جشنِ میلادالنبی ﷺ کی شرعی حیثیت اور اُس کے فضائل و ثمرات کے بیان کے بعد اب ہم زیر نظر موضوع کی مناسبت سے تصورِ بدعت کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں گے۔ بہ طورِ خاص اس بے بنیاد تصور کا اِزالہ کریں گے کہ ہر وہ کام جو عہدِ رسالت مآب ﷺ میں نہیں تھا اور نہ خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے زمانے میں اس کا ثبوت ملتا ہے، اسے اگر بعد میں کیا جائے تو قطعِ نظر اچھائی یا برائی کے۔ وہ بدعت (یعنی نیا کام) ہونے کی بناء پر کلیتاً ناجائز اور حرام تصور ہوگا۔ ذیل میں اِس خود ساختہ تصور کو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔ نیز یہ حقیقت سمجھنے کی کوشش کی جائے گی کہ جشنِ میلاد ایک مشروع، مباح اور جائز عمل ہے۔
’’بدعت‘‘ کا لفظ بَدَعَ سے مشتق ہے۔ اس کا لغوی معنی ہے :
’’کسی سابقہ مثال کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا اور بنانا۔‘‘
1۔ ابن منظور افریقی (630۔ 711ھ) لفظِ بدعت کے تحت لکھتے ہیں :
أبدعت الشيء : اخترعته لا علي مثال.
’’میں نے فلاں شے کو پیدا کیا یعنی اُسے بغیر کسی مثال کے ایجاد کیا۔‘‘
ابن منظور، لسان العرب، 8 : 6
2۔ حافظ ابن حجرعسقلانی (773۔ 852ھ) بدعت کا لُغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق.
’’اَصلِ بدعت یہ ہے کہ اُسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔‘‘
1. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 253
2. شوکاني، نيل الأوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63
قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر لفظِ بدعت کے مشتقات بیان ہوئے ہیں جن سے مذکورہ معنی کی توثیق ہوتی ہے۔ صرف دو مقامات درج ذیل ہیں :
1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان بغیر کسی مثالِ سابق کے پیدا فرمائے، اس لیے خود کو بدیع کہا۔ فرمایا :
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُO
’’وہی آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے، اور جب وہ کسی چیز (کے ایجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے : تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہےo‘‘
البقره، 2 : 117
2۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا :
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.
’’وہی آسمانوں اور زمین کا مُوجد ہے۔‘‘
الأنعام، 6 : 101
درج بالا آیات سے ثابت ہوا کہ کائناتِ اَرضی و سماوی کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ بدعت ہے اور اِسے عدم سے وجود میں لانے والی ذاتِ باری تعالیٰ ’’بدیع‘‘ ہے۔
اہلِ علم کے نزدیک بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل ہے :
1۔ اِمام نووی (631۔ 677ھ) بدعت کی تعریف اِن الفاظ میں کرتے ہیں :
البدعة هي إحداث مالم يکن في عهد رسول الله ﷺ .
’’بدعت سے مراد ایسے نئے کام کی ایجاد ہے جو عہد رسالت مآب ﷺ میں نہ ہو۔‘‘
نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22
2۔ شیخ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ (736۔ 795ھ) بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں :
المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه، وأما ما کان له أصل من الشّرع يدل عليه فليس ببدعة شرعاً، وإن کان بدعة لغة.
’’بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے، لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہوگا۔‘‘
1. ابن رجب، جامع العلوم والحکم في شرح خمسين حديثاً من جوامع
الکلم : 252
2. عظيم آبادي، عون المعبود شرح سنن أبي داود، 12 : 235
3. مبارک پوري، تحفة الأخوذي شرح جامع الترمذي، 7 : 366
حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن في الشّرع فهي حسنة، وإن کانت مما تندرج تحت مستقبح في الشّرع فهي مستقبحة.
’’تحقیق یہ ہے کہ اگر بدعت کوئی ایسا کام ہو جو شریعت میں مستحسن اُمور میں شمار ہو تو وہ حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت میں ناپسندیدہ اُمور میں شمار ہو تو وہ قبیحہ ہوگی۔‘‘
1. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 253
2. شوکاني، نيل الأوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63
اِن تعریفات سے واضح ہوتا ہے کہ ہر نئے کام یعنی بدعت کو محض نیا کام ہونے کی وجہ سے مطلقاً حرام یا ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اُس کے جواز یا عدمِ جواز کو پرکھنے کا پیمانہ یہ ہے کہ اگر وہ نیا کام شریعت میں مستحسن و مباح ہے تو اُسے بدعتِ حسنہ کہیں گے اور اگر وہ نیا کام شریعت میں غیر مقبول و ناپسندیدہ ہو تو اُسے بدعتِ سیئہ یا بدعتِ قبیحہ کہیں گے۔
اِس اُصولی بحث کے بعد یہ اَمر واضح ہو گیا کہ جشنِ میلادالنبی ﷺ اگرچہ قرونِ اُولیٰ میں اِس شکل میں موجود نہیں تھا جس ہیئت میں آج موجود ہے، لیکن چوں کہ قرآن حکیم کی تلاوت، ذِکرِ اِلٰہی، تذکارِ رسالت، ثنا خوانیء مصطفیٰ ﷺ ، صدقہ و خیرات کرنا، فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا جیسے اَعمال اِس جشن کے مشتملات ہیں، اور اِن میں سے کوئی اَمر بھی شریعت میں ممنوع نہیں، لہٰذا یہ ایک جائز، مشروع اور مستحسن عمل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ اَدوار کے لوگ اپنے رسوم و رواج اور ثقافت کے مطابق نعمتِ عظمیٰ ﷺ ملنے کے دن شکرِ اِلٰہی بجا لاتے تھے، جب کہ موجودہ دور میں جس طرح زندگی کے ہر گوشہ میں تبدیلی رُونما ہوئی ہے اُسی طرح جشن میلادالنبی ﷺ منانے کے اَطوار بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ ذیل میں ہم اِس اَمر کی وضاحت کرتے ہیں :
ہم اپنی روز مرّہ زندگی میں جوکچھ کرتے ہیں اُسے قرآن و سنت کی روشنی میں شرعاً ثابت کرنے پر زور دینا ہمارا مزاج بن چکا ہے۔ ہم ہر چیز کو بدعت اور ناجائز کہہ دیتے ہیں۔ اس میں میلادالنبی ﷺ کے جلوس اور بہت سے مستحسن اُمور جو ہمارے ہاں رواج پا چکے ہیں ان کو معترضین بدعت سے تعبیر کرتے نہیں تھکتے۔ کچھ چیزیں اصلاً دینی ہوتی ہیں ان کی اصل توضیح اور استدلال کو کتاب وسنت میں تلاش کرنا چاہیے کہ وہ احکامِ دین کا حصہ ہوتی ہیں۔ اس کے ثبوت یا عدمِ ثبوت پر تو حکم شرعی ہونا چاہیے کہ ثابت ہے تو حکم ہے اور اگر غیر ثابت ہے تو حکم نہیں اور باقی چیزوں کی تقسیم کر سکتے ہیں :
اَوّلاً : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں علاقائی اور سماجی رواج شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک اہم اور نئی جہت ہے کہ علاقائی رواج دینی اُمور نہیں بن جاتے اور وہ چیزیں کلچر یعنی تہذیب و ثقافت کا رُخ اختیار کرلیتی ہیں۔
ثانیاً : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو وقتی مصالح، بدلتے ہوئے حالات، لوگوں کے رُجحانات اور اجتماعی میلانات کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔
ثالثاً : بعض علاقائی، سماجی اور کلچرل ضرورتیں اور تقاضے بعض چیزوں کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا دور ثقافتی اِعتبارسے سادہ تھا۔ اس دور کا ثقافتی اور تاریخی نقطہ نظر سے جائزہ لیں تو اس دور میں مسجدیں سادگی سے بنائی جاتی تھیں، گھر بھی بالعموم سادہ اور کچے بنائے جاتے تھے، کھجور کے پتوں اور شاخوں کو استعمال میں لایا جاتا، جب کہ خانہ کعبہ پتھروں سے بنا ہوا موجود تھا۔ وہ چاہتے تو مسجد نبوی ﷺ بھی پختہ بنا سکتے تھے مگر اس دور کے معاشرے کی ثقافت اور رسم رواج سادہ اور فطرت سے انتہائی قریب تھے۔ ابتدائی تہذیب کا زمانہ تھا۔ کپڑے بھی ایسے ہی تھے جیسے انہیں میسر تھے۔ کھانا پینا بھی ایسا ہی تھا۔ یعنی ہر ایک عمل سادگی کا انداز لیے ہوئے تھا۔ ان کے کھانے پینے، چلنے پھرنے، رہن سہن الغرض ہر چیز میں سادگی نمایاں طور پر جھلکتی نظر آتی تھی۔ تو جب ہر چیز میں یہ انداز واضح طور پر جھلکتا تھا تو حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی منانے میں بھی اُن کا اپنا انداز اس دور کے کلچر کی انفرادیت کا آئینہ دار تھا۔
ہم یومِ پاکستان اور یومِ قائدِ اعظم مناتے ہیں، اس موقع پر جلوس نکالتے ہیں۔ یہ ہمارے علاقائی رسم و رواج کا حصہ ہے، اسے شرعی نہیں بلکہ ثقافتی نقطۂ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد شریف پر خوشی منانا قرآن و سنت سے ثابت ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ مومن کا دل خوشی و انبساط سے لبریز ہوجائے، البتہ اس کے اظہار کے مختلف ثقافتی طریقے ہیں جن کا وقت کے ساتھ ساتھ بدلنا ناگزیر ہوتا ہے۔
اگر یومِ پاکستان منانا ثقافتی نقطۂ نظر سے درست ہے تو حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد کا دن جو انسانی تاریخ کا اہم ترین دن ہے کیوں نہ منایا جائے؟ اگر یومِ آزادی پر توپوں کی سلامی دی جاتی ہے تو میلاد کے دن کیوں نہ دی جائے؟ اس طرح اور موقعوں پر چراغاں ہوتا ہے تو یومِ میلاد پر چراغاں کیوں نہ کیا جائے؟ اگر قومی تہوار پر قوم اپنی عزت و افتخار کو نمایاں کرتی ہے تو حضور رحمتِ عالم ﷺ کی ولادت کے دن وہ بہ طور اُمت اپنا جذبہ افتخار کیوں نمایاں نہ کرے؟ جس طرح ان ثقافتی مظاہر پر کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں اُسی طرح میلادالنبی ﷺ کے جلوس کے جواز پر بھی کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں۔ خوشی اور احتجاج دونوں موقعوں پر جلوس نکالنا بھی ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد پر اگر ہم جلسہ و جلوس اور صلوٰۃ و سلام کا اہتمام کرتے ہیں تو اس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
یہ پوچھا جاتا ہے کہ عرب کیوں جلوس نہیں نکالتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عرب کے کلچر میں جلوس نہیں، جب کہ عجم کے کلچر میں ایسا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور مصر وغیرہ میں لوگ میلاد مناتے ہیں لیکن جلوس نکالنا ان کے کلچر میں بھی نہیں، جب کہ ہمارے ہاں تو ہاکی کے میچ میں کامیابی پر بھی جلوس نکالنا خوشی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ جیتنے والی ٹیموں اور الیکشن جیتنے والے امیدواران کا استقبال جلوس کی شکل میں کیا جاتا ہے۔
لہٰذا جو عمل شریعت میں منع نہیں بلکہ مباح ہے اور ثقافتی ضرورت بن گیا ہے اور اس کا اصل مقصد حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کی خوشی منانا ہے تو اس پر اعتراض کرنے کی کیا گنجائش اور ضرورت ہے؟
برصغیر پاک و ہند میں لوگ محافل کے دوران میں کھڑے ہو کر صلوۃ و سلام پڑھتے ہیں جب کہ اہلِ عرب کے ہاں اکثر بیٹھ کر صلوۃ و سلام پڑھا جاتا ہے، لیکن مکہ مکرمہ میں اکثر لوگ قیام بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا اِس پر بلا جواز اعتراض کرنا اور اسے باعثِ نزاع بنانا کوئی مستحسن اقدام نہیں۔ بحالتِ قیام صلوۃ و سلام کا اگرچہ شرعی جواز موجود ہے مگر اس کا دوسرا پہلو علاقائی اور ثقافتی ہے۔ یہ اپنے اپنے ذوق کی بات ہے، کوئی کھڑے ہو کر سلام پڑھتا ہے، کوئی بیٹھ کر سلام پڑھتا ہے۔ (محافل میلاد میں قیام کے موضوع پر مفصل گفتگو ہم باب نمبر 8 جشنِ میلادالنبی ﷺ کے اَجزائے تشکیلی میں کر چکے ہیں۔)
قرونِ اُولیٰ میں لوگوں کی طبیعت کے اندر نیکی اور خیر کے پہلو اتنے غالب ہوتے تھے کہ انہیں کسی اِہتمام کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ حکم ہی کافی تھا۔ لیکن آج صورت حال بدل چکی ہے۔ حکم کے وہ اَثرات نہیں رہے اس لیے جامد طبیعتوں کو نیکی کی طرف راغب کرنے کے لیے مسجدیں خوبصورت بنانے کا رُحجان زور پکڑ گیاہے، جب کہ مساجد کی زیب و زینت کا قرآن و حدیث میں کہیں حکم نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے ہے کہ ظاہری اَسباب رغبت کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لیے فرمایا :
يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ.
’’اے اَولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو۔‘‘
الأعراف، 7 : 31
اس پہلو کا تعلق اَحکامِ شریعت سے نہیں ثقافت سے ہے۔ داڑھی کے بال سنوارنا، سرمہ ڈالنا، سر میں تیل لگانا، اچھے کپڑے زیب تن کرنا اَعمالِ سنت ہیں، اور ظاہری رغبت دلانے والی چیزیں ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اِن اَفعال کی ترغیب دلائی ہے۔ اِسی لیے فرمایا :
من أکل من هذه البقلة فلا يقربن مساجدنا، حتي يذهب ريحها يعني الثوم.
’’جو شخص اِس ترکاری (یعنی لہسن، پیاز) کو کھائے وہ ہماری مساجد میں نہ آئے یہاں تک کہ اِس کی بو (اُس کے منہ سے) ختم ہو جائے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نهي من أکل
ثوماً أو بصلاً أو کراثاً أو نحوهما، 1 : 394، رقم : 561
2. أبو داود، السنن، کتاب الأطعمة، باب في أکل الثوم، 3 : 160، 161، رقم : 3824، 3825
کیا لہسن، پیاز کھانے والا کسی قبیح جرم کا مرتکب ہوگیا ہے کہ اسے مسجد میں آنے سے روکا گیا ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے ظاہری اَسباب کی بناء پر ہی فرمایا کہ اگر کوئی لہسن، پیاز کھا کر مسجد میں آئے گا تو مسجد میں بیٹھے لوگوں کی طبیعت میں اِنقباض پیدا ہوگا۔ جسمانی آرائش و زینت سے متعلقہ یہ اور اِس موضوع کی حامل دیگر احادیث ثابت کرتی ہیں کہ اسلام میں ظاہری اَسباب پیدا کیے جانے کو قرینِ حکمت اور قرینِ مصلحت سمجھا جاتا ہے۔
بدعت کی مبادیات اور جشنِ میلاد کے ثقافتی پہلؤوں کے بیان کے بعد اب ہم بدعت کا حقیقی تصور بیان کرتے ہیں :
ذیل میں اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بدعت کا حقیقی مفہوم بیان کیا جا رہا ہے جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ ’’مضمونِ بدعت کی احادیث‘‘ کا حقیقی اِطلاق کن کن بدعات پر ہوتا ہے :
1۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ.
’’جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اِس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب نقض الأحکام الباطلة، 3
: 1343، رقم : 1718
2. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب تعظيم حديث رسول الله ﷺ ، 1 : 7، رقم : 14
3. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 270، رقم : 26372
2۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو ردّ.
’’جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اِس میں اَصلًا نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علي صلح جور،
2 : 959، رقم : 2550
2. ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4606
3۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو ردٌّ.
’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی اَمر موجود نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضيه، باب نقض الأحکام الباطلة، 3
: 1343، رقم : 1718
2. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 180، 256، رقم : 25511، 26234
3. دارقطني، السنن، 4 : 227، رقم : 81
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں اَحْدَثَ، مَا لَيْسَ مِنْہُ اور مَا لَيْسَ فِيْہِ کے الفاظ قابلِ غور ہیں۔ عرف عام میں اَحْدَثَ کا معنی ’’دین میں کوئی چیز ایجاد کرنا‘‘ ہے، اور مَا لَيْسَ مِنْہُ کے الفاظ اَحْدَث کا مفہوم واضح کر رہے ہیں کہ اس سے مراد وہ چیز ایجاد کرنا ہے جو دین میں نہ ہو۔ حدیث کے اس مفہوم سے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر اَحْدَث سے مراد ’’دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا‘‘ ہے تو پھر مَا لَيْسَ مِنْہُ (جو اس میں سے نہ ہو) یا مَا لَيْسَ فِيْہِ (جو اس میں اَصلًا نہ ہو) کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیوں کہ اگر وہ چیز دین میں سے تھی یعنی اس دین کا حصہ تھی تو اسے نئی نہیں کہا جاسکتا کہ محدثۃ (نئی چیز) تو کہتے ہی اسے ہیں جو پہلے دین میں موجود نہ ہو۔
اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ حدیث مذکورہ پر غور کرنے سے یہ معنی معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیا کام مردود نہیں بلکہ صرف وہ نیا کام مردود ہوگا جو دین کا حصہ نہ ہو، جو نیا کام دین کے دائرے میں داخل ہو وہ مردود نہیں مقبول ہے۔ اس کی مزید وضاحت یوں ہوگی کہ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ! فیہ فھو ردّ میں فھو ردّ کا اطلاق نہ صرف مَا لَيْسَ مِنْہُ پر ہوتا ہے اور نہ ہی فقط اَحْدَثَ پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت پر ہوگا جہاں دونوں چیزیں (اَحْدَثَ اور مَا لَيْسَ مِنْہُ! فِیہِ) جمع ہو جائیں یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور نہ دین کی کسی جہت کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق ہو۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی محدثۃ کے بدعت و ضلالت قرار پانے کے لیے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے :
1۔ دین میں اس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو۔
2۔ یہ محدثۃ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور اَحکامِ سنت کو توڑے۔
مذکورہ بالا تیسری حدیث شریف میں لَيْسَ عَلَيْہِ اَمْرُنَا سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام خواہ وہ نیک اور اَحسن ہی کیوں نہ ہو (مثلاً ایصالِ ثواب، میلاد اور دیگر سماجی، روحانی اور اَخلاقی اُمور) اگر اس پر قرآن و سنت کی کوئی دلیل موجود نہ ہو تو یہ بدعت اور مردود ہے۔ یہ مفہوم غلط اور مبنی بر جہالت ہے کیوں کہ اگر یہ معنی مراد لے لیا جائے کہ جس کام کے کرنے پر اَمرِ قرآن و سنت نہ ہو وہ مردود اور حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ مباحات بھی قابلِ ردّ ہوجائیں گے۔
مذکورہ بالا اَحادیث پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہر نیا کام مردود کے زمرہ نہیں آتا بلکہ صرف وہ نیا کام مردود ہوگا جس کی کوئی اَصل، مثال، ذکر، معرفت یا حوالہ. بالواسطہ یا بلا واسطہ. قرآن و سنت میں موجود نہ ہو اور اسے ضروریاتِ دین، (1) واجباتِ اسلام اور اَساسی عقائدِ شریعت میں اِس طرح شمار کر لیا جائے کہ اسے ’’اَساسیاتِ دین میں اِضافہ‘‘ سمجھا جانے لگے یا اُس سے دین اسلام کے بنیادی اصولوں میں اَصلًا کمی بیشی واقع ہو جائے۔ فرمانِ رسول ﷺ کُلُّ بِدْعَة ضَلَالَة سے بھی یہی بدعت مراد ہے، نہ کہ ہر نئے کام کو ’’ضلالۃ‘‘ کہا جائے گا۔ یہی اِحداث فی الدین، اسلام کی مخالفت اور دین میں فتنہ تصور ہوگا۔
(1) ضروریاتِ دین ان چیزوں کو کہتے ہیں جن میں سے کسی ایک چیز کا انکار کرنے سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے۔
مذکورہ بالا بحث واضح کرتی ہے کہ جشن میلادالنبی ﷺ ہرگز کوئی ایسا اَمر نہیں ہے جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو بلکہ یہ ایک ایسا مبنی بر خیر اور مستحسن عمل ہے جو سراسر شریعت کے منشاء و مقصود کے عین مطابق ہے۔
گزشتہ صفحات میں ’’بدعت‘‘ اور ’’اِحداث فی الدین‘‘ (دین میں نئے کاموں کے آغاز) پر علمی و قیاسی گفتگو کی گئی کہ ہر وہ نیا کام جس پر دلیل شرعی موجود ہو شرعاً بدعت نہیں اگرچہ لغوی اعتبار سے وہ بدعت ہوگا۔ اب ان کی عملی و اِطلاقی صورت بیان کی جاتی ہے کہ وہ کون سے اُمور یا معاملات ہیں جن پر بدعات و محدثات کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کے لیے ایک قاعدہ اور ضابطہ متعین ہونا چاہیے کہ قیامت تک کے لیے اِسی قاعدہ اور کلیہ کی کسوٹی پر کسی بھی معاملہ کو رکھ کر ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ بدعت ضلالہ اور اِحداث فی الدین ہے۔ ذیل میں ہم اِس حوالہ سے چند روایات نقل کریں گے :
1۔ اِحداث فی الدین یعنی کفر و اِرتداد کے فتنوں کا آغاز حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے فوری بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
أنا فرطکم علي الحوض وليرفعن رجال منکم، ثم ليختلجن دوني. فأقول : يا رب! أصحابي؟ فيقال : إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک.
’’میں حوضِ کوثر پر تمہارا پیش رَو ہوں گا اور تم میں سے کچھ آدمی مجھ پر پیش کیے جائیں گے، پھر وہ مجھ سے جدا کر دیے جائیں گے، تو میں کہوں گا : اے میرے رب! کیا یہ میرے لوگ ہیں؟ تو کہا جائے گا : کیا آپ نہیں جانتے کہ اُنہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا نئی چیزیں نکالیں (یعنی نئے فتنے بپا کیے)؟‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب في الحوض، 5 : 2404، رقم
: 6205
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا ﷺ ، 4 : 1796، رقم : 2297
3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 439، رقم : 4180
2۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
قال رسول الله ﷺ : لا ألْفَينَّ ما نوزعْتُ أحداً منکم علي الحوض. فأقول : هذا من أصحابي. فيقال : إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک. قال أبو الدرداء : يا نبي الله ! ادع الله أن لا يجعلني منهم. قال : لست منهم.
’’رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : میں تم میں سے کسی ایک کو نہ پاؤں جس کو میرے پاس حوض پر آنے سے روک دیا جائے تو میں کہوں : یہ میرے لوگوں میں سے ہیں۔ تو کہا جائے : کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا نئے فتنے پیدا کیے؟ ابو درداء رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے الله کے نبی! آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ میں ان میں سے نہ ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم ان میں سے نہیں ہو۔‘‘
1. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 125، رقم : 397
2. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 311، رقم : 1405
3. ابن أبي عاصم، السنة، 2 : 357، رقم : 767
4. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 1 : 50، رقم : 129
5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 9 : 367، 10 : 365
اِس حدیث مبارکہ میں الفاظ لست منھم (تم ان میں سے نہیں ہو) سے پتہ چلا کہ حضور نبی اکرم ﷺ فتنہ پروروں کو جانتے تھے، اِس لیے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے فرما دیا کہ وہ ان میں سے نہیں ہیں، دین میں بدعات کا آغاز کرنے والے اور لوگ ہیں۔
3۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
قال رسول الله ﷺ : إني ممسک بحجزکم هلمّ عن النار، وأنتم تهافتون فيها أو تقاحمون تقاحم الفراش في النار والجنادب يعني في النار، وأنا ممسک بحجزکم، وأنا فرط لکم علي الحوض، فتردون علي معاً وأشتاتاً، فأعرفکم بسيماکم، وأسمائکم کما يعرف الرجل الفرس. وقال غيره : کما يعرف الرجل الغريبة من الإبل في إبله. فيؤخذ بکم ذات الشمال، فأقول : إليّ يا رب! أمتي أمتي. فيقول أو يقال : يا محمد! إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک، کانوا يمشون بعدک القهقري.
’’رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک میں تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ سے روکنے والا ہوں اور تم اس میں ایک دوسرے سے بڑھ کر گرتے ہو۔ یا (فرمایا : ) تم پروانوں اور ٹڈیوں کی طرح آگ میں گرتے ہو اور میں تمہیں کمر سے پکڑنے والا ہوں اور میں حوضِ کوثر پر تمہارا پیش رَو ہوں گا، پس تم میرے پاس اکیلے اور گروہ در گروہ آؤ گے تو میں تمہاری نشانیوں اور ناموں سے تمہیں ایسے پہچانتا ہوں گا جیسے آدمی اپنے گھوڑے کو پہچانتا ہے۔ (اور اس راوی کے علاوہ نے کہا : ) جیسے ایک آدمی اجنبی اونٹ کو اپنے اونٹوں میں پہچان لیتا ہے۔ پس تمہیں بائیں طرف سے لے جایا جائے گا تو میں کہوں گا : اے میرے رب! میری امت! میری امت! تو وہ فرمائے گا یا کہا جائے گا : اے محمد! آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا نئے فتنے پیدا کیے؟ وہ آپ کے بعد الٹے پاؤں پھر گئے تھے یعنی مرتد ہوگئے تھے۔‘‘
1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 1 : 314، 315، رقم : 204
2. قضاعي، مسند الشهاب، 2 : 175، رقم : 1130
3. سدوسي، مسند عمر بن الخطاب رضي الله عنه، 1 : 84
4. منذري، الترغيب و الترهيب من الحديث الشريف، 1 : 318، رقم : 1169
5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3 : 85
اِسی مضمون کی اور بھی بہت سی اَحادیث وارد ہوئی ہیں جن میں حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد قریبی زمانہ میں ’’اِحداث‘‘ کا ذکر ہے اور اِحداث سے مراد دین میں ایسے بڑے فتنوں کا اِجراء لیا گیا ہے جو دین کو ہی بدل دیں۔ علاوہ ازیں احادیث مبارکہ سے اس امر کی نشان دہی بھی ہوتی ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں محدثات الامور اِرتداد کے فتنوں کی شکل میں ظاہر ہوئے، ان کا ارتکاب کرنے والے وہ تھے جنہوں نے حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں اِسلام قبول کر لیا اور بعد میں مرتدین، منکرینِ زکوٰۃ، جھوٹے مدعیانِ نبوت اور خوارج میں شامل ہوگئے۔ ہمارے اس مؤقف کی تائید حضور نبی اکرم ﷺ کی متعدد احادیث مبارکہ سے ہوتی ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
4۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں :
قال رسول الله ﷺ : تحشرون حفاة عراة غرلاً، ثم قرأ (كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ)(1) فأول من يُکسي إبراهيم، ثم يؤخذ برجال من أصحابي ذات اليمين وذات الشمال. فأقول : أصحابي. فيقال : إنهم لم يزالوا مرتدّين علي أعقابهم منذ فارقتهم. فأقول : کما قال العبد الصالح عيسي بن مريم : (وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌO إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.) (2)
قال محمد بن يوسف : ذُکر عن أبي عبد الله ، عن قبيصة، قال : هم المرتدون الذين ارتدّوا علي عهد أبي بکر، فقاتلهم أبوبکر رضي الله عنه. (3)
’’رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، غیر مختون حالت میں جمع کیے جاؤ گے۔ پھر آیت مبارکہ تلاوت کی : (جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا، ہم (اس کے ختم ہو جانے کے بعد) اُسی عمل تخلیق کو دہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اِعادہ) ضرور کرنے والے ہیںo) پس سب سے پہلے اِبراہیم کو (خلعت) پہنائی جائے گی، پھر میرے لوگوں کو دائیں اور بائیں سے پکڑا جائے گا تو میں کہوں گا : کیا یہ میرے لوگ ہیں؟ تو کہا جائے گا : جب سے آپ ان سے جدا ہوئے ہیں، بے شک وہ الٹے پاؤں دین سے پھر کر مرتد ہوگئے ہیں۔ تومیں کہوں گا : جیسا اللہ کے صالح بندہ عیسیٰ بن مریم نے کہا : (اور میں اُن (کے عقائد و اَعمال) پر (اُس وقت تک) خبردار رہا جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان (کے حالات) پر نگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہےo اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں، اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہےo)
’’محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ابو عبد اللہ سے ذکر کیا گیا، وہ قبیصہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا : یہ وہی مرتدین ہیں جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں دین سے پھر گئے تھے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا تھا۔‘‘
(1) الأنبياء، 21 : 104
(2) المائدة، 5 : 117، 118
(3) 1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول الله : واذکر في الکتاب مريم إذ انتبذت
من أهلها، 3 : 1271، 1272، رقم : 3263
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول الله : واتخذ الله إبراهيم خليلا، 3 : 1222،
رقم : 3171
3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب صفة القيامة، باب ما جاء في شأن الحشر، 4 : 615، رقم
: 2423
5۔ حضرت اَسماء بنت ابی بکر صدیق رضی الله عنہما روایت کرتی ہیں :
قال النّبيّ ﷺ : إني علي الحوض حتي أنظر من يرد علي منکم، وسيؤخذ ناس دوني. فأقول : يارب! مني ومن أمتي؟ فيقال : هل شعرت ما عملوا بعدک؟ و الله ! ما برحوا يرجعون علي أعقابهم.
فکان بن أبي مليکة يقول : اللّهم! إنا نعوذ بک أن نرجع علي أعقابنا أو نفتن عن ديننا.
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک میں حوض پر ہوں گا یہاں تک کہ تم میں سے اپنے پاس آنے والوں کو دیکھوں گا، اور عنقریب کچھ لوگوں کو میرے پاس آنے سے روک دیا جائے گا۔ پس میں کہوں گا : اے میرے رب! کیا یہ مجھ سے اور میری امت سے ہیں؟ تو کہا جائے گا : آپ یقیناً جانتے تو ہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا؟ اللہ کی قسم! وہ (دین سے) الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔
’’ابن ابی ملیکہ کہا کرتے تھے : اے اللہ! بے شک ہم (دین سے) الٹے پاؤں پھرنے سے تیری پناہ چاہتے ہیں یا اس سے کہ ہم اپنے دین کے بارے آزمائش میں ڈالے جائیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب في الحوض، 5 : 2409، رقم
: 6220
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا ﷺ وصفاته، 4 : 1794، رقم : 2293
6۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں :
قال رسول الله ﷺ : أنا علي الحوض أنظر من يرد علي، فيؤخذ ناس دوني. فأقول : يارب! مني ومن أمتي؟ فيقال : وما يدريک ما عملوا بعدک؟ ما برحوا بعدک يرجعون علي أعقابهم.
’’رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : میں حوضِ کوثر پر اپنے پاس آنے والوں کو دیکھوں گا، تو کچھ لوگوں کو مجھ سے دور کر دیا جائے گا۔ پس میں کہوں گا : اے میرے رب! کیا یہ مجھ سے ہیں اور میرے امتی ہیں؟ تو کہا جائے گا : کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا؟ وہ آپ کے بعد (دین سے) الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 384، رقم : 15161
2. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 10 : 364
مذکورہ بالا اَحادیث مبارکہ سے ہمارا موقف کہ محدثات الامور سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد نمودار ہونے والے فتنے ہیں جو کہ ارتداد کی شکل میں ظاہر ہوئے درج ذیل نکات سے مزید واضح ہوتا ہے :
1۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی حدیث مبارکہ کے اگلے حصہ میں ہمارے موقف پر مرفوع متصل روایت موجود ہے کہ ’’إنهم لم يزالوا مرتدين علي أعقابهم منذ فارقتهم (جونہی آپ ان سے جدا ہوئے وہ اپنی ایڑیوں کے بل دین سے پھر رہے ہیں)۔‘‘ پس اِحداث کے مرتکب لوگوں کو حدیث میں صراحتًا مرتدین کہا گیا ہے۔
2۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی حدیث کے آخر میں امام بخاری نے محدث قَبِیصہ بن عقبہ کا درج ذیل قول نقل کیا ہے جو ہمارے موقف کا مؤید ہے :
هم المرتدّون الذين ارتدّوا علي عهد أبي بکر، فقاتلهم أبوبکر رضي الله عنه.
’’(ان سے مراد) وہ مرتدین ہیں جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں دین سے پھر گئے تھے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا تھا۔‘‘
3۔ امام بخاری نے ہی حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی الله عنہما سے مروی روایت بیان کرنے کے بعد ابن ابی ملیکہ تابعی کا قول نقل کیا ہے۔ ابن ابی ملیکہ فرمایا کرتے تھے :
اللّهم! إنا نعوذ بک أن نرجع علي أعقابنا أو نفتن عن ديننا.
’’اے اللہ! بے شک ہم (دین سے) الٹے پاؤں پھرنے سے تیری پناہ چاہتے ہیں یا اس سے کہ ہم اپنے دین کے بارے آزمائش میں ڈالے جائیں۔‘‘
4۔ مذکورہ حدیث مبارکہ میں ما برحوا یرجعون علی اعقابھم (وہ (دین سے) اُلٹے پاؤں پھر گئے تھے)، یا ما برحوا بعدک یرجعون علی اعقابھم (وہ آپ کے بعد (دین سے) الٹے پاؤں پھر گئے تھے) سے بھی ہمارے بیان کردہ معنی کی تائید ہوتی ہے۔
5۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تو ابو درداء رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا نبی اللہ! آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ میں ان میں سے نہ ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم ان میں سے نہیں ہو۔‘‘
امام طبرانی اپنی کتاب ’’مسند الشامیین (2 : 311، رقم : 1405)‘‘ میں اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
فمات قبل عثمان بسنتين.
’’وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وصال سے دو سال قبل وفات پاگئے۔‘‘
اِس سے معلوم ہوا کہ اِحداث فی الدین سے مراد خلفائے راشدین کے دور میں وقوع پذیر ہونے والا فتنۂ اِرتداد تھا۔
6۔ زیرِ نظر مؤقف کی وضاحت کرنے کے لیے ایک اور روایت نہایت ہی اہم ہے جسے امام حاکم نے ’’المستدرک علی الصحيحین‘‘ میں کبیر تابعین میں سے ایک تابعی حسین بن خارجہ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے فتنہ اولی کے بعد اپنا ایک خواب بیان کیا ہے جس میں وہ حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مکالمہ ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب آپ ﷺ نے ان سے اپنی امت کے لیے دعائے مغفرت کے لیے کہا تو انہوں نے فرمایا :
إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک، أراقوا دماء هم وقتلوا إمامهم.
’’کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا محدثات (یعنی فتنے) بپا کیے؟ انہوں نے اپنوں کا خون بہایا ہے اور اپنے امام کو قتل کیا ہے۔‘‘
حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 4 : 499، رقم : 8394
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (2 : 172، رقم : 1979)‘‘ اور ابن عبد البر نے ’’التمہید لما فی الموطا من المعانی والاسانید (19 : 222)‘‘ میں اِمام حاکم کی بیان کردہ روایت میں مذکور ’’الفتنۃ الاولی‘‘ کے الفاظ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر اُمتِ مسلمہ میں پیدا ہونے والا فتنہ مراد لیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے فتنہ پرور لوگ ہی دین میں بدعت کے مرتکب ہوئے اور یہی لوگ بدعتی کہلائے۔ یہی وہ فتنہ پرور، متعصب اور انتہاء پسند لوگ تھے جو جنگِ صفین کے بعد خارجی گروہ پیدا کرنے کی بنیاد بنے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے فوراً بعد عہدِ خلفائے راشدین کے زمانہ میں جو بڑے بڑے ’’محدثات‘‘ (دین میں نئے فتنے) پیدا ہوئے۔ جن کو بدعات کہا گیا اور جن کے خلاف جہاد بالسیف کیا گیا۔ درج ذیل ہیں:
حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے فوری بعد جھوٹے مدعیان نبوت کا فتنہ ظاہر ہوا اور ان کا یہ دعویء نبوت ’’احداث فی الدین‘‘ تھا۔ اَسود بن عنزہ عنسی، طلیحہ اَسدی اور مسیلمہ کذاب جیسے جھوٹی نبوت کے دعوے داروں کے خلاف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لشکر روانہ کیے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان کے خلاف جہاد کیا۔
لشکرِ اُسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے بعد سرزمین عرب میں اِحداث کی شکل میں ایک اور فتنہ رُونما ہوا جسے فتنۂ اِرتداد کہا جاتا ہے۔ عرب کے نومسلم قبائل اسلام سے پھر گئے اور دوبارہ اپنی پرانی روش پر چل نکلے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ کا قلع قمع کیا۔
طبري، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 254
حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد عرب میں فتنہ اِرتداد پھیل جانے کے ساتھ ساتھ بعض قبائل نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جنگ کا اِرادہ کرتے ہوئے فرمایا :
و الله ! لأقاتلن من فرّق بين الصلاة والزکاة، فإن الزکاة حق المال، و الله ! لو منعوني عناقاً کانوا يؤدّونها إلي رسول الله ﷺ ، لقاتلتهم علي منعها.
’’اللہ کی قسم! میں اس کے خلاف ضرور لڑوں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کیا، کیوں کہ زکوٰۃ بیت المال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر انہوں نے مجھے ایک رسی دینے سے بھی انکار کیا جو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کو ادا کرتے تھے تو اس انکار پر بھی میں ان سے ضرور قتال کروں گا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 2 : 507،
رقم : 1335
2. بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين، باب قتل من أبي قبول الفرائض، 6، 2538، رقم
: 6526
3. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب الأمر بقتال الناس حتي يقولوا لا إله إلا الله
محمد رسول الله ، 1 : 51، رقم : 20
لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ان عرب قبائل کی طرف روانہ کیا جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔
خوارج کی اِبتداء سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی۔ جب صفین کے مقام پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں کئی روز تک لڑائی جاری رہی، جس کے نتیجے میں ہزارہا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین شہید ہوئے۔ بالآخر فیصلہ کیا گیا کہ طرفین میں سے دو معتمد اشخاص کو حَکَم بنایا جائے جو قرآن و سنت کے مطابق کوئی ایسی تدبیر نکالیں جس سے لڑائی کا خاتمہ ہو۔ چنانچہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ابو موسیٰ عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے اور عہد نامہ لکھاگیا جس کے نتیجہ میں لڑائی تھم گئی۔
پھر اَشعث بن قیس نے اس کاغذ کو لے کر ہر ہر قبیلہ کے افراد کو سنانا شروع کر دیا۔ جب وہ بنی تمیم کے لوگوں کے پاس آئے جن میں ابو بلال کا بھائی عروہ بن اَدَیہ بھی تھا اور ان کو پڑھ کر سنایا تو عروہ نے کہا :
تحکّمون في أمر الله عزوجل الرجال؟ لاحکم إلا ﷲ.
’’تم اللہ کے اَمر میں انسانوں کو حَکَم بناتے ہو؟ سوائے اللہ کے کسی کا حکم نہیں۔‘‘
1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 3 : 104
2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 3 : 196
3. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 5 : 123
اس نے یہ کہہ کر اشعث بن قیس کی سواری کے جانور کو تلوار ماری جس سے آپ رضی اللہ عنہ نیچے گر پڑے۔ اس پر آپ کے قبیلہ والے اور ان کے لوگ جمع ہوگئے اور جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جب صفین سے واپس کوفہ پہنچے تو ان کو خوارج کے اس عمل سے آگاہی حاصل ہوئی تو آپ نے فرمایا :
الله أکبر! کلمة حق يراد بها باطل، إن سکتوا عممناهم، وإن تکلموا حَجَجْناهم، وإن خرجوا علينا قاتلناهم.
’’ الله ہی بڑا ہے۔ بات تو حق ہے مگر مقصود اس سے باطل ہے۔ اگر وہ خاموش رہے تو ہم ان پر چھائے رہیں گے اور اگر انہوں نے کلام کیا تو ہم ان پر دلیل لائیں گے اور اگر وہ ہمارے خلاف نکلے تو ہم ان سے لڑیں گے۔‘‘
1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 3 : 114
2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 3 : 212، 213
خوارج نے لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف اُکسانا شروع کر دیا اور لوگوں کو پہاڑوں پر چلے جانے یا دوسرے شہروں کی طرف نکلنے کا مشورہ دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عمل کو بدعت ضلالۃ تک کہا گیا۔ آخر کار ان لوگوں نے آپس کے مشورہ سے ’’الحُکْمُ ﷲ‘‘ کے اِجراء کے لیے نہروان کا مقام چنا اور سب وہاں جمع ہوگئے۔ نہروان کے مقام پر ان خارجیوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج کے درمیان لڑائی کا آغاز اُس وقت ہوا جب اُنہوں نے صحابی حضرت عبد اللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ ان کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
دونکم القوم.
’’اس قوم کو لو (یعنی قتل کرو)۔‘‘
حضرت جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فقتلت بکفي هذه بعد ما دخلني ما کان دخلني ثمانية قبل أن أصلي الظهر، وما قتل منا عشرة ولا نجا منهم عشرة.
’’میں نے نمازِ ظہر ادا کرنے سے قبل اپنے ہاتھوں سے آٹھ خوارج کو قتل کیا اور ہم میں سے دس شہید نہ ہوئے اور ان میں سے دس زندہ نہ بچے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 227، رقم : 4051
2. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 4 : 227
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں یوں فتنہ خوارج اپنے انجام کو پہنچا۔
یہی وہ فتنے تھے جن کی طرف حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع میں اِشارہ فرمایا، جو آپ ﷺ کے وصال فرما جانے کے بعد نمودار ہوئے اور جنہیں محدثات الامور کا نام دیا گیا۔ لہٰذا صحیح روایات کے مطابق یہ چار طبقات (مدعیانِ نبوت، مرتدینِ اِسلام، منکرینِ زکوٰۃ، خوارج) محدثات کے مرتکب تھے اور احادیث نے ’’اِحداث‘‘ کے معنی کو ’’اِرتداد‘‘ کے ساتھ مختص کر دیا ہے۔ پس اِحداث کا معنی اِرتداد ہوگا اور یہی بدعتِ ضلالت و بدعتِ سیئہ اور داخلِ دوزخ شمار ہوگی۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے بدعت کو ’’محدثات الامور‘‘ سے تعبیر کیا اور اس کا معنی خود اپنے ارشاد سے متعین فرمایا۔ وہ ایسے فتنے ہیں جو دین کی بنیادی تعلیمات کو مسخ کر دیں یا ان کا انکار کر دیں اور یہ ارتداد پر مبنی ہوں۔ لہٰذا بدعاتِ ضلالۃ سے مراد چھوٹے اور ہلکی نوعیت کے اختلافات نہیں بلکہ ان سے مراد اس سطح کے فتنے ہیں کہ ان میں سے ہر فتنہ ’’خروج عن الاسلام‘‘ اور ’’اِرتداد‘‘ کا باعث بنے، آپ ﷺ کی سنت اور اَمرِ دین کو کاٹے اور ’’اِختلافِ کثیر‘‘ بن کر اُمت میں ظاہر ہو۔ مثلاً اگر کوئی شخص دین کے بنیادی عقائد (ایمان باللہ، ملائکہ، سابقہ نازل شدہ کتب، انبیاء، یوم آخرت، تقدیر اور حیات بعد اَز موت) میں سے کسی کا انکار کرے، اسلام کے اَرکانِ خمسہ (ایمان باللہ والرسول، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ) میں سے کسی کا انکار کرے، اَرکانِ اسلام میں کمی یا زیادتی، ختم نبوت کے انکار، تحریفِ قرآن (متنِ قرآن میں کمی یا زیادتی) کا مرتکب ہو، سنت کا انکار کرے، کسی خارجی فتنہ کی طرح باطل مسلک کی بنیاد رکھے، جہاد کی منسوخی، سود کا جواز وغیرہم کا عقیدہ گھڑ لے تو ان فتنوں کو قیامت تک کے لیے دین میں بدعاتِ ضلالۃ کہیں گے اور یہی ایسے فتنے ہیں جن کے ماننے والوں اور پیروکاروں کو جہنم کا ایندھن بنایا جائے گا۔ لہٰذا بدعت سے مراد فقط فتنہ اِرتداد اور اس کی مختلف شکلیں ہیں جو حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے فورًا بعد پیدا ہوئیں یا بعد کے مختلف اَدوار میں پیدا ہوں گی۔ اگر ایسی صورت نہیں ہے تو اس پر بدعتِ ضلالۃ کا اِطلاق نہیں ہوگا۔ پس آج بھی ارتداد ہی ایسا قاعدہ اور کلیہ ہے جس پر کسی بھی اَمر کو پرکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بدعتِ ضلالۃ میں شمار ہوتا ہے یا نہیں؟ لہٰذا چھوٹے چھوٹے فروعی اور نزاعی مسائل مثلا میلاد، عرس، ایصالِ ثواب وغیرہ کو بدعات و گمراہی اور ’’محدثات الامور‘‘ نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ ان سے خروج عن الاسلام لازم نہیں آتا اور نہ اِرتداد ہوتا ہے بلکہ یہ اَصلاً شریعت سے ثابت ہیں۔ جب کہ ’’محدثات الامور‘‘ ان فتنوں کو کہا گیا ہے جن کی وجہ سے اُمت میں اِختلافِ کثیر پیدا ہوا، امت آپس میں بٹ گئی حتی کہ الگ الگ لشکر بنے، جنگیں ہوئیں اور ہزاروں افراد ان فتنوں کے باعث شہید ہوئے۔
افسوس ہے ان لوگوں پر جنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد اور ایصالِ ثواب وغیرہما کو محدثات الامور اور بدعاتِ ضلالۃ قرار دیا ہے۔ ان کو دین میں بدعت قرار دینا آپ ﷺ کی بیان کردہ تعریف سے انکار، حدیث سے انکار اور جسارت علی الرسول ہے۔ لیس علیہ امرنا کا بھی یہی معنی ہے، یہ دَرحقیقت دین کے اندر مستحب اور مستحسن اُمور ہیں۔ فقہاء کے درمیان ہزاروں اختلافات ہیں، کئی مسائل میں مستحب و مکروہ حتی کہ حلت و حرمت کا بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان اُمورِ مستحبات کو بدعات کہنا، حضور نبی اکرم ﷺ کی بیان کردہ تعریف کی روشنی میں گویا ارتداد اور کفر و شرک کا فتویٰ لگانے کے مترادف ہے اور مرتدین کے خلاف قتال کرنا جہاد ہے۔ کیا جشنِ میلادالنبی ﷺ پر بدعتِ ضلالہ کا فتوی لگانے والے میلاد منانے والوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں؟
جس طرح عہدِ صحابہ میں تدوینِ قرآن، باجماعت نمازِ تراویح اور جمعہ کے دن دو اذانوں جیسے اُمور کو جاری کرنے کا مقصد اُمتِ مسلمہ کی بھلائی تھا، ایسے ہی میلادالنبی ﷺ منانا تاجدارِ کائنات حضور رحمت عالم ﷺ کے ساتھ ٹوٹے ہوئے قلبی اور حبی تعلق کو برقرار رکھنے اور دلوں میں آپ ﷺ کی اِطاعت و اِتباع کا جذبہ بیدار کرنے کا قوی اور مستحکم ذریعہ ہے۔ اور ایصالِ ثواب جیسے اُمور متوفیانِ اِسلام کی بلندیء درجات اور گناہوں کی بخشش کا سبب ہیں۔
گزشتہ بحث میں ہم نے بدعت کا لغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ لغوی اعتبار سے بدعت نئی چیز کو کہتے ہیں اور محدثات الامور و اِحداث فی الدین کا تعلق فتنہ اِرتداد یا خروج عن الاسلام کی سطح کے فتنوں کے ساتھ ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ بدعت کا تصو ر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے آثار میں بھی موجود ہے یا نہیں؟ اس کی وضاحت کے لیے ہم یہاں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عمل مختصراً بیان کریں گے، کیوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد اُمت کے لیے اِن صحابۂ کبار رضی اللہ عنھم کا عمل سب سے زیادہ معتبر ہے، اور آقا ﷺ نے فتنوں کے قلع قمع کے لیے اپنی اور اپنے بعد آنے والے خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کی پیروی کو لازمی قرار دیا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال مبارک کے بعد جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ منصبِ خلافت پر متمکن ہوئے تو اس وقت جھوٹی نبوت کے دعوے دار مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں تقریباً سات سو (700) حافظِ قرآن صحابہ رضی اللہ عنھم شہید ہوئے۔ قبل ازیں حضور ﷺ کے ظاہری زمانہ اقدس سے اب تک قرآنِ حکیم کے ایک جلد میں جمع کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہوسکا تھا بلکہ متفرق مقامات پر مختلف صورتوں میں لکھا ہوا موجود تھا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ اگر یہ سلسلہ جہاد و قتال اسی طرح جاری رہا اور وہ صحابہ رضی اللہ عنھم جن کے سینوں میں قرآن حکیم محفوظ ہے شہید ہوتے رہے تو عین ممکن ہے کہ حفاظتِ قرآن میں خاصی دشواری پیش آئے۔ اِس خدشہ کے پیش نظر اُنہوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو تجویز دی کہ قرآن حکیم ایک کتابی صورت میں جمع کر لیا جائے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
کيف أفعل شيئا ما لم يفعله رسول الله ﷺ ؟
’’میں ایسا کام کیسے کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اے امیر المومنین! درست ہے کہ یہ کام ہمارے آقا ﷺ نے اپنی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں نہیں کیا لیکن ’’ہو و الله خیر‘‘ اللہ کی قسم! بہت اچھا اور بھلائی پر مبنی ہے۔ لہٰذا ہمیں اسے ضرور کرنا چاہیے۔ اس بحث و تمحیص کے دوران سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سینہ کھل گیا اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس عظیم کام پر مامور کیے گئے۔ چنانچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کھجور کی شاخوں، سفید پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کرنا شروع کر دیا اور اس طرح تیار کیے گئے قرآن حکیم کے چند نسخے جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد ام المومنین سیدہ حفصہ رضی الله عنہا کے پاس محفوظ ہوگئے تھے بعد میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان سے منگوا کر قرآنِ حکیم کو دوبارہ موجودہ ترتیب میں یک جا کر دیا۔
1. بخاري، الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله : لقد جاء کم رسول
من أنفسکم عزيز عليه ما عنتم حريص عليکم، 4 : 1720، رقم : 4402
2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب من سورة توبة، 5 : 283، رقم : 3103
اس طرح تاریخِ اسلام میں پہلی بدعتِ حسنہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئی۔
جمع و تدوینِ قرآن کی طرح یہ عمل بھی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے فرمان کی تعمیل میں باقاعدہ وجود پذیر ہوا۔ احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں رمضان المبارک میں تین راتیں نماز تراویح باجماعت پڑھائی۔ اس کے بعد فرض ہوجانے کے خدشہ سے آپ ﷺ نمازِ تراویح گھر میں ہی پڑھتے رہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی اِنفرادی طور پر اپنی اپنی نماز پڑھ لیتے۔ حضور ﷺ کے عہد مبارک کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اڑھائی سالہ دورِ خلافت میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہی معمول رہا۔ جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا اور آپ نے دیکھا کہ رمضان المبارک میں لوگ مختلف شکلوں میں نماز تراویح ادا کر رہے ہیں۔ تو اس خیال سے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اندر مساجد کو آباد کرنے کا ذوق بھی کم ہوسکتا ہے اور اگر صورت حال یہی رہی تو عین ممکن ہے کسی وقت لوگ نماز تراویح پڑھنا ہی ترک کر دیں، انہوں نے یہ اِجتہاد فرمایا اور سب کو حافظِ قرآن حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازِ تراویح باجماعت پڑھنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام کو باجماعت نمازِ تراویح پڑھتے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون.
’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں اُس حصہ سے بہتر ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان،
2 : 707، رقم : 1906
2. مالک، الموطأ، 1 : 114، رقم : 250
3. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 493، رقم : 4379
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اِس قول کی وضاحت کرتے ہوئے عبد الرحمان بن عبد القاری تابعی بیان کرتے ہیں :
يريد آخر الليل، وکان الناس يقومون أوّله.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد رات کا آخری حصہ تھا جب کہ لوگ پہلے حصہ میں قیام کرتے تھے۔‘‘(2)
(2) یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رات کے آخری حصہ میں کی جانے والی عبادت زیادہ فضیلت رکھتی ہے تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِبتدائی حصہ میں قیام کیوں شروع کروایا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ’’فتح الباری (4 : 253)‘‘ میں اِس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
هذا تصريح منه بأن الصلاة في آخر الليل أفضل من أوله، لکن ليس فيه أن الصلاة في قيام الليل فرادي أفضل من التجميع.
’’اِس میں صراحت ہے کہ رات کے پچھلے پہر کی نماز پہلے پہر کی نماز سے اَفضل ہے، تاہم اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تنہا نماز پڑھنا باجماعت نماز پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔‘‘
پس اِس سے واضح ہوگیا کہ اگرچہ آخرِ شب پڑھی جانے والی نماز فضیلت کی حامل ہے لیکن باجماعت ادا کی جانے والی نمازِ تراویح. جو رات کے اِبتدائی حصہ میں ادا کی جاتی ہیں۔ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
اس روایت میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خود ’’نعم البدعۃ ھذہ‘‘ فرما کر یہ ثابت کر دیا کہ ہر بدعت، بدعتِ سیئہ نہیں ہوتی بلکہ بے شمار بدعات اچھی بھی ہوتی ہیں۔ اور بدعتِ حسنہ اور سیئہ کی تقسیم مبنی بر حدیث ہے، محض قیاسی تقسیم نہیں بلکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول پر قائم ہے۔
نماز جمعہ میں خطبہ سے پہلے دوسری اذان عہدِ عثمانی رضی اللہ عنہ میں شروع کی گئی تھی۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) لکھتے ہیں :
أن التأذين الثاني يوم الجمعة، أمر به عثمان، حين کثر أهل المسجد.
’’بے شک جمعہ کے دن دوسری اذان کا حکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا جب مسجد میں آنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجمعة، باب الجلوس علي المنبر عند التأذين، 1 : 310، رقم : 873
لہٰذا جس طرح خیر القرون میں بھی تدوینِ قرآن حکیم کے موقع پر اَجل صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھا تھا کہ جو کام حضور نبی اکرم ﷺ نے نہیں کیا وہ کیسے کرسکتے ہیں، اُسی طرح آج کے دور میں بھی جشن میلادالنبی ﷺ اور اس جیسے دیگر اُمورِ خیر کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ جائز ہیں جب کہ اَوائل دورِ اِسلام میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اور جس طرح صحابہ کرام کو اِنشراحِ صدر ہوا اور اُنہوں نے بھلائی کے ان نئے کاموں کو اپنایا اُسی طرح ہم نے محافلِ میلاد اور جشنِ میلادالنبی ﷺ کو اَمرِ خیر اور باعثِ برکت ہونے کے اپنایا ہے۔
اِس ضمن میں چند شہادتیں عصری نظائر و واقعات سے پیش کی جاتی ہیں :
شریعت نے ضروری قرار دیا کہ مسلمانوں کی نمائندہ حکومت ہو، لیکن اِس کا انتخاب کس طرح ہو، حکومت کی تشکیل کس نظام کے تحت کی جائے، اس کے ادارے کس طرح وجود میں آئیں اور پھر ان میں اِختیارات کی تقسیم کس اُسلوب پر ہو؟ ان تفصیلات کے متعلق شریعت میں صریح اَحکامات نہیں ملتے۔ ہر مسلمان ریاست نے اپنی صواب دید کے مطابق جو نظام ضروری سمجھا اپنا لیا۔
اَوائلِ اسلام میں پختہ مکانات بنانا ناپسند خیال کیا جاتا تھا، لہٰذا مسجد کو بھی اَز رُوئے شرع پختہ بنانا ناجائز تصور کیا جاتا رہا۔ پھر ایک وقت آیا جب اسلامی سلطنت کی حدیں شرق تا غرب تک پھیل گئیں، تہذیب و ثقافت اور رہن سہن کے طریقوں میں تبدیلیاں آگئیں، لوگوں نے اپنی رہائش کے لیے بڑے بڑے کشادہ اور پختہ مکانات بنانا شروع کر دیے۔ بنو اُمیہ اور بنو عباس کے دورِ حکومت اور مابعد اِسلامی مملکت کے جاہ و جلال کے دور میں مسلمانوں نے عالی شان محلات تعمیر کیے تو علماء نے وقت کے تقاضوں کے مطابق مساجد کی تعمیر کو بھی اسی طرح نہ صرف جائز کہا بلکہ عظمتِ اسلام کے پیش نظر ضروری قرار دیا۔
اگر مساجد کی تعمیر میں تبدیلی پر غور کیا جائے تو اس کی مصلحت اب سمجھ میں آتی ہے کہ اس وقت لوگوں کے اپنے گھر کچے ہوتے تھے لہٰذا الله کے گھر کا کچا ہونا باعثِ ننگ و عار نہ تھا۔ لیکن جب لوگوں کے اپنے مکانات پختہ محلات میں بدل گئے تو خانۂ خدا کی وجاہت اور ظاہری رعب و دبدبہ کے پیشِ نظر پختہ اور خوبصورت مساجد کی تعمیر کے جواز کا فتویٰ دے دیا گیا۔ اِس سے واضح ہوتا ہے کہ دین کو اگر ظاہری لفظوں سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس سے (الا ما شاء الله ) گمراہی کے سوا کچھ نہیں ملتا لیکن اگر دین کی اصل روح اور اس میں کار فرما حکمتوں پر غور کر کے اس کے اَحکام کو پرکھا جائے تو دین کا صحیح فہم پیدا ہوتا ہے۔
قرآن حکیم کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کے لیے ضروری تھا کہ اس کے تراجم اور تفاسیر بھی مختلف ممالک کے لوگوں کی زبان اور فہم کے مطابق ہوں لیکن دین کے بارے میں ظاہری الفاظ پر نظر رکھنے والا ناپختہ اور انتہا پسند جامد ذہن ہر دور میں ہونے والے نئے کام کی مزاحمت میں پیش پیش رہا ہے۔ چنانچہ شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان میں جب پہلی مرتبہ اسی ضرورت کے پیشِ نظر قرآن حکیم کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا تو یہاں کے ظاہر بیں علماء نے بہت واویلا کیا، کفر و بدعت کے فتاویٰ صادر کیے کہ قرآن کو عربی زبان سے فارسی میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ لیکن آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ نئی بدعت مصلحتِ وقت اور عین تقاضائے تبلیغِ دین تھی، جب کہ فتویٰ لگانے والے اُس وقت اس دینی مصلحت سے ناآشنا تھے۔
دین کے متذکرہ پہلوؤں کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہی اَئمہ و محدثین نے بدعت کی پانچ اقسام بیان کی ہیں، جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
شافعی فقہ کے بانی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں کرتے ہیں :
المحدثات من الأمور ضربان : ما أحدث يخالف کتاباً أو سنة أو أثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، وما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا، فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان : نعمت البدعة هذه.
’’محدثات میں دو قسم کے اُمور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے اُمور ہیں جو قرآن و سنت، آثارِ صحابہ یا اِجماعِ اُمت کے خلاف ہوں۔ پس یہ بدعتِ ضلالہ ہیں۔ اور دوسری قسم میں وہ نئے اُمور ہیں جن کو بھلائی کے لیے اَنجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ پس یہ نئے اُمور ناپسندیدہ نہیں ہیں۔ اِسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا : یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔‘‘
1. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 10 : 70
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 202
3. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 52، 53
شیخ عز الدین بن عبد السلام سلمی اپنی کتاب ’’قواعدالاحکام فی مصالح الانام‘‘ میں فرماتے ہیں :
البدعة فعل ما لم يعهد في عهد النبي ﷺ ، وتنقسم إلي خمسة أحکام يعني الوجوب والندب. . . الخ. وطريق معرفة ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشرع فأي حکم دخلت فيه فهي منه، فمن البدع الواجبة تعلم النحو الذي يفهم به القرآن والسنة، ومن البدع المحرمة مذهب نحو القدرية، ومن البدع المندوبة إحداث نحو المدارس والاجتماع لصلاة التراويح، ومن البدع المباحة المصافحة بعد الصلاة، ومن البدع المکروهة زَخرفة المساجد والمصاحف أي بغير الذهب.
’’بدعت ایسا فعل ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں نہ تھا اور بدعت کو پانچ اَحکام میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی واجب اور ندب وغیرہ اور اس کی پہچان کا طریقہ کار یہ ہے کہ بدعت کو قواعدِ شرعیہ پر پرکھا جائے گا۔ پس وہ جو حکم شرعی پر پورا اترے گا اسی قسم میں سے ہوگا۔ پس نحو کا علم سیکھنا جس سے قرآن اور سنت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، بدعتِ واجبہ میں سے ہے۔ اور قدریہ جیسے نئے مذہب بنانا بدعتِ محرمہ میں سے ہے۔ اور مدارس بنانا اور نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنا بدعتِ مندوبہ میں سے ہے۔ اور نماز کے بعد مصافحہ کرنا بدعتِ مباحہ میں سے ہے۔ اور سونا اِستعمال کیے بغیر مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا بدعتِ مکروہہ میں سے ہے۔‘‘
ابن حجر هيتمي، الفتاوي الحديثية : 203
ملا علی قاری حنفی ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کی شرح ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں لکھتے ہیں :
قال الشيخ عز الدين بن عبد السلام في آخر کتاب القواعد : البدعة : أما واجبة کتعلم النحو لفهم کلام الله ورسوله وکتدوين أصول الفقه والکلام في الجرح والتعديل. وأما محرمة کمذهب الجبرية والقدرية والمرجئة والمجسمة. والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة لأن حفظ الشريعة من هذه البدع فرض کفاية. وأما مندوبة کإحداث الربط والمدارس وکل إحسان لم يعهد في الصدر الأول وکالتراويح أي بالجماعة العامة والکلام في دقائق الصوفية. وأما مکروهة کزخرفة المساجد وتزوين المصاحف يعني عند الشافعية، وأما عند الحنفية فمباح. وأما مباحة کالمصافحة عقيب الصبح والعصر أي عند الشافعية أيضًا وإلا فعند الحنفية مکروه، والتوسّع في لذائذ المأکل والمشارب والمساکن وتوسيع الأکمام.
’’شیخ عز الدین بن عبد السلام ’’القواعد‘‘ کے آخر میں بدعت کے بارے میں فرماتے ہیں : الله اور اُس کے رسول ﷺ کے کلام کو سمجھنے کے لیے نحو کا سیکھنا، اُصولِ فقہ کی تدوین کرنا اور علم جرح و تعدیل کا حاصل کرنا بدعتِ واجبہ ہے، جب کہ بدعتِ محرمہ میں نئے مذاہب کا وجود ہے جیسے جبریہ، قدریہ، مرجئہ اور مجسمہ اور ان تمام کا ردّ بدعتِ واجبہ سے کیا جائے گا کیوں کہ اِسی بدعت سے شریعت کی حفاظت کرنا فرضِ کفایہ ہے۔ جب کہ سرائیں اور مدارس کا قیام اور ہر قسم کی نیکی کے فروغ کے کام جو اِسلام کے اِبتدائی دور میں نہ تھے جیسے باجماعت نمازِ تراویح اور تصوف کے پیچیدہ نکات و رموز پر گفتگو کرنا بدعتِ مندوبہ میں شامل ہیں۔ شوافع کے ہاں مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا بدعتِ مکروہہ ہے، جب کہ اَحناف کے ہاں یہ اَمر مباح ہیں۔ اور شوافع کے ہاں فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا بدعتِ مباحہ ہے، جب کہ اَحناف کے نزدیک یہ اَمر مکروہ ہیں اور اِسی طرح لذیذ کھانے، پینے اور گھروں کو وسیع کرنا (جیسے اُمور بھی بدعتِ مباحہ میں شامل) ہیں۔‘‘
ملا علي قاري، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216
ملا علی قاری کل بدعۃ ضلالۃ کا صحیح مفہوم واضح کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں :
أي کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلاة والسلام : من سنّ في الإسلام سنّة حسنة فله أجرها وأجرمن عمل بها‘‘ وجمع أبوبکر وعمر القرآن وکتبه زيد في المصحف وجدد في عهد عثمان رضي الله عنهم.
’’یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے کیوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا اِرشاد ہے : ’’جس نے اِسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اُسے اُس عمل کا اور اُس پر عمل کرنے والے کا اَجر ملے گا۔‘‘ اور یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم جمع کیا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اِسے صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اِس کی تجدید کی گئی۔‘‘
1. ملا علي قاري، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216
2. شبير احمد ديوبندي، فتح الملهم بشرح صحيح مسلم، 2 : 406
2۔ ابن حجر مکی بدعت کی اَقسام بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وفي الحديث : کل بدعة ضلالة، وکل ضلالة في النار. وهو محمول علي المحرّمة لا غير.
’’اور جو حدیث میں ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی‘‘ اس حدیث کو بدعتِ محرّمہ پر محمول کیا گیا ہے، اِس کے علاوہ اور کسی پر نہیں۔‘‘
ابن حجر هيتمي، الفتاوي الحديثية : 203
بدعت کی اس تقسیم کے بعد معلوم ہوا کہ اگر بدعت شریعت کے مستحسنات کے تحت آ جائے تو وہ بدعتِ حسنہ ہے اور اگر مستقبحات کے تحت آجائے (یعنی مخالف دلیل ہو) تو بدعتِ سیئہ ہے اور اگر ان دونوں میں نہ آئے تو وہ بدعت مباحہ ہے۔
مذکورہ بالا تعریفاتِ بدعت کی روشنی میں ہم ذیل میں خلاصتہً محدثین و اَئمہ کی بیان کردہ بدعت کی تقسیم بیان کریں گے۔ بنیادی طور پر بدعت کی دو اَقسام ہیں :
1۔ بدعتِ حسنہ
2۔ بدعتِ سیئہ
ان میں سے ہر ایک کی پھر مزید اقسام ہیں جن کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :
بدعتِ حسنہ کی مزید تین اَقسام ہیں :
1۔ بدعتِ واجبہ
2۔ بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ)
3۔ بدعتِ مباحہ
وہ کام جو اپنی ہیئت میں تو بدعت ہو لیکن اِس کا وجود واجب کی طرح دین کی ضرورت بن جائے اور اِسے ترک کرنے سے دین میں حرج واقع ہو۔ جیسے قرآنی آیات پر اعراب، فہمِ دین کے لیے صرف و نحو کی درس و تدریس، اُصولِ تفسیر، اُصولِ حدیث، فقہ و اُصولِ فقہ اور دیگر علومِ عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اِہتمام، دینی مدارس کا قیام، درسِ نظامی کے نصابات اور ان کی اِصطلاحات سب ’’بدعتِ واجبہ‘‘ ہیں۔
جو کام اپنی ہیئت اور اَصل میں نیا ہو لیکن شرعاً ممنوع ہو نہ واجب کی طرح ضروری ہو بلکہ عام مسلمان اسے مستحسن اَمر سمجھتے ہوئے ثواب کی نیت سے کریں تو اس کے نہ کرنے والا گناہ گار بھی نہیں ہوتا لیکن کرنے والے کو ثواب ملتا ہے، جیسے مسافر خانوں اور مدارس کی تعمیر وغیرہ ہر وہ اچھی بات جو پہلے نہیں تھی اس کا ایجاد کرنا بھی بدعتِ مستحبہ ہے، جیسے نمازِ تراویح کی جماعت، تصوف و طریقت کے باریک مسائل کا بیان، محافلِ میلاد، محافلِ عرس وغیرہ جنہیں عام مسلمان ثواب کی خاطر منعقد کرتے ہیں اور ان میں شرکت نہ کرنے والا گناہ گار نہیں ہوتا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنھما نے فرمایا :
فما رآه المؤمن حسناً فهو عند الله حسن، وما رآه المؤمنون قبيحاً فهو عند الله قبيح.
’’جس کو (بالعموم) مومن اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو مومن برا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔‘‘
1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5 : 212، 213، رقم : 1816
2. طيالسي، المسند، 1 : 33، رقم : 246
3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600
4. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 83، رقم : 4465
5۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد و منبع الفوائد (1 : 177، 178)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے احمد، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اِس کے رجال موثق (ورجالہ موثقون) ہیں۔
6۔ عجلونی نے ’’کشف الخفاء ومزیل الالباس (2 : 245، رقم : 2214)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ روایت موقوف حسن ہے۔
اِس تعریف کی رُو سے جشنِ میلادالنبی ﷺ بدعتِ مستحسنہ ہے، جسے مومن ثواب کی نیت سے کرتے ہیں اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنھما کے قول کے مطابق یہ الله تعالیٰ کے ہاں بھی مقبول ہے کیوں کہ اِسے جمہور مسلمان (سوادِ اَعظم) مناتے ہیں۔
وہ نیا کام جو شریعت میں منع نہ ہو اور جسے مسلمان صرف جائز سمجھ کر ثواب کی نیت کے بغیر اِختیار کرلیں۔ فقہاء نے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے اور عمدہ عمدہ جدید کھانے اور مشروبات کے استعمال کو ’’بدعتِ مباحہ‘‘ کہا ہے۔
بدعتِ سیئہ کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں :
1۔ بدعتِ محرّمہ
2۔ بدعتِ مکروہہ
وہ نیا کام جس سے دین میں تضاد، اِختلاف اور اِنتشار واقع ہو مثلاً قدریہ، جبریہ، مرجئہ اور مرزائی و قادیانی وغیرہ جیسے نئے مذاہب کا وجود میں آنا۔ اِسے بدعتِ ضلالہ بھی کہتے ہیں۔ اِن مذاہبِ باطلہ کی مخالفت بدعتِ واجبہ کا درجہ رکھتی ہے۔
جس نئے کام سے سنت مؤکدہ یا غیر مؤکدہ چھوٹ جائے وہ بدعتِ مکروہہ ہے۔ اِس میں علماء متقدمین نے مساجد کی بلاضرورت فخریہ آرائش و تزئین وغیرہ کو شامل کیا ہے۔
بدعت کے مذکورہ تصوّر اور تقسیم کی مزید وضاحت کے لیے حضرت جریر بن عبد اللہ رضی الله عنھما سے مروی حدیث مبارکہ نہایت اہم ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
من سنّ في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده، من غير أن ينقص من أجورهم شيء. ومن سن في الإسلام سنة سيئة کان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده، من غير أن ينقص من أوزارهم شيء.
’’جو شخص اِسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالے تو اس کے لئے اس کے اپنے اَعمال کا بھی ثواب ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا ثواب بھی ہے، بغیر اِس کے کہ اُن کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جس نے اِسلام میں کسی بری بات کی اِبتدا کی تو اُس پر اُس کے اپنے عمل کا بھی گناہ ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا بھی گناہ ہے، بغیر اِس کے کہ اُن کے گناہ میں کچھ کمی ہو۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب الحث علي الصدقة ولو بشق
تمرة أو کلمة طيبة وأنها حجاب من النار، 2 : 704، 705، رقم : 1017
2. مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلي هدي أوضلالة،
4 : 2059، رقم : 1017
3. نسائي، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقة، 5 : 76، رقم : 2554
4. ابن ماجة، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، 75، رقم : 203،
206، 207
5. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
اس حدیث میں لفظ ’’سنّ‘‘ لغوی معنی کے اِعتبار سے ’’ابدع‘‘ کے ہم معنی ہے یعنی جس نے اسلام میں کوئی اچھی (نئی) راہ نکالی۔ یہاں سے ’’بدعتِ حسنہ‘‘ کا تصور ابھرتا ہے۔ اِسی طرح ’’من سنّ فی الاسلام سنۃ سیئۃ‘‘ سے بدعتِ سیئہ کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس سے تو صرف ’’سنت‘‘ ہی مراد ہے بدعت مراد نہیں لی جا سکتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ (معاذ الله ) اگر اس سے مراد صرف ’’سنت‘‘ ہی ہوتا تو کیا وہاں ’’حسنہ‘‘ کہنے کی ضرورت تھی؟ کیا کوئی سنت غیر حسنہ بھی ہوسکتی ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عمل کرنے کے حوالے سے ’’مَنْ عَمِلَ‘‘ تو کہہ سکتے ہیں مگر ’’من سنَّ‘‘ کہنے کی کیا ضرورت ہے کیوں کہ حضور ﷺ کی سنت سے ایک اُمتی کیا ’’راہ‘‘ نکالے گا؟ وہ تو صرف عمل اور اِتباع کا پابند ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ’’سَنَّ‘‘ سے مراد معروف معنوں میں سنت نہیں ہے بلکہ یہاں لغوی معنی یعنی راستہ اور نئی راہ نکالنا مراد ہے۔
بدعت کی مندرجہ بالا اَقسام اور تفصیلات متعدد ائمہ حدیث اور فقہاء نے اپنے اپنے انداز میں اپنی کتب میں بیان کی ہیں۔ تفصیلات ہماری کتاب ’’کتاب البدعۃ‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
مندرجہ بالا تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر عمل کو اِس ڈھب پر نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لیے عمل کی ہیئت کبھی رسم و رواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضروریات اور تقاضوں پر کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں اور کبھی کئی مصلحتیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا اس کی کوئی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے یا نہیں؟ کیا بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں موجود ہے؟ یا پھر وہ کام اس لیے بھی قابل مذمت ٹھہرتا ہے کہ اس سے کسی واجب، سنت یا مستحب پر زَد پڑتی ہے۔
اگر کسی نئے عمل کی اصل قرآن حکیم یا سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بہ فرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع درست ہے۔ البتہ صرف اس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابلِ مذمت ٹھہرے گی جب وہ قرآن و سنت کی کسی نص یا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہو یا دین کے عمومی مزاج اور اُس کی روح کے منافی ہو۔
گزشتہ اَبواب میں قرآن حکیم کی آیات اور متعدد احادیث کے ذریعے جشنِ میلادالنبی ﷺ کی شرعی حیثیت اور اس کی اصل غرض و غایت صراحت کے ساتھ بیان کی جا چکی ہے۔ لہٰذا اَصلاً حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کو الله تعالیٰ کی نعمت اور اُس کا اِحسانِ عظیم تصور کرتے ہوئے اِس کے حصول پر خوشی منانا اور اسے باعث مسرت و فرحت جان کر تحدیثِ نعمت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے بہ طور عید منانا مستحسن اور قابلِ تقلید عمل ہے۔ مزید برآں یہ خوشی منانا نہ صرف سنتِ اِلٰہیہ ہے بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اپنی سنت بھی قرار پاتا ہے، صحابہ کرام کے آثار سے بھی ثابت ہے اور اِس پر مؤید سابقہ امتوں کے عمل کی گواہی بھی قرآن حکیم نے صراحتاً فراہم کر دی ہے۔ اب بھی اگر کوئی اس کے جواز اور عدم جواز کو بحث و مناظرہ کا موضوع بنائے اور اس کو ناجائز، حرام اور قابلِ مذمت کہے تو اسے ہٹ دھرمی اور لاعلمی کے سوا اور کیا کہا جائے گا!
شریعت مطہرہ نے بہت سے معاملات کی تہ میں کار فرما اَساسی تصورات اور اُصول بیان کر دیے ہیں لیکن ان کی تفصیل اور ہیئت کا اِنحصار اُمتِ مسلمہ کے علماء اور اَکابر پر چھوڑ دیا کہ اُمت کے علماء حق اور اَئمہ دین کی اکثریت جس اَمر پر متفق ہو جائے، گزشتہ صفحات میں دیے گئے حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنھما سے منقول قول کے مطابق بالکل درست اور قرآن و سنت کے تابع ہے۔ اِس کی تائید مرفوع صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے، جن کے مطابق فی الحقیقت اُمت کی اکثریت یعنی سوادِ اَعظم کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا، گمراہ ہمیشہ اَقلیت (سوادِ اَعظم سے الگ ہونے والی جماعت) ہوتی ہے۔ وقتاً فوقتاً جو چھوٹی چھوٹی تحریکیں اور جماعتیں بنتی رہتی ہیں، جن کے عقائد و نظریات امت کی بھاری اکثریت کے عقائد و نظریات کے خلاف ہوتے ہیں اور جو اُمت کے سوادِ اَعظم کو گمراہ، کافر، مشرک، جاہل اور بدعتی کہتی ہیں دراصل خود گمراہ ہوتی ہیں۔ اِسی لیے فتنہ و فساد اور تفرقہ و انتشار کے دور میں اُمت کو سوادِ اَعظم (سب سے بڑی جماعت) کا دامن پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
إن أمتي لا تجتمع علي ضلالة، فإذا رأيتم اختلافا، فعليکم بالسواد الأعظم.
’’بے شک میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔ پس اگر تم اِن میں اِختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو اِختیار کرو۔‘‘(2)
1. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب السواد الأعظم، 2 : 1308،
رقم : 3950
2. ابن ابي عاصم، السنة : 41، رقم : 84
3. طبراني، المعجم الکبير، 12، 447، رقم : 13623
4. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 411، رقم : 1662
(2) امام جلال الدین سیوطی نے ’’حاشیۃ سنن ابن ماجہ (ص : 283)‘‘ میں سوادِ اَعظم سے طبقۂ اہلِ سنت مراد لیا ہے اور یہی حدیث کا مدّعا ہے۔
2۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی اُمت کی تفرقہ پروری کی پیشین گوئی کرتے ہوئے سوادِ اعظم (اُمت کی اکثریتی جماعت) کے سوا تمام گروہوں اور جماعتوں کے جہنمی ہونے کی وعید بیان فرمائی۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
تفرقت بنو إسرائيل علي إحدي وسبعين فرقة، وتفرقت النصاري علي اثنتين وسبعين فرقة، وأمتي تزيد عليهم فرقة، کلها في النار إلا السواد الأعظم.
’’بنی اسرائیل اِکہتر (71) فرقوں میں تقسیم ہوئے اور نصاری بہتر (72) فرقوں میں تقسیم ہوئے، جب کہ میری اُمت ان پر ایک فرقہ کا اضافہ کرے گی۔ وہ تمام فرقے جہنمی ہوں گے سوائے سوادِ اَعظم (اُمت کے اکثریتی طبقہ) کے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 176، رقم : 7202
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 554، رقم : 37892
3. حارث، المسند، 2 : 716، رقم : 706
4. بيهقي، السنن الکبري، 8 : 188
5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 7 : 258
3۔ سوادِ اعظم کی اَہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
إثنان خير من واحد، وثلاثة خير من اثنين، وأربعة خير من ثلاثة، فعليکم بالجماعة، فإن الله لن يجمع أمتي إلا علي هدي.
’’دو (شخص) ایک سے بہتر ہیں، اور تین (اَشخاص) دو سے بہتر ہیں، اور چار (اَشخاص) تین سے بہتر ہیں۔ پس تم پر لازم ہے کہ (اَکثریتی) جماعت کے ساتھ رہو، یقیناً الله تعالیٰ میری امت کو کبھی بھی ہدایت کے سوا کسی شے پر اِکٹھا نہیں کرے گا۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 145، رقم : 21331
2. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 1 : 177
3. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 5 : 218
4۔ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں بیان کیے گئے لفظ الجماعۃ سے مراد اُمت کا اَکثریتی طبقہ ہے۔ اِس کی وضاحت حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے خود الجماعۃ سے سوادِ اَعظم مراد لیتے ہوئے فرمایا :
والذي نفس محمد بيده! لتفترقن أمتي علي ثلاث وسبعين فرقة، واحدة في الجنة وثنتان وسبعون في النار. قيل : يارسول الله ! من هم؟ قال : الجماعة.
’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے! میری اُمت ضرور تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا اور بہتر (72) جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا :
يا رسول الله ! من هم؟
’’یارسول اللہ! وہ جنتی گروہ کون ہے؟‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :
الجماعة.
’’وہ (اُمت میں سب سے بڑی) جماعت ہے۔‘‘
1. ابن ماجه، کتاب الفتن، باب افتراق الأمم، 2 : 1322، رقم
: 3992
2. لالکائي، إعتقاد أهل السنة والجماعة، 1 : 101، رقم : 149
5۔ درج ذیل حدیث شریف میں ’’جماعت‘‘ سے مراد اُمت کی سب سے بڑی جماعت اور اُس پر محافظت ہونا صراحتاً بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
لا يجمع الله هذه الأمة علي الضلالة أبدا، يد الله علي الجماعة، فاتبعوا السواد الأعظم، فإنه من شذ شذ في النار.
’’اللہ تعالیٰ اِس اُمت کو کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا، اللہ کی حفاظت کا ہاتھ (سب سے بڑی) جماعت پر ہے، پس تم سوادِ اَعظم (سب سے بڑی جماعت) کی اِتباع کرو کیوں کہ جو اِس سے جدا ہوا یقیناً وہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔‘‘
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 199. 201، رقم : 391.
397
2. ابن أبي عاصم، کتاب السنة، 1 : 39، رقم : 80
3. لالکائي، إعتقاد أهل السنة، 1 : 106، رقم : 154
4. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 5 : 258، رقم : 8116
5. حکيم ترمذي، نوادر الأصول في أحاديث الرسول ﷺ ، 1 : 422
6۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
إن الله لا يجمع أمتي (أو قال : أمة محمد ﷺ ) علي ضلالة، ويد الله مع الجماعة، ومن شذ شذ إلي النار.
’’اللہ تعالیٰ میری اُمت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا (یا فرمایا : اُمتِ محمدیہ ﷺ کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا) اور جماعت پر اللہ (تعالیٰ کی حفاظت) کا ہاتھ ہے، اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الفتن، باب ما جاء في لزوم الجماعة،
4 : 466، رقم : 2167
2. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 200، رقم : 394
3. داني، السنن الوارده في الفتن، 3 : 748، رقم : 368
اِس تصور کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مسلمانوں کے اَکثریتی طبقہ میں کوئی خرابی یا بگاڑ پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ اَمرِ واقع ہے کہ بگاڑ اور خرابیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں لیکن ہمیشہ پیغمبرانہ تعلیمات کے مطابق اَکثریتی طبقہ کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے یعنی سوادِ اَعظم سے منسلک رہتے ہوئے ہی اُمت کی اصلاح کی جد و جہد کرنی چاہیے۔ اہلِ ایمان سوادِ اَعظم کو گمراہ قرار دیتے ہوئے اِس سے خارج ہو کر اپنے لیے نئی راہ بنانا ہی دَرحقیقت گمراہی اور منافقت ہے، اور اسی سے حضور نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ یومِ میلادالنبی ﷺ منانا بھی اُن بعض اُمور میں سے ایک ہے جن پر اِس وقت جمہور اُمت جواز کے شرعی دلائل کی روشنی میں عامل ہے۔ آج اگر کوئی اُمت کے اِس اکثریتی طبقہ کو گمراہ کہتا ہے تو درحقیقت وہ خود ہی گمراہ ہے اور دوزخ کی راہ پر گامزن ہے۔
یہ ایک اَلمیہ ہے کہ اِسلام کے حاملین ظاہر بینی سے کام لیتے ہوئے چھوٹی چھوٹی باتوں کو کفر و ایمان کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور دین کی اَصل روح اور کار فرما حکمت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل جن کے سامنے دین کی اصل روح نہیں رکھی جاتی بلکہ فہمِ دین کی بجائے لفظوں کی ہیر پھیر سے دین کو متعارف کرایا جاتا ہے، روز بروز اسلام سے دور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ صرف اس لیے کہ (الا ما شاء الله ) کہیں تو ذاتی مفادات کے پیشِ نظر اور کہیں نادانی کی بناء پر مذہبی ذمہ داروں نے لفظی موشگافیوں سے دین کو دشوار بنا دیا ہے، جس سے نوجوان نسل اور بالخصوص نیا تعلیم یافتہ طبقہ جو پہلے ہی مغربی تہذیب و ثقافت اور اِستعماری ذہنیت و فکری یلغار کا نشانہ بنا ہوا ہے، دور ہوتا جا رہا ہے۔ اگر ہم صدقِ دل سے دین کے اصول و قوانین اور شریعتِ اِسلامیہ کے دلکش پہلو پیشِ نظر رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ پھر سے عظمتِ اِسلام کے سنہری اُصولوں پر عمل پیرا ہو کر شوکت و عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے کمربستہ نہ ہو جائیں۔
ظاہر پرست علماء محافلِ میلاد اور جشنِ میلاد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے صرف اِس لیے اِسے ناجائز اور (نعوذ بالله) حرام قرار دیتے ہیں کہ اِس قسم کی محافل اور جشن کی تقاریب اَوائل دورِ اِسلام میں منعقد نہیں ہوئیں۔ اِس بحث کے تناظر میں بدعت کی تعریف اور اس کی شرعی حیثیت پر جید اَئمۂ حدیث و فقہ کے حوالے سے ہمارا موقف بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ اِسے لغت کی رُو سے بدعت کہنا صحیح ہے لیکن صرف بدعت کہہ کر اِسے ہدفِ تنقید بنانا اور ناپسندیدہ قرار دینا محض تنگ نظری اور ہٹ دھرمی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ ہر دور میں ہر چیز کی ہیئت اور صورت حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ فریضۂ حج کی ادائیگی کے انداز اور ذرائع آمد و رفت بہ تدریج بدلتے رہے ہیں، آج لوگ پیدل یا اونٹ، گھوڑوں پر سوار ہوکر حج کے لیے نہیں جاتے، پہلے جو فاصلے مہینوں میں طے ہوتے تھے اب جدید ذرائع آمد و رفت سے گھنٹوں میں طے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح دیگر اَرکانِ اِسلام کی ادائیگی کی صورتِ حال بھی اب پہلے جیسی نہیں۔ اس میں کئی جدتیں اور عصری تقاضے شامل ہو چکے ہیں مگر ان کی ہیئت اَصلیہ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اِسی پس منظر میں اگر جشنِ میلادالنبی ﷺ کی موجودہ صورت دیکھی جائے تو یہ اپنی اَصل کے اِعتبار سے بالکل حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت ہے۔ جس طرح ہم محافلِ میلاد میں حضور ﷺ کے لیے نعت کا اہتمام کرتے ہیں، آپ ﷺ کے فضائل و کمالات بیان کرتے اور مختلف انداز میں سیرتِ طیبہ کا ذکر کرتے ہیں، جو فی الواقعہ ہمارے جشنِ میلاد منانے کا مقصد ہے، اِسی طرح کی محفلیں جن میں حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل و کمالات کا ذکر ہوتا تھا، عہدِ نبوی ﷺ میں بھی منعقد ہوتی تھیں اور آپ ﷺ محفل میں تشریف فرما ہوتے تھے حتی کہ اپنی محفلِ نعت خود منعقد کرواتے تھے۔
نوٹ : تصورِ بدعت سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ہماری تصنیف ’’کتاب البدعہ‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved