(3) بَابٌ فِيْ إِخْتِصَاصِ کَوْنِهِ رضي الله عنه ذَا النُّوْرَيْنِ
17. عَنْ عُثْمَانَ، هُوَ ابْنُ مَوْهَبٍ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَيْتَ، فَرَأَي قَوْمًا جُلُوْسًا، فَقَالَ : مَنْ هَؤُلَاءِ القَوْمُ؟ قَالَ : هَؤُلَاءِ قُرَيْشٌ، قَالَ : فَمَنِ الشَّيْخُ فِيْهِمْ؟ قَالُوْا : عَبْدُ اﷲِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : يَا ابْنَ عُمَرَ، إِنِّيْ سَائِلُکَ عَنْ شَيْئٍ فَحَدِّثْنِيْ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ : نَعَمْ فَقَالَ : تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَبَ عَنْ بَدْرٍ وَ لَمْ يَشْهَدْ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : اﷲُ أَکْبَرُ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ : تَعَالْ أُبَيِنْ لَکَ، أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ، فَأَشْهَدُ أَنَّ اﷲَ ؟ عَفَا عَنْهُ وَ غَفَرَلَهُ، وَ أَمَّا تَغَيُبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ کَانَتْ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَکَانَتْ مَرِيْضَةً، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ لَکَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَ سَهْمَهُ. وَ أَمَّا تَغَيُبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ، فَلَوْ کَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَکَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ مَکَانَهُ، فَبَعَثَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عُثْمَانَ، وَ کَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَي مَکَّةَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِيَدِهِ الْيُمْنَي : هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ. فَضَرَبَ بِهَا عَلَي يَدِهِ، فَقَالَ : هَذِهِ لِعُثْمَانَ. فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ : اذْهَبْ بِهَا الآنَ مَعَکَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
’’حضرت عثمان بن موہب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مصر سے آیا اس نے حج کیا اور چند آدمیوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کسی نے کہا، یہ قریش ہیں۔ پوچھا ان کا سردار کون ہے؟ لوگوں نے کہا : عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما ہیں وہ کہنے لگا اے ابن عمر! میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اس کا جواب مرحمت فرمائیے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ احد سے فرار ہو گئے تھے؟ جواب دیا ہاں پھر دریافت کیا کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے؟ جواب دیا ہاں پھر پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہ تھے بلکہ غائب رہے؟ جواب دیا ہاں اس نے اللہ اکبر کہا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ٹھہرئیے میں ان واقعات کی کیفیت بیان کرتا ہوں جو انہوں نے جنگ احد سے راہِ فرار اختیار کی تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا اور انہیں بخش دیاگیا۔ رہا وہ غزوہ بدر سے غائب رہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک صاحبزادی ان کے نکاح میں تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے خود فرمایا تھا کہ تمہارے لئے بھی بدر میں شریک صحابہ کے برابر اجر اور حصہ ہے۔ (تم اس کی تیمار داری کے لئے رکو) رہی بیعت رضوان سے غائب ہونے والی بات تو مکہ مکرمہ کی سر زمین میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی معزز ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جگہ اسے اہل مکہ کے پاس سفیر بنا کر بھیجتے سو بیعت رضوان کا واقعہ تو ان کے مکہ مکرمہ میں (بطورِ سفیر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے جانے کے بعد پیش آیا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے لئے فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے دوسرے دست مبارک پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کی بیعت ہے۔ پھر حضرت ابن عمر نے اس شخص سے فرمایا : اب جا اور ان بیانات کو اپنے ساتھ لیتا جا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 17 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان رضی اﷲ عنه، 3 / 1353، الحديث رقم : 3495، و ايضا في کتاب المغازي، باب قول اﷲ تعالي إن الذين تولوا منکم، 4 / 1491، الحديث رقم : 3839، و الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب عثمان، 5 / 629، الحديث رقم : 3706، و أحمد بن حنبل فيالمسند، 2 / 101، الحديث رقم : 5772.
18. عَنْ عُبَيْدِ اﷲِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخَيَارِ، فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ مِنْهَا. . . . . عَنْهُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَالَ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اﷲَ عزوجل بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ، فَکُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَِﷲِ وَلِرَسُوْلِهِ وَ آمَنَ بِمَا بُعِثَ بِهِ مُحَمَّدٌ، ثُمَّ هَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ کَمَا قُلْتُ وَ نِلْتُ صِهْرَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ بَايَعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ فَوَاﷲِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ حَتَّي تَوَفَّاهُ اﷲُ عزوجل. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عبید اﷲ بن عدی بن خیارسے ایک طویل روایت میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بے شک اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور اس پر ایمان لائے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکر بھیجا گیا۔ پھر جیسا کہ میں نے کہا میں نے دو ہجرتیں کیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رشتۂِ دامادی پایا اور میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت بھی کی اور خدا کی قسم میں نے کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی نہیں کی اور نہ ہی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دھوکہ کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 18 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 66، الحديث رقم : 480، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 88.
19. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ : إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ أَوْحٰي إِلَيَّ أَنْ أُزَوِّجَ کَرِيْمَتِيْ مِنْ عُثْمَانَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الصَّغِيْرِ وَ الأَوْسَطِ.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تبارک وتعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ میں اپنی صاحبزادی کی شادی عثمان سے کروں. اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ اور المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 19 : أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 253، الحديث رقم : 414، و الطبراني في المعجم الاوسط، 4 / 18، الحديث رقم : 3501، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 512، الحديث رقم : 837.
20. عَنْ أُمِّ عَيَاشٍ قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا زَوَّجْتُ عُثْمَانَ أُمَّ کَلْثُوْمٍ إِلَّا بِوَحْيٍ مِّنَ السَّمَاءِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَ الأَوْسَطِ.
’’حضرت ام عیاش رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے عثمان کی شادی اپنی صاحبزادی ام کلثوم سے نہیں کی مگر فقط وحی الٰہی کی بنا پر۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ اور ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 20 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 25 / 92، الحديث رقم : 236، و الطبراني في المعجم الاوسط، 5 / 264، الحديث رقم : 5269، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83، و خطيب بغدادي في تاريخ بغداد، 12 / 364.
21. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ : وَقَفَ رَسُوْلُ اﷲِ عَلَي قَبْرِ ابْنَتِهِ الثَّانِيَةِ الَّتِيْ کَانَتْ عِنْدَ عُثْمَانَ فَقَالَ : ألَا أَبَا أَيِمٍ، أَلاَ أَخَا أَيِمٍ تَزَوَّجَهَا عُثْمَانُ، فَلَوْکُنَّ عَشْرًا لَزَوَّجْتُهُنَّ عُثْمَانَ وَمَازَوَّجْتُهُ إِلَّا بِوَحْيٍ مِنَ السَّمَاءِ وَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَقِيَ عُثْمَانَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ يَا عُثْمَانُ هَذَا جِبْرَائِيْلُ يُخْبِرُنِي أَنَّ اﷲَ ل قَدْ زَوَّجَکَ أُمَّ کُلْثُوْمٍ عَلَي مِثْلِ صِدَاقِ رُقَيَةَ وَ عَليٰ مِثْلِ صُحْبَتِهَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دوسری صاحبزادی کی قبر پر کھڑے ہوئے جو حضرت عثمان کے نکاح میں تھیں اور فرمایا : خبردار اے کنواری لڑکی کے باپ! اور خبر دار اے کنواری لڑکی کے بھائی! اس (میری بیٹی) کے ساتھ عثمان نے شادی کی اور اگر میری دس بیٹیاں ہوتیں تو میں ان کی بھی شادی یکے بعد دیگرے عثمان کے ساتھ کردیتا اور (ان کے ساتھ ) عثمان کی شادی وحی الٰہی کے مطابق کی اور بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مسجد کے دروازے کے نزدیک ملے اور فرمایا : اے عثمان یہ جبرئیل امین علیہ السلام ہیں۔ جو مجھے یہ بتانے آئے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے تمہاری شادی ام کلثوم کے ساتھ اس کی بہن رقیہ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی صاحبزادی) کے مہر کے بدلہ میں کردی ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 21 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 436، الحديث رقم : 1063، و الشيباني في الأحاد والمثاني، 5 / 378، الحديث رقم : 2982، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 590، الحديث رقم : 1291.
22. عَنْ عِصْمَةَ، قَالَ : لَمَّا مَاتَتْ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الَّتِيْ تَحْتَ عُثْمَانَ، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : زَوِّجُوْا عُثْمَانَ، لَوْکَانَ لِي ثَالِثَةٌ لَزَوَّجْتُهُ وَ مَا زَوَّجْتُهُ اِلَّابِالْوَحْيِ مِنَ اﷲِ عزوجل. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت عصمہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں فوت ہو گئیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان کی شادی کراؤ اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کی شادی بھی میں عثمان کے ساتھ کردیتا اور میں نے اس کی شادی وحی الٰہی کے مطابق ہی کی تھی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 22 : أخرجه الطبرانيفي المعجم الکبير، 17 / 184، الحديث رقم : 490، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83.
23. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : ذُکِرَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ذَاکَ النُّوْرُ فَقِيْلَ لَهُ مَا النُّوْرُ؟ قَالَ : النُّوْرُ شَمْسٌ فِي السَّمَاءِ وَ الجِنَانِ وَ النُّوْرُ يَفْضُلُ عَلَي الْحُوْرِ الْعِيْنِ وَ إِنِّي زَوَّجْتُهُ ابْنَتِي فَلِذَلِکَ سَمَّاهُ اﷲُ عِنْدَ الْمَلَائِکَةِ ذَاالنُّوْرِ وَ سَمَّاهُ فِي الجِنَانِ ذَاالنُّوْرَيْنِ، فَمَنْ شَتَمَ عُثْمَانَ فَقَدْ شَتَمَنِي. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ تو نور والے ہیں۔ عرض کیا گیا نور سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نور سے مراد آسمانوں اور جنتوں کا آفتاب ہے اور یہ نور جنتی حوروں کو بھی شرماتا ہے اور میں نے اس نور یعنی عثمان بن عفان سے اپنی صاحبزادی کا نکاح کیا ہے پس اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عالم ملائکہ میں ان کا نام ذاالنور (نور والا) رکھا ہے اور جنتوں میں ذا النوریں (دو نور والا) رکھا ہے تو جس نے عثمان کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 23 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 41 / 33.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved