یوں تو سارا سال حضور نبی اکرم ﷺ کے تذکارِ جمیل کی محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں لیکن جونہی ماہِ ربیع الاول کی آمد ہوتی ہے مسرتوں اور خوشیوں کا ایک سیلِ رواں شہر شہر، قریہ قریہ امڈ آتا ہے اور اہلِ ایمان وارفتگی کے عالم میں محافلِ میلاد اور جلسہ و جلوس کی صورت میں اپنے محبوب نبی ﷺ سے اپنی قلبی محبت و عقیدت کا اِظہار کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تھمتا نہیں بلکہ ایک دیدنی جوش و خروش کا رنگ اِختیار کر لیتا ہے۔ اس موقع پر گھر گھر چراغاں کیا جاتا ہے۔ مجالس و محافلِ میلاد کا خصوصی اہتمام ہوتاہے۔ میلادالنبی ﷺ کی خوشی اور احترام میں بپا کی جانے والی محافل میں عشقِ رسول ﷺ کے ترانے الاپے جاتے ہیں، قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے اور نعت گو شاعر، نعت خواں اور خطباء حضرات تحریر و تقریر اور نعت و بیان کے ذریعے حضور رحمت عالم ﷺ کے حضور اپنے اپنے گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔ الغرض ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق نظم و نثر کے پیرائے میں تخلیق و ولادت اور عظمت و شانِ مصطفیٰ ﷺ میں رطب اللسان ہوتا ہے۔
میلادالنبی ﷺ کے موقع پر خوشی و مسرت کا اِظہار کس کس طریقے سے کیا جاتا ہے؟ جشنِ مسرت مناتے وقت غلامانِ رسول ﷺ کے معمولات کیا ہوتے ہیں؟ وہ کون کون سے اَفعا عزوجل و اَعمال سر انجام دیتے ہیں؟ بہ اَلفاظِ دیگر جشن میلادالنبی ﷺ کے اَجزائے تشکیلی کون سے ہیں؟ زیرِ نظر باب میں ہم اسی حوالہ سے بحث کریں گے اور بنیادی اَجزائے تشکیلی یا عناصرِ ترکیبی قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کریں گے اور ان کا تحقیقی جائزہ پیش کریں گے کیوں کہ کسی بھی عمل کی حلت و حرمت اور اُس پر اَجر و ثواب یا عذاب و عتاب کا اندازہ اس اَمر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اِس عمل کے اَجزاء کون کون سے ہیں۔
میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے اَجزائے تشکیلی اور اِس کے اندر ہونے والی ایمان افروز اور روح پرور سرگرمیوں کو درجِ ذیل عنوانات کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے:
آئندہ صفحات میں اِن تمام اَجزاء کو علیحدہ علیحدہ فصل میں بالتفصیل بیان کیا جائے گا۔
عید میلادالنبی ﷺ کے پر مسرت موقع پر محافلِ نعت، مجالسِ ذکرِ مصطفیٰ ﷺ اور بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں درود و سلام پیش کرنے کے لیے خصوصی اِجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں۔ لوگ اِن محافل میںاِنتہائی عقیدت و اِحترام اور جوش و خروش سے شریک ہوتے ہیں اور اپنے قلوب و اَذہان کو محبوبِ خدا ﷺ کے ذکرِ جمیل سے معطر کرتے ہیں۔ اپنے میلاد کے بیان کے لیے خود تاجدارِ کائنات ﷺ نے بھی اِجتماعات کا اہتمام فرمایا۔ اِس ضمن میں متعدد اَحادیث موجود ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا:
يا رسول الله ! متی وجبت لک النبوة؟
’’یا رسول الله ! آپ کو شرفِ نبوت سے کب نوازا گیا؟‘‘
یہ ایک معمول سے ہٹا ہوا سوال تھا کیوں کہ صحابہ میں سے کون نہیں جانتا تھا کہ آپ ﷺ کی بعثت چالیس سال کی عمر مبارک میں ہوئی۔ لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِس سوال سے واضح ہے کہ وہ آپ ﷺ کی بعثت کے بارے میں نہیں پوچھ رہے تھے بلکہ وہ عالم بالا میں حضور ﷺ کی اُس روحانی زندگی کی اِبتداء کی بات کررہے تھے جب الله رب العزت نے آپ ﷺ کو خلعتِ نبوت سے سرفراز فرمایا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے جواب عطا کرتے ہوئے فرمایا:
وآدم بين الروح والجسد.
’’(میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم کی تخلیق ابھی رُوح اور جسم کے مرحلے میں تھی۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ، 5: 585، رقم: 3609
2۔ ابن مستفاض نے ’’کتاب القدر (ص: 27، رقم: 14)‘‘ میں کہا ہے کہ اِس کے رِجال ثقہ ہیں۔
3. تمام رازي، کتاب الفوائد، 1: 241، رقم: 581
4. ابن حبان، کتاب الثقات، 1: 47
5. لالکائي، اعتقاد أهل السنة، 1: 422، رقم: 1403
6. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2: 665، رقم: 4210
7. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2: 130
8. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 6: 569
9۔ ناصر الدین البانی نے اِس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے ’’صحیح السیرۃ النبویۃ (ص: 54، رقم: 53)‘‘ میں بیان کیا ہے۔
اِس حدیث سے مراد ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ اُس وقت بھی نبی تھے جب روح اور جسم سے مرکب حضرت آدم علیہ السلام کا خمیر ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوا تھا۔ اِس طرح حبیبِ خدا ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اپنی ولادت سے بھی پہلے اپنی تخلیق اور نبوت کے بارے میں آگاہ فرمایا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع سے خطبہ جمعہ کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً دینی و ایمانی، اَخلاقی و روحانی، علمی و فکری، سیاسی و سماجی، معاشی و معاشرتی، قانونی و پارلیمانی، اِنتظامی و اِنصرامی اور تنظیمی و تربیتی موضوعات پر خطبات اِرشاد فرماتے۔ اس کے علاوہ کبھی آپ ﷺ اپنی حسبی و نسبی فضیلت اوربے مثل ولادت پربھی گفتگو فرماتے۔ درج ذیل اَحادیثِ مبارکہ سے واضح ہے کہ آپ ﷺ نے خود اپنی تخلیق و ولادت کی خصوصیت و فضیلت کے بیان کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع کا اہتمام فرمایا۔
1۔ حضرت مطلب بن ابی وداعہ سے مروی ہے:
جاء العباس إلي رسول الله ﷺ فکأنه سمع شيئاً، فقام النّبي ﷺ علي المنبر، فقال: من أنا؟ فقالوا: أنت رسول الله ، عليک السّلام. قال: أنا محمد بن عبد الله بن عبد المطّلب، إن الله خلق الخلق فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم فرقتين، فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم قبائل، فجعلني في خيرهم قبيلة، ثم جعلهم بيوتاً، فجعلني في خيرهم بيتاً وخيرهم نسباً.
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، (اس وقت ان کی کیفیت ایسی تھی) گویا انہوں نے (حضور نبی اکرم ﷺ کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے (اور وہ حضور نبی اکرم ﷺ کو بتانا چاہتے تھے)۔ (حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات حضور ﷺ کو بتائے یا آپ ﷺ علمِ نبوت سے جان گئے) تو حضور ﷺ منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا: میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا: آپ پر سلام ہو، آپ الله تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں عبد اللہ کا بیٹا محمد ( ﷺ ) ہوں۔ الله تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس کو دو گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا اور ان میں سے بہترین گروہ (عرب) میں مجھے پیدا کیا۔ پھر الله تعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے پیدا کیا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الدعوات، 5: 543، رقم: 3532
2۔ ترمذی نے’’الجامع الصحیح (کتاب المناقب، باب فی فضل النبي ﷺ، 5: 584، رقم: 3608)‘‘
میں وخیرھم نسبا کی جگہ وخیرھم نفسا کے الفاظ بھی بیان کیے ہیں۔
3۔ احمدبن حنبل نے ’’المسند (1: 210، رقم: 1788)‘‘ میں آخر حدیث میں ’’فانا خیرکم بیتا
وخیرکم نفسا‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔
4. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 165
5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8: 216
6. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 1: 169
اس حدیث مبارکہ میں درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں:
(1) حضور نبی اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ جب کسی موضوع پر کوئی اَہم اور قابلِ توجہ بات تمام صحابہ کو بتانا مقصود ہوتی توآپ ﷺ اپنا خطبہ یا تقریر منبر پر کھڑے ہو کر اِرشاد فرماتے۔ اگر معمول کی کوئی بات ہوتی تو آپ ﷺ موقع پر موجود صحابہ کے گوش گزار کر دیتے لیکن منبر پر کھڑے ہو کر خاص نشست کا اہتمام عامۃ المسلمین تک کوئی خاص بات پہنچانے کے لیے ہوتاتھا۔ حدیثِ مذکورہ میں بھی حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر کھڑے ہو کر اِرشاد فرما رہے ہیں، اور یہ اِہتمام اِس اَمر کی طرف اشارہ ہے کہ آپ ﷺ صحابہ سے کوئی اہم بات کرنے والے ہیں۔
(2) حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے سوال کیا: ’’میں کون ہوں؟‘‘ سب نے عرض کیا: ’’آپ پر سلام ہو، آپ الله کے رسول ہیں۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہ جواب اگرچہ حق و صداقت پر مبنی تھا لیکن مقتضائے حال کے مطابق نہ تھا۔ اس دن اس سوال کا مقصد کچھ اور تھا اور آپ ﷺ اس کا جواب بھی مختلف سننا چاہتے تھے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی طرف سے متعلقہ جواب موصول نہ ہوا تو آپ ﷺ نے خود ہی فرمایا: ’’میں عبد الله کا بیٹا محمد ہوں۔‘‘ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ انہیں اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے باب میں کچھ ارشاد فرمانا چاہتے تھے۔ یہ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا وہ گوشہ ہے جس کا تعلق براہِ راست آپ ﷺ کے میلاد سے ہے۔ اگرچہ یہ وہ معلومات تھیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بہ خوبی جانتے تھے مگر اس کے باوجود آپ ﷺ کا اِس قدر اِہتمام کے ساتھ اس مضمون کو بیان فرمانے کا مقصد جشنِ میلاد کو اپنی سنت بنانا تھا۔
(3) مذکورہ حدیث میں اَحکامِ اِلٰہی بیان ہوئے ہیں نہ اَعمال و اَخلاق سے متعلق کوئی مضمون بیان ہوا ہے بلکہ آپ ﷺ نے لوگوں کو اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے بارے آگاہ فرمایا ہے جو موضوعاتِ میلاد میں سے ہے۔
(4) حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ بیان انفرادی سطح پر نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اجتماع سے تھا جو خصوصی اِنتظام و اِنصرام کی طرف واضح اِشارہ ہے۔
کتبِ حدیث اور سیرت و فضائل میں سے امام بخاری (194۔ 256ھ)، امام مسلم (206۔ 261ھ)، امام ترمذی (210۔ 279ھ)، قاضی عیاض (476۔ 544ھ)، علامہ قسطلانی (851۔ 923ھ)، علامہ نبہانی (1265۔ 1350ھ) جیسے نام وَر اَئمہ و محدثین اور شارحین کی تصانیف میں ایسی بے شمار احادیث موجود ہیں جن کا تعلق کسی شرعی مسئلہ سے نہیں بلکہ آپ ﷺ کی ولادت، حسب و نسب، خاندانی شرافت و نجابت اور ذاتی عظمت و فضیلت سے ہے۔
2۔ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی الله عنھما روایت کرتے ہیں:
قلت: يارسول الله ! إن قريشاً جلسوا فتذاکروا أحسابهم بينهم، فجعلوا مثلک کمثل نخلة في کبوة من الأرض، فقال النّبيّ ﷺ : إن الله خلق الخلق فجعلني من خيرهم من خير فرقهم وخير الفريقين، ثم تخيّر القبائل فجعلني من خير قبيلة، ثم تخيّر البيوت فجعلني من خير بيوتهم، فأنا خيرهم نفساً وخيرهم بيتا.
’’میں نے عرض کیا: یارسول الله ! قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اُس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔ اِس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں رکھا اور ان کے بہترین گروہ میں رکھا اور دونوں گروہوں میں سے بہترین گروہ میں بنایا، پھر قبائل کو منتخب فرمایا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے بہتر گھرانے میں رکھا، پس میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب في فضل النبي
ﷺ، 5: 584، رقم: 3607
2. أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2: 937، رقم: 1803
3. أبو يعلي، المسند، 4: 140، رقم: 1316
3۔ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمتِ عالم ﷺ نے فرمایا:
إن الله اصطفي من ولد إبراهيم إسماعيل، واصطفي من ولد إسماعيل بني کنانة، واصطفي من بني کنانة قريشاً، واصطفي من قريش بني هاشم، واصطفاني من بني هاشم.
’’بے شک ربِ کائنات نے اِبراہیم (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے اِسماعیل (علیہ السلام) کو منتخب فرمایا، اور اِسماعیل (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے بنی کنانہ کو، اور اَولادِ کنانہ میں سے قریش کو، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو، اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ اِنتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ،
5: 583، رقم: 3605
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي ﷺ وتسليم الحجر عليه قبل النبوة،
4: 1782، رقم: 2276
3. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 107
4. ابن أبي شيبة، المصنف، 6: 317، رقم: 31731
5. أبو يعلي، المسند، 13: 469، 472، رقم: 7485، 7487
6. طبراني، المعجم الکبير، 22: 66، رقم: 161
7. بيهقي، السنن الکبري، 6: 365، رقم: 12852
8. بيهقي، شعب الإيمان، 2: 139، رقم: 1391
اِس حدیث میں آپ ﷺ نے اپنا پورا سلسلۂ نسب بیان فرما دیا ہے۔ آپ ﷺ نے اصطفی کا لفظ اس لیے بیان کیا کہ صاحبِ نسب، مصطفیٰ ﷺ (چُنے ہوئے) ہیں اور پورے نسبی سلسلہ کو یہ صفاتی لقب دیا گیا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے بیانِ میلاد کے علاوہ اپنی شرف و فضیلت بیان کرنے کے لیے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع کا اہتمام فرمایا:
1۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
جلس ناس من أصحاب رسول الله ﷺ ينتظرونه، قال: فخرج حتي إذا دنا منهم سمعهم يتذاکرون فسمع حديثهم، فقال بعضهم عجباً: إنَ الله عزوجل اتّخذ من خلقه خليلاً، اتّخذ إبراهيم خليلاً، وقال آخر: ماذا بأعجب من کلام موسي کلّمه تکليماً، وقال آخر: فعيسي کلمة الله وروحه، وقال آخر: آدم اصْطفاه الله . فخرج عليهم فسلّم، وقال ﷺ : قد سمعت کلامکم وعجبکم أن إبراهيم خليل الله وهو کذلک، وموسٰي نجي الله وهو کذالک، وعيسي روح الله وکلمته وهو کذلک، وآدم اصْطفاه الله وهو کذلک، ألا! وأنا حبيب الله ولا فخر، أنا حامل لواء الحمد يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول شافعٍ وأول مشفعٍ يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول من يحرک حلق الجنة فيفتح الله لي فيدخلنيها، ومعي فقراء المومنين ولا فخر، وأنا أکرم الأوّلين والآخرين ولا فخر.
’’رسول اکرم ﷺ کے کئی صحابہ آپ ﷺ کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں آپ ﷺ باہر تشریف لے آئے، جب ان کے قریب ہوئے تو سنا کہ وہ آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا: بڑے تعجب کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے (ابراہیم علیہ السلام کو اپنا) خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا: یہ اس سے زیادہ تعجب انگیز نہیں ہے کہ خدا نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا۔ تیسرے نے کہا: عیسیٰ علیہ السلام تو اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ چوتھے نے کہا: آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ کیا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ ان کے حلقے میں تشریف لے آئے، سلام کیا اور فرمایا: میں نے تم لوگوں کا کلام اور اِظہارِ تعجب سن لیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل ہیں، بے شک وہ ایسے ہی ہیں۔ اور موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرنے والے ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ اور عیسیٰ علیہ السلام اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ اور آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا اور وہ ایسے ہی ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ! میں اللہ کا حبیب ہوں لیکن میں فخر نہیں کرتا اور میں قیامت کے دن لواءِ حمد (حمد کا جھنڈا) اٹھانے والا ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، اور میں قیامت کے دن سب سے پہلا شفیع اور سب سے پہلا مشفع ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں اور میں پہلا شخص ہوں گا جو بہشت کے دروازے کی زنجیر ہلائے گا اور اللہ تعالیٰ اسے میرے لیے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ وہ مومنین ہوں گے جو فقیر (غریب و مسکین) تھے لیکن مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں، اور اَوّلین و آخرین میں سب سے زیادہ مکرّم و محترم میں ہی ہوں اور مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل
النبي ﷺ، 2: 202، رقم: 3616
2. دارمي، السنن 1: 39، رقم: 47
3. بغوي، شرح السنة، 13: 198، 204، رقم: 3617، 3625
4. رازي، مفاتيح الغيب (التفسير الکبير)، 6: 167
5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1: 560
6. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 2: 705
2۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
أن النّبيّ ﷺ خرج يوماً فصلي علي أهل أحد صلا ته علي الميت، ثم انصرف إلي المنبر، فقال: إني فرط لکم وأنا شهيد عليکم، وإني و الله ! لأنظر إلي حوضي الآن، وإني أعطيت مفاتيح خزائن الأرض أو مفاتيح الأرض، وإني و الله ! ما أخاف عليکم أن تشرکوا بعدي، ولکن أخاف عليکم أن تنافسوا فيها.
’’ایک روز حضور ﷺ باہر (میدانِ اُحد کی طرف) تشریف لے گئے، پس آپ ﷺ نے شہدائے اُحد پر نمازِ جنازہ کی طرح نماز پڑھی، پھر آپ ﷺ منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا: بے شک میں تمہارا پیش رَو ہوں اور میں تم پر گواہ (یعنی تمہارے اَحوال سے باخبر) ہوں۔ الله کی قسم! میں اِس وقت حوضِ کوثر دیکھ رہا ہوں اور مجھے روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے، البتہ یہ خوف ضرور ہے کہ تم دنیا پرستی میں باہم فخر و مباہات کرنے لگو گے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب الصلاة علي الشهيد، 1:
451، رقم: 1279
2. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة، 3: 1317، رقم: 1401
3. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب أحد يحبنا، 4: 1498، رقم: 3857
4. بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب ما يحذرمن زهرة الدنيا والتنافس فيها، 5: 2361،
رقم: 6062
5. بخاري، الصحيح، کتاب الحوض، باب في الحوض، 5: 2408، رقم: 6218
6. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات الحوض، 4: 1795، رقم: 2296
7. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 149، 153
8. ابن حبان، الصحيح، 7: 473، رقم: 3168
9. ابن حبان، الصحيح، 8: 18، رقم: 3224
اِس حدیثِ مبارکہ کے الفاظ۔ ثم انصرف الی المنبر (پھر آپ ﷺ منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے)۔ سے ایک سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا قبرستان میں بھی منبر ہوتا ہے؟ منبر تو خطبہ دینے کے لیے مساجد میں بنائے جاتے ہیں، وہاں کوئی مسجد نہ تھی، صرف شہدائے اُحد کے مزارات تھے۔ اُس وقت صرف مسجد نبوی ﷺ ہی میں منبر ہوتا تھا۔ اس لیے شہدائے احد کی قبور پر منبر کا ہونا بظاہر ایک ناممکن سی بات نظر آتی ہے۔ مگر در حقیقت حضور ﷺ کے حکم پر شہدائے اُحد کے قبرستان میں منبر نصب کرنے کا اِہتمام کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ منبر شہر مدینہ سے منگوایا گیا یا پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ساتھ ہی لے کر گئے تھے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اتنا اہتمام کس لیے کیا گیا؟ یہ سارا اِہتمام و اِنتطام حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل ومناقب کے بیان کے لیے منعقد ہونے والے اُس اِجتماع کے لیے تھا جسے آقا ﷺ خود منعقد فرما رہے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اس اجتماع میں حضور ﷺ نے تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنا شرف اور فضیلت بیان فرمائی جس کے بیان پر پوری حدیث مشتمل ہے۔ اِس طرح یہ حدیث جلسۂ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کی واضح دلیل ہے۔
مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے شرف و فضیلت کو بیا ن کرنے کے لیے اِجتماع کا اہتمام کرنا خود سنتِ رسول ﷺ ہے۔ لہٰذا میلادِ مصطفیٰ ﷺ کی محافل سجانا اور جلسوں کا اِہتمام کرنا مقتضائے سنتِ رسول ﷺ ہے۔ آج کے پُر فتن دور میں ایسی محافل و اِجتماعات کے اِنعقاد کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے تاکہ اُمت کے دلوں میں تاجدارِ کائنات ﷺ کی عشق و محبت نقش ہو اور لوگوں کو آپ ﷺ کی تعلیمات اور اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی ترغیب دی جائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved