131. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ فِيهِ بِعَزِيْمَةٍ، فَيَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. فَتُوُفِّيَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ رضی الله عنه ، وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رضی الله عنه عَلَى ذَلِكَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2: 707، الرقم: 1905، ومسلم في الصحيح، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، 1: 523، الرقم: 759، والترمذي في السنن، كتاب الصوم عن رسول الله، باب الترغيب في قيام رمضان وما جاء فيه من الفضل، 3: 171، الرقم: 808.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ قیامِ رمضان (تراویح) کی ترغیب دیتے تھے مگر اس کا تاکیدی حکم نہیں دیتے تھے، آپ ﷺ فرماتے تھے: جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا وصال ہو گیا اور یہ (قیامِ رمضان کا) معاملہ اسی طرح برقرار رہا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنه کے پورے دورِ خلافت اور حضرت عمر رضی الله عنه کی خلافت کے ابتدائی دور تک یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔
132. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه ، قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ رَمَضَانَ، فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا، فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ. قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ. قَالَ: فَلَمَّا كَانَتِ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ، فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِيْنَا أَنْ يَفُوْتَنَا الْفَلَاحُ. قَالَ: قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السُّحُوْرُ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِقِيَّةَ الشَّهْرِ.
رَوَاهُ أَصْحَابُ سُنَنِ الْأَرْبَعَةِ وَالدَّارِمِيُّ.
أخرجه أبو داود في السنن، كتاب الصلاة، باب في قيام شهر رمضان، 2: 50، الرقم: 1375، والترمذي في السنن، كتاب الصوم، عن رسول الله، باب ما جاء في قيام شهر رمضان، 3: 169، الرقم: 806، والنسائي في السنن، كتاب السهو، باب ثواب من صلى مع الإمام حتى ينصرف، 3: 83، الرقم: 1364، وابن ماجه في السنن كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في قيام شهر رمضان، 1: 420، الرقم: 1327، والدارمي في السنن، 2: 42، الرقم: 1777.
جبیر بن نفیر سے روایت ہے کہ حضرت ابو ذرغفاری رضی الله عنه نے فرمایا: ہم نے رمضان المبارک میں رسول الله ﷺ کے ساتھ روزے رکھے تو آپ ﷺ نے اس مہینے میں کسی روز ہمارے ساتھ قیام نہ فرمایا حتیٰ کہ سات روز باقی رہ گئے۔ پھر آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ تہائی رات تک قیام فرمایا۔ (اگلے دن) جب چھ روز باقی رہ گئے تھے تو بھی ہمارے ساتھ قیام نہ فرمایا۔ (اگلے دن) جب رمضان المبارک کے پانچ روز باقی رہ گئے تھے تو آپ ﷺ نے آدھی رات تک ہمارے ساتھ قیام فرمایا۔ میں عرض گزار ہوا کہ یارسول الله! کاش اس رات آپ ہمیں اور بھی نفل پڑھا دیتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو فارغ ہوتے ہی اس کے لیے پوری رات کے قیام کا ثواب شمار کر لیا جاتا ہے۔ جب چار روز باقی رہ گئے تو آپ ﷺ نے قیام نہ فرمایا۔ پھر جب تین روز باقی رہ گئے تو اس رات تو آپ ﷺ نے اپنے گھر والوں، اپنی اَزواجِ مطہرات اور دیگر لوگوں کو جمع فرمایا اور آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا یہاں تک کہ ہمیں خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں فلاح کا وقت ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ حضرت جبیر نے پوچھا کہ فلاح کیا چیز ہے؟ حضرت ابو ذر غفاری رضی الله عنه نے فرمایا، سحری۔ اس کے بعد ماہِ رمضان کے باقی دنوں میں آپ ﷺ نے (ہمارے ساتھ) قیام نہ فرمایا۔
اِسے اَئمہ سنن اَربعہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
133. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الإيمان، باب تطوع قيام رمضان من الإيمان، 1: 22، الرقم: 37، ومسلم في الصحيح، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان، 1: 523، الرقم: 759، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 408، الرقم: 9277، والنسائي في السنن، كتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب ثواب من قام رمضان إيمانا واحتسابا، 3: 201، الرقم: 1602-1603.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جس نے ماہِ رمضان (کی راتوں) میں بحالتِ ایمان اور خالصتاً اللہ کی رضا چاہتے ہوئے قیام کیا، اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
قَالَ الإِمَامُ النَّوَوِيُّ: وَمَعْنَى «احْتِسَابًا» أَنْ يُرِيْدَ اللهَ تَعَالَى وَحْدَهُ لَا يَقْصِدُ رُؤْيَةَ النَّاسِ وَلَا غَيْرَ ذَلِكَ مِمَّا يُخَالِفُ الإِخْلَاصَ. وَالْمُرَادُ بِقِيَامِ رَمَضَانَ صَلَاةُ التَّرَاوِيْحِ، وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى اسْتِحْبَابِهَا، وَاخْتَلَفُوْا فِي أَنَّ الْاَفْضَلَ صَلَاتُهَا مُنْفِرَدًا فِي بَيْتِهِ أَمْ فِي جَمَاعَةٍ فِي الْمَسْجِدِ. فَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَجُمْهُوْرُ أَصْحَابِهِ وَأَبُوْ حَنِيْفَةَ وَأَحْمَدُ وَبَعْضُ الْمَالِكِيَّةِ وَغَيْرُهُمْ: اَلْأَفْضَلُ صَلَاتُهَا جَمَاعَةً كَمَا فَعَلَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَالصَّحَابَةُ رضوان الله علیهم اجمعین . وَاسْتَمَرَّ عَمَلُ الْمُسْلِمِيْنَ عَلَيْهِ لِأَنَّهُ مِنَ الشَّعَائِرِ الظَّاهِرَةِ، فَأَشْبَهَ صَلَاةَ الْعِيْدِ.
النووي في شرح صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان، 6: 39.
امام نووی نے فرماتے ہیں: لفظِ اِحتساب کا معنٰی یہ ہے کہ بندہ (خالصتاً) فقط خدائے وحدہ، (لاشریک) کی رضا چاہنے والا ہو، اور اس کا مقصد (قطعاً) ریا کاری نہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسا مقصد ہو جو اخلاص کے منافی ہو۔ رمضان میں قیام سے مراد نمازِ تراویح ہے۔ اس کے مستحب ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ اختلاف اس مسئلہ میں ہے کہ نمازِ تراویح گھر میں اکیلے پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنا؟ امام شافعی اور ان کے اکثر پیروکاروں اور امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل اور بعض مالکیوں اور دیگر علماء نے (نماز تراویح کو) جماعت کے ساتھ ادا کرنا افضل قرار دیا ہے جیسے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی الله عنه اور صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین نے ادا فرمائی اور بعد والے مسلمانوں نے بھی (باجماعت نماز تراویح کے) اس عمل کو (خصوصی اہتمام کے ساتھ) جاری رکھا کیونکہ یہ اسلام کے ظاہری شعائر میں سے ہے اور اس طرح یہ نمازِ عید کے مشابہ ہوگئی۔
134. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ لِرَمَضَانَ: مَنْ قَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ عَوَانَةَ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2: 707، الرقم: 1904، والنسائي في السنن، كتاب الصيام، باب ثواب من قام رمضان وصامه إيمانا واحتسابا،4: 155، الرقم: 2194، وابن حبان في الصحيح، 6: 287، الرقم: 2546، وأبو عوانة في المسند، 2: 249، الرقم: 3038.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے رمضان المبارک (کی راتوں ) میں بحالتِ ایمان رضاے الٰہی کی خاطر قیام کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
اِسے امام بخاری، نسائی، ابن حبان اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔
135. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يُرَغِّبُ النَّاسَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ وَيَقُوْلُ: مَنْ قَامَهُ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. وَلَمْ يَكُنْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ جَمَعَ النَّاسَ عَلَى الْقِيَامِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2: 289، الرقم: 7868.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین کو قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے اور فرمایا کرتے تھے: جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان میں قیام کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ لوگوں کو قیام کے لیے جمع نہ فرماتے۔
اِسے امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
136. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها : أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يُرَغِّبُ النَّاسَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ بِعَزِيمَةِ أَمْرٍ فِيهِ، فَيَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه النسائي في السنن، كتاب الصيام، باب ثواب من قام رمضان وصامه إيمانا واحتسابا، 4: 154، الرقم: 2192، والطبراني في المعجم الأوسط، 9: 120، الرقم: 9299.
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنها سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک میں لوگوں کو قیامِ رمضان (تروایح) کی ترغیب دیا کرتے تھے لیکن حکماً لازم قرار نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ ارشاد فرماتے: جو شخص رمضان المبارک (کی راتوں) میں بحالتِ ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے، اس کے گزشتہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
اِسے امام نسائی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
137. عَنِ النَّضْرِ بْنِ شَيْبَانَ أَنَّهُ لَقِيَ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ لَهُ: حَدِّثْنِي بِأَفْضَلِ شَيْءٍ سَمِعْتَهُ يُذْكَرُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ رضی الله عنه : حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ ذَكَرَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَفَضَّلَهُ عَلَى الشُّهُورِ، وَقَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَالْمَقْدِسِيُّ.
أخرجه النسائي في السنن، كتاب الصيام، باب فضل الصيام، 4: 158، الرقم: 2208، وابن ماجه في السنن، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في قيام شهر رمضان،1: 421، الرقم: 1328، وابن خزيمة في الصحيح، 3: 335، الرقم: 2201، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 3: 106، الرقم: 908.
حضرت نضر بن شیبان سے مروی ہے کہ ان کی حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی الله عنه سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے عرض کیا: مجھے ماہِ رمضان المبارک کی کوئی فضیلت بیان کریں جو آپ نے سنی ہو۔ حضرت ابو سلمہ رضی الله عنه نے فرمایا: مجھے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی الله عنه نے رسول الله ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے رمضان المبارک کا ذکر فرماتے ہوئے اُسے سب مہینوں سے افضل قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے قیام کرے تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے اس دن (پاک) تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا۔
اِسے امام نسائی، ابن ماجہ، خزیمہ اور المقدسی نے روایت کیاہے۔
138. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ثُمَّ لَمْ يَأْتِ فِرَاشَهُ حَتَّى يَنْسَلِخَ.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 3: 342، الرقم: 2216، والبيهقي في شعب الإيمان، 3: 310، الرقم: 3624، وذكره الهندي في كنز العمال، 7: 32، الرقم: 18061، والسيوطي في الجامع الصغير، 1: 143، الرقم: 211.
حضور نبی اکرم ﷺ کی زوجۂ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنها سے مروی ہے، آپ رضی الله عنها فرماتی ہیں: جب ماہِ رمضان المبارک شروع ہو جاتا تو حضور نبی اکرم ﷺ اپنی کمر کس لیتے، پھر رمضان المبارک گزر جانے تک آپ ﷺ اپنے بستر پر تشریف نہ لاتے۔
اِسے امام ابن خزیمہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
139. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ تَغَيَّرَ لَوْنُهُ وَكَثُرَتْ صَلَاتُهُ وَابْتَهَلَّ فِي الدُّعَاءِ، وَأَشْفَقَ مِنْهُ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي ‹‹شُعَبِ الإِيْمَانِ››.
أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3: 310، الرقم: 3625، وذكره الهندي في كنز العمال، 7: 32، الرقم: 18062، والسيوطي في الجامع الصغير، 1: 143، الرقم: 212.
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنها فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک شروع ہوتا تو آپ ﷺ کا رنگ مبارک (خوف و خشیتِ الٰہی کے سبب) متغیر ہو جاتا، آپ ﷺ کی (نفلی) نمازیں زیادہ ہو جاتیں، آپ ﷺ گِڑ گڑا کر دعا کرتے اور آپ ﷺ پر الله تعالیٰ کی خشیت زیادہ طاری ہو جاتی تھی۔
اِسے امام بیہقی نے ’شعب الایمان‘ میں روایت کیاہے۔
140. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ، وَأَحْيَا لَيْلَهُ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب صلاة التراويح، باب العمل في العشر الأواخر من رمضان، 2: 711، الرقم: 1920، وأحمد بن حنبل في المسند، 6: 66، الرقم: 24422
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنها بیان فرماتی ہیں: جب (رمضان المبارک کا آخری) عشرہ شروع ہوتا تو حضور نبی اکرم ﷺ (عبادت کے لیے) کمر کس لیتے۔ رات بھر (عبادت کے لیے) بیدار رہتے اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی (عبادت کے لیے) بیدار فرماتے۔
اِسے امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔
141. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَيَقُوْلُ: تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب صلاة التراويح، باب تحري ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر،2: 710، الرقم: 1916، والترمذي في السنن، كتاب الصوم، باب ما جاء في ليلة القدر 3: 158، الرقم: 792.
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنها سے روایت ہے، اُنہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھتے اور فرماتے: شبِ قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تلاش کیا کرو۔
اِسے امام بخاری اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
142. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً وَيُوْتِرُ بِثَلَاثٍ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2: 164، الرقم: 7692، وعبد بن حميد في المسند: 218، الرقم: 653، والطبراني في المعجم الأوسط، 5: 324، الرقم: 5440، وأيضًا في المعجم الكبير، 11: 393، الرقم: 12102، وذكره ابن عبد البر في التمهيد، 8: 115، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 172، والعسقلاني في المطالب العالية، 4: 425، الرقم: 598.
حضرت (عبد الله) بن عباس رضی الله عنهما سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ رمضان المبارک میں بیس رکعات نمازِ (تراویح) اور تین وتر پڑھا کرتے تھے۔
اِسے امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ عبد بن حمید کے ہیں۔
143. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُصَلِّي عِشْرِيْنَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1: 243، الرقم: 798.
حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنهما سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات نمازِ (تراویح) پڑھتے تھے۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔
144. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه قَالَ:كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فِي غَيْرِ جَمَاعَةٍ بِعِشْرِيْنَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه البيهقي في السنن الكبرى، 2: 496، الرقم: 4391.
حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنهما سے یہ بھی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ماہِ رمضان المبارک میں جماعت کے بغیر بیس (20) رکعات نمازِ (تراویح) اور وتر اضافتاً پڑھتے تھے۔
اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے ۔
145. عَنْ يَزِيْدَ بْنِ رُوْمَانَ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُوْمُوْنَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه فِي رَمَضَانَ، بِثَلَاثٍ وَعِشْرِيْنَ رَكْعَةً.
رَوَاهُ مَالِكٌ وَالْبَيْهَقِيُّ والْفِرْيَابِيُّ، وَقَالَ الْفِرْيَابِيُّ: إِسْنَادُهُ وَرِجَالُهُ مُوَثَّقُوْنَ.
أخرجه مالك في الموطأ، كتاب الصلاة في رمضان، باب الترغيب في الصلاة في رمضان، 1: 115، الرقم: 252، والبيهقي في السنن الكبرى، 2: 496، الرقم: 4394، وأيضًا في شعب الإيمان، 3: 177، الرقم: 3270، والفريابي في كتاب الصيام، 1: 132، الرقم: 179، وابن عبد البر في التمهيد، 8: 115، وابن قدامة في المغني، 1: 456، والشوكاني في نيل الأوطار، 3: 63.
حضرت یزید بن رومان سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنه کے دور میں بھی رمضان المبارک میں لوگ (یعنی صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین ) 23 رکعات (نمازِ تراویح بشمول وتر) ادا کرتے تھے۔
اِسے امام مالک، بیہقی اور فریابی نے روایت کیا ہے۔ امام فریابی فرماتے ہیں: اس کی سند اور رجال ثقہ ہیں۔
وَقَالَ ابْنُ قُدَامَةَ فِي الْمُغْنِي: وَهَذَا كَالإِجْمَاعِ.
ابن قدامہ ’المغنی‘ میں کہتے ہیں: یہ عمل اجماع کی طرح ہے (یعنی اُن اُمور کی طرح ہے جن پر اِجماعِ اُمت ہوچکا ہے)۔
146. عَنْ يَحْييَ بْنِ سَعِيْدٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی الله عنه أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَإِسْنَادُهُ مُرْسَلٌ قَوِيٌّ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2: 163، الرقم: 7682، وذكره المباركفوري في تحفة الأحوذي، 3: 445.
حضرت یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنه نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات (تراویح) پڑھائے۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ اس کی اسناد مرسل اور قوی ہے۔
147. عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رضی الله عنه أَنَّ عُمَرَ رضی الله عنه أَمَرَ أُبَيًّا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ يَصُوْمُوْنَ النَّهَارَ وَلَا يُحْسِنُوْنَ أَنْ يَّقْرَؤُا، فَلَوْ قَرَأْتَ الْقُرْآنَ عَلَيْهِمْ بِاللَّيْلِ. فَقَالَ: يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ، هَذَا شَيءٌ لَمْ يَكُنْ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتُ وَلَكِنَّهُ أَحْسَنُ. فَصَلَّى بِهِمْ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً.
رَوَاهُ الْمَقْدِسِيُّ، وَقَالَ: إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه المقدسي في الأحاديث المختارة، 3: 367، الرقم: 1161.
حضرت ابو العالیہ، حضرت اُبی بن کعب رضی الله عنه سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنه نے حضرت اُبی بن کعب رضی الله عنه کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو نمازِ (تراویح) پڑھائیں۔ فرمایا کہ لوگ سارا دن روزہ رکھتے ہیں اور ( دن کے اوقات میں) وہ قرآنِ مجید پڑھنے کو زیادہ ترجیح نہیں دیتے، میری خواہش ہے کہ آپ انہیں رات کے اوقات میں (نمازِ تراویح) میں قرآنِ مجید سنائیں۔ (حضرت اُبی بن کعب رضی الله عنه نے) عرض کیا: اے امیر المؤمنین! یہ ایسا کام ہے جو پہلے نہیں ہوا، اُنہوں نے فرمایا:میں (بخوبی) جانتا ہوں، لیکن یہ بہت ہی اچھا عمل ہے۔ اس پر حضرت اُبی بن کعب رضی الله عنه نے صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین کو 20 رکعات نمازِ (تراویح) پڑھائی۔
اسے امام مقدسی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے: اس کی سند حسن ہے۔
148. عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ رضی الله عنه قَالَ: كُنَّا نَنْصَرِفُ مِنَ الْقِيَامِ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ رضی الله عنه وَقَدْ دَنَا فُرُوْعُ الْفَجْرِ، وَكَانَ الْقِيَامُ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ رضی الله عنه ثَلَاثَةً وَعِشْرِيْنَ رَكْعَةً.
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.
أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 4: 261، الرقم: 7733، وابن حزم في الإحكام، 2: 230.
حضرت سائب بن یزید رضی الله عنه روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی الله عنه کے زمانہ میں قیام اللیل (تراویح) سے فارغ ہوتے تو فجر کے آثار قریب ہوجاتے اور عہدِ عمر رضی الله عنه میں (بشمول وتر) تئیس (23) رکعات (تراویح) پڑھنے کا معمول تھا۔
اسے امام عبدالرزاق نے روایت کیا ہے۔
149. وَعَنْهُ رضی الله عنه قَالَ: كَانُوْا يَقُوْمُوْنَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِيْنَ رَكْعَةً، قَالَ: وَكَانُوْا يَقْرَؤُوْنَ بِالْمِئِيْنَ، وَكَانُوْا يَتَوَكَّئُوْنَ عَلَى عُصِيِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْفِرْيَابِيُّ وَابْنُ الْجَعْدِ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ كَمَا قَالَ الْفِرْيَابِيُّ.
أخرجه البيهقي في السنن الكبرى، 2: 496، الرقم: 4393، وابن الحسن الفريابي في كتاب الصيام، 1: 131، الرقم: 176، وابن الجعد في المسند، 1: 413، الرقم: 2825، وذكره المباركفوري في تحفة الأحوذي، 3: 447.
حضرت سائب بن یزید رضی الله عنه کا ہی بیان ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنه کے عہد میں صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین ماہِ رمضان المبارک میں 20 رکعات (تراویح) پڑھتے تھے اور ان میں سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنه کے عہد میں شدتِ قیام کی وجہ سے وہ اپنی لاٹھیوں سے ٹیک لگا لیتے تھے۔
اسے امام بیہقی، فریابی اور ابن الجعد نے روایت کیا ہے اور فریابی نے اس کی سند اور رجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا نَقُوْمُ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه بِعِشْرِيْنَ رَكْعَةً، وَالْوِتْرِ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه البيهقي في معرفة السنن والآثار، 2: 305، الرقم: 1365.
سائب بن یزید سے روایت ہے: ہم حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنه کے دور میں بیس رکعت (تراویح) اور ساتھ وتر پڑھتے تھے۔
اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
قَالَ النَّوَوِيُّ فِي ‹‹الْخُلَاصَةِ››: إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ (1). وَصَحَّحَ إِسْنَادَهُ السُّبْكِيُّ فِي شَرْحِ الْمِنْهَاجِ، وَعَلِيٌّ الْقَارِيُ فِي شَرْحِ الْمُوَطَّأِ (2).
امام نووی نے ’خلاصة الأحكام في مهمات السنن وقواعد الإسلام‘ میں اس کی اسناد کو صحیح کہا ہے۔ امام سبکی نے ’شرح المنہاج‘ میں اورملاعلی القاری نے ’شرح الموطأ‘میں اسے صحیح کہاہے۔
150. عَنِ ابْنِ أَبِي الْحَسَنَاءِ أَنَّ عَلِيًّا رضی الله عنه أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2: 163، الرقم: 7681، والبيهقي في السنن الكبرى، 2: 497، الرقم: 4397، وابن عبد البر في التمهيد، 8: 115، والمباركفوري في تحفة الأحوذي، 3: 444، وابن قدامة في المغني، 1: 456.
ابنِ ابو الحسناء بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی الله عنه نے ایک شخص کو رمضان المبارک میں لوگوں کو بیس (20) رکعت نمازِ (تراویح) پڑھانے کا حکم دیا۔
اسے امام ابن ابی شیبہ اور اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
151. عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: دَعَا الْقُرَّاءَ فِي رَمَضَانَ فَأَمَرَ مِنْهُمْ رَجُلًا يُصَلِّي بِالنَّاسِ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً. قَالَ: وَكَانَ عَلِيٌّ رضی الله عنه يُوْتِرُ بِهِمْ.
وَرُوِيَ ذَلِكَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ عَلِيٍّ رضوان الله علیهم اجمعین.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه البيهقي في السنن الكبرى، 2: 496، الرقم: 4396، وذكره المباركفوري في تحفة الأحوذي، 3: 444.
ابو عبد الرحمن سلمی سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی الله عنه نے رمضان المبارک میں قراء حضرات کو بلایا اور ان میں سے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو 20 رکعات نمازِ (تراویح) پڑھائے اور خود حضرت علی رضی الله عنه انہیں وتر (کی نماز) پڑھاتے تھے۔
یہ حدیث حضرت علی رضی الله عنه سے ایک اور سند کے ساتھ بھی مروی ہے۔
اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةٍ أَنَّ عَلِيًّا رضی الله عنه كَانَ يَؤُمُّهُمْ بِعِشْرِيْنَ رَكْعَةً وَيُوْتِرُ بِثَلَاثٍ.
رَوَاهُ ابْنُ الإِسْمَاعِيْلِ الصَّنْعَانِيُّ وَقَالَ: فِيْهِ قُوَّةٌ.
ذكره الصنعاني في سبل السلام، 2: 10.
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی الله عنه انہیں 20 رکعات (تراویح) اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے۔
اسے ابن اسماعیل صنعانی نے روایت کیا اور قوی قرار دیا ہے۔
152. عَنْ عَبْدِ الْعَزِيْزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ: كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ رضی الله عنه يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِيْنَةِ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً وَيُوْتِرُ بِثَلَاثٍ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَإِسْنَادُهُ مُرْسَلٌ قَوِيٌّ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2: 163، الرقم: 7684، وذكره المباركفوري في تحفة الأحوذي، 3: 445.
عبد العزیز بن رُفَیع سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت اُبی بن کعب رضی الله عنه مدینہ منورہ میں لوگوں کو رمضان المبارک میں 20 رکعت (تراویح) اور 3 رکعت وتر پڑھاتے تھے۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند مرسل قوی ہے۔
153. عَنْ أَبِي الْخَصِيْبِ، قَالَ: كَانَ يَؤُمُّنَا سُوَيْدُ بْنُ غَفْلَةَ فِي رَمَضَانَ فَيُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَإسْنَادُهُ حَسَنٌ، وَالْبُخَارِيُّ فِي الْكُنَى.
أخرجه البيهقي في السنن الكبرى، 2: 496، الرقم: 4395، والبخاري في الكنى، 1: 28، الرقم: 234.
ابو خصیب نے بیان کیا ہے کہ حضرت سوید بن غفلہ رضی الله عنه ہمیں رمضان المبارک میں نمازِ (تراویح) 5 ترویحات کے ساتھ یعنی 20 رکعات پڑھاتے تھے۔ (یاد رہے کہ ترویحہ ہر 4 رکعت کے بعد ہوتا ہے۔)
اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے جب کہ امام بخاری نے اسے ’الکنیٰ‘ میں ذکر کیا ہے۔
154. عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ رضی الله عنها قَالَ: كَانَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ يُصَلِّي بِنَا فِي رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2: 163، الرقم: 7683.
حضرت نافع بن عمر رضی الله عنه سے روایت ہے کہ حضرت ابنِ ابی ملیکہ ہمیں رمضان المبارک میں 20 رکعت نمازِ (تراویح) پڑھایا کرتے تھے۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
155. عَنِ الْحَارِثِ أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ بِعِشْرِيْنَ رَكْعَةً، وَيُوْتِرُ بِثَلَاثٍ، وَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوْعِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2: 163، الرقم: 7685.
حضرت حارث رضی الله عنه سے مروی ہے کہ وہ لوگوں کو رمضان المبارک کی راتوں میں 20 رکعت تراویح اور 3 وتر پڑھایا کرتے تھے اور (وتر کی آخری رکعت میں) رکوع سے پہلے دعاے قنوت پڑھتے تھے۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
156. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ رَبِيْعَةَ كَانَ يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ وَ يُوْتِرُ بِثَلَاثٍ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2: 163، الرقم: 7690.
حضرت سعید بن عبید سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ربیعہ انہیں رمضان المبارک میں پانچ ترویحات (یعنی 20 رکعت) نمازِ (تراویح) اور تین وتر پڑھاتے تھے (یاد رہے کہ ترویحہ ہر چار رکعت کے بعد ہوتا ہے)۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
157. عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ رضی الله عنه : أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّهُمْ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِيْنَ رَكْعَةً وَيُوْتِرُ بِثَلَاثٍ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، وَقَالَ: وَفِي ذَلِكَ قُوَّةٌ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2: 163، الرقم: 7680، والبيهقي في السنن الكبرى، 2: 496، الرقم: 4395.
حضرت علی رضی الله عنه کے اصحاب میں سے حضرت شُتیر بن شکل سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کو رمضان المبارک میں 20 رکعاتِ (تراویح) اور تین وتر پڑھاتے تھے۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور کہا ہے: اس میں قوت ہے (یعنی یہ روایت قوی ہے)۔
158. عَنْ أَبِي الْبُخْتَرِيِّ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ فِي رَمَضَانَ وَيُوْتِرُ بِثَلَاثٍ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2: 163، الرقم: 7686.
حضرت ابو البَخْتَری سے روایت ہے کہ وہ رمضان المبارک میں پانچ ترویحات (یعنی 20 رکعات تراویح) اور تین وتر پڑھا کرتے تھے۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد صحیح ہے۔
159. عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: أَدْرَكْتُ النَّاسَ وَهُمْ يُصَلُّوْنَ ثَلَاثًا وَعِشْرِيْنَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2: 163، الرقم: 7688.
حضرت عطاء (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو (یعنی صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین اور اکابر تابعین کو) دیکھا کہ وہ بشمول وتر تیئس (23) رکعات نمازِ (تراویح) پڑھتے تھے۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔
160. عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، أَنَّهُ سَمِعَ الْأَعْرَجَ يَقُوْلُ: وَكَانَ الْقَارِيءُ يَقْرَأُ سُوْرَةَ الْبَقَرَةِ فِي ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، فَإِذَا قَامَ بِهَا فِي اثْنَتَي عَشْرَةَ رَكْعَةً، رَأَى النَّاسُ أَنَّهُ قَدْ خَفَّفَ.
رَوَاهُ مَالِكٌ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْفِرْيَابِيُّ، وَقَالَ: إِسْنَادُهُ قَوِيٌّ.
أخرجه مالك في الموطأ، كتاب الصلاة في رمضان، باب ما جاء في قيام رمضان، 1: 115، الرقم: 253، والبيهقي في السنن الكبرى، 2: 497، الرقم: 4401، وأيضًا في شعب الإيمان، 3: 177، الرقم: 3271، والفريابي في كتاب الصيام، 1: 133، الرقم: 181، وابن عبد البر في التمهيد، 17: 405، والسيوطي في تنوير الحوالك شرح موطأ مالك، 1: 105، والزرقاني في شرحه على الموطأ، 1: 342، وولي الله الدهلوي في المسوى من أحاديث الموطأ، 1: 175.
داود بن حُصَین نے اَعرْج کو فرماتے ہوئے سنا کہ (نمازِ تراویح میں) قاری سورۃ البقرۃ کو 8 رکعتوں میں ختم کرتا تھا، اگر امام اسے (سورۃ البقرۃ کو) 12 رکعات میں مکمل کرتا تو لوگ یہ خیال کرتے کہ اُس نے تخفیف کی ہے (یعنی اُنہیں طویل قیام سے بچایا ہے)۔
اِسے امام مالک، بیہقی اور فریابی نے روایت کیا ہے اور امام فریابی فرماتے ہیں: اس کی سند قوی ہے۔
قَالَ الإِمَامُ مَالِكٌ: بَعَثَ إِلَيَّ الْأَمِيْرُ وَأَرَادَ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ قِيَامِ رَمَضَانَ الَّذِي يَقُوْمُهُ النَّاسُ بِالْمَدِيْنَةِ. قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ: وَهِيَ تِسْعٌ وَثَلَاثُوْنَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ، سِتٌّ وَثَلَاثُوْنَ رَكْعَةً وَالْوِتْرُ ثَلَاثٌ. قَالَ مَالِكٌ: فَنَهَيْتُهُ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ ذَلِكَ شَيْأً، قُلْتُ لَهُ: هَذَا مَا أَدْرَكْتُ النَّاسَ عَلَيْهِ وَهُوَ الْأَمْرُ الْقَدِيْمُ الَّذِي لَمْ يَزَلِ النَّاسُ عَلَيْهِ.
مالك في المدونة الكبرى، 1: 222.
امام مالک فرماتے ہیں: امیرِ (مدینہ) نے میری طرف پیغام بھیجا اور اس نے ارادہ کیا کہ وہ اہلِ مدینہ کے لیے قیام رمضان (تراویح) کا عدد کم کر دے۔ (اُس نے پوچھا کہ آپ کی اس پر کیا رائے ہے؟) ابنِ قاسم (اس کی وضاحت میں) کہتے ہیں: مدینہ میں تراویح کی تعداد وتر سمیت 39 رکعات ہیں یعنی 36 رکعاتِ تراویح اور 3 وتر (36 رکعات میں دراصل تراویح 20 عدد ہیں، جب کہ مزید 6 رکعات، نوافل ہیں جو اہل مدینہ ہر ترویحہ کے وقفہ میں اضافتاً پڑھتے تھے، یعنی ترویحہ میں تسبیحات کی جگہ (چار) 4 نوافل کا اضافہ کرلیتے تھے)۔ امام مالک نے فرمایا: میں نے اُسے اِس میں کمی کرنے سے منع کیا اور میں نے اسے کہا: میں نے اہلِ مدینہ کو ہمیشہ اسی پر کاربند پایا ہے اور یہ قدیم معمول ہے جس پر اہل مدینہ شروع سے کاربند چلے آ رہے ہیں۔
وَقَالَ الإِمَامُ وَلِيُّ اللهِ الدِّهْلِوِيُّ: هُوَ مَذْهَبُ الشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَفِيَّةِ، وَعِشْرُوْنَ رَكْعَةً تَرَاوِيْحُ وَثَلَاثٌ وِتْرٌ عِنْدَ الْفَرِيْقَيْنِ. هَكَذَا قَالَ الْمَحَلِّيُّ عَنِ الْبَيْهَقِيِّ.
ولي الله الدهلوي في المسوّى من أحاديث الموطأ، 1: 175.
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے (اس حدیث کی شرح میں) بیان کیا ہے کہ 20 رکعت تراویح اور تین وتر شوافع اور احناف دونوں کا مذہب ہے۔ اسی طرح محلّي نے امام بیہقی سے بیان کیا ہے۔
161. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ: لَمْ أُدْرِكِ النَّاسَ إِلَّا وَهُمْ يَقُوْمُوْنَ بِتِسْعٍ وَثَلَاثِيْنَ رَكْعَةً يُوْتِرُوْنَ مِنْهُ بِثَلَاثٍ.
رَوَاهُ مَالِكٌ.
أخرجه مالك في المدونة الكبرى، 1: 222.
عبد الله بن عمر (بن حفص)، حضرت نافع سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا: میں نے اہلِ مدینہ کو ہمیشہ اسی معمول پر کاربند پایا ہے کہ وہ اُنتالیس (39) رکعات کے ساتھ قیام کرتے ہیں جن میں تین رکعات وتر پڑھتے ہیں۔
162. عَنِ الزَّعْفَرَانِيِّ عَنِ الشَّافِعِيِّ قَالَ: رَأَيْتُ النَّاسَ يَقُوْمُوْنَ بِالْمَدِيْنَةِ بِتِسْعٍ وَثَلَاثِيْنَ وَبِمَكَّةَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِيْنَ.
ذَكَرَهُ الْعَسْقَلَانِيُّ وَالشَّوْكَانِيُّ عَنْ مَالِكٍ.
العسقلاني في فتح الباري، 4: 253، والشوكاني في نيل الأوطار، 3: 64.
حضرت زعفرانی، امام شافعی رضی الله عنه سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا: میں نے خود لوگوں کو مدینہ منورہ میں اُنتالیس (39) رکعات (بیس رکعت تراویح ، تین وتر اور سولہ رکعت نوافل) اور مکہ مکرمہ میں تئیس (23) رکعات (20 تراویح اور تین وتر) پڑھنے کے معمول پر کاربند دیکھا ہے۔
اِسے امام عسقلانی اور شوکانی نے امام مالک سے بیان کیا ہے۔
قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَأَحَبُّ إِلَيَّ إِذَا كَانُوْا جَمَاعَةً أَنْ يُصَلُّوْا عِشْرِيْنَ رَكْعَةً وَيُوْتِرُوْنَ ثَلَاثًا. قَالَ: وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَقُوْمُوْنَ بِالْمَدِيْنَةِ تِسْعًا وَثَلَاثِيْنَ رَكْعَةً، وَأَحَبُّ إِلَيَّ عِشْرُوْنَ، وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه وَكَذَلِكَ يَقُوْمُوْنَ بِمَكَّةَ. قَالَ أَحْمَدُ: وَالْأَصْلُ فِي حَدِيْثِ عُمَرَ رضی الله عنه فِي صَلَاةِ التَّرَاوِيْحِ.
ذكره البيهقى في معرفة السنن والآثار، 2: 303، الرقم: 1363.
امام شافعی رضی الله عنه فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک پسندیدہ عمل یہ ہے کہ اگر وہ جماعت کے ساتھ ہوں تو بیس رکعاتِ (تراویح) اور تین وتر پڑھیں۔ اور فرماتے ہیں: میں نے مدینہ میں لوگوں کو 39 رکعات ادا کرتے دیکھا ہے، جیسا کہ مجھے 20 رکعات (یعنی 6 رکعت اضافی نوافل کے بغیر، صرف 20 رکعات اصل نمازِ تراویح) پسند ہیں۔ اور ایسا ہی (عمل) حضرت عمر رضی الله عنه سے مروی ہے اور مکہ مکرمہ میں قیام (رمضان) کی اتنی ہی (رکعات) ہیں۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: حضرت عمر رضی الله عنه کی تراویح سے متعلق حدیث اس عمل کی اصل ہے۔
وَقَالَ ابْنُ رُشْدٍ القُرْطُبِيُّ: واخْتَلَفُوا فِي الْمُخْتَارِ مِنْ عَدَدِ الرَّكَعَاتِ الَّتِي يَقُوْمُ بِهَا النَّاسُ فِي رَمَضَانَ، فَاخْتَارَ مَالِكٌ فِي أَحَدِ قَوْلَيْهِ وَأَبُوحَنِيْفَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَدَاودُ الْقِيَامَ بِعِشْرِيْنَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ، وَذَكَرَ ابْنُ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ كَانَ يَسْتَحْسِنُ سِتًّا وَثَلَاثِيْنَ رَكْعَةً وَالْوِتْرُ ثَلَاثٌ.
امام ابنِ رشد القرطبی فرماتے ہیں: ائمہ کرام نے رمضان المبارک میں نمازِ تراویح کے عدد پر باہم اختلاف کیا ہے۔ پس امام مالک نے اپنے دو اقوال میں سے ایک میں اور امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد اور امام داؤد ظاہری رضوان الله علیهم اجمعین نے بیس رکعات تراویح کا قیام پسند کیا ہے، جب کہ تین وتر اس کے علاوہ ہیں۔ ابن القاسم نے امام مالک کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ وہ چھتیس (36) رکعات تراویح اور تین وتروں کو اچھا سمجھتے تھے۔
وَسَبَبُ اخْتِلَافِهِمْ اخْتِلَافُ النَّقْلِ فِي ذَلِكَ، وَذَلِكَ أَنَّ مَالِكًا رَوَى عَنْ يَزِيْدَ بْنِ رُوْمَانَ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُوْمُوْنَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه بِثَلَاثٍ وَعِشْرِيْنَ رَكْعَةً.
ائمہ کرام کے درمیان (رکعاتِ تراویح کا انتالیس (39) یا تئیس (23) ہونے میں) اختلاف کا سبب اس باب میں اختلافِ روایات ہے۔ امام مالک نے یزید بن رومان سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنه کے زمانہ میں لوگ تئیس (23) رکعات (تراویح بشمول تین وتر) کے ساتھ قیام کیا کرتے تھے۔
وَخَرَّجَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ عَنْ دَاودَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: أَدْرَكْتُ النَّاسَ بِالْمَدِيْنَةِ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيْزِ رضی الله عنه وَأَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ يُصَلُّوْنَ سِتًّا وَثَلَاثِيْنَ رَكْعَةً وَيُوْتِرُوْنَ بِثَلَاثٍ. وَذَكَرَ ابْنُ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ الْأَمْرُ الْقَدِيْمُ يَعْنِي الْقِيَامَ بِسِتٍّ وَثَلَاثِيْنَ رَكْعَةً.
أخرجه ابن رشد في بداية المجتهد، 1: 152.
امام ابنِ ابی شیبہ نے داؤد بن قیس کے طریق سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں نے مدینہ طیبہ میں عمر بن عبد العزیز رضی الله عنه اور اَبان بن عثمان کے زمانے میں لوگوں کو چھتیس (36) رکعات اور پھر تین رکعات وتر پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابنِ قاسم نے امام مالک کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ تراویح کی چھتیس رکعات کے ساتھ قیام کرنا (اہل مدینہ کا) قدیم معمول ہے۔
وَقَالَ ابْنُ تَيْمِيَّةَ فِي «الْفَتَاوَى››: ثَبَتَ أَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ رضی الله عنه كَانَ يَقُوْمُ بِالنَّاسِ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً فِي رَمَضَانَ وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ، فَرَآىَ كَثِيْرًا مِنَ الْعُلَمَاءِ أَنَّ ذَلِكَ هُوَ السُّنَّةُ ِلأَنَّهُ قَامَ بَيْنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ وَلَمْ يُنْكِرْهُ مُنْكِرٌ.
ابن تيمية في كتب ورسائل وفتاوى ابن تيمية في الفقه، 23: 112، وإسماعيل بن محمد الأنصاري في تصحيح حديث صلاة التراويح عشرين ركعة، 1: 35.
علامہ ابنِ تیمیہ نے اپنے فتاویٰ میں کہا ہے کہ ثابت شدہ بات یہ ہے کہ حضرت اُبی بن کعب رضی الله عنه رمضان المبارک میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔ چنانچہ اکثر اہلِ علم نے اسے سنت مانا ہے، کیونکہ وہ مہاجرین اور انصار (تمام) صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین کی موجودگی میں (20 رکعات پڑھاتے) اور کسی نے اُنہیں قطعاًکبھی نہ روکا تھا۔
وَفِي مَجْمُوْعَةِ الْفَتَاوَى النَّجْدِيَّةِ: أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْوَهَّابِ ذَكَرَ فِي جَوَابِهِ عَنْ عَدَدِ التَّرَاوِيْحِ أَنَّ عُمَرَ رضی الله عنه لَمَّا جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رضی الله عنه ، كَانَتْ صَلَاتُهُمْ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً.
إسماعيل بن محمد الأنصاري في تصحيح حديث صلاة التراويح عشرين ركعة، 1: 35.
مجموعہ الفتاوی النجدیہ میں ہے کہ عبد الله بن محمد بن عبد الوہاب نے تعدادِ رکعات تراویح سے متعلق سوال کے جواب میں بیان کیا ہے کہ جب حضرت عمر رضی الله عنه نے لوگوں کو حضرت اُبی بن کعب رضی الله عنه کی اقتداء میں نماز تراویح کے لیے جمع کیا تو ان کی نمازِ (تراویح) 20 رکعت ہوتی تھی۔
قَالَ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ: وَكَانَ قَتَادَةُ يَخْتِمُ فِي كُلِّ سَبْعٍ دَائِمًا، وَفِي رَمَضَانَ فِي كُلِّ ثَلَاثٍ، وَفِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ كُلِّ لَيْلَةٍ.
علامہ ابن رجب الحنبلی نے کہا ہے: حضرت قتادہ رضی الله عنه ہمیشہ سات راتوں میں قرآن پاک ختم کیا کرتے تھے لیکن رمضان میں ان کا معمول تین راتوں میں ختم کرنے کا تھا، جب کہ آخری عشرے کی راتوں میں ہر رات ایک قرآن پاک مکمل کر لیا کرتے تھے۔
وَكَانَ لِلشَّافِعِيِّ فِي رَمَضَانَ سِتُّوْنَ خَتْمَةً يَقْرَؤُهَا فِي غَيْرِ الصَّلَاةِ وَعَنْ أَبِي حَنِيْفَةَ نَحْوَهُ.
وَكَانَ قَتَادَةُ يَدْرُسُ الْقُرْآنَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ.
امام شافعی رضی الله عنه رمضان المبارک میں نماز کے علاوہ 60 قرآن پاک ختم کیا کرتے تھے اور امام ابوحنیفہ رضی الله عنه سے بھی یہی معمول منقول ہے۔
حضرت قتادہ رضی الله عنه رمضان المبارک میں قرآن پاک کا دورہ فرمایا کرتے تھے۔
وَكَانَ الزُّهْرِيُّ إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ، قَالَ: فَإِنَّمَا هُوَ تِلَاوَةُ الْقُرْآنِ وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ.
ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف، ص: 318.
امام زہری رمضان المبارک کی آمد پر فرماتے کہ سوائے تلاوتِ قرآن اور کھانا کھلانے کے کوئی اور کام نہیں ہوگا۔
عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: تَسْبِيْحَةٌ فِي رَمَضَانَ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ تَسْبِيْحَةٍ فِي غَيْرِهِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
أخرجه الترمذي في السنن، كتاب الدعوات، باب 62، 5: 514، الرقم: 3472، وابن أبي شيبة في المصنف، 6: 106، الرقم: 29840.
امام زہری فرماتے ہیں کہ رمضان میں ایک مرتبہ تسبیح غیرِ رمضان میں ہزار بار تسبیح سے افضل ہے۔
اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
قَالَ مَكْحُوْلٌ: يَرُوْحُ أَهْلُ الْجَنَّةِ بِرَائِحَةٍ، فَيَقُوْلُوْنَ: رَبَّنَا، مَا وَجَدْنَا رِيْحًا مُنْذُ دَخَلْنَا الْجَنَّةَ أَطْيَبَ مِنْ هَذِهِ الرِّيْحِ. فَيُقَالُ: هَذِهِ رَائِحَةُ أَفْوَاهِ الصُّوَّامِ.
ذَكَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.
ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف، ص: 161.
امام مکحول نے فرمایا ہے: اہلِ جنت ایک خوشبو محسوس کرنے پر کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم جب سے جنت میں داخل ہوئے ہیں اس جیسی خوشبو دار ہوا نہیں سونگھی۔ کہا جائے گا: یہ روزے داروں کے مونہوں کی خوشبو ہے۔
اسے علامہ ابن رجب الحنبلی نے بیان کیا ہے۔
قَالَ مُعَلَّى بْنُ الْفَضْلِ: كَانُوْا يَدْعُوْنَ اللهَ تَعَالَى سِتَّةَ أَشْهُرٍ أَنْ يُبَلِّغَهُمْ رَمَضَانَ، ثُمَّ يَدْعُوْنَهُ سِتَّةَ أَشْهُرٍ أَنْ يَتَقَبَّلَ مِنْهُمْ. وَقَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيْرٍ: كَانَ مِنْ دُعَائِهِمْ: اَللَّهُمَّ، سَلِّمْنِي إِلَى رَمَضَانَ، وَسَلِّمْ لِي رَمَضَانَ، وَتَسَلَّمْهُ مِنِّي مُتَقَبَّلًا.
ذَكَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.
ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف، ص: 148.
حضرت معلیٰ بن فضل فرماتے ہیں کہ اسلاف اللہ تبارک وتعالیٰ سے چھ مہینے یہ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! ہمیں رمضان کا مہینہ عطا کرنا۔ پھر چھ مہینے یہ دعا کرتے تھے کہ اسے ہماری طرف سے قبول فرما۔ حضرت یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ ان کی دعا یوں ہوتی تھی: ’اے اللہ! مجھے رمضان تک سلامت رکھنا اور مجھے رمضان عطا فرمانا، اور پھر اس رمضان کو میری طرف سے قبول فرما لینا‘۔
اسے علامہ ابن رجب الحنبلی نے بیان کیا ہے۔
وَعَنْ بَعْضِ السَّلَفِ، قَالَ: بَلَغَنَا أَنَّهُ يُوْضَعُ لِلصُّوَّامِ مَائِدَةٌ يَأْكُلُوْنَ عَلَيْهَا وَالنَّاسُ فِي الْحِسَابِ، فَيَقُوْلُوْنَ: يَا رَبِّ، نَحْنُ نُحَاسَبُ وَهُمْ يَأْكُلُوْنَ؟ فَيُقَالُ: إِنَّهُمْ طَالَمَا صَامُوْا وَأَفْطَرْتُمْ، وَقَامُوْا وَنِمْتُمْ.
ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف، ص: 158.
اَسلاف میں سے ایک بزرگ فرماتے ہیں: ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ روزے داروں کے لیے ایک دستر خوان بچھایا جائے گا جس سے وہ کھائیں گے، جب کہ دیگر لوگ ابھی حساب وکتاب میں مصروف ہوں گے۔ لوگ کہیں گے: اے پروردگار! ہم تو حساب دے رہے ہیں اور وہ (مزے مزے کی چیزیں) کھا رہے ہیں؟ کہا جائے گا: انہوں نے دنیا میں بہت وقت روزے کی حالت میں گزارا اور تم روزے نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے طویل قیام کیے جب کہ تم محوِ خواب ہوتے تھے۔
قَالَ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ: مَنْ تَرَكَ ِﷲِ فِي الدُّنْيَا طَعَامًا وَشَرَابًا وَشَهْوَةً مُدَّةً يَسِيْرَةً عَوَّضَهُ اللهُ عِنْدَهُ طَعَامًا وَشَرَابًا لَا يَنْفَدُ وَأَزْوَاجًا لَا يَمُتْنَ أَبَدًا.
ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف، ص: 159.
علامہ ابن رجب الحنبلی نے کہا ہے: جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے دنیا میں کھانے پینے اور دیگر خواہشاتِ نفس کو تھوڑی مدت کے لیے چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنے پاس ایسا کھانا پینا دے گا جو کبھی ختم نہ ہو گا اور ایسی ازواج دے گا جن پر کبھی موت نہیں آئے گی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved