(1) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْهِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo
(البقرة، 2: 129)
اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (ﷺ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔
(2) کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَo
(البقرة، 2: 151)
اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔
(3) خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَةً تُطَھِّرُهُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ ط اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ ط وَاللهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo
(التوبة، 9: 103)
آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرمادیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بے شک آپ کی دعا ان کے لیے (باعثِ) تسکین ہے، اور الله خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
(4) لَاتَقُمْ فِیْهِ اَبَدًا ط لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ ط فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَرُوْا ط وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِرِیْنَo
(التوبة، 9: 108)
(اے حبیب!) آپ اس (مسجد کے نام پر بنائی گئی عمارت) میں کبھی بھی کھڑے نہ ہوں۔ البتہ وہ مسجد، جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، حقدار ہے کہ آپ اس میں قیام فرما ہوں۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو (ظاہراً و باطناً) پاک رہنے کو پسندکرتے ہیں، اور الله طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔
(5) قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَo اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَo
(الحجر، 15: 39-40)
ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقینا ان کے لیے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوشنما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔ سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں۔
(6) إِلَّا عِبَادَ اللهِ الْمُخْلَصِیْنَo
(الصافات، 37: 40)
(ہاں) مگراللہ کے وہ (برگزیدہ و منتخب) بندے جنہیں (نفس اور نفسانیت سے) رہائی مل چکی ہے۔
(7) اِنَّ نَاشِئَةَ الَّیْلِ هِیَ اَشَدُّ وَطْأً وَّاَقْوَمُ قِیْلًاo
(المزمل، 73: 6)
بے شک رات کا اُٹھنا (نفس کو) سخت پامال کرتا ہے اور (دِل و دِماغ کی یکسوئی کے ساتھ) زبان سے سیدھی بات نکالتا ہے۔
(8) وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰیo
(النازعات، 79: 40-41)
اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھاo تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا۔
(9) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰo
(الأعلٰی، 87: 14)
بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔
(10) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَاo
(الشمس، 91: 9-10)
بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)o اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)۔
13: 1. عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ رضی اللہ عنه، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: اَلْحَلَالُ بَیِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ، وَبَیْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا یَعْلَمُهَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَی الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِینِهٖ وَعِرْضِهٖ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ کَرَاعٍ یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی، یُوشِکُ أَنْ یُوَاقِعَہٗ. أَلَا وَإِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی، أَلَا إِنَّ حِمَی اللهِ فِي أَرْضِهٖ مَحَارِمُہٗ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَۃً، إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الایمان، باب فضل من استبرأ لدینہ، 1: 28، الرقم: 52، کتاب البیوع، باب الحلال بین والحرام بین وبینھما مشبہات، 2: 723، الرقم: 1946، ومسلم في الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب أخذ الحلال وترک الشبہات، 3: 1221، الرقم: 1599، والترمذي في السنن، کتاب البیوع، باب ما جاء في ترک الشبھات، 3: 511، الرقم: 1205، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب الوقوف عند الشبہات، 2: 1318، الرقم: 3984، والدارمي في السنن، 2: 319، الرقم: 2531
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کا بہت سے لوگوں کو علم نہیں۔ لہٰذا جو مشتبہ چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو ان میں پڑ گیا وہ اس چرواہے کی طرح ہے جو کسی کھیت کے ارد گرد جانور چراتا ہے توقریب ہے کہ وہ اس کے اندر داخل ہوجائے(اور ناجائز طور پر جانوروں کو چرانے لگے )۔ آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی کوئی نہ کوئی حدود ہوتی ہیں۔ خبردار ہو جائو کہ زمین میں اللہ تعالیٰ کی حدود اس کی حرام ٹھہرائی ہوئی چیزیں ہیں۔ آگاہ رہو کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ جب وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔آگاہ رہو کہ وہ دل ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
14: 2. عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنها أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ یَقُولُ: اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْهَرَمِ، وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْغِنٰی، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْفَقْرِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ. اَللّٰهُمَّ، اغْسِلْ عَنِّي خَطَایَايَ بِمَائِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَیْنِي وَبَیْنَ خَطَایَايَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الدعوات، باب التعوذ من المأثم والمغرم، 5: 2341، الرقم: 6007، ومسلم في الصحیح، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب ما یستعاذ منہ في الصلاۃ، 4: 42078، الرقم: 589، والترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی عقد التسبیح بالید، 5: 525، الرقم: 3495، والنسائي في السنن، کتاب الاستعاذہ، باب الاستعاذہ من شر فتنۃ القبر، 8: 662، الرقم: 5466، وابن ماجہ في السن، کتاب الدعاء، باب ماتعوذ منہ رسول الله ﷺ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ یوں دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! میں سستی، پیرانہ سالی، گناہ، قرض، فتنۂ قبر، عذابِ قبر، فتنۂ دوزخ، عذابِ دوزخ اور دولت مندی کے فتنے کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ میں غربت کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کو گناہوں سے صاف کر دے جیسے تو نے سفید کپڑے کو گندگی سے پاک کیا، نیز میرے اور گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر دے جتنی مشرق اور مغرب کے درمیان تو نے دوری رکھی ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
15: 3. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِینَ، فَقَالَ {یٰٓـاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًاط اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌo} [المؤمنون، 23: 51] وَقَالَ: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰـکُمْ} [البقرۃ، 2: 172] ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، یَمُدُّ یَدَیْهِ إِلَی السَّمَاءِ یَا رَبِّ! یَا رَبِّ! وَمَطْعَمُہٗ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ أَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ الْجَعْدِ.
أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا، 2: 703، الرقم: 1015، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 328، الرقم: 8330، وعبد الرزاق في المصنف، 5: 19، الرقم: 8839، وابن الجعد في المسند، 1: 296، الرقم: 2009
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا اور فرمایا: {یٰٓـاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ط اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌo} ’اے رُسُلِ (عظام!) تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھایا کرو (جیسا کہ تمہارا معمول ہے) اور نیک عمل کرتے رہو، بے شک جو عمل بھی تم کرتے ہو میں اس سے خوب واقف ہوںo‘؛ اور فرمایا: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰـکُمْ} ’اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں‘۔ پھر آپ ﷺ نے ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلودہ ہیں وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر عرض کرتا ہے: یا رب! یا رب! جب کہ اس کا کھانا حرام ہو، اس کا پینا حرام ہو، اس کا لباس حرام ہو، اس کی غذا حرام ہو؛ تو اس کی دعا کہاں قبول ہو گی!
اِسے امام مسلم، احمد، عبد الرزاق اور ابن جعد نے روایت کیا ہے۔
16: 4. عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه قَالَ: لَا أَقُولُ لَکُمْ إِلَّا کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ، کَانَ یَقُوْلُ: اَللّٰھُمَّ، إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَالْهَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ. اَللَّھُمَّ، آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا وَزَکِّهَا أَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاهَا، أَنْتَ وَلِیُّهَا وَمَوْلَاهَا. اَللَّھُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَۃٍ لَا یُسْتَجَابُ لَهَا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَةَ رضی الله عنه رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاوُدَ وَابْنُ مَاجَہ، وَعْنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الذکر والدعا والتوبۃ والاستغفار، باب التعوذ من شر ما عمل ومن شر ما لم یعلم، 4: 2088، الرقم: 2722، والترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب ما جاء في جامع الدعوات عن النبي ﷺ، 5: 519، الرقم: 3482، وأحمد بن حنبل في المسند،2: 340، الرقم: 8469، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاۃ، باب في الاستعاذہ، 2: 92، رقم: 1548، والنسائي في السنن، کتاب الاستعاذۃ، باب الاستعاذۃ من العجز، 8: 260، الرقم: 5458
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں تم سے اسی طرح کہتا ہوں جس طرح رسول الله ﷺ کہا کرتے تھے۔ آپ ﷺ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! میں عجز، سستی، بزدلی، بخل، بڑھاپے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما، اس کو پاکیزہ کر تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے، تو اسی کا ولی اور مولیٰ ہے، اے اللہ! جو علم نفع نہ دے، جو دل ڈرتا نہ ہو، جو نفس سیر نہ ہو اور جو دعاء قبول نہ ہو اس سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
اِسے امام مسلم، احمد، ابوداود، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح کی حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جسے امام احمد، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، اسی طرح کی حدیث حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
17: 5. عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَیْدٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: أَلَا أُخْبِرُکُمْ مَنِ الْمُسْلِمُ؟ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهٖ وَیَدِهٖ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلٰی أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوبَ، وَالْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَہٗ فِي طَاعَةِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رِجَالُ الْبَزَّارِ ثِقَاتٌ وَقَالَ الْکِنَانِيُّ:ھٰذَا إِسْنَادٌ صَحِیْحٌ.
أخرجہ أحمد في المسند، 6: 22،الرقم: 24013، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب حرمۃ مال دم المؤمن ومالہ، 2: 1298، الرقم: 3934، وابن حبان في الصحیح، 11: 204، الرقم: 4862، والبزار في المسند، 9: 206، الرقم: 3752، والطبراني في المعجم الکبیر، 18: 309، الرقم: 796، والحاکم في المستدرک، 1: 54، الرقم: 24، وابن المبارک في المسند: 16، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد،3: 268، والکناني في مصباح الزجاجۃ،4: 164
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پرفرمایا: کیا میں تمہیں خبر نہ دوں کہ مسلمان کون ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے مال و جان محفوظ ہوں اور مہاجر وہ ہے جو لغزشوں اور گناہوں کو چھوڑ دے اور مجاہد وہ ہے جو اطاعت خداوندی میں اپنے نفس سے جہاد کرے۔
اِسے امام احمد، ابن ماجہ، ابن حبان، بزار، طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ ہیثمی نے کہا ہے کہ بزار کے رجال ثقہ ہیں اور کنانی نے کہا ہے کہ یہ اسناد صحیح ہے۔
18: 6. عَنْ أَبِي ھُرَیْرَةَ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ، إِذَا أَذْنَبَ، کَانَتْ نُکْتَۃٌ سَوْدَائُ فِي قَلْبِهٖ. فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُہٗ. فَإِنْ زَادَ زَادَتْ فَذٰلِکَ الرَّانُ الَّذِي ذَکَرَهُ اللهُ فِي کِتَابِهٖ: {کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo} [المطففین، 83: 14]
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَہٗ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰـذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ.
أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ ویل للمطففین، 5: 434، الرقم: 3334، وابن ماجہ في السنن، کتاب الزھد، باب ذکر الذنوب، 2: 1418، الرقم: 4244، والنسائي في السنن الکبری، 6: 509، الرقم: 11658، وابن حبان في الصحیح، 7: 27، الرقم: 2787، والحاکم في المستدرک، 2: 562، الرقم: 3908
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کے دل کو صاف کر دیا جاتا ہے (لیکن) اگر وہ گناہوں میں بڑھتا چلا جائے تو یہ نشان بھی بڑھتا چلا جاتا ہے(یہاں تک کہ اس کے پورے دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے) اور یہی وہ زنگ (رَانَ) ہے جس کا ذکر الله تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرمایا ہے: {کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo} ’(ایسا) ہر گز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے (اس لیے آیتیں ان کے دل پر اثر نہیں کرتیں)o‘۔
اِسے امام ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔ امام ترمذی نے فرمایا ہے: یہ حدیث حسن صحیح ہے؛ جب کہ امام حاکم نے فرمایا ہے: یہ حدیث صحیح ہے۔
19: 7. عَنْ أَبِي ھُرَیْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلزُّھْدُ فِي الدُّنْیَا یُرِیْحُ الْقَلْبَ وَالْجَسَدَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ لَا بَأْسَ بِهٖ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 6: 177، الرقم: 6120، والبیھقي في شعب الإیمان، 7: 347، الرقم: 10536
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: دنیا سے بے رغبتی دل اور جسم (دونوں) کو سکون بخشتی ہے۔
اِسے امام طبرانی اور بیہقی نے قابلِ اعتبار سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved