وَطِیْفَ بِهَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، فَعَرَفَتِ الْمَلَائِكَةُ مُحَمَّدًا وَفَضْلَهُ قَبْلَ أَنْ تَعْرِفَ آدَمَ، ثُمَّ كَانَ نُوْرُ مُحَمَّدٍ ﷺ یُرَی في غُرَّةِ جَبْهَةِ آدَمَ، وَقِیْلَ لَهُ: یَا آدَمُ، هَذَا سَیِّدُ وَلَدِكَ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ، فَلَمَّا حَمَلَتْ حَوَّاءُ بِشِیْثٍ، انْتَقَلَ عَنْ آدَمَ إِلَی حَوَّاءَ، وَكَانَتْ تَلِدُ فِي كُلِّ بَطْنٍ وَلَدَیْنِ إِلَّا شِیْثًا، فَإِنَّهَا وَلَدَتْهُ وَحْدَهُ، كَرَامَةً لِمُحَمَّدٍ. ثُمَّ لَمْ یَزَلْ یَنْتَقِلُ مِنْ طَاهِرٍ إِلَی طَاهِرٍ إِلَی أَنْ وُلِدَ.

أخرجه أبو سعد النيسابوري في شرف المصطفى ﷺ ، 1: 300-301، وابن الجوزي في الوفا بأحوال المصطفى ﷺ، 1: 34، والمقريزي في إمتاع الأسماع، 3: 190، والملا علي القاري في مرقاة المفاتيح، 10: 420، والسمهودي في وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى ﷺ، 1: 32، والصالحي في سبل الهدى والرشاد، 1: 69.

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کے پیکرِ بشری کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت جبریل امین علیہ السلام کو حکم دیا کہ ایسی مٹی میرے پاس لے آؤ جو میرے محبوب ﷺ کے جسدِ اطہر کی تخلیق کے لائق ہو۔ سو وہ مٹھی بھر سفید رنگ كى مٹی روضۂ اَطہر (گنبد خضرى) والی جگہ سے لے کر بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوئے۔ پھر اس مٹی کو جنت كے چشمۂ تسنیم کے پانی سے گوندھا گیا، پھر اَنہارِ جنت کی لہروں میں دھویا گیا، پھر اُسے نورِ نبوت سے آراستہ كركے آسمانوں اور زمینوں میں ہر جگہ کی سیر کرائی گئی (تاکہ ہر شے حضور ﷺ کے شرف و کمال کو پہچان لے)۔ اس طرح ملائکہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پہچاننے سے پہلے حضرت محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی فضیلت کو پہچان لیا، پھر نورِ محمد ﷺ كو حضرت آدم علیہ السلام کی پیشانی ميں ودیعت کیا گيا جس ميں اُس نور كى تجليات خوب جھلكتى تھيں۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام كو بتايا گيا كہ يہ نور آپ كى نسل میں پیدا ہونے والے اَنبیاء و مرسلین کے سردار كا ہے۔ جب حضرت شیث علیہ السلام حضرت حواء علیہا السلام کے بطنِ اَطہر میں منتقل ہوئے تو وہ نور بھی حضرت حوا علیہا السلام کے بطن سے حضرت شيث علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگیا۔ وہ ہر دفعہ جڑواں بچوں کو جنم دیتی تھیں سوائے حضرت شیث علیہ السلام کے۔ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے جد اَمجد ہونے کی برکت سے تنہا پیدا ہوئے اور مرتبہ و کمال ميں سب بھائیوں سے یکتا بنے۔ پھر نبی الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کا نور اَنور یکے بعد دیگرے پاک پشتوں اور پاک رحموں میں منتقل ہوتا رہا تا آنکہ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوگئی۔

جب نورِ محمدی ﷺ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت شیث علیہ السلام کی طرف منتقل ہوا اور حضرت آدم علیہ السلام نے اس نور کو حضرت شیث علیہ السلام کی پیشانی میں چمکتا ہوا دیکھ لیا تو اس نور کی حفاظت کے حوالے سے آپ نے اُنہيں نصیحت کی۔ بعد ازاں يہی وصیت حضرت شیث علیہ السلام نے اپنے اس بیٹے کو کی جن کے نصیب میں یہ نور آیا۔ حضرت شیث علیہ السلام كى وصیت كے الفاظ يہ ہيں:

أَنْ لَا يَضَعَ ذَا النُّوْرَ إِلَّا فِي الْمُطَهَّرَاتِ مِنَ النِّسَاءِ، وَلَمْ تَزَلْ هَذِهِ الْوَصِيَّةُ جَارِيَةً، تُنْقَلُ مِنْ قَرْنٍ إِلَى قَرْنٍ إِلَى أَنْ أَدَّى اللهُ النُّوْرَ إِلَى عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَوَلَدِهِ عَبْدِاللهِ.

ذكره القسطلاني في المواهب اللدنية، 1: 85، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1: 124، والنبهاني في جواهر البحار، 3: 562، وأحمد الدردير في مولد البشير النذير: 10، والشنقيطي في نزهة الأفكار في شرح قرة الأبصار، 1: 34.

تمہاری پشت میں حضرت محمد ﷺ کا نور مبارک ہے اسے سوائے پاک عورتوں کے کسی کے رحم میں منتقل نہ کرنا۔ سو یہ وصیت نسلًا بعد نسلٍ حضور نبی اکرم ﷺ کے نسب مبارک کا ہر فرد اپنے بیٹے کو کرتا رہا۔تا آں کہ یہ نور تمام زمانوں میں پاکیزہ پشتوں اور پاکیزہ رحموں سے منتقل ہوتا ہوا حضرت عبد المطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ کی پشت مبارک تک آن پہنچا۔

(ii) نورِ محمدی ﷺ کا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی پیشانی میں چمکنا

حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

إِنَّ نُوْرَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ لَمَّا صَارَ إِلَى عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنه وَأَدْرَكَ، نَامَ یَوْمًا في الْحِجْرِ فَانْتَبَهَ مَكْحُوْلًا مَدْهُوْنًا، قَدْ كُسِيَ حُلَّةَ الْبَهَاءِ وَالْجَمَالِ، فَبَقِيَ مُتَحَیِّرًا لَا یَدْرِي مَنْ فَعَلَ بِهِ ذَلِكَ، فَأَخَذَهُ أَبُوْهُ بِیَدِهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِ إِلَی كَهَنَةِ قُرَیْشٍ، فَأَخْبَرَهُمْ بِذَلِكَ، فَقَالُوْا لَهُ: اعْلَمْ أَنَّ إِلَهَ السَّمَوَاتِ قَدْ أَذِنَ لِهَذَا الْغُلَامِ أَنْ یَتَزَوَّجَ، فَزَوَّجَهُ قَیْلَةَ، فَوَلَدَتْ لَهُ الْحَارِثَ، ثُمَّ مَاتَتْ، فَزَوَّجَهُ بَعْدَهَا هِنْدَ بِنْتَ عَمْرٍو.

ذكره أبو سعد النيسابوري في شرف المصطفى ﷺ، 1: 334، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1: 97، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1: 154، والمكي في سمط النجوم العوالي، 1: 270.

جب رسول اللہ ﷺ کا نور مبارک حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہمیں منتقل ہوا اور وہ جوان ہوگئے، تو ديكھا كہ وہ ایک دن حطیم میں سو کر اٹھے تو آنکھوں میں سرمہ اور بالوں میں تیل لگا ہوا تھا اور حسن و جمال میں بڑا اضافہ ہو چکا تھا۔ انہیں بڑی حیرت ہوئی، وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے ساتھ یہ معاملہ کس نے کیا ہے؟ ان کے والد انہیں قریش کے کاہنوں کے پاس لے گئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ انہوں نے سن کر کہا کہ اللہ نے اس جوان کی شادی کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے پہلا نکاح قیلہ سے کیا جس سے ایک بیٹا حارث پیدا ہوا۔ پھر ان کی وفات کے بعد ہندہ بنت عمرو (فاطمہ) سے نکاح کیا (ان کے نصیب میں نورِ محمد ﷺ آیا اور ان کے بطن سے حضرت عبداللہ متولد ہوئے)۔

نورِ محمدی ﷺ کے حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے بدن میں منتقل ہونے کے اثرات اس طرح ظاہر ہوتے تھے:

كَانَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ یَفُوْحُ مِنْهُ رَائِحَةُ الْمِسْكِ الْأَذْفَرِ، وَنُوْرُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یُضِيءُ فِي غُرَّتِهِ.

ذكره أبو سعد النىسابوري في شرف المصطفى ﷺ، 1: 336، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1: 85، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1: 155.

حضرت عبد المطلب کے بدن سے مشک کی خوشبو آتی تھی اور رسول اللہ ﷺ کا نور مبارک ان کی پیشانی میں خوب چمکتا تھا۔

(iii) نورِ محمدی ﷺ کی برکت سے بارانِ رحمت کا نزول

حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ کو اس نور كے باعث معاشرے میں نماياں اَہمیت اور برکت حاصل ہوگئی تھى۔ اَہلِ مکہ نے اس برکت کا مشاہدہ کئی دفعہ کیا:

وَكَانَتْ قُرَيْشٌ إِذَا أَصَابَهَا قَحْطٌ تَأْخُذُ بِيَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَتَخْرُجُ بِهِ إِلَى جَبَلِ ثَبِيْرٍ، فَيَتَقَرَّبُوْنَ بِهِ إِلَى الله تَعَالَى، وَيَسْأَلُوْنَهُ أَنْ يَسْقِيَهُمُ الْغَيْثَ. فَكَانَ يُغِيْثُهُمْ، وَيَسْقِيْهِمْ بِبَرَكَةِ نُوْرِ مُحَمَّدٍ ﷺ غَیْثًا عَظِيْمًا.

ذكره القسطلاني في المواهب اللدنية، 1: 98، و الزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1: 155، والمكي في سمط النجوم العوالي، 1: 270.
جب قریش میں قحط ہوتا تو وہ حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر اُنہیں جبلِ ثبیر پر لے جاتے اور ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرتے اور بارش کی دعا کرتے۔ اللہ تعالیٰ اس نور محمدی ﷺ کی برکت سے انہیں بارانِ رحمت سے نواز ديتا تھا۔

(iv) نورِ محمدی ﷺ کا حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پیشانی میں چمکنا

حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے يہ نور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو منتقل ہوا۔ پھر يہ نور اُن کی پیشانی ميں چمکا كرتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ اپنے فرزند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو لے کر ایک کاہنہ کے پاس سے گزرے، جس کانام فاطمہ خثعمیہ تھا۔ وہ توارت، اِنجیل اور کتبِ سابقہ کی عالمہ تھی۔ كتبِ سير ميں درج ہے:

فَرَأَتْ نُوْرَ النُّبُوَّةِ فِي وَجْهِ عَبْدِاللَّهِ، فَقَالَتْ: يَا فَتًى، هَلْ لَكَ أَنْ تَقَعَ عَلَيَّ الْآنَ.

اس عالمہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر نورِ محمدی كو چمکتا ہوا دیکھا تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو نکاح کی دعوت دے دی۔

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ حرام کاری پر موت کو ترجیح دوں گا۔ پھر وہاں سے تشریف لے گئے۔ جب حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ چند روز بعد دوبارہ اس عورت کے پاس سے گزرے تو اس نے آپ سے پوچھا:

یَا فَتًی، مَا صَنَعْتَ بَعْدِي؟

اے نوجوان! تو نے بعد میں کیا کیا؟

انہوں نے کہا:

زَوَّجَنِي أَبِي آمِنَةَ بِنْتَ وَهْبٍ، وَأَقَمْتُ عِنْدَهَا ثَلَاثًا.

میرے والد نے میری شادی آمنہ بنت وہب سے کر دی، میں نے اس کے ساتھ تین دن گزارے۔

اُس نے کہا:

إِنِّي، وَاللهِ، مَا أَنَا بِصَاحِبَةِ رِیْبَةٍ، وَلَكِنْ رَأَیْتُ فِي وَجْهِكَ نُوْرًا، فَأَرَدْتُ أَنْ یَكُوْنَ فِيَّ، وَأَبَی اللهُ إِلَّا أَنْ یُصَیِّرَهُ حَیْثُ أَحَبَّ.

أخرجه أبو نعیم الأصبهاني في دلائل النبوة، 1: 91، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1: 96، والطبري في تارىخ الأمم والملوك، 1: 500، وأبو سعد النيسابوري في شرف المصطفى ﷺ، 1: 344، وابن الأثير في الكامل في التاريخ، 1: 547، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3: 405، وابن كثير في البداية والنهاية، 2: 250، والمقريزي في إمتاع الأسماع، 4: 39-40، والسيوطي في الخصائص الكبرى، 1: 69-70، والصالحي في سبل الهدى والرشاد، 1: 327، والحلبي في السيرة الحلبية، 1: 59.

بے شک اللہ کی قسم! میرا آپ سے شادی کرنے كا اصلًا كوئى ارادہ نہیں تھا۔ مگر یہ کہ میں نے آپ کے چہرے میں ايک خاص نور چمکتا ہوا دیکھا۔ سو ميرے دل ميں خواہش پيدا ہوئى کہ وہ نور مبارک مجھے نصیب ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ كو جہاں منظور تھا اس نے اس نور كو وہى منتقل كر ديا ہے۔

امام قسطلانی اور دیگر ائمہ سیرت نے اس عورت کا رویہ یوں بیان کیا ہے کہ اس عورت نے دوبارہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طرف توجہ تک نہ کی۔ جس پر حضرت عبداللہ نے پوچھا: کیا بات ہے، اس وقت تو مجھے دعوتِ نکاح دیتی تھی مگر آج توجہ تک نہیں کرتی؟ امام قسطلانی کے الفاظ ہیں کہ اس خاتون نے جواب دیا:

فَارَقَكَ النُّوْرُ الَّذِي كَانَ مَعَكَ بِالْأَمْسِ، فَلَیْسَ لِي بِكَ الْیَوْمَ حَاجَةٌ، إِنَّمَا أَرَدْتُ أَنْ یَكُوْنَ النُّوْرُ فِيَّ، فَأَبَی اللهُ، إِلَّا أَنْ یَجْعَلَهُ حَیْثُ شَاءَ.

ذكره أبو سعد النيسابوري في شرف المصطفى ﷺ، 1: 344، وابن الأثير في الكامل في التاريخ، 1: 447، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1: 48، وابن كثير في البداية والنهاية، 2: 250، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1: 117

جس نور کی خاطر میں آپ کی طرف راغب ہوئی تھی وہ کوئی اور خوش نصیب لے گئی۔ اب مجھے آپ سے شادی کی حاجت نہیں۔ میری خواہش تھی کہ وہ نورِ مبارک میرے نصیب میں آتا مگر اب ایسا ممکن نہیں رہا وہ نور آپ سے جدا ہوچکا ہے (یعنی آگے منتقل ہو چكا ہے)۔

(v) نورِ محمدی ﷺ کی سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن میں منتقلی

اللہ رب العزت نے جب نورِ محمدی ﷺ کو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی صلبِ مبارك سے سيدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطنِ مبارک میں منتقل کرنا تھا تو اس کے لیے خصوصی اہتمام کیا گیا۔ امام قسطلانی فرماتے ہیں:

لَمَّا أَرَادَ اللهُ تَعَالَی خَلْقَ مُحَمَّدٍ ﷺ فِي بَطْنِ أُمِّهِ آمِنَةَ، لَیْلَةَ رَجَبٍ، وَكَانَتْ لَیْلَةُ جُمُعَةٍ، أَمَرَ اللهُ تَعَالَی فِي تِلْكَ اللَّیْلَةِ رِضْوَانَ خَازِنِ الْجِنَانِ، أَنْ یَفْتَحَ الْفِرْدَوْسَ، وَیُنَادِي مُنَادٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ: أَلَا إِنَّ النُوْرَ الْمَخْزُوْنَ الْمَكْنُوْنَ الَّذِي یَكُوْنُ مِنْهُ النَّبِيُّ الْهَادِي، فِي هَذِهِ اللَّیْلَةِ یَسْتَقِرُّ فِي بَطْنِ أُمِّهِ الَّذِي فِیْهِ یَتِمُّ خَلْقُهُ، وَیَخْرُجُ إِلَی النَّاسِ بَشِیْرًا وَنَذِیْرًا.

ذکره الدياربكري في تاريخ الخميس، 1: 185، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1: 118، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1: 196، والشنقيطي في نزهة الأفكار في شرح قرة الأبصار، 1: 48

جب اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو، ان کی والدہ کے بطن میں منتقل كرنے کا ارادہ فرمایا تو وہ ماہ رجب ميں جمعہ کی رات تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات جنتوں کے پہرے دار کو حکم دیا کہ وہ جنت الفردوس كے تمام دروازے کھول دے اور ایک منادی کرنے والا آسمانوں اور زمین میں ندا كرےکہ آگاہ ہو جاؤ! وہ نور جوایک محفوظ خزانہ تھا اور جس نے نبی برحق حضرت محمد مصطفی ﷺ كى صورت ميں متولد ہونا تھا، وہ آج رات اپنی والدہ کے بطن میں منتقل ہوگیا ہے۔ جہاں اس کے جسدِ عنصری کی تکمیل ہوگی، اور وہ لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بن کر دنیا میں تشریف لائے گا۔

حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ کی روایت میں منادی کے الفاظ بھى درج ہے:

فَیَا طُوْبَی لَهَا، ثُمَّ یَا طُوْبَی.

ذكره والدياربكري في تاريخ الخميس، 1: 185، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1: 119، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1: 197، والشنقيطي في نزهة الأفكار، 1: 48، والغزفي في الدر المنتظم في مولد النبي المعظم: 251

تمہیں مبارک ہو! اور بارِ دگر مبارک ہو۔

نبی مکرم ﷺ کی ولادت سے قبل جب آپ ﷺ کا نور سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن اقدس میں تھا تو اُنہیں جو بشارات اور نیک خواب دکھائے گئے اُن کا تذکرہ بھی مختلف روایات میں آیا ہے۔

1۔ حضرت ابن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:

رَأَتْ آمِنَةُ بِنْتُ وَهْبٍ رضي الله عنها أُمُّ النَّبِيّ ﷺ فِي مَنَامِهَا، فَقِیْلَ لَهَا: إِنَّكِ قَدْ حَمَلْتِ بِخَیْرِ الْبَرِیَّةِ وَسَیِّدِ الْعَالَمِیْنَ، فَإِذَا وَلَدْتِهِ، فَسَمِّیْهِ أَحْمَدَ وَمُحَمَّدًا.

ذكره أبو نعیم الأصبهاني في دلائل النبوة، 1: 94، والمقريزي في إمتاع الأسماع، 4: 45، والسيوطي في الخصائص الكبری، 1: 72

حضور نبی اکرم ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ بنت وہب رضی اللہ عنہا نے اپنے خواب میں دیکھا کہ ان سے کہا جا رہاہے: آپ کے بطن ميں جو ہستى ہے وہ سارى مخلوق سے افضل اور سارى كائنات كى سردار ہے۔ جب ان کی ولادت ہو تو ان کا نام محمد اور احمد رکھنا۔

2۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا خود بیان فرماتی ہیں:

آتَانِي آتٍ حِیْنَ مَرَّ بِي مِنْ حَمْلِهِ سِتَّةُ أَشْهُرٍ، فَوَكَزَنِي فِي الْمَنَامِ بِرِجْلِهِ، وَقَالَ: یَا آمِنَةُ، إِنَّكِ قَدْ حَمَلْتِ بِخَیْرِ الْعَالَمِیْنَ طُرًّا، فَإِذَا وَلَدْتِهِ، فَسَمِّیْهِ مُحَمَّدًا.

ذكره أبو سعد النيسابوري في شرف المصطفى ﷺ، 1: 353، الرقم: 100، والسيوطي في الخصائص الكبرى، 1: 81، والمكي في سمط النجوم، 1: 299.

کوئی آنے والا میرے پاس آیا جب کہ آپ ﷺ کا میرے پیٹ میں چھٹا مہینہ تھا۔ اس نے مجھے خواب میں متنبہ کیا اور کہا: اے آمنہ! تو تمام جہانوں سے افضل سے حاملہ ہے، جب ان کی ولادت ہو تو ان کا نام محمد رکھنا۔

3۔ امام ابو نعیم الاصبہانی لکھتے ہیں:

فَكَانَ مِنْ دَلَالَاتِ حَمْلِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ كُلَّ دَابَّةٍ كَانَتْ لِقُرَيْشٍ نَطَقَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، وَقَالَتْ: حُمِلَ بِرَسُوْلِ اللَّهِ ﷺ ، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، وَهُوَ أَمَانُ الدُّنْيَا، وَسِرَاجُ أَهْلِهَا.

ذكره أبو نعيم في دلائل النبوة: 610، الرقم: 555، والمقريزي في إمتاع الأسماع، 4: 47، وابن كثير في البداية والنهاية، 6: 298، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1: 122، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1: 202، والسيوطي في الخصائص الكبری، 1: 81، والحلبي في السيرة الحلبية، 1: 76

حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے حضور نبی اکرم ﷺ سے حاملہ ہو جانے کی يہ علامت بھی ظاہر ہوئى کہ اُس شب قریش کے تمام جانوروں كو اللہ رب العزت نے زبان عطا كر دى اور سب نے کہا: حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا كے بطن ميں اللہ كے رسول ﷺ جلوہ گر ہوگئے ہيں۔ ربِ کعبہ کی قسم! وہ دنیا کے لیے باعثِ اَمن اور اَہلِ دنیا کے لیے چراغِ ہدایت ہیں۔

4۔ امام قسطلانی بیان کرتے ہیں:

لَمْ یَبْقَ فِي تِلْكَ الَّلیْلَةِ دَارٌ إِلَّا أَشْرَقَتْ، وَلَا مَكَانٌ إِلَّا دَخَلَهُ النُّوْرُ، وَلَا دَابَّةٌ إِلَّا نَطَقَتْ.

ذكره القسطلاني في المواهب اللدنية، 1: 122، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1: 204

کوئی گھرايسا نہ رہا جو اُس رات روشن نہ ہوگیا ہو، نہ ہی کوئی ایسی جگہ رہى جو چمك نہ گئی ہو اور نہ ہى کوئی ایسا جانور رہا جو بول نہ پڑا ہو۔

5۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطنِ مبارک میں دورانِ حمل آپ ﷺ کے نور كى بركات کے حوالے سے اَئمہ و محدثین اور سیرت نگارو ں نے بیان کیا ہےکہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وَرَأَتْ أُمِّي حِيْنَ حَمَلَتْ بِي، أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ، أَضَاءَتْ لَهُ بُصْرَى، وَبُصْرَى مِنْ أَرْضِ الشَّامِ.

رَوَاهُ الْحَاكِمُ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، وقَالَ الْحَاكِمُ: «خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ مِنْ خِيَارِ التَّابِعِينَ، صَحِبَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ فَمَنْ بَعْدَهُ مِنَ الصَّحَابَةِ، فَإِذَا أَسْنَدَ حَدِيْثًا إِلَى الصَّحَابَةِ، فَإِنَّهُ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ».

أخرجه الحاكم في المستدرك، 2: 656، الرقم: 4174، والطبراني في المعجم الكبير، 24: 214، الرقم: 545، والبيهقي في شعب الإىمان، 2: 135-136، الرقم: 1388، وابن هشام في السيرة النبوية، 1: 293، والطبری في تاريخ الأمم والملوك، 1: 458، والقاضي عياض في الشفا: 221-222، الرقم: 414، وذكره الماوردي في أعلام النبوة: 273، وابن الأثير في الكامل في التاريخ، 1: 355، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 1: 170، وابن كثير في البداية والنهاية، 2: 85.

میری والدہ ماجدہ (حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا)نے دورانِ حمل (جب میں ان کے بطن مبارک میں تھا) دیکھا کہ ایک نور اُن سے خارج ہوا، جس کی روشنی میں انہوں نے بصرہ اور شام کے محلات دیکھ لیے۔ (یہ واقعہ ولادت باسعادت سے پہلے كا ہے۔)

یہ روایت ’المستدرک‘ میں حضرت خالد بن معدان سے مروی ہے (جب کہ کتبِ حدیث و سیرت میں بہت سے دیگر طرق سے بھی بیان ہوئی ہے)۔ حضرت خالد بن معدان کے بارے میں امام حاکم نے کہا ہے: خالد بن معدان کا شمار بہترین تابعین میں ہوتا ہے، وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور اُن کے بعد دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی صحبت میں بھی رہے۔ جب وہ کسی حدیث کی نسبت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف کرتے ہیں تو وہ صحیح الاسناد ہوتی ہے اگر چہ اسے شیخین نے بیان نہ کیا ہو۔

(3) مرحلۂ ثالثہ: ظہورِ بشریتِ محمدی ﷺ

حضور نبی اکرم ﷺ کے ظہور کا تیسرا مرحلہ آپ ﷺ کی ولادت ہے اور يہ ظہورِ بشرىت ہے۔ اَئمہ متقدمین و متاخرین کی اکثریت کی رائے کے مطابق يہ 12 ربیع الاول کا دن تھا، جب اللہ تعالیٰ نے عالمِ انسانیت كو آپ ﷺ كے ظہورِ قدسی کی برکتوں سے نوازا اور شہرِ مکہ کی فضاؤں کو رشکِ فردوس بنادیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ مكرم ﷺ کے ظہورِ اقدس كے سفر كو ان تين مراحل ميں مكمل فرمایا۔

Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved