192. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَدِمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْمَدِيْنَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُوْنَ فِيْهِمَا. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ؟ قَالُوْا: كُنَّا نَلْعَبُ فِيْهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ. قَالَ إِنَّ اللهَ تعالیٰ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْر وَيَوْمَ النَّحْرِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاكِمُ.
أخرجه أحمد ابن حنبل في المسند، 3: 250، الرقم: 13647، وأبوداود في السنن، كتاب الصلاة، باب صلاة العيدين، 1: 295، الرقم: 1134، والنسائي في السنن، كتاب صلاة العيدين، 3: 179، الرقم: 1556، والحاكم في المستدرك، 1: 434، الرقم: 1090.
حضرت انس رضی الله عنه سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ نے دو دن کھیل کود کے لیے مقرر کر رکھے تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: یہ دو دن کیا (اہمیت رکھتے) ہیں؟ صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین عرض گزار ہوئے: (یا رسول الله !) ہم ان دو دنوں میں ایامِ جاہلیت میں کھیلتے کودتے(اور خوشی مناتے) تھے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں کی جگہ ان سے بہتر دن مرحمت فرمائے ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔
اِسے امام احمد، ابو داؤد، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
193. وَفِي رِوَايَةِ عَبْدِ اللهِ بْنِ قُرْطٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: أَعْظَمُ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللهِ يَوْمُ النَّحْرِ، ثُمَّ يَوْمُ النَّفْرِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ خُزَيْمَةَ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 350، الرقم: 19098، والنسائي في السنن الكبرى، 2: 444، الرقم: 4098، وابن حبان في الصحيح، باب العيدين، 7: 51، الرقم: 2811، وابن خزيمة في الصحيح، 4: 273، الرقم: 2866، والطبراني في المجم الأوسط، 3: 44، الرقم: 2421.
حضرت عبد الله بن قرط رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ کے ہاں دنوں میں سے سب سے عظمت والا دن نحر (یعنی عید قربان) کا ہے، پھر یوم النفر (یعنی ذو الحجہ کا بارہواں اور تیرہواں دن) ہے۔
اسے امام احمد، نسائی، ابنِ حبان اور ابنِ خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
194. وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ خُزَيْمَةَ: ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَوْمُ الْقَرِّ يَعْنِي يَوْمَ الثَّانِي مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ.
أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 4: 273، الرقم: 2866.
ابن خزیمہ کی بیان کردہ روایت میں ہے کہ پھر یوم القر (یعنی ذو الحجہ کا گیارہواں دن) ہے۔ ابو بکر نے کہا ہے: یوم القر سے مراد قربانی کا دوسرا دن ہے۔
195. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ أَوْسٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ وَقَفَتِ الْمَلائِكَةُ عَلَى أَبْوَابِ الطُّرُقِ، فَنَادَوْا: اغْدُوا، يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، إِلَى رَبٍّ كَرِيْمٍ. يَمُنُّ بِالْخَيْرِ ثُمَّ يُثِيْبُ عَلَيْهِ الْجَزِيْلَ. لَقَدْ أُمِرْتُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَقُمْتُمْ، وَأُمِرْتُمْ بِصِيَامِ النَّهَارِ فَصُمْتُمْ، وَأَطَعْتُمْ رَبَّكُمْ. فَاقْبِضُوا جَوَائِزَكُمْ. فَإِذَا صَلَّوْا، نَادَى مُنَادٍ: أَلاَ إِنَّ رَبَّكُمْ قَدْ غَفَرَ لَكُمْ، فَارْجِعُوا رَاشِدِيْنَ إِلَى رِحَالِكُمْ، فَهُوَ يَوْمُ الْجَائِزَةِ. وَيُسَمَّى ذَلِكَ الْيَوْمُ فِى السَّمَاءِ يَوْمَ الْجَائِزَةِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الكبير،1: 226، الرقم: 617، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب،2: 153، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 1: 161، الرقم: 362.
حضرت سعید بن اوس انصاری رضی الله عنه اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جب عید الفطر کا دن آتا ہے توفرشتے راستوں کے کناروں پر کھڑے ہو کر پکارتے ہیں: اے گروہِ مسلمین! کرم والے رب کی بارگاہ کی طرف چلو! وہی تمہیں نیکی کی توفیق عطا فرما کر احسان فرماتا ہے۔ پھر اس نیکی پر بہت بڑا ثواب عطا فرماتا ہے۔ تمہیں راتوں کو قیام کا حکم دیا گیا تو تم نے قیام کیا، دن کے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزے بھی رکھے، اور تم نے اپنے پروردگار کی اطاعت و فرمانبرداری کی۔ اب جزائیں سمیٹ لو۔ پھر جب لوگ نماز پڑھتے ہیں تو ایک ندا دینے والا ندا دیتا ہے: سن لو! تمہارے رب نے تمہیں بخش دیا ہے، خیرات و برکات سمیٹتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ کیونکہ یہ انعام و اکرام کا دن ہے۔ آسمانوں میں اس دن کا نام یوم الجائزہ (انعام کا دن )ہے۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
196. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِذَا كَانَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ نَزَلَ جِبْرِيْلُ علیه السلام فِي كَبْكَبَةٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ. يُصَلُّوْنَ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ قَائِمٍ أَوْ قَاعِدٍ يَذْكُرُ اللهَ تعالیٰ. فَإِذَاكَانَ يَوْمُ عِيْدِهِمْ يَعْنِي يَوْمَ فِطْرِهِمْ بَاهَى بِهِمْ مَلَائِكَتَهُ، فَقَالَ: يَا مَلَائِكَتِي، مَا جَزَاءُ أَجِيْرٍ وَفَّى عَمَلَهُ؟ قَالُوْا: رَبَّنَا، جَزَاؤُهُ أَنْ يُوَفَّى أَجْرُهُ. قَالَ: مَلَائِكَتِي، عَبِيْدِي وَإِمَائِي قَضَوْا فَرِيْضَتِي عَلَيْهِمْ، ثُمَّ خَرَجُوْا يَعُجُّوْنَ إِلَيَّ بِالدُّعَاءِ. وَعِزَّتِي وَجَلَالِي وَكَرَمِي وَعُلُوِّي وَارْتِفَاعِ مَكَانِي، لَأُجِيْبَنَّهُمْ. فَيَقُوْلُ: ارْجِعُوْا قَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ وَبَدَّلْتُ سَيِّاَتِكُمْ حَسَنَاتٍ. قَالَ: فَيَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّهُمْ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3: 343، الرقم: 3717، وأيضا في فضائل الأوقات، ص: 318، الرقم: 155، وذكره الخطيب التبريزي في مشكاة المصابيح، 1: 647، الرقم: 2096.
حضرت انس رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جب شب قدر ہوتی ہے تو جبریل علیه السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ اُترتے ہیں، اور ہر اس شخص پر سلام بھیجتے ہیں جو کھڑا یا بیٹھا ذکر میں مشغول ہوتا ہے۔ جب ان کی عید کا دن یعنی عید الفطر ہوتا ہے تو الله تعالیٰ ان عبادت گزار بندوں پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! اُس مزدور کی اُجرت کیا ہونی چاہیے جو اپنا کام پورا کر دے؟ وہ عرض کرتے ہیں: الٰہی! اس کی اُجرت یہ ہے کہ اسے پورا پورا اجر دیا جائے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے: اے فرشتو! میرے بندوں اور بندیوں نے اپنے ذمہ واجب الادا میرا فریضہ ادا کر دیا ہے۔ پھر جب وہ مجھ سے دعا کرتے ہوئے دستِ طلب دراز کریں تو مجھے اپنی عزت، اپنے جلال، اپنی سخاوت، اپنی بلند شان اور رفعتِ مکانی کی قسم! میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا۔ پھر (اپنے بندوں سے) فرماتا ہے: لوٹ جاؤ، میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: پھر یہ لوگ بخشش یافتہ ہو کر لوٹتے ہیں۔
اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
197. وَفِي رِوَايَةِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَأْمُرُنَا يَوْمَ الْفِطْرِ أَنْ نُفَطِّرَ الْفُقَرَاءَ مِنْ إِخْوَانِنَا. وَكَانَ يَقُولُ: مَنْ فَطَّرَ وَاحِدًا، يُعْتَقُ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ فَطَّرَ اثْنَيْنِ، كُتِبَ لَهُ بَرَاءَ ةٌ مِنَ الشِّرْكِ وَبَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاقِ، وَمَنْ فَطَّرَ ثَلَاثَةً، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ وَزَوَّجَهُ اللهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ. قَالَ: وَكَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُطْعِمَ الْخُبْزَ وَاللَّحْمَ، وَالْخُبْزَ وَالزَّيْتَ، وَالْخُبْزَ وَاللَّبَنَ. وَكَانَ يَقُولُ: آدِمُوا طَعَامَكُمْ، يُؤْدَمْ لَكُمْ عَيْشُكُمْ.
ذَكَرَهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ.
ابن الجوزي في التبصرة، 2: 107.
حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ ہمیں عید الفطر کے دن حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم اپنے فقراء بھائیوں کو کھانا کھلائیں۔ آپ ﷺ فرماتے تھے: جس نے کسی ایک کو کھانا کھلایا اسے جہنم سے آزاد کر دیا جائے گا، جس نے دو کو کھانا کھلایا اس کے لیے شرک اور نفاق سے پاک ہونا لکھ دیا جائے گا اور جس نے تین کو کھانا کھلایا اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی اور الله تعالیٰ اس کا نکاح حورِ عین سے کرے گا۔ آپ ﷺ ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم روٹی اورگوشت، روٹی اور زیتون کا تیل،روٹی اور دودھ کھلائیں۔ آپ ﷺ فرماتے تھے: تم سالن کے ساتھ کھانا کھایا کرو، تمہاری زندگی تمہارے لیے اُلفت کا باعث ہوگی۔
اسے علامہ ابن الجوزی نے بیان کیا ہے۔
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاتِكَةِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ رضی الله عنه قَالَ فِي خُطْبَتِهِ يَوْمَ الْفِطْرِ: أَتَدْرُوْنَ مَا مَخْرَجُكُمْ هَذَا؟ صُمْتُمْ ثَلَاثِيْنَ يَوْمًا، وَقُمْتُمْ ثَلَاثِيْنَ لَيْلَةً، ثُمَّ خَرَجْتُمْ تَسْأَلُوْنَ رَبَّكُمْ أَنْ يَتَقَبَّلَ مِنْكُمْ.
رَوَاهُ أَبُو نُعَيْمٍ الْأَصْبَهَانِيُّ.
أخرجه أبو نعيم الأصبهاني في حلية الأولياء، 5: 302، وذكره ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف، ص: 376.
عثمان بن ابی العاتکۃ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی الله عنه نے عید الفطر کے خطبہ میں فرمایا: (لوگو!) کیا تم جانتے ہو کہ آج تم کیوں اپنے گھروں سے باہر نکلے ہو؟ تم نے تیس دن روزے رکھے ہیں اور تم نے تیس راتیں قیام کیا ہے۔ لہٰذا آج تم اپنے رب سے سوال کرنے آئے ہو کہ وہ تمہاری ان عبادات کو قبول فرمائے۔
اسے امام ابو نعیم الاصبہانی نے روایت کیا ہے۔
198. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها، قَالَتْ: دَخَلَ أَبُوْ بَكْرٍ رضی الله عنه وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِيَ الْأَنْصَارِ، تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتِ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ، قَالَتْ: وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ، فَقَالَ أَبُوْ بَكْرٍ رضی الله عنه: أَمَزَامِيْرُ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ؟ وَذَلِكَ فِي يَوْمِ عِيْدٍ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يَا أَبَا بَكْرٍ، إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيْدًا وَهَذَا عِيْدُنَا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وَفِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ: وَفِيْهِ جَارِيَتَانِ تَلْعَبَانِ بِدُفٍّ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب العيدين، باب سنة العيدين لأهل الإسلام، 1: 324، الرقم: 909، ومسلم في الصحيح، كتاب صلاة العيدين، باب الرفعة في اللعب الذي لا معصية فيه في أيام العيد، 2: 607، الرقم: 892، وابن ماجه في السنن، كتاب النكاح، باب الغناء والدف، 1: 612، الرقم: 1898، وابن حبان في الصحيح، 13: 180، 187، الرقم: 5871، 5877.
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنها سے مروی ہے کہ اُنہوں نے فرمایا: حضرت ابو بکر رضی الله عنه آئے اور میرے پاس انصار کی دو (نابالغ) لڑکیاں (انصار نے جنگ بُعاث میں جو بہادری دکھائی تھی) وہ بیان کر رہیں تھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ یہ (پیشہ ور) گانے والی نہ تھیں۔ حضرت ابو بکر رضی الله عنه نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے گھر میں شیطانی باجہ! یہ عید کے دن کی بات ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے ابو بکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
امام مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ دونوں لڑکیاں دف بجا رہی تھیں۔
199. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثَ، فَاضْطَجَعَ عَلَى الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ، وَدَخَلَ أَبُوْ بَكْر رضی الله عنه، فَانْتَهَرَنِي وَقَالَ: مِزْمَارَةُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَقَالَ: دَعْهُمَا، فَلَمَّا غَفَلَ، غَمَزْتُهُمَا، فَخَرَجَتَا.
وَكَانَ يَوْمُ عِيْدٍ يَلْعَبُ السُّوْدَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ، فَإِمَّا سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَإِمَّا قَالَ: تَشْتَهِيْنَ تَنْظُرِيْنَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَأَقَامَنِي وَرَائَهُ، خَدِّي عَلَى خَدِّهِ، وَهُوَ يَقُوْلُ: دُوْنَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ، حَتَّى إِذَا مَلِلْتُ. قَالَ: حَسْبُكِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: فَاذْهَبِي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب العيدين، باب الحراب والدرق يوم العيد، 1: 323، الرقم: 907، ومسلم في الصحيح، كتاب صلاة العيدين، باب الرخصة في اللعب الذي لا معصية فيه في أيام العيد، 2: 609، الرقم: 892، وأبو يعلى في المسند، 8: 247، الرقم: 4829، والبيهقي في السنن الكبرى، 10: 218.
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنها سے روایت ہے کہ اُنہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث کے ترانے گا رہی تھیں۔ آپ ﷺ بستر پر آرام فرما ہو گئے اور چہرۂ اقدس دوسری طرف پھیر لیا۔ پھر حضرت ابو بکر رضی الله عنه تشریف لے آئے تو اُنہوں نے مجھے ڈانٹا اور فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس شیطانی ساز! حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابو بکر رضی الله عنه کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا: (ابو بکر) انہیں چھوڑ دو۔ (حضرت عائشہ رضی الله عنها فرماتی ہیں کہ) جب حضرت ابو بکر رضی الله عنه کسی اور طرف متوجہ ہوئے تو میں نے لڑکیوں کو نکل جانے کا اشارہ کیا۔
وہ حبشیوں کی عید کا دن تھا جو ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیلتے تھے۔ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا، یا آپ ﷺ نے خود ہی فرمایا: (اے عائشہ! کیا) تم دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ ﷺ کے رخسارِ مبارک پر تھا اور آپ ﷺ فرماتے رہے: اے بنو ارفدہ! اور دکھاؤ۔ یہاں تک کہ جب میں اُکتا گئی تو مجھ سے فرمایا: بس! تو میں نے عرض کیا: جی (یا رسول الله!)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
قَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ فِي الْفَتْحِ: وَقَالَتْ -أَي عَائِشَةُ رضی الله عنها -: ‹‹كَانَ يَوْمُ عِيْدٍ›› فَتَبَيَّنَ بِهَذَا أَنَّهُ مَوْصُوْلٌ كَالْأَوَّلِ. قَوْلُهُ: ‹‹يَلْعَبُ فِيْهِ السُّوْدَانُ›› فِي رِوَايَةِ الزُّهْرِيِّ الْمَذْكُوْرَةِ: ‹‹وَالْحَبَشَةُ يَلْعَبُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ››. وَزَادَ فِي رِوَايَةٍ مُعَلَّقَةٍ وَوَصَلَهَا مُسْلِمٌ ‹‹بِحِرَابِهِمْ›› وَلِمُسْلِمٍ مِنْ رِوَايَةِ هِشَامٍ عَنْ أَبِيْهِ: ‹‹جَاءَ حَبَشٌ يَلْعَبُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ››. قَالَ الْمُحِبُّ الطَّبَرِيُّ: هَذَا السِّيَاقُ يُشْعِرُ بِأَنَّ عَادَتَهُمْ ذَلِكَ فِي كُلِّ عِيْدٍ، وَوَقَعَ فِي رِوَايَةِ ابْنِ حِبَّانَ: ‹‹لَمَّا قَدِمَ وَفَدُ الْحَبَشَةِ، قَامُوْا يَلْعَبُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ››. وَهَذَا يُشْعِرُ بِأَنَّ التَّرْخِيْصَ لَهُمْ فِي ذَلِكَ بِحَالِ الْقُدُوْمِ، وَلَا تُنَافِي بَيْنَهُمَا لِاحْتِمَالِ أَنْ يَكُوْنَ قُدُوْمُهُمْ صَادِفٌ يَوْمَ عِيْدٍ وَكَانَ مِنْ عَادَتِهِمُ اللَّعِبُ فِي الْأَعْيَادِ، فَفَعَلُوْا ذَلِكَ كَعَادَتِهِمْ ثُمَّ صَارُوْا يَلْعَبُوْنَ يَوْمَ كُلِّ عِيْدٍ، وَيَؤَيِّدُهُ مَا رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ، عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ: ‹‹لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِيْنَةَ، لَعِبَتِ الْحَبَشَةُ فَرِحًا بِذَلِكَ لَعِبُوْا بِحِرَابِهِمْ››. وَلَا شَكَّ أَنْ يَوْمَ قُدُوْمِهِ ﷺ كَانَ عِنْدَهُمْ أَعْظَمَ مِنْ يَوْمِ الْعِيْدِ.
العسقلاني في فتح الباري، 2: 443.
حافظ عسقلانی ’فتح الباری‘ میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنها فرماتی ہیں: ’وہ عید کا دن تھا‘۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حدیث بھی پہلی حدیث کی طرح موصول ہے جس میں ہے کہ ’’اس دن حبشہ والے مسجد میں رقص کرتے‘‘ اور امام زہری کی مذکورہ روایت میں ہے: ’’اہل حبشہ مسجد میں کھیلتے‘‘۔ اور امام زہری نے ایک روایت ( جو امام مسلم سے متصل ہے - میں لفظ بحرابهم (اپنے جنگی ساز و سامان کے ساتھ) کا اضافہ کیا ہے اور امام مسلم کی روایت جو کہ حضرت ہشام کی اپنے والد سے ہے) میں یہ الفاظ آتے ہیں: جَاءَ حبَشٌ یَلْعَبُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ کہ حبشہ کے لوگ مسجد میں کھیلنے کے لیے آئے۔ امام محب الدین طبری نے بیان کیا ہے کہ یہ سیاق بتلاتا ہے کہ ہر عید میں ان کی یہ عادت تھی کہ وہ مسجد میں (اپنے سامانِ حرب کے ساتھ) کھیلتے تھے۔ امام ابن حبان کی روایت میں ہے کہ جب حبشہ کا وفد آیا تو وہ مسجد میں (اپنے سامانِ حرب کے ساتھ) رقص کرنے لگے۔ یہ چیز بتلاتی ہے کہ انہیں اس کام کی اجازت وہاں آتے وقت ملی تھی۔ ان دونوں چیزوں میں مغایرت نہیں ہے کیوں کہ ممکن ہے ان کا وہاں آنا عید کے روز ہو، اور عیدوں میں کھیلنا ان کی عادت ہو۔ لہٰذا اُنہوں نے ایسا اپنی عادت کے مطابق کیا ہو، اور پھر وہ ہر عید کو ایسا کرنے لگے ہوں۔ اس چیز کی تائید وہ روایت بھی کرتی ہے، جسے امام ابو داود نے حضرت انس رضی الله عنه سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ حبشہ نے آپ ﷺ کی آمد کی خوشی میں اپنے سامانِ حرب کے ساتھ رقص کیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی مدینہ منورہ تشریف آوری کا دن ان کے نزدیک (تمام خوشیوں اور) عید کے دنوں سے بڑھ کر تھا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved