مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض میں سب سے بڑا فریضہ نماز ہے۔ نماز کو دین کا ستون کہا گیا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے:
اَلصَّلَاةُ عِمَادُ الدِّيْنِ، فَمَنْ تَرَکَهَا فَقَدْ هَدَمَ الدِّيْنَ.
(عجلونی، کشف الخفاء، 2: 40)
’’نماز دین کا ستون ہے، جس نے اس کو ترک کیا پس اس نے پورے دین کو منہدم کیا۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کو دین کا مرکزی ستون قرار دیا ہے۔ جس طرح کوئی عمارت بغیر ستون کے قائم نہیں رہ سکتی اسی طرح دین کی عمارت اقامتِ صلوٰۃ کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی. دین کی عمارت کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ نماز قائم کرے۔
نماز ادا کرنے کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ مجید میں تقریباً سات سو مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے۔ درج ذیل آیاتِ مبارکہ میں نماز کی فضیلت بیان کی گئی ہے:
1. وَاَقِيْمُوا الصَّلوٰةَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِيْنَo
(البقرة، 2: 43)
’’اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کروo‘‘
2. يٰاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِط اِنَّ اﷲَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَo
(البقرة، 2: 153)
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہےo‘‘
اِس کے علاوہ کثیر احادیثِ مبارکہ میں فضیلتِ نماز بیان کی گئی ہے اور نماز ادا نہ کرنے پر وعید آئی ہے۔ نیز نماز کی جملہ تفصیلات بھی ہمیں احادیث مبارکہ میں ہی ملتی ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
خَمْسُ صَلَوَاتٍ اِفْتَرَضَهُنَّ اﷲُ، مَنْ آحْسَنَ وُضُوْءَ هُنَّ وَصَلاَّهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَآتَمَّ رُکُوْعَهُنَّ وَخُشُوْعَهُنَّ، کَانَ لَهُ عَلَی اﷲِ عَهْدٌ آنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَی اﷲِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ.
(سنن آبی داؤد، کتاب الصلاة، باب فی المحافظة فی وقت الصلوات، 1: 174، 175، رقم: 421)
’’پانچ نمازیں ہیں جن کو اﷲ تعاليٰ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے۔ جس نے ان نمازوں کو بہترین وضو کے ساتھ ان کے مقررہ اوقات پر ادا کیا اور ان نمازوں کو رکوع، سجود اور کامل خشوع سے ادا کیا، تو ایسے شخص سے اﷲ تعاليٰ کا وعدہ ہے کہ اس کی مغفرت فرما دے گا اور جس نے ایسا نہیں کیا (یعنی نماز ہی نہ پڑھی یا نماز کو اچھی طرح نہ پڑھا) تو ایسے شخص کے لیے اﷲ تعاليٰ کا کوئی وعدہ نہیں ہے، اگر چاہے تو اس کی مغفرت فرما دے اور چاہے تو اس کو عذاب دے۔‘‘
نماز کو جہاں اَفضل ترین عبادت قرار دیا گیا ہے وہیں ترکِ نماز سب سے بڑا گناہ بھی ہے۔ جس طرح نماز انسان کو نیکی اور سعادت کی بلندیوں پر لے جاتی ہے اسی طرح ترکِ نماز سے ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَo
(الروم، 30: 31)
’’اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ.‘‘
یہ وعید سن کر ہر تارکِ صلوٰۃ کو لرز جانا چاہیے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ہی کو مسلمان اور کافر کے درمیان حدِ فاصل قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ تَرَکَ الصَّلَاةَ فَقَدْ کَفَر.
(صحيح ابن حبان، 4: 323، رقم: 1423)
’’جس نے (جان بوجھ) کر نماز ترک کی اس نے (گویا) کفر کیا۔‘‘
جس وقت کی نماز اور جتنی رکعات ہوں، نیت میں ان کا ذکر کیا جائے۔ مثال کے طور پر ظہر کے فرضوں کی نیت یوں کی جائے گی:
میں نیت کرتا / کرتی ہوں چار رکعت فرض نماز ظہر کی، واسطے اﷲ تعاليٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف کے۔
اگر امام کے پیچھے ہوں تو پھر کہا جائے: ’پیچھے اس امام کے۔‘ اس کے بعد تکبیرِ تحریمہ یعنی اَﷲُ اَکْبَرُ کہہ کر ہاتھ باندھ لے۔
میں نیت کرتا / کرتی ہوں . . . رکعت سنت نماز . . . کی، واسطے اﷲ تعاليٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف کے، اَﷲُ اَکْبَر۔
میں نیت کرتا/کرتی ہوں . . . رکعت نفل نماز . . . کی، واسطے اﷲ تعاليٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف کے، اَﷲُ اَکْبَر۔
میں نیت کرتا/کرتی ہوں تین رکعت وتر واجب نماز عشاء کی، واسطے اﷲ تعاليٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف کے، اَﷲُ اَکْبَر۔
نماز پڑھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ نمازی کا بدن، کپڑے اور نماز کی جگہ پاک ہو اور نماز کا وقت ہوگیا ہو۔ پھر باوُضو قبلہ کی طرف منہ کر کے دونوں پاؤں کے درمیان کم ازکم چار انگلیاںاور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت کا فاصلہ کرکے کھڑا ہو۔ جو نماز پڑھنی ہے اس کا دل سے ارادہ کرے اور زبان سے کہنا مستحب ہے۔ پھر دونوں ہاتھ اپنے کانوں کی لو تک لے جائے اس طرح کہ ہتھیلیاں قبلہ رُخ ہوں اور انگلیاں نہ کھلی ہوئی ہوں نہ ملی ہوئی بلکہ اپنی نارمل حالت میں ہوں۔ اَﷲُ اَکْبَرُ کہتا ہوا ہاتھ نیچے لائے اور ناف کے نیچے باندھ لے اس طرح کہ داہنی ہتھیلی بائیں کلائی کے سرے پر ہو اور بیچ کی تین انگلیاں بائیں کلائی کی پشت پر اور انگوٹھا اور چھنگلیاں کلائی کے اغل بغل ہوں اور نظر سجدہ کی جگہ پر رہے اور ثناء پڑھے۔
سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ.
’’اے اﷲ! ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیری تعریف کرتے ہیں، تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘
اگر جماعت کے ساتھ نمازپڑھ رہا ہے تو ثناء پڑھ کر خاموش ہو جائے اور اگر تنہا ہو تو ثناء کے بعد تعوذ، تسمیہ اور سورئہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورۃ ملا کر پڑھے۔
اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِo
’’میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا/مانگتی ہوںo‘‘
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِo
’’اﷲ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہےo‘‘
اَلْحَمْدُِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِo مٰلِکِ يَوْمِ الدِّيْنِo اِيَاکَ نَعْبُدُ وَاِيَاکَ نَسْتَعِيْنُo اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَo صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ لا غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَo
’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہےo روزِ جزا کا مالک ہےo (اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo ہمیں سیدھا راستہ دکھاo ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایاo ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کاo‘‘
سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے بعد اِمام اور مقتدی دونوں آہستہ آواز سے کہیں: آمین.
اس کے بعد کوئی سی چھوٹی سورت یا کم اَز کم تین آیات پڑھی جائیں۔
وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍo اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo
’’زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے)o بے شک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)o سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغِ حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہےo‘‘
اِنَّآ اَعْطَيْنٰکَ الْکَوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo اِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْاَبْتَرُo
’’بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہےoپس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریںاور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکرّہے)o بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہو گاO‘‘
قُلْ يٰاَيُهَا الْکٰفِرُوْنَ o لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَo وَ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُo وَ لَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ o وَ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ o لَکُمْ دِيْنُکُمْ وَ لِيَ دِيْنِ o
’’آپ فرما دیجیے: اے کافرو!o میں ان (بتوں) کی عبادت نہیں کرتا جنہیں تم پوجتے ہوo اور نہ تم اس (رب) کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں o اور نہ (ہی) میں (آئندہ کبھی) ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن (بتوں) کی تم پرستش کرتے ہوo اور نہ (ہی) تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس(رب) کی میں عبادت کرتا ہوںo (سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہےo ‘‘
قُلْ هُوَ اﷲُ اَحَدٌo اَﷲُ الصَّمَدُo لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْo وَلَمْ يَکُنْ لَّهُ کُفُوًا اَحَدٌo
’’(اے نبيِ مکرّم!) آپ فرما دیجئے: وہ اﷲ ہے جو یکتا ہےo اﷲ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے o نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہےo اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہےo‘‘
پھر اَﷲُ اَکْبَرُ کہتے ہوئے رکوع میں جائے اور گھٹنوں کو ہاتھ کی انگلیوں سے مضبوط پکڑلے اور اتنا جھکے کہ سر اور کمر برابر ہوجائے اور کم سے کم تین بار کہے:
سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمِ.
’’پاک ہے میرا پروردگار عظمت والا۔‘‘
اگر جماعت ہوتو پھر رکوع سے اٹھتے ہوئے صرف امام تسمیع کہے:
سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ.
’’اﷲ تعاليٰ نے اس بندے کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی.‘‘
پھر دونوں ہاتھ چھوڑ کرسیدھا کھڑا ہوجائے اور مقتدی تحمید کہے۔
رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ.
’’اے ہمارے پروردگار! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔‘‘
تنہا نماز پڑھنے والا اور جماعت سے پڑھنے والا دونوں تحمید کہیں پھر اَﷲُ اَکْبَرُکہتا ہوا سجدہ میں جائے اس طرح کہ پہلے گھٹنے پھر دونوں ہاتھ زمین پر رکھے، پھر ناک اور پھر پیشانی خوب جمائے اور چہرہ دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھے اور مرد بازوؤں کو کروٹوں سے اور پیٹ کو رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے جدا رکھے اور کُہنیاں زمین سے اٹھی ہوئی ہوں اور دونوں پاؤں کی انگلیوں کے پیٹ قبلہ رُو زمین پر جمے ہوئے ہوں اور کم سے کم تین بار پڑھے:
سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی.
’’پاک ہے میرا پروردگار جو بلند ترہے۔‘‘
پھراَﷲُ اَکْبَرُ کہتا ہوا سجدہ سے اس طرح اٹھے کہ پہلے پیشانی، پھر ناک، پھر ہاتھ اٹھیں اور بایاں قدم بچھا کر اس پر بیٹھے اور داہنا قدم کھڑا کر کے رکھے۔ اس کی انگلیاں قبلہ رُو ہوں اور ہاتھ رانوں پر گھٹنوں کے قریب کہ ان کی انگلیاں بھی قبلہ رُخ ہوں .
اسی طرح جلسہ سے اَﷲُ اَکْبَرُ کہتا ہوا دوسرا سجدہ کرے اور پھر اَﷲُ اَکْبَرُ کہتا ہوا کھڑا ہوجائے۔
تسمیہ، فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھ کر اسی طرح رکوع و سجود کرے لیکن امام کے پیچھے مقتدی تسمیہ، فاتحہ اور سورۃ نہیں پڑھے گا بلکہ خاموش کھڑا رہے گا۔
دوسری رکعت کے دونوں سجدوں سے فارغ ہوکر اس طرح بیٹھ جائے جس طرح دو سجدوں کے درمیان بیٹھا تھا۔ پھر بیٹھ کر تشہد پڑھے۔
اَلتَّحِيَاتُِﷲِ، وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّيِبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُهَا النَّبِيُ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصّٰلِحِيْنَ، اَشْهَدُ اَنْ لَّااِلٰهَ اِلَّا اﷲُ، وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ.
’’تمام قولی، فعلی اور مالی عبادتیں اﷲ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکتیں ہوں، ہم پر اور اﷲ کے تمام نیک بندوں پر بھی سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
جب تشہد میں کلمہ لَا پر پہنچے تو داہنے ہاتھ کی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنائے اور چھنگلی اور اس کے پاس والی انگلی کو ہتھیلی سے ملادے اور لفظ لَا پر شہادت کی انگلی اٹھائے اور اِلاَّ پر گرا دے اور سب انگلیاں فوراً سیدھی کردے۔ اگر دو رکعت والی نماز ہے تو اس تشہد کے بعد درود ابراہیمی اور دعا پڑھ کر سلام پھیردے۔
اگر چار رکعت والی نماز ہے تو تشہد کے بعد اَﷲُ اَکْبَرُ کہہ کر کھڑا ہوجائے اور دونوں رکعتوں میں اگر فرض ہوں تو صرف تسمیہ اور سورئہ فاتحہ پڑھ کر رکوع و سجود کرے اور اگر سنت و نفل ہوں توسورئہ فاتحہ کے بعد کوئی اور سورۃ بھی پڑھے لیکن امام کے پیچھے مقتدی تسمیہ اور فاتحہ نہیں پڑھے گا بلکہ خاموش کھڑا رہے گا۔ پھر چار رکعتیں پوری کر کے بیٹھ جائے اور تشہد، درودِ ابراہیمی اور دعا پڑھے اور سلام پھیردے۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَ عَلٰی آلِ اِبْرَاهِيْمَ، اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ. اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَ عَلٰی آلِ اِبْرَاهِيْمَ، اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
’’اے اﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کی آل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔ اے اﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔‘‘
درودابراہیمی کے بعد یہ دعا پڑھیں:
رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآئِo رَبَّنَا اغْفِرْلِيْ وَلِوَالِدَيَ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُo
’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لےo اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے) اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگاo‘‘
اگرچاہے تو قرآن و حدیث میں مذکور کوئی اور دعا بھی پڑھ سکتا ہے، مثلاً:
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ ظُلْمًا کَثِيْرًا وَّلَا يَغْفِرُ الذُّ نُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ فَاغْفِرْلِيْ مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِي اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ.
’’ اے اللہ! بیشک میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے سوا کوئی گناہ بخشنے والا نہیں۔ سو (اپنی خاص بخشش سے) مجھ کو بخش دے اور مجھ پر رحم فرما۔ بے شک تو ہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
پھر نماز ختم کرنے کے لیے پہلے دائیں اور پھر بائیں طرف منہ کرکے سلام کہے۔
اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اﷲِ.
’’تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔‘‘
دا ہنی طرف کے سلام میں دا ہنی طرف کے فرشتوں اور نمازیوں کی نیت کرے کہ میں ان کو سلام کہہ رہا ہوں اور بائیں طرف کے سلام میں بائیں طرف کے فرشتوں اور نمازیوں کی نیت کرے اورجس طرف امام ہو اس طرف کے سلام میں امام کی نیت بھی کرے۔ اسی طرح امام بھی دونوں طرف کے سلاموں میں فرشتوں اور مقتدیوں کی نیت کرے . جب تنہا ہو تو دونوں طرف کے فرشتوں کی نیت کرے۔
مرد اور عورت کی جسمانی ساخت میں جو فرق پایا جاتا ہے، شریعت کی رُو سے شرعی اَحکام و مسائل میں بھی اس کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے۔ طہارت کے مسائل ہوں یا حج کے، روزہ کے مسائل ہوں یا زکوٰۃ کے، عورت کے عورت ہونے کا کسی نہ کسی حکم سے اِظہار ہو جاتا ہے جس طرح نمازِ جمعہ و عیدین مردوں پر فرض ہے عورتوں پر نہیں۔
اِسی طرح نماز جیسی افضل عبادت میں بھی بعض مخصوص مواقع پر عورت کا طریقۂ نماز مرد سے مختلف رکھا گیا تاکہ عورت کے پردہ کا لحاظ رکھا جائے۔ اس کے اعضائے نسوانی کا اعلان و اظہار نہ ہو مثلاً عورت نماز میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کندھے تک اٹھاتی ہے جبکہ مرد کانوں کی لو تک، مردوں کو سجدہ میں پیٹ رانوں سے اور بازو بغل سے جدا رکھنے کا حکم ہے۔ جبکہ عورت کو سمٹ کر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کہ وہ سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو اپنی دونوں رانوں سے چپکائے . مرد اور عورت کی نماز میں یہ بنیادی فرق (پردہ) کے اعتبار سے ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved