حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کائنات کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ جس دن حضور رحمتِ عالم ﷺ کی اِس جہانِ رنگ و بو میں تشریف آوری ہوئی، فرحت و اِنبساط کے اِظہار کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دن نہیں ہو سکتا۔ غم ہو یا خوشی، یہ انسان کا خاصہ ہے کہ وہ ان کیفیات کو اپنے اوپر طاری کر لیتا ہے۔ غم اور خوشی، خوف اور سکینت یا امید اور ناامیدی زندگی کے وہ پہلو ہیں جو انسان کے تصور و تخیل میں جاگزیں ہو کر اس کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے گزشتہ اُمتوں پر انعامات فرما کر انہیں خوشی اور انبساط کی دولت سے مالا مال کر دیا، مگر ساتھ ہی اُن کی سرکشی پر عذاب کی وعید بھی سنائی اور نافرمان قوموں کو درسِ عبرت بنا دیا۔
ہدایت ہو یا گمراہی، ان کا تعلق انسان کے نفسیاتی حقائق سے ہے۔ جب تک دل کے اندر حسنِ نیت کا پھول نہ کھلے اور انسان کے وجود میں کیفیت کی خوشبو نہ مہکے اس وقت تک عمل کا گلشن بے بہار رہتا ہے۔ جب کیفیت انسان کے دل و دماغ میں جاگزیں ہوجائے اور انسان صاحبِ حال ہوجائے تو اَفکارِ ہدایت اور اَنوارِ رضا کا نزول ہونے لگتا ہے۔ پھر وہ نور عطا ہوتا ہے جس کے تتبع میں انسان زندگی کا سفر طے کرتا ہے۔
ان کیفیات سے مستفیض ہونے کے لیے یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ کیفیت کا چشمہ نسبت و تعلق سے پھوٹتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام بیٹے کی جدائی کے غم میں بینائی سے محروم ہوگئے تھے۔ اللہ کے یہ نبی غم کی کیفیت میں ڈوبے رہتے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا قمیض بھیجا تو اسے آنکھوں پر لگانے سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹ آئی، اور غم خوشی میں بدل گیا۔ پہلے صبر طاری تھا اب شکر طاری ہوگیا۔ یہ سارا کمال نسبت کا تھا، قمیض کو حضرت یوسف علیہ السلام سے نسبت تھی۔ ہماری زندگی کے کئی واقعات ایسے ہیں جن کا محور یہی نسبت ہے۔ ہمارے گھروں میں کون کون سی اَشیاء برسوں سے چلتی آرہی ہیں، ہم انہیں بہ حفاظت رکھتے ہیں اور اپنے والدین یا بزرگوں اور اَقرباء کی نشانیاں دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں۔ ان کے لمس سے وجود میں کیفیت کا ایک باغ کھل اٹھتا ہے۔ ہمارے غم اور خوشیاں بھی اِسی طرح نسبت و تعلق سے وجود پاتی ہیں، ہماری کیفیات کا دھارا نسبت کے چشمے سے ہی پھوٹتا ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں ایسے کئی واقعات مذکور ہیں جن میں حضور نبی اکرم ﷺ کے عمل سے اُمت کو یہ تعلیم ملتی ہے کہ جب کبھی خوشی کا لمحہ یاد کرو تو اس لمحے کی کیفیات اپنے اوپر طاری کرلو اور جب کوئی لمحۂ مصائب و آلام یاد آئے تو غم کی کیفیات میں ڈوب جاؤ. جب ان لمحات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سمٹی ہوئی کیفیات اس نسبت سے جنم لے رہی ہیں جو ان لمحات کو کسی ہستی سے تھی۔ احادیثِ مبارکہ میں مذکور ایسے چند واقعات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
جب حضور نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ ﷺ نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ ﷺ نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کرتے ہوئے بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات عطا فرمائی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی اس خوشی میں روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2: 704،
رقم: 1900
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول الله تعالي: وهل أتاک حديث موسي، 3: 1244،
رقم: 3216
3. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب اتيان اليهود النبي ﷺ حين قدم المدينة،
3: 1434، رقم: 3727
4. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2: 795، 796، رقم: 1130
5. أبوداود، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2: 326، رقم: 2444
6. ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1: 552، رقم: 1734
7. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 291، 336، رقم: 2644، 3112
8. أبو يعليٰ، المسند، 4: 441، رقم: 2567
اِس سے واضح ہوتا ہے کہ بنی اِسرائیل اپنی قومی تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والے خوشی کے واقعہ کی یاد روزہ رکھ کر مناتے تھے، اور تاجدارِ کائنات ﷺ نے بھی خوشی کے ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے روزہ رکھا۔
امام احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) اور حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں یومِ عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر الله تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اِس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کے لیے باعثِ اِحترام بن گیا۔ اِس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
1. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 359، 360، رقم: 8702
2. عسقلاني، فتح الباري، 4: 247
حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا: میں ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون سی آیت ؟ حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ نے کہا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا.
المائدة، 5: 3
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اِسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔‘‘
اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إني لأعرف في أي يوم أنزلت: (اَلْيوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ)، يوم جمعة ويوم عرفة، وهما لنا عيدان.
1. طبراني، المعجم الأوسط، 1: 253، رقم: 830
2. عسقلاني، فتح الباري، 1: 105، رقم: 45
3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2: 14
’’میں پہچانتا ہوں کہ کس دن الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ نازل ہوئی: جمعہ اور عرفات کے دن، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں۔‘‘
الله ربّ العزت کی طرف سے حضور نبی اکرم ﷺ کو دین کی تکمیل کا مژدہ ملنے والے دن کو بہ طور عید منانے کے خیال کا حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ کی طرف سے اِظہار اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تائید و توثیق اِس اَمر کی دلیل ہے کہ ہماری قومی و ملی زندگی میں ایسے واقعات، جن کے اَثرات کا دائرہ قومی زندگی پر محیط ہو ان کی یاد ایک مستقل event یعنی عید کے طور پر منانا نہ صرف قرآن و سنت کی رُوح سے متصادِم نہیں بلکہ مستحسن اور قومی و ملّی ضرورت ہے۔
لمحاتِ مسرّت کی یاد منانے کے ضمن میں مذکور واقعات کی تفصیل کتاب ھٰذا کے باب پنجم میں ملاحظہ فرمائیں۔
سن 9 ہجری میں تبوک کے سفر کے دوران میں مسلمانوں نے قومِ ثمود کے دو کنوؤں کے نزدیک پڑاؤ کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اُس مقام کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا کہ اِس جگہ سیدنا صالح علیہ السلام کی قوم نے اونٹنی کو ہلاک کر دیا تھا اور نتیجتاً عذابِ الٰہی کا شکار ہو گئے تھے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو صرف ایک کنویں سے اپنی ضروریات کے لیے پانی حاصل کرنے کا حکم دیا اور دوسرے کنوئیں کا پانی استعمال کرنے سے منع فرما دیا۔
آپ ﷺ نے جس کنویں سے پانی لینے کا حکم دیا اس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور ایک پورا دن اس اونٹنی کے لیے خاص تھا مگر قومِ ثمود کو یہ گوارا نہ تھا کہ اس ایک دن میں صرف اونٹنی ہی پانی پئے۔ لہٰذا انہوں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ یہ واقعہ رُونما ہوئے صدیاں بیت چکی تھیں اور وہاں حضرت صالح علیہ السلام تھے نہ اُن کی اونٹنی صدہا سال گزر جانے کے بعد اس کنویں کے پانی میں بھی خاصا تغیر آچکا ہوگا لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے اس کنویں کو اتنی اہمیت دی۔ سبب صرف یہ تھا کہ اسے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے نسبت تھی جو برکت کا باعث تھی۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اس برکت سے فیض حاصل کرنے کی ہدایت فرمائی۔ جب کہ قومِ ثمود کے زیر اِستعمال رہنے والے دوسرے کنویں کا پانی استعمال کرنے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو روک دیا کیوں کہ قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹی کو آپ کی طرف سے وعیدِ عذاب سنائے جانے کے باوجود ہلاک کر دیا تھا۔ اِس قبیح عمل پر اللہ تعالیٰ نے اس نافرمان قوم پر عذاب نازل کیا اور وہ سب ہلاک ہوگئے۔ اسی نسبت کے پیش نظر حضور نبی اکرم ﷺ نے اُس کنویں کا پانی استعمال کرنے سے منع فرما دیا۔ آپ ﷺ کے اس حکم سے پہلے بعض صحابہ رضی اللہ عنھم اس کنویں کے پانی کو اِستعمال کر چکے تھے، لیکن آپ ﷺ نے منع فرمایا تو عرض کرنے لگے: آقا! ہم تو آپ کے منع کرنے سے پہلے ہی اس کا پانی استعمال میں لا چکے ہیں، ہمیں تو اس کی خبر ہی نہ تھی کہ یہ کنواں عذاب میں مبتلا ہونے والی قوم کا تھا۔ اس پر رسول اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے برتنوں میں ذخیرہ شدہ پانی ضائع کر دیں اور اگر اس پانی سے کھانا وغیرہ پکایا ہے تو اسے بھی ضائع کر دیں، اور اپنے برتن اُس کنویں کے پانی سے بھر لیں جو حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی وجہ سے باعثِ برکت ہے اور اُسی پانی سے اپنا کھانا وغیرہ بنائیں۔
ذیل میں ہم اِس پورے واقعہ کو احادیثِ مبارکہ کے الفاظ کی روشنی میں بیان کریں گے:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں:
أن رسول الله ﷺ لما نزل الحجر في غزوة تبوک، أمرهم أن لا يشربوا من بئرها، ولا يستقوا منها، فقالوا: قد عجنا منها واستقينا، فأمرهم أن يطرحوا ذلک العجين، ويهريقوا ذلک الماء.
’’رسول اکرم ﷺ جب غزوۂ تبوک کے سفر کے دوران میں مقامِ حجر میں اُترے تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اس کے کنویں کا پانی پینے اور مشکوں میں بھرنے سے منع فرما دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: ہم نے تو (آپ کے حکم فرمانے سے پہلے ہی) اس سے آٹا گوندھ لیا ہے اور برتن بھی بھر لیے ہیں۔ پس آپ ﷺ نے انہیں وہ آٹا پھینکنے اور پانی بہا دینے کا حکم فرمایا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول الله : وإلي ثمود
أخاهم صالحا، 3: 1236، 1237، رقم: 3198
2. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 10: 46
3. بغوي، معالم التنزيل، 2: 178
4. ابن حزم، المحلي، 1: 220
5. عسقلاني، تغليق التعليق، 4: 19
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ لوگ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ قومِ ثمود کی سرزمین حجر پر آئے تو انہوں نے اس کے کنویں سے پانی بھر لیا اور آٹا گوندھ لیا۔
فأمرهم رسول الله ﷺ أن يهريقوا ما استقوا من بئرها، وأن يعلفوا الإبل العجين، وأمرهم أن يستقوا من البئر التي کانت تردها الناقة.
’’پس رسول اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس پانی کو پھینک دیں جو انہوں نے اس کنوئیں سے بھرا ہے، اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو ڈال دیں۔ اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس مبارک کنویں کا پانی استعمال کریں جس سے (اللہ کے نبی صالح علیہ السلام کی) اونٹنی پیتی تھی۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول الله : وإلي ثمود
أخاهم صالحا، 3: 1237، رقم: 3199
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد، باب لاتدخلوا مساکن الذين ظلموا أنفسهم، 4: 2286، رقم:
2981
3. ابن حبان، الصحيح، 14: 82، رقم: 6202
4. بيهقي، السنن الکبري، 1: 235، رقم: 1050
5. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 10: 46
2۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما ہی سے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے سال مسلمانوں کا قافلہ مقامِ حجر پر قومِ ثمود کے گھروں کے پاس رُکا تو انہوں نے قومِ ثمود کے مشارِب سے پانی بھر لیا، آٹا گوندھ لیا اور گوشت سے بھری ہانڈیاں آگ پر چڑھا دیں۔
فأمرهم رسول الله ﷺ ، فأهراقوا القدور، وعلفوا العجين الإبل، ثم ارتحل بهم حتي نزل بهم علي البئر التي کانت تشرب منها الناقة، ونهاهم أن يدخلوا علي القوم الذين عذبوا، قال: إني أخشي أن يصيبکم مثل ما أصابهم، فلا تدخلوا عليهم.
’’(جب رسول اکرم ﷺ کو علم ہوا) تو آپ ﷺ نے انہیں (پھینک دینے کا) حکم دے دیا، تو انہوں نے ہانڈیاں انڈیل دیں اور آٹا اونٹوں کو کھلا دیا، پھر آپ ﷺ انہیں لے کر اس کنویں پر تشریف لائے جہاں (صالح علیہ السلام کی) اونٹنی پانی پیتی تھی اور آپ ﷺ نے انہیں عذاب زدہ قوم کے مقام پر جانے سے روکا۔ فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم اسی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاؤ جس میں وہ ہوئے تھے۔ پس تم ان (عذاب والی جگہوں) میں داخل نہ ہوا کرو۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 2: 117، رقم: 5984
2. ابن حبان، الصحيح، 14: 83، رقم: 6203
3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2: 228
احمد بن حنبل کی روایت شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔
یہ اَمر قابلِ غور ہے کہ اس پانی میں فی نفسہ کوئی خرابی نہ تھی اور اَز رُوئے شرع وہ پاک تھا۔ چونکہ اس کا تعلق اس قوم سے تھا جس پر حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو مارنے کی وجہ سے عذابِ اِلٰہی نازل ہوا، اِس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو وہ پانی اِستعمال کرنے سے روک دیا گیا۔ اس کے برعکس دوسرے کنویں کی نسبت حضرت صالح علیہ السلام کی معجزاتی اونٹنی سے تھی، لہٰذا اس نسبت کا احترام کرتے ہوئے اس کی برکت سے فیض یاب ہونے کی ہدایت کی گئی۔
مذکورہ بالا روایات سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے برگزیدہ نبی اور پیغمبر سے نسبت کی برکت ہمیشہ قائم رہنے والی ہے، اور ایسی نسبتوں کے ادب اور ان سے حصولِ برکت کا درس خود آقائے دو جہاں ﷺ کے اِرشادات سے ثابت ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یہاں جس کنویں کی بات ہو رہی ہے اُس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی، خود حضرت صالح علیہ السلام کا اس کنویں سے پانی پینا مذکور نہیں۔ یہ واقعہ گزرے ہزاروں سال بیت گئے، خدا جانے اس دوران میں پانی کتنا بدل گیا ہوگا، اور اونٹنی کا بچا ہوا پانی رہا بھی ہوگا یا نہیں، مگر محض پیغمبر سے منسوب اونٹنی کی نسبت اس قدر اہم ہے کہ ایک طویل زمانہ گزرنے کے بعد بھی اس کے تصور میں پانی کا ادب اور اس کی برکت اسی طرح قائم ہے۔
غزورۂ تبوک کے موقع پر قومِ ثمود کو گزرے ہزاروں برس بیت چکے تھے، اب وادئ حجر میں عذاب نازل ہو رہا تھا نہ کافروں کی اُس بستی اور اُس نسل میں سے کوئی وہاں تھا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نشانی حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں۔ لیکن جب حضور نبی اکرم ﷺ اِس بستی کے قریب پہنچے تو آپ ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنھم کو اُس قوم کے گھروں میں داخل ہونے سے منع کر دیا اور فرمایا کہ وہ اس عذاب والی بستی سے روتے، گڑگڑاتے اور آہ و بکاء کرتے ہوئے گزریں۔ گویا وہاں اب بھی عذاب نازل ہو رہا ہے۔
1. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لا تدخلوا مساکن الذين ظلموا أنفسهم إلا أن تکونوا باکين، أن يصيبکم مثل ما أصابهم.
’’جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، ان کے گھروں میں داخل نہ ہو مگر روتے ہوئے، مبادا جو مصیبت اُن پر آئی وہ تمہارے اوپر بھی آجائے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول الله : وإلي ثمود
أخاهم صالحا، 3: 1237، رقم: 3200، 3201
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد، باب لاتدخلوا مساکن الذين ظلموا أنفسهم، 4: 2285، 2286،
رقم: 2980
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 96
4. ابن حبان، الصحيح، 14: 80، رقم: 6199
5. روياني، المسند، 2: 407، رقم: 1409
حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان اس بدبخت قوم کی جائے سکونت کے بارے میں تھا، جن پر اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب نازل ہوا تھا۔ لہٰذا آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو تلقین فرمائی کہ وہ اس بستی سے روتے ہوئے گزر جائیں۔ اس سے حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذریعے امت کو نصیحت فرمائی کہ تمہیں گزشتہ قوموں کے ساتھ ہونے والے واقعاتِ عذاب یاد کرکے اپنے اوپر کیفیتِ غم اور حالتِ گریہ و زاری طاری کر لینی چاہیے اور ایک نفسیاتی فضا قائم کرکے الله تعالیٰ کے حضور عاجزی سے گڑگڑانا چاہئے تاکہ وہ عذاب جو سابقہ نافرمان قوموں پر آیا تم پر نازل نہ ہو۔ یہ حدیثِ مبارکہ اُمت کو یہی تعلیم دے رہی ہے۔ اگرچہ بظاہر کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی تھی اور حضور نبی اکرم ﷺ کے وجودِ مسعود کے باعث کسی عذاب کا کوئی امکان نہ تھا پھر بھی آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ایسے غم انگیز جذبات، اِحساسات اور کیفیات پیدا کرنے کی تلقین فرمائی۔ اس سے حضور نبی اکرم ﷺ صحابہ کرام میں غم و اندوہ کی وہ کیفیات جاگزیں دیکھنا چاہتے تھے جن سے وہ قومیں دوچار ہوئیں۔
یہ مضمون قلب و روح کے جذبات و محسوسات سے متعلق ہے۔ امام مسلم نے یہ روایت ’’الصحيح‘‘ کی کتاب الزھد والرقائق میں درج کی ہے جس کے ذریعے وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یہ حدیث ان اعمال و افعال کی انجام دہی اور بجا آوری کی بنیاد ہے جن کے روحانی اثرات دل اور روح پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس نوع کے واقعات کا ذکر کر کے قلب و باطن کے اندر وہ خاص کیفیات و محسوسات اورجذبات پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے جو روحانی طور پر زندگی بدل دیں۔ اگر ایسے واقعات روح اور من کی دنیا پر اثر انداز نہیں ہوتے اور ان کا کوئی نفسیاتی اور روحانی فائدہ نہ ہوتا تو پھر رسول اکرم ﷺ کو کیا ضرورت تھی کہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے قلب و باطن اور روح کو اس قسم کے احساس سے آشنا فرماتے، پھر حضور نبی اکرم ﷺ انہیں اس قسم کا حکم اِرشاد نہ فرماتے جس میں قلب و باطن کی تطہیر و تہذیب اور اثرپذیری کی کوئی صورت نہیں تھی۔ رسول اکرم ﷺ کے حکم دینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ کیفیات لازماً دل اور روح پر اثرات مرتب کرتی ہیں۔
2. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے ہی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لا تدخلوا علي هؤلاء المعذبين إلا أن تکونوا باکين، فإن لم تکونوا باکين فلا تدخلوا عليهم، لايصيبکم ما أصابهم.
’’تم ان عذاب زدہ لوگوں پر روتے ہوئے گزرا کرو۔ پس اگر تمہاری رونے کی حالت نہ ہو تو ان پر نہ گزرو، مبادا جس مصیبت سے وہ دو چار ہوئے تھے تمہیں بھی پہنچ جائے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب المساجد، باب الصلاة في مواضع الخسف
والعذاب، 1: 167، رقم: 423
2. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب نزول النبي ﷺ الحجر، 4: 1609، رقم: 4158
3. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد، باب لاتدخلوا مساکن الذين ظلموا أنفسهم، 4: 2285، رقم:
2980
4. بيهقي، السنن الکبري، 2: 451
5. عبد بن حميد، المسند، 1: 255، رقم: 798
حضور نبی اکرم ﷺ نے عذاب یافتہ قومِ ثمود کی بستی اور مکانات میں داخل ہونے سے اِس طرح منع فرمایا جیسے قومِ ثمود اب بھی وہاں سکونت پذیر ہو اور صحابہ ان کے گھروں میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔ اِس لیے اس قوم کا تصور کر کے ان کی بستی میں داخل ہونے سے منع فرما دیا کیوں کہ اس قوم کے افراد کو حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر موت کے گھاٹ اتارنے کے جرم کی پاداش میں عذابِ خداوندی کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ اگرچہ اِس واقعہ کو گزرے صدیاں بیت چکی تھیں لیکن حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اُس عذاب و عتابِ اِلہی کا تصور ذہن میں لاکر خوف و خشیت کی کیفیت پیدا کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ اپنے دل و دماغ پر وہی کیفیت طاری کرکے اُس بستی سے روتے ہوئے گزریں۔ اور اگر وہ رونے کی کیفیت طاری نہ کر سکیں تو وادئ ثمود میں داخل ہی نہ ہوں۔
3۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ جنہیں رونا نہ آئے وہ کیا کریں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
فإن لم تبکوا فتباکوا، خَشْيَةَ أن يصيبکم مثل ما أصابهم.
’’اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے کی کیفیت اپنے اوپر طاری کرلو، اِس ڈر سے کہ جو مصیبت اُن پر آئی تم پر نہ آجائے۔‘‘
1. ابن کثير، البداية و النهاية، 1: 138
2. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2: 557
3. عسقلاني، فتح الباري، 6: 380
پس بہتر تو یہی ہے کہ گریہ و زاری سے کام لیا جائے، تاہم اگر کسی پر یہ کیفیت طاری نہیں ہوتی تو وہ اپنے اوپر رونے کی حالت طاری کرلے یعنی اپنی شکل ہی رونے والی بنالے۔ اصل مقصود یہ تھا کہ ہر کوئی اُس عذاب کا تصور کر کے اپنے اوپر خوف و خشیتِ الٰہی کی کیفیت طاری کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑائے، اُس کے عذاب سے پناہ مانگے۔ قومِ ثمود پر عذاب نازل ہوئے صدیاں بیت گئی تھیں اور اُس لمحۂ موجود میں کوئی عذاب نہیں ہو رہا تھا مگر آپ ﷺ نے گزشتہ واقعہ کے تصور اور یاد سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر اُس وقت کی کیفیت طاری کردی۔
آقائے دوجہاں ﷺ نے قومِ ثمود کی بستی سے گزرتے ہوئے خود کو چادر سے ڈھانپ لیا اور عذاب کا تصور کرکے اس وادی سے تیزی کے ساتھ گزر گئے۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما کی روایت کے الفاظ ہیں:
ثم تقنع بردائه، وهو علي الرحل.
’’پھر آپ ﷺ نے سواری پر بیٹھے ہوئے خود کو چادر سے ڈھانپ لیا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول الله : وإلي ثمود
أخاهم صالحا، 3: 1237، رقم: 3200
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 66
3. نسائي، السنن الکبري، 6: 373، رقم: 11270
4. ابن مبارک، الزهد: 543، رقم: 1556
2۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما ہی سے مروی ہے:
لما مرّ النبي ﷺ بالحجر قال: لا تدخلوا مساکن الذين ظلموا أنفسهم، أن يصيبکم ما أصابهم، إلا أن تکونوا باکين، ثم قنع رأسه، وأسرع السير، حتي أجاز الوادي.
’’جب حضور نبی اکرم ﷺ حجر کے مقام سے گزرے تو فرمایا: جن لوگوں نے اپنے اوپر ظلم کیا (جس کے باعث ان پر عذابِ الٰہی نازل ہوا) تم ان کے گھروں میں داخل نہ ہو، ایسا نہ ہو کہ تمہیں ان جیسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا سرِ انور ڈھانپ کر وادی کو تیزی سے عبور کیا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب نزول النبي ﷺ الحجر، 4:
1609، رقم: 4157
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد، باب لا تدخلوا مساکن الذين ظلموا أنفسهم، 4: 2286، رقم:
2980
3. عبد الرزاق، المصنف، 1: 415، رقم: 1624
4. بيهقي، السنن الکبري، 2: 451
آپ ﷺ کے اس عمل میں ہمارے لیے کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں کہ آپ اپنا سرِ انور ڈھانپتے ہوئے تیزی سے اس وادی سے گزر گئے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ آپ ﷺ نے خود صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی رونے کی کیفیت اپنے اوپر طاری کرنے کا حکم فرمایا۔
مندرجہ بالا روایات کے حوالے سے درج ذیل نکات نہایت اہم ہیں:
1۔ سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہے کہ وہاں پر رسول محتشم ﷺ کی موجودگی میں رحمتِ اِلٰہی کے باعث عذابِ الٰہی نازل ہونے کا ذرّہ بھر امکان نہ تھا۔ شرکائے قافلہ مجاہد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تھے، ان میں معاذ الله کوئی کافر نہ تھا۔ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوش نودی کے حصول اور اِعلائے کلمہ حق کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے جا رہے تھے۔ روئے زمین پر تاریخ انسانی میں اس وقت ان سے بہترین جماعت اور کوئی نہ تھی جو حضور نبی اکرم ﷺ کی معیت میں جہاد کے لیے پابہ رکاب نکلی ہوئی تھی۔ تو کیا وہ رحیم و کریم اس حالت میں ان نفوسِ قدسیہ پر عذاب نازل کرتا؟ اب وہاں کوئی قومِ ثمود نہ تھی جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے ہلاک کر ڈالا تھا۔ اس کے باوُجود حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے اَزراہِ پند و موعظت فرمایا کہ وہ اپنے ذہنوں میں اس عذابِ الٰہی کے خوف کی کیفیت پیدا کریں اور اپنے قلب و باطن میں یہ احساس پیدا کریں جیسے عذاب نازل ہونے والا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اپنے اوپر یہ جذباتی کیفیت طاری کرنے کی تلقین کی گئی۔ چنانچہ ہر صحابی زار و قطار رونے، گڑگڑانے اور آہ و بکاء کرنے لگا، یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے ہر کوئی عذابِ الٰہی سے خوف زدہ ہے۔
2۔ دوسرا قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اِس سفرِ جہاد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تنہا نہ تھے، سرکارِ دوعالم ﷺ خود اُن کے ہمراہ تھے۔ اس ضمن میں فرمانِ اِلٰہی ہے:
وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ.
’’اور (دَر حقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں۔‘‘
الأنفال، 8: 33
عدمِ عذاب کی اس قرآنی بشارت سے قطع نظر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے صالح علیہ السلام کی قوم پر آنے والا عذاب یاد کرکے اپنے اوپر خوف و خشیتِ الٰہی کی کیفیات طاری کر لی تھیں۔ یہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں تھا اور یہی اسلام کا تقاضا ہے کہ غم یا خوشی کے واقعہ کی یاد میں افسوس، فکر مندی یا مسرت و انبساط کے اظہار میں موقع محل کے مطابق ویسی ہی کیفیات اپنے اوپر طاری کرلی جائیں اور دل و دماغ میں نفسیاتی فضا پیدا کرنے کے لیے انہی احساسات کو جگہ دی جائے جو اس واقعہ کا تقاضا ہوں اور جنہیں یاد کیا جانا مطلوب ہو۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کیفیات طاری کرنے اور طاری ہوجانے میں بہت فرق ہے۔ جب قلبی تعلق موجود ہو، عقیدہ راسخ ہو اور نسبت زندہ ہو تو یہ کیفیات خود بخود طاری ہوجاتی ہیں۔ کیفیت طاری ہونے اور کرنے میں اس وقت کوئی فرق نہیں رہتا جب تعمیلِ ارشاد تسکینِ روح کا باعث ہو۔ یہ اعجاز غلامئ رسول ﷺ سے حاصل ہوتا ہے۔ واقعہ غم انگیز ہو تو رونے اور گڑگڑانے کی کیفیت آلیتی ہے اور اگر واقعہ خوشی کا ہو تو اس کا اظہار مسرت و انبساط اور کیف و نشاط سے مملو جذبات کے ساتھ چہرے کو تبسم سے آراستہ کر دیتا ہے۔ کسی واقعہ کو اس طرح یاد کرنا منشائے مصطفیٰ ﷺ کے عین مطابق ہے جس پر آپ ﷺ کے متعدد اِرشادات شاہد عادل ہیں۔
3۔ تیسری بات یہ کہ وادئ ثمود سے گزرتے وقت حضور نبی اکرم ﷺ نے نہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو رونے کی کیفیت طاری کرنے کا حکم دیا بلکہ خود بھی اپنے اوپر وہ کیفیات اِس طرح طاری فرما لیں کہ اپنے سرِ اقدس اور چہرۂ انور کو چادر سے ڈھانپ لیا اور اپنی اونٹنی کو تیزی سے ہانک کر اس بستی سے دور لے گئے۔ اس وقت آپ ﷺ اپنا سر مبارک اونٹنی کے کجاوے پر جھکائے ہوئے تھے اور یہ تاثر مل رہا تھا جیسے آپ ﷺ اس قہر زدہ بستی میں عذابِ خداوندی سے دور بھاگ رہے ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ حالانکہ یہ واقعہ ہزار ہا سال قبل ہوا تھا۔ آپ ﷺ کی شان تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے وجودِ مسعود کی برکت سے امت پرعذاب نہ اتارنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ آپ ﷺ توخود رحمتِ عالم اور شفیعِ بنی آدم ہیں۔ جہاں جہاں بھی آپ ﷺ کے قدم مبارک پڑ جائیں وہاں سے عذاب کا تصور بھی معدوم ہوجاتا ہے۔ اور آپ ﷺ ہی کا وسیلہ گنہگاروں کی عذاب سے رہائی اور نجات کا ضامن ہے۔ الله تعالیٰ کا عذاب جس برگزیدہ اور مبارک ہستی کی وجہ سے آیا ہوا عذاب ٹل جائے وہ خود عذابِ الٰہی کے خوف میں کیوں کر مبتلا ہوسکتی ہے؟ ان کے بارے میں تو ایسا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ضعیف الایمان مسلمان کے دل میں بھی آپ ﷺ کی نسبت ایسا ناپاک خیال ہرگز نہیں آسکتا۔ تو پھر اگر آپ ﷺ نے اس وادی سے گزرتے ہوئے ایسی کیفیت طاری کرلی تو یہ سب تعلیمِ اُمت کے لیے تھا۔
وادئ مُحَسِّر کے محلِ وقوع کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں: پہلا قول یہ ہے کہ مزدلفہ کے قریب ایک علاقہ ہے جس کا نام وادئ مُحَسِّر ہے۔ (1) حضرت فضل بن عباس رضی الله عنھما روایت کرتے ہیں کہ وادئ مُحَسِّر منیٰ میں ہے۔ (2) شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اِن اَقوال میں تطبیق کرتے ہوئے کہتے ہیں: بعض علماء کا موقف ہے کہ وادئ مُحَسِّر منیٰ میں ہے، جب کہ بعض کہتے ہیں کہ وادئ مُحَسِّر مزدلفہ میں ہے، درحقیقت منیٰ اور مزدلفہ کی درمیانی علاقہ کا نام وادئ مُحَسِّر ہے۔ (3) سارا مزدلفہ موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے مگر وادئ مُحَسِّر اس سے خارج ہے۔ (4) حجاج کرام کو اس وادی میں توقف کرنے کی اِجازت نہیں۔ حکم یہ ہے کہ وہ 10 ذی الحجہ کو طلوعِ آفتاب سے کچھ دیر پہلے جب تقریباً دو رکعت نماز ادا کرنے کا وقت رہ جائے تو تلبیہ کہتے اور ذکر کرتے ہوئے مزدلفہ سے منیٰ کو روانہ ہو جائیں اور جب وادئ مُحَسِّر کے کنارے پہنچیں تو وہاں سے تیزی کے ساتھ گزر جائیں، اگر سوار ہوں تو سواری کی رفتار تیز کر دیں۔ اور یہ ساری مسافت عذابِ الٰہی سے پناہ مانگتے ہوئے طے کریں۔ (5) آخر ایسا کیوں ہے؟ اس وادی سے جلد گزرنے کا حکم اس لیے ہے کہ آقائے دوجہاں ﷺ کی ولادت باسعادت سے چند سال پہلے ابرہہ ہاتھیوں کا ایک لشکر لے کر کعبہ پر حملہ آور ہوا۔ جب وہ اپنے مذموم اِرادے کے ساتھ وادئ مُحَسِّر میں پہنچا تو عذابِ اِلٰہی نازل ہوا۔ ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ پتھروں اور کنکریوں سے مسلح ہو کر ابرہہ کے ہاتھیوں والے لشکر پر ٹوٹ پڑے، اور اس طرح ابرہہ اور اس کا تمام لشکر لقمۂ اَجل بن گیا۔ (6) سورۃ الفیل میں یہ واقعہ اِس طرح بیان ہوا ہے:
(1) ياقوت حموي، معجم البلدان، 1: 449
(2) 1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب إدامة الحاج التلبية، 2: 931، رقم: 1282
2. نسائي، السنن، کتاب مناسک الحج، باب الأمر بالسکينة في الإفاضة من عرفة، 5: 285،
رقم: 3020
3. نسائي، السنن الکبري، 2: 434، رقم: 4056
4. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 210، رقم: 1796
5. بيهقي، السنن الکبري، 5: 127، رقم: 9316
(3) عبد الحق، اشعة اللمعات شرح مشکاة المصابيح، 2: 345
(4) 1. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 82، رقم: 16797
2. ابن حبان، الصحيح، 9: 166، رقم: 3854
3. شيباني، کتاب المبسوط، 2: 422
4. ابن أبي شيبة، المصنف، 3: 246، رقم: 13884، 13885
5. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 3: 44، رقم: 4113
6. بيهقي، السنن الکبري، 9: 295، رقم: 19021
7. طبراني، المعجم الکبير، 2: 138، رقم: 1583
8. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3: 251
9. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 4: 25
(5) وهبه زحيلي، الفقه الإسلامي وأدلته، 3: 2168
(6) 1. ابن هشام، السيرة النبوية: 65. 67
2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 1: 442. 447
3. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 1: 117. 126
4. ابن الوردي، تتمة المختصر في أخبار البشر، 1: 92
5. ابن کثير، البداية والنهاية، 2: 101. 110
6. قسطلاني، المواهب اللدنية، 1: 99. 104
7. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد، 1: 217. 222
8. زرقاني، شرح المواهب اللدنية، 1: 156. 166
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِO أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍO وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَO تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍO فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍO
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ کیا اس نے ان کے مکر و فریب کو ناکام نہیں کر دیا؟ اور اس نے ان پر (ہر سمت سے) پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔ جو اُن پر کنکریلے پتھر مارتے تھے۔ پھر ( الله نے) ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح (پامال) کر دیا۔‘‘
الفيل، 105: 1 - 5
یہی وجہ تھی کہ سن 10 ہجری میں حضور نبی اکرم ﷺ مناسکِ حج کی ادائیگی کے دوران جب مُحَسِّر کے مقام پر پہنچے تو آپ ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ جلدی جلدی اس وادی سے گزر جائیں۔ یہ کیفیت اِس اَمر کی غماز تھی جیسے عذاب آنے والا ہو۔ یہ عذاب بہت پہلے ابرہہ اور اس کے لشکر پر نازل ہوا تھا۔ اس کے باوجود حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کو تلقین فرمائی کہ اپنے اوپر وُہی تاثرات اور کیفیت طاری کر لیں اور خوف و خشیتِ اِلٰہی کا وُہی منظر قائم کریں۔ خود حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسی کیفیت اپنے اوپر طاری کرلی اور اپنی اُونٹنی کی رفتار تیز کر دی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کی وادئ مُحَسِّر سے گزرنے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ثم أفاض حتي انتهي إلي وادي مُحَسِّر، فقرع ناقته فخَبَّت حتي جاوز الوادي فوقف.
’’پھر جب آپ ﷺ وادئ مُحَسِّر میں پہنچے تو اپنی اُونٹنی کو ایڑی لگائی۔ وہ دوڑ پڑی حتیٰ کہ آپ ﷺ نے وادئ مُحَسِّر کو تیزی سے عبور کیا، پھر آپ ﷺ نے (مزدلفہ میں) وقوف کیا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء أن عرفة کلها
موقف، 3: 232، رقم: 885
2. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 75، رقم: 562
3. ابن خزيمه، الصحيح، 4: 272، رقم: 2861
4. بزار، البحر الزخار، 2: 165، رقم: 532
5. أبو يعلي، المسند، 1: 264، رقم: 312
شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) اس وادی کے بارے میں فرماتے ہیں:
مستحب ست شتاب رفتن ازیں وادی، واگر پیادہ است تیز رَود، واگر سوار است تیز راند.
عبد الحق، أشعة اللمعات شرح مشکاة المصابيح، 2: 324
’’اس وادئ (مُحَسِّر) میں تیز چلنا مستحب ہے، اگر پیدل ہے تو تیز چلے اور اگر سوار ہے تو اپنی سواری کو تیز ہانکے۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اس وادی سے تیز چلنے کا حکم کس لیے دیا اور خود عمل کرکے کیوں دکھایا جب کہ اس وقت وہاں کوئی ابابیل کے جھنڈ تھے نہ کہیں کنکروں کی بارش برسائی جا رہی تھی؟ اس کا جواب ہے کہ عبرت حاصل کرنے کے لیے یہ کیفیت پیدا کرنے کا ایک عمل تھا۔ یہ تیز رفتاری اب قیامت تک اُمت کے لیے سنت بن گئی ہے۔ اور حکم ہے کہ جب حجاج اس مقام سے گزریں تو رفتار تیز کرلیں اور سوار اپنی سواریوں کو ہانکتے ہوئے گزریں۔
اس حکم اور عمل کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد کارفرما ہے اور وہ ہے کہ گزشتہ واقعہ کی کیفیات یاد کرکے انہیں دِل و دماغ پر طاری کیا جائے اور تصور و تخیل میں اس کی یاد بسائی جائے۔ مندرجہ بالا احادیثِ مبارکہ سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ واقعات کی یاد تازہ کرنا خود حضور نبی اکرم ﷺ کی سنتِ مبارکہ سے ثابت ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعات اسلامی تعلیمات میں اہم اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
تخیل اور تصور پر آثارِ غم اور کیفیاتِ مسرت کا طاری ہونا ایک فطری اَمر ہے۔ ان کا اظہار انسان کے چہرہ سے ہوتا ہے۔ خوشی کا واقعہ یاد آئے تو چہرہ پر مسرت کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں، واقعہ غم ناک ہو تو آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے۔
1. حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أمَّنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه في الفجر، فقرأ سورة يوسف، حتي إذا انتهي إلي قوله (وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ کَظِيْمٌo) بکي حتي سالت دموعه، ثم رکع.
’’ایک روز حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نمازِ فجر کی امامت کرائی اور سورۃ یوسف کی تلاوت کی، جب وہ اس آیت۔ (اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہو گئیں سو وہ غم کو ضبط کیے ہوئے تھے)۔ پر پہنچے تو رونے لگے یہاں تک کہ ان کے آنسو بہنے لگے۔ اور پھر وہ رکوع میں چلے گئے۔‘‘
1. شيباني، کتاب الحجة علي أهل المدينه، 1: 113، 115، 116
2. طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصلاة، باب الوقت الذي يصلي فيه الفجر أي وقت هو،
1: 233، رقم: 1051
2۔ ابن ابزی کہتے ہیں:
صليت خلف عمر فقرأ سورة يوسف حتي إذا بلغ (وَابْيضَّتْ عَينٰهُ مِنَ الْحُزْنِ) وقع عليه البکاء، فرکع.
’’ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز پڑھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے نماز میں سورۂ یوسف کی قرات کی۔ جب آپ رضی اللہ عنہ اس آیت (اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں) پر پہنچے تو (حضرت عمر پر رِقت طاری ہوگئی اور) آپ اس قدر روئے کہ آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ پھر آپ رکوع میں چلے گئے۔‘‘
ابن قدامه، المغنی، 1: 335
حضرت یعقوب علیہ السلام کے گریہ پر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی کیفیتِ غم کی طرح لاتعداد مثالیں کتبِ حدیث و تفسیر میں مذکور ہیں، جن سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ایمان و عقیدہ کی اصل دل کا حال ہے جس کی مداومت سے مومن کو حلاوتِ ایمان نصیب ہوتی ہے۔ بعینہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان بھی دراصل مومن کے دل کا حال ہے۔ حضور ﷺ کی اطاعت اور اتباع کی اصل حبِ رسول ﷺ ہے۔ آپ ﷺ کی ولادتِ باسعادت قرآن حکیم کے مطابق اُمت مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کا سب سے عظیم احسان ہے۔ (1) ربِ کریم کے اس احسان کا شکر کیسے ادا ہو؟ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کی یاد کا حق کیسے ادا ہو؟ دل کی رگوں میں جاگزیں حبِ رسول کا اِظہار کیسے ممکن ہو؟ یہ سب سوال ہمیں ایک ہی سمت لے جاتے ہیں کہ میلادالنبی ﷺ پر اِظہارِ مسرت کی کیفیت ہمیں لپیٹ لے، ہم محفلیں سجائیں اور حضور ﷺ کے دیوانے بن جائیں، اور ہمارا جو قدم بھی اٹھے اطاعتِ رسول میں اٹھے۔
آل عمران، 3: 164
اِس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ گزشتہ واقعات کے حوالے سے خوشی اور غم کا اِظہار کرنا اور ان کیفیات کو اپنے اوپر طاری کر لینا سنتِ مصطفیٰ ﷺ ہے۔ اگرچہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ مبارکہ کو چودہ صدیوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے، ہم آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کے پرمسرت موقع کو یاد کرتے ہوئے خوشی کا اظہار اور جشن کا اہتمام اس لیے کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ہزاروں سال پہلے بیتے ہوئے واقعات یاد کرنے اور وہی کیفیات اپنے اوپر طاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ ہمیں آپ ﷺ کی سنت اور سنتِ صحابہ پر عمل کرنا ہے۔ حضور ﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری الله تعالی کی رحمت، اس کا فضل اور اِحسانِ عظیم ہے۔ یہ ساری امت کے لیے خوشی، مسرت و انبساط اور فخر و احسان کا موقع ہے۔ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ میلاد النبی ﷺ کے موقع پر کیف و مستی اور مسرت و انبساط کی کیفیات اپنے اوپر طاری کر لیں۔ ہم میلاد النبی ﷺ کے مسرت انگیز موقع پر اسی طرح فرحاں و شاداں ہوتے ہیں جیسے حضرت آمنہ رضی الله عنہا اور آپ ﷺ کا خاندان آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ سے ہوا تھا۔ ہم بھی میلاد مناتے ہوئے اسی طرح مسرت و شادمانی کا اظہار کرتے ہیں جس طرح ان لوگوں نے کیا تھا جو حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کے وقت موجود تھے۔ یہ ایک کیفیت پیدا کرنا ہے جو کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت مبارکہ بھی ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کی اُمّت ہونے کے ناتے ہم پر لازم ہے کہ چودہ سو سال پہلے بیت جانے والی کیفیات کا تصور کرتے ہوئے شایانِ شان طریقے سے آپ ﷺ کا یومِ میلاد منائیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved