میلاد النبی ﷺ کی خوشی میں منعقد ہونے والے اِجتماعات میں آپ ﷺ کی سیرت و فضائل کا ذکر ہوتا ہے۔ محفلِ میلادالنبی ﷺ میں تذکارِ رسالت درج ذیل پانچ جہتوں میں ہوتا ہے:
محافلِ میلادالنبی ﷺ میں اِسلامی اَحکام مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر اَحکامِ شریعت کے بیان کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اُن ارشادات وتعلیمات کا ذکر کیا جاتا ہے جو اِسلامی شریعت کی بنیاد ہیں اور جن پر اَرکانِ اِیمان و اِسلام کی عمارت قائم ہے۔ فقہی اور فروعی مسائل کو موضوع بنانے کے بجائے اِس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ فرض عبادات کی ادائیگی درجۂ قبولیت تک کیسے پہنچ سکتی ہے؟ الله تعالیٰ کی رضا کا حصول کیسے ممکن ہے؟ رسول اکرم ﷺ کی اِتباع اور محبت کس طرح ہم پر فوز و فلاح کے دروازے وَا کرتی ہے اور ہم ایمان کے تقاضوں کو کس طرح بطریقِ اَحسن پورا کر سکتے ہیں؟ اِس طرح کی دیگر اَبحاث محفلِ میلاد میں بیان کی جاتی ہیں تاکہ اُسوہء کامل کی روشنی میں عبادات کی روح کو اپنے اندر سمو کر اپنے اعمال اور شخصیت کی عمارت کو اَحکامِ شریعت کی بنیادوں پر استوار کرنے کے عہد کی تجدید کی جا سکے۔
محافلِ میلادالنبی ﷺ کے موقع پر اپنایا جانے والا دوسرا طریقہ ’’تذکارِ خصائلِ مصطفیٰ ﷺ ‘‘ ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسوۂ حسنہ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں آپ ﷺ کی سنت، سیرت اور ُخلقِ عظیم کا پرتَو جھلکتا دکھائی رہتا ہے۔ اس تذکار کا مقصد یہ ہوتاہے کہ ہم اس کے ذریعے اپنی زندگی کو اِنفرادی اور اِجتماعی سطح پر آپ ﷺ کی تعلیمات اور متعین کردہ اَقدار سے سنواریں اور اپنے شب و روز آپ ﷺ کی سنت کے مطابق بسر کریں۔ یہ دوسرا موضوع ہے جسے حضور نبی اکرم ﷺ کی پیغمبرانہ زندگی کے حوالے سے علمائے کرام محافلِ میلاد میں زیربحث لاتے ہیں۔ اگرچہ محافلِ میلاد کا اَوّلین مقصد آمد مصطفیٰ ﷺ کی یاد میں جشنِ مسرت منانا ہے لیکن ان تقریباتِ سعیدہ میں قرآنی تعلیمات اور سیرتِ مبارکہ کے تعلیمی، تربیتی، اَخلاقی اور روحانی پہلوؤں کا ذکر بھی علمائے کرام اپنی تقاریر و خطابات میں خصوصی طور پر کرتے ہیں۔
تذکارِ رسالت ﷺ کے سلسلے میں آپ ﷺ کے شمائل بھی بیان کیے جاتے ہیں۔ آپ ﷺ کے حسن وجمال اور خوبصورتی و رعنائی کا حسین تذکرہ کیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ کے حسنِ سراپا کا ذکرِ جمیل قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ کی روشنی میں نہایت ہی خوبصورت اور دلکش اندازمیں کیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ کے وَالضُّحیٰ چہرے، وَاللَّیْل زلفوں، مَا زَاغَ الْبَصَر کا دل آویز بیان سماعتوں میں رَس گھولنے لگتا ہے۔ آپ ﷺ سرتا قدم حسنِ مجسم تھے اور یہ فیصلہ کرنا محال تھا کہ صوری حسن جسدِ اَطہر کے کس کس مقام پر کمالِ حسن کی کن کن بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ ﷺ کے سراپائے حسن کو دیکھ کر مست و بے خود ہو کر رہ جاتے اور آپ ﷺ کے حسنِ سراپا کے بیان میں اپنے عجز اور کم مائیگی کا اِعتراف کرتے۔ حق تو یہ ہے کہ ذاتِ مصطفوی ﷺ کا حسنِ سرمدی اِظہار و بیان سے ماوراء تھا اور اہلِ عرب زبان و بیان کی فصاحت و بلاغت کے اپنے تمام تر دعووں کے باوجود بھی اُسے کما حقہ بیان کرنے سے عاجز تھے۔
ماہِ میلاد میں نورِ مجسم حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسی حسنِ بے مثال کا تذکرہ ہوتا ہے، کوئی آپ ﷺ کے مبارک زلف و رخسار کا ذکر کرتا ہے تو کوئی چشمانِ مقدسہ کی تاثیرِ کرم کی مدح سناتا ہے، کوئی گوش مبارک کی دلکشی اور ان کی بے مثل سماعت پر سلام بھیجتا ہے تو کوئی گل قدس کی پتیوں جیسے نازک ہونٹوں پر درود پڑھتا ہے۔ کوئی آپ ﷺ کے دستِ اقدس سے صادر ہونے والے معجزات کا ذکر چھیڑتا ہے تو کوئی حسن و جمال سے معمور دہنِ اقدس اور اس سے نکلے ہوئے لعاب مبارک کی برکات کے نغمات الاپتا ہے۔ اس تذکار شمائل سے وجود میں کیفیاتِ وجد کا نزول ہونے لگتا ہے اور بارگاہِ مصطفیٰ ﷺ میں حضوری کی خیرات ملنے لگتی ہے۔ یہی وہ کیفیات ہیں جو ان محافل کا حاصل ہیں اور جن سے قلب و روح میں تجليّاتِ ایمان کا ورود ہونے لگتا ہے۔ یہ وہ توشۂ آخرت ہے جو سفرِ حشر میں مومن کے بہت کام آئے گا۔
محفلِ میلادالنبی ﷺ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے خصائص و فضائل کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے۔ یہ آپ ﷺ کے خصائص و فضائل اور اَوصاف و کمالات ہی ہیں جو آپ ﷺ کو دیگر انبیاء کرام علیھم السلام اور تمام انسانوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ آپ ﷺ جامع کمالاتِ انبیاء ہیں، آپ ﷺ کی ذاتِ اَقدس میں تمام اَنبیاء و رُسل کے محامد و محاسن اور معجزات و کمالات بہ درجۂ اَتم جمع فرما دیے گئے۔ الله تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو تمام اہلِ جہان پر شرف و فضیلت عطا فرمائی اور تمام اَوّلین و آخرین کا سید اور سردار بنایا۔ آپ ﷺ کو اپنے قربِ خاص سے نوازا اور شبِ معراج عرش پر بلا کر اپنا دیدار عطا فرمایا۔ اُس نے قرآن حکیم میں آپ ﷺ کی اِطاعت کو اپنی اطاعت، (1) آپ ﷺ کی رضا کو اپنی رضا، (2) آپ ﷺ کی بیعت کو اپنی بیعت، (3) آپ ﷺ کے فعل کو اپنا فعل، (4) نطقِ رسول کو اپنی وحی، (5) آپ ﷺ کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی، (6) آپ ﷺ کی مخالفت کو اپنی مخالفت، (7) اور آپ ﷺ کی عطا کو اپنی عطا قرار دیا۔ (8) اِس پر مستزاد حضور سرورِ کائنات ﷺ کو ایسے دُنیوی، برزخی اور اُخروی خصائص و فضائل سے نوازا جو بے مثال ہونے کے علاوہ حدِ شمار سے بھی باہر ہیں۔
(1) النساء، 4: 80
(2) التوبة، 9: 62
(3) الفتح، 48: 10
(4) الأنفال، 8: 17
(5) النجم، 53: 3، 4
(6) النساء، 4: 14
(7) التوبة، 9: 63
(8) التوبة، 9: 59، 74
میلادالنبی ﷺ کی مبارک تقریبات میں حسنِ صورت و سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کے تذکرے تو ہوتے ہی ہیں، اِس کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی کثیر الجہت شانوں کا بیان اہلِ ایمان کے دلوں میں عشق و محبت کی وہ شمعیں فروزاں کر دیتا ہے جن کی ضوء شبستان زندگی کو منور کر دیتی ہے۔ آپ ﷺ کے فضائل و خصائص پر مشتمل چند احادیث ذیل میںدرج کی جاتی ہیں:
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أنا أوّلهم خروجاً، وأنا قائدهم إذا وفدوا وأنا خطيبهم إذا أنصتوا، وأنا مشفعهم إذا حبسوا، وأنا مبشّرهم إذا أيسوا. الکرامة والمفاتيح يومئذ بيدي، وأنا أکرم ولد آدم علي ربي، يطوف عليّ ألف خادم کأنهم بيض مکنون أو لؤلؤ منثور.
’’(روزِ قیامت) سب سے پہلے میں (اپنی قبرِ اَنور سے) نکلوں گا اور جب لوگ وفد بن کر جائیں گے تو میں ہی ان کا قائد ہوں گا۔ اور جب وہ خاموش ہوں گے تو میں ہی ان کا خطیب ہوں گا۔ میں ہی ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا جب وہ روک دیئے جائیں گے، اور میں ہی انہیں خوش خبری دینے والا ہوں جب وہ مایوس ہو جائیں گے۔ بزرگی اور جنت کی چابیاں اُس روز میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ میں اپنے رب کے ہاں اَولادِ آدم میں سب سے زیادہ مکرم ہوں میرے اِرد گرد اُس روز ہزار خادم پھریں گے گویا وہ (گرد و غبار سے محفوظ) سفید (خوبصورت) انڈے (یعنی پوشیدہ حسن) ہیں یا بکھرے ہوئے موتی ہیں۔‘‘
1. دارمي، السنن 1: 39، رقم: 48
2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة بني إسرائيل، 5: 308، رقم:
3148
3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم
، 5: 585، رقم: 3610
4. أبو يعلي، المعجم: 147، رقم: 160
5. قزويني، التدوين في أخبار قزوين، 1: 234، 235
6. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 1: 47، رقم: 117
7. بغوي، شرح السنة، 13: 203، رقم: 3624
8. ابن أبي حاتم رازي، تفسير القرآن العظيم، 10: 3212، رقم: 18189
9. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 5: 484
10. أبو نعيم، دلائل النبوة، 1: 64، 65، رقم: 24
11. بغوي، معالم التنزيل، 3: 131
12. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 8: 376
اِس حدیثِ مبارکہ میں روزِ قیامت آپ ﷺ کو عطا ہونے والے مراتب و درجات کا ذکر ہے اور یہ بھی موضوعاتِ میلاد میں سے ہیں۔
2۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أنا سيّد ولد آدم يوم القيامة ولا فخر، وبيدي لواء الحمد ولا فخر، وما من نبيّ يومئذ آدم فمن سواه إلا تحت لوائي، وأنا أوّل من تنشقّ عنه الأرض ولا فخر.
’’روزِ قیامت میں تمام اَولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور مجھے اِس پر کوئی فخر نہیں۔ اور اُس روز لواءِ حمد (حمدِ اِلٰہی کا جھنڈا) میرے ہاتھ میں ہوگا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ اور اُس روز آدم سمیت تمام نبی میرے جھنڈے تلے ہوں گے، اور میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جس کے (باہر نکلنے کے) لیے زمین کا سینہ کھولا جائے گا اور اس (اَوّلیت) پر مجھے فخر نہیں۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي
الله عليه وآله وسلم ، 5: 587، رقم: 3615
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب تفضيل نبيّنا علي جميع الخلائق، 4: 1782، رقم:
2278
3. ابن حبان، الصحيح، 14: 398، رقم: 6478
4. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 281
5. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 2
6. أبو يعلي، المسند، 13: 480، رقم: 7493
7. مقدسي، الأحاديث المختارة، 9: 455، رقم: 428
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
أنا أوّل من تنشقّ عنه الأرض، فأکسَي الحُلة من حُلل الجنة، ثم أقوم عن يمين العرش ليس أحد من الخلائق يقوم ذالک المقام غيري.
’’(روزِ قیامت) میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جس کے (باہر نکلنے کے) لیے زمین کا سینہ کھولا جائے گا، مجھے جنت کی پوشاکوں میں سے ایک پوشاک پہنائی جائے گی، پھر میں عرشِ الٰہی کے دائیں جانب اُس مقام پر کھڑا ہوں گا جہاں میرے علاوہ مخلوقات میں سے کوئی ایک (فرد) بھی کھڑا نہیں ہوگا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي
الله عليه وآله وسلم ، 5: 585، رقم: 3611
2. ابن کثير، البداية والنهاية، 10: 263
ہم اِن اَحادیث کو بہ طور حوالہ اس لیے لا رہے ہیں تاکہ یہ اَمر واضح ہو جائے کہ ان میں کسی قسم کے اَحکامِ شریعت یا حلال و حرام اور تبلیغ و دعوت یا سیرت وغیرہ کے کوئی پہلو بیان ہوئے ہیں نہ آپ ﷺ کے خلقِ عظیم کا کوئی ذکر ہوا ہے بلکہ ان میں تواتر کے ساتھ جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ حضور ﷺ کے فضائل و خصائص اور اَولادِ آدم علیہ السلام میں آپ ﷺ کے مقام و مرتبہ، بے مثال عظمت و رِفعت اور روحانی مدارج کا ذکر ہے۔ کتبِ اَحادیث میں فضائل و مناقب کے ذیل میں صرف یہی خاص مضمون بیان ہوئے ہیں اور اَصلاً یہ میلاد شریف کے مضامین ہیں۔
محفلِ میلاد کا پانچواں پہلو آپ ﷺ کی ولادت کے تذکار اور بہ وقتِ ولادت رونما ہونے والی روحانی علامات و آثار کے بیان پر مشتمل ہے۔ محافلِ میلاد میں ہم خصوصیت کے ساتھ آقائے دوجہاں ﷺ کی ولادت باسعادت اور ان خارق العادت روحانی آثار و علائم کا تذکرہ کرتے ہیں جو ان ساعتوں یا عہد نبوی ﷺ میں ظہور پذیر ہوئے تھے۔ پھر آپ ﷺ کے عہد شباب اور عمر مبارک کے چالیس سال کو پہنچنے پر پیغمبرانہ منصب پر فائز ہونے کے واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ تذکارِ میلاد میں ان فوق العادۃ روحانی واقعات اور آثار و علامات کے حوالے سے گفتگو ہوتی ہے۔ ان محیر العقول واقعات کو بیان کیا جاتا ہے جو ظہورِ قدسی کے وقت شہر مکہ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں پیش آئے، جن کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان بشارتوں اور پیشین گوئیوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو حضور خاتم النبیین ﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری سے متعلق سابقہ الہامی کتب میں مذکور ہیں۔ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک نسل در نسل اور گروہ در گروہ تمام انبیاء علیہم السلام آپ ﷺ کی آمد کے تذکرے کرتے رہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ کی صورت میں انجام پذیر ہوا۔ یہ سب بشارتیں جو کتبِ سابقہ اور صحائفِ آسمانی میں آپ ﷺ کے بارے میں مرقوم تھیں، میلاد کا موضوع بنتی ہیں۔ اِسی طرح حضور ﷺ کا حسب و نسب اور حضرت آدم علیہ السلام سے آگے جن پاک پشتوں میں آپ ﷺ کا نور منتقل ہوتا ہوا پہلوئے سیدہ آمنہ رضی الله عنہا میں دُرِّ یتیم کی صورت میں ظاہر ہوا اور وہ نوعِ اِنسانی کے لیے الله کے فضل اور نعمت کے طور پر جلوہ گر ہوا، میلاد کا نفسِ مضمون ہیں جن کا ذکر مولد یا میلاد کے موضوع میں ڈھل جاتا ہے۔
الغرض آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کے اَحوال اور رشکِ زمانہ سیدہ آمنہ اور سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی الله عنھما کی آغوشِ عاطفت میں آپ ﷺ کے عہد طفلی کے حالات و واقعات کا تذکرہ ان پاکیزہ محافل و مجالس میں قلب و روح کے تار ہلا دیتا ہے۔ آپ ﷺ کے معجزات و کمالات بیان کیے جاتے ہیں تو وجد و مستی کے ایسے مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں جنہیں صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، انہیں بیان کرنے کی سکت کسی قلم اور زبان میں نہیں۔
میلادالنبی ﷺ ایمان کو جلا بخشنے کا ایک انتہائی مؤثر و مجرب ذریعہ ہے۔ اس سے وہ قوت پیدا ہوتی ہے جسے علامہ اِقبال رحمۃ اللہ علیہ قوتِ عشق کا نام دیتے ہیں اور جس کی بدولت اسمِ محمد ﷺ کی ضیاء پاشیوں سے شبستانِ دہرمیں اُجالا کیا جا سکتا ہے۔ یہی جشنِ میلاد منانے کا مدعا و مقصود ہے۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ:
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اِسمِ محمد (ص) سے اُجالا کر دے
اِقبال، کلیات (اُردو)، بانگِ درا: 207
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved