ہمارے عقیدے، باطنی اِرتقاء اور رُوحانی زندگی کا اِنحصار ’’ذِکر‘‘ یعنی یاد کرنے، یاد رکھنے اور یاد منانے پر ہے۔ ہمارے روز مرہ معاملات، سرگرمیاں، حرکات و سکنات، گفتگو، سمجھ بوجھ، پڑھنا لکھنا، میل ملاقات، الغرض جملہ اُمورِ زندگی اُس علم پر منحصر ہوتے ہیں جو ہم حاصل کرتے ہیں اور اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ اِس طرح پوری زندگی لمحہ بہ لمحہ ہماری یاد میں محفوظ ہوتی ہے۔ یہی یاد ہمیں زندگی گزارنے کے طریقے، سلیقے اور ہنر سکھاتی ہے۔ سب نئے پرانے رشتے اسی یاد سے زندہ رہتے ہیں۔ اسی کی بنیاد پر ہماری عادات و خصائل متشکل ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر ہمیں کسی زبان یا بات چیت کی سمجھ آسکتی ہے نہ ہم دوستوں یا دشمنوں کی پہچان رکھ سکتے ہیں۔ ’’یاد‘‘ کے بغیر گویا پوری زندگی دیوانگی ہے، ہوش و خرد کا وجود محض اسی یاد کے سہارے قائم ہے۔
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَO
’’اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں۔‘‘
البقرة، 2: 4
یہاں ’’آپ سے پہلے نازل کی گئی‘‘ کتابوں پر ایمان ’’یاد‘‘ کی بنیاد پر ایمان کا جزو لاینفک بن گیا ہے جب کہ مومن کا باقی زندگی میں اُسی ہدایت کو ’’یاد رکھتے ہوئے‘‘ اور ہر قدم اس کی اتباع اور پیروی کرتے ہوئے گزارنا تکمیلِ ایمان کے لیے لازم ہے۔
اِنسان اِنتخابِ عمل کے دوراہے پر کھڑا ہے، جب وہ کسی عمل کا اِرادہ کرتا ہے تو جو کچھ اسے یاد ہوگا اسی کے مطابق اس سے عمل سرزد ہوگا۔ یہاں ایک لطیف نکتہ یہ بھی سمجھنے والا ہے کہ دل کی کیفیات یا قلبی اَعمال جنہیں ہم محبت، خشیت، عجز و نیاز اور تسلیم و رضا کے الفاظ استعمال کر کے ان کا تصور قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ’’یاد‘‘ یا ’’یادوں‘‘ سے منسلک ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ جذبات ہیں مگر خیالات کے تحرک کے بغیر وجود میں نہیں آتے۔ اس کے لیے اللہ رب العزت نے انسان کو یاد کی نعمت عطا کر رکھی ہے۔ جب کفار و مشرکین کو دعوتِ ایمان دی جاتی تو ہمیشہ جواب میں یہی کہتے کہ ہم اُس مسلک پر چلنا چاہتے ہیں جو ہمارے آباء و اَجداد اور اَسلاف سے نسلاً بعد نسلٍ چلا آ رہا ہے۔ یعنی وہ ماضی کی ’’یاد‘‘ سے اِنقطاع پر تیار نہ ہوتے تھے۔ اس پر انہیں یاد دلایا جاتا کہ تمہارے باپ دادا کا راستہ منزل تک نہیں جاتا، وہ بھی غلط راستے پر چل رہے تھے اور وہ اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے۔ ان کے پاس بھی پیغامِ ہدایت آیا لیکن انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی اور برباد ہوگئے۔ قرآن حکیم میں ہے:
فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَمَا كَانُواْ مُؤْمِنِينَO
’’پھر ہم نے ان کو اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے اپنی رحمت کے باعث نجات بخشی اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وہ ایمان لانے والے نہ تھے۔‘‘
الأعراف، 7: 72
یہاں کفار و مشرکین کو ’’یاد دلایا‘‘ جا رہا ہے کہ تمہارے اَسلاف نے غلط راستہ اختیار کیا اور برباد ہوگئے۔ لہٰذا وہ راستہ اپناؤ جس کی طرف تمہارے اسلاف کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ مسلمانوں پر بھی لازم قرار دیا گیا کہ سابقہ انبیاء و رسل جو پیغامِ الٰہی لے کر تشریف لائے وہ یہی پیغام ہے جو قرآن میں ہے۔ لہٰذا پہلی کتابوں پر ایمان لانا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا قرآن حکیم پر ایمان لانا ضروری ہے۔
’’سابقہ انبیاء کرام کی یاد منانا‘‘ اور ان کی نبوت و رسالت کا اِقرار کرنا بھی ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ چنانچہ اسلام کو قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر ’’ملتِ ابراہیمی‘‘ کہا گیا ہے:
1. وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَO
’’اور کون ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اُس کے جس نے خود کو مبتلائے حماقت کر رکھا ہو، اور بیشک ہم نے انہیں ضرور دنیا میں (بھی) منتخب فرما لیا تھا، اور یقیناً وہ آخرت میں (بھی) بلند رتبہ مقرّبین میں ہوں گے۔‘‘
البقرة، 2: 130
2. وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَO
’’اور (اہلِ کتاب) کہتے ہیں: یہودی یا نصرانی ہو جاؤ ہدایت پا جاؤ گے، آپ فرما دیں کہ (نہیں) بلکہ ہم تو (اس) ابراہیم (علیہ السلام) کا دین اختیار کیے ہوئے ہیں جو ہر باطل سے جدا صرف اللہ کی طرف متوجہ تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘
البقرة، 2: 135
3. قُلْ صَدَقَ اللهُ فَاتَّبِعُواْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَO
’’فرما دیں کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے، سو تم ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی پیروی کرو جو ہر باطل سے منہ موڑ کر صرف اللہ کے ہو گئے تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے۔‘‘
آل عمران، 3: 95
4. وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ واتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاًO
’’اور دینی اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا، اور وہ دینِ ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرتا رہا جو (اللہ کے لیے) یک سُو (اور) راست رَو تھے، اور اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا مخلص دوست بنا لیا تھا (سو وہ شخص بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے اللہ کا دوست ہوگیا)۔‘‘
النساء، 4: 125
5. قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَO
’’فرما دیجئے: بے شک مجھے میرے رب نے سیدھے راستے کی ہدایت فرما دی ہے، (یہ) مضبوط دین (کی راہ ہے اور یہی) اللہ کی طرف یک سُو اور ہر باطل سے جدا ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت ہے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘
الأنعام، 6: 161
6. ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَO
’’پھر (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ آپ ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی پیروی کریں جو ہر باطل سے جد اتھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘
النحل، 16: 123
7. وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُO
’’اور اللہ (کی محبت و طاعت اور اس کے دین کی اشاعت و اقامت) میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (یہی) تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے۔ اس (اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسولِ (آخر الزماں ﷺ ) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جاؤ، پس (اس مرتبہ پر فائز رہنے کے لیے) تم نماز قائم کیا کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور اللہ (کے دامن) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، وہی تمہارا مددگار (و کارساز) ہے، پس وہ کتنا اچھا کارساز (ہے) اور کتنا اچھا مددگار ہے۔‘‘
الحج، 22: 78
ان جملہ آیات میں ملتِ اِبراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام قید خانہ میں دو قیدیوں کے خوابوں کی تعبیر فرمانے سے پہلے اپنے دین کی تبلیغ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَآئِـي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ.
’’اور میں نے تو اپنے باپ دادا، ابراہیم اور اسحق اور یعقوب (علیہم السلام) کے دین کی پیروی کر رکھی ہے۔‘‘
يوسف، 12: 38
اِن آیات میں سابقہ اَنبیاء کی یاد کو دین کی بنیاد بنایا جا رہا ہے، یعنی اَنبیائے سابقہ اور ان کی اُمتوں کے حالات کو یاد رکھتے ہوئے اَنبیاء کی سنت کی پیروی کرنا بھی سنتِ انبیاء ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ.
’’(اے حبیب!) بے شک ہم نے آپ کی طرف (اُسی طرح) وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح (علیہ السلام) کی طرف اور ان کے بعد (دوسرے) پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔‘‘
النساء، 4: 163
سابقہ اُمتوں اور حضور ختمی مرتبت سے پہلے تشریف لانے والے انبیاء کرام کے احوال اور دین ابراہیم کے حوالے سے حاصل ہونے والا علم اہلِ ایمان کے قلوب و اَذہان میں یاد کی صورت میں منور ہو کر قدم قدم پر ہمارے لیے ہدایت کی روشنی مہیا کرتا ہے۔
یاد کا مضمون انتہائی وسیع ہے اور اس کا احاطہ کرنے کے لیے الگ کتاب کی ضرورت ہے۔ انسانی زندگی کی اس بنیادی خوبی کو موثر طریقے سے استعمال میں لانے کے لیے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اس مضمون کا ذکر آیا ہے۔ یہاں موضوع سے متعلقہ نکات ذہن نشین کرنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ہم ’’یاد‘‘ کے لیے قرآن حکیم میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کا مطالعہ کریں۔ اس حوالہ سے ’’ذکر‘‘ کا لفظ قرآن حکیم میں کم و بیش 267 مرتبہ اِستعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے: یاد کرلینا، یاد دلانا، محفوظ کرلینا۔ عبرت اور نصیحت کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے جب کہ قرآن مجید کو بھی ’’ذکر‘‘ کہا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں بعض مقامات پر ذکر کے مقابلے میں ’’نسیان‘‘ کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے: بھول جانا، بھلا دینا، یا غیر اہم سمجھ کر ترک کر دینا، چھوڑ دینا۔
1. فراهيدي، کتاب العين، 7: 304، 305
2. ابن منظور، لسان العرب، 15: 322، 323
3. فيروزآبادي، القاموس المحيط، 4: 398
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے جو تعلیم نازل فرمائی وہ اصولی طور پر اول تا آخر ایک ہی تھی، لیکن انسانی تحریف و تبدل کی وجہ سے وہ اپنی اصل شکل میں نہ رہی۔ قرآن اس فراموش کردہ تعلیمِ ربانی کی یاد دہانی کراتا ہے تاکہ انسان کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوجائے۔ قرآن مجید کے اندر جو احکامات بیان ہوئے ہیں انہیں بھی وہ مختلف پہلوؤں سے سامنے لاکر ایک مقام کی دوسرے مقام پر یاددہانی کراتا ہے۔ اس طرح بار بار یاددہانی سے انسان کے دل میں ان قوانین کی اہمیت اور عظمت کا احساس پیدا کرتا ہے تاکہ انسان ان کی پابندی کی طرف توجہ دے۔
اب ہم اگلے صفحات میں اِس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہماری عبادات کس طرح اَنبیاء علیہم السلام کی یادوں سے منسلک اور وابستہ ہیں اور کیسے کیفیاتِ مسرت و غم انبیاء کرام کی حیاتِ مقدسہ سے ہمارے لیے نورِ عجزوخشیت اور محبت و تعظیم کشید کرتی ہیں۔
جمہور اہلِ اِسلام بارہ ربیع الاول کا دن ’’جشنِ میلاد النبی ﷺ ‘‘ کے طور پر مناتے ہیں اور پنے آقا و مولا حضور رحمت عالم ﷺ کے ساتھ اپنی والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں۔ کسی واقعہ کی یاد منانا شعائر اسلام سے ثابت شدہ اَمر ہے۔ دین کی بنیاد اور ستون قرار دی جانے والی پانچ نمازیں۔ جنہیں اِسلام اور کفر کے مابین اِمتیاز کا درجہ حاصل ہے اور جو تمام مسلمانوں پر فرض کی گئی ہیں۔ دراَصل اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اَنبیاء کے اُن سجدہ ہائے شکر کی یاد منانے سے عبارت ہیں جو انہوں نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مختلف مواقع پر بہ صورتِ نوافل ادا کیے۔ اپنے محبوب بندوں کی یہ ادا اللہتعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے یہ نوافل اپنے حبیب مکرم ﷺ کی امت کو بطور فرض نماز عطا کر دیئے۔
امام طحاوی (229. 321ھ) پانچ فرض نمازوں کی نسبت امام محمد بن عائشہ کا قول نقل کرتے ہوئے شرح معانی الآثار میں درج ذیل تفصیل بیان کرتے ہیں:
إن آدم عليه السلام لما تِيبَ عليه عند الفجر، صلي رکعتين، فصارت الصبح.
’’جب صبح کے وقت ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نمازِ فجر ہوگئی۔‘‘
وفدي إسحاق عند الظهر فصلي إبراهيم عليه السلام أربعا، فصارت الظهر.
’’ظہر کے وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب حضرت اسحق علیہ السلام سے نوازا گیا تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) چار رکعات ادا کیں، پس وہ نمازِ ظہر ہوگئی۔‘‘
و بُعِثَ عزير، فقيل له: کم لبثت؟ فقال: يوما أو بعض يوم. فصلي أربع رکعات، فصارت العصر.
’’جب حضرت عزیر علیہ السلام کو (سو سال بعد) اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا: آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا: ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پس انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نماز عصر ہوگئی۔‘‘
وقد قيل: غُفِر لعزير عليه السلام وغُفِر لداود عليه السلام عند المغرب، فقام فصلي أربع رکعات فجهد فجلس في الثالثة، فصارت المغرب ثلاثا.
’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے(شکرانے کے طور پر) چار رکعات نماز شروع کی (مگر نقاہت وکمزوری کے باعث) تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ (اس طرح تین رکعات ادا کیں، چوتھی رکعت مکمل نہ ہو سکی۔) پس وہ نمازِ مغرب ہوگئی۔‘‘
وأوّل من صلي العشاء الآخرة، نبينا محمد ﷺ .
’’اور جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نمازِ عشاء) ادا کی وہ ہمارے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔‘‘
طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصلاة، باب الصلاة الوسطي أي الصلوات، 1: 226، رقم: 1014
الغرض یہ پنجگانہ نمازیں ان جلیل القدر پیغمبروں کی عبادت کی یاد دلاتی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لطف و کرم اور فضل و احسان فرمایا اور انہوں نے اظہارِ تشکر کے طور پر دوگانہ اور چہارگانہ نوافل ادا کیے جو اللہ رب العزت نے امتِ محمدی ﷺ کے لیے پانچ فرض نمازوں کی صورت میں ان کی یادگار بنا دیئے۔ اس طرح دن بھر کی ان تمام نمازوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے انبیاء کرام کی یاد کا تسلسل بنا دیا۔
علامہ ابن عابدین شامی (1244۔ 1306ھ) اپنے فتاویٰ
’’رد المحتار علی در المختار علی تنویر الابصار‘‘ میں پانچ فرض نمازوں کی نسبت فرماتے ہیں:
قيل: الصبح صلاة آدم، والظهر لداود، والعصر لسليمان، والمغرب ليعقوب، والعشاء ليونس عليهم السلام، وجمعت في هذه الأمة.
’’کہا گیا ہے کہ نمازِ فجر حضرت آدم، ظہر حضرت داؤد، عصر حضرت سلیمان، مغرب حضرت یعقوب، اور عشاء حضرت یونس علیہم السلام کے لیے تھیں جنہیں اِس اُمت میں جمع کر دیا گیا ہے۔‘‘
ابن عابدين، رد المحتار علي در المختار علي تنوير الأبصار، 1: 351
وہ لمحے جو انبیاء کرام نے اللہ کی بارگاہ میں شکر، عجز اور خشوع و خضوع میں گزارے اللہ نے انہیں اَمر کر دیا۔ اپنے آخری رسول ﷺ کی امت کو اپنے قرب کا راستہ دکھا دیا اور محبت و اطاعت کی نورانی کیفیات کی رحمت بے پایاں عطا کر دی۔ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبروں کے وہ سجدے جو مقبول ہوئے سرکارِ دوعالم ﷺ کے وسیلے سے اُمت مسلمہ کو مل گئے جو تاابد اُن کی یاد مناتی رہے گی۔ یاد کی اَہمیت اِس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ اَرکانِ اِسلام میں سے اہم ترین رُکن صلوٰۃ کی عملی صورت میں جو پانچ نمازیں مقرر ہوئیں وہ ساری کی ساری کسی نہ کسی نبی کی یاد ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ مقبولانِ بارگاہ ایزدی سے منسوب کسی عمل یا واقعہ کی یاد منانا اسلام میں نہ صرف جائز ہے بلکہ دین اِسلام کی بنیادی فکر و فلسفہ کا تقاضہ ہے۔ جشنِ میلاد النبی ﷺ میں بھی خیر الوریٰ، حبیبِ کبریاء، تاجدارِ اَنبیاء حضور رحمت عالم ﷺ کے واقعاتِ ولادت کی یاد منائی جاتی ہے جو سراسر جائز اور منشاء خداوندی کے عین مطابق ہے۔
حج کو شہادت اور نماز کے بعد تیسرے رُکنِ اِسلام کا درجہ حاصل ہے۔ فریضۂ حج کی بنیاد اور تمام مناسکِ حج درحقیقت حضرت ابراہیم، حضرت اسمٰعیل اور حضرت ہاجرہ علیہم السلام کی زندگی کے عظیم واقعات سے عبارت ہیں۔ انہوں نے صبر و استقامت، اطاعت اور قربانی کے جو نقوش چھوڑے رب کریم نے ان کی یاد منانے کو اُمتِ مسلمہ کے لیے فرض عبادت قرار دے دیا۔ دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان ہر سال مکہ مکرمہ جا کر ان کی یاد مناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس فریضہ سے سرخرو ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں نے جو لمحات اپنے معبودِ حقیقی کی محبت و اطاعت اور سوزِ عشق میں گزارے اللہ نے انہیں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا۔ وہ قدم جو اس کی یاد میں اٹھے، دوڑے اور تڑپے، اللہ نے انہیں اپنی نشانیاں قرار دے دیا۔
اللہ کے گھر میں داخل ہوتے ہی آنکھیں برسات کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں، آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے اور جذبۂ عشق ومستی کی تسکین کا سامان ہونے لگتا ہے۔ خانۂ خدا میں قدم رکھتے ہی بندگانِ خدا کعبۃ اللہ کا طواف شروع کر دیتے ہیں اور حجرِ اَسود کی طرف دیوانہ وار لپکتے ہیں اور دھکم پیل کے باوجود بڑی محنت و جاں فشانی سے اس کے قریب پہنچتے اور اسے بوسہ دیتے ہیں اور پھر صفا و مروہ کی سعی کرتے ہیں۔ نویں ذی الحج آتی ہے تو ہر حاجی بے اختیار میدانِ عرفات کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ عرفات میں ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ ادا کرتا ہے۔ مزدلفہ میں مغرب کے وقت وہ نماز نہیں پڑھتا بلکہ اسے عشاء کی نماز کے ساتھ ملا کر پڑھتا ہے پھر منٰی پہنچ کر رمی کرتا ہے اور قربانی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔
ان تمام اُمور کی کوئی عقلی توجیہ ممکن نہیں۔ سارے معاملات عشق و جنوں کے آئینہ دار ہیں۔ عقل سے لاکھ پوچھا جائے کہ ان سب معمولات کی حقیقت کیا ہے مگر اسے کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔ جب یہی سوال عشق سے پوچھا جاتا ہے تو جواب آتا ہے کہ حج کے ہر عمل کے پیچھے محبت و وارفتگی کی کوئی نہ کوئی ادا چھپی ہوئی ہے۔ اپنے محبوب بندوں کی اداؤں کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اتنا پسند فرمایا کہ انہیں قیامت تک فرض عبادت کا درجہ دے دیا۔ باری تعالیٰ کو ان کی نسبتیں اتنی عزیز ہیں کہ انہی کے رنگ ڈھنگ اور انداز و اطوار کو اپنا لینا عین عبادت قرار پایا۔ حج انہی افعال و اعمال کے دہرائے جانے سے عبارت ہے جن سے اللہ کے مقبول بندوں کی کوئی نہ کوئی یاد وابستہ ہے۔
حج اُن فرض عبادات میں سے ہے جس کے جملہ مناسک دراصل رب کریم کے برگزیدہ انبیاء کی محبوب عبادات، اداؤں اور معمولات کی یاد منانے پر مشتمل ہیں۔ اس فصل کے مطالعہ سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ مناسکِ حج سراسر یاد منانا ہے۔ اللہ کے ایک محبوب بندے نے کوئی عمل کیا اور ایسی کیفیت میں ڈوب کر کیا کہ اللہ رب العزت نے اس کی توقیر کرتے ہوئے اپنے سب سے پیارے رسول ﷺ کی امت کے لیے اسے فرض عبادت کا درجہ دے دیا۔ ان افعال کو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام سے منسوب ہیں، مناسک حج کا حصہ بنا دیا گیا اور ان کا بجا لانا ہم پر لازم ہے۔ 8 ذی الحج سے 13 ذی الحجہ تک ادا کیے جانے والے ان مناسک کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:
مناسک و آدابِ حج و عمرہ کی ادائیگی کے حوالے سے ایک قابل ذکر عمل احرام باندھنا ہے جو تمام طواف کرنے والوں کے لیے لازم ہے۔ دو چادروں پر مشتمل یہ وہی لباس ہے جسے دورانِ حج انبیاء کرام علیھم السلام زیب تن فرماتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بہت پسند آیا، اور حجاج کے لیے لازم قرار پایا کہ وہ اپنے علاقائی رواج کے مطابق سلا ہوا لباس اتار پھینکیں اور فقط دو چادریں اوڑھ لیں۔ ان میں سے ایک چادر بطور تہبند استعمال کی جاتی ہے جب کہ دوسری سے جسم ڈھانپا جاتا ہے۔ دنیا کے مختلف کونوں سے آئے ہوئے عازمینِ حج احرام کی چادروں سے جسم ڈھانپ کر سنتِ انبیاء علیہم السلام کی اتباع میں ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ لباس ستر (70) انبیاء نے اپنے اپنے زمانہ میں زیب تن کیا، اس کی تصریح درج ذیل روایات سے ہوتی ہے:
1۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لقد مرّ بالصخرة من الروحاء سبعون نبياً، منهم موسي نبي اللہ، حفاة، عليهم العباء، يؤمون بيت اللہ العتيق.
’’اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام سمیت 70 انبیاء (مکہ اور مدینہ کے درمیان) روحاء کی پتھریلی جگہ سے ننگے پاؤں گزرے ہیں، وہ ایک چادر زیب تن کیے ہوئے بیت اللہ جا رہے تھے۔‘‘
1. أبو يعلي، المسند، 13: 201، 255، رقم: 7231، 7271
2۔ ابو یعلٰی نے ’’المسند (7: 262، رقم: 4275)‘‘ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی روایت نقل کی ہے۔
3. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 3: 433، رقم: 5328
4. أبو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 1: 260
5۔ منذری نے ’’الترغیب والترہیب من الحدیث الشریف (2: 118، رقم: 1739)‘‘ میں کہا ہے کہ اس حدیث کی سند پر کوئی اِعتراض نہیں۔
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 61: 166
7. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3: 220
2۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اِحرام بیان کرتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کأني أنظر إلي موسي بن عمران في هذا الوادي محرماً بين قَطَوانيتين.
’’میں نے اس وادی میں موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو دو قطوانی (کوفہ کے علاقہ قطوان سے منسوب سفید) چادروں پر مشتمل اِحرام پہنے دیکھا ہے۔‘‘
1. أبو يعلي، المسند، 9: 27، رقم: 5093
2. طبراني، المعجم الکبير، 10: 142، رقم: 10255
3. طبراني، المعجم الأوسط، 6: 308، رقم: 6487
4. أبو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 4: 189
5۔ منذری نے ’’الترغیب والترہیب من الحدیث الشریف (2: 118، رقم: 1740)‘‘ میں کہا
ہے کہ اِسے ابو یعلٰی اور طبرانی نے حسن اِسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
6۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (3: 221)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ روایت ابو یعلٰی
اور طبرانی نے بیان کی ہے اور اس کی اسناد حسن ہے۔
3۔ تاریخِ مکہ پر لکھی جانے والی پہلی کتاب کے مصنف اِمام اَزرقی (م 223 ھ) اپنی کتاب ’’اخبار مکۃ وما جاء فیھا من الآثار‘‘ میں اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ انبیاء کرام کے اسی لباسِ حج کو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
لقد سلک فجَّ الروحاء سبعون نبياً حجاجاً، عليهم لباس الصوف.
’’روحا کے راستے سے ستر (70) انبیاء کرام حج کرنے کی غرض سے گزرے ہیں جنہوں نے اُون کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔‘‘
أزرقي، أخبار مکة وما جاء فيها من الآثار، 1: 71، 72
4۔ حج کے موقع پر انبیاء کرام کے چادریں اوڑھنے کے اس طریقہ کو حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھم کے ہونہار شاگرد مجاہد بن جبیر مکی نے درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حج کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حج موسي النبي عليه السلام علي جمل أحمر، فمرّ بالروحاء، عليه عباء تان قطوانيتان، متزر بإحداهما مرتدي بالأخري، فطاف بالبيت.
’’اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام حج کے اِرادہ سے سرخ اونٹ پر روانہ ہوئے، وہ روحاء کے مقام سے گزرے۔ ان کے اوپر دو قطوانی (سفید) چادریں تھیں جن میں سے ایک انہوں نے تہبند کے طور پر باندھی ہوئی تھی اور دوسری جسم پر اوڑھ رکھی تھی۔ پس انہوں نے (اسی حالت میں) بیت اللہ کا طواف کیا۔‘‘
أزرقي، أخبار مکة وما جاء فيها من الآثار، 1: 67
5۔ ایک روایت میں حضرت ہود اور صالح علیہما السلام کا لباس بھی بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سفرِ حج کے دوران حضور نبی اکرم ﷺ وادی عسفان کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے اِستفسار فرمایا: ابو بکر! یہ کون سی وادی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: وادئ عسفان آپ ﷺ نے فرمایا:
لقد مر به هود وصالح علي بَکَراتٍ حُمْرٍ خُطُمُها اللِّيْفُ، أُزُرُهم العباء، وأردِيَتُهُم النِّمارُ، يُلَبّون يَحُجُّون البيتَ العتيقَ.
’’یہاں سے ہود اور صالح (علیہما السلام) جوان سرخ اونٹنیوں پر گزرے ہیں جن کی مہاریں کھجور کی چھال کی تھیں۔ انہوں نے تہبند سے ستر ڈھانپے ہوئے تھے اور سفید و سیاہ دھاری دار چادریں اوڑھی ہوئی تھیں۔ وہ تلبیہ کہتے ہوئے بیت اللہ کا حج کرنے جا رہے تھے۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 232
2۔ بیہقی کی ’’شعب الایمان (3: 440، رقم: 4003)‘‘ میں بیان کردہ روایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی ذکر ہے۔
3. منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 2: 117، رقم: 1737
مذکورہ بالاروایات سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام سادہ چادریں اوڑھے حج ادا کرتے۔ وہ حج کی ادائیگی میں فقط رضائے الٰہی پیشِ نظر رکھتے۔ ان کا لباسِ حج دو چادروں پر مشتمل ہوتا: ایک بطور تہبند باندھ لیتے اور دوسری جسم پر اوڑھ لیتے۔
اَنبیاء کرام علیہم السلام کا یہ لباس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اتنا پسند آیا کہ آپ ﷺ نے اس لباس کو قیامت تک آنے والے حاجیوں کے لیے لازم قرار دے دیا۔ عام زندگی کے لباس میں باقی جتنے مشمولات اور لوازمات ہوتے ہیں ان سب کو حج کے دوران پہننے سے منع فرما دیا۔ عام حالات میں ننگے سر عبادت کرنا معیوب اور خلافِ سنت تصور کیا جاتا ہے مگر دورانِ حج و عمرہ بیت اللہ میں ایسا نہیں۔ حالتِ اِحرام میں بیت اللہ میں سب ننگے سر حاضر ہوتے ہیں۔ وہاں سر کا ننگا ہونا اَنبیاء کرام کے لباسِ حج و عمرہ کی نسبت کے سبب عجز و خاک ساری اور فروتنی کی علامت بن گیا ہے اور اللہ رب العزت کے نزدیک غایت درجہ پسندیدہ ہے۔
یہ انبیاء کرام علیہمم السلام کی نسبت اور تعلق ہی کی وجہ ہی ہے کہ اِحرام متعین ہونے کے ساتھ حج کے دوران حاجیوں کو ناخن تراشنے، بال کٹوانے اور مونچھیں کٹوانے جیسے اعمال سے بھی روک دیا گیا (1) تاکہ ظاہری طور پر بھی ہر لحاظ سے حجاج کرام انبیاء علیہم السلام کی پیروی کریں۔
کاساني، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، 2: 198
حج یا عمرہ کرنے والا جب احرام باندھتا ہے تو نہایت خشوع و خضوع کے عالم میں اس کے ہونٹوں پر یہ الفاظ مچلنے لگتے ہیں:
لَبَّيْکَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْکً، لَبَّيْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَة لَکَ وَالْمُلْکَ، لَا شَرِيْکَ لَکَ.
’’میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک تمام تعریفیں، نعمتیں اور ملک تیرے لیے ہیں، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب التلبية، 2: 561، رقم: 1474
2. بخاري، الصحيح، کتاب اللباس، باب التلبيد، 5: 2213، رقم: 5571
3. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب التلبية وصفتها ووقتها، 2: 841، 842، رقم: 1184
4. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء في التلبية، 3: 187، 188، رقم: 825،
826
5. أبو داؤد، السنن، کتاب المناسک، باب کيف التلبية، 2: 162، رقم: 1812
6. نسائي، السنن، کتاب مناسک الحج، باب کيف التلبية، 5: 159، 160، رقم: 2747، 2750
7. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب التلبية، 2: 974، رقم: 2918
یہ تلبیہ عمرہ اور حج کے مناسک کی ادائیگی کے دوران حرمِ کعبہ میں پڑھا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ تلبیہ کیا ہے اور اس کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟ دراصل یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اُس پکار کا جواب ہے جو اُنہوں نے ایک اندازے کے مطابق آج سے کم و بیش چار ہزار سال قبل تعمیرِ کعبہ کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں کی تھی۔ اس حکم کا ذکر کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے:
وَ اَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْکَ رِجَالاً وَّ عَلٰي کُلِّ ضَامِرٍ يَاْتِيْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِْيقٍo
’’اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو لوگ تمہارے پاس پیدل اور تمام دبلے اونٹوں پر (سوار) حاضر ہوجائیں گے جو دور دراز کے راستوں سے آتے ہیں۔‘‘
الحج، 22: 27
احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جبلِ ابوقبیس پر چڑھ گئے اور وہاں سے تمام اکنافِ عالم کو بیت اللہ میں حاضری کے لیے ندا دی: لوگو! اللہ کے گھر کی طرف آؤ، طواف اور حج کے لیے آؤ۔ (1) اس صدائے ابراہیمی علیہ السلام کو روحانی طور پر اس قدر دور رس بنا دیا گیا کہ وہ زمانی و مکانی فاصلوں سے ماوراء ہر اُس جگہ پہنچی جہاں اُس وقت لوگ آباد تھے۔ بلکہ وہ جو عالمِ ارواح میں تھے اور قیامت تک کے لیے عالمِ بشریت میں آنے کے منتظر تھے ان کے کان بھی اس آواز سے آشنا ہوئے اور جس نے اُسے سن کر لَبَّيْکَ کہا اسے حج کی توفیق اور بیت اللہ میں حاضری کا اِذن عطا ہوا۔ اِس بابت چند روایات درج ذیل ہیں:
1. ابن ابي حاتم رازي، تفسير القرآن العظيم، 8: 2487، 2488،
رقم: 13884
2. ابن جوزي، زاد المسير في علم التفسير، 5: 423
3. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 6: 32
4. ابن عجيبه، البحر المديد في تفسير القرآن المجيد، 4: 410
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں:
لما بني إبراهيم البيت أوحي اللہ إليه أن أذّن في الناس بالحج. قال: فقال إبراهيم: ألا! إن ربکم قد اتخذ بيتا وأمرکم أن تحجوه، فاستجاب له ما سمعه من حجر أو شجر أو أکمة أو تراب: لبيک اللّٰهم لبيک.
’’جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر مکمل کردی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ لوگوں میں بلند آوازسے حج کا اعلان کر دیجئے۔ راوی بیان کرتے ہیں: تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: (اے لوگو!) خبردار! بے شک تمہارے رب نے گھر بنایا ہے اور تمہیں اس کا حج کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا آپ کی پکار پر پتھر، شجر، ٹیلے اور مٹی، غرض کوئی شے بھی ایسی نہ تھی جس نے یہ جواب نہ دیا ہو: حاضر ہیں، اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں حاضر ہیں۔‘‘
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2: 601، رقم: 4026
2. بيهقي، السنن الکبري، 5: 176، رقم: 9613
3. بيهقي، شعب الإيمان، 3: 439، رقم: 3998
4. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1: 156
5. مجاهد، التفسير، 2: 422
6. جصاص، أحکام القرآن، 5: 63
7. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 17: 144
8. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 6: 32
2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
لما فرغ إبراهيم عليه السلام من بناء البيت العتيق، قيل له: أذن في الناس بالحج، قال: رب و ما يبلغ صوتي، قال: أذن وعلي البلاغ، قال: فقال إبراهيم: يا أيها الناس! کتب عليکم الحج إلي البيت العتيق. قال: فسمعه ما بين السماء إلي الأرض، ألا تري أن الناس يجيؤن من أقاصي الأرض يُلبّون.
’’جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو ان سے کہا گیا: لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اِعلان کریں۔ انہوں نے عرض کیا: اے میرے رب! میری آواز (ان تک) نہیں پہنچے گی، ارشاد ہوا: آپ بلائیے اور (آپ کی آواز مخلوق تک) پہنچانا ہمارا کام ہے۔ راوی کہتے ہیں: اس پر ابراہیم علیہ السلام نے پکارا: اے لوگو! تم پر اللہ کے قدیم گھر (خانہ کعبہ) کا حج فرض کر دیاگیا ہے۔ راوی کہتے ہیں: پس آسمان سے لے کر زمین تک تمام مخلوق نے ان کی ندا سنی۔ تو کیا تم نہیں دیکھتے کہ پوری زمین کے اطراف و اکناف سے (ان کی آواز پر لبیک کہنے والے) لوگ تلبیہ کہتے ہوئے چلے آتے ہیں۔‘‘
1. ابن أبي شيبه، المصنف، 6: 329، رقم: 31818
2. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2: 421، رقم: 3464
3. بيهقي، السنن الکبري، 5: 176، رقم: 9614
4. مقدسي، الأحاديث المختارة، 10: 20، 21
5. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 17: 144
6۔ طبری نے ’’جامع البیان فی تفسیر القرآن (17: 144)‘‘ میں یہ روایت حضرت سعید بن جبیر سے بھی بیان کی ہے۔
7. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 6: 32
8۔ سیوطی نے ’’الدر المنثور فی التفسیر بالماثور (6: 233)‘‘ میں یہ روایت حضرت سعید بن جبیر سے بھی بیان کی ہے۔
9. شوکاني، فتح القدير، 3: 450
10۔ آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 17: 143
3۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما اللہ تعالیٰ کے ارشاد (وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ)۔ کے بارے میں فرماتے ہیں:
قام إبراهيم خليل اللہ علي الحجر، فنادي: يا أيها الناس! کتب عليکم الحج. فأسمع من في أصلاب الرجال وأرحام النساء فأجابه من آمن ممن سبق في علم اللہ أن يحج إلي يوم القيامة: لبّيک اللّهم لبّيک.
’’حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک پتھر پر کھڑے ہوکر ندا دی: اے لوگو! تم پر حج فرض کردیا گیا ہے۔ پس جو کوئی مَردوں کی پشتوں اور عورتوں کے رحموں میں تھا اس نے سنا۔ پس مومنین میں سے اللہ کے علم کے مطابق جس نے قیامت تک حج کرنا تھا آپ علیہ السلام کی پکار کا جواب دیتے ہوئے کہا: اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں حاضر ہیں۔‘‘
1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 17: 144
2. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 6: 33
3. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1: 157
4. عسقلاني، فتح الباري، 6: 406
4۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لما فرغ إبراهيم عليه السلام من بناء البيت أمره اللہ أن ينادي في الحج، فقام علي المنار، فقال: يا أيها الناس! إن ربکم قد بني لکم بيتا فحُجّوه وأجيبوا اللہ عزوجل، قال: فأجابوه في أصلاب الرجال وأرحام النساء: أجبناک أجبناک لبّيک اللّٰهم لبّيک، قال: فکل من حجّ اليوم فهو ممّن أجاب إبراهيم علي قدر ما لبّي.
’’سیدنا ابراہیم علیہ السلام جب بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اِعلانِ حج کرنے کا حکم دیا، پس آپ ایک مینار پر کھڑے ہوگئے اور فرمایا: اے لوگو! بے شک تمہارے پروردگار نے تمہارے لیے گھر تعمیر کر دیا ہے، سو تم اس کا حج کرو اور اللہ رب العزت کا پیغام قبول کرو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مردوں کی پشتوں اور عورتوں کے رحموں سے لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے آپ کا پیغام قبول کیا، ہم نے آپ کا پیغام قبول کیا (اور پکارے: ) حاضر ہیں، اے اللہ! تیری بارگاہ میں حاضر ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: آج جو شخص جتنی مرتبہ حج کرتا ہے تو وہ اُنہی میں سے ہوتا ہے جنہوں نے ابراہیم علیہ السلام کی پکار پر لبیک کہا تھا۔‘‘
1. فاکهي، أخبار مکة في قديم الدهر و حديثه، 1: 446، رقم: 973
درج ذیل کتب میں یہ روایت مختصراً مجاہد بن جبیر مکی سے منقول ہے:
1. ابن أبي شيبة، المصنف، 6: 330، رقم: 31826
2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 17: 145
3. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 15: 131
4. زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 3: 23
لَبَّيْکَ کی یہ پکار ہزاروں سال پہلے ایک لمحہ کے لیے بلند ہوئی لیکن آج اس نغمۂ سرمدی کی بازگشت ہر طرف سنائی دیتی ہے۔ حجاج کرام اس پکار کو اپنے تصور میں جاگزیں کر کے اس کا جواب دیتے ہیں اور اللہ کے پیارے خلیل علیہ السلام سے متعلق ایک واقعہ کی یاد مناتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی شے یا واقعہ کو تصور و تخیل میں لاکر اس کی یاد منانا منشائے اِسلام کے عین مطابق ہے۔ جشن میلاد النبی ﷺ میں بھی ہم آپ ﷺ کی آمد کو تصور میں اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے ہیں اور خوشی و مسرت اور سرور و انبساط کا اظہار کر تے ہیں۔ جشنِ میلاد کی مختلف تقریبات اور محافلِ نعت کے ذریعے آپ ﷺ کی ولادت کی یاد منائی جاتی ہے جو اَمرِ جائز ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔
بیت اللہ کے گرد سات چکر لگانا اصطلاح میں ’’طواف‘‘ کہلاتا ہے۔ طواف کرنا اور اس میں سات چکر لگانا بھی انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ اور سنت رہا ہے۔ درج ذیل روایات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے:
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں:
فکان أوّل من أسّس البيت وصلي فيه وطاف به آدم عليه السلام.
’’سب سے پہلے بیت اللہ کی بنیاد رکھنے والے، اس میں نماز پڑھنے والے اور اس کا طواف کرنے والے حضرت آدم علیہ السلام تھے۔‘‘
1. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1: 36، 40
2. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 1: 313
2۔ امام محمد بن اسحاق روایت کرتے ہیں: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام زمین پر عبادت کے لیے جنت جیسا ماحول نہ پا کر غمگین ہوگئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں کے ذریعے) ان کے لیے بیت الحرام تعمیر کر دیا اور انہیں وہاں کوچ کرنے کا حکم دیا۔ سو انہوں نے مکہ کا سفر شروع کیا اور راستے میں جس جگہ قیام کیا وہاں اللہ تعالیٰ نے پانی جاری کر دیا۔ یہاں تک کہ آپ مکہ پہنچ گئے:
فأقام بها يعبد اللہ عند ذلک البيت ويطوف به، فلم تزل داره حتي قبضه اللہ بها.
’’پس آپ نے وہیں قیام کیا اور بیت اللہ کے نزدیک اللہ کی عبادت اور اس کے گھر کے طواف میں مگن ہوگئے، سو ان کا گھر اسی جگہ رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے وہیں آپ کی روح قبض فرمائی۔‘‘
1. أزرقي، أخبار مکة وماجاء فيها من الآثار، 1: 39
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 7: 425
3. مقدسي، البدء والتاريخ، 4: 82
3۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے بیت اللہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ یاقوت میں ملفوف اتارا تھا، اور ان سے فرمایا: اے آدم! میں نے تمہارے ساتھ اپنا یہ گھر اتارا ہے، جس طرح میرے عرش کے گرد طواف ہوتا ہے اُسی طرح اِس کے گرد بھی طواف کیا جائے گا، اور جس طرح میرے عرش کے گرد نماز پڑھی جاتی ہے اسی طرح اس کے گرد بھی نماز پڑھی جائے گی۔ بیت اللہ کے ساتھ فرشتے بھی اترے جنہوں نے اس کی بنیادوں کو پتھروں پر اٹھایا، اور پھر ان بنیادوں پر بیت اللہ رکھ دیا گیا:
فکان آدم عليه السلام يطوف حوله کما يطاف حول العرش، ويصلي عنده کما يصلي عند العرش.
’’پس حضرت آدم علیہ السلام اس کے گرد ایسے ہی طواف کرتے جس طرح عرش کے گرد کیا جاتا تھا، اور اس کے پاس اُسی طرح نمازیں پڑھتے جس طرح عرش کے گرد پڑھی جاتی تھیں۔‘‘
أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1: 39
4۔ حضرت آدم علیہ السلام کے علاوہ بھی کئی انبیاء کرام نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ مشہور تابعی مجاہد بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ حج کرنے والے انبیاء کرام کی تعداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
حجّ خمسة وسبعون نبياً، کلهم قد طاف بالبيت.
’’پچھتر (75) انبیاء کرام نے حج کیا اور ان سب نے بیت اللہ کا طواف کیا۔‘‘
1. أزرقي، أخبار مکة وماجاء فيها من الآثار، 1: 67، 68
2. فاکهي، أخبار مکة في قديم الدهر وحديثه، 4: 268، رقم: 2599
3. أحمد بن حنبل، العلل و معرفة الرجال، 3: 193، رقم: 4831
یہ اَمر ذہن نشین رہے کہ طواف میں سات چکر لگانا بھی انبیائے کرام کی سنت رہی ہے، جس کی تصریح درج ذیل روایات سے ہوتی ہے:
5۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
حجّ آدم عليه السلام وطاف بالبيت سبعا.
’’حضرت آدم علیہ السلام نے حج کیا تو بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے۔‘‘
1. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1: 45
2. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 1: 320
6۔ امام عبد اللہ بن ابی سلیمان بیان کرتے ہیں:
طاف آدم عليه السلام سبعاً بالبيت حين نزل.
’’جب حضرت آدم علیہ السلام زمین پر اُترے تو انہوں نے بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے۔‘‘
أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1: 43
7۔ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے طوافِ کعبہ کے بارے میں امام محمد بن اسحق بیان کرتے ہیں:
لما فرغ إبراهيم خليل الرحمن من بناء البيت الحرام، جاءه جبريل فقال: طف به سبعًا، فطاف به سبعًا هو وإسماعيل.
’’اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام جب بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: اس کے گرد سات چکر لگائیں۔ تو حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے۔‘‘
1. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1: 65
2. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2: 129
تمام انبیاء کرام کے بعد حضور علیہ السلام کی بعثت ہوئی تو سابقہ انبیاء کرام کی سنت برقرار رکھتے ہوئے آپ ﷺ نے بھی ہمیشہ دورانِ طواف بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے۔
8۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں:
قدم النبي ﷺ فطاف بالبيت سبعا.
’’حضور نبی اکرم ﷺ (مکہ) تشریف لائے تو آپ ﷺ نے (طواف کرتے ہوئے) بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب من صلي رکعتي الطواف خلف
المقام، 2: 588، رقم: 1547
2. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء في السعي بين الصفا والمروة، 2: 593، رقم:
1563
3. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب متي يَحلُّ المعتمر، 2: 636، رقم: 1700
4. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب ما يُلزَم من أحرم بالحج، 2: 906، رقم: 1234
9۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
أن النبي ﷺ حين قدم مکة طاف بالبيت سبعا.
’’بے شک حضور نبی اکرم ﷺ جب مکہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے (طواف کرتے ہوئے) بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ماجاء أنه يبدأ بالصفا
قبل المروة، 3: 216، رقم: 862
2. ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب التفاسير، باب ومن سورة البقرة، 5: 210، رقم: 2967
3. نسائي، السنن، کتاب مناسک الحج، باب القول بعد رکعتي الطواف، 5: 235، رقم: 2961
4. ابن خزيمه، الصحيح، 4: 170، رقم: 2620
5. طبراني، المعجم الصغير، 1: 126، رقم: 187
مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ طواف میں سات چکر لگانا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت کی پیروی ہے، اِس کے ذریعے ہم اُن کی یاد تازہ کر تے ہیں۔
کعبۃ اللہ کا طواف مناسکِ حج کا اہم حصہ ہے۔ حجاج کرام کو یہ حکم ہے کہ وہ طواف کے پہلے تین چکروں میں اکڑ اکڑ کر چلیں۔ اسے اِصطلاحاً رمل کہا جاتا ہے۔ عام حالات میں اکڑ اکڑ کر چلنا غرور و تکبر کی علامت ہے اور اللہ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے، (1) جب کہ حج میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد مسلسل ریاضت و مشقت کی وجہ سے مسلمان دبلے پتلے اور کمزور ہوگئے تھے۔ صلح حدیبیہ کے اگلے سال جب وہ عمرہ کرنے کے لیے مکہ پہنچے تو ان کی حالت سے نقاہت کا اظہار ہوتا تھا۔ طوافِ کعبہ کرتے ہوئے انہیں آہستہ آہستہ چلتے دیکھ کر کفارِ مکہ طعنہ زنی کرنے لگے کہ مسلمان مکہ میں تو خوش حال تھے، مدینہ جا کر ان کی حالت اتنی اَبتر ہو گئی ہے کہ ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتے۔
(1) حضرت حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
ألا أخبرکم بأهل الجنة؟ کل ضعيف متضعف، لو أقسم علي اللہ لأبره. ألا أخبرکم بأهل النار؟ کل عتل، جواظ، مستکبر.
’’کیا میں تمہیں اہلِ جنت کے بارے میں نہ بتاؤں؟ (خود ہی فرمایا: ) ہر کمزور اور حقیر سمجھا جانے والا، لیکن اگر وہ اللہ کے بھروسے پر کوئی قسم کھالے تو اللہ اُسے سچا کردیتا ہے۔ اور کیا میں تمہیں دوزخیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ (پھر خود ہی فرمایا: ) ہر درشت خو، جھگڑالو اور تکبر کرنے والا دوزخی ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب التفسير، باب سورة ن والقلم، 4: 1870،
رقم: 4634
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب الکبر، 5: 2255، رقم: 5723
3. مسلم، الصحيح، کتاب الجنة و صفة نعيمها وأهلها، باب النار يدخلها الجبارون والجنة
يدخلها الضعفاء، 4: 2190، رقم، 2853
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
يقول اللہ عزوجل: العظمة إزاري، والکبرياء ردائي، فمن نازعني واحدا منهما ألقيته في النار.
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: عظمت میری اِزار ہے، اور بڑائی میری چادر ہے۔ پس جو کوئی اِن دونوں میں سے کوئی ایک بھی مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا تو میں اُسے دوزخ میں ڈال دوں گا۔‘‘
1. ابن أبي شيبة، المصنف، 5: 329، رقم: 26579
2۔ طبرانی نے ’’المعجم الاوسط (3: 352، رقم: 3380)‘‘ میں اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
3. قضاعي، مسند الشهاب، 2: 331، رقم: 1464
4. بيهقي، شعب الإيمان، 6: 380، رقم: 8157
حضور ﷺ کو کافروں کی اس طعنہ زنی اور استہزاء کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حکم دیا کہ کافروں کی بات غلط ثابت کرنے کے لیے طواف کے دوران میں اَکڑ اَکڑ کر اور کندھے مٹکا مٹکا کر چلیں۔ اس وقت سے یہ انداز مناسکِ حج میں شامل ہوگیا۔ اگرچہ اس کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی اور سرزمینِ حرم کفار و مشرکین کے وجود سے خالی ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں لیکن اب تک طواف کی ادائیگی کا معمول وہی ہے۔
امام مسلم نے ’’الصحیح‘‘ میں کتاب الحج کے تحت باب استحباب الرمل فی الطواف والعمرۃ وفی الطواف الاول من الحج میں اس موضوع پر کئی احادیثِ مبارکہ مفصل روایت کی ہیں جو ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ یثرب (مدینہ منورہ) کے بخار سے کمزور ہو جانے کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ (واقعۂ حدیبیہ کے اگلے سال عمرہ کے لیے) مکہ تشریف لائے تو ان کے آنے کی خبر پاکر مشرکین مکہ (کے سرداروں) نے (اپنی قوم سے) کہا: کل تمہارے پاس ایک ایسی قوم آئے گی جسے شدید بخار نے کمزور کر دیا ہے، پس وہ (اس خبر پر) حجر اسود کے پاس بیٹھ گئے۔ جب حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے اَصحاب کی تشریف آوری ہوئی تو:
أمرهم النبي ﷺ أن يرملوا ثلاثة أشواط، ويمشوا ما بين الرکنين لِيَرَي المشرکون جَلدهم. فقال المشرکون: هؤلاء الذين زعمتم أن الحمي قد وهنتهم، هؤلاء أجلد من کذا وکذا.
’’حضور ﷺ نے صحابہ کو دونوں رکنوں (یمانی) کے درمیان تین چکروں میں اکڑ کر اور (باقی میں) آرام سے چلنے کا حکم دیا تاکہ مشرکین ان کی قوت کا مشاہدہ کر لیں۔ (یہ منظر دیکھ کر) مشرکین نے کہا: کیا ان کے بارے میں تم کہتے تھے کہ انہیں بخار نے کمزور کر دیا؟ یہ تو اتنے طاقت ور ہیں، یہ تو اتنے جری ہیں۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب إستحباب الرمل في الطواف والعمرة
وفي الطواف الأول من الحج، 2: 923، رقم: 1266
2. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب کيف کان بدء الرمل، 2: 581، رقم: 1525
3. احمد بن حنبل، المسند، 1: 294
4. بيهقي، السنن الکبري، 5: 82، رقم: 9056
2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک روایت میں بالصراحت فرمایا:
إنما سعي رسول اللہ ﷺ بالبيت، وبين الصفا والمروة، لِيُرِيَ المشرکين قوته.
’’بیت اللہ اور صفا و مروہ کے درمیان سعی حضور ﷺ نے صرف مشرکین کو اپنی قوت دکھانے کے لیے کی۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء في السعي بين الصفا
والمروة، 2: 594، رقم: 1562
2. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب إستحباب الرمل في الطواف والعمرة وفي الطواف الأول
من الحج، 2: 923، رقم: 1266
3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء في السعي بين الصفا والمروة، 3: 217،
رقم: 863
4. نسائي، السنن الکبري، 2: 405، رقم: 3941
5. حميدي، المسند، 1: 232، رقم: 497
6. بيهقي، السنن الکبري، 5: 82، رقم: 9057، 9058
3۔ اسی طرح حضرت ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا:
إن رسول اللہ ﷺ قدم مکة، فقال المشرکون: إن محمدا وأصحابه لا يستطيعون أن يطوفوا بالبيت من الهُزل، وکانوا يحسدونه، قال: فأمرهم رسول اللہ ﷺ أن يرمُلوا ثلاثاً ويمشوا أربعا.
’’جب حضور نبی اکرم ﷺ مکہ تشریف لائے تو مشرکین کہنے لگے: بے شک محمد ( ﷺ ) اور ان کے صحابہ کمزوری کے باعث بیت اللہ کا طواف کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ درحقیقت وہ آپ ﷺ سے حسد کرتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ (اسی طعنہ کی وجہ سے) حضور ﷺ نے (اپنے) صحابہ کو تین چکروں میں رمل کرنے اور چار میں چلنے کا حکم دیا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب إستحباب الرمل في الطواف وفي
الطواف الأول من الحج والعمرة، 2: 921، 922، رقم: 1264
2. ابن حبان، الصحيح، 9: 154، رقم: 3845
3. بيهقي، السنن الکبري، 5: 100، رقم: 9161
طواف کے دوران اِحرام کی چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر اس کے دونوں کنارے بائیں کندھے پر ڈالنا ’’اِضطباع‘‘ کہلاتا ہے۔ (1) جیسا کہ سابقہ صفحات میں بیان کیا گیا ہے کہ مشرکین مکہ کو اپنا رعب و دبدبہ اور قوت دکھانے کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو رمل کا حکم دیا، اس کے ساتھ آپ ﷺ نے حالتِ طواف میں اضطباع کا حکم دیا اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوئے۔ آپ ﷺ کی اس محبوب سنت پر عمل کرنا تمام حجاج اور معتمرین (عمرہ کرنے والوں) پر لازم قرار پایا۔ وہ تا ابد اپنے آقا ﷺ کی یہ سنت دہرا کر اس کی یاد مناتے رہیں گے۔
(1) ابن منظور، لسان العرب، 8: 216
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
أن رسول اللہ ﷺ وأصحابه اعتمروا من الجعرانة، فرملوا بالبيت وجعلوا أرديتهم تحت آباطهم قد قَذَفوها علي عواتقهم اليسري.
’’بے شک رسول اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ نے جعرانہ سے عمرہ کا اِحرام باندھا تو انہوں نے بیت اللہ (کے گرد تین چکروں) میں رمل کیا اور اپنی چادروں کو (دائیں) بغلوں سے نکال کر بائیں کندھوں پر ڈال لیا۔‘‘
1. أبوداؤد، السنن، کتاب المناسک، باب الإضطباع في الطواف،
2: 177، رقم: 1884
2. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 306
3. طبراني، المعجم الکبير، 12: 62، رقم: 12478
4. بيهقي، السنن الکبري، 5: 79، رقم: 9038، 9039
5. مقدسي، الأحاديث المختارة، 10: 207، 208، رقم: 213 - 215
2۔ حضرت یعلیٰ بن اُمیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
طاف النبي ﷺ مضطبعاً ببُرد أخضر.
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے سبز چادر کے ساتھ اِضطباع کرتے ہوئے بیت اللہ کا طواف کیا۔‘‘
1. أبوداؤد، السنن، کتاب المناسک، باب الإضطباع في الطواف،
2: 177، رقم: 1883
2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء أن النبي ﷺ طاف مضطبعا، 3: 214، رقم:
859
3. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب الإضطباع، 2: 984، رقم: 2954
4. دارمي، السنن، 2: 65، رقم: 1843
5. بيهقي، السنن الکبري، 5: 79، رقم: 9035
3۔ علامہ طیبی اِضطباع کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں:
إنما فعل ذلک إظهارًا للتشجع، کالرمل في الطواف.
’’حضور ﷺ نے یہ فعل صرف شجاعت و بہادری کے اِظہار کے لیے کیا جس طرح طواف میں رمل اختیار کیا۔‘‘
1. عظيم آبادي، عون المعبود علي سنن أبي داؤد، 5: 236
2. مبارک پوري، تحفة الأحوذي في شرح جامع الترمذي، 3: 506
آج چودہ صدیاں گزرنے کے بعد ہم طواف میں اِضطباع مکہ میں کسی کافر کو دکھانے کے لیے نہیں کرتے بلکہ فقط اُسی سنت کو ادا کرتے ہیں جو حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے سرانجام دی۔ ہم حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِس عمل کی یاد منا کر اپنے دل و دماغ روشن کرتے ہیں اور یہ روشنی ہمیں آج بھی باطل کے خلاف چوکس اور مستعد کرنے میں مہمیز کا کام دیتی ہے۔
حجرِ اسود کی شرف و فضیلت کا ایک سبب یہ ہے کہ اسے حضرت جبریل علیہ السلام جنت سے لے کر آئے تھے۔ (1) انبیاء کرام حکمِ اِلٰہی کے تحت حجرِ اَسود کا بوسہ لیتے اور اِستلام کرتے تھے۔ حضورنبی اکرم ﷺ نے جد الانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے مبارک ہاتھوں سے حجرِ اسود کو حرمِ کعبہ کے اندر نصب فرمایا اور اپنے مقدس لبوں سے اسے بوسہ دیا۔ چنانچہ حجرِ اَسود کا استلام اور بوسہ مناسک حج میں شامل کردیا گیا۔ آج مسلمان صرف اِس لیے اس کا استلام کرتے اور بوسہ لیتے ہیں کہ تاجدارِ کائنات ﷺ نے ایسا کیا تھا۔ اِس اَمر کی تائید سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ طواف کرتے ہوئے حجرِ اَسود کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اسے فرمانے لگے:
1. أرزقي، أخبار مکة وما جاء فيها من الآثار، 1: 62، 64، 325
2. ابن أبي شيبة، المصنف، 3: 275، رقم: 14146
3. ابن الجعد، المسند: 148، رقم: 940
4. فاکهي، أخبار مکة في قديم الدهر وحديثه، 1: 91، رقم: 25
5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3: 242
إني أعلم أنک حجر، لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت النبّي ﷺ يقبّلک ما قبّلتک.
’’میں جانتا ہوں بے شک تو ایک پتھر ہے جو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب ما ذکر في الحجر الأسود،
2: 579، رقم: 1520
2. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب الرمل في الحج والعمرة، 2: 582، رقم: 1528
3. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب تقبيل الحجر، 2: 583، رقم: 1532
4. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب إستحباب تقبيل الحجر الأسود في الطواف، 2: 925، رقم:
1270
5. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب إستلام الحجر، 2: 981، رقم: 2943
6. نسائي، السنن الکبري، 2: 400، رقم: 3918
7. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 46، رقم: 325
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول ان الفاظ کے ساتھ بھی مذکور ہے:
إنما أنت حجر، ولولا أني رأيت رسول اللہ ﷺ قبّلک، ما قبّلتک.
’’(اے حجرِ اَسود!) تو محض ایک پتھر ہے۔ اگرمیں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔‘‘
1. مالک، الموطا، کتاب الحج، باب تقبيل رکن الأسود في الاستلام،
1: 367، رقم: 818
2. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 53، رقم: 380
یہ کلمات ادا کرنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجرِ اَسود کو بوسہ دیا۔
ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے پیشِ نظر تقبیلِ حجرِ اَسود کا مقصد صرف حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت کی یاد تازہ کرنا تھا، اور یہی سنت تاقیامت جاری رہے گی۔
لغت کی رو سے مقام قدم رکھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ (1) مقامِ ابراہیم کے تعین کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں: جمہور علماء و مفسرین کے نزدیک حضرت جابر بن عبد اللہ، حضرت عبد اللہ بن عباس اور قتادہ رضی اللہ عنھم و دیگر کے قول کے مطابق مقامِ ابراہیم اُس پتھر کو کہا جاتا ہے جسے لوگ اب مقامِ ابراہیم کے نام سے پہچانتے اور اس کے نزدیک طواف کی دو رکعت ادا کرتے ہیں۔ صحیح ترین قول بھی یہی ہے۔ (2) اِس کی وضاحت امام بخاری (194۔ 256ھ) کی بیان کردہ اس روایت سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ تعمیر کعبہ کے وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر لاتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان پتھروں کو جوڑ کر دیواریں بنا رہے تھے۔ جب دیواریں بلند ہوگئیں تو وہ اِس پتھر کو لائے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اِس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے۔ (3) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لائے ہوئے پتھر اُٹھانے سے ضعف لاحق ہوا تو وہ اِس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے اور یہ پتھر کعبہ کے عمارت کے اِرد گرد گھومتا رہتا یہاں تک کہ تعمیر مکمل ہوگئی۔(4)
1. فراهيدي، کتاب العين، 5: 232
2. فيروز آبادي، القاموس المحيط، 4: 170
3. ابن منظور، لسان العرب، 12: 498
4. زبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس، 17: 592
(2) 1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 1: 537
2. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2: 112
3. رازي، التفسير الکبير، 4: 45
4. آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 1: 379
5. عسقلاني، فتح الباري، 1: 499
(3) 1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب يزفون: النسلان في المشي، 3: 1235، رقم:
3184
2. عبد الرزاق، المصنف، 5: 110، رقم: 9107
3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 1: 550
4. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم 1: 178
5. قزويني، التدوين في اخبار قزوين، 1: 105
(4) 1. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1: 58
2. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 2: 33
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا:
يا رسول اللہ! لو اتخذت من مقام إبراهيم مصلي.
’’یا رسول اللہ! کاش آپ مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں۔‘‘
اس پر درج ذیل آیت نازل ہوئی:
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهيْمَ مُصَلًّي.
القرآن، البقرة، 2: 125
’’اور ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کومقامِ نماز بنالو۔‘‘(1)
(1) 1. بخاري، الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله: و اتخذوا من
مقام إبراهيم مصلي، 4: 1629، رقم: 4213
2. ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب التفاسير، باب ومن سورة البقرة، 5: 206، رقم: 2960
3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة و السنة فيها، باب القبلة، 1: 322، رقم: 1008
4. نسائي، السنن الکبري، 6: 289، رقم: 10998
5. ابن حبان، الصحيح، 15: 319، رقم: 6896
6. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 36، رقم: 250
اس حکم کی تعمیل میں حضور نبی اکرم ﷺ نے مقامِ اِبراہیم کے پیچھے نماز ادا کی۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب ہم آپ ﷺ کے ہمراہ بیت اللہ پہنچے تو آپ ﷺ نے اِستلامِ رکن کیا، پھر طواف کے تین چکروں میں رمل کیا اور چار میں معمول کے مطابق طواف کیا۔ پھر آپ ﷺ مقامِ ابراہیم پر آئے اور آیت (وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى)۔ تلاوت فرمائی، اور آپ ﷺ نے مقامِ ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کیا اور دو رکعت نماز پڑھی۔
مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب حجة النبي ﷺ ، 2: 887، رقم: 1218
پس سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کی خواہش پر اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس پتھر کو مقامِ نماز بنا لینے کا حکم فرمایا جس پر کھڑے ہو کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کی تھی اور اس پتھر کو یہ شرف ملا کہ سید الانبیاء ﷺ نے اسے اپنا مقامِ نماز بنایا۔ اِس طرح قیامت تک بیت اللہ کا طواف کرنے والے تمام مسلمانوں کے لیے واجب قرار پاگیا کہ جب تک وہ اس مقام پر دو رکعت نماز نہ ادا کر لیں ان کا طواف مکمل نہیں ہوگا۔ (اگر مقام ابراہیم پر نماز کی جگہ نہ ملے تو دوسری جگہ پر بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے، لیکن اَفضلیت اسی کو حاصل ہے۔)(1) پس تعمیرِ کعبہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نشانی کے طور پر مقامِ ابراہیم ہمیشہ مسلمانوں کی عقیدتوں کا مرکز رہے گا اور وہ اِس مقام پر نوافل ادا کرکے حضرت اِبراہیم علیہ السلام کی تعمیرِ کعبہ کی یاد مناتے رہیں گے۔
1. سرخسي، کتاب المبسوط، 4: 12
2. کاساني، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، 2: 148
3. سمرقندي، تحفة الفقهاء، 1: 402
4. ابن نجيم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، 2: 356
اللہ تعالیٰ کے مقبول اور مقرب بندوں سے صادِر ہونے والے ایسے اَفعال جو انہوں نے عبادت کی نیت سے کیے ہوتے ہیں نہ بظاہر عبادت لگتے ہیں، مگر رب کریم کی بارگاہ میں اتنے پسندیدہ اور مستجاب ہوتے ہیں کہ اُنہیں اِجتماعی عبادت کا جزو بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے لیے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان دیوانہ وار دوڑنا ہے۔ باری تعالیٰ کو اپنی اس پیاری بندی کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اسے مناسکِ حج کاحصہ بنا دیا۔ اسے اِصطلاح میں سعی کہتے ہیں اور یہ حج و عمرہ کے واجبات میں سے ہے۔
یہ بات قطعی طور پر معلوم ہونی چاہیے کہ سعی کے سات چکروں کے مابین کوئی مخصوص ذکر، اوراد و وظائف یا قرآنی آیات کی تلاوت نہیں کی جاتی۔ البتہ آپ اگر چاہیں تو قرآن مجید کی متعدد سورتیں پڑھ سکتے ہیں، مختلف دعوات، تسبیحات اور مناجات کر سکتے ہیں، درود شریف کا ورد کر سکتے ہیں اور اگر کچھ بھی زبانی یاد نہ ہو تو صرف اللہ کے نام کا ذکر کرتے رہیں یا جو کلمۂ خیر آپ کو یاد آ جائے پڑھ لیں، یہ سب جائز ہے۔ اگر کچھ بھی یاد نہ رہے تب بھی خاموشی سے سعی کے سات چکر صفا اور مروہ کے درمیان مکمل کریں۔ صفا و مروہ کی سعی کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے امام بخاری (194. 256ھ) اور دیگر ائمہ حدیث و تفسیر نے متعدد احادیث و روایات بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت درج ذیل ہے:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور شیر خوار حضرت اسماعیل علیہ السلام کو (شام سے) مکہ لے آئے۔ ان دنوں مکہ میں کوئی شخص آباد تھا نہ پانی کا نام و نشان تھا۔ پس آپ نے ان دونوں کو بیت اللہ کے قریب چھوڑ دیا اور ایک تھیلے میں چند کھجوریں اور مشکیزہ میں پانی بھی رکھ دیا۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام شام کی طرف واپس جانے لگے تو حضرت ہاجرہ علیھا السلام اُن کے پیچھے پیچھے آئیں اور آواز دے کر ان سے پوچھا: اے ابراہیم! آپ کہاں جا رہے ہیں؟ آپ ہمیں ایسی وادی میں چھوڑ کر جا رہے ہیں جہاں کوئی انسان بستا ہے نہ کوئی اور چیز۔ انہوں نے کئی بار اپنا سوال دہرایا لیکن حضرت ابراہیم نے ان کی طرف پلٹ کر نہ دیکھا۔ پھر انہوں نے آپ سے پوچھا: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! اس پر حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے کہا: یہ بات ہے تو وہ ہمیں ضائع نہیں ہونے دے گا۔ پھر وہ اسی جگہ لوٹ آئیں۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام چل پڑے یہاں تک کہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ جب وہ مقامِ ثنیہ پر پہنچے تو ہاتھ بلند کر کے اللہ کے حضور ان کلمات کے ساتھ دعا کی:
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُواْ الصَّلاَةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَO
’’اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی اولاد (اِسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں۔ پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور اُنہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ وہ شکر بجالاتے رہیںo‘‘
ابراهيم، 14: 37
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں:
وجعلت أم إسماعيل تُرضع إسماعيل، وتشرب من ذلک الماء، حتي إذا نَفِدَ ما في السِّقاء عطشت وعطش ابنها. وجعلت تنظر إليه يتلوّي، أو قال: يَتَلَبَّطُ، فانطلقت کراهية أن تنظر إليه، فوجدت الصَّفا أقربَ جبلٍ في الأرض يليها، فقامت عليه، ثم استقبلت الوادي تنظر هل تري أحداً فلم تر أحداً، فهبطت من الصفا حتي إذا بلغت الوادي رفعت طرف درعها، ثم سعت سعي الإنسان المجهود حتي جاوزت الوادي، ثم أتت المروة فقامت عليها و نظرت هل تري أحدًا فلم تر أحدًا، ففعلت ذلک سبع مرات.
’’حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلانے لگیں اور اسی پانی سے پینے لگیں یہاں تک کہ ان کے مشکیزہ سے پانی ختم ہوگیا جس سے وہ اور ان کا بیٹا پیاسے ہو گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ دو سالہ بچہ پیاس سے تڑپنے کے باعث ایڑیاں زمین پر مار رہا ہے، اس منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ پانی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئیں۔ اسی جگہ قریب ہی صفا پہاڑی تھی اس پر چڑھ کر وادی میں ادھر ادھر دیکھنے لگیں کہ کوئی نظر آجائے مگر انہوں نے کسی کو نہ دیکھا۔ پس صفا سے اتر کر وادی میں آئیں تو دامن سمیٹ کر مصیبت زدہ انسان کی طرح تیز دوڑ کر انہوں نے وادی کو عبور کیا، پھر مروہ پہاڑی پر چڑھ کر ادھر ادھر کسی انسان کو دیکھنے لگیں مگر انہیں کوئی نظر نہ آیا۔ اس طرح انہوں نے (صفا اور مروہ کے درمیان) سات چکر لگائے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
فذلک سعي الناس بينهما.
’’یہی وجہ ہے کہ لوگ صفا اور مروہ کے درمیان (حضرت ہاجرہ علیھا السلام کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے) سعی کرتے ہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اللہ: واتخذ اللہ
إبراهيم خليلا، 3: 1228، 1229، رقم: 3184
2. نسائي، السنن الکبري، 5: 100، رقم: 8379
3. عبدالرزاق، المصنف، 5: 105، 106، رقم: 9107
4. بيهقي، السنن الکبري، 5: 100، رقم: 8379
5. نسائي، فضائل الصحابة، 1: 82، رقم: 273
6. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 9: 368، 369
7. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1: 177
خدائے ذوالجلال کو اپنی اِس پیاری بندی کی یہ ادا اتنی پسندآئی کہ صفا و مروہ کو شعائر اللہ قرار دے دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَة مِنْ شَعَآئِرِ اللهِ.
’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔‘‘
البقرة، 2: 158
اِس واقعہ کو تقریباً چار ہزار سال گزر گئے ہیں۔ اب نہ تو وہ وادی باقی رہی ہے، نہ وہ پہاڑیاں اُس حالت میں موجود ہیں اور نہ ہی اللہ کی اُس محبوب بندی پر جو کیفیت بیتی تھی وہ باقی ہے۔ پھر بھی حجاج کرام حکمِ ایزدی کی تعمیل میں سعی کرتے ہیں۔ جب حجاج کرام اور معتمرین (عمرہ کرنے والے) صفا و مروہ کے اس حصے میں پہنچتے ہیں تو دوڑ کر گزرتے ہیں۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اپنے لختِ جگر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے لیے پانی کی تلاش میں ایک سے دوسرے پہاڑ کی چوٹی تک اس گہری وادی کو عبور کرنے کے لیے دوڑی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی محبوب بندی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا یہ عمل بہت پسند آیا، اور آج بھی ہم اُسی اضطراب و پریشانی کی کیفیت کو تصور و تخیل میں لا کر اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی میں سعی کرتے ہیں۔
جب گلشنِ ابراہیم علیہ السلام کے نونہال اسماعیل علیہ السلام نے پیاس کی شدت سے زمین پر ایڑیاں رگڑیں تو قدرتِ اِلٰہیہ سے پتھریلی زمین سے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا۔ تیز پانی کا چشمہ دیکھ کر سیدہ ہاجرہ علیھاالسلام نے ننھے اسماعیل کو نقصان پہنچ جانے کے ڈر سے فرمایا: زَمْ زَمْ (رُک جا)۔ آپ کے حکم پر تیزی سے بہنے والا پانی معتدل رفتار سے بہنے لگا اور یوں اس کا نام ہی زَمْ زَمْ پڑ گیا۔ ہزاروں سال گزر جانے کے بعد یہ چشمہ آج بھی جاری ہے۔ زائرینِ مکہ کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے۔ اسے نہایت ادب سے باوضو حالت میں قبلہ رُخ کھڑے ہو کر پیا جاتا ہے۔ (1) اس پانی کا یہ خاص حکم اس لیے ہے کہ اسے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی نسبت حاصل ہے۔ اسی بناء پر یہ دنیا کے تمام پانیوں پر فضیلت رکھتا ہے اور بہت سی اَمراض میں باعثِ شفاء ہے۔
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء في زمزم، 2: 590،
رقم: 1556
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأشربة، باب الشرب قائما، 5: 2130، رقم: 5294
3. مسلم، الصحيح، کتاب الأشربة، باب في الشرب من زمزم قائما، 3: 1601، 1602، رقم: 2027
4. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 9: 277
مندرجہ بالا نکات سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں کسی واقعہ کی یاد منانے کو نہ صرف جائز بتایا گیا ہے بلکہ مختلف اعمال کو شریعت کا مستقل حصہ بنا کر ان کے بجا لانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ہمیں میلاد النبی ﷺ کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ اللہ کی رحمت، اس کا فضل اور اس کا سب سے بڑا احسان اور انعام ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نسل انسانی پر فرمایا ہے۔ اِس فضل و اِحسان پر اِظہارِ تشکر کے طور پر میلاد النبی ﷺ کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، جن سے دِلوں میں حضور ﷺ کے عشق کی چنگاری سلگائی جاتی ہے اور آپ ﷺ کی اِطاعت کی ترغیب دی جاتی ہے۔
حجاج کرام نویں ذی الحج کو میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں۔ اس میں کوئی خاص عبادت لازمی طور پر ادا نہیں کی جاتی۔ وقوفِ عرفات فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے کافی ہے۔ عرفات کی یہ حاضری حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کے درمیان اس ملاقات کی یاد دلاتی ہے جو نویں ذوالحجہ کو اس میدان میں ہوئی۔ اس کی تائید درج ذیل روایات سے ہوتی ہے:
1۔ مزدلفہ اور عرفات کی وجہ تسمیہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما درج ذیل الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
أهبط آدم عليه السلام بالهند وحواء بجدة، فجاء في طلبها حتي اجتمعا، فازدلفت إليه حواء فلذلک سميت المزدلفة، وتعارفا بعرفات فلذلک سميت عرفات، واجتمعا بجمع فلذلک سميت جمعًا.
’’حضرت آدم علیہ السلام کو ہند اور حضرت حواء کو جدہ کے مقام پر اتارا گیا، پس حضرت آدم علیہ السلام ان کی تلاش میں نکلے تو ان کا آپس میں ملاپ ہوگیا۔ حضرت حوا علیہا السلام (اس مقام پر) ان کے قریب ہوئیں تو اس کا نام ’’مزدلفہ‘‘ پڑگیا، اور ان دونوں نے عرفات کے مقام پر ایک دوسرے کو پہچان لیا تو اس کا نام ’’عرفات‘‘ ہو گیا اور (نویں ذی الحج کو) جمع ہونے کے مقام پر ان کا اکٹھ ہوا تو اس کا نام ’’یوم جمع‘‘ ہوگیا۔‘‘
1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1: 79
2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 1: 34
3. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1: 39
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 69: 109
2۔ جنت سے حضرت آدم علیہ السلام کو ہند کے ایک پہاڑ ’’نوذ‘‘ پر جبکہ حضرت حواء علیہا الاسلام کو حجاز میں ’’جدہ‘‘ کے مقام پر اتارا گیا۔ ابن سعد (168۔ 230ھ)، طبری (224۔ 310ھ) اور نووی (631۔ 677ھ) کے مطابق پھر حضرت آدم علیہ السلام نے حواء علیہا السلام کو مقامِ عرفات پر پہچان لیا، پس اسی وجہ سے اسے ’’عرفۃ‘‘ کا نام دیا گیا۔
1. طبري، تاريخ الأمم و الملوک، 1: 79
2. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1: 35، 36
3. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3: 237
3۔ امام قرطبي رحمۃ اللہ عليہ (284۔ 380ھ) اپني تفسير ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
أن آدم لما هبط وقع بالهند، وحواء بجدة، فاجتمعا بعد طول الطلب بعرفات يوم عرفة وتعارفا، فسمي اليوم عرفة والموضع عرفات، قاله الضحاک.
’’جنت سے زمین پر حضرت آدم علیہ السلام کو ہند میں اور حضرت حواء علیہا السلام کو جدہ میں اتارا گیا، کافی تگ و دو کے بعد آپس میں ان کی ملاقات عرفہ کے دن مقامِ عرفات پر ہوئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ پس اس دن کو ’’یوم عرفہ‘‘ اور اس جگہ کو ’’عرفات‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ یہ قول امام ضحاک کا ہے۔‘‘
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2: 415
4۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ)، یاقوت حموی (م 626ھ) اور علامہ شوکانی (1173۔ 1250ھ) مُزدلفہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
وسميت المزدلفة جمعاً، لأن آدم اجتمع فيها مع حواء، وازدلف إليها أي دنا منها.
’’مزدلفہ کو ’’جمع‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام حضرت حواء علیہا السلام کے ساتھ اکٹھے ہوئے اور ان کے قریب ہوئے۔‘‘
1. عسقلاني، فتح الباري، 3: 523
2. ياقوت حموي، معجم البلدان، 5: 121
3. شوکاني، نيل الأوطار شرح منتقي الأخبار، 1: 423
5۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما منیٰ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہیں:
إنما سميت مِني مِني لأن جبريل حين أراد أن يفارق آدم عليه السلام، قال له: تمن، قال: أتمني الجنة. فسميت مني لأمنية آدم عليه السلام.
’’منیٰ کو منیٰ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب جبرئیل علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام سے مفارقت کا ارادہ کیا تو ان سے پوچھا: آپ کی کوئی خواہش ہے؟ انہوں نے فرمایا: مجھے جنت کی آرزو ہے۔ پس حضرت آدم علیہ السلام کی خواہشات کی وجہ سے اسے منیٰ کا نام دیا گیا۔‘‘
1. أزرقي، أخبار مکة وماجاء فيها من الآثار، 2: 180
2. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3: 333
3. قرطبي، الجامع لأحکام القران، 3: 7
جس طرح رمی الجمرات سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ کی یاد اور سعی بین الصفاء والمروہ، سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کی یاد دہرانے اور تلبیہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعوت اور پکار کے جواب کا نام ہے۔ اسی طرح وقوفِ عرفات اور مزدلفہ اس ملاقات کی یادگار ہے جو حضرت آدم اور حضرت حواء علیہما السلام کے درمیان جنت سے زمین پر تشریف لانے اور طویل عرصہ کی جدائی کے بعد اس میدان میں ہوئی جس میں انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان کر قربت اختیار کی۔ یہ بات یاد رہے کہ ’’عرفات‘‘ اور ’’مزدلفہ‘‘ کا لغوی معنی ہی ’’پہچاننا‘‘ (1) اور ’’قریب ہونا‘‘(2) ہے۔
1. فراهيدي، کتاب العين، 2: 121
2. ابن منظور، لسان العرب، 9: 236، 242
(2) 1. خطابي، غريب الحديث، 2: 24
2. ابن منظور، لسان العرب، 9: 138
باری تعالیٰ نے اپنے ان مقبول بندوں کی اس ملاقات کی یاد زندہ و جاوید رکھنے کے لیے ہر سال حج کے لیے آنے والوں پر 9 ذی الحج کو ان میدانوں میں وقوف اور حاضری لازمی قرار دی ہے۔
مسلمان اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں ہمیشہ اپنے وقت پر نماز ادا کرتے ہیں۔ لیکن حجاج کرام میدانِ عرفات میں ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی ادا کرتے ہیں۔ ایسا صرف اس لیے ہے کہ اللہ کے محبوب ترین پیغمبر ﷺ نے میدانِ عرفات میں ظہر و عصر اکٹھی ادا کی تھیں۔ لہٰذا اس کی پیروی ہر خاص وعام کے لیے واجب قرار پائی۔ پھر مغرب کا وقت آجاتا ہے۔ مسلمان غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب ادا کرنے کے پابند ہیں، لیکن حجاج کرام کے لیے قانونِ شریعت کی یہ پابندی معطل ہوگئی۔ محبوبِ خدا ﷺ نے مغرب کی نماز مزدلفہ جا کر عشاء کی نماز کے ساتھ ادا کی تھی، لہٰذا حجاج کرام بھی مزدلفہ پہنچ کر دونوں نمازیں اکٹھی ادا کرنے کے پابند ہیں۔ اس حوالے سے چند روایات درج ذیل ہیں:
1۔ محدثین کرام نے حضور نبی اکرم ﷺ کے حجۃ الوداع کے بارے میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے ایک طویل حدیث مبارکہ روایت کی ہے۔ اس میں انہوں نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ میدان عرفات میں ظہر اور عصر جبکہ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ادا کیں۔
1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب حجة النبي ﷺ ، 2: 886. 892،
رقم: 1217
2. أبوداود، السنن، کتاب المناسک، باب صفة حجة النبي ﷺ ، 2: 185، رقم: 1905
2۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اپنے والد گرامی امام محمد باقر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
أن النبي ﷺ صلَّي الظهر والعصر بأذانٍ واحدٍ بعرفة ولم يسبح بينهما وإقامتين، وصلي المغرب والعشاء بِجَمْعٍ بأذان واحد وإقامتين ولم يسبح بينهما.
’’بے شک حضور نبی اکرم ﷺ نے عرفات میں ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ظہر اور عصر پڑھائی اور ان کے درمیان کوئی تسبیح نہ پڑھی، اور مقامِ مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ مغرب اور عشاء پڑھائی اور ان کے درمیان کوئی تسبیح نہ پڑھی۔‘‘
1. أبوداود، السنن، کتاب المناسک، باب صفة حجة النبي ﷺ ، 2:
186، رقم: 1906
2. بيهقي، السنن الکبري، 1: 400، رقم: 1741
3۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
ما رأيت رسول اللہ ﷺ صلَّي صلاة إلا لميقاتها إلا صلاتَين: صلاة المغرب والعشاء بجَمعٍ.
’’میں نے رسول اکرم ﷺ کو ہمیشہ مقررہ وقت پر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے سوائے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی دو نمازوں کے۔ آپ ﷺ نے انہیں جمع کرکے ادا کیا ہے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب استحباب زيادة التغليس بصلاة
الصبح يوم النحر بالمزدلفة، 2: 938، رقم: 1289
2. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب متي يصلي الفجر بجمع، 2: 904، رقم: 1598
نماز مومنین پر وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے (1) تاہم مذکورہ روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کے موقع پر میدانِ عرفات میں مقررہ اَوقات کی پابندی کی بجائے نمازیں اکٹھی پڑھنے کا حکم ہے۔ کیوں کہ حبیبِ خدا ﷺ کی یہی سنت ہے۔
(1) القرآن، النساء، 4: 103
حجاج کرام مناسکِ حج کی ادائیگی کے دوران میں اور روئے زمین پر بسنے والے دیگر مسلمان بھی عید الاضحی کے موقع پر جانور ذبح کر کے سنتِ ابراہیمی کی یاد مناتے ہیں۔ یہ سارا عمل دراصل اس منظر کی یاد تازہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے جب منشائے ایزدی کی تعمیل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لیے اس میدان میں لے آئے تھے۔ یہ عظیم قربانی بارگاہِ خداوندی میں اس قدر مقبول ہوئی کہ آج بھی ہر سال حجاج کرام اس قربانی کی یاد میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔
قربانی دینے کی یہ ادا اللہ رب العزت کو اتنی پسند آئی کہ اسے صرف حج کے مناسک تک محدود نہ رکھا۔ بلکہ ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر لازمی قرار دے دیا کہ اللہ کی راہ میں جانور قربان کریں۔
امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ (21۔ 110ھ) اس پر درج ذیل الفاظ میں تبصرہ کرتے ہیں:
ما فدي إسماعيل إلا بتيس کان من الأروي أهبط عليه من ثبير، وما يقول اللہ عزوجل: (وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ)(1) لذبيحته فقط، ولکنه الذبح علي دينه فتلک السنة إلي يوم القيامة، فاعلموا أن الذبيحة تدفع ميتة السوء فضحُّوا عباد اللہ. (2)
’’حضرت اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ میں بہت ہی موٹا تازہ بکرا وادئ ثبیر (جبلِ مکہ) سے اتارا گیا تھا، (قرآن حکیم میں) اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فرماتا ہے: (اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اس کا فدیہ کر دیاo) اِس آیت میں ذبیحہ کو حضرت اِسماعیل علیہ السلام کے فدیہ کے ساتھ خاص کردیا گیا ہے۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر ذبح کرنا قیامت تک کے لیے سنت قرار دے دیا گیا ہے۔ (امام حسن بصری مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ) تمہیں جاننا چاہئے کہ ذبیحہ میت سے برائی کو دور کر دیتا ہے، لہٰذا اللہ کے بندو! تم قربانی کیا کرو۔‘‘
(1) الصافات، 37: 107
(2) 1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1: 167
2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 23: 87، 88
3. فاکهي، أخبار مکة في قديم الدهر و حديثه، 5: 124
یہ عمل بلاشبہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیھما السّلام کی عظیم قربانی کی یاد منانا (celebration) ہے تاکہ اُمت دین کی روح سے وابستہ رہے اور اللہ کی راہ میں جان ومال لٹانے میں دل ہمہ وقت تسلیم و رضا کی کیفیت میں ڈوبا رہے۔
یوں تو دنیا میں ہر جگہ راہِ خدا میں جانور ذبح کیے جاتے ہیں لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام سے نسبت ہونے کی وجہ سے قربانی کے لیے ذبح کیے جانے والے جانوروں کی حیثیت منفرد اور جداگانہ ہے۔ انہیں اس خاص نسبت کی وجہ سے شعائر اللہ کا درجہ دیا گیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللهِ.
’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے۔‘‘
الحج، 22: 36
آج بھی سنتِ اِبراہیمی کے انہی واقعات کو تخیل و تصور میں لا کر قربانی کی جاتی ہے جس سے اللہ کا پسندیدہ عمل اس کی رضا کے حصول کا باعث بن جاتا ہے۔
حجاج کرام تین دن منٰی میں قیام کرتے ہیں اور ان ستونوں کو پتھر مارتے ہیں جو جمرۂ اُولیٰ، جمرۂ وُسطیٰ اور جمرۂ عقبیٰ کے نام سے معروف ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل کی یاد گار ہے۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إن جبريل ذهب بإبراهيم إلي جمرة العقبة، فعرض له الشيطان، فرماه بسبع حصيات، فساخ، ثم أتي الجمرة الوسطي، فعرض له الشيطان، فرماه بسبع حصياتٍ، فساخ، ثم أتي الجمرة القصوي، فعرض له الشيطان، فرماه بسبع حصيات، فساخ.
’’جبرائیل امین ابراہیم علیہ السلام کو لے کر جمرۂ عقبیٰ پر گئے تو وہاں ان کے سامنے شیطان آیا۔ انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں تو وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر آپ جمرہء وسطیٰ پر تشریف لائے تو شیطان کے (دوبارہ) سامنے آنے پر انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں۔ وہ پھر زمین میں دھنس گیا۔ پھر آپ جمرۂ اُولیٰ پر پہنچے تو شیطان سے (سہ بارہ) آمنا سامنا ہونے پر اسے سات کنکریاں ماریں۔ وہ زمین میں دھنس گیا۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 306
2. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1: 638، رقم: 1713
3. بيهقي، السنن الکبري، 5: 153، رقم: 9475
4. مقدسي، الأحاديث المختارة، 10: 283، رقم: 296
5. منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 2: 134، رقم: 1807
6. هيثمي، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، 3: 259
2۔ ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما خود بیان فرماتے ہیں:
إن إبراهيم لمّا أمر بالمناسک. . . ذهب به جبريل إلي جمرة العقبة فعرض له الشيطان، فرماه بسبع حصيات حتي ذهب، ثم عرض له عند الجمرة الوسطي، فرماه بسبع حصيات، قال: قد (تَلَّهُ لِلْجَبِينِ)(1) وعلي إسماعيل قميص أبيضُ، وقال: يا أبت! إنه ليس لي ثوب تُکَفِّنُنِي فيه غيره، فاخلعه حتي تُکَفِّنُنِي فيه، فعالجه ليخلعه فنُودي من خلفه (أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُo قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا.)(2) فالتفت إبراهيم، فإذا هو بکبش أبيض أقرن أعين، قال ابن عباس: لقد رأيتنا نبيع هذا الضرب من الکباش. قال: ثم ذهب به جبريل إلي الجمرة القصوي، فعرض له الشيطان فرماه بسبع حصيات حتي ذهب. (3)
’’بے شک جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مناسکِ حج کی ادائیگی کا حکم دیا گیا تو جبرئیل علیہ السلام آپ کو جمرہء عقبیٰ پر لے گئے، وہاں آپ کے سامنے شیطان آیا۔ آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ چلا گیا۔ پھر وہ آپ کے سامنے جمرۂ وُسطیٰ پر آیا۔ آپ نے اسے سات کنکر مارے، (یہ ایسا مقام تھا جس کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے قرآنی آیت پڑھتے ہوئے) فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے اسے (یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو) پیشانی کے بل لٹا دیا، اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اوپر سفید قمیض تھی، انہوں نے کہا: اباجان! میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی کپڑا نہیں ہے جس میں آپ مجھے کفن دیں، لہٰذا اسے میرے جسم سے اتار لیں تاکہ آپ مجھے اس میں کفن دے سکیں۔ پس آپ نے انہیں سیدھا کیا کہ وہ قمیض اتار لیں، تو آپ کو پیچھے سے (غیبی) ندا دی گئی: (اے ابراہیم! واقعی تم نے اپنا خواب (کیا خوب) سچا کر دکھایا۔) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پلٹ کر دیکھا تو وہاں موٹی آنکھوں اور سینگوں والا سفید (خوبصورت) مینڈھا کھڑا پایا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یہاں (اپنا اظہارِ خیال کرتے ہوئے) فرماتے ہیں: ہمارا خیال ہے کہ ہم اسی قسم کے مینڈھے فروخت کرتے ہیں۔ پھر بیان کرتے ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جمرۂ اولیٰ پر لے گئے تو وہاں بھی شیطان سے مڈھ بھیڑ ہو گئی، آپ نے پھر اسے سات کنکر مارے یہاں تک کہ وہ بھاگ گیا۔‘‘
(1) القرآن، الصافات، 37: 103
(2) القرآن، الصافات، 37: 104، 105
(3) 1. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 297
2. طبراني، المعجم الکبير، 10: 268، رقم: 10628
3. بيهقي، السنن الکبري، 5: 153. 154
4. هيثمي، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، 3: 259
5. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 23: 80
6. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4: 16
حضرت ابراہیم علیہ السلام شیطان کو کنکر مارنے کے ساتھ ساتھ تکبیر بھی کہتے رہے۔ اس کی تائید درج ذیل روایت سے ہوتی ہے:
3۔ حضرت مجاہد بن جبیر (م 104ھ) فرماتے ہیں:
خرج بإبراهيم جبريل، فلما مرّ بجمرة العقبة إذا بإبليس عليها، فقال جبريل: کبّر وارمه، ثم ارتفع إبليس إلي الجمرة الوسطي، فقال له جبريل: کبّر وارمه، ثم ارتفع إبليس إلي الجمرة القصوي، فقال له جبريل: کبّر وارمه.
’’جبریل امین حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لے کر جمرۂ عقبیٰ کے مقام سے گزرے تو وہاں ابلیس کھڑا تھا۔ حضرت جبرئیلں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا: تکبیر کہہ کر اسے کنکر ماریں، پھر جمرۂ وسطیٰ پر ابلیس سے سامنا ہونے پر حضرت جبرئیلں نے آپ سے کہا کہ تکبیر کہہ کر اسے کنکر ماریں، پھر جمرۂ اولیٰ پر ابلیس ملا تو حضرت جبریلں نے آپ سے عرض کیا کہ تکبیر کہہ کر اسے کنکر ماریں۔‘‘
أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1: 68
شیطان کو کنکریاں مارنا صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہی سنت نہیں بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کی بھی سنت ہے جیسا کہ درج ذیل روایت سے ظاہر ہے:
امام کلبی فرماتے ہیں:
إنما سميت الجمار، الجمار لأن آدم عليه السلام کان يرمي إبليس فَيُجْمِرُ من بين يديه.
’’جمار کو اس لیے جمار (کنکریاں پھینکنے کی جگہ) کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام ابلیس کو کنکریاں مارتے تو وہ تیزی سے آپ کے آگے بھاگتا تھا۔‘‘
أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 2: 181
اللہ کے محبوب بندے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آج سے ہزاروں سال پہلے جو عمل کیا تھا اللہ رب العزت کی بارگاہ میں وہ مستجاب ہوا۔ امت مسلمہ کو اس پر عمل کرنے کی سعادت نصیب ہو گئی۔ یہ عمل حاجیوں کے لیے لازم قرار دے دیا گیا اور جب تک یہ عمل دہرایا نہ جائے حج جیسی عظیم عبادت مکمل نہیں ہوتی۔
یہ عمل پیغام اور مقصدیت سے خالی نہیں، اس سے تین چیزوں کی تعلیم حاصل ہوتی ہے:
اوّلاً: اس طرح اَنبیاء کی سنت جاری رہتی ہے۔
ثانیاً: اس عمل کو بار بار دہرا کر اللہ کے ان برگزیدہ پیغمبروں کے لیے جذبہ محبت و اِطاعت کا والہانہ اِظہار ہوتا ہے۔
ثالثًا: مسلمان ان علامتی شیطانوں کو پتھر مار کر شیطان سے اپنی نفرت کا اِظہار کرتے ہیں۔
اس تمام بحث کا ما حصل یہ ہے کہ کسی بھی واقعہ کی کیفیت کو تصور و تخیل میں لا کر اس پر اپنے قلبی جذبات کا اظہار کرنا نہ صرف شرعاً جائز ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا محبوب عمل ہے۔ آج اُمتِ مسلمہ اگر اپنے پیارے اور اللہ کے حبیب نبی ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر واقعاتِ ولادت کو تصور و تخیل میں جاگزیں کرکے ان کی یادگار کے طور پر محافل کا انعقاد کرتی ہے تو یہ بھی شرعاً جائز ہے۔ یہ محافل آقائے دوجہاں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حبی و عشقی تعلق کو مزید مستحکم کرتی ہیں اور آپ ﷺ کے ساتھ محبت و عقیدت اور قلبی وارفتگی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ آپ ﷺ کی یاد دل میں بسا لینا، آپ ﷺ کی یاد میں کھوئے رہنا اور آپ ﷺ کی بارگاہ میں حضوری کے لمحات نصیب ہو جانا وہ کیفیات ہیں جو اللہ رب العزت کو بے حد محبوب ہیں۔ بندہء خدا خلوصِ نیت سے رضائے الٰہی کے لیے بیت اللہ کا حج کر کے یاد ابراہیمی تازہ کرتا ہے تو رب کریم اس کے صغائر و کبائر معاف فرما دیتا ہے۔ (1) اگر وہ بندہ یادِ مصطفیٰ ﷺ میں سید الانبیاء ﷺ کی ولادت کا جشن منائے اور حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ہدیہ صلوٰۃ و سلام اور گلہائے عقیدت پیش کرے تو پھر اس کی خوش بختی کا عالم کیا ہو گا! یہی وہ نکتہ ہے جس کا ادراک ہمیں رسول اکرم ﷺ کی اتباع و اطاعت میں پختہ تر کرتا ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو باقی تمام عقائد کی جان ہے:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
من حج ﷲ فلم يرفث، ولم يفسق، رجع کيوم ولدته أمه.
’’جو رضائے اِلٰہی کے لیے حج کرے جس میں کوئی بے ہودہ بات ہو نہ کسی گناہ کا اِرتکاب، وہ ایسے لوٹے گا جیسے اُس کی ماں نے اُسے ابھی جنا ہو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب فضل الحج المبرور، 2: 553،
رقم: 1449
2. ابن الجعد، المسند: 141، رقم: 896
3. ابن منده، الإيمان: 392، رقم: 230
4. مقدسي، فضائل الأعمال: 81، رقم: 347
5. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 2: 277
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اُوست
اگر بہ اُو نرسیدی، تمام بولہبی است
اِقبال، کليات (اُردو)، اَرمغانِ حجاز: 691
(دین سارے کا سارا درِ مصطفیٰ ﷺ پر رسائی کا نام ہے۔ اگر اس در تک ہم نہ پہنچ سکے تو ایمان رُخصت ہو جاتا ہے اور بولہبی باقی رہ جاتی ہے۔)
بعض لوگ جشنِ میلاد النبی ﷺ نہیں مناتے ان کا اعتراض ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا میلاد منانا ضروری نہیں بلکہ آپ ﷺ کی اِتباع ضروری ہے کیوں کہ آپ ﷺ کی دنیا میں آمد کا بنیادی مقصد بھٹکے ہوئے لوگوں کی رہنمائی اور انہیں اسلامی شریعت و تعلیمات سے بہرہ ور کرنا تھا، جو آپ ﷺ نے پورا فرما دیا۔ اب ہمارا کام یہ ہے کہ آپ ﷺ کی تعلیمات اور آپ ﷺ کی سنت کی پیروی کریں اور قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال کر اسلام کی تبلیغ اور ترویج واشاعت میں اپنا کردار ادا کریں۔ میلاد منانے کی بجائے اپنے سامنے وہ مقصد رکھیں جس کے لیے آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا گیا۔ معترضین کا موقف یہ ہے کہ میلاد النبی ﷺ کا جشن منانا اور اس کے لیے تقریبات کا انعقاد وقت اور سرمائے کا ضیاع ہے۔ اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔
آئیے ہم اِس اِعتراض کا تفصیلی جائزہ لیں:
ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ لوگ جو کچھ حضور نبی اکرم ﷺ کے مقصدِ بعثت کے بارے میں کہتے ہیں ہمیں اس سے انکار نہیں، بلا شبہ آپ ﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری کا مقصد لوگوں کو ہدایت کے نور سے فیض یاب کرنا اور انہیں اپنی سنتِ مطہرہ کی صورت میں اسلام کا ایک مکمل ضابطۂ حیات فراہم کرنا تھا۔ اس پہلو پر ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ مبارکہ کی پیروی کرنا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنا ہم پر لازم ہے۔ بحمد اللہ تعالیٰ ہم اپنی متاعِ علم و عمل کو مصطفوی انقلاب کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں لیکن ہمیں ان کے اس نقطۂ نظر سے اختلاف ہے جو وہ میلاد النبی ﷺ کی ضرورت و اہمیت کے بارے میں رکھتے ہیں، یہ ایک الگ معاملہ ہے۔
تمسک بالدین اور رسول اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ پر عمل کرنے میں کسی کو کلام نہیں لیکن ایک اہم پہلو اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ دین میں اگر ایک عملی پہلو ہے تو دوسرا قلبی، حبی اور عشقی پہلو بھی ہے جو آمدِ مصطفیٰ ﷺ اور عظمتِ مصطفیٰ ﷺ کے ترانے گنگنانے کے تقاضے اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کو ایک بہت بڑی نعمت اور رحمت عطا کی جب اس نے ان کے درمیان اپنے محبوب ترین پیغمبر ﷺ کو بھیجا۔ وہ دن جس میں نعمت خداوندی کو اپنے دامن میں لیے ہوئے اس دنیائے آب و گل میں آپ ﷺ کی تشریف آوری ہوئی ہمارے لیے مسرت و شادمانی اور اظہارِ تشکر و اِمتنان کا دن ہے۔ اس دن اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کے وجود مسعود کی صورت میں اپنا فضل و رحمت ہم پر نچھاور کر دیا۔ اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ کا یومِ ولادت منانا اور اس کا شایانِ شان طریقے سے شکر بجا لانا اَمرِ مستحسن ہے۔ یہ ایک بنیادی نکتہ ہے جس سے ہم صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔
ہزاروں سال قبل ظہور پذیر ہونے والے واقعات میں ہمارے لیے ایک پیغام اور مقصد مضمر ہے۔ مناسکِ حج ہی کو لیجیے، بادی النظر میں ان اعمال کو جاری رکھنے میں کوئی عملی ربط پنہاں نہیں۔ بظاہر یہ مختلف واقعات تھے جو رونما ہوئے اور گزر گئے۔ ان واقعات میں ہمارے لیے کیا عملی اور تعلیمی سبق ہے کہ شریعت نے حج و عمرہ کے موقعوں پر مناسک کی صورت میں ان کا جاری رکھنا فرض اور واجب قرار دیا ہے؟ اس حقیقت سے ہم یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اسلام دونوں باتوں کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ دینی تعلیمات کے اس پہلو کو جو اَحکاماتِ الٰہیہ سے متعلق ہے ضروری سمجھتا ہے کیونکہ ان کی تعمیل تقاضائے دین ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیک وقت وہ کسی واقعہ کے جذباتی پہلو اور تعلق کو بھی خصوصی اہمیت دیتا ہے اور اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ پہلو مداومت کے ساتھ ہماری زندگیوں میں جاگزیں رہے۔ ہم اس کے تاریخی پس منظر کو اپنے دل و دماغ سے بھی اوجھل نہ ہونے دیں۔ ہمارے جذبات، احساسات اور تخیلات کی دنیا میں اس کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے۔ درحقیقت اسلام ہر واقعہ سے دوگونہ تعلق کا خواہاں ہے: ایک عملی وابستگی کا تعلق اور دوسرا جذباتی وابستگی کا تعلق اول الذکر تعلیماتی پہلوؤں اور ثانی الذکر جذباتی پہلوؤں یعنی محبت، چاہت اور اپنائیت کے عملی مظاہر سے عبارت ہے۔ محبوب رب العالمین ﷺ کے یوم ولادت پر والہانہ جذباتی وابستگی کا اظہار تاریخی، ثقافتی اور روحانی پس منظر میں کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس واقعہ کو کبھی نہ بھولیں اور یہ ہمارے قلب و باطن اور روح میں اس طرح پیوست ہو جائے کہ امتدادِ وقت کی کوئی لہر اسے گزند نہ پہنچا سکے۔ اسلام اس یاد کو مداومت سے زندہ رکھنے کا تقاضا کرتا ہے، اس لیے میلاد النبی ﷺ کے موقع پر جشن مسرت کا سماں پیدا کر دیا جاتا ہے تاکہ اس واقعے کو اہتمام کے ساتھ منایا جائے۔
ہم گزشتہ صفحات میں واضح کر چکے ہیں کہ مناسکِ حج دراَصل اللہ کے مقرب بندوں سے متعلق واقعات ہی ہیں جنہیں شعائر اللہ قرار دے کر ان کی یاد منائی جاتی ہے۔ اگر اِس اَمر میں کوئی تنازعہ اور اِختلاف نہیں تو میلادِ مصطفیٰ ﷺ کی تقریبات پر بھی کسی کو کوئی اِعتراض اور اِبہام نہیں ہونا چاہئے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved