میلاد النبی ﷺ

ابتدائیہ

جشنِ میلاد النبی ﷺ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعات کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اظہار ہے اور یہ ایسا مبارک عمل ہے جس سے ابولہب جیسے کافر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر ابولہب جیسے کافر کو میلاد النبی ﷺ کی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہوسکتی ہے تو اُس مومن مسلمان کی سعادت کا کیا ٹھکانا ہوگا جس کی زندگی میلاد النبی ﷺ کی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔

حضور سرورِ کائنات ﷺ خود بھی اپنے یومِ ولادت کی تعظیم فرماتے اور اِس کائنات میں اپنے ظہور وجود پر سپاس گزار ہوتے ہوئے پیر کے دن روزہ رکھتے۔ آپ ﷺ کا اپنے یوم ولادت کی تعظیم و تکریم فرماتے ہوئے تحدیثِ نعمت کا شکر بجا لانا حکم خداوندی تھا کیوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہی کے وجودِ مسعود کے تصدق و توسل سے ہر وجود کو سعادت ملی ہے۔

جشنِ میلاد النبی ﷺ کا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام جیسے اَہم فرائض کی رغبت دلاتا ہے اور قلب و نظر میں ذوق و شوق کی فضاء ہموار کرتا ہے۔ صلوۃ و سلام بذات خود شریعت میں بے پناہ نوازشات و برکات کا باعث ہے۔ اس لیے جمہور اُمت نے میلاد النبی ﷺ کا اِنعقاد مستحسن سمجھا۔

سیرتِ طیبہ کی اَہمیت اُجاگر کرنے اور جذبۂ محبتِ رسول ﷺ کے فروغ کے لیے محفلِ میلاد کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اِسی لیے جشنِ میلاد النبی ﷺ میں فضائل، شمائل، خصائل اور معجزاتِ سید المرسلین ﷺ کا تذکرہ اور اُسوۂ حسنہ کا بیان ہوتا ہے۔

جشنِ میلاد النبی ﷺ کا ایک اَہم مقصد محبت و قربِ رسول اللہ ﷺ کا حصول و فروغ اور آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی سے مسلمانوں کے تعلق کا اِحیاء ہے اور یہ اِحیاء منشاءِ شریعت ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل و کمالات کی معرفت ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت میں اِضافہ کا محرک بنتی ہے۔ آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر ایمان کا پہلا بنیادی تقاضا ہے اور میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے سلسلہ میں مسرت و شادمانی کا اظہار کرنا، محافلِ ذکر و نعت کا انعقاد کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا اللہ تعالیٰ کے حضور شکر گزاری کے سب سے نمایاں مظاہر میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو ہمارے لیے مبعوث فرما کر ہمیں اپنے بے پایاں احسانات و عنایات اور نوازشات کا مستحق ٹھہرایا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس احسانِ عظیم کو جتلایا ہے۔

جس طرح ماہِ رمضان المبارک کو اللہ رب العزت نے قرآن حکیم کی عظمت و شان کے طفیل دیگر تمام مہینوں پر امتیاز عطا فرمایا ہے اُسی طرح ماہ ربیع الاول کے اِمتیاز اور اِنفرادیت کی وجہ بھی اس میں صاحبِ قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ ماہ مبارک حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت با سعادت کے صدقے جملہ مہینوں پر نمایاں فضیلت اور امتیاز کا حامل ہے۔ شبِ میلادِ رسول ﷺ لیلۃ القدر سے بھی افضل ہے۔ لیلۃ القدر میں نزولِ قرآن ہوا تو شبِ میلاد میں صاحبِ قرآن کی آمد ہوئی۔ لیلۃ القدر کی فضیلت اس لیے ہے کہ وہ نزولِ قرآن اور نزولِ ملائکہ کی رات ہے اور نزولِ قرآن قلبِ مصطفیٰ ﷺ پر ہوا ہے۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ نہ ہوتے تو نہ قرآن ہوتا، نہ شبِ قدر ہوتی، نہ کوئی اور رات ہوتی۔ یہ ساری فضیلتیں اور عظمتیں میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا صدقہ ہیں۔ پس شبِ میلاد النبی ﷺ شبِ قدر سے بھی افضل ہے۔

اس کائناتِ انسانی پر الله رب العزت نے بے حد و حساب احسانات و انعامات فرمائے۔ انسان پر بے پایاں نوازشات اور مہربانیاں کیں اور یہ سلسلہ ابد الاباد تک جاری و ساری رہے گا۔ ذاتِ باری تعالیٰ نے ہمیں لاتعداد نعمتوں سے نوازا جن میں سے ہر نعمت دوسری سے بڑھ کر ہے لیکن اس نے کبھی کسی نعمت پر احسان نہیں جتلایا۔ الله تعالیٰ نے ہمیں لذت و توانائی سے بھرپور طرح طرح کے کھانے عطا کیے مگر اس کا کوئی احسان نہیں جتلایا، پینے کے لیے خوش ذائقہ مختلف مشروبات دیے، دن رات کا ایک ایسا نظام الاوقات دیا جو سکون و آرام فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری ضروریاتِ زندگی کی کفالت کرتا ہے، سمندروں، پہاڑوں اور خلائے بسیط کو ہمارے لیے مسخر کر دیا، ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور ہمارے سر پر بزرگی و عظمت کا تاج رکھا، والدین، بہن، بھائی اور اولاد جیسی نعمتوں کی اَرزانی فرمائی، عالمِ اَنفس و آفاق کو اپنی ایسی عطاؤں اور نوازشوں سے فیض یاب کیا کہ ہم ان کا ادراک کرنے سے بھی قاصر ہیں لیکن ان سب کے باوجود اس نے بطور خاص ایک بھی نعمت کا احسان نہیں جتلایا کہ وہ رب العالمین ہونے کے اعتبار سے بلاتمیز مومن و کافر سب پر یکساں شفیق ہے اور اس کا دامنِ عاطفت ہر ایک کو اپنے سایہ رحمت میں رکھے ہوئے ہے۔ لیکن ایک نعمت ایسی تھی کہ خدائے بزرگ و برتر نے جب اسے اپنے حریمِ کبریائی سے نوعِ اِنسانی کی طرف بھیجا تو پوری کائناتِ نعمت میں صرف اس پر اپنا اِحسان جتلایا اور اس کا اظہار بھی عام پیرائے میں نہیں کیا بلکہ اہلِ ایمان کو اس کا احساس دلایا۔ مومنین سے روئے خطاب کر کے ارشاد فرمایا :

لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ.

القرآن، آل عمران، 3 : 164

’’بے شک الله تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے عظمت والا رسول ( ﷺ ) بھیجا۔‘‘

اِسلام میں الله سبحانہ وتعالیٰ کی نعمتوں اور اُس کے فضل و کرم پر شکر بجا لانا تقاضائے عبودیت و بندگی ہے، لیکن قرآن نے ایک مقام پر اس کی جو حکمت بیان فرمائی ہے وہ خاصی معنی خیز ہے۔ ارشاد فرمایا :

لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌo

إبراهيم، 14 : 7

’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اِضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناّ سخت ہےo‘‘

اِس آیہ کریمہ کی رُو سے نعمتوں پر شکر بجا لانا مزید نعمتوں کے حصول کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ پھر نعمتوں پر شکرانہ صرف اُمتِ محمدیہ ﷺ پر ہی واجب نہیں بلکہ اُمم سابقہ کو بھی اس کا حکم دیا جاتا رہا۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 47 میں بنی اسرائیل کو وہ نعمت یاد دلائی گئی جس کی بدولت انہیں عالم پر فضیلت حاصل ہوگئی اور پھر اس قوم کو فرعونی دور میں ان پر ٹوٹنے والے ہول ناک عذاب کی طرف متوجہ کیا گیا جس سے رہائی ان کے لیے ایک عظیم نعمت کی صورت میں سامنے آئی۔ اِس کے بعد فرمایا :

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ.

البقرة، 2 : 49

’’اور (اے آلِ یعقوب! اپنی قومی تاریخ کا وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں قومِ فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں اِنتہائی سخت عذاب دیتے تھے۔‘‘

اِس قرآنی اِرشاد کی روشنی میں غلامی و محکومی کی زندگی سے آزادی بہت بڑی نعمت ہے جس پر شکر بجا لانا آنے والی نسلوں پر واجب ہے۔ اِس سے اِستدلال کرتے ہوئے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قومی آزادی کو الله تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی نعمتِ غیر مترقبہ سمجھیں اور اس پر شکرانہ ادا کریں۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ اِس اَمر پر شاہد ہے کہ نعمت کے شکرانے کے طور پر باقاعدگی کے ساتھ بالاہتمام خوشی و مسرت کا اظہار اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئندہ نسلوں کو اِس نعمت کی قدر و قیمت اور اَہمیت سے آگاہی ہوتی رہے۔

یوں تو اِنسان سارا سال نعمتِ اِلٰہی پر خدا کی ذات کریمہ کا شکر ادا کرتا رہتا ہے لیکن جب گردشِ اَیام سے وہ دن دوبارہ آتا ہے جس میں من حیث القوم اس پر الله تعالیٰ کا کرم ہوا اور مذکورہ نعمت اس کے شریک حال ہوئی تو خوشی کی کیفیات خود بخود جشن کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ قرآن مجید میں جا بجا اس کا تذکرہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کو فرعونی ظلم و ستم اور اس کی چیرہ دستیوں سے آزادی ملی اور وہ نیل کی طوفانی موجوں سے محفوظ ہو کر وادی سینا میں پہنچے تو وہاں ان کا سامنا شدید گرمی اور تیز چلچلاتی دھوپ سے ہوا تو ان پر بادلوں کا سائبان کھڑا کر دیا گیا۔ یہ ایک ایسی نعمت تھی جس کا ذکر اس آیہ کریمہ میں کیا گیا ہے :

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى.

القرآن، البقرة، 2 : 57

’’اور (یاد کرو) جب (تم فرعون کے غرق ہونے کے بعد شام کو روانہ ہوئے اور وادئ تِیہ میں سرگرداں پھر رہے تھے تو) ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیے رکھا اور ہم نے تم پر مَنّ و سلوٰی اتارا۔‘‘

قرآن مجید نے دیگر مقامات پر خاص خاص نعمتوں کا ذکر کرکے ان ایام کے حوالے سے انہیں یاد رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پھر نعمتوں پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا سنت انبیاء علیھم السلام بھی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے لیے نعمتِ مائدہ طلب کی تو اپنے رب کے حضور یوں عرض گزار ہوئے :

رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ.

القرآن، المائدة، 5 : 114

’’اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید (یعنی خوشی کا دن) ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے (تیری قدرتِ کاملہ کی) نشانی ہو۔‘‘

قرآن مجید نے اس آیہ کریمہ کے ذریعے اپنے نبی کے حوالے سے اُمتِ مسلمہ کو یہ تصور دیا ہے کہ جس دن نعمتِ اِلٰہی کا نزول ہو اس دن جشن منانا شکرانۂ نعمت کی مستحسن صورت ہے۔ اِس آیت سے یہ مفہوم بھی مترشح ہے کہ کسی نعمت کے حصول پر خوشی وہی مناتے ہیں جن کے دل میں اپنے نبی کی محبت جاگزیں ہوتی ہے اور وہ اِس کے اِظہار میں نبی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔

الله تعالیٰ کی کسی نعمت پر شکر بجالانے کا ایک معروف طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان حصولِ نعمت پر خوشی کا اظہار کرنے کے ساتھ اس کا دوسروں کے سامنے ذکر بھی کرتا رہے کہ یہ بھی شکرانۂ نعمت کی ایک صورت ہے اور ایسا کرنا قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ثابت ہے:

وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْO

الضحی، 93 : 11

’’اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریںo‘‘

اِس میں پہلے ذکرِ نعمت کا حکم ہے کہ الله تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کو دل وجان سے یاد رکھا جائے اور زبان سے اس کا ذکر کیا جائے لیکن یہ ذکر کسی اور کے لیے نہیں فقط الله تعالیٰ کے لیے ہو۔ اس کے بعد تحدیثِ نعمت کا حکم دیا کہ کھلے بندوں مخلوقِ خدا کے سامنے اس کو یوں بیان کیا جائے کہ نعمت کی اَہمیت لوگوں پر عیاں ہوجائے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ذکر کا تعلق الله تعالیٰ سے اور تحدیثِ نعمت کا تعلق مخلوق سے ہے کیوں کہ اس کا زیادہ سے زیادہ لوگوں میں چرچا کیا جائے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا :

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِO

البقرة، 2 : 152

’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور (میری نعمتوں کا) اِنکار نہ کیا کروo‘‘

اس آیۂ کریمہ میں تلقین کی گئی ہے کہ خالی ذکر ہی نہ کرتے رہو بلکہ الله تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر شکرانے کے ساتھ ایسے کرو کہ الله تعالیٰ کے ساتھ خلقِ خدا بھی اس کو سنے۔ اس پر مستزاد اظہارِ تشکر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نعمت پر خوشی کا اظہار جشن اور عید کی صورت میں کیا جائے۔ اُممِ سابقہ بھی جس دن کوئی نعمت انہیں میسر آتی اس دن کو بطورِ عید مناتی تھیں۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں وہ بارگاہِ اِلٰہی میں یوں ملتجی ہوتے ہیں :

رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا.

القرآن، المائدة، 5 : 114

’’اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید (یعنی خوشی کا دن) ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی)۔‘‘

یہاں مائدہ جیسی عارضی نعمت پر عید منانے کا ذکر ہے۔ عیسائی لوگ آج تک اتوار کے دن اس نعمت کے حصول پر بطور شکرانہ عید مناتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا نزولِ مائدہ جیسی نعمت کی ولادت و بعثتِ مصطفیٰ ﷺ سے کوئی نسبت ہو سکتی ہے؟ اس نعمتِ عظمیٰ پر تو مائدہ جیسی کروڑوں نعمتیں نثار کی جاسکتی ہیں۔

’’صحیح بخاری‘‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ جب ایک یہودی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ جس دن آیت۔ اَلْیَومَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ۔ نازل ہوئی اس دن کو بطور عید مناتے ہیں؟ اگر ہماری تورات میں ایسی آیت اترتی تو ہم اسے ضرور یومِ عید بنا لیتے۔ اس کے جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور جگہ کو جہاں یہ آیت اتری تھی خوب پہچانتے ہیں۔ یہ آیت یومِ حج اور یومِ جمعۃ المبارک کو میدانِ عرفات میں اتری تھی اور ہمارے لیے یہ دونوں دن عید کے دن ہیں۔

1. بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه، 1 : 25، رقم : 45
2. مسلم، الصحيح، کتاب التفسير، 4 : 2313، رقم : 3017
3. ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3043
4. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان، 8 : 114، رقم : 5012

اس پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر تکمیلِ دین کی آیت کے نزول کا دن بطورِ عید منانے کا جواز ہے تو جس دن خود محسنِ انسانیت ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے اسے بہ طور عید میلاد کیوں نہیں منایا جاسکتا؟ یہی سوال فضیلتِ یومِ جمعہ کے باب میں اَربابِ فکر و نظر کو غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

رِوایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے میلاد کی خوشی میں بکرے ذبح کرکے ضیافت کا اہتمام فرمایا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق حضور نبی اکرم ﷺ نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔ اس پر امام سیوطی (849۔ 911ھ) کا اِستدلال ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب آپ کی ولادت کے سات دن بعد کرچکے تھے اور عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار کیا جاتا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے یہ ضیافت اپنے میلاد کے لیے دی تھی عقیقہ کے لیے نہیں۔

(تفصیلات کے لیے اِس کتاب کا باب پنجم دیکھیے۔)

کائنات میں حضور ﷺ سے بڑی نعمتِ اِلٰہیہ کا تصور بھی محال ہے۔ اس پر جو غیر معمولی خوشی اور سرور و اِنبساط کا اظہار کیا گیا اس کا کچھ اندازہ کتبِ سیر و تاریخ کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ ان کتابوں میں فضائل و شمائل اور خصائص کے حوالے سے بہت سی روایات ملتی ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خود الله تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت مبارکہ پر خوشی منائی۔

روایات شاہد ہیں کہ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کا پورا سال نادر الوقوع مظاہر اور محیر العقول واقعات کا سال تھا۔ اس میں الله تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کا نزول جاری رہا یہاں تک کہ وہ سعید ساعتیں جن کا صدیوں سے انتظار تھا گردشِ ماہ و سال کی کروٹیں بدلتے بدلتے اس لمحۂ منتظر میں سمٹ آئیں جس میں خالق کائنات کے بہترین شاہکار کو منصہ شہود پر بالآخر اپنے سرمدی حسن و جمال کے ساتھ جلوہ گر ہونا تھا۔ الله تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی دنیا میں آمد کے موقع پر اِس قدر چراغاں کیا کہ شرق تا غرب سارے آفاق روشن ہو گئے۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ نے اُن سے بیان کیا :

شهدت آمنة لمَّا وُلِدَ رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم ، فلمَّا ضربها المَخَاض نَظَرْتُ إلي النجوم تدلي حتي إني لأقول : إنها لتقعن عليّ. فلما ولدت خرج منها نور أضاء له البيت الذي نحن فيه والدَّار، فما شيء أنظر إليه إلا نور.

’’جب ولادتِ نبوی ﷺ کا وقت آیا تو میں سیدہ آمنہ سلام الله علیھا کے پاس تھی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ ستارے آسمان سے نیچے ڈھلک کر قریب ہو رہے ہیں یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے اوپر گرپڑیں گے۔ پھر جب آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو سیدہ آمنہ سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر جس میں ہم تھے اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا۔‘‘

1. شيباني، الآحاد والمثاني : 631، رقم : 1094 (أم عثمان بنت أبي العاص رضي الله عنها)
2. طبراني، المعجم الکبير، 25 : 147، 186، رقم : 355، 457
3. ماوردي، أعلام النبوة : 247
4. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 454
5. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 111
6. أبونعيم، دلائل النبوة : 135، رقم : 76
7. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوک، 2 : 247
8. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 79
9. ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46
10. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 264
11. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 220
12. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173
13. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 583

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بارگاہِ رِسالت مآب ﷺ میں عرض کیا : یا رسول الله! آپ کی نبوتِ مبارکہ کی شروعات کیسے ہوئی؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

دعوة أبي إبراهيمَ، وبُشري عيسي، ورأت أمي أنه يخْرُجُ منها نور أضاءت منه قصور الشام.

’’میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ کی بشارت ہوں۔ اور (میری ولادت کے وقت) میری والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ اُن کے جسم اَطہر سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔‘‘

1. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 262، رقم : 22315

2. ابن حبان نے ’’الصحیح (14 : 313، رقم : 6404)‘‘ میں ایک اور سند سے انہی الفاظ پر مشتمل طویل روایت بیان کی ہے۔
3۔ بخاری نے ’’التاریخ الکبیر (5 : 342، رقم : 7807 ! 1736)‘‘ میں مختلف سند سے انہی الفاظ پر مشتمل طویل روایت بیان کی ہے۔
4۔ بخاری نے ’’التاریخ الاوسط (1 : 13، رقم : 33)‘‘ میں مختلف سند سے انہی الفاظ پر مشتمل طویل روایت بیان کی ہے۔

5. ابن أبي أسامه، المسند، 2 : 867، رقم : 927
6. روياني، المسند، 2 : 209، رقم : 1267
7. ابن الجعد، المسند : 492، رقم : 3428
8. طيالسي، المسند : 155، رقم : 1140
9. طبراني، المعجم الکبير، 8 : 175، رقم : 7729
10. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 402، رقم : 1582
11. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 1 : 46، رقم : 113
12. لالکائي، اعتقاد أهل السنة والجماعة، 1 : 422، 423، رقم : 1404
13. أبو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 6 : 90
14. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوک، 2 : 248
15. ابن عساکر، السيرة النبوية، 1 : 127
16. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 275، 306، 322

17۔ ہیثمي نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 : 222)‘‘ میں کہا ہے کہ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔
18. سيوطي، کفايۃ الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 79

حضرت آمنہ اپنے عظیم نونہال کے واقعاتِ ولادت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں :

لما فصل منّي خرج معه نور أضاء له ما بين المشرق إلي المغرب.

’’جب سرورِ کائنات ﷺ کا ظہور ہوا تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے شرق تا غرب سب آفاق روشن ہوگئے۔‘‘

1. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 102
2. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 52
3. ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46
4. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 264
5. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 172
6. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 79
7. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 83

ایک روایت میں سیدہ آمنہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ وقتِ ولادت اُن سے ایسا نور خارِج ہوا جس کی ضوء پاشیوں سے اُن کی نگاہوں پر شام میں بصریٰ کے محلات اور بازار روشن ہوگئے یہاں تک اُنہوں نے بصریٰ میں چلنے والے اونٹوں کی گردنیں بھی دیکھ لیں۔

1. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 102
2. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 214، رقم : 545
3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 313، رقم : 6404
4. عبد الرزاق، المصنف، 5 : 318
5. دارمي، السنن، 1 : 20، رقم : 13
6. شيباني، الآحاد والمثاني، 3 : 56، رقم : 1369
7. شيباني، الآحاد والمثاني، 4 : 397، رقم : 2446
8. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 673، رقم : 4230

9۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 : 222)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے، اور احمد کی بیان کردہ روایت کی اسناد حسن ہیں۔

10. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان : 512، رقم : 2093
11. ابن إسحاق، السيرة النبوية، 1 : 97، 103
12. ابن هشام، السيرة النبوية : 160
13. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 1 : 459
14. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 455
15. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 1 : 171، 172
16. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 466
17. ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46
18. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 264، 275
19. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173
20. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 78
21. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 83
22. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 46

احادیث میں یوم عاشورہ کے حوالے سے جشنِ میلاد کو عید مسرت کے طور پر منانے پر محدثین نے استدلال کیا ہے۔ یوم عاشورہ کو یہودی مناتے ہیں اور یہ وہ دن ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ اس طرح یہ دن ان کے لیے یوم فتح اور آزادی کا دن ہے جس میں وہ بطور شکرانہ روزہ رکھتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔ ہجرت کے بعد جب حضور ﷺ نے یہود مدینہ کا یہ عمل دیکھا تو فرمایا کہ موسیٰ پر میرا حق نبی ہونے کے ناتے ان سے زیادہ ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے عاشورا کے دن اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ اس پر بھی بہت سی روایات ہیں جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی کا دن جشن عید کے طور پر منا سکتے ہیں تو ہم مسلمانوں کو بدرجہ اولیٰ اس کا حق پہنچتا ہے کہ ہم حضور نبی رحمت ﷺ کی ولادت کا جشن مثالی جوش و خروش سے منائیں جو الله کا فضل اور رحمت بن کر پوری نسل انسانیت کو ہر قسم کے مظالم اور ناانصافیوں سے نجات دلانے کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول الله تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216
3. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب اتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727
4. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، 796، رقم : 1130
5. أبوداود، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444
6. ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734
7. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 291، 336، رقم : 2644، 3112
8. أبو يعليٰ، المسند، 4 : 441، رقم : 2567

وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ.

’’اور اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود)۔ جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے۔ ساقط فرماتے (اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔‘‘

الأعراف، 7 : 157

آخری بات یہ کہِ اس کائناتِ اَرضی میں ایک مومن کے لیے سب سے بڑی خوشی اِس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کا ماہِ ولادت آئے تو اسے یوں محسوس ہونے لگے کہ کائنات کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں اور اس کے لیے میلادِ مصطفیٰ ﷺ کی خوشی ہی حقیقی خوشی ہے۔ جس طرح اُمم سابقہ پر اس سے بدرجہ ہا کم تر احسان اور نعمت عطا ہونے کی صورت میں واجب کیا گیا تھا جب کہ ان امتوں پر جو نعمت ہوئی وہ عارضی اور وقتی تھی اس کے مقابلے میں جو دائمی اور اَبدی نعمتِ عظمیٰ حضور نبی اکرم ﷺ کے ظہورِ قدسی کی صورت میں اُمتِ مسلمہ پر ہوئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ بدرجہ اَتم سراپا تشکر و امتنان بن جائے اور اظہارِ خوشی و مسرت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔

قرآن مجید نے بڑے بلیغ انداز سے جملہ نوع انسانی کو اس نعمت اور فضل و رحمت کو یاد رکھنے کا حکم دیا ہے جو محسنِ انسانیت پیغمبر رحمت حضور نبی اکرم ﷺ کی صورت میں انہیں عطا ہوئی اور جس نے ان اندھیروں کو چاک کر دیا جو صدیوں سے شبِ تاریک کی طرح ان پر مسلط تھے اور نفرت و بغض کی وہ دیواریں گرا دیں جو انہیں قبیلوں اور گروہوں میں منقسم کیے ہوئے تھیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا.

’’اور اپنے اوپر (کی گئی) اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اُس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے۔

آل عمران، 3 : 103

ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو پھر سے جوڑنا اور گروہوں میں بٹی ہوئی انسانیت کو رشتہ اُخوت و محبت میں پرو دینا اتنا بڑا واقعہ ہے جس کی کوئی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا میلادِ مصطفیٰ ﷺ پر خوشی منانا اور شکرِ اِلٰہی بجا لانا اُمتِ مسلمہ پر سب خوشیوں سے بڑھ کر واجب کا درجہ رکھتا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved