نورِ محمدی ﷺ کی تخلیق اُس وقت ہو چکی تھی جب ابھی وقت کی اِکائیاں بھی وجود سے نا آشنا تھیں اور عالمِ خارج کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ کائناتِ ہست و بود اور عالمِ رنگ و بو کو ہنوز زیور وجود سے آراستہ کیا گیا تھا اور نہ ابھی کُن فَیَکُون کا صدور و اِجراء ہونے پایا تھا۔ وہ تنہا خالق تھا اور کوئی مخلوق نہ تھی۔ وہ معبود تھا اور کوئی عبد نہ تھا۔ اس کی مثال ایک ایسے حسن کی تھی جس کا جلوہ کرنے کے لیے کوئی نگاہ نہ تھی اور وہ ایسا خزانہ تھا جسے پہچاننے والی کوئی آنکھ نہ تھی۔ ایسے میں اُس نے چاہا کہ کوئی ایسا وجود ہو جو اس کے سرمدی حسن کا مظہر اور عکاس بنے، گویا اسے اپنے نورِ ذات کی جلوہ گری مقصود تھی، سو اس نے اپنے حسن تخلیق کا نقشِ اوّل نور ہی کو بنایا۔
حدىث قدسى ہے کہ حضور نبى اكرم ﷺ نے فرمایا: الله رب العزت فرماتا ہے:
كُنْتُ كَنْزًا مَخْفِيًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ، فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِأُعْرَفَ.
ذكره الآلوسي في روح المعاني، 27: 21، 25، والحارث المحاسبي في فهم القرآن: 245، وابن عربي في الفتوحات المكیة، باب: 198، 4: 43، والملا علي القاري في مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، 1: 249، والشعراني في الطبقات الكبرى: 342-343، والجرجاني في التعريفات: 169، والعجلوني في كشف الخفاء، 2: 173، الرقم: 2016.
میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے پسند کیا کہ میں پہچانا جاؤں۔ پس میں نے اپنی پہچان کے لیے مخلوق کو پیدا کیا۔
فَأَحْبَبْتُ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی کو چاہت اور محبت ہوئی یعنی ارادۂ حق اور محبتِ حق، حقیقتِ محمدی ﷺ کی صورت میں متشکل ہوگئے۔ اس طرح حقیقتِ محمدی ﷺ کو براہِ راست معرفتِ حق حاصل ہوئی جب کہ مخلوق کو حقیقتِ محمدی ﷺ کے ذریعے معرفتِ حق عطا ہوئی۔
ائمہ کرام نے حدیثِ قدسی کا مفہوم یہ بھی بیان کیا ہے کہ پہلے محبت ہوئی، یہ محبت متحرک ہوئی تو ارادہ بن گئی، ارادہ متحرک ہوا تو حقیقتِ محمدی ﷺ کی شکل اختیار کرگیا۔
شیخ عبدالکریم الجیلی اس حدیثِ قدسی کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
وَالْمَحَبَّةُ مُقْتَضِیَةٌ لِظُهُوْرِهِ عَلَیْهِمْ حَتَّی یَعْرِفُوْهُ، فَخَلَقَ مِنْ تِلْكَ الْمَحَبَّةِ حَبِیْبًا اخْتَصَّهُ لِتَجَلِّیَاتِ ذَاتِهِ. وَخَلَقَ الْعَالَمَ مِنْ ذَلِكَ الْحَبِیْبِ لِتَصِحَّ النِّسْبَةُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ خَلْقِهِ، فَیَعْرِفُوْهُ بِتِلْكَ النِّسْبَةِ.
ذکره الجيلي في الكمالات الإلهية في الصفات المحمدية: 20، والنبهاني في جواهر البحار، 1: 346-347.
محبت کا تقاضا یہ تھا کہ ان موجودات پر اس کا ظہور ہو تاکہ وہ اس کی پہچان کرسکیں۔ لہٰذا اللہ رب العزت نے اس محبت سے اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کو پیدا فرما کر انہیں اپنی ذات كی تجلیات کے لیے مختص فرمایا، اور پھر اس محبوبِ معظم ﷺ کے تصدق سے تمام مخلوق پیدا فرمائی، تاکہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان نسبتِ معرفت قائم ہو جائے، یوں وہ سبھی اس نسبت کے باعث اللہ تعالیٰ کی پہچان حاصل کرلیں۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ:
فَالْعَالَمُ مَظْهَرُ تَجَلِّیَاتِ الصِّفَاتِ، وَالْحَبِیْبُ ﷺ مَظْهَرُ تَجَلِّیَاتِ الذَّاتِ، فَكَمَا أَنَّ الصِّفَاتِ فَرْعٌ مِنَ الذَّاتِ، كَذَلِكَ الْعَالَمُ فَرْعٌ عَنِ الْحَبِیْبِ، فَهُوَ ﷺ وَاسِطَةٌ بَیْنَ اللهِ وَبَیْنَ الْعَالَمِ.
وَالدَّلِیْلُ عَلَی مَا قُلْنَاهُ قَوْلُهُ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: أَنَا مِنَ اللهِ، أَيْ: مَخْلُوْقٌ مِنْ نُوْرِهِ تَعَالَی، أَي: النُّوْرِ الَّذِي خَلَقَهُ اللهُ قَبْلَ كُلِّ شَیءٍ، وَإِضَافَتُهُ للهِ لِلتَّشْرِیْفِ ... وَالْمُؤْمِنُوْنَ مِنِّي.
ذکره عبد الكريم الجيلي في الكمالات الإلهية في الصفات المحمدية: 20-21، والنبهاني في جواهر البحار، 1: 346-347.
ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی صفاتی تجلیات کا مظہر ہے جب کہ حبیبِ مکرم ﷺ ذاتی تجلیات کا مظہر اتم ہیں؛ اور جس طرح صفات ذات کی فرع ہیں، اُسی طرح ساری کائنات کی اصل حبیب معظم ﷺ کا نور ہے اور کائنات اس کی فرع ہے۔ لہٰذا حضور سید عالم ﷺ ساری مخلوق اور اللہ جل مجدہٗ کے درمیان واسطہ اور ذریعہ ہیں۔
ہمارے اِس بیان کی دلیل حضور ﷺ کا یہ فرمان اَقدس ہے: میں اللہ (کے نور) سے (پیدا ہوا) ہوں، یعنی اُس کے نور سے میری تخلیق ہوئی ہے۔ میں وہ نور ہوں جو اُس نے ہر شے سے قبل تخلیق کیا تھا اور اللہ کی طرف اس نور کی اِضافت تشریفی ہے۔نیزتمام مومنین میرے نور سے پیدا کیے گئے ہیں۔
وَلَنَا دَلِیْلٌ آخَرُ، وَهُوَ قَوْلُهُ ﷺ لِجَابِرٍ: إِنَّ اللهَ خَلَقَ رُوْحَهُ ﷺ مِنْهُ، ثُمَّ خَلَقَ الْعَرْشَ، وَالْكُرْسِيَّ، وَالسُّفْلِیَاتِ جَمِیْعًا مِنْهُ، وَقَدْ رَتَّبَ خَلْقَ هَذِهِ الْأَشْیَاءَ فِي الْحَدِیْثِ تَرْتِیْبًا وَاضِحًا، لَا إِشْكَالَ فِي أَنَّهَا فُرُوْعٌ مِنْهُ، وَهُوَ أَصْلُهَا.
ذکره عبد الكريم الجيلي في الكمالات الإلهية: 21، والنبهاني في جواهر البحار، 1: 346-347.
ہماری مذکورہ گفت گو پر ایک اور دلیل حضور نبی اکرم ﷺ کا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو یہ فرمانا بھی ہے: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضور ﷺ کی روحِ منور کو پیدا فرمایا، پھر عرش و کرسی، لوح اور عالمِ پست و بالا (الغرض تمام اشیاء کو اس روحِ مقدس کے تصدق سے پیدا فرمایا)۔ حدیث پاک میں ان اشیاء کی تخلیق کی ایسی واضح ترتیب بیان کر دی گئی ہے کہ اس میں کوئی اِشکال نہیں رہا کہ تمام اَشیاء حضور نبی اکرم ﷺ کی فرع ہیں، اور آپ ﷺ ان سب اشیاء کی اصل ہیں۔
Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved