اِرشادِ باری تعاليٰ ہے:
فَلَمْ تَجِدُوْا مَآء فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِکُمْ وَاَيْدِيْکُمْ مِّنْهُ.
(المائدة، 5:2)
’’پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کرلیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس(پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے ) ہاتھوں کا مسح کر لو۔‘‘
اگر پانی میسر نہ ہو یا غسل / وضو کرنے سے بیماری بڑھنے کا اندیشہ ہو تو بجائے غسل و وضو کے تیمم کا حکم ہے۔ غسل اور وضو دونوں کے لئے تیمم کا طریقہ ایک ہی ہے، صرف نیت میں فرق ہے کہ غسل کے تیمم کو غسل کے اور وضو کے تیمم کو وضو کے قائم مقام خیال کرے۔
پہلے نیت کرے کہ میں ناپاکی دور کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے تیمم کرتا ہوں۔ پھر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو کشادہ کر کے پاک مٹی یا کسی ایسی چیز پر جو زمین کی جنس سے ہو ایک بار مارکر سارے منہ کا مسح کرے کہ کوئی جگہ باقی نہ رہے۔ پھر اسی طرح ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں کا ناخنوں سے لے کر کہنیوں سمیت مسح کرے کہ کوئی جگہ باقی نہ رہے۔
تیمم کے تین فرائض ہیں:
تیمم کی پانچ سنتیں ہیں:
انگوٹھی، چھلے، چوڑیاں وغیرہ پہنی ہوں تو ان کو اتار کر یا ہٹا کر ان کے نیچے ہاتھ پھیرنا فرض ہے۔ جو چیز آگ سے جل کر نہ راکھ ہوتی ہو، نہ پگھلتی ہو، نہ نرم ہوتی ہو وہ زمین کی جنس سے ہے، اس سے تیمم جائز ہے اگرچہ اس پر غبار نہ ہو۔ ایسا پاک کپڑا جس پر غبار ہو کہ ہاتھ مارنے سے غبار اُڑتا نظر آئے اس سے بھی تیمم جائز ہے۔ جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا یا غسل واجب ہوتا ہے ان سے تیمم بھی جاتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ پانی کے میسر آنے سے بھی تیمم ٹوٹ جاتا ہے۔ہر نماز کے لیے نئے سرے سے تیمم کرنا ضروری ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved