محافلِ میلاد النبی ﷺ میں ہر خاص و عام کے لیے ماکولات و مشروبات کا اِنتظام کیا جاتا ہے، اَنواع و اَقسام کے کھانے تیار کئے جاتے ہیں، مٹھائی اور شیرینی تقسیم کی جاتی ہے۔ کھانا کھلانا شرعاً مقبول عمل ہے جسے الله اور اس کے رسول ﷺ نے پسند فرمایا ہے، اور قرآن و حدیث میں اِس کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔
1۔ کھانا کھلانے کے باب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًاO إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًاO
’’اور (اپنا) کھانا الله کی محبت میں (خود اُس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں۔ (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواست گار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہش مند) ہیں۔ ‘‘
الدهر، 76: 8، 9
2۔ مناسکِ حج میں سے ایک قربانی کے جانور ذبح کرنا ہے۔ اللہ رب العزت نے ذبیحہ کے گوشت کو خود کھانے اور باقی ضرورت مندوں کو کھلانے کاحکم دیا ہے:
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَO
’’پس تم اس میں سے خود (بھی) کھاؤ اور خستہ حال محتاج کو (بھی) کھلاؤ۔ ‘‘
الحج، 22: 28
ایک اور مقام پر فرمایا:
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ.
’’تو تم خود (بھی) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو بھی کھلاؤ۔‘‘
الحج، 22: 36
حضور نبی اکرم ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو کھانے کی دعوت پر بلایا کرتے تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ.
’’اے ایمان والو! نبیء (مکرّم ﷺ ) کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب تم بلائے جاؤ تو (اُس وقت) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھاچکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہو جایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو۔‘‘
الأحزاب، 33: 53
اِن آیاتِ مبارکہ سے واضح ہے کہ کھانے کی دعوت دینا اور اپنے دوست اَحباب، ضرورت مندوں، محتاجوں اور بے کسوں کو کھانا کھلانا عین سنتِ مصطفیٰ ﷺ اور حکم خداوندی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے کئی مواقع پر غرباء و مساکین اور رشتہ داروں اور مستحقین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے۔ اس حوالے سے چند اَحادیث مبارکہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی الله عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے کسی شخص نے سوال کیا: بہترین اسلام کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
تطعم الطعام وتقرأ السّلام علي من عرفت ومن لم تعرف.
’’تو کھانا کھلائے یا سلام کرے اُس شخص کوجسے تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب إطعام الطعام من الإسلام،
1: 13، رقم: 12
2. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب إفشاء السّلام، 1: 19، رقم: 28
3. بخاري، الصحيح، کتاب الإستئذان، باب السّلام للمعرفة وغيراالمعرفة، 5: 2302، رقم:
5882
4. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب تفاضل الإيمان، 1: 65، رقم: 39
5. أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب في إفشاء السّلام، 4: 350، رقم: 5194
6. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب أي الإسلام خير، 8: 107، رقم: 5000
7. ابن ماجه، السنن، کتاب الأطعمة، باب إطعام الطعام، 2: 1083، رقم: 3253
2۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جس وقت مدینہ تشریف لائے تو اَوّل کلام جو میں نے ان سے سنا وہ یہ تھا:
ياأيها الناس! أفشوا السّلام، وأطعموا الطّعام، وصلّوا والنّاس نيام تدخلون الجنّة بسلام.
’’اے لوگو! سلام عام کرو اور کھانا کھلاؤ، اور نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع،
4: 652، رقم: 2485
2. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في قيام الليل، 1: 423، رقم:
1334
3. ابن ماجه، السنن، کتاب الأطعمة، باب إطعام الطعام، 2: 1083، رقم: 3251
4. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 451، رقم: 23835
5. دارمي، السنن، 1: 405، رقم: 1460
3۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أعبدوا الرحمن، وأطعموا الطّعام، وأفشوا السّلام، تدخلوا الجنّة بسلام.
’’تم رحمان کی عبادت کرو اور کھانا کھلاؤ اور سلام عام کرو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الأطعمة، باب ما جاء في فضل
إطعام الطعام، 4: 2870، رقم: 1855
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 170، رقم: 6587
3. دارمي، السنن، 2: 148، رقم: 2081
4. بزار، البحر الزخار (المسند)، 6: 383، رقم: 2402
5. بخاري، الأدب المفرد، 1: 340، رقم: 981
4۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے کثرت کے ساتھ کھانا کھلانے کا شکوہ کیا اور اسے اِسراف قرار دیا، تو انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کا حوالہ دیا:
خيارکم من أطعم الطّعام، وردّ السّلام.
’’تم میں سے بہترین وہ ہیں جو کھانا کھلاتے ہیں اور سلام کا جواب دیتے ہیں۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 6: 16، رقم: 23971، 23974
2. طحاوي، شرح معاني الآثار، 4: 166، 167، رقم: 7105
3. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 4: 310، رقم: 7739
4. بيهقي، شعب الإيمان، 6: 478، رقم: 8973
5۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
من أطعم أخاه خبزاً حتي يشبعه، وسقاه ماء حتي يرويه، بعّده الله عن النار سبع خنادق بُعد ما بين خندقين مسيرة خمسمائة سنة.
’’جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اُسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دوری پَر کر دے گا، اور دو خندقوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 4: 144، رقم: 7172
2. طبراني، المعجم الأوسط، 6: 320، رقم: 6518
3. بيهقي، شعب الإيمان، 3: 218، رقم: 3368
4. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 3: 576، رقم: 5807
5. منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 2: 36، رقم: 1403
6. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3: 130
اِن تمام اَحادیث سے یہ نتیجہ اَخذ ہوا کہ اپنے بیگانے کی تمیز کے بغیر کسی کو بھی کھانا کھلانا بہترین عمل ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ کھانا کھلانے سے دوزخ سے رہائی ملتی ہے اور جنت میں ٹھکانہ ملتا ہے۔ لہٰذا اگر عام دنوں میں کسی بھوکے اور محتاج کو کھانا کھلانے کا اتنا زیادہ ثواب ہے تو جس دن بے کسوں کے والی، بے آسروں کے آسرا اور بے سہاروں کے سہارا سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اِس عالم آب و گل میں تشریف آوری ہوئی اُس موقع پر لوگوں کو کھانا کھلانا کتنے اَجر کا باعث ہوگا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved