207: 1. عَنْ جَابِرٍ قَالَ: خَرَجْنَا فِي سَفَرٍ فَأَصَابَ رَجُلًا مِنَّا حَجَرٌ، فَشَجَّهٗ فِي رَأْسِهٖ، ثُمَّ احْتَلَمَ فَسَأَلَ أَصْحَابَهٗ فَقَالَ: هَلْ تَجِدُونَ لِي رُخْصَةً فِي التَّیَمُّمِ؟ فَقَالُوا: مَا نَجِدُ لَکَ رُخْصَةً وَأَنْتَ تَقْدِرُ عَلَی الْمَاءِ، فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَی النَّبِيِّ ﷺ أُخْبِرَ بِذٰلِکَ فَقَالَ: قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللهُ، أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ یَعْلَمُوا؟ فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ، إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیهِ أَنْ یَتَیَمَّمَ وَیَعْصِرَ أَوْ یَعْصِبَ، شَکَّ مُوسٰی عَلٰی جُرْحِهٖ خِرْقَةً، ثُمَّ یَمْسَحَ عَلَیْهَا، وَیَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِهٖ.
رَوَاهُ أَبُودَاوُدَ وَسَکَتَ عَنْهُ وَابْنُ مَاجَہ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَیْهَقِيُّ. هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ لِغَیْرِهٖ.
قَالَ الزَّیْلَعِيُّ: قَالَ الْبَیْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ: ھٰذَا الْحَدِیْثُ أَصَحُّ مَا رُوِيَ فِي هٰذَا الْبَابِ مَعَ اخْتلِافٍ فِي إِسْنَادِهٖ.
أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الطہارۃ، باب المجروح یتیمم، 1: 93، الرقم: 336، وابن ماجہ في السنن عن ابن عباس رضی الله عنهما، کتاب الطہارۃ وسننہا، باب في المجروح تصیبہ الجنابۃ فیخاف علی نفسہ إن اغتسل، 1: 189، الرقم: 572، والدارمي في السنن، 1: 210، الرقم: 572، والحاکم في المستدرک، 1: 270، الرقم: 585 والبیہقي في السنن الکبری، 1: 228، الرقم: 1018، وذکرہ الزیلعي في نصب الرایۃ،1: 187.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک سفر میں نکلے تو ہم میں سے ایک آدمی کے سر میں پتھر آلگا اور اس کا سر زخمی ہو گیا۔ پھر اُسے احتلام ہو گیا۔ اُس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ کیا آپ کو میرے لیے تیمم کی اجازت نظر آتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے نزدیک آپ کو تیمم کی اجازت نہیں ہے کیونکہ آپ پانی کے استعمال پر قادر ہیں۔ پس اُس شخص نے غسل کیا اور وفات پا گیا۔ جب ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ بات بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا: الله انہیں ہلاک کریـ، انہوں نے اُسے قتل کردیا۔ جب انہیں معلوم نہ تھا تو مسئلہ کیوں نہ پوچھا؟ کیونکہ بے خبری کا علاج پوچھنا ہے، پس اُس کے لیے کافی تھا کہ تیمم کرلیتا اوراپنے زخم پر کپڑا نچوڑتا یا اس پر کپڑا باندھتا (ان الفاظ میں راوی) موسیٰ کو شک ہے اور پھر اس پر مسح کر لیتا اور باقی سارے جسم کو دھو لیتا۔
اس حدیث کو امام ابو داودنے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے، اس کے علاوہ ابن ماجہ، دارمی، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔یہ حدیث حسن لغیرہ ہے۔
زیلعی کہتے ہیں: امام بیہقی نے ’’المعرفۃ‘‘ میں کہا ہے۔ یہ حدیث اختلاف، سند کے باوجود اس باب کی تمام مرویات سے صحیح ترین ہے۔
208: 2. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ: انْکَسَرَتْ إِحْدیٰ زَنْدَيَّ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَأَمَرَنِي أَنْ أَمْسَحَ عَلَی الْجَبَائِرِ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الطہارۃ وسننھا، باب المسح علی الجبائر، 1: 215، الرقم: 657، والبیہقي في السنن الکبریٰ، 1: 228، الرقم: 1020، وأیضاً في معرفۃ السنن والآثار، 1: 300، الرقم: 343، والأزدي في مسند الربیع، 1: 62، الرقم: 124.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے ایک بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی، میںنے حضور نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے مجھے پٹیوں پر مسح کرنے کا حکم فرمایا۔
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
209: 3. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ النَّبِيّ ﷺ کَانَ یَمْسَحُ عَلَی الْجَبَائِرِ.
رَوَاهُ الدَّارَ قُطْنِيُّ.
أخرجہ الدارقطنی في السنن، 1: 140، الرقم: 774.
حضرت (عبد الله) بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ پٹیوں پر مسح فرماتے تھے۔
اس حدیث کو امام دار قطنی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved