1۔ فیکٹری، مشینوں نہ زمین پر فقط تیار شدہ مال کی مالیت پر زکوٰۃ فرض ہے۔ یونہی اس کے رامیٹریل یعنی خام مال کی مالیت پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔
2۔ مکان یا دکان کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں، ہاں اگر اس کا کرایہ آتا ہے تو باقی مال کے ساتھ وہ بھی شامل ہوجائے گا پھر اگر حد نصاب تک ہے تو سب پرزکوٰۃ ہوگی۔ ورنہ نہیں۔
3۔ گاڑی اگر گھریلویا کمرشل استعمال کیلئے ہے تو اس پر زکوٰۃ نہیں اس کی آمدنی کو باقی مال کے ساتھ جمع کریں گے اور نصاب ہوا تو اس کے حساب سے زکوٰۃ ہوگی ورنہ نہیں۔ ہاں اگر گاڑیوں کی خرید و فروخت کرتا ہے مثلاً اپنا شو روم ہے اور گاڑیاں اس کی اپنی ملکیت ہیں تو یقینا یہ مال تجارت ہے۔ ان کی مالیت پر مقررہ شرائط کے تحت زکوٰۃ فرض ہوگی۔ واللہ اعلم ورسولہ۔
جواب : آپ کی ملکیت میں جتنا سرمایہ ہے خواہ نقد خواہ سونا چاندی خواہ مال تجارت خواہ واجب الوصول قرض جس کی وصولی کی امید ہو۔ ان سب کو جمع کرکے، سال گزرنے پر سب کی زکوٰۃ فرض ہے۔ سیونگ سر ٹیفکیٹ ہو یا انعامی بانڈز، یہ اور اس جیسی اور تمسکات مالیہ مال ہی ہے۔ سب کی مالیت پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے۔ واللّٰہ اعلم و رسولہ۔
جواب : 1۔ اگرمقروض غریب ومفلس ہے۔ صاحب نصاب نہیں، تو بیشک وہ قرض زکوٰۃ سے بدلا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ غنی ہے صاحب نصاب ہے تو چونکہ اس کے لئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں، لہٰذا یہ قرض بطور زکوٰۃ اسے دینا جائز نہیں۔
پہلی صورت ہے تو یقیناً زکوٰۃ کا مستحق ہے، اسے کچھ اور بتانے کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ کہہ دیں کہ آپ میرے قرض سے سبکدوش ہیں۔ اب اس کی فکر نہ کریں۔ تاکہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔
جواب : 1۔ مزروعہ اراضی پر کوئی شرعی ٹیکس نہیں۔ ہاں اس کی پیدوار پر ہے۔ اگر زمین بارانی ہے۔ یا چشموں کے پانی سے سیراب ہوتی ہے اور پانی پر کوئی خرچ نہیں آتا، تو اس کی کل پیداوار پر دسواں حصہ عشر (10/ 1) فرض ہے۔ اگر سیراب کرنے کیلئے پیسے خرچ ہوتے ہیں مثلاً نہری پانی پر آبیانہ، یاٹیوب ویل کاخرچہ، تو ایسی زمین کی پیداوار پر نصف عشر یعنی بیسواں حصہ (20/ 1) عشرفرض ہے۔ یہ عشر ہر فصل پر لازم ہے۔ خواہ سال میں ایک بار ہویا دویا زیادہ۔ اگر زمین ہے مگر پیداوار نہیں دیتی اس پر کسی قسم کے واجبات نہیں، خواہ ہزار ایکڑ ہو۔ پلاٹ، مکان، دکان، گھر کے برتن، بستر، کپڑے، اور برتنے کی گھریلو اشیاء خواہ جتنی چیزیں ہوں ان پر زکوٰۃ نہیں۔ ہاں اگریہی اشیاء یا اور چیزیں مال تجارت کے طور پر ہیں، تو مال تجارت کی تمام مالیت پر زکوٰۃ فرض ہے۔ زمین، پلاٹ، مکان، دکان پر کوئی زکوٰۃ نہیں خواہ بیچنے کیلئے ہوں خواہ رہائش کیلئے۔ خواہ کرائے کیلئے، ہاں ان کی آمدنی جب نصاب کو پہنچے، اس آمدنی پر زکوٰۃ ہے۔ یہی حال ہے۔ کارخانے وغیرہ کا کہ اس کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں۔ جو مصنوعات اس میں تیار ہوتی ہیں ان پر زکوٰۃ ہے۔ اس خام مال پر زکوٰۃ ہے۔ جس سے مصنوعات تیارہوتی ہیں۔ اس مشینری پر نہیں جس پر مال تیار ہوتا ہے۔
حکومتی ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد جو رقم بچی ہے اس پر زکوٰۃ ہے۔ سونا وچاندی خواہ زیورات کی صورت میں ہوں یا ڈلی وغیرہ کی صورت میں خواہ اس سے تجارت کریں، خواہ نہ کریں، جب بقدر نصاب ہوں، اور سال گذر جائے، ان پر زکوٰۃ فرض ہے۔ اگر مزروعہ زمین کی کل پیداوار پر اوپر مذکورہ طریق پر حکومت عشر لیتی ہے تو آپ بری الذمہ، اگر اس نے اس میں حد رکھی ہے اور اس سے کم میں نہیں لیتی تو آپ ساری پیداوار سے عشرادا کریں۔ یعنی جتنے حصے کا حکومت نے نہیں لیا، اس کا آپ ادا کریں جو حکومت نے شرعی نصاب کے مطابق لیا ہے وہ ادا ہوگیا۔
جواب : جس آدمی کی آمدنی پچاس ہزار روپے ہے۔ اس پر قرض بھی تقریباً اتنا ہی ہے، تو معلوم ہوا کہ اس کے پاس کچھ نہیں۔ لہٰذا زکوٰۃ اس پر فرض نہیں، قرض منہا کر کے جو رقم بچ جائے اگر وہ نصاب کو پہنچتی ہے تو سال گزرنے پر اس پر زکوٰۃ دینا فرض ہے۔ اگر قرض سے بچا ہی کچھ نہیں تو زکوٰۃ کس چیز پر؟
2۔ زمین کی کل پیداوار پر، ہر فصل پر، عشر ادا کرنا فرض ہے۔ اگر زمین بارانی ہے تو پیداوار کا دسواں حصہ 1/10 اگر نہری یا ٹیوب ویل سے سیراب ہوتی ہے تو نصف عشر یعنی بیسواں حصہ 1/20 فرض ہے۔ اس کے علاوہ زمین کی مالیت پریا مکان دکان وغیرہ کی مالیت پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔ (عامہ کتب فقہ)۔ واللہ اعلم ورسولہ۔
جواب : میٹر سے کم کپڑا بظاہر کسی مصرف کا نہیں۔ اس لئے بیکار ہے۔ اس سے ان کی زکوٰۃ ہرگزادا نہ ہوگی۔
قرآن کریم میں واضح ارشاد ہے۔
لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌO
(آل عمران : 3 / 92)
’’تم ہرگز نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک راہ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو۔ اور تم جو کچھ خرچ کرو، اللہ اس کو جانتا ہے‘‘۔
وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ
(البقرۃ : 2 / 272)
’’تم جو اچھی چیز خرچ کرو، تو تمہارا اپنا بھلا ہے‘‘۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌO
(البقرۃ : 2 / 267)
’’اے ایمان والو! اپنی عمدہ اور پاک کمائے ہوئے مالوں میں سے خرچ کرو! اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا، اور اس میں سے گھٹیا چیز خرچ کرنے کا ارادہ بھی نہ کرو، کہ تمہیں ملے تو نہ لو، جب تک اس میں آنکھیں بند نہ کرلو، اور جان رکھو کہ اللہ بے پرواہ سراہا گیا ہے‘‘۔
مالک کے ارشادات پڑھیں اور بار بار پڑھیں۔ ایسے کپڑے کے پیس اللہ کے نام پر دینے والے بھائی کو اللہ کے حضور توبہ کرنا چاہئے۔ اظہار ندامت کرنا چاہئے۔ اور متعلقہ ادارے سے بھی معذرت کرنا چاہئے۔ اور خوف خدا کے پیش نظر آئندہ محتاط رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ عمدہ مال دے۔ آپ اپنے اور اپنے عیال کے لئے اچھا لباس منتخب فرمائیں اور مالک کے نام پر گھٹیا اور بیکار مال دیکر اپنے دینی فرض سے سبکدوش ہونے کی سوچیں؟ اور دل کو جھوٹی تسلی دیکر مطمئن کریں۔ غلط بات ہے زکوٰۃ کی صورت میں یہ عبادت متعین شرح سے سال کے بعد فرض ہوتی ہے۔ اسے خوشدلی سے ادا کرنا چاہئے۔ ان پِیسوں کے دینے سے جو کسی کام نہ آئیں زکوٰۃ ہرگز ادا نہ ہوگی ان کی نہ قدر ہے نہ قیمت زکوٰۃ مال پر ہے بیکار چیز پر نہیں تاوان سمجھ کر بے دلی اور تنگدلی سے نہیں دینا چاہئے۔ زکوٰۃ وعشر تو فرض ہیں۔ نفلی صدقہ وخیرات بھی جب اس طرح دیا جائے قبول نہیں ہوتا۔ الٹا اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ دے اور انصاف کرنے کی توفیق دے، آمین۔ واللہ اعلم ورسولہ۔
جواب : ماڈل سکولز یا ایسے تعلیمی ادارے جہاں طلباء سے فیس لی جاتی ہے ان میں زکوٰۃ فنڈ جمع کرنا تاکہ نادار اور ضرورت مند طلبہ کی ضروریات پوری کی جائیں۔ بالکل درست بلکہ مناسب تر ہے تاکہ ان طلبہ کی بروقت امداد کی جائے اور وہ سکون و اطمینان سے علم حاصل کرسکیں۔ قرآن کریم میں مصارف زکوٰۃ آٹھ بیان ہوئے ہیں۔
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ.
(التوبه : 9 / 60)
’’زکوٰۃ تو صرف محتاجوں، مسکینوں اور جمع کرنے پر مقرر ملازموں اور جن کے دلوں کو اسلام کی طرف مانوس کرنا ہو، اور مملوکوں کی گردنیں چھوڑانے، اور قرض داروں اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کیلئے ہے‘‘۔
فقہائے کرام فرماتے ہیں۔
ان طالب العلم یجوزله اخذ الزکاة ولو غنیااذا فرغ نفسه لافادة العلم و استفادته لعجزه من الکسب والحاجة داعیهّ الی مالابد منه
(الدار المختار والرد المختار ص 240 ج 2 وغیرہ)
’’طالب علم خواہ امیر ہو زکوٰۃ لے سکتا ہے، جب اس نے اپنے آپ کو علم پڑھانے اور پڑھنے کیلئے وقف کررکھا ہے کہ وہ رزق کمانے سے عاجز ہے، اور ضروریات زندگی کے حاصل کرنے کی مجبوری اس کے جائز ہونے کا سبب ہے‘‘۔
لہٰذا آپ اپنے تعلیمی ادارے کی ضروریات بالخصوص نادار طلبہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زکوٰۃ وصول کرسکتے ہیں۔ تمام مذہبی اور دیگر رفاہی ادارے زکوٰۃ پر ہی چل رہے ہیں۔ آپ کے لئے بہتر ہوگا کہ زکوٰۃ فنڈ سے نادار طلبہ کے اخراجات پورے کریں۔ خواہ کتب وسٹیشنری ہو۔ خواہ فیس وخوراک وپوشاک اور دوا وغیرہ کی صورت میں ہو۔
جواب : 1۔ زکوٰۃ کی رقم سے کسی رفاہی ادارے کیلئے مشین وغیرہ خرید کردینا اسی طرح جائز ہے جس طرح کسی حاجت مند شخص کو انفرادی طور پر۔ یہ مشین یا مشینیں دراصل اس ادارے کی ملکیت ہوتی ہیں۔ چاہے استعمال کوئی بھی کرے۔ سید ہو یا سید زادی کچھ فرق نہیں پڑتا۔
جواب : بہن، بھائی، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی یا ان کی اولاد، اگر غریب ہیں اور حاجت مند ہیں۔ تو ان کو زکوٰۃ دینا دوہرا ثواب ہے۔ ایک صلہ رحمی کا دوسرے ادائیگی فرض کا ہاں اپنے اصول یعنی والدین، دادا، دادی، نانا، نانی اور ان سے اوپر والے اور اپنے فروع یعنی اولاد مثلاً بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی اور ان کی اولاد، کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ یونہی میاں بیوی ایک دوسرے کو عشر زکوٰۃ فطرانہ فدیہ مال کفارہ نہیں دے سکتے۔
جواب : 1۔ اگر یہ اولاد نابالغ ہے اور نادار ہے اور اس کے والدین مالدار صاحب نصاب ہیں تو اولاد کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں کیونکہ نابالغ اولاد کا نان نفقہ والدین کے ذمہ ہے اور وہ مالدار ہیں۔
2۔ اور اگرکسی کی اولاد بالغ ہے نادار ہے، والدین صاحب نصاب ہیں تو اس اولاد کو مال زکوٰۃ دیا جاسکتا ہے۔
3۔ اپنی اولاد بیمار ہو یا تندرست، چھوٹی ہو یا بڑی اس کو زکوٰۃ وغیرہ دینا جائز نہیں۔
4۔ جی نہیں۔ والدین، اولاد یا میاں بیوی، ایک دوسرے کو زکوٰۃ وعشر فطرانہ، فدیہ کفارہ کی رقم یا جنس نہیں دے سکتے۔ والدین میں ماں، باپ، دادی، دادا، اوپر تک۔ نانا، نانی اوپر تک۔ اولاد۔ میں بیٹا، بیٹی۔ اور ان کی اولاد نیچے تک سب شامل ہیں۔ باقی رشتہ داروں کو دے سکتے ہیں۔ بلکہ غریب عزیزوں۔ رشتہ داروں کوصدقہ، خیرات، زکوٰۃ وغیرہ دینا بہ نسبت دوسرے غرباء کے، افضل ہے کہ فرض بھی ادا ہوجاتا ہے اور صلہ رہمی بھی۔ واللہ اعلم ورسولہ۔
جواب : 1۔ جو مرد یا عورت رہنے کیلئے مکان، پہننے کیلئے لباس برتنے کیلئے برتن، فرنیچر، سفر کیلئے سواری۔ بیماری کے لئے علاج، اہل وعیال کے لئے کھانا پینا تعلیم، نلکا، بجلی کے اخراجات نکال کر صاحب نصاب ہے۔ عاقل وبالغ ہے مال پر سال گزر گیا ہے تو اس مال پر ڈھائی فیصد زکوٰۃ فرض ہے۔ اور جس شخص پر زکوٰۃ فرض ہے زکوٰۃ لینے کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے؟ رہی یہ بات کہ دیہاتی لوگ اس سونے کو بچیوں کی یا بچوں کی امانت سمجھتے ہیں۔ اس سے زکوٰۃ دینے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
2۔ بہن، بھائی، ماموں، چچا، سالی، سانڈو یعنی برادران لاء۔ وغیرہ یا ان کی اولاد جو بھی غریب ہے ضرورت مند ہے آپ اس پر زکوٰۃ کا مال خرچ کر سکتے ہیں۔
3۔ سالی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اس کی ٹانگ ٹوٹ چکی ہے وغیرہ وغیرہ آپ زکوٰۃ فنڈ سے سالی، سالہ وغیرہ کی مدد کرسکتے ہیں بلکہ آپ ضرورایسا کریں۔ چونکہ اس کے پاس 15۔ 16 تولہ سونا موجود ہے لہٰذاوہ زکوٰۃ فنڈ سے اعانت نہیں لے سکتی لیکن اگر اس کا خاوند یا اولاد ہے اور یہ مستحقین زکوٰۃ ہیں تو وہ زکوٰۃ لے سکتے ہیں۔ کیونکہ سالی کا سونا اسی کا ہے۔ اس کی اولاد یا خاوندکا نہیں لہٰذا وہ اگر ضرورت مند ہیں اور صاحب نصاب نہیں تو آپ ان کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔ آپ سالی کی جو بھی مدد کرنا چاہیں وہ بجائے اسے دینے کے لئے اس طرح دیدیں۔ امید ہے کہ آپ کے تمام سوالات کے جواب ہوگئے ہیں۔ واللہ اعلم ورسولہ۔
جواب : زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے تملیک شرط ہے۔ یعنی کسی مستحق کو مالک بنانا۔ حکومت اگر مستحقین میں تقسیم کرنے کے لئے زکوٰۃ وصول کرے تو اسے دینا جائز ہے۔ جیسا کہ ابتدائے اسلام میں ہوتاتھا کہ زکوٰۃ، عشر اور فطرانہ حکومت اسلامی خود وصول کرکے مستحقین کی کفالت کرتی تھی۔ یہی بہتر اسلامی طریقہ ہے۔ آج کل حکومت زکوٰۃ تو لیتی ہے مگر وہ ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی، جو اس کے ساتھ عائد ہوتی ہیں۔ بہرحال زکوٰۃوفطرانہ کے مستحق غرباء ومساکین، مسافر بیوگان اوریتا میٰ ہیں۔ ان کو ترجیح دیں۔ باقی گنجائش ہوتو لائبریری و مدرسہ پر بھی یہ رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔
جواب : رفاہی اداروں کیلئے زکوٰۃ خرچ کی جاسکتی ہے مثلاً محتاج گھر، یتیم خانے، دینی مدارس، سکولز، کالجز، جامعات، فنی ٹریننگ کے سینٹرز، دیگر تعلیمی ادارے، ہسپتال میں غریب مریضوں کی علاج وخوراک پریہ سب رفاہی ادارے ہیں۔ البتہ سڑکوں کی تعمیر، نالیوں کی مرمت وغیرہ پر خرچ نہیں کی جاسکتی۔ زکوٰۃ کے علاوہ بھی ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں، باقی کام ان سے کریں۔ واللہ اعلم ورسولہ۔
جواب : آپ زکوٰۃ یا دیگر صدقات، جو بھی دیں آپ کے بہن، بھائی یا ان کی غریب ومستحق اولاد اس کی زیادہ حقدار ہے۔ لہٰذا آپ بلا شبہ اپنی بھتیجی کی ضروریات پر مال زکوٰۃ صرف کر سکتے ہیں۔
سوال : جیل خانہ جات میں مختلف جرائم میں سزا پانے والے قیدیوں کو جیل کی سزا کے علاوہ جرمانہ بھی ہوتا ہے۔ جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں ان کو اصل سزا قید کے علاوہ مزید قید کا ٹنی پڑتی ہے۔ عموماً نہایت غریب، نادار اور مفلس خاندانوں کے افراد جرمانہ ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے اصل قید کے بعد مقید ہی رہتے ہیں اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے رائے طلب کی ہے کہ کیا ایسے لوگوں کو زکوٰۃ یا بیت المال سے رقم دے کر قید سے رہائی دلوائی جاسکتی ہے۔
جواب : اگر قیدی صاحب حیثیت ہے، جیسے بڑے بڑے مالدار، سرمایہ دار، جاگیردار، تاجر یا ملازم، وہ تو جرمانہ اپنے گھر سے دیدیتے ہیں اور جان چھڑا لیتے ہیں، مگر غریب ونادار قیدی جرمانہ ادا نہیں کرسکتے اور مزید عرصہ قید بھگتتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مال زکوٰۃ دیکر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ فقیر، مسکین اور فی الرقاب، تینوں مصارف میں شامل ہیں۔ گوفی الرقاب نزول قرآن کے وقت لونڈی غلام کے معنوں میں استعمال ہو مگر آج کے دور میں مفلس اسیروں کو بھی اس عام صنف میں شامل کرلیا جائے تو میرے نزدیک اس کی گنجائش موجود ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ بیت المال یا زکوٰۃ فنڈ سے نادار غریب لاوارث قسم کے قیدی اگر جرمانہ اداکرکے رہائی پاسکتے ہیں تو ان کو زکوٰۃ یا بیت المال سے جرمانہ کی رقم دے کر رہائی دلائی جاسکتی ہے۔ واللہ اعلم ورسولہ۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved