47/ 1. عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْاَکْوَعِ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم إِلَی خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْـلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرٍ: يَا عَامِرُ، أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِکَ، وَکَانَ عَامِرٌ رَجُـلًا شَاعِرًا، فَنَزَلَ يَحْدُوْ بِالْقَوْمِ يَقُوْلُ:
اَللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَ
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَ
فَاغْفِرْ فِدَآءً لَکَ مَا أَبْقَيْنَ
وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَ
وَأَلْقِيَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَ
إِنَّا إِذَا صِيْحَ بِنَا أَبَيْنَ
وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوْا عَلَيْنَ
فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : مَنْ هَذَا السَّائِقُ؟ قَالُوْا: عَامِرُ بْنُ الْأَکْوَعِ قَالَ: يَرْحَمُهُ اﷲُ. قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَجَبَتْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: غزوة خيبر، 4/ 1537، الرقم: 3960، وفي کتاب: الأدب، باب: مايجوز من الشعر والرجز والحداء وما يکره منه، 5/ 2277، الرقم: 5796، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: غزوة خيبر، 3/ 1427، الرقم: 1802، والبيهقي في السنن الکبری،10/ 227، الرقم: 20823، والطبراني في المعجم الکبير، 7/ 32، الرقم: 6294، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1/ 101، الرقم:5.
’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی جانب نکلے۔ ہم رات کے وقت سفر کر رہے تھے کہ ہم میں سے ایک آدمی نے حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے عامر! آپ ہمیں اپنے شعر کیوں نہیں سناتے؟ حضرت عامر شاعر تھے۔ چنانچہ وہ نیچے اتر آئے اور لوگوں کے سامنے یوں حدی خوانی کرنے لگے:
’’اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا، تو ہم نہ ہدایت حاصل کرتے، نہ زکوٰۃ دیتے اور نہ نماز پڑھتے، پس اے اللہ! ہم تجھ پر (اور تیرے دین پر) قربان ہوں، تو ہمیں بخش دے، جب تک ہم اس دنیا میں باقی ہیں، اور اگر ہمارا مقابلہ کسی دشمن کے ساتھ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ، اور ہم پر سکینہ نازل فرما، اور اگر دشمن ہم پر چلائے یا ہم پر حملہ آور ہو تو ہم اس کا انکار کریں (اور اس کا مقابلہ کریں نہ کہ اس کے آگے ہتھیار پھینک دیں)۔‘‘
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ حدی خوانی کرنے والا کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: عامر بن اکوع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ ہم میں سے ایک شخص (حضرت عمر) کہنے لگے کہ ان کے لئے (شہادت اور جنت) واجب ہو گئی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
48/ 2. عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ رضی الله عنه قَالَ: لَمَّا کَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ قَاتَلَ أَخِي قِتَالًا شَدِيدًا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، فَارْتَدَّ عَلَيْهِ سَيْفُهُ، فَقَتَلَهُ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فِي ذَلِکَ وَشَکُّوْا فِيهِ: رَجُلٌ مَاتَ فِي سِـلَاحِهِ وَشَکُّوْا فِي بَعْضِ أَمْرِهِ. قَالَ سَلَمَةُ: فَقَفَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مِنْ خَيْبَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ائْذَنْ لِي أَنْ أَرْجُزَ لَکَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: أَعْلَمُ مَا تَقُوْلُ. قَالَ: فَقُلْتُ:
وَاﷲِ لَوْلَا اﷲُ مَا اهْتَدَيْنَ
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَ
فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : صَدَقْتَ.
وَأَنْزِلَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَ
وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَ
وَالْمُشْرِکُوْنَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَ
قَالَ: فَلَمَّا قَضَيْتُ رَجَزِي، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : مَنْ قَالَ هَذَا؟ قُلْتُ: قَالَهُ أَخِي. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : يَرْحَمُهُ اﷲُ قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ نَاسًا لَيَهَابُوْنَ الصَّـلَاةَ عَلَيْهِ، يَقُوْلُوْنَ رَجُلٌ مَاتَ بِسِـلَاحِهِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
2: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: غزوة خيبر، 3/ 1429، الرقم: 1802، وأبو داود في السنن، کتاب: الجهاد، باب: في الرجل يموت بسلاحه، 3/ 20، الرقم: 2538، والنسائي في السنن، کتاب: الجهاد، باب: من قاتل في سبيل اﷲ فارتد عليه سيفه فقتله، 6/ 30، الرقم: 3150، وفي السنن الکبری، 3/ 21، الرقم: 4358، 6/ 136، الرقم: 10368، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 46، الرقم: 16550، وابن حبان في الصحيح، 7/ 469، الرقم: 3196، وأبو عوانة في المسند، 4/ 315. 316، الرقم: 6832. 6835، والطبراني المعجم الکبير، 7/ 8، الرقم: 6227.
’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ خیبر کے دن میرے بھائی (حضرت عامر)نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ بڑی شدید جنگ کی مگر اتفاق سے ان کی تلوار پلٹ کر انہیں خود کو ہی لگی اور وہ شہید ہو گئے، صحابہ کرام (میں سے بعض) نے ان پر کچھ نکتہ چینی کی اور جو شخص اپنے ہی ہتھیار سے قتل ہو جائے اس کی شہادت پر شک کیا۔ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خیبر سے واپس لوٹے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کچھ رجزیہ کلام پیش کرنے کی اجازت دیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اجازت عطا فرمائی، حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا سوچ سمجھ کر کہنا، پھر میں نے کہا:
’’خدا کی قسم! اگر اللہ کی مدد نہ ہوتی تو ہم زکوٰۃ ادا کرتے نہ نماز پڑھتے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تونے سچ کہا۔‘‘
’’اور ہم پر اپنی رحمت نازل فرما اور کفار کے مقابلہ کے وقت ہم کو ثابت قدم رکھ۔ بے شک کفر (اپنی پوری طاقت و قوت سے) ہم پر حملہ آور ہے۔‘‘
’’فرماتے ہیں کہ جب میں رجز پورا کر چکا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کس کے اشعار ہیں؟ میں نے عرض کیا: یہ شعر میرے بھائی عامر نے کہے ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھنے میں ہچکچا رہے ہیں! اور کہتے ہیں کہ یہ شخص اپنے ہتھیار سے فوت ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: وہ مجاہد ہے اور جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
49/ 3. عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيْدِ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: رَدِفْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَوْمًا فَقَالَ: هَلْ مَعَکَ مِنْ شِعْرِ أُمَيَةَ بْنِ أَبِي الصَّلْتِ شَيئٌ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: هِيهْ فَأَنْشَدْتُهُ بَيْتًا، فَقَالَ: هِيهْ، ثُمَّ أَنْشَدْتُهُ بَيْتًا، فَقَالَ: هِيهْ، حَتَّی أَنْشَدْتُهُ مِائَةَ بَيْتٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
3: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الشعر، 4/ 1767، الرقم: 2255، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 278، الرقم: 799، والنسائي في السنن الکبري، 6/ 248، الرقم: 10836، وفي عمل اليوم والليلة، 1/ 550، الرقم: 998، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 390، الرقم: 19494، وابن حبان في الصحيح، 13/ 97، الرقم: 5782، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 272، الرقم: 26010، وفي کتاب الأدب، 1/ 340، الرقم: 358، والطبري في تهذيب الآثار، 2/ 634، الرقم: 937، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 226، الرقم: 20817، والطبراني في المعجم الکبير، 7/ 315، الرقم: 7238.7239، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1/ 54، الرقم: 14.
’’حضرت عمرو بن شرید رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے سوار ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں امیہ بن ابی ا لصلت کے اشعار میں سے کچھ یاد ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں (یا رسول اﷲ!) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: سناؤ، میں نے ایک شعر سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اور سناؤ میں نے ایک اور شعر سنایا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اور سناؤ، میں نے ایک اور شعر سنایا،آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اور سناؤ، حتی کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ایک سو اشعار کو سنائے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم نے، بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں اور امام نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
50/ 4. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ لهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا عُمَارَةَ، وَلَّيْتُمْ يَوْمَ حُنَيْنٍ؟ قَالَ: لاَ وَاﷲِ، مَا وَلَّی النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم ، وَلَـکِنْ وَلَّی سَرَعَانُ النَّاسِ، فَلَقِيَهُمْ هَوَازِنُ بِالنَّبْلِ، وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم عَلَی بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ، وَأَبُوْ سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ رضی الله عنه أخِذٌ بِلِجَامِهَا، وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ:
أَنَا النَّبِيُّ لاَ کَذِبْ
أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: بغلة النبي صلی الله عليه واله وسلم البيضاء، 3/ 1054، الرقم: 2719، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: في غزوة حنين، 3/ 1400.1401، الرقم: 1776، والترمذي في السنن، کتاب: الجهاد عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في الثبات عند القتال، 4/ 199، الرقم: 1688، وقال أبو عيسی: وفي الباب عن علي و ابن عمر ث وهذا حديث حسن صحيح، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 188، 191، الرقم: 8629، 8638، 6/ 155، الرقم: 10441، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 280.281، 289، 304، وابن الجارود في المنتقي، 1/ 267، الرقم: 1066، وابن حبان في الصحيح، 11/ 90، الرقم: 4770، 13/ 84، الرقم: 5771، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 530، الرقم: 33583، والبغوي في شرح السنة، 11/ 64، الرقم: 2706، 12/ 372.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے کسی شخص نے دریافت کیا: اے ابو عمارہ! کیا غزوئہ حنین میں آپ لوگوں نے پیٹھ دکھائی؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، خدا کی قسم! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پیٹھ نہیں دکھائی، ہاں بعض جلدباز لوگ بھاگ نکلے تو اہلِ ہوازن نے انہیں تیروں کی باڑ پر رکھ لیا جبکہ اس موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے سفید خچر پر جلوہ افروز تھے جس کی لگام حضرت ابو سفیان بن حارث نے تھام رکھی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرما رہے تھے:
’’میں نبی برحق ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں
میں عبد المطلب (جیسے سردار) کا لختِ جگر ہوں‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
51/ 5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : أَصْدَقُ کَلِمََةٍ قَالَهَا الشَّاعِرُ کَلِمَةُ لَبِيْدٍ:
أَلاَ کُلُّ شَيئٍ مَا خَـلاَ اﷲَ بَاطِلٌ
وَکَادَ أُمَيَةُ بْنُ أَبِي الصَّلْتِ أَنْ يُسْلِمَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: أَشْعَرُ کَلِمَةٍ تَکَلَّمَتْ بِهَا الْعَرَبُ کَلِمَةُ لَبِيْدٍ:
أَلاَ کُلُّ شَيئٍ مَا خَـلاَ اﷲَ بَاطِلٌ
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب،باب: أيام الجاهلية، 3/ 1395، الرقم: 3628، وفي کتاب: الأدب، باب: ما يجوز من الشعر والرجز والحداء وما يکره منه، 5/ 2276، الرقم: 5795، ومسلم في الصحيح، کتاب: الشعر، 4/ 1768، الرقم: 2256، والترمذي في السنن، کتاب: الأدب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب ما جاء في إنشاد الشعر، 5/ 140، الرقم: 2849، وابن ماجه في السنن، 2/ 1236، الرقم: 3757، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 470، 480، الرقم: 10076، 10235، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 272، الرقم: 26015. 26016.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: سب سے سچی بات وہ ہے جو لبید شاعر نے کہی ہے:
’’خبر دار ہو جاؤ اﷲ تعالیٰ کے سوا ہر چیز فانی ہے۔‘‘
’’اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قریب تھا کہ امیہ بن ابو الصلت مسلمان ہو جاتا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: سب سے بہتر شعر جسے عرب نے کہا لبید کا شعر ہے:
’’خبردار، آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز فانی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
52/ 6. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: اِسْتَأْذَنَ حَسَّانُ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم فِي هِجَاءِ الْمُشْرِکِيْنَ قَالَ: کَيْفَ بِنَسَبِي؟ فَقَالَ حَسَّانُ لَأَسُلَّنَّکَ مِنْهُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِيْنِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
وفي رواية: عن الشَّعْبِيِّ قال: اسْتَأْذَنَ حَسَّانُ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم فِي قُرَيْشٍ قَالَ: کَيْفَ تَصْنَعُ بِنَسَبِي فِيْهِمْ؟ قَالَ: أَسُلُّکَ مِنْهُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةَ مِنَ الْعَجِيْنِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
6: أخرجه البخاري فيالصحيح، کتاب: المناقب، باب: من أحب أن لا يسب نسبه، 3/ 1299، الرقم: 3338، وفي کتاب: المغازي، باب:حديث الإفک، 4/ 1523، الرقم: 3914، وفي کتاب: الأدب، باب: هجاء المشرکين، 5/ 2278، وابن حبان في الصحيح، 16/ 95، الرقم: 7145، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 273، الرقم: 26018، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 297، وأبو يعلی في المسند، 7/ 341، الرقم: 4377، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 298، الرقم: 862، وابن سليمان في مسند عائشة رضي اﷲ عنها، 1/ 75، الرقم: 60.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مشرکین کی ہجو کرنے کی اجازت طلب کی، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے نسب کا کیا ہوگا؟‘‘ تو انہوں نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) ’’میں آپ کے نسب مبارک کو ان (مشرکین) سے ایسے نکال لوں گا، جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
’’اور امام شعبی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے قریش (کی مذمت) بیان کرنے کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ان میں موجود میرے نسب کا کیا کرو گے؟ تو انہوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میں آپ کے نسب کو ان سے ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
53/ 7. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: قَالَ حَسَّانُ رضی الله عنه: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ائْذَنْ لِي فِي أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: کَيْفَ بِقَرَابَتِي مِنْهُ؟ قَالَ: وَالَّذِي أَکْرَمَکَ، لَأَسُلَّنَّکَ مِنْهُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْخَمِيْرِ، فَقَالَ حَسَّانُ:
وَإِنَّ سَنَامَ الْمَجْدِ مِنْ آلِ هَاشِمٍ
بَنُوْ بِنْتِ مَخْزُوْمٍ وَوَالِدُکَ الْعَبْدُ
قَصِيْدَتُهُ هَذِهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
7: أخرجه أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4/ 1934، الرقم: 2489، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 273، الرقم: 26021، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 238، الرقم: 20894، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1/ 103، الرقم: 8.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! مجھے ابو سفیان کی ہجو کی اجازت دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس کے ساتھ میری جو قرابت ہے اس کا کیا کرو گے؟ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو عزت و تکریم عطا کی ہے میں آپ (کے نسب مبارک) کو ان سے اس طرح نکال لوں گا جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ پھر حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے یہ قصیدہ کہا:
’’آل ہاشم کی بزرگی کا کوہان بنتِ مخزوم کی اولاد ہے، اور تیرا باپ تو غلام تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
54/ 8. عَنْ عَائِشََةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: اهْجُوْا قُرَيْشًا فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْهَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ، فَأَرْسَلَ إِلَی ابْنِ رَوَاحَةَ فَقَالَ: اهْجُهُمْ فَهَجَاهُمْ، فَلَمْ يُرْضِ، فَأَرْسَلَ إِلَی کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ حَسَّانُ رضی الله عنه: قَدْ آنَ لَکُمْ أَنْ تُرْسِلُوْا إِلَی هَذَا الْأَسَدِ الضَّارِبِ بِذَنْبِهِ، ثُمَّ أَدْلَعَ لِسَانَهُ، فَجَعَلَ يُحَرِّکُهُ، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَأَفْرِيَنَّهُمْ بِلِسَانِي فَرْيَ الْأَدِيْمِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : لَا تَعْجَلْ، فَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ أَعْلَمُ قُرَيْشٍ بِأَنْسَابِهَا، وَإِنَّ لِي فِيْهِمْ نَسَبًا حَتَّی يُلَخِّصَ لَکَ نَسَبِي، فَأَتَاهُ حَسَّانُ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَدْ لَخَّصَ لِي نَسَبَکَ. وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَأَسُلَّنَّکَ مِنْهُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِيْنِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالطَّبَرِيُّ.
8: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه،4/ 1935، الرقم: 2490، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 38، الرقم: 3582، والطبري في تهذيب الآثار، 2/ 629، الرقم: 929، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 238، الرقم: 20895، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1/ 64، الرقم: 21، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 12/ 393.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قریش کی ہجو کرو، کیونکہ ان (گستاخیوں پر میری نعت اور) اپنی ہجو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ شاق گزرتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت ابن رواحہ کی طرف پیغام بھیجا کہ کفار قریش کی ہجو کرو، انہوں نے کفار قریش کی ہجو کی، وہ آپ کو پسند نہیں آئی، پھر آپ نے حضرت کعب بن مالک کی طرف پیغام بھیجا، پھر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا جب حضرت حسان آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں آئے تو انہوں نے عرض کیا: اب وقت آگیا ہے آپ نے اس شیر کی طرف پیغام بھیجا ہے جو اپنی دم سے مارتا ہے پھر اپنی زبان نکال کر اس کو ہلانے لگے پھر عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اپنی زبان سے انہیں اس طرح چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا جس طرح چمڑے کو پھاڑتے ہیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جلدی نہ کرو، یقینا ابو بکر قریش کے نسب کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اور ان میں میرا نسب بھی ہے (تم ان کے پاس جاؤ) تاکہ ابو بکر میرا نسب ان سے الگ کردیں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے پھر واپس لوٹے اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! ابو بکر نے میرے لئے آپ کا نسب الگ کر دیاہے اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں آپ کو ان میں سے اس طرح نکال لوں گا جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، طبرانی اور طبری نے روایت کیا ہے۔
55/ 9. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: أَتَی النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم عَلَی بَعْضِ نِسَائِهِ وَمَعَهُنَّ أَمُّ سُلَيْمٍ رضي اﷲ عنها فَقَالَ: وَيَحْکَ يَا أَنْجِشَةُ، رُوَيْدَکَ سَوْقًا بِالْقَوَارِيْرِ. مُتَّقَقٌ عَلَيْهِ.
9: أخرجه الخباري في الصحيح، کتاب: الأدب، باب: ما يجوز من الشعر والرجز والحداء وما يکره منه، 5/ 2278، الرقم: 5797، وفي کتاب: الأدب، باب: من دعا صاحبه فنقص من اسمه حرفا، 5/ 2291، الرقم: 5849، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: رحمة النبي صلی الله عليه واله وسلم للنساء وأمر السواق مطاياهن بالرفق بهن، 4/ 1811، الرقم: 2323، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 117، 186، الرقم: 12186، 12958، والدارمي في السنن، 2/ 382، الرقم: 2701، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 134.135، الرقم: 10360، 10363.10364، وابن حبان في الصحيح، 13/ 118، الرقم: 5800، وأبو يعلی في المسند، 5/ 192، الرقم: 2810، 7/ 116، الرقم: 4064، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 101، الرقم: 264.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی بعض ازواج مطہرات کے پاس (ایک سفر سے) تشریف لائے جن کے پاس حضرت امّ سلیم رضی اﷲ عنہا تھیں (تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربارِ اقدس کے ایک غلام) حضرت انجشہ رضی اللہ عنہ نے حدی خوانی شروع کر دی جس سے سواریوں کی رفتار تیز ہو گئی اور ازواج مطہرات کو تیز رفتاری کے باعث مشکل ہوئی تو) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے انجشہ، تیرا بھلا ہو، یہ شیشوں (کی طرح نازک خواتین کی) سواری کو آہستہ آہستہ لے چلو۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
56/ 10. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ وَ غُـلَامٌ أَسْوَدُ يُقَالُ لَهُ: أَنْجَشَةُ يَحْدُوْ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : يَا أَنْجَشَةُ رُوَيْدَکَ سَوْقًا بِالْقَوَارِيْرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظٌ مُسْلِمٍ.
57/ 11. وفي رواية: قَالَ کَانَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم حَادٍ حَسَنُ الصَّوْتِ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : رُوَيْدًا يَا أَنْجَشَةُ لَا تَکْسِرِ الْقَوَارِيْرَ يَعْنِي ضَعَفَةَ النِّسَاءِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظٌ مُسْلِمٍ.
58/ 12. وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فِي مَسِيْرٍ لَهُ فَحَدَا الْحَادِي فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : ارْفُقْ يَا أَنْجَشَةُ وَيْحَکَ بِالْقَوَارِيْرِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
10-12: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأدب، باب: المعاريض مندوحة عن الکذب، 5/ 2294، الرقم: 5856.5857، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: رحمة النبي صلی الله عليه واله وسلم للنساء، 4/ 1811.1812، الرقم: 2323، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 134.135، الرقم: 10359.10363، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 227، الرقم: 13401، والنسائي في عمل اليوم والليلة، 1/ 358، الرقم: 525، وابن حبان في الصحيح، 13/ 119، الرقم: 5801، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 227، الرقم: 20820.20822، والطبراني في المعجم الکبير، 25/ 121، الرقم: 294، وأبو يعلی في المسند، 5/ 191، الرقم: 2809، 7/ 116، 121، الرقم: 4064، 4075، والروياني في المسند، 2/ 381، الرقم: 1357، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 398، الرقم: 1342، وابن سعد في الطبقات الکبری، 8/ 430.431، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3/ 214، 4/ 320، 8/ 20، وقال: رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح.
ــ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کسی سفر میں جا رہے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ انجشہ نامی ایک حبشی لڑکا گا رہا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے انجشہ! آہستہ آہستہ چلو! جیسے نہایت نازک شیشوں کے آبگینے لے جا رہے ہو۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
’’ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربارِ اقدس میں ایک خوش الحان حدی خواں تھا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے فرمایا: اے انجشہ! شیشوں کو نہ توڑنا، یعنی نازک سی عورتوں کو تکلیف نہ دینا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
’’اور ایک روایت میں ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے کسی سفر میں تھے، تو کسی حدی خواں نے حدی خوانی شروع کر دی (جس سے اونٹوں نے رفتار تیز کر دی) تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے انجشہ! نرمی کرو، ان شیشوں (کے آبگینوں کی طرح نازک خواتین) کا خیال رکھو۔ (کہ کہیں تیز رفتاری سے یہ ٹوٹ نہ جائیں)۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
59/ 13. عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ رضي اﷲ عنهما قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم غَدَاةَ بُنِيَ عَلَيَّ، فَجَلَسَ عَلَی فِرَاشِي کَمَجْلِسِکَ مِنِّي، وَجُوَيْرِيَاتٌ يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ، يَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِهِنَّ يَومَ بَدْرٍ، حَتَّی قَالَتْ جَارِيَةٌ:
وَفِيْنَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ
فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : لَا تَقُوْلِي هَکَذَا وَقُوْلِي مَا کُنْتِ تَقُوْلِيْنَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
13: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: شهود الملائکة بدرًا، 4/ 1469، الرقم: 3779، وفي کتاب: النکاح، باب: ضرب الدف في النکاح والوليمة، 5/ 1976، الرقم: 4852، والترمذي في السنن، کتاب: النکاح عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في إعلان النکاح، 3/ 399، الرقم: 1090، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: في النهي عن الغناء، 4/ 281، الرقم: 4922، وابن ماجه في السنن، کتاب: النکاح، باب: الغناء والدف، 1/ 611، الرقم: 1897، والنسائي في السنن الکبری، 3/ 332، الرقم: 5563، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 359.360، الرقم: 27066،27072، وابن حبان في الصحيح، 13/ 189، الرقم: 5878.
’’حضرت ربیع بنت معوذ رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ شبِ زفاف کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (ہمارے گھر) تشریف لائے اور میرے بستر پر اس طرح جلوہ افروز ہوئے جیسا کہ آپ (راوی) بیٹھے ہیں اس وقت کچھ بچیاں دف بجا کر جنگِ بدر میں شہید ہوجانے والے اپنے بزرگوں کی شان میں قصیدہ گا رہی تھیں۔ آخرکار ایک بچی نے کہا:
’’(آج) ہم میں ایسا نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف فرما ہے جو (آنے والے) کل کی باتیں جانتا ہے۔‘‘
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ نہ کہو بلکہ وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھیں۔‘‘
اسی حدیث کو امام بخاری، ترمذی، ابوداود، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
60/ 14. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم دَخَلَ مَکَّةَ فِي عُمْرَة الْقَضَاءِ وَعَبْدُ اﷲِ بْنُ رَوَاحَةَ رضی الله عنه بَيْنَ يَدَيْهِ يَمْشِي وَهُوَ يَقُوْلُ:
خَلُّوْا بَنِي الْکُفَّارِ عَنْ سَبِيْلِهِ
الْيَوْمَ نَضْرِبْکُمْ عَلَی تَنْزِيْلِهِ
ضَرْبًا يَزِيْلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيْلِهِ
وَيُذْهِلُ الْخَلِيْلَ عَنْ خَلِيْلِهِ
فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا ابْنَ رَوَاحَةَ، بَيْنَ يَدَي رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَفِي حَرَمِ اﷲِ تَقُوْلُ الشِّعْرَ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : خَلِّ عَنْهُ يَا عُمَرُ، فَلَهِيَ أَسْرَعُ فِيْهِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالْبَغَوِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْبَغَوِيُّ: إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
15: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الأدب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في إنشاد الشعر، 5/ 139، الرقم: 2847، والنسائي في السنن، کتاب: مناسک الحج، باب: إنشاد الشعر في الحرم والمشي بين يدي الإمام، 5/ 202، الرقم: 2873، وفي السنن الکبری، 2/ 383، الرقم: 3856، والبغوي في شرح السنة، 12/ 374.375، الرقم: 3404.3405، وقال: إسناده صحيح، والعسقلاني في فتح الباري، 7/ 502، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1/ 235، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13/ 151، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1/ 297.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عمرہ قضاء کے موقع پر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ مکرمہ میں اس شان سے داخل ہوئے کہ حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آگے آگے چل رہے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے:
’’کافروں کے بیٹو! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے راستہ سے ہٹ جاؤ۔ آج ان کے آنے پر ہم تمہاری گردنیں ماریں گے۔ ایسی ضرب جو کھوپڑیوں کو گردن سے جدا کردے اور دوست کو دوست سے الگ کردے۔‘‘
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :اے عبداللہ بن رواحہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے اور اللہ تعالیٰ کے حرم میں شعر کہتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! اسے چھوڑ دو! یہ اشعار اِن (دشمنوں) کے حق میں تیروں سے تیز تر اثر کرتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور بغوی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام بغوی نے فرمایا کہ اس کی سند صحیح ہے۔
61/ 15. عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه : کُنْتَ تُجَالِسُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ؟ قَالَ: نَعَمْ، کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِذَا صَلَّی الْفَجْرَ، جَلَسَ فِي مُصَـلاَّهُ، حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَيَتَحَدَّثُ أَصْحَابُهُ يَذْکُرُوْنَ حَدِيْثَ الْجَاهِلِيَةِ، وَيُنْشِدُوْنَ الشِّعْرَ، وَيَضْحَکُوْنَ، وَيَتَبَسَّمُ صلی الله عليه واله وسلم . رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
15: أخرجه النسائي في السن، کتاب: السهو، باب: قعود الإمام في مصلاه بعد التسليم، 3/ 80، الرقم: 1358، وفي السنن الکبری، 1/ 404، الرقم: 1281، 6/ 51، الرقم: 9998، وفي عمل اليوم واللية، 1/ 216، الرقم: 170.
’’حضرت سماک بن حرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس بیٹھا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب نمازِ فجر پڑھ کر فارغ ہوتے تو اپنی نماز کی جگہ پر تشریف فرما رہتے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا۔ پھر اپنے صحابہ کرام سے گفتگو فرماتے رہتے وہ لوگ زمانہ جاہلیت کی باتیں یاد کرکے ہنستے اور (مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر مشتمل) اشعار پڑھتے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (ان کے اشعار سماعت فرما کر) تبسم ریز ہو جاتے۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔
62/ 16. عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم لِعَبْدِ اﷲِ بْنِ رَوَاحَةَ: لَوْحَرَکْتَ بِنَا الرِّکَابَ فَقَالَ: قَدْ تَرَکْتُ قَوْلِي. قَالَ لَهُ عُمَرُص: أَسْمِعْ وَأَطِعْ قَالَ:
اَللَّهُمَّ لَولَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَ
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّيْنَ
فَأَنْزِلَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَ
وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَ
فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اَللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، فَقَالَ عُمَرُص: وَجَبَتْ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبََةَ وَابْنُ سَعْدٍ.
16: أخرجه النسائي في السنن الکبری، 5/ 69، الرقم: 8250، وفي فضائل الصحابة، 1/ 44، الرقم: 146، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 395، الرقم: 32327، وابن سعد في الطبقات الکبري، 3/ 527، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1/ 381، الرقم: 264، والحسيني في البيان والتعريف، 1/ 146، الرقم: 389، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 28/ 104، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1/ 236.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کاش! (حدی خوانی کرکے) تو ہمارے ساتھ ہماری سواری میں تحرک پیدا کرے! انہوں نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میں نے شعر کہنا چھوڑ دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا: شعر سناؤ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت بجا لاؤ تو انہوں نے یہ شعر پڑھے:
’’اے اﷲ تعالیٰ! اگر تیری مدد و نصرت ہمارے شاملِ حال نہ ہوتی تو نہ ہم ہدایت یافتہ ہوتے، اور نہ ہی صدقہ کرتے اور نہ ہی نماز ادا کرتے۔ پس تو ہم پر سکینہ نازل فرما اور جب دشمنوں سے ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔‘‘
پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ اشعار سن کر فرمایا: اے اﷲ! اس پر رحم فرما، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس قول کی بدولت اس پر) جنت واجب ہوگئی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی، ابن ابی شیبہ اور ابن سعد سے روایت کیا ہے۔
63/ 17. عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيْدِ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: أَنْشَدْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مِائَةَ قَافِيَةٍ مِنْ شِعْرِ أُمَيَةَ بْنِ أَبِي الصَّلْتِ، يَقُوْلَُ: بَيْنَ کُلِّ قَافِيَةٍ هِيهْ وَقَالَ: کَادَ أَنْ يُسْلِمَ.
رَوَاهُ ابْنَُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالتِّرْمِذِيُّ فِي الشَّمَائِلِ.
17: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الأدب، باب: الشعر، 2/ 1236، الرقم: 3758، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 272، الرقم: 26012، وفي کتاب الأدب، 1/ 341، الرقم: 360، والترمذي في الشمائل المحمدية، 1/ 205، الرقم: 250، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 227، الرقم: 20819، والشيباني في الآحاد والمثاني، 3/ 213، الرقم: 1571، والطيالسي في المسند، 1/ 179، الرقم: 1271، والمزي في تهذيب الکمال، 15/ 228، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 9/ 268.
’’حضرت عمرو بن شرید رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت کیا انہوں نے بیان فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے اُمیہ بن ابو الصلت شاعر کے اشعار میں سے سو قافیے سماعت فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہر قافیہ کے بعد فرماتے اور سناؤ اور سناؤ. پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قریب تھا کہ یہ اسلام لے آتا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ اور ترمذی نے ’’الشمائل‘‘ میں روایت کیا ہے۔
64/ 18. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم مَرَّ بِبَعْضِ الْمَدِيْنَةِ، فَإِذَا هُوَ بِجَوَارٍ يَضْرِبْنَ بِدُفِّهِنَّ وَيَتَغَنَّيْنَ وَيَقُلْنَ:
نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ
يَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارٍ
فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : يَعْلَمُ اﷲُ إِنِّي لَأُحِبُّکُنَّ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
وفي رواية: فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : اَللَّهُمَّ بَارِکْ فِيْهِنَّ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَأَبُوْ يَعْلَی وَالنَّسَائِيُّ.
18: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: النکاح، باب: الغناء والدف، 1/ 612، الرقم: 1899، والنسائي في عمل اليوم والليلة، 1/ 190، الرقم: 229، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 3/ 120، وأبو يعلی في المسند، 6/ 134، الرقم: 3409، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1/ 75، الرقم: 26، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 42، والعسقلاني في فتح الباري، 7/ 261.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ کی گلیوں سے گزرے تو چند لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا کر کہہ رہی تھیں:
’’ہم بنو نجار کی بچیاں کتنی خوش نصیب ہیں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم (جیسی ہستی) ہماری پڑوسی ہے۔‘‘
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے (ان کی نعت سن کر) فرمایا: (میرا ) اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بھی تم سے بے حد محبت رکھتا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے اﷲ! انہیں برکت عطا فرما۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم، ابو یعلی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
65/ 19. عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيْعٍ رضی الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي قَدْ مَدَحْتُ بِمَدْحَةٍ وَمَدَحْتُکَ بِأُخْرَی. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : هَاتِ وَابْدَأْ بِمَدْحَةِ اﷲِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
19: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 24، الرقم: 15711، والطبراني في العجم الکبير، 1/ 287، الرقم: 843، والبيهقي في شعب الإيمان، 4/ 89، الرقم: 4365، والبخاري في الادب المفرد، 1/ 126، الرقم: 342، والحسيني فيالبيان والتعريف، 2/ 252، الرقم: 1636، وقال: أخرجه البغوي، وابن عدي في الکامل، 5/ 200.
’’حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ! بے شک میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعت بیان کی ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا لائو (مجھے بھی سناؤ) اور ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد سے کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، طبرانی، بیہقی اور بخاری نے ’الادب المفرد ‘ میں روایت کیا ہے۔
66/ 20. عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيْعٍ رضی الله عنه قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي قَدْ حَمِدْتُ رَبِّي. تَبَارَکَ وَتَعَالَی. بِمَحَامِدَ وَمِدَحٍ، وَإِيَاکَ، قَالَ: هَاتِ مَاحَمِدْتَ بِهِ رَبَّکَ. قَالَ: فَجَعَلْتُ أُنْشِدُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
وَقَالَ الْمَنَاوِيُّ: أَسَانِيْدُ أَحْمَدَ رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
20: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 435، الرقم: 15033، 15038، وفي فضائل الصحابة، 1/ 260. 261، الرقم: 334. 335، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 125، الرقم: 342، والطبراني في المعجم الکبير، 1/ 287، الرقم: 844، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1/ 46، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 118، 9/ 66، 10/ 95، والحسيني في البيان والتعريف، 1/ 154، الرقم: 411، وقال: أخرجه الإمام أحمد والبخاري في الأدب والنسائي والحاکم أحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح، والمناوي في فيض القدير، 2/ 162.
’’حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسول اﷲ! میں نے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور آپ کی مدحت و نعت بیان کی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: لائو مجھے بھی سنائو (اور ابتداء) اﷲ تعالیٰ کی حمد سے کرو جو تم نے بیان کی ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ میں نے (حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے) پڑھنا شروع کر دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں اور طبرانی و ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔ امام مناوی نے بھی فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
67/ 21. عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَةَ رضی الله عنه قَالَ: أَنْشَدَ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم کَعْبُ بْنُ زُهَيْرِ بَانَتْ سُعَادُ، فِي مَسْجِدِهِ بِالْمَدِيْنَةِ، فَلَمَّا بَلَغَ قَوْلَهُ:
إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ يُسْتَضَاءُ بِهِ
وَصَارِمٌ مِنْ سُيُوْفِ اﷲِ مَسْلُوْلُ
أَشَارَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِکُمْه إِلَی الْخَلْقِ لَيَسْمَعُوْا مِنْهُ …الحديث.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کعب بن زہیر نے اپنے مشہور قصیدے ’’بانت سعاد‘‘ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مسجد نبوی میں مدح کی اور جب اپنے اس قول پر پہنچا:
’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم (کفر و ظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیزدھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ وہ انہیں (یعنی کعب بن زہیر) کو (غور سے) سنیں۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، بیہقی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
68/ 22. وفي رواية: عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ رضی الله عنه قَالَ: لَمَّا انْتَهَی خَبَرُ قَتْلِ ابْنِ خَطْلٍ إِلَی کَعْبِ بْنِ زُهَيْرِ بْنِ أَبِي سَلْمَی وَکَانَ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم أَوْعَدَهُ بِمَا أَوْعَدَهُ ابْنَ خَطْلٍ، فَقِيْلَ لِکَعْبٍ: إِنْ لَمْ تُدْرِکْ نَفْسَکَ قُتِلْتَ، فَقَدِمَ الْمَدِيْنَةَ، فَسَأَلَ عَنْ أَرَقِّ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، فَدُلَّ عَلَی أَبِي بَکْرٍ رضی الله عنه، وَأَخْبَرَهُ خَبَرَهُ، فَمَشَی أَبُوْ بَکْرٍ وَکَعْبٌ عَلَی إِثْرِهِ حَتَّی صَارَ بَيْنَ يَدَي رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . فَقَالَ يَعْنِي أَبَا بَکْرٍ: الرَّجُلُ يُبَايِعُکَ، فَمَدَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَدَهَ، فَمَدَّ کَعْبٌ يَدَهُ، فَبَايَعَهُ، وَسَفَرَ عَنْ وَجْهِه،ِ فَأَنْشَدَهُ:
نُبِّئْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ أَوْعَدَنِي
وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ مَأْمُوْلُ
إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ يُسْتَضَاءُ بِهِ
مُهَنَّدٌ مِنْ سُيُوْفِ اﷲِ مَسْلُوْلُ
فَکَسَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم بُرْدَةً لَهُ، فَاشْتَرَاهَا مُعَاوِيَةُ رضی الله عنه مِنْ وَلَدِهِ بِمَالٍ فَهِيَ الَّتِي تَلْبَسُهَا الْخُلَفَاءُ فِي الْأَعْيَادِ.
رَوَاهُ ابْنُ قَانِعٍ وَالْعَسْقَـلَانِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ ’’فِي الْبَدَايَةِ‘‘ وَقَالَ: قُلْتُ: وَرَدَ فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَعْطَا بُرْدَتَهُ حِيْنَ أَنْشَدَهُ الْقَصِيْدَةَ … وَهَکَذَا الْحَافِظُ أَبُوْ الْحَسَنِ ابْنُ الْأَثِيْرِ فِي الْغَابَةِ، قَالَ: هِيَ الْبُرْدَةُ الَّتِي عِنْدَ الْخُلَفَاءِ، قُلْتُ: وَهَذَا مِنَ الْأُمُوْرِ الْمَشْهُوْرَةِ جِدًا.
21-22: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3/ 670. 673، الرقم: 6477. 6479، والبيهقي في السنن الکبري، 10/ 243، الرقم: 77، والطبراني في المعجم الکبير، 19/ 177.178، الرقم: 403، وابن قانع في معجم الصحابة، 2/ 381، والعسقلاني في الإصابة، 5/ 594، وابن هشام في السيرة النبوية، 5/ 191، والکلاعي في الاکتفاء، 2/ 268، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 4/ 373.
’’اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب کعب بن زہیر کے پاس (گستاخِ رسول) ابن خطل کے قتل کی خبر پہنچی اور اسے یہ خبر بھی پہنچ چکی تھی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے بھی وہی دھمکی دی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابن خطل کو دی تھی تو کعب سے کہا گیا کہ اگر تو بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہجو سے باز نہیں آئے گا تو قتل کر دیا جائے گا تو اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سب سے زیادہ نرم دل صحابی کے بارے میں معلومات کیں تو اسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا گیا تو وہ ان کے پاس گیا اور انہیں اپنی ساری بات بتا دی پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور کعب بن زہیر چپکے سے چلے (تاکہ کوئی صحابی راستے میں ہی اسے پہچان کر قتل نہ کر دے) یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے پہنچ گئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) یہ ایک آدمی ہے جو آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے سو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس آگے بڑھایا تو کعب بن زہیر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیعت کر لی پھر اپنے چہرے سے نقاب ہٹا لیا اور اپنا وہ قصیدہ پڑھا جس میں ہے:
’’مجھے خبر دی گئی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے دھمکی دی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاں عفو و درگزر کی (زیادہ) امید کی جاتی ہے۔‘‘
اور اسی قصیدہ میں ہے:
’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم (کفر و ظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیزدھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘
’’پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے (خوش ہو کر) اسے اپنی چادر پہنائی جس کو امیر معاویہص نے اس کی اولاد سے مال کے بدلہ میں خرید لیا اور یہی وہ چادر ہے جسے (بعد میں) خلفاء عیدوں (اور اہم تہواروں کے موقع) پر پہنا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن قانع اور امام عسقلانی نے روایت کیا ہے اور امام ابن کثیر نے ’’البدایہ‘‘ میں روایت کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی چادر مبارک ان کو اس وقت عطا فرمائی جب انہوں نے اپنے قصیدے کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدح فرمائی اور اسی طرح حافظ ابوالحسن ابن الاثیر نے ’اسد الغابۃ‘ میں بیان کیا ہے کہ یہ وہی چادر ہے جو خلفا کے پاس رہی اور یہ بہت ہی مشہور واقعہ ہے۔
69/ 23. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ لَهُ حَادٍ جَيِّدُ الْحُدَاءِ وَکَانَ حَادِيَ الرِّجَالِ وَکَانَ أَنْجَشَةُ يَحْدُوْا بِأَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فَلَمَّا حَدَا أَعْنَقَتِ الإِبِلُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : وَيْحَکَ يَا أَنْجَشَةُ، رُوَيْدًا سَوْقَکَ بِالْقَوَارِيْرِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ.
23: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 254، 285، الرقم: 13695، 14076، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 398، الرقم: 1343، والبيهقي في السنن الکبري، 10/ 227، الرقم: 20822، والطيالسي في المسند، 1/ 272، الرقم: 2048، وابن عبد البر في الاستيعاب، 1/ 140، والعسقلاني في الإصابة، 1/ 119.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (کے دربارِ اقدس) کا ایک نہایت ہی خوش الحان حدی خواں تھا۔ (اس کا نام انجشہ تھا ایک مرتبہ) انجشہ (کسی ایسے سفر میں جس میں امہات المومنین بھی ہمراہ تھیں) حدی خوانی کرنے لگا اس کی آواز سے سواری کے اونٹ تیز چل پڑے، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے انجشہ! تیرا بھلا ہو، یوں آہستہ آہستہ چلو جیسے نازک سے شیشوں (کے آبگینے) لے جا رہے ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور عبد بن حمید نے روایت کیا ہے۔
70/ 24. عَنِ الْأَعْشَی الْمَازَنِيِّ رضی الله عنه قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم فَأَنْشَدْتُهُ:
يَا مَالِکَ النَّاسِ وَدَيَانَ الْعَرَبْ
إِنِّي لَقِيْتُ ذِرْبَةً مِنَ الذِّرَبْ
غَدَوْتُ أَبْغِيْهَا الطَّعَامَ فِي رَجَبْ
فَخَلَّفَتْنِي بِنَزَاعٍ وَهَرَبْ
أَخْلَفَتِ الْعَهْدَ وَلَطَّتْ بِالذَّنَبْ
وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ
قَالَ: فَجَعَلَ يَقُوْلُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم عِنْدَ ذَلِکَ: وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّحَاوِيُّ وَأَبُوْ يَعْلَی وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
24: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 201. 202، الرقم: 6885. 6886، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 299، وأبو يعلی في المسند، 12/ 287، الرقم: 6871، والبخاري في التاريخ الکبير، 2/ 61، الرقم: 1689، وابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف، 1/ 296، الرقم: 410، وابن حبان في الثقات، 3/ 21، الرقم: 73، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3/ 867، والشيباني في الآحاد والمثاني، 2/ 422، الرقم: 1215، 5/ 177، الرقم: 2711، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 240، الرقم: 20904، والروياني في المسند، 2/ 441، الرقم: 1465.
’’حضرت اعشی مازنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ اشعار سنائے:
’’اے لوگوں کے مالک اور عربوں کے حاکم! بے شک میں تیز زبان عورتوں میں سے ایک عورت کے ساتھ ملا ہوں، جسے میں نے ماہ رجب میں کھانا کھلانا چاہا، پس اس نے جھگڑنے اور بھاگنے میں مجھے بھی پیچھے چھوڑ دیا، اس نے وعدہ خلافی کی اور مسلسل گناہ کئے اور یہ (عورتیں) نہایت ہی برے غلبہ والی ہیں جس پر یہ غالب آجائیں۔‘‘
راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ اشعار سن کر: ’’وھن شر غالب لمن غلب‘‘ دہرانے لگے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، طحاوی، ابو یعلی اور بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں روایت کیا ہے۔
71/ 25. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم صَدَّقَ أُمَيَةَ فِي شَيئٍ مِنْ شَعْرِهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم صَدَقَ وَقَالَ:
وَالشَّمْسُ تَطْلُعُ کُلَّ آخِرِ لَيْلَةٍ
حَمْرَاءُ يُصْبِحُ لَوْنُهَا يَتوَرَّدُ
تَاْبَی فَمَا تَطْلُعْ لَنَا فِي رِسْلِهَ
إِلاَّ مُعَذَّبَةً وَإِلاَّ تُجْلَدُ
فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم صَدَقَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلَی.
25: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 256، الرقم: 2314، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 272، الرقم: 26013، وفي کتاب الأدب، 1/ 342، الرقم: 361، وأبو يعلی في المسند، 4/ 365، الرقم: 2482، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 299، وابن أبي عاصم في السنة، 1/ 255، الرقم: 579، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 9/ 270.271، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، سورة المؤمن، 4/ 72، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1/ 104، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 127.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے امیہ بن ابو الصلت کے بعض اشعار کی تصدیق فرمائی اور اس کی تصدیق فرماتے ہوئے فرمایا: اس نے سچ کہا۔
اور اس (امیہ بن ابو الصلت ) نے کہا:
’’سورج ہر رات کے اخیر میں طلوع ہوتا ہے اور جب طلوع ہوتا ہے تو سرخ ہوتا ہے، پھر اس کا رنگ مزید سرخ ہو جاتا ہے، پس وہ نہیں طلوع ہوتا مگر (آگ کا) عذاب دیا ہوا یا کوڑے مارا ہوا۔‘‘
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
72/ 26. عَنْ خُرَيْمِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي اﷲ عنهما: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي أُرِيْدُ أَنْ أَمْدَحَکَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : هَاتِ لَا يَفْضُضِ اﷲُ فَاکَ فَأَنْشَأَ الْعَبَّاسُ يَقُوْلُ:
وَأَنْتَ لَمَّا وُلِدْتَ أَشْرَقَتِ
الْأَرْضُ وَضَاءَ تْ بِنُوْرِکَ الْأُفُقُ
فَنَحْنُ فِي الضِّيَاءِ وَفِي
النُّوْرِ وَسُبُلُ الرَّشَادِ نَخْتَرِقُ
رَوَاهُ الطَّبَرَانِي وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
26: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 4/ 213، الرقم: 4167، والحاکم في المستدرک، 3/ 369، الرقم: 5417، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1/ 364، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2/ 102، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1/ 53، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2/ 447، الرقم: 664، والعسقلاني في الإصابة، 2/ 274، الرقم: 2247، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 217، والخطابي في إصلاح غلط المحدثين، 1/ 101، الرقم: 57، وابن قدامة في المغني، 10/ 176، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 2/ 258، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 66، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13/ 146، والحلبي في السيرة، 1/ 92.
’’حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن لام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خدمتِ اقدس میں موجود تھے تو حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اﷲ! میں آپ کی مدح و نعت پڑھنا چاہتا ہوں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: لاؤ مجھے سناؤ اﷲ تعالیٰ تمہارے دانت صحیح و سالم رکھے (یعنی تم اسی طرح کا عمدہ کلام پڑھتے رہو) تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ پڑھنا شروع کیا:
’’اور آپ وہ ذات ہیں کہ جب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو (آپ کے نور سے) ساری زمین چمک اٹھی اور آپ کے نور سے اُفقِ عالم روشن ہو گیا پس ہم ہیں اور ہدایت کے راستے ہیں اور ہم آپ کی عطا کردہ روشنی اور آپ ہی کے نور میں ان (ہدایت کی راہوں) پر گامزن ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی، حاکم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
73/ 27. عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ حَکِيْمَ بْنَ حِزَامٍ خَرَجَ إِلَی الْيَمَنِ فَاشْتَرَی حُلَّةً ذِي يَزَنٍ، فَقَدِمَ بِهَا الْمَدِيْنَةَ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَأَهْدَاهَا لَهُ فَرَدَّهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَقَالَ: إِنَّا لَا نَقْبَلُ هَدْيَةَ مُشْرِکٍ فَبَاعَهَا حَکِيْمٌ فَأَمَرَ بِهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَاشْتُرِيَتْ لَهُ فَلَبِسَهَا ثُمَّ دَخَلَ فِيْهَا الْمَسْجِدَ فَقَالَ حَکِيْمٌ: فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ فِيْهَا لَکَأَنَّهُ الْقَمَرُ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فَمَا مَلَکْتُ نَفْسِي حِيْنَ رَأَيْتُهُ کَذَلِکَ أَنْ قُلْتُ:
مَا يَنْظُرُ الْحُکَّامُ بِالْحُکْمِ بَعْدَ مَ
بَدَا وَاضِحٌ ذُوْ غُرَّةٍ وَحَجُوْلُ
إِذَا وَاضَخُوْهُ الْمَجْدَ أَرْبَی عَلَيْهِمْ
بِمُسْتَفْرَغِ مَاءِ الذِّنَابِ سَجِيْلُ
فَضَحِکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم .
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ نَحْوَهُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
27: أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2/ 671، الرقم: 987، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 193، 202، الرقم: 3094، 3125، والحاکم في المستدرک، 3/ 551، الرقم: 6050، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 8/ 73، 15/ 101. 102، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2/ 504، والمزي في تهذيب الکمال، 7/ 175، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 278.
’’حضرت عروہ سے روایت ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے (قبولِ اسلام سے پہلے) یمن کی طرف (بغرض تجارت) روانگی اختیار کی اور وہاں سے آپ نے ایک نہایت دلربا اور جاذب نظر لباس خریدا، اور مدینہ منورہ واپس آکر وہ لباس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں تحفتاً پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ لباس قبول کرنے سے انکار فرمایا اور یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ ہم مشرک کا تحفہ قبول نہیں کرتے تو حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اسے فروخت کرنے کا (عندیہ دیا) تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے اپنے لئے خریدنے کا حکم دیا وہ لباس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے خرید لیا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُسے زیبِ تن کیا پھر مسجد میں تشریف لائے، حضرت حکیم نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس لباس میں دیکھا تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھے کہ میں نے اس لباس میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زیادہ حسین جچتا ہوا انسان کبھی نہیں دیکھا آپ تو چودھویں کا چاند دکھائی دیتے ہیں اور بے قابو ہو کر بے ساختہ یہ اشعار پڑھنے لگے:
’’جب روشن، چمکتے دمکتے اور گورے مکھڑے والے (محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) جلوہ افروز ہوتے ہیں تو (حسن و قبح) کا حکم لگانے والے (حسن مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں کھو کر) اپنا (منصب) حکم بھول جاتے ہیں۔ جب لوگوں نے ان کے ساتھ عظمت اور بزرگی میں مقابلہ کرنا چاہا تو وہ ان سب پر (عطاؤں اور کرم نوازیوں سے بھرے) بڑے بڑے ڈولوں کے ساتھ سبقت لے گئے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری، طبرانی اور اسی طرح حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
74/ 28. عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ فَمَرَّ عَبْدُ اﷲِ بْنَ رَوَاحَةَ رضی الله عنه فَإِذَا النَّاسُ قَدْ أَخْبَوْا أَي عَبْدَ اﷲِ بْنَ رَوَاحَةَ أَي عَبْدَ اﷲِ بْنَ رَوَاحَةَ قَالَ: فَعَرَفْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم دَعَانِي فَجِئْتُ فَقَالَ لِي: اجْلِسْ هَاهُنَا فَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ لِي: کَيْفَ تَقُوْلُ الشِّعْرَ کَأَنَّهُ يَتَعَجَّبُ فَقُلْتُ أَنْظُرُ ثُمَّ أَقُوْلُ قَالَ: فَعَلَيْکَ بِالْمُشْرِکِيْنَ وَلَمْ أَکُنْ هَيَأْتُ شَيْئًا فَأَنْشَدْتُهُ هَذِهِ الْکَلِمَةَ.
فَأَخْبِرُوْنِي أَثْمَانَ الْعِبَاءِ مَتَی
کُنْتُمْ بَطَارِيْقَ أَوْ دَانَتْ لَکُمْ مُضَرُ
فَعَرَفْتُ الْکَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَقُلْتُ:
يَا هَاشِمُ الْخَيْرُ إِنَّ اﷲَ فَضَّلَکُمْ
عَلَی الْبَرِيَةِ فَضْـلًا مَا لَهُ غَيْرُ
إِنِّي تَفَرَّسْتُ فِيْکَ الْخَيْرَ أَعْرِفُهُ
فَرَاسَةً خَالَفَتْهُمْ فِي الَّذِي نَظَرُوْ
وَلَوْ سَأَلْتُ أَوِ اسْتَغْفَرْتُ بَعْضَهُمْ
فِي جُلِّ أَمْرِکَ مَا آوَوْا وَلَا نَصَرُوْ
فَثَبَّتَ اﷲُ مَا آتَاکَ مِنْ حُسْنٍ
تَثْبِيْتَ مُوْسَی وَنَصْرًا کَالَّذِي نُصِرُوْ
فَأَقْبَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مُبْتَسِمًا وَقَالَ: وَأَنْتَ فَثَبَّتَکَ اﷲُ.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ وَالْمَقْدَسِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
28: أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2/ 661، الرقم: 977، وابن سعد في الطبقات الکبري، 3/ 528، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1/ 108، الرقم: 17، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 28/ 94.95، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1/ 234، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 124، وقال: رواه الطبراني ورجاله ثقات، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 336.
’’حضرت شعبی سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ اتنے میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا وہاں سے گزر ہوا۔ تو ایسے انہیں دیکھ کر میں لوگوں نے پکارنا شروع کیا: اے عبد اللہ بن رواحہ! اے عبد اللہ بن رواحہ! تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں سمجھ گیا کہ مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یاد فرمایا ہے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (اے عبد اﷲ!) یہاں بیٹھ جاؤ، پس میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے فرمایا: تم اتنے اچھے شعر کیسے کہہ لیتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پسند کا اظہار فرمایا تو میں نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میں سوچتا ہوں پھر کہتا ہوں یعنی شعر کہنے میں ذرا غور و تدبر سے کام لیتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تو (ابھی) تم مشرکین پر اپنے اشعار کے ذریعہ حملہ آور ہو جاؤ۔ (حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) میں نے کوئی تیاری نہیں کر رکھی تھی سو جو اس وقت فی البدیہہ میرے ذہن میں جو کلام آیا وہ یہ کلمات ہیں:
’’(اے مشرکو!) تم مجھے عبا کی قیمتیں بتاؤ، اور یہ کہ تم کب جنگ کے ماہر (یعنی رومی افواج کے کمانڈر) تھے یا قبیلہ مضر تمہارے فرماں بردار ہوئے۔ ‘‘
’’پس میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چہرہ اقدس پر ناگواری محسوس کی، تو میں نے وہ چھوڑ کر یہ اشعار پڑھے:
’’اے صاحبِ خیر (اور سردارِ بنو) ہاشم! بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام مخلوق پر فضیلت وبزرگی عطا فرمائی ہے اور جس کا کوئی ثانی نہیں، بے شک میں نے آپ کو ہمیشہ نیکی کرنے والا ہی پایا جسے میں جانتا ہوں، ایسی بھلائی جس نے ان کی مخالفت کی اس چیز میں جو انہوں نے دیکھی۔ اور اگر میں آپ کے معاملہ میں ان میں سے بعض سے سوال کرتا تو وہ ہرگز مدد و نصرت کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ پس اللہ تعالیٰ آپ کے حسنِ بے پایاں کو سلامت رکھے، جیسے حضرت موسیٰ ں کو ثابت قدم رکھا، اور وہ مدد عطا فرمائے جو انہیں عطا فرمائی گئی تھی۔‘‘
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (اپنی نعت پر مشتمل یہ کلام سن کر) مسکراتے ہوئے میری طرف تشریف لائے اور فرمایا: اور اے ابن رواحہ! اللہ تعالیٰ تمہیں بھی (اس محبت پر) ثابت قدم رکھے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری، ابن سعد اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں۔
75/ 29. عَنِ ابْنِ سِِيْرِيْنَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم - وَهُوَ مُحَاصِرٌ أَهْلَ الطَّائِفِ- لِکَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، وَهُوَ إِلَی جَنْبِهِ: هِيْهِ يَسْتَنْشِدُهُ فَأَنْشَدَهُ قَصِيْدَةً… فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : لَهُنَّ أَسْرَعُ فِيْهِمْ مِنْ وَقْعِ النَّبْلِ. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.
29: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 11/ 263، الرقم: 20501.
’’امام ابن سیرین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب اہلِ طائف کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے جو کہ آپ کے پہلو میں کھڑے تھے فرمایا: لاؤ، مجھے شعر سناؤ، تو انہوںنے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پورا قصیدہ سنایا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بے شک یہ اشعار دشمنوں پر نیزوں کے پڑنے سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔
76/ 30. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَتَی فَقِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَهْجُوْکَ فَقَامَ ابْنُ رَوَاحَةَ رضی الله عنه فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ائْذَنْ لِي فِيْهِ فَقَالَ: أَنْتَ الَّذِي تَقُوْلُ ثَبَّتَ اﷲُ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ،
فَثَبَّتَ اﷲُ مَا أَعْطَاکَ مِنْ حُسْنٍ
تَثْبِيْتَ مُوْسَی وَنَصْرًا مِثْلَ مَا نُصِرُوْ
قَالَ: وَأَنْتَ يَفْعَلُ اﷲُ بِکَ خَيْرًا مِثْلَ ذَلِکَ. ثُمَّ وَثَبَ کَعْبٌ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ائْذَنْ لِي فِيْهِ قَالَ: أَنْتَ الَّذِي تَقُوْلُ: هَمَّتْ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ،
هَمَّتْ سَخِيْنَةُ أَنْ تُغَالِبَ رَبَّهَ
فَلْيَغْلَبَنَّ مَغَالِبَ الْغَـلَّابُ
قَالَ: أَمَا أَنَّ اﷲَ لَمْ يَنْسَ ذَلِکَ لَکَ قَالَ: ثُمَّ قَامَ حَسَّانُ رضی الله عنه فَقَالَ:يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ائْذَنْ لِي فِيْهِ وَأَخْرَجَ لِسَانًا لَهُ أَسْوَدَ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ائْذَنْ لِي إِنْ شِئْتَ أَفْرَيْتُ بِهِ الْمَزَادَ فَقَالَ: اذْهَبْ إِلَی أَبِي بَکْرٍ لِيُحَدِّثَکَ حَدِيْثَ الْقَوْمِ وَأَيَامَهُمْ وَأَحْسَابَهُمْ ثُمَّ اهْجُهُمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي الدُّنْيَا نَحْوَهُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
30: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3/ 556، الرقم: 6065، وابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف، 1/ 242، الرقم: 295، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 12/ 405، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 336.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (مسجد نبوی میں) تشریف لائے تو آپ سے عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب (اپنے اشعار میں) آپ کی مذمت (وہجو) کرتا ہے تو اس موقع پر حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کرنے لگے: (یا رسول اللہ!) ابو سفیان کی ہجو و مزمت میں مجھے (اشعار کہنے کی) اجازت دیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم ہی نے تو کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ثابت قدم رکھے۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، یا رسول اللہ! میں نے ہی کہا تھا۔ پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!
’’پس اللہ تعالیٰ آپ کے عطا کر دہ حسن بے پایاں کو سلامت رکھے، جیسے اس نے حضرت موسیٰ کے حسن کو سلامت رکھا، اور اسی طرح آپ کی بھی مدد و نصرت فرماتا رہے جیسے حضرت موسی کی مدد و نصرت کرتا رہا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا: اور اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ اسی طرح بھلائی فرمائے گا۔ پھر حضرت کعب رضی اللہ عنہ اچانک اٹھے اور عرض کرنے لگے: یا رسول اللہ! مجھے بھی (کفار و مشرکین کی ہجو کرنے) اجازت عنایت فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تو وہی ہے جس نے ’’ھمت‘‘ والا شعر کہا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں (پھر فرماتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ!:
’’قبیلہ سخینہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے مالک پر غالب آجائیں، پس چاہیے کہ بہت زیادہ غلبہ پانے والا شخص غلبہ پائے جانے والی جگہوں پر (ہمیشہ ہی) غالب آ جائے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ تمہاری اس خدمت کو نہیں بھول سکتا جو تم نے پیش کی ہے پھر انہوں نے بیان کیا کہ اس کے بعد حضرت حسان رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے: یا رسول اللہ! مجھے بھی اس (ابو سفیان) کی مذمت میں کچھ کہنے کی اجازت عطا فرمائیں، پھر انہوں نے اپنی زبان نکالی جس کا کچھ حصہ کالا تھا اور عرض کیا: یا رسول اللہ اگر آپ کی مرضی ہو تو مجھ اجازت دیجئے تاکہ میں (اپنی زبان کے نشتر سے) اس کا پیٹ چاک کروں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ (پہلے تم) ابو بکر کے پاس جاؤ وہ تمہیں ان کے (مخصوص )ایام اور ان کے حسب و نسب اور سیاہ کرتوتوں کے بارے میں بتائیں گے جو ان (مشرکین) نے انجام دیے ہیں پھر تم ان کی مذمت کرو (اور اس کام میں) حضرت جبرئیل بھی تمہارے ساتھ ہیں۔ ‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور اسی طرح ابن ابی دنیا نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
77/ 31. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ أَنُيْسٍ رضی الله عنه عَنْ أُمِّهِ وَهِيَ بِنْتُ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم خَرَجَ عَلَی کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه فِي مَجْلِسٍ فِي مَسْجِدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَهُوَ يُنْشِدُ فَلَمَّا رَأَی مَکَانَهُ تَقَبَّضَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : مَا کُنْتُمْ عَلَيْهِ؟ فَقَالَِ کَعْبٌ: کُنْتُ أُنْشِدُ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : فَأَنْشِدْ فَأَنْشِدْ حَتَّی مَرَّ بِقَوْلِهِ:
تَقَاتَلْنَا عَنْ جَذْمِنَا کُلَّ فَخْمَةٍ
فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : لَا تَقُلْ: تَقَاتَلْنَا عَنْ جَذْمِنَا وَلَکِنْ قُلْ: تَقَاتَلْنَا عَنْ دِيْنِنَا. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَالشَّيْبَانِيُّ وَابْنُ أَبِي الدُّنْيَا.
31: أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2/ 662، الرقم: 978، والشيباني في الآحاد والمثاني، 6/ 162، الرقم: 3391، وابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف، 1/ 268، الرقم: 385.
’’حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی والدہ سے مروی ہے جو کہ حضرت کعب بن مالک کی صاحبزادی تھیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد نبوی سے گزرے تو وہاں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ (صحابہ کرام کے درمیان نعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک) مجلس سجائے بیٹھے اپنا کلام پڑھ رہے تھے او انہوں نے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تشریف لائے دیکھا تو (ادباً) اپنی جگہ پر ساکت ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا (تم کیا کر رہے تھے اپنی بات) جاری رکھو، تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میں (آپ کی نعت پر مشتمل) اشعار پڑھ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تو سناؤ، اور سناؤ، انہوں نے سنانا شروع کیا یہاں تک وہ اس قول پر پہنچے:
’’ہم اپنی آن اور نخوت کی خاطر بڑے سے بڑے آدمی سے ٹکرا جاتے تھے.‘‘
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں اس پر ٹوک دیا اور فرمایا: یوں نہ کہو ہم اپنی جھوٹی آن کی خاطر لڑتے مرتے ہیں بلکہ یوں کہو ہم اپنے دین (اور اپنے آقا مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناموس) کی خاطر لڑتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری، شیبانی اور ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
78/ 32. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ: لَمَّا دَخَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَامَ الْفَتْحِ رَأَء النِّسَاءَ يَلْطِمْنَ وُجُوْهَ الْخَيْلِ بِالْخَمْرِ فَتَبَسَّمَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ رضی الله عنه وَقَالَ: يَا أَبَا بَکْرٍ، کَيْفَ قَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ؟ فَأَنْشَدَهُ أَبُوْ بَکْرٍ:
عَدِمَتْ ثِنْيَتِي إِنْ لَمْ تَرَوْهَ
تُثِيْرُ النَّقْعَ مِنْ کَتَفَي کِدَاءُ
يُنَازِعْنَ الْأَعِنَّةَ مُسْرِعَاتٍ
يَلْطِمُهُنَّ بِالْخَمْرِ النِّسَاءُ
فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : ادْخُلُوْا مِنْ حَيْثُ قَالَ حَسَّانُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرِيُّ وَالطَّحَاوِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
32: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3/ 76، الرقم: 4442، والطبري في تهذيب الآثار، 2/ 664، الرقم: 979، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 296، والفاکهي في أخبار مکة، 5/ 215، الرقم: 172، والحسيني في البيان والتعريف، 1/ 43، الرقم: 86، والعسقلاني في فتح الباري، 8/ 10.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فتح کے سال (مکہ میں) داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عورتوں کو گھوڑوں کے چہروں پر شراب کے کٹورے فرط خوشی سے مارتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر تبسم ریز ہوئے اور فرمایا: اے ابوبکر! حسان نے کیسے شعر کہا تھا؟ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ شعر پڑھا:
’’میرا دہن نابود ہو جائے اگر تم اسے دیکھ نہ سکو۔ (میں خود پہ گریہ کروں یعنی مر جاؤں) اگر تم گھوڑوں کو مقام کداء کی طرف گرد اڑاتے نہ دیکھو۔ وہ گھوڑے جو تمہاری طرف دوڑتے ہیں، اور ان کی تھوتھنیوں پر عورتیں شراب پھینکتی ہیں۔‘‘
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: وہیں سے داخل ہو جاؤ، جہاں سے داخل ہونے کا حسان نے کہا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، طبری اور طحاوی نے بیان کیا ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
79/ 33. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه يَقُوْلُ: کَانَ الْبَرَاءُ بْنُ مَالِکٍ رضی الله عنه رَجُـلًا حَسَنَ الصَّوْتِ فَکَانَ يَرْجُزُ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَبَيْنَمَا هُوَ يَرْجُزُ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ إِذْ قَارَبَ النِّسَاءَ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِيَاکَ وَالْقَوَارِيْرَ إِيَاکَ وَالْقَوَارِيْرَ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
33: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3/ 330، الرقم: 5273، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1/ 350، والديلمي في مسند الفردوس، 5/ 391، الرقم: 8526، والعسقلاني في الإصابة، 1/ 280.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ ایک بہت خوبصورت آواز والے شخص تھے، اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (کی شجاعت) کے بارے میں رجزیہ اشعار پڑھا کرتے تھے۔ پس ایک دفعہ جب وہ کسی سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (کی صفتِ شجاعت) کے بارے میں رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے تو (بے دھیانی میں) عورتوں کے قریب چلے گئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (اے برائ! شیشے جیسی نازک عورتوں سے بچو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
80/ 34. عَنِ ابْنِ عِبَادٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ رَجُـلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أُنْشِدُکَ؟ قَالَ: لَا، فَأَنْشَدَهُ فِي الرَّابِعَةِ مِدْحَةً لَهُ فَقَالَ: إِنْ کَانَ أَحَدٌ مِنَ الشُّعَرَاءِ يُحْسِنُ فَقَدْ أَحْسَنْتَ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ.
34: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 280، الرقم: 26075، وفي کتاب الأدب، 1/ 369، الرقم: 400، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2/ 10، والطبراني في المعجم الکبير، 5/ 64، الرقم: 4593، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1/ 181، الرقم: 233، وابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف، 1/ 333، الرقم: 502، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1/ 79، الرقم: 31، والعسقلاني في الإصابة، 3/ 617، الرقم: 4475، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 119.
’’حضرت ابن عباد علیہ الرحمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ بنو لیث کا ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اﷲ! میں آپ کی خدمت میں شعر سنانا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے منع فرمایا لیکن اس کے بے حد اصرار پر (آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اجازت عطا فرمادی تو اس نے صحابہ کے پسند کرنے پر) چوتھی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدحت اور نعت بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اگر شعراء کے کلام میں سے کچھ اچھا کلام ہے تو تم نے جو کلام بیان کیا ہے یہی سب سے عمدہ کلام ہے۔ (یعنی حمدِ خدا اور نعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی سب سے بہترین کلام ہیں)۔‘‘ جو کہ ابھی تم نے بیان کی ہیں۔‘‘
اس روایت کو امام ابن ابی شیبہ، ابو نعیم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
81/ 35. عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطَمِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ يَبْنِي الْمَسْجِدَ وَعَبْدُ اﷲِ بْنُ رَوَاحَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ يَبْنِي الْمَسَاجِدَ
وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَائِمًا وَقَاعِدَ
وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ: وَيَتْلُوا الْقُرْآنَ قَائِمًا وَقَاعِدَا وَهُمْ يَبْنُوْنَ الْمَسْجِدَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
35: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 277، الرقم: 26053، وفي کتاب الأدب، 1/ 370، الرقم: 401، والنميري في أخبار المدينة، 1/ 39، الرقم: 165، والعسقلاني في فتح الباري، 10/ 541.
’’حضرت ابو جعفر الحظمی رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد نبوی کی تعمیر فرما رہے تھے اور ساتھ ساتھ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ شعر پڑھ رہے تھے:
’’کامیاب ہوگیا وہ شخص جو (ذکرِ الٰہی کے لئے) مسجدیں تعمیر کر رہا ہے اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھ رہا ہے۔‘‘
اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (ان کے اشعار کے جواب میں) فرما رہے تھے کہ وہ (یعنی صحابہ کرام) تلاوت کلام پاک اٹھتے بیٹھے کر رہے تھے جبکہ وہ مسجد کی تعمیر میں مصروف تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
82/ 36. عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جَدْعَانَ قَالَ: أَنْشَدَ کَعْبُ بْنُ زُهَيْرِ بْنِ أَبِي سَلْمَی رضی الله عنه رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فِي الْمَسْجِدِ:
بَانَتْ سُعَادُ فَقَلْبِي الْيَوْمَ مَتْبُوْلُ
مُتَيَمٌ عِنْدَهَا لَمْ يُفْدَ مَکْبُوْلُ
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْفَاکِهِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
83/ 37. وفي رواية: وَکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَسْمَعُ الشِّعْرَ وَيَسْتَحْسِنُ الْحَسَنَ مِنْهُ. رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
36.37: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3/ 673، الرقم: 6478، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 243، الرقم: 20931، والفاکهي في أخبار مکة، 1/ 307، الرقم: 634، وابن عبد البر في الاستذکار، 8/ 241.
’’حضرت علی بن زید بن جدعان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت کعب بن زہیر بن ابی سلمی رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اشعار سنائے، (اس قصیدے کا پہلا مصرعہ جو حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں اپنی محبوبہ کے فراق میں کہا تھا، مندرجہ ذیل ہے:)
’’سعاد جدا ہوگئی، تو آہ میرا دل اس کی محبت میں بیمار ہے، اس کے لئے ذلیل و رسوا ہو رہا ہے، اور ایسا قیدی ہے جس کا کوئی فدیہ نہیں ہے۔‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اشعار سنا کرتے تھے، اور ان میں سے عمدہ اشعار کو سراہتے بھی تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
84/ 38. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم يَتَنَاشَدُوْنَ الشِّعْرَ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَسْمَعُ. وفي رواية: وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَتَبَسَّمُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
38: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 2/ 221، الرقم، 1910، والواسطي في تاريخ أوسط، 1/ 156.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں صحابہ کرام ایک دوسرے کو اشعار سنایا کرتے جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی (وہاں موجود) سماعت فرماتے۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کے اشعار کو سن کر تبسم ریز بھی ہوا کرتے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
85/ 39. عَنْ حَبِيْبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ أَنَّ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ رضی الله عنه أَنْشَدَ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم :
شَهِدْتُ بِإِذْنِ اﷲِ أَنَّ مُحَمَّدً
رَسُوْلُ الَّذِي فَوْقَ السَّمَاوَاتِ مِنْ عَلُ
وَأَنَّ أَبَا يَحْيَی وَيحْيَی کِـلَاهُمَ
لَهُ عَمَلٌ فِي دِيْنِهِ مُتَقَبَّلُ
وَأَنَّ أََخَا الْأَحْقَافِ إِذْ قَامَ فِيْهِمْ
يَقُوْلُ بِذَاتِ اﷲِ فِيْهِمْ وَيَعْدِلُ
فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : وَأَنَا.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلَی وَاللَّفْظُ لَهُ.
39: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 273، الرقم: 26017، وفي کتاب الأدب، 1/ 345، الرقم: 365، وأبو يعلي في المسند، 5/ 61، الرقم: 2653، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2/ 519، والمزي في تهذيب الکمال، 6/ 21، والزرعي في حاشية ابن القيم، 13/ 33.
’’حضرت حبیب بن ابی ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں مندرجہ ذیل اشعار سنائے:
’’میں اﷲ تعالیٰ کے اذن سے یہ گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ رب العزت کے برگزیدہ رسول ہیں اور بے شک ابو یحییٰ (یعنی حضرت زکریا ں) اور حضرت یحیٰ ں دونوں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین میں مقبول عمل ہیں، اور حضرت ہود ں جب اپنی قوم میں کھڑے ہوتے تو فرماتے: اﷲ کی ذات کی قسم! وہ نبی آخر الزماں ان میں ہیں اور وہ عدل و انصاف کرنے والے ہیں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اور وہ (نبی آخر الزماں) میں ہی ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
86/ 40. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ رضی الله عنه يَقُوْلُ: هَجَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَالْمُسْلِمِيْنَ ثَـلَاثَةُ رَهْطٍ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَعَبْدُ اﷲِ بْنُ الزِّبَعْرِي وَأَبُوْ سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ الْمُهَاجِرُوْنَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَ لَا تَأْمُرُ عَلِيًّا أَنْ يَهْجُوَ عَنَّا هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : لَيْسَ عَلِيٌّ هُنَالِکَ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِذَا الْقَوْمُ نَصَرُوْا النَّبِيَّ بِأَيْدِيْهِمْ وَأَسْلِحَتِهِمْ فَبِأَلْسِنَتِهِمْ أَحَقُّ أَنْ يَنْصُرُوْهُ فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: أَرَادَانَا فَأَتَوْا حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ رضی الله عنه فَذَکَرُوْا ذَلِکَ لَهُ فَأَقْبَلَ يَمْشِي حَتَّی وَقَفَ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِمِقْوَلِي مَا بَيْنَ صَنْعَاءَ وَبُصْرَی فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَنْتَ لَهَا. فَقَالَ حَسَّانُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّهُ لاَ عِلْمَ لِي بِقُرَيْشٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم لِأَبِي بَکْرٍ: أَخْبِرْهُ عَنْهُمْ وَنَقِّبْ لَهُ فِي مَثَالِبِهِمْ فَهَجَاهُمْ حَسَّانُ وَعَبْدُ اﷲِ بْنُ رَوَاحَةَ وَکَعْبُ بْنُ مَالِکٍ. قَالَ ابْنُ سِيْرِيْنَ: أُنْبِئْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بَيْنَ هُوَ يَسِيْرُ عَلَی نَاقَتِهِ، وَشَنَقَهَا بِزَمَامِهَا، حَتَّی وَضَعَتْ رَأَْسَهَا عِنْدَ قَادِمَةِ الرَّحْلِ فَقَالَ: أَيْنَ کَعْبٌ؟ فَقَالَ کَعْبٌ: هَا أَنَذَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ. قَالَ: خُذْ قَالَ کَعْبٌ:
قَضَيْنَا مِنْ تِهَامَةَ کُلَّ رَيْبٍ
وَخَيْبَرَ ثُمَّ أَجْمَمْنَا السُّيُوْفَ
نُخَيِّرَهَا وَلَوْ نَطَقَتْ لَقَالَتْ
قَوَاطِعُهُنَّ دَوْسًا أَوْ ثَقِيْفَ
قَالَ: فَأَنْشَدَ الْکَلِمَةَ کُلَّهَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَهِيَ أَشَدُّ عَلَيْهِمْ مِنْ رَشْقِ النَّبْلِ.
87/ 41. وفي رواية: قَالَ مُحَمَّدٌ (يعني ابن سيرين): فَنُبِّئْتُ أَنَّ دَوْسًا أَسْلَمَتْ بِکَلِمَةِکَعْبٍ هَذِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
88/ 42. وفي رواية: فَکَانَ حَسَّانُ وَکَعْبٌ يُعَارِضَانِهِمْ بِمِثْلِ قَوْلِهِمْ بِالْوَقَائِعِ وَالْأَيَامِ وَالْمَآثِرِ، وَيُعِيْرُوْنَهُمْ بِالْمَنَاقِبِ، وَکَانَ ابْنُ رَوَاحَةَ يُعِيْرُهُمْ بِالْکُفْرِ، وَيَنْسِبُهُمْ إِلَی الْکُفْرِ، وَيَعْلَمُ أَنَّهُ لَيْسَ فِيْهِمْ شَيئٌ شَرًّا مِنَ الْکُفْرِ وَکَانُوْا فِي ذَلِکَ الزَّمَانِ، أَشَدُّ الْقَوْلِ عَلَيْهِمْ قَوْلُ حَسَّانَ وَکَعْبٍ وَأَهْوَنُ الْقَوْلِ عَلَيْهِمْ قَوْلُ ابْنِ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا أَسْلَمُوْا وَفَقِهُوْا الإِسْـلَامَ کَانَ أَشَدُّ الْقَوْلِ عَلَيْهِمْ قَوْلَ ابْنِ رَوَاحَةَ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ کَمَا قَالَ السَّيُوْطِيُّ.
40-42: أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2/ 659.660، الرقم: 975.976، وعبد الرزاق في المصنف، 11/ 264، الرقم: 20502، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 28/ 96، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 338، والمناوي في فيض القدير، 1/ 447.
’’امام محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کے تین آدمیوں عمرو بن العاص، عبد اﷲ بن زبعری اور ابو سفیان بن الحارث بن عبد المطلب نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہجو کی، تو مہاجرین نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم کیوں نہیں دیتے کہ وہ ہماری طرف سے ان مشرکین کی مذمت کریں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: علی اس کام کے لئے موزوں نہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب ایک قوم نے اﷲ تعالیٰ کے رسول کی اپنے ہاتھوں اور اسلحہ کے ساتھ مدد کی تو وہ اپنی زبانوں سے اس کی مدد کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ تو انصار نے عرض کیا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ کام ہم سے لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تو وہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور سارا ماجرہ بیان کیا۔ تو وہ آگے بڑھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوگئے اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! اس ذات کی قسم! جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا ہے، مجھے یہ پسند نہیں مجھے میرے قول (یعنی نعتوں) کے بدلہ میں جو کچھ صنعاء اور بصری کے درمیان (دولت) ہے وہ بھی ملے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تو اس کام کے لئے خاص ہے۔ تو حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! مجھے قریش کے بارے میں علم نہیں ہے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو فرمایا: اے ابو بکر! حسان کو قریش کے بارے میں بتا دو، اور ان کی خامیوں اور خرابیوں کے بارے میں بھی اسے آگاہ کر دو، تو حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد اﷲ بن رواحہ اور حضرت کعب بن مالک نے مشرکین کی مذمت میں اشعار کہے۔
’’امام ابن سیرین فرماتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی اونٹنی مبارک پر جا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کی لگام کھینچی، یہاں تک کہ اس نے اپنا سر زمین پر رکھ دیا اور بیٹھ گئی، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کعب کہاں ہے؟ تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! میں حاضر ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: شعر پڑھنا شروع کرو۔ تو حضرت کعب نے کہا:
’’ہم نے تہامہ اور خیبر سے ہر شک کو ختم کر دیا پھر ہم نے تلواریں جمع کیں اور انہیں اختیار دیا اور اگر وہ بول سکتیں تو وہ یقینًا کہتیں کہ ان کی کاٹ یا قبیلہ دوس ہیں یا قبیلہ ثقیف۔‘‘
راوی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے پورا قصیدہ پڑھا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں مجھ محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی جان ہے! یہ اشعار ان کفار پر تیروں کے اثر انداز ہونے سے بھی زیادہ اثر رکھتے ہیں۔‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے کہ محمد بن سیرین نے فرمایا: مجھے بتایا گیا کہ قبیلہ دوس حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے ان اشعار کی وجہ سے اسلام لے آیا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری، عبد الرزاق اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان بن ثابت اور حضرت کعب رضی اﷲ عنہما کفار کو (اپنے اشعار کے ذریعے) آڑھے ہاتھوں لیتے، جیسا کہ مختلف واقعات، مخصوص دنوں اور کارناموں میں ان کے اشعار اور ان کے مناقب میں عیب لگاتے اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ انہیں کفر کا عیب لگاتے اور کفر کی طرف منسوب کرتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے ہاں کفر سے بڑھ کر کوئی چیز بری نہیں ہے اور اس زمانہ میں ان کفار پر سب سے سخت قول حضرت حسان اور حضرت کعب رضی اﷲ عنہما کا ہوتا اور سب سے ہلکا قول حضرت ابن رواحہ کا ہوتا پس جب مشرکین مکہ نے اسلام قبول کر لیا اور اس کی سمجھ بوجھ حاصل کر لی تو ان پر سب سے سخت قول حضرت ابن رواحہ کا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام سیوطی نے فرمایا ہے۔
89/ 43. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اﷲِ قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ النَّابِغَةَ الْجَعْدِيَّ (وَإِسْمُهُ قَيْسُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه لَهُ صُحْبَهٌ) يَقُوْلُ: أَتَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَأَنْشَدْتُهُ قَوْلِي… فَلَمَّا أَنْشَدْتُهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : لَا يَفْضُضِ اﷲُ فَاکَ. قَالَ: وَکَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ثَغْرًا. وَکَانَ إِذَا سَقَطَتْ لَهُ سِنٌّ نَبَتَتْ أُخْرَی.
90/ 44. وفي رواية عَبْدِ اﷲِ بْنِ جَرَّادٍ لِهَذَا لْخَبَرِ، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ کَأَنَّ فَاهُ الْبَرْدُ الْمَنْهَلُ يَتَـلَاْ لَأُ وَيُبْرِقُ، مَا سَقَطَتْ لَهُ سِنٌّ وَلَا تَفَلَّتَتْ لِقَوْلِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَجَدْتَ لَا يَفْضُضِ اﷲُ فَاکَ. قَالَ: وَعَاشَ النَّابِغَةُ بِدَعْوَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم حَتَّی أَتَتْ عَلَيْهِ مِائَةٌ وَاثْنَتَا عَشَرَةَ سَنَةً.
رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْعَسْقَـلَانِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ وَقَالَ: رَوَاهُ الْبَزَّارُ.
وقال السيوطي في الخصائص: أَخْرَجَ الْبَيْهَقِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ مِنْ طَرِيْقِ يَعْلَی بْنِ الْأَشْدَقِ قَالَ: سَمِعْتُ النَّابِغَةَ رضی الله عنه نَابِغَةَ بَنِي جَعْدَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ: أَنْشَدْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم هَذَا الشِّعْرَ فَأَعْجَبَهُ، فَقَالَ: أَجَدْتَ لَا يَفْضُضِ اﷲُ فَاکَ. فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ وَلَقَدْ أَتَی عَلَيْهِ نَيِّفٌ وَمِائَةُ سَنَةٍ وَمَا ذَهَبَ لَهُ سِنٌّ، ثُمَّ أَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنِ النَّابِغَةِ وَأَخْرَجَهُ ابْنُ أَبِي أُسَامَةَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْهُ وَفِيْهِ: فَکَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ثَغْرًا، فَکَانَ إِذَا سَقَطَتْ لَهُ سِنٌّ نَبَتَتْ لَهُ أُخْرَی. وَأَخْرَجَهُ ابْنُ السُّکْنِ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْهُ، وَفِيْهِ: فَرَأَيْتُ أَسْنَانَ النَّابِغَةِ أَبْيَضَ مِنَ الْبَرْدِ لِدَعْوَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم .
43.44: أخرجه ابن عبد البر في الاستيصاب، 4/ 1514.1517، 1743، الرقم: 2648، 3154، والعسقلاني في الإصابة، 5/ 588، الرقم: 7407، 6/ 394، وقال: أخرجه البزار وأبو نعيم في تاريخ أصبهان، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 126، وقال: رواه البزار، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي)، 2/ 844، الرقم: 894، وابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 1/ 274،276، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2/ 282، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 6/ 168، وفي ريح النسرين فيمن عاش من الصحابة، 1/ 77، والقنوجي في أبجد العلوم، 1/ 329، وقال: أخرجه السيوطي والبيهقي.
’’حضرت حسین بن عبید اﷲ روایت کرتے ہیں کہ مجھے اس نے بتایا جس نے حضرت نابغہ جعدی رضی اللہ عنہ (اور ان کا پورا نام قیس بن عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہے اور انہیں صحبتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا شرف حاصل ہے) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنا کلام سنایا پس جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدح کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے دانت سلامت رکھے (اور تم اسی طرح کا عمدہ کلام پڑھتے رہو) اور (اس دعا کے نتیجہ میں) وہ تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت دانتوں والے تھے اور جب ان کا کوئی دانت گرتا تو اس جگہ دوسرا دانت نکل آتا تھا۔‘‘
’’اور یہی حدیث عبد اﷲ بن جراد سے بھی مروی ہے اس میں ہے کہ میں نے آپ (نابغہ جعدی ص) کی طرف دیکھا گویا ان کا منہ (پہاڑوں پر) گری ہوئی برف کی طرف روشن اور چمکدار تھا۔ ان کا کوئی دانت گرا نہ خراب ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس فرمان کی بدولت کہ ’’تم نے کیا خوب میری مدح کی ہے اﷲ تعالیٰ تمہارے دانت سلامت رکھے۔‘‘ آپ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعا کی بدولت حضرت نابغہ رضی اللہ عنہ نے طویل زندگی پائی یہاں تک کہ آپ 112 سال زندہ رہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عبد البر، عسقلانی اور ہیثمی نے روایت کیا اور فرمایا کہ اسے امام بزار نے بھی روایت کیا ہے۔
’’امام سیوطی ’الخصائص الکبری‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام بیہقی اور امام ابونعیم نے یعلی بن اشدق کے طریق سے یہ حدیث روایت کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نابغہ جو کہ نابغہ بنی جعدہ ہیں کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ فرماتے ہیں: میں نے اس شعر کے ذریعے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدح سرائی کی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ بہت پسند آیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تو نے کیا خوب کہا ہے! اﷲ تعالیٰ تمہارے دانت سلامت رکھے۔ پس میں نے انہیں دیکھا کہ ان کی عمر سو اور کچھ سال اوپر ہو گئی تھی لیکن ان کا کوئی دانت نہیں گرا تھا۔ اور امام بیہقی نے یہ حدیث ایک اور طریق سے حضرت نابغہ سے روایت کی ہے اور ابن ابی اسامہ نے بھی ان ہی سے ایک اور طریق سے اس کی روایت کی ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں: ’’حضرت نابغہ رضی اللہ عنہ تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت دانتوں والے تھے اور جب ان کا کوئی دانت گرتا تو اس کی جگہ دوسرا دانت نکل آتا‘‘ اور امام ابن سُکن نے آپ ہی سے ایک اور طریق سے اس کو روایت کیا ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں: ’’میں نے حضرت نابغہ رضی اللہ عنہ کے دندان سفید اولوں سے بڑھ کر سفید دیکھے اور یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ان کے لئے دعا کا نتیجہ تھا۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved