91/ 1. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَهُوَ يَنْقُلُ التُّرَابَ حَتَّی وَارَی التُّرَابُ شَعَرَ صَدْرِهِ وَکَانَ رَجُـلًا کَثِيْرَ الشَّعَرِ وَهُوَ يَرْتَجِزُ بِرِجْزِ عَبْدِ اﷲِ:
اَللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَ
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَ
فَأَنْزِلْنَ سَکِيْنَةً عَلَيْنَ
وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَ
إِنَّ الْأَعَدَاءَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَ
إِذَا أَرَادُوْا فِتْنَةً أَبَيْنَ
يَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خندق کھودتے وقت میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بھی مٹی ڈھو رہے تھے، یہاں تک کہ مٹی نے سینہ اقدس کے بال مبارک ڈھک دیئے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جسم اطہر پر بال کثرت سے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے لفظوں میں یوں رجز خوانی فرما رہے تھے:
’’تو ہدایت گر نہ فرماتا ہمیں پروردگار
کیسے بن سکتے تھے ہم بندے ترے طاعت گزار
ہم پہ اے رحمن فرما اپنی رحمت کا نزول
ہوں مقابل دشمنوں کے قلعہ مرصوص وار
ہر کمیں گاہی سے بدخواہوں کی ہم ہوں باخبر
اُن کے فتنوں اور مکروں سے رہیں ہم ہوشیار‘‘
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ اشعار بلند آواز پڑھ رہے تھے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: الرجز في الحرب ورفع الصوت في حفر الخندق، 3/ 1103، الرقم: 2870، وفي باب: حفر الخندق، 3/ 1043، الرقم: 2681. 2682، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: غزوة الأحزاب وهي الخندق، 3/ 1430، الرقم: 1803، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 269، الرقم: 8857، 6/ 136، الرقم: 10367، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 282، 285، 291، 302، الرقم: 18509، 18536، 18593، 18706، وابن حبان في الصحيح، 10/ 397، الرقم: 4535، والدارمي في السنن، 2/ 291، الرقم: 2455، وأبو عوانة في المسند، 4/ 347، الرقم: 6922، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 279، الرقم: 26069.
92/ 2. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم :
لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْاخِرَه
فَأَصْلِحِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَه
وفي رواية: فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَه.
وفي رواية: فَأَکْرِمِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَه.
وفي رواية:
اَللَّهُمَّ إِنَّ الْخَيْرَ خَيْرُ الْآخِرَه
فَأَصْلِحِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَه
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: دعاء النبي صلی الله عليه واله وسلم أصلح الأنصار والمهاجرة، 3/ 1381، الرقم: 3584، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: غزوة الأحزاب وهي الخندق، 3/ 1431، الرقم: 1804.1805، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: في مناقب أبي موسی الأشعري، 5/ 694، الرقم: 3857، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 84، الرقم: 8313. 8315، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 172، الرقم: 12780، 13951، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 401، الرقم: 32379.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
’’اے اللہ! زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے، سو تو انصار، اور مہاجرین کی اصلاح فرما۔‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا: پس تو انصار، اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔‘‘
‘‘اور ایک روایت میں ہے: ’’پس اے اللہ! تو انصار اور مہاجرین کو عزت عطا فرما۔‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے: ’’یا اللہ! بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے، سو تو انصار اور مہاجرین کو فلاح و بھلائی عطا فرما۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
93/ 3. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: جَعَلَ الْمُهَاجِرُوْنَ وَالْأَنْصَارُ يَحْفِرُوْنَ الْخَنْدَقَ حَوْلَ الْمَدِيْنَة وَيَنْقُلُوْنَ التُّرَابَ عَلَی مُتُوْنِهِمْ وَيَقُوْلُوْنَ:
نَحْنُ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا مُحَمَّدَ
عَلَی الإِسْلَامِ مَا بَقِيْنَا أَبَدَ
وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يُجِيْبُهُمْ وَيَقُوْلُ:
اَللَّهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْأخِرَه
فَبَارِکْ فِي الْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَه
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (غزوئہ خندق کے موقع پر) مہاجرین اور انصار صحابہ مدینہ منورہ کے گرد خندق کھودنے میں مصروف تھے اور اپنی پشتوں پر مٹی (کے ٹوکرے) لادے لے جاتے ہوئے یہ شعر پڑھتے تھے:
’’ہم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دستِ اقدس پر بک گئے ہیں، اور ہماری یہ زندگی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی غلامی کے لئے ہی ہمیشہ وقف ہو چکی ہے۔‘‘
’’یہ سماعت فرما کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان مبارک پر اپنے پروانوں کے لئے جواباً یہ الفاظ جاری ہو جاتے:
’’یا اللہ! اصل بھلائی (و کامیابی) تو آخرت کی (زندگی میں بھلائی و کامیابی) ہے، پس انصار و مہاجرین کو برکت عطا فرما۔‘‘
94/ 4. وفي رواية: عَنْ سَهْلٍ رضی الله عنه قَالَ: جَائَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَنَحْنُ نَحْفِرُ الْخَنْدَقَ وَنَنْقُلُ التُّرَابَ عَلَی أَکْتَادِنَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم :
اَللَّهُمَّ، لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْأخِرَةِ
فَاغْفِرْ لِلْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3-4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: حفر الخندق، 3/ 1043، الرقم: 2679.2680، وفي کتاب: المناقب، باب: دعاء النبي صلي الله عليه واله وسلم أصلح الأنصار والمهاجرة، 3/ 1381، الرقم: 3585، وفي کتاب: المغازي، باب: غزوة الخندق وهي الأحزاب، 4/ 1504، الرقم: 3872.3874، وفي کتاب: الأحکام، باب: کيف يبايع الإمام الناس، 6/ 2633، الرقم: 6775، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: غزوة الأحزاب وهي الخندق، 3/ 1431، الرقم: 1804، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: مناقب أبي موسی الأشعري، 5/ 693، الرقم: 3856، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 85، الرقم: 8317، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 187، 205، الرقم: 12974، 13149.
’’ایک اور روایت میں حضرت سہل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے جبکہ ہم خندق کھود رہے تھے اور اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا کر منتقل کر رہے تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
’’یا اللہ! اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے پس تو (اس زندگی میں سرخرو ہونے کے لئے) انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
95/ 5. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانُوْا يَرْتَجِزُوْنَ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مَعَهُمْ وَهُمْ يَقُوْلُوْنَ:
اَللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْأخِرَه
فَانْصُرِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَه
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وََهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: مقدم النبي صلی الله عليه واله وسلم المدينة، 3/ 1430، الرقم: 3717، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: غزوة الأحزاب وهي الخندق، 3/ 431، الرقم: 1805، وفي کتاب: المساجد ومواضع الصلاة، باب: ابتناء مسجد النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 1/ 373، الرقم: 524، وأبو داود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: في بناء المساجد، 1/ 123، الرقم: 453، والنسائي في االسنن، کتاب: المساجد، باب: نبش القبور واتخاذ أرضها مسجدًا، 2/ 39، الرقم: 702، وفي السنن الکبری، 1/ 259، الرقم: 781، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 211، الرقم: 13231، والبيهقي في السنن الکبری، 2/ 438، الرقم: 4093، وأبو عوانة في المسند، 1/ 332، الرقم: 1177.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار و مہاجرین (خندق کھودتے وقت) رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی ان کے ساتھ (رجزیہ اشعار پڑھنے میں شریک) تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ فرما رہے تھے:
’’یا اللہ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، پس تو انصار و مہاجرین کی مدد فرما۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
96/ 6. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِلَی الْخَنْدَقِ، فَإِذَا الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ يَحْفِرُوْنَ فِي غَدَاةٍ بَارِدَةٍ، فَلَمْ يَکُنْ لَهُمْ عَبِيْدٌ يَعْمَلُوْنَ ذَلِکَ لَهُمْ، فَلَمَّا رَأَی مَا بِهِمْ مِنَ النَّصَبِ وَالْجُوْعِ، قَالَ:
اَللَّهُمَّ إِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الاخِرَه
فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَه
فَقَالُوْا مُجِيْبِيْنَ لَهُ:
نَحْنُ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا مُحَمَّدَ
عَلَی الْجِهَادِ مَا بَقِيْنَا أَبَدَ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
6: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: غزوة الخندق، وهي الأحزاب، 4/ 1504، الرقم: 3873، وفي کتاب: الجهاد والسير، باب: التحريض علی القتال، 3/ 1043، الرقم: 2679، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: غزوة الأحزاب، وهي الخندق، 3/ 1431، الرقم: 1805، وابن ماجه نحوه في السنن، کتاب: المساجد والجماعات، باب: أن يجوز بناء المساجد، 1/ 245، الرقم: 742، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 276، الرقم: 13951، وابن حبان في الصحيح، 16/ 249، الرقم: 7259، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 400، الرقم: 32371.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (غزوہ خندق کے موقع پر) خندق کی کھدائی والی جگہ تشریف لے گئے جہاں مہاجرین و انصار صحابہ سخت سردی میں صبح صبح ہی کھدائی میں لگ گئے تھے۔ ان حضرات کے پاس کوئی خادم اور غلام نہ تھے جو ان کی طرف سے اس کام کو انجام دیتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی مشقت اور بھوک دیکھ کر فرمایا:
’’اے میرے اللہ! بلاشبہ زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور اے اللہ! ان انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما!‘‘
انصار و مہاجرین نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بات کا جواب دیتے ہوئے عرض کیا:
’’ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھوں پر جہاد کی بیعت کی ہے جب تک ہم باقی رہیں (اس عہد پر قائم رہیں گے)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
97/ 7. عَنْ جُنْدَبِ بْنِ سُفْيَانَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ فِي بَعْضِ الْمَشَاهِدِ وَقَدْ دَمِيَتْ إِصْبَعُهُ فَقَالَ:
هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيْتِ
وَفِي سَبِيْلِ اﷲِ مَا لَقِيْتِ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کسی جہاد میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی انگشت مبارک خون آلود ہوگئی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
’’تو ایک انگلی ہے جو خون آلود ہوئی۔ اور تو نے جو پایا اللہ کی راہ میں پایا ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
98/ 8. وفي رواية عنه: يَقُوْلُ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَمْشِي إِذْ أَصَابَهُ حَجَرٌ فَعَثَرَ فَدَمِيَتْ إِصْبَعُهُ فَقَالَ:
هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيْتِ
وَفِي سَبِيْلِ اﷲِ مَا لَقِيْتِ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
7-8: أخرجه البخاری في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: من ينکب في سبيل اﷲ، 3/ 1031، الرقم: 2648، وفي کتاب: الأدب، باب: ما يجوز من الشعر والرجز والحداء وما يکره منه، 5/ 2276، الرقم: 5794، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: ما لقي النبي صلی الله عليه واله وسلم من أذی المشرکين والمنافقين، 3/ 1421، الرقم: 1796، والترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ومن سورة الضحی، 5/ 442، الرقم: 3345، وقال أبوعيسی: هذا حديث حسن صحيح، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 159، الرقم: 10456، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 313، الرقم: 18828، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 280، الرقم: 26071، وأبو يعلی في المسند، 3/ 101، الرقم: 1533.
’’ایک روایت میں حضرت جندب بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (جہاد کے لئے) تشریف لے جا رہے تھے کہ ایک پتھر آپ کے سامنے آگیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پھسلے اور پاؤں مبارک کی ایک انگلی سے خون بہنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
’’تو ایک انگلی ہے جو خون آلود ہوئی اور تو نے جو پایا اﷲ تعالیٰ کی راہ میں پایا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
99/ 9. عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم لَقِيَ الزُّبَيْرَ فِي رَکْبٍ مِنْ الْمُسْلِمِيْنَ کَانُوْا تِجَارًا قَافِلِيْنَ مِنْ الشَّأْمِ، فَکَسَا الزُّبَيْرُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَأَبَا بَکْرٍ رضی الله عنه ثِيَابَ بَيَاضٍ وَسَمِعَ الْمُسْلِمُوْنَ بِالْمَدِيْنَةِ مَخْرَجَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مِنْ مَکَّةَ، فَکَانُوْا يَغْدُوْنَ کُلَّ غَدَاةٍ إِلَی الْحَرَّةِ، فَيَنْتَظِرُوْنَهُ حَتَّی يَرُدَّهُمْ حَرُّ الظَّهِيْرَةِ، فَانْقَلَبُوْا يَوْمًا بَعْدَ مَا أَطَالُوا انْتِظَارَهُمْ فَلَمَّا أَوَوْا إِلَی بُيُوْتِهِمْ أَوْفَی رَجُلٌ مِنْ يَهُوْدَ عَلَی أُطُمٍ مِنْ أطَامِهِمْ لِأَمْرٍ يَنْظُرُ إِلَيْهِ فَبَصُرَ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَأَصْحَابِهِ مُبَيَضِيْنَ يَزُوْلُ بِهِمُ السَّرَابُ فَلَمْ يَمْلِکْ الْيَهُوْدِيُّ أَنْ قَالَ بِأَعْلَی صَوْتِهِ يَا مَعَاشِرَ الْعَرَبِ، هَذَا جَدُّکُمُ الَّذِي تَنْتَظِرُوْنَ، فَثَارَ الْمُسْلِمُوْنَ إِلَی السِّلَاحِ، فَتَلَقَّوْا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِظَهْرِ الْحَرَّةِ، فَعَدَلَ بِهِمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ حَتَّی نَزَلَ بِهِمْ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ وَذَلِکَ يَوْمَ الاِثْنَيْنِ مِنْ شَهْرِ رَبِيعِ الْأَوَّلِ، فَقَامَ أَبُوْ بَکْرٍ لِلنَّاسِ وَجَلَسَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم صَامِتًا، فَطَفِقَ مَنَ جَاءَ مِنَ الْأَنْصَارِ مِمَّنْ لَمْ يَرَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يُحَيِّی أَبَا بَکْرٍ حَتَّی أَصَابَتِ الشَّمْسُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَأَقْبَلَ أَبُوْ بَکْرٍ حَتَّی ظَلَّلَ عَلَيْهِ بِرِدَائِهِ، فَعَرَفَ النَّاسُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عِنْدَ ذَلِکَ، فَلَبِثَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً وَأُسِّسَ الْمَسْجِدُ الَّذِي أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی وَصَلَّی فِيهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ثُمَّ رَکِبَ رَاحِلَتَهُ، فَسَارَ يَمْشِي مَعَهُ النَّاسُ حَتَّی بَرَکَتْ عِنْدَ مَسْجِدِ الرَّسُوْلِ صلی الله عليه واله وسلم بِالْمَدِيْنَةِ وَهُوَ يُصَلِّي فِيهِ يَوْمَئِذٍ رِجَالٌ مِنْ الْمُسْلِمِيْنَ وَکَانَ مِرْبَدًا لِلتَّمْرِ لِسُهَيْلٍ وَسَهْلٍ غُـلَامَيْنِ يَتِيْمَيْنِ فِي حَجْرِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم حِينَ بَرَکَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ: هَذَا إِنْ شَاءَ اﷲُ الْمَنْزِلُ، ثُمَّ دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم الْغُـلَامَيْنِ، فَسَاوَمَهُمَا بِالْمِرْبَدِ لِيَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا فَقَالَا: لَا، بَلْ نَهَبُهُ لَکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَأَبَی رَسُوْلُ اﷲِ أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُمَا هِبَةً حَتَّی ابْتَاعَهُ مِنْهُمَا ثُمَّ بَنَاهُ مَسْجِدًا وَطَفِقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَنْقُلُ مَعَهُمُ اللَّبِنَ فِي بُنْيَانِهِ وَيَقُوْلُ وَهُوَ يَنْقُلُ اللَّبِنَ:
هَذَا الْحِمَالُ لَا حِمَالَ خَيْبَرْ
هَذَا أَبَرُّ رَبَّنَا وَأَطْهَرْ
وَيَقُوْلُ:
اَللَّهُمَّ إِنَّ الْأَجْرَ أَجْرُ الْاخِرَهْ
فَارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ
فَتَمَثَّلَ بِشِعْرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ سَعْدٍ.
9: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب هجرة النبي صلی الله عليه واله وسلم وأصحابه إلی المدينة، 3/ 1421، الرقم: 3694، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 279، الرقم: 26068، وفي کتاب الأدب، 1/ 382، الرقم: 415، وابن حبان في الثقات، 1/ 135، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 240، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1/ 134.
’’حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ (ہجرت کے دوران) راستے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ملے جو مسلمانوں کے ایک قافلے کے ساتھ شام سے تجارت کر کے آرہے تھے۔ پس انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پہننے کے لیے سفید کپڑے دیئے۔ مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مکہ معظمہ سے تشریف لے آنے کی خبر سن لی تھی۔ پس وہ روزانہ صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا استقبال کرنے کے لیے مقام حرہ تک آتے، انتظار کرتے رہتے اور سخت دوپہر ہونے پر واپس لوٹتے تھے۔ ایک روز جب وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا طویل انتظار کر کے واپس لوٹے، اپنے گھروں میں پہنچے تو کسی ضرورت سے ایک یہودی کسی ٹیلے پر چڑھا اور اس نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھی آرہے ہیں، جو سفید کپڑوں میں ملبوس صاف نظر آرہے تھے۔ پس یہودی بے اختیار بلند آواز سے چلایا، اے گروہ عرب! جن کا تم انتظار کر رہے تھے وہ تو یہ آ گئے۔ مسلمانوں نے اپنے ہتھیار لیے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا آگے بڑھ کر مقام حرّہ کے پیچھے استقبال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے ساتھ دائیں جانب کا راستہ اختیار فرمایا، یہاں تک کہ بنی عمرو بن عوف میں جا اترے۔ یہ دو شنبہ (پیر) کا روز اور ربیع الاوّل کا مبارک مہینہ تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم چپ چاپ تشریف فرما ہوگئے اور لوگوں سے مخاطب ہونے کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے رہے۔ پس انصار میں سے جو آتا، جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت نہ کی ہوتی، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سلام کرتا۔ یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر دھوپ آگئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اوپر اپنی چادر تان لی اور سایہ کیے رکھا تو لوگوں نے پہچانا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو یہ ہیں۔ سو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں دس راتوں سے کچھ زیادہ ہی اقامت پذیر رہے اور وہاں اس مسجد کی بنیاد رکھی جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے (یعنی مسجد قباء) اور اسی میں رسول اللہ نمازادا فرماتے رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اونٹنی پر سوار ہوئے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس جگہ پہنچے جہاں مدینہ منورہ میں مسجد نبوی ہے اور جہاں آج مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ اس جگہ کھجوروں کا کھلیان تھا اور وہ اسعد بن زرارہ کے دو یتیم بچوں یعنی سہل اور سہیل کی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اونٹنی اس جگہ بیٹھ گئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: انشاء اللہ تعالیٰ ہماری منزل یہی ہو گی۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان دونوں لڑکوں کو بلایا تاکہ یہاں مسجد بنانے کے لیے ان کے کھلیان کی قیمت ادا کردی جائے۔ دونوں لڑکے عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! ہم اس جگہ کو ہبہ کرتے ہیں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مفت لینے سے انکار کیا اور انہیں قیمت ادا فرمائی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسجد کی بنیاد رکھی اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود بھی مسلمانوں کے ساتھ اینٹیں اٹھا اٹھا کر لا رہے تھے اور ساتھ ساتھ (یہ اشعار) پڑھتے جاتے:
’’اے رب! یہ خیبر کا بوجھ اٹھانا نہیں بلکہ یہ تو نیکی اور پاکیزگی ہے۔‘‘
نیز یہ بھی فرمایا:
’’اے اللہ! اجر تو آخرت کا اجر ہے۔ پس انصار اور مہاجرین پر رحم فرما۔‘‘
’’پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک مسلمان (شاعر یعنی حضرت عبد اللہ بن رواحہ ص) کا ایک شعر پڑھا۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ابن ابی شیبہ، ابن حبان اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
100/ 10. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنه قَالَ لَمَّا کَانَ يَوْمُ الْأَحْزَابِ وَخَنْدَقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم رَأَيْتُهُ يَنْقُلُ مِنْ تُرَابِ الْخَنْدَقِ حَتَّی وَارَی عَنِّي الْغُبَارُ جِلْدَةَ بَطْنِهِ وَکَانَ کَثِيْرَ الشَّعَرِ، فَسَمِعْتُهُ يَرْتَجِزُ بِکَلِمَاتِ ابْنِ رَوَاحَةَ وَهُوَ يَنْقُلُ مِنَ التُّرَابِ يَقُوْلُ.
اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَ
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَ
فَأَنْزِلَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَ
وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَ
إِنَّ الْأُلَی قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَ
وَإِنْ أَرَادُوْا فِتْنَةً أَبَيْنَ
قَالَ ثُمَّ يَمُدُّ صَوْتَهُ بِآخِرِهَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
10: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: غزوة الخندق وهي الأحزاب، 4/ 1507، الرقم: 3880.
’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جنگ احزاب اور خندق کے دنوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خندق کی مٹی اٹھا کر لے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شکم مبارک کی جلد پر گرد و غبار پڑی ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جسم اطہر پر کافی بال تھے۔ پس میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مٹی ڈھوتے ہوئے حضرت عبد اﷲ ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے یہ اشعار پڑھ رہے تھے:
’’تو ہدایت گر نہ فرماتا ہمیں پروردگار
کیسے بن سکتے تھے ہم بندے ترے طاعت گزار
ہم پہ اے رحمن فرما اپنی رحمت کا نزول
ہوں مقابل دشمنوں کے قلعہ مرصوص وار
ہر کمیں گاہی سے بدخواہوں کی ہم ہوں باخبر
اُن کے فتنوں اور مکروں سے رہیں ہم ہوشیار‘‘
راوی کا بیان ہے کہ آخری مصرعہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آواز کھینچ کر پڑھتے تھے۔‘‘
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
101/ 11. عَنْ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ دِيْنَارٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ أَبِي طَالِبٍ:
وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامَی عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ
وَقَالَ عُمَرُ بْنُ حَمْزَةَ: حَدَّثَنَا سَالِمٌ، عَنْ أَبِيْهِ: رُبَّمَا ذَکَرْتُ قَوْلَ الشَّاعِرِ، وَاَنَا أَنْظُرُ إِلَی وَجْهِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم يَسْتَسْقِي، فَمَا يَنْزِلُ حَتَّی يَجِيْشَ کُلُّ مِيْزَابٍ.
وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامَی عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ
وَهُوَ قَوْلُ أَبِي طَالِبٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.
11: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الاستسقاء، باب: سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الإستسقاءَ إذا قَحَطُوا، 1/ 342، الرقم: 963، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في الدعاء في الاستسقاء، 1/ 405، الرقم: 1272، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 93، الرقم: 5673،26، والبيهقي في السنن الکبری، 3/ 352، الرقم: 6218.6219، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 14/ 386، الرقم: 7700، والعسقلاني في تغليق التعليق، 2/ 389، الرقم: 1009، وابن کثير في البداية والنهاية، 4/ 2، 471، والمزي في تحفة الأشراف، 5/ 359، الرقم: 6775.
’’حضرت عبداللہ بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو حضرت ابوطالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا:
’’وہ گورے (مکھڑے والے صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) جن کے چہرے کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔‘‘
’’حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد اﷲ بن عمر)نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رخ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے اور مذکورہ بالا شعر حضرت ابوطالب کا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
102/ 12. عَنْ شُرَيْحٍ عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَ: قِيْلَ لَهَا: هَلْ کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَتَمَثَّلُ بِشَيئٍ مِنَ الشِّعْرِ؟ قَالَتْ: کَانَ يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ ابْنِ رَوَاحَةَ رضی الله عنه وَيَتَمَثَّلُ وَيَقُوْلُ:
وَيَأْتِيْکَ بِالْأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوِّدِ
رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی:هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
12: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الأدب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في إنشاد، 5/ 139، الرقم: 2848، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 156، 222، الرقم: 25270، 25904، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 248، الرقم: 10835، والطبري في تهذيب الآثار، 2/ 658. 659، الرقم: 973. 974، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 272، الرقم: 26014، وفي کتاب الأدب، 1/ 343، الرقم: 362، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 300، الرقم: 867، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 297.
’’حضرت شریح روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا گیا کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم شعر بھی پڑھا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: (ہاں ) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا یہ شعر پڑھتے:
’’تیرے پاس وہ شخص خبریں لے کر حاضر ہوگا جسے تو نے ان کے لانے کے لئے زادِ راہ بھی نہیں دیا ہوگا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد، نسائی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
103/ 13. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: أَنْکَحَتْ عَائِشَةُ رضی اﷲ عنهما ذَاتَ قَرَابَةٍ لَهَا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَجَاءَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: أَهْدَيْتُمُ الْفَتَاةَ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: أَرْسَلْتُمْ مَعَهَا مَنْ يُغَنِّي؟ قَالَتْ: لَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّ الْأَنْصَارَ قَوْمٌ فِيْهِمْ غَزَلٌ، فَلَوْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا مَنْ يَقُوْلُ:
أَتَيْنَاکُمْ أَتَيْنَاکُمْ فَحَيَانَا وَحَيَاکُمْ
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِسَنَدٍ صَحِيْحٍ وَالنَّسَائِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہما نے انصار میں سے اپنی کسی قرابت دار (لڑکی) کا نکاح کروایا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے انہیں فرمایا: کیا تم نے لڑکی کو کوئی تحفہ دیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: ہاں ،آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اس کے ساتھ کوئی گنگنانے والا بھیجا ہے؟ انہوں رضی اﷲ عنہما نے عرض کیا: نہیں، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: انصار گانے کو پسند کرتے ہیں، اگر تم اس کے ہمراہ کوئی گانے والا بھیج دیتیں اور وہ کہتا جاتا:
’’ہم تمہارے پاس آئے ہیں تم ہمیں مبارک باد دو، ہم تمہیں مبارکباد دیں۔‘‘
اس حدیث کو ابن ماجہ نے سند صحیح کے ساتھ اور نسائی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
104/ 14. وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فِي أَوَّلِ مُقَدَّمَةِ الْمَدِيْنَةِ بِعَرُوْسٍ، وَمَعَهَا نِسْوَةٌ، وَإِذَا إِحْدَاهُنَّ تَقُوْلُ: وَأُهْدِيَ لَهَا أَکْبُشًا تَنَحْنَحُ فِي الْمِرْبَدِ وَزَوْجُکِ فِي النَّادِي وَيَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : لَا تَقُوْلِي هَکَذَا وَلَکِنْ قُوْلِي:
أَتَيْنَاکُمْ أَتَيْنَاکُمْ فَحَيَانَا وَحَيَاکُمْ
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ ابْنُ حَيَانَ: صَحِيْحٌ.
13-14: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: النکاح، باب: الغناء والدف، 1/ 612، الرقم: 1900، والنسائي في السنن الکبری، 3/ 332، الرقم: 5566، والطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 205، الرقم: 6198، والحاکم في المستدرک، 2/ 200. 201، الرقم: 2750، 2753، والبيهقي في السنن الکبری، 7/ 289، الرقم: 14466، وابن حيان في أحاديث أبي الزبير، 1/ 55، الرقم: 12، وقال: صحيح، والعسقلاني في فتح الباري، 9/ 226.
’’اور ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم شہر مدینہ کے آغاز میں ایک دولہن کے پاس سے گزرے اور اس کے ساتھ چند اور عورتیں بھی تھیں، اچانک ان میں سے ایک عورت کہنے لگی کہ اس (دولہن) کو ایسے مینڈھے ہدیہ کئے گئے ہیں جو اونٹوں کے باڑے میں کھنکھارتے ہیں اور تمہارا خاوند اجتماع میں ہے اور وہ وہ کچھ جانتا ہے جو کل ہونے والا ہے، پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس طرح نہ کہو، بلکہ یوں کہو: ہم تمہارے پاس آئے ہیں، ہم تمہارے پاس آئے ہیں، پس تم ہمیں مبارکباد دو اور ہم تمہیں مبارکباد دیتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ امام ابن حیان نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
105/ 15. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِذَا اسْتَرَاثَ الْخَبَرَ تَمَثَّلَ فِيْهِ بِبَيْتِ طَرَفَةَ:
وَيَأْتِيْکَ بِالْأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوِّدِ
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُ أَحْمَدَ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
15: أخرجه أحمد بن حنبل فيالمسند، 6/ 31، 146، الرقم: 24069، 25177، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 278، الرقم: 26060، والنسائي في السنن الکبري، 6/ 247،الرقم: 10833. 1034، وفي عمل اليوم والليلة، 1/ 549، الرقم: 995. 997، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1/ 61، الرقم: 20، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 128.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی کے نزول میں دیر ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم طرفہ بن العبد کا یہ شعر پڑھتے:
’’تیرے پاس وہ شخص خبریں لائے گا جسے تو نے زادِ راہ بھی نہیں دیا ہوگا (یعنی خبر لانے کا مکلف بھی نہیں ٹھہرایا ہوگا)۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ امام احمد کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
106/ 16. عَنْ شُرَيْحٍ عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَ: قُلْتُ لَهَا: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَرْوِي شَيْئًا مِنَ الشِّعْرِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، شِعْرَ عَبْدِ اﷲِ بْنِ رَوَاحَةَ کَانَ يَرْوِي هَذَا الْبَيْتَ:
وَيَأْتِيْکَ بِالْأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوِّدِ
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
وفي رواية: عَنْ عِکْرِمَةَ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها: هَلْ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَتَمَثَّلُ شِعْرًا قَطُّ؟
قَالَتْ: کَانَ أَحْيَانًا إِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ يَقُوْلُ:
وَيَأْتِيْکَ بِالْأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوِّدِ
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
16: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 138، الرقم: 25115، وأبو يعلی في المسند، 8/ 358، الرقم: 4945، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 276، الرقم: 792، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 383.
’’امام شریح حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں عرض گذار ہوا: کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اشعار میں سے کچھ بیان فرماتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا یہ شعر بیان فرماتے تھے:
’’تیرے پاس وہ شخص خبریں لائے گا جسے تونے انہیں لانے کے لئے زادِ راہ بھی نہیں دیا ہو گا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
’’اور حضرت عکرمہ کی روایت میں ہے، آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا: کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کبھی اشعار بھی پڑھا کرتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: کبھی کبھار جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر داخل ہوتے تو فرماتے:
’’تیرے پاس وہ شخص خبریں لائے گا جسے تونے انہیں لانے کے لئے زادِ راہ بھی نہیں دیا ہو گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو یعلی اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
107/ 17. عَنْ سِيَابَةَ بْنِ عَاصِمٍ السُّلَمِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ يَوْمَ حُنُيْنٍ: أَنَا ابْنُ الْعَوَاتِکِ مِنْ سُلَيْمٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ سَعِيْدٍ وَالشَّيْبَانِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرُ وَالدَّيْلَمِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
17: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7/ 168، الرقم: 6724، وابن سعيد في کتاب السنن، 2/ 351، الرقم: 2840.2841، والشيباني في الأحاد والمثاني، 3/ 95، الرقم: 1413، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3/ 107، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 46، الرقم: 114، وابن أبي عاصم في الجهاد، 2/ 605، الرقم: 255، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 219.
’’حضرت سیابہ بن عاصم سُلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنگِ حنین کے دن فرمایا: میں بنو سلیم کی پاکدامن عورتوں عواتک کا بیٹا ہوں (عواتک عاتکہ کی جمع ہے اور اس کا لفظی معنیٰ پاکدامن اور طاہرہ کے ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امہات میں سے تین کا نام عاتکہ ہے اور ان کی پاک دامنی اور طہارت کی وجہ سے تمام قریش ان کی اولاد ہونے پر فخر کرتے تھے)۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی، ابن سعید، شیبانی، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved