میلاد النبی ﷺ

قرآن۔ ۔ ۔ تذکرۂ میلاد انبیاء

گزشتہ اَبواب میں ہم نے مختلف شعائرِ اِسلام کا اِس حوالہ سے جائزہ لیا کہ وہ اَنبیاء علیھم السلام کی یادگار ہیں، جو اُمتِ مسلمہ کے لیے عبادات کے طور پر لازم ہوئی ہیں۔ جب دیگر اَنبیاء کرام کے واقعات کی یاد مناتے ہوئے ہم مختلف اَعمال بہ طور عبادت بجا لاتے ہیں تو حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد کیوں نہ منائی جائے! قرآن حکیم کا بہ غور مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مقربانِ اِلٰہی کے واقعاتِ ولادت بیان کرنا سنتِ اِلٰہیہ ہے۔ ذیل میں ہم قرآن حکیم میں مذکور واقعاتِ میلاد بیان کریں گے :

میلاد نامہ کا پس منظر

عرب ممالک میں اَئمہ و محدثین اور علماء حق نے آقا علیہ السلام کے میلاد کے موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ اہلِ عرب کے ہاں میلاد کے بیان کو عرفِ عام میں ’’مولد‘‘ ’’موالید‘‘ یا ’’مولود‘‘ پڑھنا کہتے ہیں۔ اس لیے ایسی کتابوں یا مضامین کو جس میں حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد کے واقعات اور آپ ﷺ کی برکات کا تذکرہ ہو ’’مولود‘‘ کہا جاتا ہے۔ عرب ممالک میں اہلِ محبت مسلمانوں کے ہاں اکثر و بیشتر اب بھی یہی طریقہ رائج ہے کہ جب ماہ ربیع الاول آتا ہے تو وہ محافلِ میلاد میں ذوق و شوق سے مولود خوانی کرتے ہیں۔ حجاز مقدس میں آج بھی نثر و نظم کی صورت میں مولود کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں۔ مدینہ طیبہ، مکہ معظمہ، شام، مصر، عراق، عمان، اُردن، عرب امارات، کویت، لیبیا اور مراکش جیسے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کے ہر ملک میں اَئمہ و محدثین کے تصنیف کردہ مولودبہت مقبول ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے واقعاتِ ولادت کے بیان کو جسے اہلِ عرب مولد یا مولود کہتے ہیں، اُردو میں ’’میلاد نامہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

تذکارِ اَنبیاء سنتِ اِلٰہیہ ہے

بعض تجدد پسند ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت تو ہو چکی اور اس کے آثار و واقعات بھی رونما ہو چکے، فی زمانہ اس کے ذکر و بیان کی کیا ضرورت ہے؟ لہٰذا اب حضور ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور اُسوۂ حسنہ ہی بیان کیا جائے۔ یہ سوچ غیر قرآنی ہے جس کا اِزالہ اَز حد ضروری ہے۔

قرآن و سنت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندوں کا ذکر کرنا نہ صرف عبادت ہے بلکہ یہ خالقِ کائنات کی سنت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید میں جابجا اپنے صالح و مقرب بندوں بالخصوص انبیاء علیہم السلام کا ذکر بالالتزام فرماتا ہے کیوں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے مقبول اور منتخب بندے ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ان کی ولادت اور سیرت دونوں مذکور ہیں۔ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے تذکار اللہ تعالیٰ کی سنت اور حکم کے طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید حضورنبی اکرم ﷺ کی زبان اَقدس سے کئی بار تلاوت کیا گیا۔ اس بناء پر انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت باسعادت کے واقعات اور ان کی جزئیات تک کا ذکر کرتے رہنا سنتِ الٰہیہ بھی ہے اور خود سنتِ مصطفیٰ ﷺ بھی۔ انبیاء علیہم السلام کے حالات و واقعات کا ذکر کرنا کتنا باعثِ خیر و برکت ہے اس کی تفصیل قرانی آیات کی روشنی میں ہمارے سامنے ہے۔ یوں تو قرآن مجید نے انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں کے حالات و واقعات کو جا بجا تفصیل سے بیان کیا ہے مگر کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں انبیاء و مقربین کے ذکر کو ہی عنوانِ کلام بنایا گیا۔ اس حوالے سے بطور نمونہ چند آیات درج ذیل ہیں :

1۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الانعام میں انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلاًّ فضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَO وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍO

’’اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط (کو بھی ہدایت سے شرف یاب فرمایا) اور ہم نے ان سب کو (اپنے زمانے کے) تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی۔ اور ان کے آباء (و اجداد) اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی (بعض کو ایسی فضیلت عطا فرمائی) اور ہم نے انہیں (اپنے لطفِ خاص اور بزرگی کے لیے) چن لیا تھا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرما دی تھی۔‘‘

القرآن، الأنعام، 6 : 86، 87

2۔ قرآن حکیم کی چودھویں سورت کا نام ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے خلیل اِبراہیم علیہ السلام کے نام پر رکھا۔ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام کے حوالہ سے فرمایا :

الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِO

’’سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحق (دو فرزند) عطا فرمائے، بے شک میرا رب دعا خوب سننے والا ہے۔‘‘

ابراهيم، 14 : 39

3۔ سورئہ مریم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کے اَذکار سے بھری پڑی ہے، اس میں انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر تواتر کے ساتھ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کے ذکر سے آغاز کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا :

ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّاO إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّاO

’’یہ آپ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے (جو اُس نے) اپنے (برگزیدہ) بندے زکریا پر (فرمائی تھی)۔ جب انہوں نے اپنے رب کو (ادب بھری) دبی آواز سے پکارا۔ ‘‘

مريم، 19 : 2، 3

4. وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّاO

’’اور (ہم نے) اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا)، اور وہ بڑے پرہیزگار تھے۔ ‘‘

مريم، 19 : 13

5. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّاO

’’اور (اے حبیبِ مکرم!) آپ کتاب (قرآن مجید) میں مریم کا ذکر کیجئے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر (عبادت کے لیے خلوت اختیار کرتے ہوئے) مشرقی مکان میں آگئیں۔ ‘‘

مريم، 19 : 16

6. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّاO

’’اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم کا ذکر کیجئے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے۔ ‘‘

مريم، 19 : 41

7. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَى إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولاً نَّبِيًّاO

’’اور (اس) کتاب میں موسیٰ کا ذکر کیجئے، بے شک وہ (نفس کی گرفت سے خلاصی پا کر) برگزیدہ ہو چکے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے۔ ‘‘

مريم، 19 : 51

8. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولاً نَّبِيًّاO وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّاO

’’اور آپ (اس) کتاب میں اسماعیل کا ذکر کریں، بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے۔ اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضور مقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی اُن کا رب اُن سے راضی تھا)۔ ‘‘

مريم، 19 : 54، 55

9۔ حضرت اِدریس علیہ السلام کے حوالہ سے فرمایا :

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّاO وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّاO

’’اور (اس) کتاب میں اِدریس کا ذکر کیجئے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے۔ اور ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھالیا تھا۔ ‘‘

مريم، 19 : 56، 57

10۔ اِسی طرح سورۃ الانبياء بھی انبیائے کرام کے محبوب تذکروں سے بھرپور ہے، حتیٰ کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے مسلسل تذکرے سے قبل آیت نمبر 50 میں تمہیداً یہ کلمات ارشاد فرمائے گئے :

وَهَذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ أَفَأَنتُمْ لَهُ مُنكِرُونَO

’’اور یہ (قرآن) برکت والا ذکر ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، کیا تم اس سے انکار کرنے والے ہو۔ ‘‘

الأنبياء، 21 : 50

11۔ ’’ذکرِ مبارک‘‘ کا عنوان دے کر اگلی آیت سے جد الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر شروع کیا گیا۔ ارشاد فرمایا :

وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَO

’’اور بے شک ہم نے پہلے سے ہی ابراہیم کو ان کے (مرتبہ کے مطابق) فہم و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ان (کی اِستعداد و اہلیت) کو خوب جاننے والے تھے۔ ‘‘

الأنبياء، 21 : 51

12۔ پھر ان کے تفصیلی تذکرہ کے بعد حضرت لوط، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کا ذکر ہے، جس کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے :

وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِينَO

’’اور ہم نے ان سب کو صالح بنایا تھا۔ ‘‘

الأنبياء، 21 : 72

13۔ پھر آیت نمبر 73 میں ان کے دیگر فرائضِ منصبی کے باب میں فرمایا گیا :

وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَO

’’اور ہم نے انہیں(اِنسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اَعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکٰوۃ ادا کرنے (کے احکام) کی وحی بھیجی، اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے۔ ‘‘

الأنبياء، 21 : 73

14۔ اس کے بعد آیت نمبر 76 سے لے کر آیت نمبر 84 تک حضرت نوح، حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت ایوب علیہم السلام کا تذکرہ ہے۔ آخر میں حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَى لِلْعَابِدِينَO

’’تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف (پہنچ رہی) تھی سو ہم نے اسے دور کر دیا اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال (بھی) عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (عطا فرما دیے) یہ ہماری طرف سے خاص رحمت اور عبادت گزاروں کے لیے نصیحت ہے (کہ اللہ صبر و شکر کا اجر کیسے دیتا ہے)۔ ‘‘

الأنبياء، 21 : 84

15۔ پھر اگلی آیات میں حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور حضرت ذو الکفل علیہم السلام کا یوں تذکرہ فرمایا :

وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِينَO وَأَدْخَلْنَاهُمْ فِي رَحْمَتِنَا إِنَّهُم مِّنَ الصَّالِحِينَO

’’اور اسماعیل اور ادریس اور ذو الکفل (کو بھی یاد فرمائیں)، یہ سب صابر لوگ تھے۔ اور ہم نے انہیں اپنے (دامنِ) رحمت میں داخل فرمایا، بے شک وہ نیکوکاروں میں سے تھے۔ ‘‘

الأنبياء، 21 : 85، 86

16۔ اس کے بعد آیت نمبر 87 تا آیت نمبر 90 میں حضرت یونس (جنہیں ذوالنون کے لقب سے یاد فرمایا گیا ہے)، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہم السلام کا ذکر فرمایا اور آخر میں حسبِ سابق ان کے قلبی احوال اور روحانی کیفیات یوں بیان فرمائیں :

إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَO

’’بے شک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجز و نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھے۔ ‘‘

الأنبياء، 21 : 90

17۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب و مقرب اور برگزیدہ بندوں کے ذکر کی مقصدیت اور غرض و غایت کے حوالے سے یوں ارشاد فرمایا :

إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِّقَوْمٍ عَابِدِينَO

’’بے شک اس میں عبادت گزاروں کے لیے (حصولِ مقصد کی) کفایت و ضمانت ہے۔ ‘‘

الأنبياء، 21 : 106

18۔ پھر اس سورت میں مقبولانِ حق کے ذکر کا سارا سلسلہ محبوبانِ عالم کے سرتاج رحمتِ کونین ﷺ پر جا کر ختم ہوا۔ آیت نمبر 107 کا اختتام حضور نبی اکرم ﷺ کے ذکرِ جمیل سے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔ ‘‘

الأنبياء، 21 : 107

19۔ اس کے بعد اس سورت میں کسی اور نبی اور رسول کا ذکر نہیں فرمایا گیا کیوں کہ تذکرۂ محبت اپنے معراج اور نقطۂ کمال کو پہنچ چکا۔ ذکرِ مصطفیٰ ﷺ کے بعد جس آیتِ کریمہ پر سورۃ الانبياء ختم فرمائی وہ ذکرِ رحمان ہے۔ ارشاد فرمایا :

قَالَ رَبِّ احْكُم بِالْحَقِّ وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَO

الأنبياء، 21 : 112

’’(ہمارے حبیب نے) عرض کیا : اے میرے رب! (ہمارے درمیان) حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے، اور ہمارا رب بے حد رحم فرمانے والا ہے اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے ان (دل آزار) باتوں پر جو (اے کافرو!) تم بیان کرتے ہو۔ ‘‘

20۔ اللہ تعالیٰ نے سورئہ ص میں اِرشاد فرمایا :

وَاذْكُرْ إِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ وَكُلٌّ مِّنْ الْأَخْيَارِO

ص، 38 : 48

’’اور (اسی طرح) اسمٰعیل اور الیسع اور ذو الکفل کا ذکر کیجئے، اور یہ سبھی نیک لوگوں میں سے تھے۔ ‘‘

ہم نے صرف پانچ سورتوں میں سے چند منتخب آیات بیان کی ہیں ورنہ قرآن مجید میں بے شمار ایسے مقامات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرب بندوں کے تذکرے فرمائے ہیں اور یکے بعد دیگرے سب کے روحانی مشاغل و معمولات کا ذکر کیا ہے۔ الله تعالیٰ نے اپنے مقربین کی دعاؤں اور مناجات کے کلمات۔ جن سے وہ اللہ کو پکارتے تھے ۔ بھی من و عن بیان کر دیے، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے خاص اَوقاتِ دعا، اَندازِ دعا اور مقاماتِ دعا و گریہ تک بیان فرما دیئے۔ اس پر مستزاد ان پر اپنی غیبی نوازشات کے ساتھ ان کی آزمائشیں، ریاضات، مجاہدات، ان کی ثابت قدمی اور اُولو العزمی بیان فرما دی۔ الغرض ان کے ذکر کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ اس بیان سے ہمیں بار بار اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ یہ سب التزام عبادت گزاروں اور اِطاعت شعاروں کے لیے ہے۔ جو کوئی اللہ کی اطاعت و عبادت اور محبوبیت و مقرّبیت کی راہ تک رسائی حاصل کرنا چاہے تواس کے لیے یہی تذکرے نشانِ منزل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے لے کر آج تک تاریخِ اسلام کے ہر دور میں حضور تاجدارِ کائنات ﷺ کی پاکیزہ سیرت اور حسنِ صورت کا بیان کرنا ہر صاحبِ ایمان و محبت کا شیوہ رہا ہے۔ ائمہ و محدثین، علماء کاملین اور اولیاء و عارفین سب اپنے اپنے ذوق اور بساط کے مطابق ذکرِ مصطفیٰ ﷺ کی محافل کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں اور ہر دور میں اس حوالے سے صدہا کتب تصنیف و تالیف کی جاتی رہی ہیں تاکہ اس سنتِ الہٰیہ پر عمل کی برکات دوسروں کو بھی نصیب ہوں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کا میلاد بیان کیا ہے۔ قرآن مجید کی کئی شانوں میں سے ایک شان یہ بھی ہے کہ یہ میلاد نامۂ انبیاء علیہم السلام ہے اور میلاد پڑھنے والی ذات خود ربِ کائنات ہے۔ لہٰذا اس اعتبارسے محبوبِ خدا ﷺ کا میلاد پڑھنا سنتِ الٰہیہ ہے۔

میلادِ انبیاء علیہم السلام کی اہمیت

ولادت ہر انسان کے لیے خوشی و مسرت کا باعث ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یومِ پیدائش کی ایک خاص اہمیت نظر آتی ہے، اور یہ اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ان دنوں کی نسبت انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف ہو۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت فی نفسہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ ہے۔ ہر نبی کی نعمتِ ولادت کے واسطہ سے اس کی اُمت کو باقی ساری نعمتیں نصیب ہوئیں۔ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کے صدقے امتِ محمدی ﷺ کو بعثت و نبوتِ محمدی ﷺ کی نعمتِ ہدایتِ آسمانی اور وحی ربانی کی نعمتِ نزولِ قرآن اور ماہ رمضان کی نعمت، جمعۃالمبارک اور عیدین کی نعمت، شرف و فضیلت اور سنت و سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کی نعمت، الغرض جتنی بھی نعمتیں ایک تسلسل کے ساتھ عطا ہوئیں، ان ساری نعمتوں کا اصل موجب اور مصدر ربیع الاوّل کی وہ پرنور، پرمسرت اور دل نشین و بہار آفریں سحر ہے جس میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت ہوئی اور وہ بابرکت دن ہے جس میں آپ ﷺ کی اس دنیائے آب و گل میں تشریف آوری ہوئی۔ لہٰذا حضورنبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت پر خوش ہونا اور جشن منانا ایمان کی علامت اور اپنے آقا نبئ محتشم ﷺ کے ساتھ قلبی تعلق کا آئینہ دار ہے۔

قرآن مجید نے بعض انبیاء کرام علیہم السلام کے ایام ولادت کا تذکرہ فرما کر اس دن کی اہمیت و فضیلت اور برکت کو واضح کیا ہے :

1۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّاO

’’اور یحییٰ پر سلام ہو، ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔ ‘‘

مريم، 19 : 15

2۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کلام کی نسبت کرکے قرآن مجید فرماتا ہے :

وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّاO

’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ ‘‘

مريم، 19 : 33

3۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کی ولادت کا ذکر مبارک قسم کے ساتھ بیان فرمایا۔ ارشاد فرمایا :

لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَO

’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی۔ ‘‘

البلد، 90 : 1 - 3

اگر ولادت کا دن قرآن و سنت اور شریعت کے نقطہ نظر سے خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو اس دن پر بطور خاص سلام بھیجنا اور قسم کھانے کا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟ لہٰذا اسی اہمیت کے پیشِ نظر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کے میلاد کا ذکر فرمایا ہے۔ بطور حوالہ ذیل میں چند جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کے میلاد کا تذکرہ کیا جاتا ہے :

1۔ میلاد نامۂ آدم علیہ السلام

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب اور برگزیدہ بندوں میں سے سب سے پہلے ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً.

’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘

الله رب العزت نے سیدنا آدم علیہ السلام کے میلاد کا ذکر ان کی تخلیق سے بھی پہلے فرما دیا، جس کا ذکر مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ہوا ہے۔ پھر جب خالقِ کائنات نے آدم علیہ السلام کے پیکرِ بشری کی تخلیق فرمائی اور تمام فرشتوں کو اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا تو ابلیس نے نافرمانی کی اور راندۂ درگاہ ہوا۔ تخلیقِ آدم علیہ السلام کی اس پُرکیف داستان کا ذکر قرآن مجید نے تفصیلاً کر دیا ہے :

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍO فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَO فَسَجَدَ الْمَلآئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَO إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَO

’’اور (وہ واقعہ یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایاکہ میں سن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوں۔ پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لاچکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا۔ پس (اس پیکرِ بشری کے اندر نورِ ربانی کا چراغ جلتے ہی) سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیا۔ سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا۔ ‘‘

الحجر، 15 : 28 - 31

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے، صرف پیدائش کا ہی نہیں بلکہ ان کی حیاتِ طیبہ کے کئی پہلوؤں کا ذکر موجود ہے، جیسے جنت میں ان کے رہن سہن، تخلیقِ آدم پر فرشتوں کے خیالات، شیطان مردود کا اعتراض اور پیکرِ آدم کو سجدہ نہ کرنے کا ذکر بھی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ انسانی تخلیق سے متعلق جتنی آیات ہیں ان کا اوّلین مصداق سیدنا آدم علیہ السلام ہیں جن کے احوال کو تفصیل سے قرآنِ مجید کی زینت بنایا گیا ہے۔ یہی ان کا ’’میلاد نامہ‘‘ ہے۔

2۔ میلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام

سیدنا موسیٰ علیہ السلام وہ جلیل القدر نبی ہیں جنہوں نے فرعون جیسے ظالم، جابر اور سرکش شخص کو للکارا جو زمین پر خدائی کا دعوے دار بنا بیٹھا تھا۔ اللہ رب العزت نے ان کی بعثت کے ذریعہ بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دی اور فرعون کو غرق کرکے ہمیشہ کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل فرعون نے بنی اسرائیل پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔ جب اسے شاہی نجومیوں نے بتایا کہ بنی اسرائیل میں کسی ایسے بچے کی پیدائش ہونے والی ہے جس کے ذریعہ بنی اسرائیل تمہاری محکومی سے نجات پا لیں گے تو اس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانے شروع کر دیے۔ لڑکوں کو ذبح کروا دیتا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا۔ ان حالات میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی جسے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

سورۃ القصص کا آغاز ہی قصۂ موسیٰ و فرعون سے ہوا ہے جو کہ 50 آیات مبارکہ پر مشتمل ہے۔ پہلے 5 رکوعات مسلسل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے وقف ہیں۔ ذیل میں ہم میلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام کے ضمن میں سورۃ القصص کی ابتدائی 14 آیات بمع ترجمہ دے رہے ہیں جن میں باری تعالیٰ نے ان کی پیدائش سے لے کر جوانی تک کا ذکر بڑے بلیغ انداز سے کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ اپنے محبوب بندوں کا میلاد پڑھنا میری سنت ہے۔ ارشاد فرمایا :

طسمO تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِO نَتْلُوا عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَى وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَO إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَO وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَO وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَO وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَO فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَO وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّي وَلَكَ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَى أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَO وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَى فَارِغًا إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَO وَقَالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ فَبَصُرَتْ بِهِ عَن جُنُبٍ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَO وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَO فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَO وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَO

القصص، 28 : 1 - 14

’’طا، سین، میم (معنی اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں)۔ یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔ (اے حبیبِ مکرم!) ہم آپ پر موسیٰ اور فرعون کے حقیقت پر مبنی حال میں سے ان لوگوں کے لیے کچھ پڑھ کر سناتے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔ بے شک فرعون زمین میں سرکش و متکبر (یعنی آمرِ مطلق) ہوگیا تھا اور اس نے اپنے (ملک کے) باشندوں کو (مختلف) فرقوں (اور گروہوں) میں بانٹ دیا تھا اس نے ان میں سے ایک گروہ (یعنی بنی اسرائیل کے عوام) کو کمزور کر دیا تھا کہ ان کے لڑکوں کو (ان کے مستقبل کی طاقت کچلنے کے لیے) ذبح کر ڈالتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا (تاکہ مردوں کے بغیر ان کی تعداد بڑھے اور ان میں اخلاقی بے راہ روی کا اضافہ ہو)، بے شک وہ فساد انگیز لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ایسے لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں (حقوق اور آزادی سے محرومی اور ظلم و استحصال کے باعث) کمزور کر دیے گئے تھے اور انہیں (مظلوم قوم کے) رہبر و پیشوا بنا دیں اور انہیں (ملکی تخت کا) وارث بنا دیں۔ اور ہم انہیں ملک میں حکومت و اقتدار بخشیں اور فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجوں کو وہ (انقلاب) دکھا دیں جس سے وہ ڈرا کرتے تھے۔ اور ہم نے موسیٰ کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو پھر جب تمہیں ان پر (قتل کر دیے جانے کا) اندیشہ ہوجائے تو انہیں دریا میں ڈال دینا اور نہ تم (اس صورت حال سے) خوف زدہ ہونا اور نہ رنجیدہ ہونا، بے شک ہم انہیں تمہاری طرف واپس لوٹانے والے ہیں اور انہیں رسولوں میں (شامل) کرنے والے ہیں۔ پھر فرعون کے گھر والوں نے انہیں (دریا سے) اٹھا لیا تاکہ وہ (مشیتِ الٰہی سے) ان کے لیے دشمن اور (باعثِ) غم ثابت ہوں، بے شک فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجیں سب خطا کار تھے۔ اور فرعون کی بیوی نے (موسیٰ کو دیکھ کر) کہا کہ (یہ بچہ) میری اور تیری آنکھ کے لیے ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا بنالیں اور وہ (اس تجویز کے انجام سے) بے خبر تھے۔ اور موسیٰ کی والدہ کا دل (صبر سے) خالی ہوگیا، قریب تھا کہ وہ (اپنی بے قراری کے باعث) اس راز کو ظاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل پر صبر و سکون کی قوت نہ اتارتے تاکہ وہ (وعدہء الٰہی پر) یقین رکھنے والوں میں سے رہیں۔ اور (موسیٰ کی والدہ نے) ان کی بہن سے کہا کہ (ان کا حال معلوم کرنے کے لیے) ان کے پیچھے جاؤ، سو وہ انہیں دور سے دیکھتی رہی اور وہ لوگ (بالکل) بے خبر تھے۔ اور ہم نے پہلے ہی سے موسیٰ پر دائیوں کا دودھ حرام کردیا تھا سو (موسیٰ کی بہن نے) کہا : کیا میں تمہیں ایسے گھروالوں کی نشاندہی کروں جو تمہارے لیے اس (بچے) کی پرورش کر دیں اور وہ اس کے خیر خواہ (بھی) ہوں۔ پس ہم نے موسیٰ کو (یوں) ان کی والدہ کے پاس لوٹا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور تاکہ وہ (یقین سے) جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ (نبوت) اور علم و دانش سے نوازا، اور ہم نیکو کاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں۔ ‘‘

ان چودہ آیاتِ بینات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کے حالات، ان کی پیدائش، ان کے بہ اَمرِ الٰہی صندوق میں ڈالے جانے، پھر فرعون کے محل میں پرورش پانے اور رضاعت کے لیے ان کی والدہ کی طرف لوٹائے جانے اور پھر جوانی اور بعثت یعنی ایک ایک چیز کا بیان ہوا۔ اور یہی ’’میلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام ‘‘ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کی زینت بنایا۔

3۔ میلاد نامۂ مریم علیھا السلام

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت مریم علیھا السلام کا میلاد نامہ بھی بیان کیا ہے جو اگرچہ پیغمبر نہیں لیکن ایک برگزیدہ پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ اور ایک پاک باز ولیۂ کاملہ تھیں۔ ان کا میلاد نامہ بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے بعض انبیاء علیھم السلام اور ان کی نسل کی فضیلت بیان کی۔ اِرشاد فرمایا :

إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَO ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO

’’بے شک اللہ نے آدم کو اور نوح کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیا۔ یہ ایک ہی نسل ہے ان میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘

آل عمران، 3 : 33، 34

اِس تمہید کے بعد میلاد نامۂ مریم علیھا السلام کا بیان شروع ہوتا ہے۔ یہاں کوئی اِعتراض کر سکتا ہے کہ قرآن حکیم نے تو صرف گزشتہ واقعہ بیان کیا ہے، آپ اسے میلاد نامہ کیسے قرار دے رہے ہیں؟ یہ اِعتراض کرنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ جو چیز فقط تعلیم و تربیت اور رُشد و ہدایت کی غرض سے بیان کی جاتی ہے اُس کی حدود و قیود ہوتی ہیں۔ جو بات جس حد تک مضمون سے متعلق ہو اتنی بتائی جاتی ہے اور غیر متعلق بات کو کم اَز کم کلامِ اِلٰہی میں جگہ دینے اور صحیفہ اِنقلاب کا مضمون بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت سے متعلق ذیل میں دی گئی آیات اور ترجمہ پر غور کریں، خود بخود پتہ چل جائے گا کہ یہ نفسِ مضمون کسی تعلیم و تربیت اور رُشد و ہدایت کے لیے نہیں بلکہ فقط ولادت کا قصہ بیان ہو رہا ہے جسے ہم بجا طور پر میلاد نامہ کا نام دے رہے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے :

إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُO فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَى وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وِإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِO

’’اور (یاد کریں) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا : اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے (دیگر ذمہ داریوں سے) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں، سو تو میری طرف سے (یہ نذرانہ) قبول فرمالے، بے شک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ پھر جب اس نے لڑکی جنی تو عرض کرنے لگی : مولا! میں نے تو یہ لڑکی جنی ہے، حالاں کہ جو کچھ اس نے جنا تھا اللہ اسے خوب جانتا تھا، (وہ بولی : ) اور لڑکا (جو میں نے مانگا تھا) ہرگز اس لڑکی جیسا نہیں (ہوسکتا) تھا (جو اللہ نے عطا کی ہے)، اور میں نے اس کا نام ہی مریم (عبادت گزار) رکھ دیا ہے، اور بے شک میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے شر) سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ ‘‘

آل عمران، 3 : 35، 36

یہ حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت کا حسین تذکرہ ہے جسے اللہ رب العزت نے بیان فرمایا۔ اگلی آیات میں ان کے بچپن کا بیان ہے جب وہ حضرت زکریا علیہ السلام کے سایہ عاطفت میں پرورش پانے لگیں۔ اس دوران میں اللہ رب العزت نے ان پر جو نوازشات کیں اور بے موسم پھل عطا فرمائے اُن کا تذکرہ ہے۔ اُن کی قیام گاہ کو وسیلہ بناتے ہوئے حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے اولادِ نرینہ کی دعا کی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بشارت عطا فرمائی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقاً قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَـذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍO

’’سو اس کے رب نے اس (مریم) کو اچھی قبولیت کے ساتھ قبول فرما لیا اور اسے اچھی پرورش کے ساتھ پروان چڑھایا، اور اس کی نگہبانی زکریا کے سپرد کردی، جب بھی زکریا اس کے پاس عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو وہ اس کے پاس (نئی سے نئی) کھانے کی چیزیں موجود پاتے، انہوں نے پوچھا : اے مریم! یہ چیزیں تمہارے لیے کہاں سے آتی ہیں؟ اس نے کہا : یہ (رزق) اللہ کے پاس سے آتا ہے، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔ ‘‘

آل عمران، 3 : 37

مذکورہ بالا آیت کریمہ میں حضرت مریم علیھا السلام کے بچپن اور پرورش سے متعلق حالات کا بیان ہے مگر بات فقط اس پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اللہ رب العزت نے ان کے فضائل مزید بیان فرمائے، یہاں تک کہ اس چھوٹی سی بات کو بھی نظرانداز نہ کیا جو ان کاہنوں سے متعلق ہے جب وہ اس کی پرورش کے لیے قرعہ ڈال رہے تھے۔ فرمایا :

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَO يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَO ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُون أَقْلاَمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَO

’’اور جب فرشتوں نے کہا : اے مریم! بے شک اللہ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور تمہیں آج سارے جہان کی عورتوں پر برگزیدہ کر دیا ہے۔ اے مریم! تم اپنے رب کی بڑی عاجزی سے بندگی بجا لاتی رہو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔ (اے محبوب!) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں حالانکہ آپ (اس وقت) ان کے پاس نہ تھے جب وہ (قرعہ اندازی کے طور پر) اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت کرے، اور نہ آپ اس وقت ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ ‘‘

آل عمران، 3 : 42 - 44

یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بیان کردہ ’’میلاد نامۂ مریم علیھا السلام‘‘ ہی تو ہے کہ اس قدر چھوٹی چھوٹی باتیں بھی نظر انداز نہیں کی گئیں جن کا بظاہر تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں مثلاً یہ فرمانا کہ وہ قرعہ اندازی کر رہے تھے، اپنے قلم پھینک رہے تھے اور آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ اگر بیان کرنے والے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا میلاد نامہ بیان کریں، آپ ﷺ کے حالات و واقعات کی تفصیلات و جزئیات اور ولادت باسعادت کے وقت ظہور میں آنے والے آثار و برکات بیان کریں تو یہ سنتِ الہٰیہ کے تتبع میں نہ صرف دین اور ایمان بلکہ اصلِ ایمان ہے۔ کاش کوئی اتنی سی بات سمجھ سکے کہ اگر اللہ کی ایک پاک باز ولیہ کا میلاد نامہ قرآن مجید میں بیان ہو رہا ہے تو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جو محبوبِ رب العالمین اور تاجدارِ انبیاء علیھم السلام ہیں، ان کا میلاد نامہ کیوں نہیں بیان ہو سکتا! حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد نامہ کا بیان ہرگز بدعت نہیں بلکہ جزوِ ایمان، اصلِ ایمان اور عینِ توحید ہے۔

4۔ میلاد نامۂ یحییٰ علیہ السلام

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا میلاد نامہ بھی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ جب ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیھا السلام کی پرورش کے دوران توسلِ مکانی کرتے ہوئے حجرۂ مریم علیھا السلام میں کھڑے ہوکر دعا کی تو یہ منظر بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِO فَنَادَتْهُ الْمَلآئِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَـى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَO قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ قَالَ كَذَلِكَ اللّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُO قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ إِلاَّ رَمْزًا وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِO

’’اسی جگہ زکریا نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا : میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔ ابھی وہ حجرے میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے (یا دعا ہی کر رہے تھے) کہ انہیں فرشتوں نے آواز دی : بے شک اللہ آپ کو (فرزند) یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کلمۃ الله (یعنی عیسیٰ) کی تصدیق کرنے والا ہوگا اور سردار ہوگا اور عورتوں (کی رغبت) سے بہت محفوظ ہو گا اور (ہمارے) خاص نیکوکار بندوں میں سے نبی ہوگا۔ (زکریا نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا درآنحالیکہ مجھے بڑھاپا پہنچ چکا ہے اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے؟ فرمایا : اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ عرض کیا : اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما؟ فرمایا : تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے سوائے اشارے کے بات نہیں کر سکو گے اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اور شام اور صبح اس کی تسبیح کرتے رہو۔ ‘‘

آل عمران، 3 : 38 - 41

واضح رہے کہ ابھی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت نہیں ہوئی، صرف دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے قبل اَز ولادت ان کے بعض فضائل کا ذکر کر دیا۔ آگے سورۃ مریم میں ان کی ولادت کا مکمل بیان ہے جب کہ پہلے رکوع میں سارا بیان ہی میلادِ یحییٰ علیہ السلام کے لیے مختص ہے۔ اس بیان کو قرآن حکیم یوں شروع کرتا ہے :

كهيعصO ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّاO

’’کاف، ہا، یا، عین، صاد (حقیقی معنی الله اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں)۔ یہ آپ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے (جو اس نے) اپنے (برگزیدہ) بندے زکریا پر (فرمائی تھی)۔ ‘‘

مريم، 19 : 1 - 2

ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کی ولادت کا ذکر (میلاد نامہ) قرآن مجید کے الفاظ میں اللہ کی رحمت ہوتا ہے۔ جب حضرت یحییٰ علیہ السلام کے میلاد کا ذکر رحمتِ ایزدی ہے تو میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا ذکر بدرجہ اُولیٰ رحمت کیوں نہ ہوگا۔ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ سے بڑی رحمت اور کیا ہو سکتی ہے، لہٰذا عقلی و منطقی رُو سے بھی میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا ذکر، ذکرِ رحمت ہے۔

قرآن مجید نے آگے ولادتِ یحییٰ علیہ السلام کے ذکرِ رحمت کو تسلسل سے یوں بیان فرمایا ہے :

إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّاO قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّاO وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّاO يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّاO يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلاَمٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّاO قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّاO قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًاO قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَ لَيَالٍ سَوِيًّاO فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّاO يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّاO وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّاO وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّاO وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّاO

’’جب انہوں نے اپنے رب کو (ادب بھری) دبی آواز سے پکارا۔ عرض کیا : اے میرے رب! میرے جسم کی ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور بڑھاپے کے باعث میرا سر آگ کے شعلہ کی مانند سفید ہوگیا ہے، اور اے میرے رب! میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔ اور میں اپنے (رخصت ہوجانے کے) بعد (بے دین) رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں (کہ وہ دین کی نعمت ضائع نہ کر بیٹھیں)، اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے، سو تو مجھے اپنی (خاص) بارگاہ سے ایک وارث (فرزند) عطا فرما۔ جو (آسمانی نعمت میں) میرا (بھی) وارث بنے اور یعقوب کی اولاد (کے سلسلۂ نبوت) کا (بھی) وارث ہو، اور اے میرے رب! تو (بھی) اسے اپنی رضا کا حامل بنالے۔ (ارشاد ہوا : ) اے زکریا! بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوش خبری سناتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا، ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایا۔ (زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے درآنحالیکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کے باعث (انتہائی ضعف میں) سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا ہوں۔ فرمایا : (تعجب نہ کرو) ایسے ہی ہوگا تمہارے رب نے فرمایا ہے یہ (لڑکا پیدا کرنا) مجھ پر آسان ہے، اور بے شک میں اس سے پہلے تمہیں (بھی) پیدا کرچکا ہوں اس حالت سے کہ تم (سرے سے) کوئی چیز ہی نہ تھے۔ (زکریا نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما، ارشاد ہوا : تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم بالکل تندرست ہوتے ہوئے بھی تین رات (دن) لوگوں سے کلام نہ کر سکو گے۔ پھر (زکریا علیہ السلام ) حجرۂ عبادت سے نکل کر اپنے لوگوں کے پاس آئے تو ان کی طرف اشارہ کیا (اور سمجھایا) کہ تم صبح و شام (اللہ کی) تسبیح کیا کرو۔ اے یحییٰ! (ہماری) کتاب (تورات) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت و بصیرت (نبوت) عطا فرما دی تھی۔ اور اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا)، اور وہ بڑے پرہیزگار تھے۔ اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بڑی نیکی (اور خدمت) سے پیش آنے والے (تھے) اور (عام لڑکوں کی طرح) ہرگز سرکش و نافرمان نہ تھے۔ اور یحییٰ پر سلام ہو اُن کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔ ‘‘

مريم، 19 : 3 - 15

سورہ مریم کا پہلا پورا رکوع میلادِ یحییٰ علیہ السلام کے بیان کے لیے وقف ہے، جس میں پہلے ان کے میلاد کا ذکر ہے کہ کیسے ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام نے ان کی ولادت کے لیے عالمِ پیری میں دعا کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کی خوش خبری سنائی۔ جب انہوں نے تعجب کا اظہار کیا تو الله تعالیٰ نے اپنی قدرت کا بیان فرمایا۔ الغرض حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کے وقت الله تعالیٰ اور اس کے محبوب پیغمبر کے درمیان جو مکالمہ ہوا قرآن کریم نے تفصیل سے بیان کیا۔ پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے روحانی مقامات اور سیرت کے چند خصوصی گوشوں کا بھی تذکرہ کیا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت سے آغاز کرکے ان کی سیرت کے مختلف پہلو بیان کرنے کے بعد بات ان کے یومِ میلاد، یومِ وصال اور یومِ بعثت (قیامت کے دن اٹھائے جانے) پر سلام کے ساتھ ختم کی۔ قرآن حکیم کا ان جزئیات کو بیان کرنے کا مقصد صر ف ایک برگزیدہ نبی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور پڑھنے والوں کے ذہنوں میں اسے جاگزیں کرنا ہے۔ یہ تھا میلاد نامۂ یحییٰ علیہ السلام جس کی قرآن حکیم میں تلاوت کی جاتی ہے۔

5۔ میلاد نامۂ عیسیٰ علیہ السلام

حضرت مریم علیھا السلام کے میلاد نامہ کے بعد ان کے فرزند حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا میلاد نامہ بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ مریم کا ایک مکمل رکوع میلاد نامۂ عیسیٰ علیہ السلام پر مشتمل ہے جس میں ان کی ولادت سے قبل ان کی والدہ ماجدہ کو بیٹے کی خوش خبری دی گئی۔ اس کی تفصیل قرآن مجید یوں بیان کرتا ہے :

إِذْ قَالَتِ الْمَلآئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَO وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَمِنَ الصَّالِحِينَO قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ قَالَ كَذَلِكِ اللّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُO

’’جب فرشتوں نے کہا : اے مریم! بے شک اللہ تمہیں اپنے پاس سے ایک کلمۂ (خاص) کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا، وہ دنیا اور آخرت (دونوں) میں قدر و منزلت والا ہوگا اور اللہ کے خاص قربت یافتہ بندوں میں سے ہوگا۔ اور وہ لوگوں سے گہوارے میں اور پختہ عمر میں (یکساں) گفتگو کرے گا اور وہ (اللہ کے) نیکوکار بندوں میں سے ہوگا۔ (مریم نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا درآنحالیکہ مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا! ارشاد ہوا : اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، جب کسی کام (کے کرنے) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو اس سے فقط اتنا فرماتا ہے کہ ’ہو جا‘ وہ ہوجاتا ہے۔ ‘‘

آل عمران، 3 : 45 - 47

اس کے بعد تفصیل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر کرتے ہوئے حسبِ سابق چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی بیان ہوئیں کہ کس طرح جبرئیل امین علیہ السلام آئے اور انہوں نے روح پھونکی اور حضرت مریم علیھا السلام اُمید سے ہوئیں۔ وضعِ حمل کے وقت حضرت مریم علیھا السلام کو تکلیف ہوئی، قرآن کریم نے ان کی اس تکلیف کا بھی ذکر کیا اور بہ تقاضائے نسوانیت ان کا شرمانا بھی بیان فرمایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب وہ خلوت گزیں ہوگئیں تو اس کا بھی ذکر کیا۔ پھر یہ بیان کیا کہ کس طرح تکلیف کو رفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے چشمے کا شیریں پانی مہیا کیا، تازہ کھجوریں دیں جن کے کھانے سے تکلیف دور ہو گئی۔ عین لمحۂ ولادت کا ذکر کیا۔ ولادت کے بعد جب وہ نومولود کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے گئیں اور انہوں نے طعنے دیئے، ان طعنوں کا ذکر کیا اور طعن و تشنیع کے جواب میں پنگھوڑے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کلام کرنے کا ذکر کیا۔ یہ سارے اَحوال الله رب العزت نے یوں بیان فرمائے ہیں :

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّاO فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّاO قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّاO قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّاO قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّاO قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّاO فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّاO فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّاO فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلاَّ تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّاO وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّاO فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّاO فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُواْ يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّاO يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّاO فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّاO قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّاO وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّاO وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّاO وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّاO ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَO مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَهُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُO

’’اور (اے حبیبِ مکرم!) آپ کتاب (قرآن مجید) میں مریم کا ذکر کیجئے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر (عبادت کے لیے خلوت اختیار کرتے ہوئے) مشرقی مکان میں آگئیں۔ پس انہوں نے ان (گھر والوں اور لوگوں) کی طرف سے حجاب اختیار کر لیا (تاکہ حسنِ مطلق اپنا حجاب اٹھا دے) تو ہم نے ان کی طرف اپنی روح (یعنی فرشتہ جبرئیل) کو بھیجا، سو جبرئیل ان کے سامنے مکمل بشری صورت میں ظاہر ہوا۔ (مریم نے) کہا : بے شک میں تجھ سے (خدائے) رحمان کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو (اللہ) سے ڈرنے والا ہے۔ (جبرئیل نے) کہا : میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں (اس لیے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔ (مریم نے) کہا : میرے ہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے جب کہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں اور نہ ہی میں بدکار ہوں۔ (جبرئیل نے) کہا : (تعجب نہ کر) ایسے ہی ہوگا، تیرے رب نے فرمایا ہے : یہ (کام) مجھ پر آسان ہے، اور (یہ اس لیے ہوگا) تاکہ ہم اسے لوگوں کے لیے نشانی اور اپنی جانب سے رحمت بنا دیں اور یہ امر (پہلے سے) طے شدہ ہے۔ پس مریم نے اسے پیٹ میں لے لیا اور (آبادی سے) الگ ہو کر دور ایک مقام پر جا بیٹھیں۔ پھر دردِ زہ انہیں ایک کھجور کے تنے کی طرف لے آیا وہ (پریشانی کے عالم میں) کہنے لگیں : اے کاش! میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل بھولی بسری ہو چکی ہوتی۔ پھر ان کے نیچے کی جانب سے (جبرئیل نے یا خود عیسیٰ نے) انہیں آواز دی کہ تو رنجیدہ نہ ہو، بے شک تمہارے رب نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے (یا تمہارے نیچے ایک عظیم المرتبہ انسان کو پیدا کر کے لٹا دیا ہے)۔ اور کھجور کے تنا کو اپنی طرف ہلاؤ وہ تم پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرا دے گا۔ سو تم کھاؤ اور پیو اور (اپنے حسین و جمیل فرزند کو دیکھ کر) آنکھیں ٹھنڈی کرو، پھر اگرتم کسی بھی انسان کو دیکھو تو (اشارے سے) کہہ دینا کہ میں نے (خدائے) رحمان کے لیے (خاموشی کے) روزہ کی نذر مانی ہوئی ہے، سو میں آج کسی انسان سے قطعاً گفتگو نہیں کروں گی۔ پھر وہ اس (بچے) کو (گود میں) اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آگئیں، وہ کہنے لگے : اے مریم! یقیناً تو بہت ہی عجیب چیز لائی ہے۔ اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدچلن تھی۔ تو مریم نے اس (بچے) کی طرف اشارہ کیا، وہ کہنے لگے : ہم اس سے کس طرح بات کریں جو (ابھی) گہوارہ میں بچہ ہے۔ (بچہ خود) بول پڑا : بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ اور میں جہاں کہیں بھی رہوں اس نے مجھے سراپا برکت بنایا ہے اور میں جب تک بھی زندہ ہوں اس نے مجھے زکوٰۃ اور نماز کا حکم فرمایا ہے۔ اور اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور اس نے مجھے سرکش و بدبخت نہیں بنایا۔ اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ یہ مریم کے بیٹے عیسیٰ ہیں، (یہی) سچی بات ہے جس میں یہ لوگ شک کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی شان نہیں کہ وہ (کسی کو اپنا) بیٹا بنائے، وہ (اس سے) پاک ہے جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اسے صرف یہی حکم دیتا ہے ’’ہو جا‘‘ پس وہ ہوجاتا ہے۔ ‘‘

مريم، 19 : 16 - 35

6۔ میلاد نامۂ مصطفیٰ ﷺ

گزشتہ صفحات میں ہم نے ’’میلادنامۂ انبیاء علیھم السلام ‘‘ کے عنوان سے ان انبیاء کرام علیھم السلام کے میلاد نامے بیان کیے جن کا میلاد خواں خود خدائے رحمان ہے۔ قرآن مجید کے حوالے سے ان انبیاء کرام علیھم السلام کے میلاد نامے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام کی ولادت کے واقعات، ان کے کمالات و برکات اور ان پر رب کریم کی عنایات کا ذکر کرنا سب سنتِ الٰہیہ اور ان کا بار بار دہرانا قرآنِ مجید کا منشاء ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے انبیاء کرام کا ذکر تو قرآن مجید میں آیا ہے، کیا حضور علیہ السلام کی ولادت کا ذکر بھی قرآن مجید میں ہے؟ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ قرآن مجید میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کا تذکرہ بھی موجود ہے۔

مطالعۂ قرآن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے برگزیدہ انبیاء کرام علیھم السلام کی ولادت کا ذکر فرما کر ان کی شان کو اجاگر کیا ہے۔ یہی میلادنامۂ انبیاء ہے۔ اگر قرآنی آیات کے مفہوم پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ربِ کریم نے امام الانبیاء حضور رحمت عالم ﷺ سے پہلے جتنے بھی انبیاء علیھم السلام کا ذکر کیا وہ فقط ذکرِ ولادت تک محدود تھا، مگر جب رسولِ اکرم ﷺ کا ذکر کیا تو اس شانِ امتیاز کے ساتھ کیا کہ آپ ﷺ کی ولادت کی نسبت سے نہ صرف آپ ﷺ کے شہرِ ولادت بلکہ آپ ﷺ کے آباو واجداد اور خود آپ ﷺ کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا :

لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَO

’’میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ (اے حبیبِ مکرم! آپ کے) والد (آدم علیہ السلام یا ابراہیم علیہ السلام ) کی قسم اور (ان کی) قسم جن کی ولادت ہوئی۔ ‘‘

البلد، 90 : 1 - 3

اللہ تبارک و تعالیٰ نے شہر مکہ کو اس وجہ سے لائقِ قسم نہیں ٹھہرایا کہ وہاں بیت اللہ، حجرِ اسود، مطاف، حطیم، ملتزم، مقامِ ابراہیم، چشمۂ زَم زَم، صفا و مروہ، میدانِ عرفات، منیٰ اور مزدلفہ ہیں، بلکہ قسم کھانے کی وجہ قرآن کی رُو سے یہ ہے کہ اس شہر کو محبوبِ خدا ﷺ کی جائے سکونت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے شہر مکہ کی قسم صرف اس لیے کھائی کہ وہ اس کے حبیب ﷺ کا مسکن ہے، پھر اپنے محبوب ﷺ کے جملہ آباء و اَجداد کی قسم کھائی۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کے پیدا ہونے کی قسم نہیں کھائی بلکہ صرف ایک ہستی کی ولادت کی قسم کھائی ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثتِ مبارکہ کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر یوں کیا ہے :

1. كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ.

’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا۔‘‘

البقره، 2 : 151

2. لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ.

’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے عظمت والا رسول بھیجا۔‘‘

آل عمران، 3 : 164

3. يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُواْ خَيْرًا لَّكُمْ.

’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس یہ رسول تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لایا ہے سو تم (ان پر) اپنی بہتری کے لیے ایمان لے آؤ۔‘‘

النساء، 4 : 170

4. يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌO

’’اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں، بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد ﷺ ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)۔ ‘‘

المائدة، 5 : 15

5. يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُواْ مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلاَ نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌO

’’اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ آخر الزمان) رسول پیغمبروں کی آمد (کے سلسلے) کے منقطع ہونے (کے موقع) پر تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے (ہمارے احکام) خوب واضح کرتے ہیں، (اس لیے) کہ تم (عذر کرتے ہوئے یہ) کہہ دو گے کہ ہمارے پاس نہ (تو) کوئی خوش خبری سنانے والا آیا ہے اور نہ ڈرانے والا، (اب تمہارا یہ عذر بھی ختم ہو چکا ہے کیونکہ) بلاشبہ تمہارے پاس (آخری) خوش خبری سنانے اور ڈرانے والا (بھی) آگیا ہے، اور اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔ ‘‘

المائده، 5 : 19

6. لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌO

’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے، تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔ ‘‘

التوبه، 9 : 128

7. وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔ ‘‘

الأنبياء، 21 : 107

8. هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO

’’وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک (باعظمت) رسول ( ﷺ ) کو بھیجا وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور ان (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بے شک وہ لوگ ان (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ ‘‘

الجمعة، 62 : 2

9. إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا.

’’بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول ( ﷺ ) بھیجا ہے۔‘‘

المزمل، 73 : 15

مذکورہ بالا آیات میں حضور نبی اکرم ﷺ کی اس جہانِ رنگ و بو میں تشریف آوری کا ذکر در حقیقت ذکرِ ولادت ہی ہے۔ ان آیات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی ولادت کا ذکر بلا اِستثنا تمام نسلِ انسانی کے لیے کیا ہے۔ اس میں تمام اہلِ ایمان کے علاوہ جمیع اہلِ کتاب اور کفار و مشرکین شامل ہیں۔ ہر ایک کو مطلع کیا گیا کہ حبیبِ خدا ﷺ تشریف لے آئے ہیں، اور پھر آپ ﷺ کی آمد کو تمام کائنات کے لیے نعمت اور رحمت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کی تشریف آوری کا ذکر اِس قدر اِہتمام اور تواتر سے کیا ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ معمول کی بات ہے۔

ان آیاتِ مقدسہ کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو یہ سمجھا دیا کہ میرے محبوب کی ولادت کا ذکر قیامت تک آنے والی نسلوں پر لازِم ہے۔ لہٰذا یہ سوچ۔ کہ ولادت کا ذکر کرنے کا کیا فائدہ؟۔ قرآن مجید کی سینکڑوں آیات سے انکار کے مترادف ہے کیوں کہ انبیاء علیھم السلام کی ولادت کا ذکر کرنا اور ان کا میلاد نامہ قرآن حکیم میں بیان کر کے اس کی تلاوت کا حکم دینا منشائے خداوندی ہے۔ جب ہم حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر بہ عنوان میلاد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری اور سنت کی ادئیگی کر رہے ہوتے ہیں۔ اگران آیات کے مفہوم پر۔ جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور برگزیدہ بندوں کی ولادت کا بیان کیا ہے۔ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان آیات میں بیان کردہ واقعات کا اُمتِ مسلمہ کی تعلیم و تربیت سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں سوائے اس کے کہ ان سب کا مقصود میلاد نامہ انبیاء علیھم السلام کا بیان ہے۔

میلاد نامہ اَنبیاء سے میلاد نامہ مصطفیٰ ﷺ تک

اللہ رب العزت نے اپنے برگزیدہ انبیاء علیھم السلام کی ولادت کا ذکر اس قدر اہتمام سے کیا ہے کہ انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے خیال تک کو بھی بیان کیا۔ میلاد نامہ یحییٰ علیہ السلام پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام مریم علیھا السلام کے حجرہ میں تشریف لے گئے اوران کے پاس بے موسم پھل دیکھے تو اسی جگہ اولاد کے لیے دعا مانگی، پھر جب ان کو خوش خبری ملی کہ بیٹا عطا ہوگا تو دل میں بشری تقاضے کے تحت ایک خیال پیدا ہوا کہ میں اتنا بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہو چکی ہے تو میرے ہاں بیٹا کیسے پیدا ہوگا؟ یہ خیال آتے ہی اللہ کی بارگاہ میں سوال کیا تو قرآن حکیم نے اس خیال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوال کا بھی ذکر کیا، پھر الله تعالیٰ نے اس سوال کا جو جواب دیا اس کا ذکر بھی فرمایا۔

اسی طرح میلاد نامہ عیسیٰ علیہ السلام کا مطالعہ بھی بڑا ایمان افروز اور فکر انگیز ہے۔ اس کی بعض جزئیات پڑھ کر ذہن میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس قدر عام چیزیں بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی : جیسے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے لے کر ولادتِ عیسیٰ علیہ السلام تک لمحہ بہ لمحہ واقعات کا ذکر، دردِ زہ کی تکلیف کا تذکرہ، اور یہ کہ حضرت مریم علیھا السلام نے پریشانی کے عالم میں کہا : ’’اے کاش! میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل بھولی بسری ہوچکی ہوتی۔‘‘ اس قسم کی باتیں ذکر کرکے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ کو یہ شعور عطا کیا کہ جس طرح قرآن مجید دیگر انبیاء علیھم السلام کی ولادت کے باب میں بہت سے واقعات بیان کرتا ہے اُسی طرح جب حبیب کبریاء سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بات آئے اور ان کی ولادت کا ذکر چھڑے تو تم حضرت آدم علیہ السلام سے بات شروع کرتے ہوئے حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ کا ذکر کرو اور سیدہ آمنہ رضی الله عنہا کی گود سے لے کر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی الله عنہا کے گاؤں تک کے سارے واقعات بیان کرو اور جو کمالات و برکات مشاہدے میں آئے ان کا بھی ذکر کرو، یہی سنتِ الٰہیہ اور منشائے قرآن ہے۔ دیگر انبیاء علیھم السلام کا ذکر تو وحیء الٰہی کے ذریعے حضور علیہ السلام نے کیا اور ظاہر ہے کہ آپ علیہ السلام کا ذکر بعد میں آنے والوں نے ہی کرنا تھا۔ چونکہ آپ ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور کوئی نبی نہیں آئے گا جو آپ ﷺ کا ذکر کرے، اس لیے آپ ﷺ کا ذکر آپ کی امت نے کرنا ہے۔

میلاد نامۂ مصطفیٰ ﷺ انہی واقعات کا بیان ہے جو آقا علیہ السلام کی ولادت باسعادت سے قبل اور ولادت کے وقت ظہور میں آئے۔ نورِ محمدی ﷺ ، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تک کس طرح پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتا رہا، آپ ﷺ کی ولادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر کیا کیا احسانات فرمائے۔ عاشقانِ مصطفیٰ ﷺ یوں توسارا سال آپ ﷺ کی محبت کے نغمے الاپتے رہتے ہیں لیکن جونہی ماہِ میلاد النبی ﷺ ، ر بیع الاوّل آتا ہے ان کی محبت شعلہ جوالہ بن جاتی ہے، وہ اپنے محبوب ﷺ کی ولادتِ عظمیٰ کے حسین تذکروں سے اپنے قلوب و اَذہان منّور کرنے اور آپ ﷺ کی محبت کا پیغام عام کرنے کے لیے محافلِ میلاد کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ ان محافل میں محبانِ رسول ﷺ کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ یہ بڑا ایمان افروز سماں ہوتا ہے۔ اس موقع پرکوئی حضور ﷺ کے زلف و رخسار کی بات کرتا ہے توکوئی آپ ﷺ کے دیدارِ فرحت آثار کی، کوئی گنبد خضراء کا حسین منظر بیان کرتا ہے تو کوئی روضہ اقدس کی سنہری جالیوں کی بات کرتا ہے، کوئی شہرِ مدینہ کے گلی کوچوںکی تو کوئی اس شہرِدل نواز کی روشنیوں اور رونقوں کی بات کرتا ہے، کوئی سیدہ آمنہ رضی الله عنہا کے گھر کا تذکرہ کرتا ہے تو کوئی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی الله عنہا کے آنے اور آقا علیہ السلام کو ساتھ لے جانے کی بات کرتا ہے، کوئی حضور ﷺ کے بچپن کی بات کرتا ہے تو کوئی لڑکپن کی اور کوئی چودہ سو سال پیچھے پلٹ کر شہر مکہ کی وادی میں آقا علیہ السلام کے خرامِ ناز کا حسین تذکرہ چھیڑ دیتا ہے، الغرض اس مہینے میں فقط محبت کے ترانے گونجتے ہیں، محبت کے تذکرے ہوتے ہیں، آقا علیہ السلام کی ولادت اور بچپن کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے کہ عشق کے یہ ترانے سن کر اہلِ ایمان کے دلوں کے اندر موجود خوابیدہ محبتِ رسول ﷺ جاگ اٹھے۔

گزشتہ صفحات میں قرآن مجید کے حوالے سے انبیاء علیھم السلام کے میلاد ناموں کے بیان سے اس سوال کا رَدّ ہوجاتا ہے کہ میلاد مصطفیٰ ﷺ کے عنوان کے تحت یہ بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ کس طرح نورِ محمدی ﷺ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی پشت میں آیا؟ حضور ﷺ کی ولادت کس طرح ہوئی؟ وغیرہ۔ قرآن مجیدمیں مذکور انبیاء کرام علیھم السلام کے احوال و واقعاتِ میلاد پڑھ کر بھی اگر کوئی یہ سوچے اور سمجھے کہ ان چیزوں کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تو یہ معترض کی قرآن حکیم کی صریح آیات سے ناواقفیت، محض ہٹ دھرمی اور کم علمی کی دلیل ہے۔

اِس پوری تفصیل کے ذریعے قرآن مجید کے حوالہ سے یہ نکتہ سمجھانا مقصود ہے کہ انبیاء علیھم السلام کے میلاد ناموں، واقعاتِ ولادت، کمالات و برکات اور ان پر ہونے والی اُلوہی عنایات کا ذکر کرنا اللہ کی سنت ہے۔ انہیں خود قرآن مجید میں بارہا اللہ رب العزت نے کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ اس حوالہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کا ذکر کرنا بھی سنتِ الٰہیہ کے زمرے میں آتا ہے جسے قیامت تک آنے والے محبانِ رسول ﷺ بجالاتے رہیں گے۔ یہ ذکر کیسے ہوگا؟ اس ذکر کا طریقہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے سمجھا دیا ہے۔ جب ہم میلاد النبی ﷺ کے حالات و واقعات کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بھی سابقہ انبیاء علیہم السلام کے ذکرِ میلاد کی طرح اللہ رب العزت کی سنت اور منشائے قرآن کے عین مطابق ہوتا ہے۔ گزشتہ صفحات میں ہم نے تفصیل سے بیان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے انبیاء علیھم السلام کے میلاد نامے بیان کرتے ہوئے معمولی اُمور بھی نظرانداز نہیں کیے۔ اسی طریقہ اور سنتِ اِلٰہیہ کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے آج ہم بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد کے ضمن میں آپ ﷺ کی خلقت، نورانیت اور ولادت کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کا زرّیں سلسلۂ نسب بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ کے آباء و اَجداد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کی ولادت کے وقت رُونما ہونے والے عجائب و غرائب اور ان خصائص و امتیازات کو بیان کرتے ہیں جن کے ساتھ آپ ﷺ کی ولادت ہوئی۔ جب آپ ﷺ کے میلاد کا ذکر آتا ہے تو واقعات کی کڑیاں حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملاتے ہوئے حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ سے بات شروع کر کے مخدومۂ کائنات سیدہ آمنہ علیھا السلام کی آغوش اور حضرت حلیمہ سعدیہ علیھا السلام کی بستی تک پھیلاتے چلے جاتے ہیں تاکہ اس ذکرِ جمیل کی شیرینی اور حلاوت سے ہمارے قلوب و اَرواح بھی شاد کام ہوسکیں اور اس اَبدی داستانِ حسن و جمال کا پس منظر ہماری لوحِ تخیل پر نقشِ دوام ہو جائے۔ جشن میلاد النبی ﷺ کے سلسلے میں منعقد ہونے والی محافل میں بھی اِنہی تذکارِ رِسالت کا بیان ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ایسی محافل کا اِنعقاد (معاذ الله) ناجائز ہے، درست نہیں۔ محافلِ میلاد النبی ﷺ اور اِس کے اَجزاء پر قرآن و حدیث سے تفصیلی دلائل اگلے اَبواب میں پیش کیے جائیں گے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved